قسط نمبر 01 | قسط نمبر 02 |قسط نمبر 03 |قسط نمبر 04 |قسط نمبر 05 |قسط نمبر 06 | قسط نمبر 07 |قسط نمبر 08
کیا وہ زمانہ تھا ،کیا وہ مسلمان اور کیا ان کا ایمان تھا ، آج کے پیمانوں سے ناپو تو لگتا ہے کہ حساب غلط ہو گیا ہے، اور یہ جو ہم اسلامی فتوحات کی تاریخی کہانیاں پڑھتے ہیں یہ افسانے ہیں۔یہ تو انسانی فطرت کے مظاہر ہیں جو قدرت کے اٹل اصولوں کے تحت ظہور پذیر ہوتے ہیں اور یہ عمل اور ردعمل کا فلسفہ ہے کہ ردعمل عمل کے مطابق ہی ہوتا ہے ۔انسان غلط سوچوں میں پڑجائے تو دماغ کا کمپوٹر جو جواب دیتا ہے وہ غلط ہی ہوتا ہے مسلمان ایمان سے دستبردار ہوجائے تو اس کی نگاہ میں کل کی حقیقت آج کا افسانہ بن جاتی ہے۔ وہ بھی مسلمان ہی تھے جو ایمان کو ہی اپنی متاع عزیز سمجھتے تھے اور ان کی نگاہوں میں اپنی جانوں کی کوئی اہمیت تھی ہی نہیں وہ ایمان کی طاقت ہی تھی کہ ان مسلمانوں نے اس دور کے دیوہیکل جنگی طاقتوں کو افسانہ بنا ڈالا تھا جیسے ان کی حقیقت تھی ہی نہیں۔یہ فارس ایران اور روم کی طاقتیں تھیں جو آپس میں ٹکراتی تھیں تو یوں لگتا تھا جیسے زمین وآسمان ہل رہے ہوں۔ کسریٰ (ایران) یعنی بادشاہ وقت کو لوگ خدا کا بیٹا مانتے تھے، جنگی طاقت ہو اور قدموں میں دنیا کا خزانہ پڑا ہوا ہو تو انسان اپنے آپ کو فرعونوں کی طرف خدا بھی سمجھ لیتا ہے ،کسریٰ تو اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ۔خدا کے اور خدا کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے شیدائی جب پیغام حق لے کر نکلے تو خدا کا بیٹا یزدگرد اپنے دارالحکومت مدائن تمام تر خزانے سمیت مسلمانوں کے قدموں میں پھینک کر بھاگ گیا یہ ایران کا آخری کسریٰ تھا اس کی پوری سلطنت پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی شہنشاہیت کا خاتمہ ہو گیا۔ہم فتح مصر کی جو داستان سنارہے ہیں اس کے ساتھ یزدگرد کے فرار اور انجام کا کوئی تعلق تو نہیں لیکن ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلام کی اصل روح پیش کرنے کے لئے یہ واقعہ مختصرا بیان کردیا جائے۔
یزدگرد ایران مجاہدین کے حوالے کرکے ترکستان جا پناہ گزین ہوا اور اس امید کو دل میں زندہ رکھا کہ ایک نہ ایک دن ایران میں مسلمانوں میں بغاوت کرانے میں کامیاب ہو جائے گا اور اس موقع پر وہ ایران جا پہنچے گا اور اس کی سلطنت اسے واپس مل جائے گی اور کسی ایک بھی مسلمان کو وہاں سے زندہ نہیں نکلنے دے گا۔برسوں بعد اسے یہ موقع مل گیا اس وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے خراسان میں بغاوت ہو گئی یزدگرد نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ترکستان سے مرو جا پہنچا اس نے مختلف سرداروں سے رابطہ کیا اور بغاوت کی آگ پر تیل چھڑکنے کی بہت کوشش کی لیکن مسلمانوں نے جلد ہی بغاوت پر قابو پالیا۔یزدگرد نے کچھ لوگ اپنے گرد اکٹھا کر لیے تھے ۔وہ سب بھاگ نکلے یزدگرد مجبور ہو گیا کہ جہاں سے آیا تھا وہی بھاگ جائے لیکن اب اس کے لئے بھاگنا بھی آسان نہیں رہا تھا اس کے اپنے ایرانی اہلکار مسلمانوں کے جاسوس نکلے، سپہ سالار نے حکم دیا کہ یزدگرد کا سراغ لگایئں اور اسے گرفتار کر لیں۔بھگوڑا سابق کسریٰ روپوش ہوتا پھر رہا تھا اور مجاہدین اس کے گرد گھیرا تنگ کر رہے تھے آخر ایک روز وہ دریا کے کنارے ایک پن چکی کے کمرے میں جا چھپا چکی والے نے نشاندہی کردی اور اسے ڈھونڈنے والے وہاں جا پہنچے وہ عرب کے مسلمان یعنی مجاہدین نہیں تھے بلکہ خراسان کے باشندے تھے انہوں نے مسلمانوں کے سپہ سالار کا یہ حکم نظر انداز کردیا کہ یزدگرد کو گرفتار کرکے لایا جائے اس کے بجائے انہوں نے یزدگرد کو قتل کرکے لاش دریا میں پھینک دی۔تاریخ میں ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ چکی والا یزگرد کو جانتا تو نہیں تھا لیکن اس کے شاہانہ لباس سے اور پھر چھپنے کے انداز سے یقین ہو گیا کہ یہ یزدگرد ہی ہوسکتا ہے جس کی گرفتاری کا اعلان ہوچکا ہے، چکی والے نے اپنا کمرہ باہر سے بند کر دیا اور مرو کے حاکم کے پاس جا پہنچا اسے بتایا کہ یزدگرد اس کے ہاں چپا ہوا ہے، مرو کے حاکم نے اپنے ایک سالار کو حکم دیا کہ یزدگرد کا سر کاٹ کر اس کے پاس لایا جائے چکی والا یہ حکم سن کر دوڑا گیا اور خود ہی یزدگرد کا سر کاٹ ڈالا اور جب سالار آیا تو سر اس کے حوالے کر دیا اور لاش دریا میں پھینک دی۔تاریخ میں یہ اختلاف موجود ہے کہ یزدگرد کو کس نے کس طرح قتل کیا لیکن اس روایت پر تمام مورخ متفق ہیں کہ یزدگرد کو چکی والے کمرے میں قتل کیا گیا اور اس کی لاش دریا میں پھینک دی گئی تھی۔
کسریٰ ایران کی آتش پرست سلطنت یوں تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو گئی، اور دوسری طرف قیصر روم جو جنگی طاقت اور مال و دولت کے لحاظ سے یقینا دیوہیکل تھا پناہ ڈھونڈ رہا تھا اسے شام سے جس طرح بے دخل کیا گیا تھا وہ سنایا جاچکا ہے، حلب ،شام کا آخری قلعہ تھا وہ بھی مجاہدین نے فتح کر لیا تو قیصر روم شاہ ہرقل کے ساتھ وہی بات بن گئی نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔شام تو قلعوں کا ملک تھا اور بعض قلعے اس قدر مضبوط تھے کہ انھیں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا لیکن کوئی بھی قلعہ ہرقل کو پناہ نہ دے سکا، اس کی فوج تو لڑتی اور پسپا ہوتی چلی جا رہی تھی اور جب آدھا شام مجاہدین نے فتح کر لیا تو ہرقل نے اپنی فوج کو مجاہدین کے رحم و کرم پر چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر لی اسے یہ خطرہ صاف نظر آنے لگا تھا کہ وہ گرفتار ہو جائے گا ، وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔آخر اسے انطاکیہ ایک محفوظ مقام نظر آیا اور وہاں جا پناہ لی، لیکن سپہ سالار ابوعبیدہ وہاں بھی جا پہنچیں اور ہرقل کی محصور فوج بھاگ نکلی ، ہرقل وہاں سے بھی زندہ و سلامت نکل گیا اور اسے روہاء کا مقام نظر آیا یہاں کا قلعہ خاصا مضبوط تھا لیکن مجاہدین اسلام وہاں بھی جا گرجے اور ہرقل نکل بھاگا۔حلب ایک آخری شامی قلعہ بند شہر رہ گیا تھا، مجاہدین نے وہ بھی لے لیا لیکن ہرقل حلب سے دور تھا اور اس نے اور دور بھاگ جانا بہتر سمجھا ،اس نے قسطنطنیہ جا دم لیا۔ قارئین کرام کی معلومات کے لیے یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ ترکی کا ایک شہر تھا اور ہرقل کے زمانے میں ترکی پر رومیوں کی حکومت تھی۔ قسطنطنیہ کا ایک نام بزنطیہ تھا یہ نام اس وقت رکھا گیا تھا جب وہاں بازنطینی حکومت تھی ۔ ہرقل کے ایک بیٹے کا ذکر اس داستان میں آیا ہے جس کا نام قسطنطین تھا اس بیٹے کے ساتھ ہرقل کو اتنا پیار تھا کہ اس نے بزنطیہ کا نام تبدیل کرکے قسطنطنیہ رکھ دیا تھا ۔ موجودہ صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد اتاترک مصطفی کمال پاشا کی حکومت بنی تو قسطنطنیہ کا نام بدل کر استنبول رکھ دیا گیا آج یہ استنبول ترکی کا ایک بڑا شہر ہے۔ نقشے پر انطاکیہ دیکھیں اور پھر استنبول دیکھیں۔ ہرقل انطاکیہ سے بھاگ کر استنبول پہنچا ۔ فاصلہ تقریبا 900 کلومیٹر ہے۔
اس وقت کی دوسری بڑی جنگی طاقت جسے ہم نے دیوہیکل کہا ہے شام سے ہمیشہ کے لئے نکل بھاگی ابھی سلطنت قائم تھی، ترکی اور مصر کی سلطنت میں شامل تھے اور قیصر روم کے پنجے اترے ہوئے تھے، پھر بھی یوں کہا جاسکتا ہے کہ بڑے ہی زہریلے سانپ کی کمر توڑ دی گئی تھی اور اب اس کا دم خم ختم ہو گیا تھا یہ تو پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ہرقل نے مصر سے جو کمک اپنے بیٹے قسطنطین کی زیرقیادت منگوائی تھی وہ آدھی کے قریب کٹ مری اور باقی واپس مصر کو بھاگ گئی تھی۔یہاں ایک اور وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پہلے ذکر آیا ہے کہ ہرقل نے بزنطیہ خالی کر دینے کا حکم دیا تھا اور خود پہلے ہی نکل گیا تھا، لیکن تاریخ کے اگلے باب حتم و یقین کے ساتھ اس غلط فہمی کی تصحیح کرتے ہیں کہ اس نے بازنطیہ استنبول جاپناہ لی تھی اور انطاکیہ اور حلب کے فوجیوں اور شہریوں کو کہا تھا کہ وہ ان شہروں سے نکل جائیں اور اپنی حفاظت اور اپنے مسائل و امور کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
ہرقل خوش قسمت تھا کہ مجاہدین اس کے تعقب میں نہ چلے گئے وہ فتح پر فتح حاصل کرتے جا رہے تھے اور اسی جوش و خروش میں شام کی سرحد سے آگے نکل جانے کا بھی عزم کیے ہوئے تھے لیکن امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ شام کا آخری قلعہ بھی فتح کرلیا گیا گیا ہے اور رومی شام سے نکل گئے ہیں تو امیر المومنین نے پہلا حکم یہ دیا کہ مزید پیش قدمی نہ کی جائے اور جو علاقے فتح کرلئے گئے ہیں ان کے انتظامات اور انکا دفاع مستحکم کیا جائے ۔ ایسا ہو یا ایسی ہدایت دینے کی ضرورت نہیں تھی کہ مفتوح آبادیوں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور کسی کو پریشان نہ کیا جائے یہ تو مسلمانوں کا کردار تھا کہ وہ مفتوح بستیوں کے لوگوں کو مفتوح نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان لوگوں کو اپنی پناہ میں لے لیتے اور ان کی تمام ضروریات اپنے ذمے لے لیا کرتے تھے۔پیش قدمی روک دینے کا فیصلہ دانشمندانہ تھا اور یہ حضرت عمر کی جنگی فہم و فراست کا کرشمہ تھا ، یہ تو انہیں معلوم تھا کہ مجاہدین فتح کی مسرتوں سے سرشار ہیں ان میں جذبہ جہاد بھی اور شوق شہادت بھی ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی احساس تھا کہ وہ آخر گوشت پوست کے انسان ہیں لوہے کے بنے ہوئے نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جسم جواب دے جائیں اور شام سے بھاگ جانے والے رومی کہیں قدم جماکر پلٹ آیا اور شکست کو فتح میں بدل لے۔
مجاہدین کی خوشیوں کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مجاہدین نے کس طرح خوشیاں منائیں ہونگی، سالاروں نے شکرانے کے نوافل باجماعت پڑھائیں ہونگے۔ سپہ سالار ابوعبیدہ کو حلب کی فتح کی اطلاع ملی تو وہ حمص سے فورا وہاں پہنچے۔تاریخ سے یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ سپہ سالار ابوعبیدہ نے کونسی نماز کی امامت کی تھی یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نماز باجماعت پڑھائی اور اس کے بعد مجاہدین سے خطاب کیا ان کا یہ مختصر سا خطاب تاریخ کے دامن میں لفظ بہ لفظ موجود ہے۔ انہوں نے شام کی فتح کی مبارکباد کے بعد کہا۔اللہ نے قرآن میں جس مدد کا وعدہ فرمایا ہے اس مدد کے صدقے ہم نے اپنا یہ فرض ادا کر دیا ہے کہ باطل کی ایک اور طاقت کو کچل کر اسلامی سلطنت کی سرحد اور وسیع کردی ہے ۔ اسلامی سلطنت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، ہم اپنی بادشاہی نہیں بلکہ اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں ، یہ ساری زمین اللہ کی ہے ،روئے زمین پر صرف اللہ کا حکم چلے گا ،شہیدوں نے اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی کی خاطر جانیں قربان کی ہیں، شہیدوں کو تو اللہ نے اپنے ہاں پناہ دے دی ہے، قربانی ان کی دیکھیں جو بازو یا ٹانگ یا بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور زندہ ہیں اور باقی عمر معذوری میں گزاریں گے۔ لیکن وہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے اللہ نے ان کے بال بچوں کا اوران کے بوڑھے ماں باپ کا رزق اپنے ذمے لے رکھا ہے ۔ شہیدوں اور معذور ہوجانے والوں کی بیوی بچوں اور لواحقین کو یہ زمین دی گئی جس زمین کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ اپنے آپ کو اس دنیا کی نظر سے نہ دیکھو تمہارا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ ہے، تم ہر روز قرآن پڑھتے ہو کیا تم نے پڑھا یا سنا نہیں کہ اللہ نے تمہیں بہترین امت کہا ہے۔ اور تمہیں اعزاز یہ بخشا ہے ، تو ان کی بھلائی کا کام کرتے ہو اور لوگوں کو برائی سے بچاتے ہو اس سے بڑی بھلائی اور کیا ہو گی کہ لوگوں کو ظالم بادشاہوں سے نجات دلائی جائے، اور انھیں باطل کی زنجیروں سے آزاد کر کے سیدھے راستے پر ڈالا جائے، اپنے آپ کو بے یار و مددگار نہ سمجھنا اللہ تمہارے ساتھ ہے۔
ہم اس داستان کو کچھ دن پیچھے اس مقام پر لے جاتے ہیں جب حلب فتح ہو گیا تھا، مجاہدین شہر میں داخل ہوئے تھے اور داخل ہورہے تھے ،اور شہر کے ارد گرد قبائلی عیسائیوں کی لاشیں دور دور تک بکھری ہوئی تھی ، شہر کی عورتیں اور ان کے بچے شہر سے نکل گئے تھے اور اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کی آہ و بکا سے دل دہل رہے تھے۔ ایک عورت بڑی بلند ہی چیخ نما آواز میں کہتی پھر رہی تھی کہ ہمارے آدمیوں نے آخر کس کی لڑائی لڑی ہے۔۔۔ اور کس کی خاطر کٹ مرے ہیں۔دونوں رومی جرنیلوں نے ہمارے آدمیوں کو گمراہ کیا تھا ۔۔۔یہ بھی ایک عورت کی آواز تھی جو کئی عورتوں کی آواز بن گئی ،ایک بڑی خوبصورت رومن آئی تھی۔۔۔ ایک اور آواز سنائی دی، وہ عورتوں کو بھی لڑانے کے لئے تیار کر رہی تھی ،وہ ہے کہاں ؟کسی عورت نے پوچھا ۔۔۔زندہ نظر آجائے تو اسے بھی اسی طرح کاٹ دو جس طرح ہمارے آدمی کٹ گئے ہیں۔ یہ ایک اور عورت کی جلی کٹی آواز تھی۔یہ رونا اب عورتوں کے لئے ہی تھا جن کے آدمی مارے گئے یا اتنے زخمی ہوگئے تھے کہ ان کے زندہ رہنے کی امید کچھ زیادہ نہیں تھی۔ بچے گلیوں میں روتے پھر رہے تھے عورتیں ہرقل کی بیوی لیزا کو کوس رہی تھیں۔اسے عورتیں انتھونیس کی بیوی سمجھتی رہی تھیں، لیزا کو اس لڑائی کے ساتھ ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی ، یہ پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ اس نے اپنے خاوند شاہ ہرقل کو دھوکا دے کر رومی فوج کے جرنیل انتھونیس کے ساتھ قابل اعتراض مراسم قائم کر لیے تھے، اور اس کا ایک بیٹا پیدا کیا تھا، جس کا نام یوکلس تھا ۔حلب میں آکر لیزا نے انتھونیس سے بے وفائی کی، اور روم کے فوجی افسر روتاس کے ساتھ ویسے ہی نازیبا تعلقات قائم کرلئے تھے، اور اس گناہ کی سزا اسے یوں ملی کہ ان دونوں نے تلواروں کے جو وار ایک دوسرے پر کئے تھے وہ لیزا پر پڑے اور دونوں تلوار اس کے جسم کے پار ہو گئی تھی ۔لیزا یہی کچھ تھی اور یہی اس کا کردار تھا، لیکن عیسائی قبیلوں کی عورتیں اس کے پاس آجاتی تو وہ انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی اور کہتی تھی کہ اپنے آدمیوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کریں، اور خود بھی تیار ہو جائیں لڑائی کا جو نتیجہ نکلا وہ ان عورتوں نے دیکھ لیا اور اب وہ اپنے آدمیوں کا ماتم کر رہی تھیں۔ انہیں اب محسوس ہونے لگا کہ ان کے آدمیوں نے ایک بے مقصد لڑائی لڑی، اور وہ جان رہے ہیں ، اس سے وہ دھوکہ کہہ رہی تھیں، جو انہیں لیزا نے دیا تھا۔ کسی نے بتایا ہے اس کا جرنیل خاوند مارا گیا ہے ۔۔۔ایک عورت نے ہر کسی کو بلند آواز سے بتاتی پھر رہی تھی ۔۔۔دوسرا رومی جرنیل بھی سنا ہے مارا گیا ہے اس کے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں۔ انتھونیس کی بیوی کو ڈھونڈو کہاں ہے۔۔۔ ایک معمر عورت نے کہا۔۔۔ مل جائے تو اسے خنجروں سے چھلنی کر دو۔عورتیں شہر میں ایک جگہ اکٹھا ہوگئی تھیں کسی نے انہیں بتایا کہ لیزا اسی مکان میں مری پڑی ہے، جس میں رومی فوج کا دوسرا جرنیل یعنی روتاس رہتا تھا ۔ یہ سب عورتیں اس طرف دوڑ پڑیں مکان کا دروازہ کھلا تھا اندر جاکر سب نے دیکھا کہ صحن میں لیزا خون میں نہائی پڑھی تھی ، عورتوں نے اپنے اپنے الفاظ اور انداز میں نفرت اور حقارت کا اظہار کیا کسی نے کہا کہ اس لاش گھسیٹ کر باہر پھینک دو، ایک بولی کی لاش یہی پڑے رہنے دو اور مکان بند کر دو اسے یہی کیڑے مکوڑے کھا جائیں گے۔ زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر شہر کے اندر لایا جارہا تھا ان کے لیے فوجی بارکیں موجود تھیں، اور کچھ لوگ اپنے زخمی عزیزوں کو اپنے گھروں کو لے جا رہے تھے، دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہوگئی تھی زخمی عیسائی، تھا یا مسلمان، مسلمانوں نے مرہم پٹی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ مجاہدین کی عورتیں اسی کام میں مصروف تھیں۔ شارینا بھی یہی کام کرتی پھر رہی تھی وہ ایک گلی میں سے گزری تو اس کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ اس مکان کے اندر رومی جرنیل کی بیوی کی لاش پڑی ہے ۔شارینا مکان میں چلی گئی وہاں اب دو تین عورتیں رہ گئی تھیں۔ شارینا نے دیکھا تو حیران رہ گئی وہ تو لیزا کی لاش تھی، لیزا کو وہ بہت ہی اچھی طرح جانتی تھی، لیزا کے سامنے ہی وہ ہرقل کے محل میں جنی پلی اور جوان ہوئی تھی، اس کی اپنی ماں بھی ہرقل کی بیوی تھی شارینا ایک تو یہ دیکھ کر حیرت زیادہ ہوئی کہ لیزا یہاں تک کس طرح پہنچی، حیرت کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے قتل کس نے کیا مسلمان تو عورت پر ہاتھ اٹھانا گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔ شارینا نے جب یہ سنا تھا کہ دو رومی جرنیل بھی مارے گئے ہیں تو اس نے دونوں کی لاشیں دیکھی تھی ،وہ چونکہ شاہی خاندان کی لڑکی تھی اس لئے اپنی فوج کے تمام جرنیلوں کو جانتی تھی انتھونیس کی لاش دیکھ کر بھی وہ حیران ہوئی تھی، روتاس کو تو وہ اور ہی اچھی طرح جانتی تھی، روتاس کو حمص میں سپہ سالار ابوعبیدہ کے حکم سے نظر بند رکھا گیا اور شارینا اسے ملتی ملاتی رہتی تھی۔ جب اس نے لیزا کی لاش دیکھی تو اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ یہ عورت یہاں تک کس طرح اور کیوں آئی؟ ۔۔۔انتھونیس اور روتاس کے متعلق تو اس نے خود ہی سوچ لیا کہ حلب کے عیسائیوں کو ان دونوں نے ہی مسلمانوں کے خلاف لڑایا ہے اور انتھونیس کو اس مقصد کے لئے ہرقل نے بھیجا ہوگا، لیکن ہرقل نے اپنی ایک بیوی کو کیوں بھیج دیا ۔وہ کچھ بھی نہ سمجھ سکی، جو دو تین عورتیں لاش کے پاس کھڑی تھی وہ بھی باہر چلی گئیں اور شارینا حیران و پریشان اکیلی وہاں کھڑی لاش کو دیکھتی رہی۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ شارینا کو ایک نسوانی آواز سنائی دی۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا سب جھوٹ بولتے ہیں۔ شارینا نے چونک کر دیکھا یہ وہی نوجوان اور خوبصورت لڑکی تھی جو اسے یوکلس کی لاش پر ملی تھی، یوکلس اسے روزی کے نام سے پکارا تھا ، اور اس کے فوراً بعد وہ مر گیا تھا ۔
شارینا اس لڑکی کو یوکلس کے پاس بیٹھے اور چیخ چیخ کر روتے چھوڑ آئی تھی۔ اس سے اتنا بھی نہ پوچھا کہ وہ ہے کون؟ اب شاید روزی کو کسی نے بتایا ہوگا کہ یوکلس کی ماں کی لاش فلاں مکان میں پڑی ہے ،وہ دوڑی آئی اور لیزا کی لاش کو اس طرح جیھڑنے لگی جیسے اسے نیند سے جگا رہی ہو ، تم نہیں مر سکتی ماں روزی نے لیزا کی لاش کے سر کو ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔تم کہتی تھی کہ مجھے یوکلس کی دلہن بنائو گئی، آٹھو!،،،یوکلس کے پاس چلو ، وہ تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ شارینا کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ جان گئی کہ یہ لڑکی یوکلس کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکی، اور اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔ شارینا نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھایا ،روزی !۔۔۔شارینا نے کہا ۔۔۔میں اسے اٹھا لو گی یہ گہری نیند سوئی ہوئی ہے یہ تمہاری کیا لگتی ہے؟ یہ یوکلس کی ماں ہے۔۔۔ روزی نے جواب دیا یہ میری کچھ بھی نہیں لگتی لیکن میرا سب کچھ یہی ہے مجھے یوکلس کے ساتھ دیکھ کر یہ بہت خوش ہوتی ہے اس نے کہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کے لیے تم جیسی ہی دلہن کی تلاش میں تھی۔ شارینا کو اس لڑکی پر ترس آنے لگا اور وہ سوچنے لگی کہ اسے کس طرح حقیقت میں لایے کہ یہ قبول کرلے کے یوکلس بھی مر چکا ہے، اور یوکلس کی ماں بھی مر گئی ہے۔ اور یہ دونوں اب کبھی اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن روزی تصوراتی دنیا میں کھو گئی تھی۔ شارینا اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی لیکن یہ نہ کہا کہ یہ عورت جو صحن میں پڑی ہے زندہ نہیں۔اتنے میں ایک اور عورت اس مکان میں آ گئی اور اس لڑکی کو اپنے بازوؤں میں لے لیا یہ عورت عمر اور شکل و صورت سے روزی کی ماں معلوم ہوتی تھی۔ وہ روزی سے کہنے لگی کہ وہ گھر چلے، لیکن روزی اس طرح جواب دے رہی تھی جیسے لیزا زندہ تھی، تم یہاں سے چلے جاؤ ماں! ۔۔۔روزی نے کہا۔۔۔ میں یوکلس کو بلانے جارہی ہوں وہ آ کر اپنی ماں کو اٹھائے گا۔ شارینا نے روزی کی ماں کو اشارہ کیا کہ وہ روزی کو ابھی آزاد چھوڑدے۔شارینا روزی کی ماں کو ایک کمرے میں لے گی اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ شارینا نے یہ تو سمجھ گئی تھی کہ یوکلس اور روزی ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ لیکن شارینا کچھ اور بھی سننا چاہتی تھی ،وہ روزی کی ماں نے اسے سنا دیا روزی کی ماں نے اس کے اس خیال کی تائید کردی کے یوکلس اور روزی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے۔ یوکلس نے جو کچھ بھی روزی کو بتایا تھا وہ روزی اپنی ماں کو بتاتی رہتی تھی، یوں کہ روزی کو بتایا تھا کہ اس کا باپ شاہ ہرقل اور اسکا ایک بیٹا قسطنطین اسے قتل کرنا چاہتے تھے کیونکہ ہرقل قسطنطین کو اپنا جانشین مقرر کر رہا تھا ، یوکلس نے روزی کو بتایا تھا کہ کس طرح انتھونیس اسے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر فرار ہوا تھا ۔یوکلس نے روزی کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ہرقل کا نہیں بلکہ انتھونیس کا بیٹا ہے ۔روزی نے یہ ساری باتیں اپنی ماں کو بتا دی تھی اور اب ماں یہ ساری باتیں شارینا کو بتا رہی تھی۔ شارینا یہ سن کر ذرا سی بھی حیران نہ ہوئی کہ یوکلس کی ماں کا خاوند ہرقل تھا لیکن اس کا باپ ایک جرنیل تھا یہ تو بادشاہوں کے یہاں ایک معمول تھا ۔ روزی کی ماں نے شارینا کو یہ بھی بتایا کہ انتھونیس مسلمانوں کے خلاف لڑ کر اپنی سلطنت بنانا چاہتا تھا ،اسے وہ یسوع مسیح کی سلطنت کہتا تھا۔ روزی کی ماں اور شارینا کمرے میں باتیں کہہ سن رہی تھیں کہ باہر سے روزی کی چیخ نما آواز سنائی دی۔ یوکلس اور اس کی ماں کو ہرقل نے قتل کروایا ہے ۔۔۔روزی چلا چلا کر کہہ رہی تھی۔۔۔ میں ہرقل کو قتل کرنے جا رہی ہوں۔ روزی کے دوڑ کے قدموں کی آہٹ سنائی دی، اور وہ مکان سے نکل گئی ۔روزی کی ماں اس کے پیچھے دوڑتی نکل گئی، اور شارینا دل پر رنج و غم کا بوجھ لئے کمرے سے نکلی، لیزا کی لاش کو دیکھا اور مکان سے نکل گئی۔ باہر جاکر اس نے دیکھا کہ روزی شہر کے صدر دروازے کی طرف دوڑی جا رہی تھی اور اس کی ماں چلاتی جا رہی تھی ،اسے پکڑنا، اسے روکنا ، وہاں صورتحال ایسی بنی ہوئی تھی کہ کوئی بھی ماں بیٹی کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا ، وہاں تو یہ حال بنا ہوا تھا کہ کچھ لوگ لاشیں اٹھا کر لا رہے تھے، اور بعض لہولہان زخمیوں کو سہارا دے کر ان کے گھروں کو لے جا رہے تھے، فضا میں موت کی بو رچی بسی ہوئی تھی۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تو حکم دے دیا تھا کہ شام کی سرحد تک ہی محدود رہا جائے اور مزید پیش قدمی نہ کی جائے ،ابوعبیدہ اور خالد بن ولید جیسے جوشیلے اور تاریخ ساز سپہ سالاروں نے بھی امیر المومنین کا یہ حکم دانشمندانہ اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق سمجھا تھا ،انہیں احساس تھا کہ مفتوحہ علاقے وسیع و عریض ہیں اور ان کے نظم و نسق کو رواں اور پُر اثر کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ فتح کرتے چلے جاو آگے بڑھتے جاؤ اور مفتوحہ لوگوں کو فراموش کرتے جاؤ، وہ باغی بھی ہو سکتے ہیں اور ایک دوسرے کو لوٹنے بھی لگتے ہیں۔تمام سالار امیرالمومنین کے حکم کو پسند کر رہے تھے۔ لیکن ایک سالار ایسا تھا جس کے خون کا ابال ٹھنڈا ہو ہی نہیں رہا تھا، یہ تھے سالار عمروبن عاص ،شام کی فتح کے جشن میں تو وہ دل و جان سے شامل تھے شامل کیوں نہ ہوتے انہوں نے دن رات ایک کرکے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ فتح حاصل کی تھی لیکن وہاں بھی مطمئن نہیں تھے۔جس وقت حلب میں سپہ سالار ابوعبیدہ پہنچے تھے اور انہوں نے مجاہدین سے خطاب کیا اس وقت عمرو بن عاص کسی اور شہر میں تھے وہ جہاں کہیں بھی تھے اپنی بے چینی اور اپنی بے قراری چھپا نہ سکے انہوں نے صاف الفاظ میں امیرالمومنین کے حکم کو غیر دانشمندانہ بھی کہہ دیا، کچھ دنوں بعد ان کی یہ بے چینی اور یہ احتجاجی باتیں سپہ سالار ابوعبیدہ تک پہنچ گئی۔ ابوعبیدہ حلب سے اس مقام تک پہنچے جہاں عمرو بن عاص تھے۔ سپہ سالار نے تو مفتوح شہر کا دورہ کرنا اور وہاں کے حالات دیکھ کر ضروری احکامات جاری کرنے تھے وہ عمروبن عاص کے ساتھ خاص طور پر بات کرنا چاہتے تھے۔وہاں پہنچ کر انہوں نے عمرو بن عاص سے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ ایسی اکھڑی اکھڑی باتیں کیوں کرتے ہیں جن کا مجاہدین پر اثر تخریبی بھی ہوسکتا ہے۔ہمیں رومیوں کا تعقب کرنا چاہیے تھا ۔۔۔عمر بن عاص نے کہا۔۔۔ میں مصر تک پہنچنا چاہتا ہوں رومی تتربتر ہو کر ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگ رہے تھے ہم ان کے تعاقب میں جاتے تو بڑی آسانی سے مصر میں داخل ہو سکتے تھے۔میں حیران ہوں ان عاص،،،،سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا ۔۔۔کیا تو اتنی جلدی بھول گیا کہ عیسائی قبائل نے صرف اس لیے ہر شہر میں بغاوت کر دی تھی کہ وہاں ہماری نفری بہت تھوڑی تھی یہ تو اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہم نے ہر جگہ بغاوت فرو کر لی ہے، لیکن ذرا سوچ ہمارے لشکر اس ملک سے نکل کر آگے جائیں تو پھر پیچھے بغاوت ہو جائے گی۔
مستند موؤرخوں کی لکھی ہوئی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عمرو بن عاص عام سطح کے سالار نہیں تھے نہ ان کی سوچ سطحی اور جذباتی تھی ،مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنا ان کا ایک عزم تھا اور عزم بھی ایسا جیسے اللہ تعالی نے انہیں اسی کام کے لئے ہی پیدا کیا ہو ،فتح مصر تو ان کے لئے ایک جنون اور ایک خط بن گیا تھا ، جس سے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ پوری طرح واقف تھے۔یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بیان کردیا جائے عمرو بن عاص کے مصر کے متعلق ارادے کیا تھے اور امیرالمومنین کے ساتھ ان کی کیا اور کب باتیں ہوئی تھیں،،،،، کچھ ہی عرصہ پہلے جب فلسطین میں رومیوں کے خلاف جنگ ہو رہی تھی تو حضرت عمر نے بیت المقدس کی فتح کی ذمہ داری عمرو بن عاص کو سونپی تھی اور کہا تھا کہ وہ شکست کی خبر بد نہیں بلکہ فتح کی خوشخبری سننا چاہتے ہیں۔ اللہ امیرالمومنین کو فتح ہی کی خوشخبری سنائے گا عمر بن عاص نے تاریخی الفاظ کہے تھے۔
اس وقت بیت المقدس میں رومیوں کا ایک بڑا ھی مشہور جرنیل موجود تھا جس کا نام اطربون تھا۔ اس جرنیل کی جنگی فہم و فراست اور دشمن کو دھوکہ دینے کے لئے مکاریاں اور چالبازیاں اتنی زیادہ تھیں کہ تاریخ کے مطابق ہرقل بھی کبھی کبھی اس کے آگے سر جھکا دیتا تھا۔ سالار عمرو بن عاص کا مقابلہ اس جرنیل کے ساتھ تھا۔اس سلسلے کی کچھ تفصیلات اس داستان کے پہلے باب میں پیش کی جاچکی ہے، یہاں ہم مختصراً بیان کریں گے تفصیلات کے لئے پہلا باب ایک بار پھر پڑھ لیں۔عمر بن عاص خالد بن ولید کی طرح ایسے سالار تھے کہ قیادت کی عمدگی کے علاوہ دشمن کو دھوکا دینے کے ڈھنگ خوب جانتے تھے ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی عمرو بن عاص کی اس صلاحیت اور خوبیوں سے خوب واقف تھے اسی لئے انہوں نے بیت المقدس کی فتح کی ذمہ داریاں انہیں ہی سونپی تھی۔اس طرح امیرالمؤمنین نے عمرو بن عاص کو اطربون کے مقابلے میں بھیجا تو انہوں نے تاریخی الفاظ کہے تھے۔۔۔۔ ہم نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے اب دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ کیا سامنے آتا ہے۔حضرت عمر اطربون کی جنگی چالوں سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ میدان جنگ میں لومڑی جیسی مکاری اور چالاکی کو اس طرح استعمال کرتا ہے کہ اس کا دشمن چکرا جاتا اور سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہوا ہے کیا کرنا چاہیے تآنکے دشمن دھوکے میں مارا جاتا ہے۔ امیرالمومنین یہ بھی جانتے تھے کہ یہی اوصاف اور یہی صلاحیتیں عمرو بن عاص میں بھی ہیں۔عمرو بن عاص بیت المقدس کی طرف بڑھے تو انہوں نے دیکھا کہ اطربون اپنی فوج کے ساتھ اجنادین کی طرف جا رہا تھا۔اجنادین اور بیت المقدس میں فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا ، عمرو بن عاص نے اطربون کی فوج دیکھی اور پھر اپنا لشکر دیکھا تو احساس ہوا کہ انہیں کمک کی شدید ضرورت ہے۔ ورنہ ان کے سامنے اپنی کم نفری ٹھہر نہیں سکے گی۔حضرت عمر نے اطلاع ملتے ہی فوراً کمک بھیج دی اور عمرو بن عاص اجنادین اور بیت المقدس کے قریب جا خیمہ زن ہوئے۔ فوجی حملے سے پہلے انہوں نے یہ ترکیب سوچی کہ ان پر نفسیاتی حملہ کیا جائے جس کا طریقہ انہوں نے اختیار یہ کیا ک آپ نے دو ایلچی اطربون کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجے کہ وہ صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ایلچی دراصل جاسوس تھے جنہیں کام یہ تھا کہ وہ قلعے کے اندر جاکر دیکھیں کہ اندر کتنا لشکر اور دفاعی انتظامات کیسے اور دروازے کتنے کچھ مضبوط وغیرہ۔ اطربون نے دونوں ایلچیوں کو پورے احترام سے بٹھایا اور بات چیت کی اور انہیں رخصت کردیا، اطربون کوئی ایسا اناڑی جرنیل نہ تھا کہ ان ایلچیوں کو شہر میں کھلا پھرنے دیتا،
ایلچی واپس آئے تو سالار عمرو بن عاص ان سے پوچھنے لگے کہ قلعے کے اندر کیا کچھ ہے اور وہ کیا دیکھ کر آئے ہیں، دونوں الچیوں نے انھیں یہ جواب دے کر مایوس کردیا کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکے۔عمرو بن عاص نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اپنے ایلچی بن کر جائیں گے اور یہ ظاہر نہیں ہونے دیں گے کہ وہ خود اپنے لشکر کے سپہ سالار ہے انھوں نے بھیس بدلہ اور اچھی طرح اپنا جائزہ لے کر چلے گئے۔ اطربون نے انکا استقبال بھی عزت و احترام سے کیا ،عمرو بن عاص نے یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سپہ سالار عمرو بن عاص کے ایلچی ہیں اور سپہ سالار نے انہیں اس لیے بھیجا ہے کہ پہلے دو الچی صلح کے معاہدے کی بات ٹھیک طرح نہیں کر سکے اور اب وہ مزید ہدایت لے کر آئے ہیں۔صلح کی بات چیت شروع ہوئی تو عمرو بن عاص نے کہا کہ وہ یہ بات اپنے سپہ سالار تک پہنچائیں گے اور انکا حکم لے کر پھر حاضر ہونگے۔میری نظروں نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا۔۔۔ اطربون نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔ میں کسی ایلچی سے نہیں بلکہ عرب کے سپہ سالار عمرو بن عاص کے ساتھ ہی بات کر رہا ہوں کیا تم عمرو بن عاص نہیں ہو۔نہیں ۔۔۔۔عمرو بن عاص نے جواب دیا۔۔۔۔ اگر میں عمرو بن عاص ہوتا تو اپنے اوپر جھوٹا پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی میرے سپہ سالار عمروبن عاص اتنے نڈر اور بے خوف انسان ہیں کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اطربون ہنس پڑا اور اس نے ایسا تاثر دیا جیسے اس نے تسلیم کرلیا ہو کہ وہ عمرو بن عاص نہیں بلکہ ان کے ایلچی ہیں باتوں باتوں میں اطربون باہر نکل گیا اور واپس آکر پھر مذاکرات شروع کردیئے۔اطربون جب باہر نکلا تھا تو عمرو بن عاص سمجھ گئے کہ اب ان کی خیر نہیں اب ہوگا یہ کہ انہیں پکڑ کر کال کوٹھری میں بند کردیا جائے گا یاقتل ہی کر دیا جائے گا۔ عمرو بن عاص دماغ پر زور دینے لگے کہ یہاں سے کس طرح نکلا جائے کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اگر یہ ملاقات کہیں باہر ہو رہی ہوتی تو بھاگ نکلنے کا موقع پیدا کیا جاسکتا تھا لیکن شہر کے اندر سے نکل بھاگنا ناممکن تھا۔آخر ایک ترکیب دماغ میں آ ہی گئی عمرو بن عاص نے ایسا انداز اور رویہ اختیار کرلیا جیسے وہ اطربون کی پیش کی ہوئی شرائط مان گئے ہوں انہوں نے ایسا تاثر پیدا کر دیا جیسے وہ رومیوں کی جنگی طاقت سے خائف ہوں۔عمرو بن عاص نے اطربون سے کہا کہ وہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے بھیجے ہوئے ایلچی نہیں ہے بلکہ انھیں امیرالمومنین حضرت عمر نے بھیجا ہے اور ان کے ساتھ دس مشیر ہیں جو قلعے سے کچھ دور ان کا انتظار کر رہے ہیں ۔وہ اب ان کے پاس جائیں گے اور انہیں ساتھ لائیں گے اور پھر یہی فیصلہ کر دیا جائے گا کہ انہیں اطربون کی شرائط منظور ہیں۔اطربون یہ سن کر خوش ہوا کہ ایک ہی نہیں بلکہ دس مسلمان جال میں آ گئے ہیں اس نے عمرو بن عاص سے کہا کہ وہ اپنے مشیروں کو یہاں لے آئیں۔عمرو بن عاص وہاں سے نکلے ان کے لیے قلعہ کا دروازہ کھولا اور باہر نکلتے ہی انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور اس طرح بچ کر نکل آئے۔ ان کے ساتھ کوئی اور مشیر نہیں گیا تھا وہ اکیلے تھے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل آئے۔تاریخ گواہی دیتی ہے یورپی مؤرخ نے بھی لکھا ہے کہ اطربون مذاکرات کے دوران باہر نکلا تھا تو اس نے اپنے محافظ دستے کے کمانڈر کو یہ کام سونپا تھا کہ یہ عربی جو اندر بیٹھا ہے جب قلعے سے باہر نکل کر واپس جا رہا ہو گا تو اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن ان کو عمرو بن عاص نے جو دھوکا دیا اس نے پھر باہر جاکر محافظ دستے کے کمانڈر سے کہا تھا کہ اب اس شخص کو جانے دینا یہ کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لے کر واپس آ رہا ہے۔اطربون کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص اسے دھوکا دے کر زندہ نکل گیا ہے تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہونے لگا اور پھر جو بھی سامنے آتا اس پر غصہ جھاڑنا شروع کردیتا۔
پھر جس طرح بیت المقدس فتح ہوا اس کی تفصیلات پہلے دو ابواب میں پیش کی جا چکی ہے ان تفصیلات میں اب ہم یہاں کچھ اضافہ کر رہے ہیں۔بیت المقدس عیسائیوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم مقام تھا جتنا مسلمانوں کے لئے لیکن رومی عیسائیوں نے دیکھا کہ مسلمان پے درپے فتوحات حاصل کرتے آ رہے ہیں تو انہوں نے بیت المقدس کے تبرکات اور یادگار اشیاء قسطنطیہ کو منتقل کرنی شروع کردیں۔اس کے ساتھ ہی ہرقل نے وہاں فوج کی تعداد بڑھا دی اور اس کی قیادت اپنے جرنیل اطربون کے سپرد کردی ۔ عیسائی فوج اور شہریوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے اسقف اعظم صفرنیوس موجود تھا ۔اس نے رومی فوج کو مذہبی معاملے میں اتنا جذباتی کردیا تھا کہ بظاہر یہ فوج طوفانی سی ہوگئی تھی رومی اتنی آسانی سے بیت المقدس سے دستبردار نہیں ہوسکتے تھے۔سپہ سالار عمرو بن عاص نے بیت المقدس کو محاصرے میں لے لیا لیکن مقابلہ اتنا شدید اور خونریز تھا کہ محاصرہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ عمرو بن عاص نے کمک شدید ضرورت محسوس کی اور امیر المومنین کو پیغام بھیجا کہ جس قدر کمک بھیجی جا سکے فوراً بھیج دی جائے۔امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ میدان جنگ کی اور ہر محاذ کی تازہ بہ تازہ صورت حال سے پوری طرح باخبر رہتے تھے بیت المقدس کو تو وہ اور ہی زیادہ جانتے تھے انہیں معلوم تھا کہ بیت المقدس میں اطربون جیسا منجھا ہوا اور گھاگ جرنیل موجود ہے اور ان کی تمام تر توجہ بھی بیت المقدس پر ہے۔ ان حالات کے پیش نظر امیر المومنین نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کمک لے کر بیت المقدس کے محاذ پر جائیں گے۔امیرالمومنین اچھی خاصی کمک لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور جابیہ کے مقام پر جا قیام کیا سپہ سالارعمرو بن عاص اور دیگر سالاروں کو وہیں بلا لیا اور جنگ کا نیا نقشہ مرتب کیا۔تاریخ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ رومیوں کے جاسوس ہر جگہ موجود تھے انہوں نے حضرت عمر کو ان کی لائی ہوئی کمک دیکھے اور پھر یہ دیکھا کہ انہوں نے تمام سالاروں کو بلایا ہے تو یہ ساری خبر اطربون تک پہنچائی، ایک روایت یہ بھی ہے کہ اطربون خود بھیس بدل کر گیا اور مسلمانوں کا یہ سارا لشکر دیکھا ۔عارضی طور پر مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ اٹھا لیا تھا ایک معجزہ ہوا وہ یہ کہ اسقف اعظم صفرنیوس نے ایک ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ حضرت عمر خود بیت المقدس آئیں تو صلح کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔حضرت عمر اور تمام سالار یہ سمجھے کہ رومی جرنیل اطربون انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد حضرت عمر بیت المقدس جانے کے لیے تیار ہوگئے پھر حضرت عمر جس لباس میں اور جس طرح بیت المقدس کو روانہ ہوئے ہوئے ایک دلچسپ انگیز اور خیال افروز داستان ہے لیکن یہاں موضوع کچھ اور ہے اس لیے دیگر تفصیلات سے ہم گریز کر رہے ہیں۔اتنا ہی بتائیں گے کہ جب حضرت عمر بیت المقدس میں داخل ہوئے تو بیت المقدس کے ایک بڑے پادری نے انہیں کہا کہ آپ شہر میں داخل ہو رہے ہیں ذرا اچھے کپڑے پہنئے اور گھوڑے پر سوار ہو جائے تا کہ رومیوں کی نگاہ میں آپ کی عظمت کا اندازہ غلط نہ ہو۔حضرت عمر اس پادری کو جو جواب دیا وہ تاریخ کے دامن میں آج تک محفوظ ہے امیر المومنین نے کہا۔۔۔ ہمیں اللہ نے جو عزت بخشی ھے وہ صرف اسلام کے صدقے بخشی ہے اسلام میں لباس اور گھوڑے عزت اور عظمت کا باعث نہیں بن سکتے ہمیں ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں، عظمت انسان کی ہوتی ہے لباس اور اعلی نسل کے گھوڑے کی نہیں۔اسقف اعظم صفرنیوس خود حضرت عمر کے استقبال کے لئے باہر آیا اور عزت و احترام سے اپنے ہاں لے گیا ، توقع تو یہ تھی کہ مذاکرات ہوں گے دونوں فریق اپنی اپنی شرائط پیش کریں گے اور بحث و مباحثہ ہو گا اور شاید پھر بھی مذاکرات کامیاب نہ ہو لیکن ہوا یہ کہ اسقف اعظم صفرنیوس نے کہا کہ معاہدے کی شرائط حضرت عمر اپنے ہاتھ سے لکھیں۔حضرت عمر نے معاہدہ اپنی شرائط کے مطابق لکھا جو صفرنیوس نے بلا چوں چرا قبول کرلیا اور یوں بیت المقدس مجاہدین کے جھولی میں آ گرا۔
امیر المومنین اور ان کے سالار حیران تھے کہ اطربون کہاں ہے امیرالمومنین نے صفرنیوس سے پوچھا تو جواب ملا کہ اپنے ساتھ کچھ فوج لے کر رات کے اندھیرے میں نکل گیا تھا اور اس کی منزل مصر ہے ۔مطلب یہ کہ اطربون مسلمانوں کے پے درپے فتوحات اور طوفانی پیش قدمیاں دیکھ کر جان گیا تھا کہ یہ مسلمان بیت المقدس بھی لے لیں گے ،اور اس کی فوج کا قتل عام ہوگا۔جنگی مبصر اور وقائع نگار لکھتے ہیں کہ اطربون نے اپنی فوج کی ذہنی حالت بھی دیکھ لی تھی اس کی فوج پر مسلمانوں کی دہشت چھا گئی تھی، اور اس فوج کے سپاہی لڑنے سے پہلے دیکھ لیتے تھے کہ وہ کس راستے سے بھاگیں گے اطربون بڑا ہی دوراندیش جرنیل تھا اپنی جنگی طاقت ضائع کرنے کے بجائے اس نے بہتر یہ سمجھا کہ فوج کو اپنے ساتھ مصر لے جائے اور اس کی نئے سرے سے تربیت کرے اور نئی فوج تیار کرکے مسلمانوں کو للکارا جائے مختصر بات یہ کہ اطربون فلسطین سے چپکے سے کھسک گیا اور مصر جا پہنچا۔
بیت المقدس کی فتح کا واقعہ ہم نے صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ فتح مصر کا خیال کس کے دماغ میں آیا تھا اور کس نے امیر المومنین کو قائل کیا تھا کہ مصر پر فوج کشی کی جائے ۔بیت المقدس میں ایک شام عمرو بن عاص حضرت عمر کے پاس جا بیٹھے اور کہا کے وہ ایک ضروری بات کرنے آئے ہیں، حضرت عمر ان کی بات سننے کو تیار ہو گئے۔یا امیر المومنین۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم آپ اطربون کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح آپ کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کو جانتا ہے میں کبھی نہیں مانو گا کہ ہمارے امیرالمؤمین اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں گے کہ اطربون ہم سے ڈر کر بھاگ گیا ہے۔ ہم اللہ کے حضور امید رکھنے والے لوگ ہیں ہم خواب نہیں دیکھا کرتے اور اپنے آپ کو فریب دینا مجاہدین اسلام کا شیوہ نہیں۔عاص کے بیٹے۔۔۔ حضرت عمر نے عمرو کی بات روک کر کہا۔۔۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ تو وہ بات کر دے جس کی تو تمہید باندھ رہا ہے میں سن رہا ہوں۔یا امیرالمومنین عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔میں کہنا یہ چاہتا ہو کہ ہمیں اطربون کے پیچھے جانا چاہیے۔کیا تو اسے ابھی کافی نہیں سمجھتا کہ ہم نے ایک بڑا ہی کٹھن محاذ سر کر لیا ہے؟ ۔۔۔حضرت عمر نے کہا۔میں اسے کافی نہیں سمجھتا، یا امیر المومنین عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ اگر ہم اس فتح کو کافی سمجھ کر بیٹھ گئے تو اطربون فوج تیار کرکے ہم پر حملہ آور ہوگا ہرقل اور اطربون ایک ابلیس کے دو نام ہیں اور اتنی عقل اور فہم و فراست رکھتے ہیں کہ الجزیرہ اور فلسطین کے عیسائی قبائل کو بغاوت پر اکسا سکتے ہیں اور زمین کے نیچے رہ کر اس بغاوت کی ہدایتکاری بھی کرسکتے ہیں۔ وہ مصر ایسی ہی تیاریوں کے لئے گیا ہے ہمیں ضرورت یہ ہے کہ ہم اسے چین سے بیٹھنے کی مہلت نہ دیں آپ کی اجازت چاہیے میں مصر کی طرف پیش قدمی اور حملے کی قیادت کروں گا۔صرف اطربون پر اپنی توجہ تو محدود نہ کر ابن عاص۔۔۔ حضرت عمر نے کہا ۔۔۔کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ ہم کسریٰ ایران کے خلاف لڑ رہے ہیں اور شام میں بھی ہم نے روم جیسی بڑی جنگی قوت کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اگر ہم نے اتنی دور ایک اور محاذ کھول دیا تو ایسا نہ ہو کہ ہمارے باقی محاذ کمزور ہو جائیں۔عمرو بن عاص کی امیرالمومنین حضرت عمر کے ساتھ یہ گفتگو یہیں پر ختم نہیں ہو گئی تھی انہوں نے امیرالمومنین کے آگے مصر کی پوری تاریخ رکھ دی تھی پھر انہوں نے آیت قرآنی بھی سنا ڈالی تھی جس میں مصر کا ذکر آتا ہے انھوں نے بنی اسرائیل اور حضرت موسی علیہ السلام کا خاص طور پر ذکر کیا اور پھر سنایا کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ فرعونیوں سے کس طرح فرار ہوئے تھے اور کس طرح اللہ کے حکم سے دریانیل نے انھیں راستہ دے دیا تھا اور پھر فرعون رعمیس دوم دریا کے دیے ہوئے اس راستے پر اترا تو دریا اپنی روانی میں آگیا اور رعمیس غرق ہو گیا۔ عمرو بن عاص نے حضرت یوسف علیہ سلام کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ عرب کے مسلمان حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے تو کبھی بھول ہی نہیں سکتے اور اس قصے کے حوالے سے عربی لوگ مصر کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں۔ قرآن میں متعدد آیات میں یہ قصہ اللہ تعالی نے اپنی زبان مقدس سے بیان فرمایا ہے۔امیرالمومنین حضرت عمر چپ چاپ عمرو بن عاص کی یہ باتیں سن رہے تھے ایسی بات تو تھی ہی نہیں کہ حضرت عمر کے لیے یہ باتیں نئی تھی وہ مصر کی تاریخ سے اور قرآن میں مصر کے ذکر سے بڑی اچھی طرح واقف تھے، لیکن انہوں نے عمرو بن عاص کو روکا نہیں کہ وہ سب جانتے ہیں حضرت عمر دیکھ رہے تھے کہ عمرو بن عاص کس نیت اور کس جذبے سے یہ باتیں کر رہے تھے ایسی بات تو تھی ہی نہیں کہ عمروبن عاص خود مصر کے بادشاہ بننا چاہتے تھے لیکن ان کا موقف یہ تھا کہ مصر کے بغیر اسلامی سلطنت مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔
عمرو بن عاص عرب اور مصر کے تعلقات کی تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تک لے گئے انہوں نے کہا کہ اہل حجاج خاص طور پر اہل مکہ عرب اور مصر کے تجارتی تعلقات کو بھول نہیں سکتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام عربوں کے جد اعلی تھے اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ اصل نسل سے مصری تھیں وہ اس طرح کے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ حضرت سارا کے ساتھ عراق سے فلسطین اور فلسطین سے مصر چلے گئے تھے۔مصر کے بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو پیش کیا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ کے ساتھ شادی کر لی تھی اور ان کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی حضرت سارا نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی نسبت حضرت ہاجرہ کو زیادہ توجہ دیتے ہیں تو وہ ناراض ہو گئیں اور قسم کھالی کہ حضرت حاجرہ کے ساتھ نہیں رہیں گی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر الجزیرہ العرب چلے گئے اور وہاں جاکر قیام کیا جہاں آجکل مکہ مکرمہ آباد ہے۔حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قبیلہ جرھم کی ایک دوشیزہ سے شادی کرلی جس کے بطن سے بارہ لڑکے پیدا ہوئے یہی لڑکے عربوں کی آباء و اجداد بنے چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ننہال مصری تھے اس لئے یہ عربوں کے ساتھ ایک مقدس رشتہ بن گیا۔پھر عمرو بن عاص نے عرب اور مصر کے تجارتی تعلقات کا تفصیلی ذکر کیا اور کہا کہ مصر کے ساتھ عربوں کے تعلقات تجارتی ہی نہیں جذباتی بھی ہیں بلکہ انھیں انہوں نے روحانی تعلقات کہا۔ پھر یوں وضاحت کی کہ عرب مصر کے متعلق تو بہت کچھ جانتے تھے لیکن قرآن نازل ہوا تو عربوں کو مصر کی وہ باتیں بھی معلوم ہوئی جو ان کے ذہن میں کبھی آئی ہی نہیں تھی، مصر میں ایرانیوں اور رومیوں کی جنگ بڑا لمبا عرصہ جاری رہی تھی ایرانیوں نے 616 عیسوی میں مصر پر فوج کشی کی تھی اور رومیوں کو شکست دے کر مصر پر نو سال تک قابض رہے تھے۔پھر ہرقل اٹھا اور اس نے رومیوں پر فوج کشی کرکے انہیں مصر اور شام سے نکال دیا تھا اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی انکشاف کردیا تھا کہ رومی ایک نہ ایک دن ایرانیوں پر غالب آئیں گے قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ رومی شام پر مغلوب ہو گئے ہیں اور ان کے چند برس بعد پھر غالب آئیں گے یہ قرآنی پیشن گوئی پوری ہوئی اور پھر رومیوں نے ایرانیوں کو ان کے اپنے ملک میں دھکیل دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کو ہجرت فرما چکے تھے اور جب مسلمانوں کے حالات ٹھیک ہو گئے اور مجاہدین کے لشکر بھی تیار ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ایران پر سے روم ، ہیرا ، اور غسان کے بادشاہوں اور مصر کے فرمانروا کے پاس ایلچی بھیجے کہ وہ سب اسلام قبول کرلیں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب مبارک کا پورا متن یہاں پیش کیا جائے تاریخ نویس عبدالحکم نے مصر کی فتوحات اور حالات میں لکھا ہے کہ مصر جانے والے ایلچی حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ تھے مکتوب مبارک کے الفاظ یہ تھے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم – اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم القبط مقوقس کے نام سلامتی ہو اس پر جو حق کی پیروی کرے، اما بعد ، میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں اگر تم نے اسلام قبول کر لیا تو تم بھی سلامت رہو گے اور اللہ تعالی اس کا دوگنا اجر عطا فرمائے گا، اے اہل کتاب اس حقیقت کی طرف آ جاؤ جو ہم تم دونوں میں یکساں طور پر مسلم ہے ،اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اور کسی انسان کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے اور نہ ہم میں سے کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے جس سے اللہ کو چھوڑ کر اسے اپنا پروردگار بنا لیا ہو پھر اگر لوگ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ ہم تو خدا کو ماننے والے ہیں۔ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ دوسرے جن بادشاہوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مکتوب ملا تھا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچیوں اور ان کے مکتوب کے ساتھ بڑا ھی توہین آمیز سلوک کیا تھا خصوصاً کسریٰ ایران نے تو یہ مذموم حرکت کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب پھاڑ کر اس کے پرزے بکھیر دیے تھے،اس کی اطلاع جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی سلطنت کے اسی طرح پرزے اڑیں گے۔ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ مقوقیس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کو احترام سے وصول کیا اور پوری توجہ سے پڑھا، رات کے وقت شاہ مصر مقوقس نے حضرت حاطب کو تنہائی میں اپنے پاس بلایا اور پوری تعظیم دے کر بیٹھا یا پھر کہا کہ اسے اپنے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے متعلق کچھ بتائیں حضرت حاطب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تر صفات بیان کی اور ثبوت کے طور پر کچھ زندہ اور قابل یقین مثال پیش کی۔میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ابھی آئے گا ۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ مقوقس نے کہا لیکن میرا خیال تھا کہ یہ نبی شام میں آئے گا کیونکہ اس سے پہلے تمام پیغمبر وہی مبعوث ہوئے تھے، لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ ایک نبی مصیبت زدہ سرزمین عرب میں ظہور پذیر ہوا ہے۔قبطی تمہارے اس نبی کے حلقہ بگوشی میں میرا ساتھ نہیں دیں گے یہ احتیاط کرنا کہ یہاں کسی کو میری اور تمہاری اس گفتگو کا علم نہ ہو میں یہ محسوس کر چکا ہوں کہ اس ملک پر تمہارے پیغمبر کا غلبہ ہو گا۔تمہارے پیغمبر کے ساتھی اس کے بعد ہمارے ان مصر کے میدانوں میں اتریں گے اور میدانوں پر غالب آئیں گے، لیکن میں قبطیوں سے اس کے متعلق کچھ لفظ بھی نہیں کہوں گا تم اپنے دوست آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جاؤ۔اگلی صبح مقوقس نے حضرت حاطب کو پھر بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر کاتب کو بلایا اور عربی زبان میں یہ مکتوب لکھوایا۔عبداللہ کے بیٹے محمد کو عظیم القبۃ مقوقس کا سلام ،امابعد، میں نے آپ کا خط پڑھا اور جو کچھ آپ نے اس میں تحریر کیا ہے اور جو دعوت دی ہے اسے میں نے سمجھا ہے میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ابھی آنا باقی ہے لیکن میرا خیال تھا کہ وہ ملک شام میں ظہور پذیر ہو گا میں نے آپ کے قاصد کا احترام کیا ہے اور میں آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں جو قبطیوں میں اونچے درجے اور حیثیت کے خاندانوں کی ہیں پیش کر رہا ہوں ،اور آپ کی سواری کے لئے ایک اعلی نسل کا خچر بھی تحفے کے طور پر پیش کررہا ہوں۔ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی حضرت ماریہ رضی اللہ عنہ کے نام سے ازواج مطہرات میں شامل کر لی گئی تھیں، مصری تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قبطیوں کے ساتھ خوش سلوکی سے پیش آنے کا حکم مانو کہ تم پر ان کا حق ہے اور تم سے ان کا رشتہ بھی ہے۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
عمرو بن عاص نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو مصریوں سے اپنا یہ رشتہ بھی یاد دلایا ، قبطی عیسائی تھے لیکن انہوں نے اپنا ایک الگ فرقہ بنا لیا تھا اب مصر پر بادشاہی ہرقل کی تھی۔ وہ بھی عیسائی تھا لیکن قبطیوں کے فرقے کے سخت خلاف تھا، عیسائیوں کے ایک یا دو فرقے اور بھی بن گئے تھے اور یہ فرقہ آپس میں جنگ و جدل میں لگے رہتے تھے ،ہرقل نے مختلف فرقوں کے مشترک عقیدوں پر مبنی ایک سرکاری مذہب بنا ڈالا اور حکم نامہ جاری کیا کہ سب اس مذہب کو صحیح تسلیم کریں۔ اس نے مصر کے دارالحکومت اسکندریہ میں مذہبی پیشوائیت کی سربراہی قیرس نامی اسقف کے سپرد کردی، اور اسے اتنے وسیع اختیارات دے دیے کہ وہ ظلم و تشدد کے ذریعے لوگوں سے سرکاری عیسائیت منوائے، دوسرے فرقے تو دب گئے لیکن قبطیوں نے سرکاری مذہب کے خلاف محاذ قائم کر لیا تھا، اس نے ان پر جو وحشیانہ مظالم توڑے اگر انہیں تفصیل سے بیان کیا جائے تو انسان کی روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔ پورے دس سال قبطی عیسائی قیرس کی وحشت اور بربریت کا شکار ہوتے رہے، ان کی سننے والا کوئی نہ تھا ۔عمرو بن عاص نے امیرالمومنین سے کہا کہ قبطیوں کو اس ظلم و تشدد سے نجات دلانا ہمارا دینی فریضہ ہے۔اس کے بعد عمرو بن عاص نے امیرالمومنین کے سامنے مصر کی زرخیز زمین اور شادابی اور پھر قیمتی پتھروں اور کانوں کے ذخیرے اور بے انداز دولت کا ذکر کیا اور کہا کہ اللہ کی زمین سے حاصل ہونے والی یہ ساری دولت رومی بادشاہوں کے محلات میں چلی جاتی ہے اور لوگ بھوکے اور ننگے رہ جاتے ہیں ،محنت اور مشقت کرنے والوں کو بڑی مشکل سے دو وقت روٹی ملتی ہے، اور ان کی محنت کا پورے کا پورا ثمر شاہی محلات میں چلا جاتا ہے۔ یا امیرالمومنین! ۔۔۔عمر بن عاص نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا ۔۔۔میری روح کہہ رہی ہے کہ ہمیں وہ سرزمین پکار رہی ہے جہاں نیل بہتا ہے،،،،، میں اپنا ایک ذاتی واقعہ سنانا چاہتا ہوں جسے میں اللہ کا اشارہ سمجھتا ہوں۔
ہم یہ واقعہ اس داستان کے پہلے باب میں تفصیل سے سنا چکے ہیں یہاں ہم مختصراً سنا دیتے ہیں، یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مصر پر ایرانی قابض تھے اور اس کے فوراً بعد مصر پھر رومیوں کے تسلط میں آگیا تھا ۔اس وقت عمر بن عاص نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔وہ تجارت کے سلسلے میں اہل قریش کے ایک قافلے کے ساتھ بیت المقدس گئے ایک روز قافلے کے اونٹ قریبی جنگل میں چرنے چگنے کے لئے لے جانے کی باری عمرو بن عاص کی تھی ،وہاں انہیں ایک نیم جان عیسائی ملا جو پیاس سے مرا جا رھا تھا اس کا نام شماش تھا عمرو بن عاص نے اسے اپنا سارا پانی پلا دیا اور وہ موت کے منہ سے نکل آیا ۔شماش گہری نیند سو گیا ، عمرو بن عاص اس سے ذرا دور کھڑے تھے کہ انہوں نے ایک بڑا لمبا اور زہریلا سانپ شماش کی طرف رینگتا دیکھا کمان اور ترکش انکے پاس تھی انہوں نے وہیں سے تیر چلایا جو سانپ کے جسم سے پار ہو گیا اور سانپ مر گیا، شماش کی آنکھ کھلی تو سانپ کو دیکھ کر اس کا رنگ ہی پیلا پڑ گیا۔تاریخ میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ شماش بڑا ہی دولت مند تاجر تھا اور وہ مصر کے دارالسنت اسکندریہ کا رہنے والا تھا اس نے عمرو بن عاص کو یہ انعام دینا چاہا کہ انھیں کہا کہ وہ اس کے ساتھ اسکندریہ چلیں۔شماش نے اسکندریہ کا ایسا پرکشش نقشہ پیش کیا کہ عمرو بن عاص راضی ہو گئے اور اس کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔
اسکندریہ کو انہوں نے اس سے زیادہ خوبصورت اور دولت مند شہر پایا جتنا شماش نے انہیں بتایا تھا۔انہی دنوں وہاں ایک جشن منایا جارہا تھا ۔جشن میں شاہی خاندان خاص طور پر شریک ہوتا تھا، یہ جشن ہر سال انہی دنوں منایا جاتا تھا ۔شماش عمرو بن عاص کو اس جشن میں لے گیا چوں کہ وہ اونچی حیثیت کا آدمی تھا اس لئے اسے تماشائیوں میں سب سے آگے جگہ دی گئی، عمرو بن عاص کو اس نے اپنے ساتھ بٹھایا۔اس جشن میں ایک تقریب منعقد ہورہی تھی لوگ درجہ بدرجہ دائرے میں بیٹھے تھے اور ایک طرف شاہی خاندان بیٹھا محو تماشہ تھا۔ تقریب یوں تھی کہ ایک آدمی تماشائیوں کے درمیان دائرے میں کھڑا ہو کر اور آنکھیں بند کرکے ایک گیند کو اوپر پھینکتا تھا ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ گیند کسی کے ایک بازو پر گرے تو وہ شخص کتنا ہی غریب اور معمولی آدمی کیوں نہ ہو وہ مرنے سے پہلے بادشاہ ضرور بنتا ہے۔گیند پھینکنے والے نے چند مرتبہ گیند اوپر پھینکی لیکن گیند واپس زمین پر ہی گری، تین چار مرتبہ گیند کسی نہ کسی آدمی پر گری لیکن جسم کے کسی اور حصے پر آپڑی ایک بازو پر نہ گری۔آخر گیند عمرو بن عاص کے ایک بازو پر گری اور تماشائیوں کے ہجوم نے تالیاں بجائیں اور خوشی کے نعرے بھی لگائے لیکن شاہی خاندان کے افراد نے کہا کہ وہ اس شخص کو اچھی طرح دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ ہے کون؟ شماش نے اٹھ کر شاہی خاندان کو بتایا کہ اس شخص کا نام عمرو بن عاص ہے اور یہ عربی ہے اور مکہ سے آیاہے۔ لوگوں نے قہقہے لگانے شروع کر دیے اور ایسی آوازیں بھی اٹھی کے عرب کا یہ بدو ہمارا بادشاہ نہیں ہوسکتا ۔ہجوم کی یہ آوازیں بھی سنائی دی کہ یہ چھوٹا اور ٹھنگا سا بدو مصر کا بادشاہ ہو ہی نہیں سکتا۔عمرو بن عاص عرب کے عام لوگوں کی طرح دراز قد نہیں تھے ان کا قد چھوٹا ،سر بڑا ، ہاتھ اور پاؤں قد کے مطابق زیادہ ہی بڑے تھے، ان کی بھنویں گھنی تھیں ، منہ ذرا زیادہ چوڑا تھا، داڑھی لمبی تھی ،اور سینہ کچھ زیادہ ہی چوڑا تھا، البتہ ان کی سیاہ چمکیلی آنکھوں میں اور چہرے پر بشاشت اور زندہ دلی کا تاثر رہتا تھا، لیکن اسکندریہ کے لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص کو غصہ آتا ہی نہیں تھا ان کے ہونٹوں پر تبسم سا ہی رہتا تھا۔ ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ عمرو بن عاص مصر سے واپس آگئے لیکن مصر اور اسکندریہ ان کے ذہن پر ایسے سوار ہوئے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ مصر میں ہی جا کر آباد ہونا چاہتے ہیں۔یا امیرالمومنین! ۔۔۔۔یہ واقعہ سنا کر عمرو بن عاص نے کہا میں ایسا خیال اپنے دماغ میں کبھی بھی نہیں لاؤں گا کہ گیند کا اشارہ یہ تھا کہ میں ایک نہ ایک دن مصر کا بادشاہ بنوں گا ، بادشاہی صرف اللہ تعالی کی ہے اور یہ میرا عزم ہے کہ مصر میں اللہ کی بادشاہی قائم کرنی ہے ،مجھے آپ کی اجازت چاہیے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ بڑے تحمل اور انہماک سے عمرو بن عاص کی یہ باتیں سنتے رہے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ قائل ہو گئے ہیں، حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت عمر قائل ہوگئے تھے ،لیکن مصر پر فوج کشی کی اجازت اتنی جلدی نہیں دے سکتے تھے ،انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ اور مدینہ کے کچھ صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو ان میں سے کسی نے بھی تائید نہ کی اور یہی کہا کہ ابھی ہم اس قابل نہیں کہ اتنی دور کا ایک اور محاذ کھول دیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عمرو بن عاص کے ان خیالات اور عزم کو بہت سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ویسے ہی ایک بات چھیڑ دی انہوں نے کہا کہ قبطی عیسائیوں کے ساتھ ہمارا رشتہ تو بنتا ہے اور ہم انہیں رومیوں کے ظلم و تشدد سے نجات دلائیں گے لیکن سنا ہے کہ ان کے یہاں ایک بڑی ہی ظالمانہ رسم چلی آ رہی ہے۔ رسم یہ تھی کہ قبطی اس وہم میں مبتلا تھے کہ جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو دریا نیل کی روانی رک جاتی ہے یعنی دریا ٹھہر جاتا ہے قبطی سال میں ایک بار ایک کنواری لڑکی کو اس کے والدین کی رضامندی سے الگ کرلیتے تھے اور اسے بڑے قیمتی لباس اور زیورات پہنا کر دریائے نیل میں پھینک دیتے تھے لڑکی ڈوب مرتی تھی اور قبطی کہتے تھے کہ دریا نیل اب رکے گا نہیں اور بہتا ہی رہے گا ۔عمرو بن عاص نے امیرالمؤمنین کی تائید کی اور کہا کہ ان شاءاللہ قبطی قبول اسلام پر آ جائیں گے اور ان کی تمام بے بنیاد رسم ختم ہو جائے گی۔
اب ہم اس داستان کو اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں حلب میں عیسائی قبائل نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنا قتل عام کروا کے ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیا تھا۔سپہ سالار ابوعبیدہ جب حلب پہنچے تھے تو قبائل کے سرداروں نے ان کے پاس جاکر اعتراف کرلیا تھا کہ انھیں اپنی لغزش اور کم فہمی کی سزا ملی ہے۔سرداروں نے سپہ سالار ابوعبیدہ کو یہ بھی بتایا کہ ان کی قیادت رومی فوج کا ایک جرنیل اور ایک افسر کررہے تھے اور انہوں نے ہی انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کیا تھا۔ ابو عبیدہ کو شارینا کے خاوند حدید بن مومن خزرج سے پہلے ہی پتہ چل چکا تھا کے انتھونیس اور روتاس نے ان قبائلیوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے تیار کیا تھا۔ حدید نے سپہ سالار کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہرقل کی ایک بیوی اور اس کا نوجوان بیٹا بھی فرار ہو کر یہاں آ گئے تھے حدید کو یہ ساری باتیں شارینا نے بتائی تھی۔اللہ اکبر،،،،، اللہ اکبر ،،،،،،سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا،،،، سلطنت روم ایک تناور درخت تھا اب دیکھو اس کی ٹہنیاں کس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی ہیں، ایک رومی جرنیل باغی ہو کر ادھر آ گیا قیصر روم کی اپنی ایک بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ اس جرنیل کے ساتھ آگئی یہ لوگ یہاں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھنے آئے تھے۔ اللہ کے اس اشارے کو سمجھو کی سلطنت روم کا تناور درخت اب اسی طرح ٹہنی ٹہنی ہوکر بکھر جائے گا اور زمین اس کی جڑوں کو پانی سے محروم کر دے گی۔سپہ سالار ابوعبیدہ کچھ دن حلب میں گزار کر واپس حمص چلے گئے اور انہوں نے شام کے مختلف علاقے مختلف سالاروں کے سپرد کر دیے اور کہا کہ ان کے سرکاری انتظامات جزیہ اور دیگر محصولات کی وصولی کا نظام روا کیا جائے اس طرح شام کے حالات معمول پر آگئے۔حلب اور انطاکیہ کے درمیان تقریبا 45 میل فاصلہ ہے، اس دور میں یہ تمام علاقہ کچھ اس طرح ہوا کرتا تھا کہ زیادہ تر جنگلات چٹانیں تھیں اور تھوڑا سا علاقہ ریگستانی تھا ۔انطاکیہ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے اور تاجروں کے بحری جہاز یہیں آتے اور یہیں سے سامان وغیرہ لاد کر واپس جایا کرتے تھے۔ مصر میں تاجروں کے لیے اسکندریہ بندرگاہ تھی ۔اس تمام علاقے پر اب مجاہدین اسلام کا تسلط ہوگیا تھا ۔اس علاقے میں عیسائیوں کے دو تین قبیلے آباد تھے اور ان کی بستیاں ایک دوسرے سے دور دور تھیں۔حلب کی فتح کے بہت دنوں بعد انطاکیہ سے حلب آنے والے اور حلب سے انطاکیہ جانے والے لوگوں نے بتایا کہ اس علاقے میں ایک چڑیل یا بد روح بھٹکتی پھر رہی ہے، لوگوں نے بتایا کہ وہ کسی وقت چیختی اور چلاتی ہے اور کچھ کہتی بھی ہے جو کسی کو بھی سمجھ نہیں آتی لوگ اس کی آواز سن کر دور بھاگ جاتے تھے۔کوئی جھوٹ بولتا کہ اس نے چڑیل یا بدروح دیکھی ہے، یا اس نے کہیں جنات کو بیٹھے دیکھا ہے، تو لوگ بلا چوں چرا سچ مان لیتے تھے ،حلب اور انطاکیہ کے درمیانی علاقے کی چڑیل کی آوازیں تو بہت سے لوگوں نے سنی تھی ان خبروں کی تردید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ایک روز ایک مسافر حلب میں داخل ہوا۔ اور سرائے میں ٹھہرا ، اس پر خوف و ہراس طاری تھا اور اس کے منہ سے ٹھیک طرح بات بھی نہیں نکلتی تھی ، سرائے میں ہر کسی نے محسوس کرلیا کہ اس نے راستے میں کوئی خوف ناک یا پراسرار چیز دیکھی ہے، وہ اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے اور اسے کہا کہ وہ سب کو بتا دے کہ وہ کیا دیکھا ہے تاکہ کوئی اور مسافر اس راستے سے نہ گزرے۔اس نے سنایا کہ وہ اپنی بستی سے حلب کی طرف خچر پر سوار چلا آرہا تھا ،اسے ذرا قریب سے آوازیں سنائی دیں، میں اس کا خون پی لوں گی، اس نے میرا خون بہایا ہے ،اس کے بعد اس مسافر کو چیخیں سنائی دی آواز بلاشک و شبہ عورت کی تھی۔ ایک تو جنگل گھنا تھا اور اس میں ٹیکریاں بھی تھی اس لئے کچھ نظر نہیں آتا تھا کہ یہ کون ہے ؟ اور کیا یہ انسان ہے یا کوئی پراسرار مخلوق ؟ اس کے دل پر خوف طاری ہو گیا اور خچر کو ایڑ لگائی کے تیز چلے مگر وہ گھوڑا نہیں کھچر تھی خچر کو جتنی بھی ایڑ لگاؤ مارو پیٹو وہ ذرا سا تیز چلنے لگتی ہے لیکن گھوڑے کی طرح سرپٹ نہیں دوڑتی۔اس مسافر کا راستہ ٹیکری میں سے گزرتا ایک ٹیکری سے قریب مڑتا تھا، وہ وہاں سے مڑا تو اچانک ایک نوجوان لڑکی اس کے راستے میں آ گئی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اس کا چہرہ بجھا بجھا سا تھا بہت ہی خوبصورت تھی کپڑے کئی جگہوں سے پھٹے ہوئے تھے۔مسافر کو خیال آیا کہ اس جنگل میں اس لڑکی کا کیا کام ہو سکتا ہے یہ کسی مری ہوئی لڑکی کی بد روح ہوگی یا چڑیل جو انسان کے روپ میں آگئی تھی۔ مسافر نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ کون ہے؟ انسان ہے یا آسمان سے آئی ہوئی کوئی مخلوق ہے۔ اس نے دلی طور پر یقین کر لیا کہ یہ بد روح یا چڑیل ہے ، وہ خوف سے لرز اٹھا اور اس چڑیل کے آگے دو زانو ہو کر ہاتھ جوڑے۔میں غریب مسافر ہوں ۔۔۔۔اس نے چڑیل یا بدروح التجا کی۔۔۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کا پیٹ پالنے کے لئے دربدر خوار ہوتا پھر رہا ہوں ،مجھے بتا کہ میں تیری کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟میری جان بخشی کردے۔چڑیل نے کوئی بات نہ کی وہ خچر تک گئی زین کے ساتھ ایک پھیلا بندھا ہوا تھا جس میں مسافر کا کھانے پینے کا سامان تھا ، اور تھیلے کے ساتھ چھوٹا سا پانی کا مشکیزہ بھی تھا ۔چڑیل نے تھیلا بھی اتار لیا اور مشکیزہ بھی ،وہ دوزانو بیٹھے مسافر کے سامنے آکر رک گئی۔
ہرقل کہاں ہے؟ ۔۔۔۔ چڑیل نے پوچھا ۔میں صحیح جواب نہیں دے سکوں گا ۔۔۔مسافر نے ہانپتی کانپتی آواز میں کہا ۔۔۔اتنا ہی جانتا ہوں کہ ہرقل مسلمانوں سے شکست کھا کر ملک شام سے بھاگ گیا ہے۔ کہاں گیا ہے میں یہ نہیں بتا سکتا یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ مصر گیا ہوگا مصر میں اسکی بادشاہی ہے اور سنا ہے کہ اسکندریہ میں اس کا محل ہے اور وہ وہیں رہتا ہے۔میں اس کا خون پینے جا رہی ہوں ۔۔۔چڑیل نے دانت پیس کر کہا۔۔۔ اس نے میرا خون بہایا ہے اس نے مجھے قتل کروایا ہے تمھیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے تو بتا دو ورنہ تمھارا خون پی لوں گی۔میرے بچوں پر یہ ظلم نہ کرنا۔۔۔ مسافر نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔میں غریب آدمی بادشاہوں کے بارے میں بتانے سے معذور ہوں اگر تم خدا کو مانتی ہو تو اسی کے نام پر میری جان بخشی کر دو۔مسافر نے سرائے میں سنایا کہ چڑیل نے تھیلا اور مشکیزہ اٹھایا اور ایک طرف کو چل دی۔ مسافر اسے دیکھتا رہا اور وہ ٹیکری کے اوٹ میں چلی گئی مسافر خچر پر سوار ہوا اور حلب کی طرف چل پڑا۔ کچھ ہی دنوں بعد انطاکیہ میں ایسے ہی دو مسافر پہنچے ان کی حالت بھی اسی مسافر جیسی ہو رہی تھی وہ خوف و ہراس میں مبتلا تھے وہ لوگوں کو بتاتے جارہے تھے کہ فلاں راستے سے کبھی نہ گزرنا کیونکہ وہاں ایک چوڑیل یا کسی مقتول لڑکی کی بدروح گھومتی پھرتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے۔انہوں نے چڑیل کا وہی حلیہ بتایا جو حلب پہنچنے والے مسافر نے بتایا تھا ۔ان سے بھی چڑیل نے کھانے پینے کی اشیاء لے لی تھی اور جنگل میں غائب ہو گئی تھی، ان سے بھی اس نے ہرقل کے متعلق پوچھا تھا کہ وہ کہاں ہے؟ انہوں نے بھی اسے بتایا تھا کہ وہ شام سے شکست کھا کر بھاگ گیا اور اسکندریہ چلا گیا ہوگا۔چڑیل نے انہیں بھی کہا تھا کہ وہ ہرقل کا خون پینے جا رہی ہے اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہرقل نے میرا خون بہا دیا تھا۔
یہ بات سن کر لوگوں نے پورے یقین کے ساتھ کہہ دیا کہ یہ کوئی ایسی لڑکی کی بھٹکتی ہوئی روح ہے جسے ہرقل نے قتل کروایا ہوگا یہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ چڑیل نہیں بد روح ہے۔ایسی شہادت کہیں سے بھی نہیں ملی کہ اس نے کسی انسان کو ذرا سا بھی نقصان پہنچایا ہو یا کسی کو پریشان کیا ہو سوائے اس کے کہ جس مسافر کے بھی سامنے آتی تھی اس سے کھانے پینے کا سامان لے لیتی تھی۔اس علاقے میں جو قبائلیوں کی چھوٹی بڑی بستیاں تھیں ان میں رہنے والوں نے بھی اس کی پکار اور چیخ سنی لیکن وہ کبھی کسی بستی میں داخل نہ ہوئی لوگوں نے شام کے بعد گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا تھا ،وہ صرف مسافروں کو نظر آتی اور انہیں روکتی تھی، اسے جتنے بھی مسافروں نے دیکھا سب نے ایک جیسا ہی حلیہ بتایا اور کہا کہ بگڑے ہوئے حالات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ نوجوان ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔مسافروں نے اس کے متعلق جو خبریں ادھر ادھر پہنچائیں ان سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ وہ انطاکیہ کی طرف جا رہی ہے ۔انطاکیہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا تھا تاریخ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس وقت انطاکیہ کون سے سالار کے سپرد کیا گیا تھا۔ یہ بدروح تھی، یا چڑیل، یا کوئی پاگل لڑکی تھی، انطاکیہ کے مضافات میں جا پہنچی، لوگوں تک اس کی خبریں پہلے ہی پہنچ گئی تھی اس لیے لوگوں کو جب پتہ چلا کہ وہ قریب آگئی ہے تو ان پر خوف و ہراس طاری ہوگیا خوف و ہراس بھی ایسا کے بعض مسافر اپنا سفر ملتوی کردیتے تھے۔ایک روز تین چار آدمی جو انطاکیہ کے غیر مسلم باشندے تھے مسلمانوں کے سالار کے پاس گئے اور کہا کہ ایک عرصے سے ایک چڑیل یا بدروح کی خبریں سن سن کر لوگوں پر ایسا ڈراؤنا اثر ہوا ہے کہ شام کے بعد کوئی گھر سے باہر نہیں نکلتا اور سفر بھی پرخطر ہو گیا ہے۔ہم اسلام کے بارے میں کچھ سن کر آئے ہیں۔ اس وفد کے سردار نے کہا۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ چڑیل ، یا بدروح، یا جنات کے سامنے انسان بالکل بے بس اور مجبور ہوتا ہے کوئی انسان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن کسی نے بتایا ہے کہ اسلام کے بعض عالموں کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے جو ان پر اسرار اور پرخطر چیزوں پر قابو پا لیتے ہیں ۔یہ دراصل شہریوں کی طرف سے بھیجا ہوا وفد تھا اور شہریوں کی درخواست یہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس اگر کوئی ایسی طاقت ہے تو اس چڑیل یا بدروح سے نجات دلائی جائے۔
ہاں تم نے ٹھیک سنا ہے ۔۔۔سالار نے کہا ۔۔۔اسلام میں ایسی طاقت ہے کہ جنات چڑیلوں اور بدروحوں پر قابوپایا جاسکتا ہے ،اس طاقت کا راز یہ ہے کہ جو مر جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا نہ حقیقی روپ میں نہ بدروح کے روپ میں، اسلام ایک حقیقت پسند مذہب ہے جو بدروحوں اور چڑیلوں کو نہیں مانتا ،اسلام قبول کرو یہ طاقت تم میں بھی پیدا ہو جائے گی پھر تم بھی چڑیل کا سامنا کر کے دلیری سے پوچھو گے کہ تم کون ہو؟ سالار نے محسوس کیا کہ یہ علمی باتیں ہیں اور یہ دین اسلام کی باریک مسائل ہیں جو یہ لوگ ابھی نہیں سمجھ سکیں گے۔ سالار نے اپنے محافظ دستے کے کماندر کو بلایا اور اس کو یہ کام سونپا کے وہ اپنے ساتھ جتنے بھی آدمی لے جانا چاہے لے جائے اور دیکھے کہ چڑیل یا بدروح کون ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے۔قابل احترام سالار!۔۔۔۔وفد کے ایک آدمی نے کہا آپ کا مذہب جو کچھ بھی کہتا ہے ہم اس پر اعتراض نہیں کرتے لیکن اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ آپ کو خبردار کر دے کہ اپنے آدمیوں کا نقصان نہ کرا بیٹھیں ہو سکتا ہے وہ آپ کے آدمیوں کو دیکھ کر غائب ہی ہو جائے، اس طرح آپ کے آدمیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا اگر وہ غائب نہ ہوئی تو نقصان ضرور کریں گی آپ کے آدمی مارے بھی جا سکتے ہیں۔سالار نے ان کی یہ بات سن کر محافظوں کے کمانڈر سے کہا کہ وہ انھیں دیکھ کر غائب نہ ہوئی تو اسے پکڑ کر یہاں لے آئیں۔محافظ دستے کے کمانڈر نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا اور سب سے پہلے مختلف لوگوں سے پوچھا کہ یہ بدروح کہاں کہاں دیکھی گئی ہے، مختلف لوگوں نے تین چار جگہیں بتائیں اور ایک دو نے ایک خاص علاقے کی نشاندہی کی، کمانڈر نے بہت سے محافظوں کو ساتھ لیا اور چار چار پانچ پانچ کی ٹولیوں میں تقسیم کر کے شہر کے ایسے مضافات میں پھیلا دیا جہاں جنگل ذرا گھنا تھا اور ایسی جگہ جہاں ٹیلے اور کھڈ نالے تھے۔
سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ایک جگہ سے محافظوں کی ایک پارٹی کو چیخیں سنائی دیں اور یہ ایک الفاظ بھی سنائی دیئے کہ میں ہرقل کا خون پینے جا رہی ہوں ، محافظوں کی اس پارٹی نے ایک اور پارٹی کو بھی بلایا اور اس طرح یہ بارہ چودہ محافظ اکٹھا ہو گئے وہ پھیل کر آگے بڑھنے لگے انہوں نے ایک ذرا زیادہ عمر کے محافظ کو اسلامی اصولوں کے تحت اپنا امیر یعنی کمانڈر بنا لیا تھا۔اس کمانڈر نے کہا کہ دل میں اللہ تبارک وتعالی کا نام ہو اور کسی نہ کسی آیت قرآنی کا ورد دل ہی دل میں کرتے جائیں، کمانڈر کی ہدایت کے مطابق وہ محاصرے کی صورت میں بڑھتے گئے تھوڑے تھوڑے وقفے سے بدروح کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی جو معلوم ہوتا تھا کہ وہ دور ہٹتی جا رہی ہے۔آخر انہیں وہ نظر آگئی محافظوں نے اسے اسی حال حلیہ میں دیکھا جو انھوں نے متعدد بار سنا تھا، محافظ نیم دائرے کی شکل میں اس کی طرف بڑھ رہے تھے وہ الٹے قدم آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہی تھی فاصلہ کم ہوتا جارہا تھا۔تم چڑیل یا بدروح تو فوراً غائب ہو جاؤ ۔۔۔کمانڈر نے کہا ۔۔۔اور اپنی پرچھی ہاتھ میں یوں تولی جیسے اس پر پرچھی پھینکے گا اس نے کہا۔۔۔ اگر انسان ہو تو ہمارے پاس آ جاؤ اور تمہارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے گا، ہم تم سے نہیں ڈر رہے تم ہم سے نہ ڈرو۔مجھے ہرقل تک پہنچا دو !۔۔۔وہ جو کوئی بھی تھی بولی۔۔۔ ہرقل نے میرا خون بہایا ہے میں اس کا خون پینے جا رہی ہوں۔ہم تمہیں ہرقل تک پہنچا دیں گے کمانڈر نے کہا ۔۔۔تم جانتی ہو ہرقل ہمارا دشمن ہے ہم خود چاہتے ہیں کہ وہ قتل ہوجائے ،ہم تمہارے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیجیں گے تم محفوظ بھی رہوں گی اور ہمارا آدمی تمہارا کام بھی کر دے گا۔کمانڈر گھوڑے سے اتر کر اس کی طرف گیا اس نے برچھی اپنے ہاتھ میں تیار رکھی آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے کمانڈر نے شفقت اور پیار کی اور اس کی ہم خیالی کی باتیں جاری رکھیں، اور اس تک پہنچ گیا اسے بازو سے پکڑا اور کہا کہ ہمارے ساتھ آؤ اور عزت و آبرو کے ساتھ ہمارے ہاں چلو۔لڑکی بغیر مزاحمت کے بڑے آرام سے کمانڈر کے ساتھ چل پڑی اپنے گھوڑے کے قریب لےجاکر کمانڈر نے لڑکی کے بغلوں میں ہاتھ رکھا اور اسے اٹھا کر گھوڑے پر سوار کر دیا، گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور گھوڑے کے آگے آگے پیدل چلنے لگا تمام محافظ گھوڑوں پر سوار تھے، واپسی کے وقت وہ لڑکی کو ہی دیکھتے رہے ان کی نظریں لڑکی سے ہٹتی ہی نہیں تھی، انہیں غالبا یہ توقع تھی کہ یہ لڑکی ابھی غائب ہوجائے گی لیکن سالار کے دروازے تک پہنچ گئے لڑکی غائب نہ ہوئی۔
سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا سالار اپنے محافظوں کا انتظار بڑی ہی بے تابی سے کر رہا تھا غالبا اسے بھی یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ یہ لڑکی کوئی جن بھوت یا بدروح ہوئی تو وہ محافظوں کو نقصان پہنچائے گی، اور ہو سکتا ہے نقصان پہنچا بھی چکی ہو ۔اتنے میں سالار کو دربان نے اطلاع دی کہ محافظ ایک لڑکی کو لائے ہیں سالار تو جیسے حیرت سے بدک گیا ہو، اس کے کہنے پر محافظ دستے کا کمانڈر لڑکی کو سالار کے کمرے میں لے گیا صرف محافظ کو سالار کے کمرے میں لے جایا گیا جو لڑکی کو لایا تھا۔سالار کے گھر کے باہر بہت سے لوگ اکٹھا ہو گئے تھے شہر کے جو آدمی سالار کے پاس یہ درخواست لے کر آئے تھے کہ اس بدروح یا چڑیل کا کچھ کیا جائے انہوں نے شہر میں یہ خبر پھیلا دی تھی کہ سالار نے اپنے محافظوں کو بھیجا ہے کہ وہ جا کر دیکھیں کہ یہ کیا چیز ہے اس خبر پر ہی لوگ پہلے ہی وہاں اکٹھا ہونے شروع ہو گئے تھے۔سالار کو بتایا گیا کہ لوگ باہر یہ دیکھنے کے لیے دیر سے اکٹھے ہوگئے ہیں کہ محافظ کیا کر کے آتے ہیں یا ان پر کیا گزرتی ہے ۔سالار نے لڑکی کو دیکھ لیا تھا جس سے اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ تو انسان ہے اس نے کہا کہ ان لوگوں سے چند ایک معزز اور نمائندہ قسم کے آدمیوں کو اندر بلایا جائے تاکہ وہ بھی دیکھ لیں کہ یہ کیا چیز ہے۔دس بارہ آدمی اندر آگئے اور سالار نے انہیں بٹھا لیا سب کی نظریں لڑکی پر لگی ہوئی تھی اور لڑکی یوں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جیسے اسے احساس ہی نہ ہو کہ وہ اتنے سارے آدمیوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔تمہارا نام کیا ہے لڑکی؟ ۔۔۔۔سالار نے اس سے پوچھا۔ میرا نام یو کلس ہے ۔۔۔۔۔لڑکی نے جواب دیا۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں کھسر پھسر ہوئی اور ایک نے کہا کہ یہ تو مردانہ نام ہے اور ایسے نام رومیوں کے ہوتے ہیں۔میں یوکلس ہوں ۔۔۔لڑکی نے کہا ۔۔۔اور یوکلس روزی ہے ،یوکلس زندہ ہے اور روزی قتل ہو گئی ہے۔روزی کو کس نے قتل کیا ہے؟ ۔۔۔سالار نے پوچھا۔ہرقل نے ۔۔۔لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔میں ہرقل کو قتل کرنے جا رہی ہوں اور میں اس کا خون پیوں گی تم میں سے کوئی آدمی مجھے اس راستے پر ڈال دے جو مجھے ہرقل تک پہنچا دے۔کیا تم اپنی روح ہو ۔۔۔سالار نے پوچھا ۔۔۔یا اپنا جسم ہو۔میری روح یو کلس ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ یوکلس کی روح مجھ میں ہے ۔اس سے پوچھا گیا کہ وہ کس کی بیٹی ہے اور کہاں سے آئی ہے؟ ۔۔۔۔تو وہ کچھ بھی نہ بتا سکی اس نے کچھ نہ کچھ جواب تو دیے لیکن وہ بے معنی اور ناقابل فہم تھے سالار سمجھ گیا کہ اس لڑکی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں۔
وہ حلب کی روزی تھی جسے یوکلس کے ساتھ والہانہ محبت تھی اور یوکلس دل میں اس کی محبت بسائے ہوئے تھا یوکلس حلب کے محاصرے میں مارا گیا تھا اور روزی نے اس کی لاش اس وقت دیکھی تھی جب شارینا یوکلس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اس وقت یوکلس زندہ تھا اس نے شارینا اور روزی کے ہاتھوں میں جان دی تھی ،پھر روز یوکلس کی ماں لیزا کے لاش پر گئی اور اس کا جو ردعمل تھا وہ پہلے سنایا جاچکا ہے۔ روزی کی ماں وہیں آ گئی تھی اور روزی باہر نکلی اور دوڑ پڑی، اسکی ماں اس کے پیچھے گئی تھی لیکن روزی کو جیسے زمین نے نگل لیا تھا وہ اتنی تیز بھاگی تھی کہ ماں اس تک نہ پہنچ سکی نہ دیکھ سکی کہ وہ گئی کس طرف ہے۔یوکلس نے اسے بتا دیا تھا کہ ہرقل اور اس کا بیٹا قسطنطین اسے قتل کروانا چاہتے تھے لیکن اسے پتہ چل گیا اور اس کی ماں جرنیل انتھونیس کے ساتھ اسے یہاں لے آئی ہرقل کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یوکلس اور اس کی بیوی لیزا کہاں چلے گئے ہیں۔روزی نے یوکلس کی خون آلود لاش دیکھی تو صدمے نے اس کے دماغ کو بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا اور یہ خیال اس کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ یوکلس کو مسلمانوں نے نہیں بلکہ ہرقل نے قتل کروایا ہے وہ اتنا ہی جانتی تھی کہ انطاکیہ سے بڑی کشتیاں اور جہاز مصر جایا کرتے ہیں اور ہرقل مصر چلا گیا ہے ۔وہ یوکلس کے قتل کا انتقام لینے کے لئے چل پڑی تھی پیتالیس میلوں کا فاصلہ کوئی معمولی فاصلہ نہ تھا وہ عام راستے سے ہٹ کر جنگلوں میں سے گزرتی جا رہی تھی تاکہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے کیونکہ اس کا دماغ اس کے قابو سے نکل گیا تھا اس لئے جنگلوں اور بیابانوں میں بھٹکتی اور چیختی چلاتی انطاکیہ تک جا پہنچی۔
سالار کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ اس لڑکی کا کیا کرے اس کے پاس اس لڑکی کے پاگل پن کا کوئی علاج نہیں تھا اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ مجاہدین اسلام کے لشکر کا سالار لڑکی کو پاگل سمجھ کر اسے گھر سے نکال دیتا۔لڑکی کو سب کے سامنے لے آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو اس خوف وہراس سے نجات مل گئی کہ یہ کوئی چڑیل یا بدروح ، یا جنات میں سے ہے، اگر وہ اتنا ہی بتا دیتی کہ وہ کسی کی بیٹی ہے اور کہاں سے آئی ہے تو سالار اسے وہاں بھیج دیتا اور وہ اپنے گھر پہنچا دی جاتی۔اگر مسلمان سالار کی جگہ کوئی رومی جرنیل ہوتا تو لڑکی کو پاگل قرار دے کر قتل کروا دیتا اور اس کی لاش جنگل میں پھینک دی جاتی تھی۔ لیکن وہاں کسی سالار اور کسی جرنیل کا حکم نہیں چل سکتا تھا وہاں اب اللہ کی حکمرانی تھی اور اللہ کے دین کے احکام کی پیروی لازم تھی۔سالار روزی کو اپنے ساتھ اپنے گھر کے اندر لے گیا اور اسے مستورات کے حوالے کرکے کہا کہ اسے نہلائیں اور اچھے کپڑے پہنائیں اور پھر اسے کھانا کھلائیں ، واپس آکر سالار ان لوگوں میں بیٹھ گیا جو اس کے ملاقات والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔اب مجھے مشورہ دیں سالار نے حاضرین سے کہا میں اس لڑکی کو گھر میں بھی نہیں رکھ سکتا اور اس حالت میں گھر سے نکال بھی نہیں سکتا اس کی دیکھ بھال اور اس کی آبرو کی حفاظت میری ذمہ داری ہے ۔میں اسے کسی مخلص اور درد مند آدمی کے سپرد کرنا چاہتا ہوں جو اسے اپنے گھر میں رکھے میرا طبیب اس کا علاج کرنے کی کوشش کرے گا ہوسکتا ہے یہ ٹھیک ہو جائے اور یہ بتا دے کہ یہ کس کی بیٹی ہے اور کہاں کی رہنے والی ہے۔سب پر سکوت طاری ہو گیا اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک پاگل لڑکی کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں وہاں سب سے پیچھے تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے آپس میں سرگوشیوں میں صلاح مشورہ کیا۔امیر انطاکیہ! ۔۔۔۔ان میں سے ایک آدمی نے کہا ہم تین آدمی مصر سے آئے تھے اور اپنا کام کر کے واپس جا رہے ہیں یہاں سے گزر رہے تھے تو لوگوں نے بتایا کہ ایک بدروح کو پکڑ کر لائے ہیں ہم اسے دیکھنے کے لئے رک گئے اور اب پتہ چلا ہے کہ یہ بدروح نہیں ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ یہ لڑکی مسلمان نہیں کسی عیسائی قبیلے کی ہے ہم قبطی عیسائی ہیں اگر آپ کو ہم پر اعتماد ہے تو ہم اس لڑکی کو ساتھ لے جائیں گے اس کا علاج بھی کرائیں گے اگر یہ ٹھیک ہو گئی اور اس نے واپس آنا چاہا تو ہم اسے اس کے گھر چھوڑ آئیں گے، اور اگر یہ شادی پر رضامند ہو گئی تو اس کی کسی کے ساتھ شادی کر دیں گے لڑکی نوجوان ہے اور اس کی خوبصورتی اس کے لیے خطرہ بن سکتی ہے میں پھر کہتا ہوں کہ یہ یقینا عیسائی ہے اور ہم بھی عیسائی ہیں اس لئے یہ ہمارے ہی سپرد کی جائے تو ہم پوری ہمدردی سے اسے اس کی دیکھ بھال کریں گے۔
حاضرین مجلس میں سے تین چار آوازیں اس شخص کی تائید اور حمایت میں اٹھی اور آخر سالار نے فیصلہ دے دیا کہ لڑکی ان کے حوالے کر دی جائے۔اگر لڑکی نے تمہارے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تو پھر کیا ہوگا سالار نے پوچھا۔امیر انطاکیہ! ۔۔۔۔اس آدمی نے کہا۔۔۔ لڑکی کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہیں اس کے دماغ میں یہی خبط بیٹھ گیا ہے کہ یہ ہرقل کو قتل کرنے جا رہی ہے میں اسے کہوں گا کہ میرے ساتھ چلو میں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا اور ہم دونوں مل کر ہرقل کو قتل کریں گے۔اس کی اس بات کو سب نے سراہا اور اس بات سے یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ یہ آدمی کچھ اچھی حیثیت والا اور عقل و دانش والا ہے۔لڑکی جب بلانے پر واپس سالار کے ملاقاتی کمرے میں آئی تو کمرے میں سناٹا چھا گیا، اسے نہلایا گیا کھانا کھلایا گیا اور اچھا لباس پہنایا گیا تھا وہ اتنی حسین تھی کہ سب حیرت زدگی کے عالم میں چلے گئے تھے۔ اس کے چہرے پر معصومیت تھی سالار نے اسے کہا کہ اس نے اس کے لئے تین آدمی تیار کرلیے ہیں جو اسے ساتھ لے جائیں گے اور ہرقل کے قتل میں ساتھ ہونگے۔لڑکی کے ہونٹوں پر تبسم آگیا اسے ساتھ لے جانے والے آدمی نے بڑے پیار اور اعتماد سے باتیں کیں تو لڑکی ان کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئی۔سالار نے آخری فیصلہ یہ سنایا کہ آج رات لڑکی اس کے گھر کی مستورات کے پاس مہمان رہے گی اور کل فجر کی نماز کے فوراً بعد ان تین آدمیوں کے سپرد کردی جائے گی اور یہ آدمی اسی وقت مصر کو روانہ ہو جائیں۔
جاری ہےــــــــ