یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے، میرے ایک دوست کسی نوجوان کو میرے پاس لے کر آئے، نوجوان مذہباً عیسائی تھا اور کسی ورک شاپ میں کام کرتا تھا، میرے دوست کا کہنا تھا، یہ نوجوان قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہے اور اسے اس میں تمہاری مدد چاہیے، میں نے حیرت سے کہا “بھائی جان میں تو عالم دین نہیں ہوں، میں خود آج تک قرآن مجید کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا، میں اسے کیا پڑھاؤں گا” میرا دوست مسکراکر بولا “بات یہ نہیں ہے۔
بات دراصل یہ ہے یہ اسلام قبول کیے بغیر قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنا چاہتا ہے اگر یہ اس کے بعد اسلام کو سمجھ گیا تو مسلمان ہو جائے گا” میں نے کہا “یہ ٹھیک ہے لیکن مجھے اس کے باوجود معاملہ سمجھ نہیں آیا، یہ کسی عالم کے پاس جائے یا بازار سے قرآن مجید اور تفسیر کا نسخہ خریدے اور گھر بیٹھ کر پڑھ لے” میرے دوست نے سنجیدگی سے میری طرف دیکھا اور کہا “یہی تو مسئلہ ہے، یہ عیسائی ہے اور کرسچین کالونی میں رہتا ہے۔
اس نے اگر کسی جگہ سے قرآن مجید یا تفسیر خرید لی اور اگر کسی نے اسے دیکھ لیا یا یہ گھر میں قرآن مجید رکھتا یا پڑھتا ہوا پکڑا گیا تو لوگ اسے خاندان سمیت قتل کر دیں گے لہٰذا یہ اس خوف سے قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا رہا، میں اسے دس سال سے جانتا ہوں یہ ایمان دار اور نیک انسان ہے، اس نے دو ہفتے قبل ڈرتے ڈرتے قرآن مجید پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، یہ سن کر میں بھی ڈر گیا کیوں کہ اگر کسی نے مجھے بھی کسی عیسائی کو قرآن مجید یا تفسیر پکڑاتے ہوئے دیکھ لیا تو میں بھی اس کے ساتھ مارا جاؤں گا” میں نے ندامت سے دونوں کی طرف دیکھا اور پھر مشورہ دیا “شہر میں بہت سے نیک اور باعمل عالم ہیں۔
آپ ان سے رابطہ کریں” میرے دوست کا جواب تھا “یہ ان سے گھبراتا ہے، اس کا خیال ہے اس نے اگر کسی مسجد میں پاؤں رکھ دیا تو لوگ اسے دہلیز پر ہی قتل کر دیں گے” میں نے حیرت سے پوچھا “یہ کیسے ممکن ہے؟ مسجد امن کا گھر ہے، کسی کو اس میں داخلے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟” میرے دوست کا جواب تھا “تم کسی دوسری دنیا میں رہ رہے ہو، ہمارے غیر مسلم شہری مسجد والی گلی میں داخل نہیں ہوتے، یہ بے چارے السلام وعلیکم کہتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔
یہ صرف ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور تم مشورہ دے رہے ہو میں اسے کسی مسجدمیں لے جاؤں” میں نے شرمندگی کے ساتھ دونوں کی طرف دیکھا اور پوچھا “پھر میں اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟” میرے دوست کا کہنا تھا “تم اسے اپنی اسٹڈی استعمال کرنے کا موقع دے دو، یہ ہفتے میں دو دن آئے گا، اسٹڈی میں بیٹھے گا، قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھے گا اور خاموشی سے چلا جائے گا” میں نے خوش دلی سے اجازت دے دی، اس کے بعد میرے دوست نے ایک اور عجیب مطالبہ کر دیا، اس کا کہنا تھا اس کی خواہش ہے آپ اپنے اسٹاف کو نوجوان کے مذہب کے بارے میں نہ بتائیں، یہ نہ ہو آپ کی غیر موجودگی میں کوئی اسے نقصان پہنچا دے، میں نے یہ وعدہ کر لیا اور اس کے بعد وہ نوجوان آتا تھا، میں اسے اسٹڈی میں بٹھاتا تھا اور وہ تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کرکے چلا جاتا تھا۔
یہ سلسلہ دو تین ماہ چلا، آخر اس نے اسلام قبول کر لیا، اس کے بعد وہ نوجوان نہیں آیالیکن جب بھی ملک میں توہین مذہب یا قرآن مجید کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے اور ہجوم کسی غیر مسلم کو زخمی یا قتل کر دیتا ہے تو مجھے بے اختیار وہ نوجوان یاد آ جاتا ہے اور میں اپنے سر پر ہاتھ مار کر پوچھتا ہوں کیا اس ملک میں کوئی غیر مسلم قرآن کا مطالعہ بھی نہیں کر سکتا؟ آپ غیر مسلم کو چھوڑیے یہاں ہم مسلمان بھی دوسرے فرقے کی تفاسیر اور کتابیں نہیں پڑھ سکتے، میں دو سال پہلے تک لوگوں سے اپنی لائبریری میں ملتا تھا مگر پھر میں نے محسوس کیا لوگوں کو میری کتابوں پر بھی اعتراض ہے۔
یہ مجھے ایک فرقے سے گھسیٹ کر دوسرے فرقے اور دوسرے سے تیسرے میں شامل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، سنی مجھے وہابی سمجھنے لگتے تھے، وہابی بریلوی اور یہ تمام مل کر بعض اوقات مجھے شیعہ بھی قرار دے دیتے ہیں، گستاخ اور بے دین کا ٹیگ تو بڑا عرصہ میرے ساتھ چپکا رہا، میں جب بھی مذہب سے متعلق کالم لکھتا تھا تو اس پر بھی شدید عوامی ردعمل آتا تھا، مجھے بتایا جاتا تھا تم کم علم اور نالائق ہو، تمہیں مذہب کے بارے میں کچھ پتا نہیں، تم صرف سیاسی اور موٹی ویشنل بکواس کیا کرو، تمہیں مذہب کے بارے میں لکھنے اور بولنے کی اجازت نہیں وغیرہ وغیرہ لہٰذا میں نے مذہب سے متعلق کالم لکھنا بھی بند کر دیے اور لوگوں سے لائبریری میں ملنا بھی، یہ ایک مسلمان کی مسلم معاشرے میں صورت حال ہے، آپ اس سے غیرمسلموں کی حالت کا اندازہ خود کر سکتے ہیں۔
آج سے چار دن قبل سرگودھا میں بھی ایک واقعہ پیش آیا، مجاہد کالونی میں مسلمان آبادی کے عین درمیان دو کرسچین خاندان رہتے ہیں، نذیر مسیح جوتوں کا کارخانہ چلا رہا تھا اور یہ خاصا خوش حال ہے، اس کے گھر کے سامنے بجلی کے کھمبے پر “مقدس اوراق” کا ڈبا لگا تھا، ڈبے پر لکھا تھا آپ کو اگر دائیں بائیں کوئی مقدس ورق نظر آئے تو آپ اسے ڈبے میں ڈال دیں، پہلا سوال یہ ہے یہ ڈبہ صرف غیر مسلم کے گھر کے سامنے کیوں لگایا گیاتھا؟ کیا لوگوں کو یقین تھا مقدس اوراق کی جب بھی توہین ہوگی اسی گھر سے ہوگی؟ بہرحال 25مئی کی صبح نذیر مسیح کے ہمسائے ایوب دودھی نے گلی میں خبر پھیلا دی نذیر مسیح نے ڈبے سے اوراق نکال کر جلا دیے ہیں۔
یہ خبر جنگل کی آگ بن گئی اور گھنٹہ بھر میں گلی ہجوم سے بھر گئی، لوگ مسیحی خاندان کو گالیاں بھی دے رہے تھے اور قتل کرنے کی دھکیاں بھی، صبح سات بج کر چار منٹ پر 15 پر کال آئی اور ایک اے ایس آئی اور ایک کانسٹیبل وہاں پہنچ گئے، لوگ زیادہ تھے اور پولیس والے دو، تھوڑی دیر میں ایس ایچ او اربن ایریا شاہد اقبال بھی وہاں پہنچ گیا، یہ تینوں مسیحی خاندان کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور مسلسل دو گھنٹے لوگوں کے پتھر اور جوتے برداشت کرتے رہے مگر انھوں نے کسی شخص کو گھر کے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔
اس کے بعد اے ایس پی، پھر ایس پی، پھر ڈی پی او اور آخر میں آر پی او بھی آ گئے لیکن ہجوم قابو میں نہیں آیا، ایس ایچ او نے خاندان کو کمرے میں بند کر دیا اور خود دروازے کے سامنے کھڑا ہوگیا، کمرے میں پانچ لوگ تھے، نذیر مسیح، اس کی بیوی اللہ رکھی، بیٹا سلطان، اس کی بیوی اور پھر ایک چھوٹی بچی (سلطان کی بیٹی)، ہجوم نے آخر میں دیواریں توڑنا شروع کر دیں جس پر پولیس کو شیلنگ کرنا پڑی اور اس شیلنگ کی آڑ میں خاندان کو نکال لیا، اس کے بعد پولیس نے دوسرے گھر سے بھی چار مسیح افراد کو ریسکیو کیا، یہ سارا کریڈٹ ایس ایچ او شاہد اقبال کو جاتا ہے، اس نے جان پر کھیل کر9 لوگوں کی جان بچائی، یہ اگر بہادری نہ دکھاتا، خود مار نہ کھاتا تو اس دن 9 لوگ جان سے گئے تھے۔
مجھے یقین ہے ہم اگر آج مجاہد کالونی کے ان لوگوں سے جنہوں نے نذیر مسیح کے خاندان کا گھیراؤ کیا ہوا تھا یہ پوچھ لیں کیا تم نماز پڑھتے ہو اور کیا تم نے قرآن مجید کو ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھا ہے تو ننانوے فیصد اہل مجاہد کالونی کا جواب ناں ہوگا، میں یہ بات یقین سے کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیوں کہ میں جانتا ہوں کوئی بھی پانچ وقتہ نمازی یا قرآن مجید کا قاری کسی غیر مسلم خاندان کو جلانے کا گناہ نہیں کر سکتا، یہ حرکت صرف ٹینگ ٹانگ کر سکتے ہیں اور ہم من حیث القوم ٹینگ ٹانگ ہیں، ہم صرف نام کے مسلمان ہیں، اسلام ہمارے قریب سے بھی نہیں گزرا۔ ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں۔
عیسائیوں کے مقدس ترین چرچ کا نام چرچ آف ریزورکشن (Church of Resurrection) یا چرچ آف سیپولکر (Church of Sepulchre)ہے، یہ چرچ اس غار میں بنایا گیا تھا جہاں سے(عیسائی روایات کے مطابق) حضرت عیسیٰؑ کی میت غائب ہوگئی تھی، ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب ہونے سے قبل آسمانوں پر اٹھا لیا تھا جب کہ عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰؑ مصلوب ہوئے تھے اور ان کی میت صلیب سے اتار کر قریبی غار میں رکھ دی گئی تھی، تیسرے دن جب آپ کے حواری اس غار میں گئے تو میت غائب تھی، اس کے بعد حضرت عیسیٰؑ نے اپنے حواریوں کے خواب میں آکر فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا ہے اور میں اب دوبارہ دنیا میں آؤں گا۔
اس غار کوSepulchre یا Resurrection کہا جاتا ہے، عیسائیوں نے بعدازاں اس کے اندر ایک چھوٹا سا چرچ بنا دیا، یہ عیسائیوں کا مقدس ترین چرچ سمجھا جاتا ہے، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے اس چرچ کی چابی پچھلے چودہ سو سال سے مسلمان خاندان کے پاس ہے، یہ لوگ آل نسیبتہ کہلاتے ہیں، حضرت عمرؓ کے دور میں چرچ کی ملکیت پر عیسائی لڑ پڑے تھے۔
یہ معاملہ حضرت عمرؓ تک آیا تو آپؓ نے یہ چابی 637ء میں مسلمان خاندان کے حوالے کر دی اور یہ آج تک اسی خاندان کے پاس ہے، یہ لوگ روزانہ چرچ کھولتے اور بند کرتے ہیں چناں چہ اسرائیل میں چرچ کے محافظ مسلمان ہیں جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمان نذیرمسیح کا صرف شک کی بنیاد پر اینٹوں سے قیمہ بنا دیتے ہیں اور اس کا گھر اور فیکٹری جلا دیتے ہیں چناں چہ اصل مسلمان کون ہوئے؟ آل نسیبتہ یا آل مجاہد کالونی، فیصلہ آپ خود کر لیں۔