عرفان صدیقی میرے دوست ہیں، جاپان میں بزنس اور صحافت کرتے ہیں، جاپانی گاڑیاں لاطینی امریکا اور افریقہ ایکسپورٹ کرتے ہیں، خوش حال جاپانی پاکستانی ہیں، کیریئر کا آغاز صحافت سے کیا تھا اور یہ شغل آج بھی جاری ہے، کالم بھی لکھتے ہیں اور رپورٹنگ بھی کرتے ہیں۔
یہ چند دن کے لیے اسلام آباد تشریف لائے اور مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا، گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان میں بے انتہا غربت تھی، 1960تک ان کے بچے خوراک کی قلت کا شکار تھے، یہ بچے لاغر اور کم زور پیدا ہوتے تھے اور ان کی پرورش میں بھی کمی رہ جاتی تھی۔
لہٰذا ان کے قد چھوٹے، ہڈیاں کم زور، وزن کم اور رنگ پیلے تھے، جاپانی اس دور میں 24 گھنٹے میں صرف ایک کھانا کھاتے تھے، انھوں نے اس دور میں اندازہ کیا ہم اگر دن تین بجے کھانا کھائیں تو چوبیس گھنٹے گزار سکتے ہیں چناں چہ یہ دن تین بجے کھانا کھاتے تھے اور اگلی خوراک کی باری اگلے دن آتی تھی۔
اس وقت ان کی حالت یہ ہوتی تھی پاکستان نے 1957میں چاولوں سے بھرا ہوا ایک بحری جہاز ٹوکیو بھجوایا، جہاز پر جاپان کی امداد کے لیے پاکستان کا تحفہ لکھا ہوا تھا اور اس کی تصویریں باقاعدہ اخبارات میں شایع ہوئیں اور پورے جاپان نے ہاتھ جوڑ کر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا، جاپانیوں کو آج بھی پاکستان کا یہ احسان یاد ہے۔
میں نے عرفان صاحب سے عرض کیا، جاپان دنیا کے ان چار ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات شروع دن سے حیران کن رہے، ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان اور بھارت کو 15 اگست 1947 کو آزادی دینا چاہتے تھے۔
اس کی وجہ جاپان تھا، جاپان نے 1945میں 15 اگست کو امریکا کے سامنے سرینڈر کیا تھا، اتحادی فوجیں (امریکا، برطانیہ اور یورپی ملک) 15 اگست کو یوم فتح کے طور پر مناتے تھے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خواہش تھی 15 اگست 1947 کو جب پورا برطانیہ یوم فتح منا رہا ہوتو بھارت اور پاکستان کی پیدائش اس وقت ہوتاکہ ہر سال جب ان دونوں ملکوں کے لوگ آزادی کی تقریبات منائیں تو اس وقت جاپانی افسردہ ہوں اور یہ کھیل تاابد جاری رہے۔
یہ منصوبہ جب قائداعظم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً انکار کر دیا، قائد کا کہنا تھا “ہم اپنا یوم آزادی کسی دوسری قوم کے یوم شکست پر نہیں رکھیں گے” لہٰذا قائداعظم کے اصرار پر پاکستان 14 اگست کو آزاد ہوا جب کہ جواہر لال نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا پروپوزل قبول کر لیا جس کے نتیجے میں بھارت 15اگست کو آزاد ہوا اور یہ آج بھی جاپان کے یوم شکست پر اپنا یوم آزادی مناتا ہے۔
جاپانی آج تک پاکستان کا یہ احسان نہیں بھولے، دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپان نے تاوان ادا کرنا شروع کیا (یہ آج بھی امریکا کو ہر سال 10 بلین ڈالر ادا کرتا ہے)، پاکستان کا اس تاوان میں چھٹا حصہ تھا، قائداعظم نے اس وقت اپنا یہ حصہ بھی جاپان کو معاف کر دیا تھا جب ہمارے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے رقم نہیں تھی۔
جاپانی آج تک یہ احسان بھی نہیں بھولے اور پاکستان نے اپنے ابتدائی دنوں میں جاپان کو نقد امداد بھی دی اور جاپان کو آج تک یہ بھی یاد ہے چناں چہ کہنے کا مقصد یہ ہے ایک پاکستان ایسا بھی ہوتا تھا۔
ہماری دریا دلی صرف جاپان تک محدود نہیں تھی، ہم نے 1950 کی دہائی میں جرمنی کو پانچ کروڑ روپے قرض دیا تھا، پولینڈ کے متاثرین کو پناہ دی تھی، چین کا دنیا کے ساتھ رابطہ کرایا تھا، پی آئی اے دنیا کی پہلی ائیرلائین تھی جس نے چین کی سرزمین کو چھوا تھا اور ماؤزے تنگ اور چو این لائی نے ائیرپورٹ آ کر ہماری فلائیٹ کا استقبال کیا تھا۔
ہم نے ماؤزے تنگ کو ذاتی استعمال کے لیے جہاز بھی گفٹ کیا تھا، یہ جہاز آج بھی چین کے میوزیم میں پاکستان کے شکریے کے ساتھ کھڑا ہے، ہم نے اپنے ترک بھائیوں کی قیام پاکستان سے پہلے بھی مدد کی تھی اور قیام کے بعد بھی، ترکی کے زیادہ تر امرائ، فوجی افسروں اور سیاست دانوں کے بچے پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
ہم نے استنبول میں پہلا بوئنگ طیارہ اتارا تھا اور ترکی نے اس کے لیے ائیرپورٹ پر نیا رن وے بنایا تھا اور پوری کابینہ اس کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ گئی تھی، ہم نے مراکو، تیونس اور الجزائر کی آزادی میں بھی مرکزی کردار ادا کیا، پاکستان نے ان کی سیاسی قیادت کو پاسپورٹ بھی دیے اور اقوام متحدہ میں اپنے بینچ سے انھیں خطاب کا موقع بھی دیا۔
چین اور امریکا کا پہلا رابطہ اور ہنری کسنجر اور صدر رچرڈ نکسن کے چین کے پہلے دورے کا انتظام بھی ہم نے کیا تھا، چین میں لوہے کا پہلا کارخانہ پیکو کی طرز پر لگا تھا اور چو این لائی اسے دیکھنے کے لیے اپنے ماہرین کے ساتھ 1960کی دہائی میں لاہور آئے تھے، ایران کی ترقی اور یورپ اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا، شاہ ایران ہر دوسرے ماہ پاکستان کا دورہ کرتے تھے اور پاکستان کی ترقی کو حیرت سے دیکھتے تھے۔
فلسطین کے لیے پہلی عالمی آواز بھی ہم نے اٹھائی تھی، شام، اردن اور مصر کی سفارت کاری، آزادی اور بحالی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا، سعودی عرب میں 1970 تک پاکستان سے زکوٰۃ جاتی تھی اور سعودی شہری خانہ کعبہ میں پاکستانیوں کے رزق میں اضافے کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔
یو اے ای کی ترقی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا، دنیا کی چوتھی بہترین ائیرلائین ایمریٹس کا کوڈ (ای۔ کے) ہے، اس کا “کے” کراچی ہے، یہ ائیر لائین کراچی سے اسٹارٹ ہوئی تھی، ہم نے انھیں جہاز بھی دیا تھا اور عملہ بھی لہٰذا یہ آج بھی ای۔ کے (امارات کراچی) ہے، مالٹا کے بچوں کے سلیبس میں پی آئی اے کا پورا باب ہے۔
سنگا پور ائیرلائین اور پورٹ دونوں پاکستانیوں نے بنائیں، انڈونیشیا اور ملائیشیا کی اشرافیہ کے بچے پاکستان میں پڑھتے تھے، ملائیشیا کا آئین تک پاکستانی وکلاء نے لکھا تھا، جنوبی کوریا کی گروتھ میں محبوب الحق کے پانچ سالہ منصوبے کا اہم کردار تھا، بھارت 1990کی دہائی میں پاکستان سے بجلی خریدتا رہا اور من موہن سنگھ نے “شائننگ انڈیا” کا پورا منصوبہ پاکستان سے لیا تھا۔
دنیا کی تین بڑی انجینئرنگ فرمز نے1960ء کی دہائی میں کنسورشیم بنا کر منگلا ڈیم کی “بڈ” کی تھی اور ہارورڈ یونیورسٹی کی انجینئرنگ کلاس کے طالب علم جہاز بھر کر مطالعے اور مشاہدے کے لیے منگلا آتے تھے اور اس منصوبے کوحیرت سے دیکھتے تھے۔
مسلم دنیا کے 27 ملکوں کے فوجی افسر پاکستانی اکیڈمیوں میں ٹرینڈ ہوئے اور بعدازاں اپنے اپنے ملکوں میں آرمی چیف بنے، یو اے ای کے فرمانروا زید بن سلطان النہیان 1970 کی دہائی تک پاکستان کے دورے پر آتے تھے تو ان کا استقبال کمشنر راولپنڈی کرتا تھا، ہمارے وزیر بھی ائیرپورٹ نہیں جاتے تھے اور سب سے بڑھ کر 1961میں جب ایوب خان امریکا کے دورے پر گئے تھے تو پوری امریکی کابینہ نے صدر جان ایف کینیڈی سمیت ائیرپورٹ پر ان کا استقبال کیا اور صدر ایوب خان ائیرپورٹ سے وائٹ ہاؤس کھلی گاڑی میں گئے اور سڑک کی دونوں سائیڈز پر امریکی عوام پھول لے کر کھڑے تھے اور پاکستان زندہ باد اور ویل کم، ویل کم کے نعرے لگا رہے تھے۔
پاکستان نے ایک دور ایسا بھی دیکھا جب دنیا حیرت سے اس کی طرف دیکھتی تھی اور یہ جرمنی اور جاپان جیسے ملکوں کو قرضے اور امداد دیتا تھا لیکن پھر اس ملک پر ایک ایسا دور آیا جس میں ہم ایک ارب ڈالر کے لیے دنیا کے دروازے پر بھکاری بن کر بیٹھے ہیں اور دنیا ہمیں غرور اور نفرت سے دیکھ رہی ہے۔
ایک وقت تھا جب ہم ویزے کے بغیر پوری دنیا میں سفر کرتے تھے اور ایک وقت اب ہے جب ہمیں افغانستان کے ویزے کے لیے بھی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، ایسا کیوں ہوا؟ ہم نے کبھی سوچا؟ ہمیں ماننا پڑے گا ہم نے بڑی محنت اور جدوجہد سے اس ملک کو برباد کیا ہے، ہم نے اس کی عزت اور وقار کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مٹی میں ملایا ہے مگر سوال پھر وہی ہے کیا ہمارے پاس واپسی کی کوئی گنجائش ہے۔
جی ہاں ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، ہم تاحال ایک قوم ہیں اور ہمارا جغرافیہ بھی بحال ہے لہٰذا ہم اگر آج بھی نیند سے جاگ اٹھیں، ہم اپنے حال پر رحم کریں تو ہم دس بیس برسوں میں دوبارہ اس لیول پر آ سکتے ہیں جس پر ہم دوسرے ملکوں کو امداد اور قرض دیں لیکن اس کے لیے ہمیں چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔
وہ فیصلے کیا ہیں؟ ہمیں سب سے پہلے سیاسی انجینئرنگ بند کرنا ہوگی، ملک میں پانچ سال بعد الیکشن ہوں اور یہ فری اینڈ فیئر ہوں، اسٹیبلشمنٹ الیکشن مینج نہ کرے، کسی عہدیدار کو(سویلین ہو یا ملٹری) ایکسٹینشن نہ دی جائے، کوئی بھی سیاست دان دو یا حد تین سے زیادہ مدت تک وزیراعظم نہ رہ سکے، ملک کو بزنس فرینڈلی بنایا جائے۔
کوئی بھی شہری یا غیر ملکی ملک میں کمپنی کھول سکے اور کاروبار کر سکے اور حکومت اسے پانچ سال تک ٹیکس کی رعایت دے، ہم فوری طور پر آبادی کنٹرول کریں اور 30 سال کی عمر تک تمام لوگوں کو ہنر مند بھی بنائیں، ملک میں کوئی شخص بے ہنر اور بے روزگار نہ ہو، کام کو لازم قرار دے دیا جائے اور جو شخص کام نہ کرے۔
پولیس اسے گرفتار کرے اور اپنی نگرانی میں اسے کام پر چھوڑ کر آئے اور اس کی آدھی تنخواہ بحق سرکار ضبط کر لی جائے اور آخری مشورہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک ہی بار بیٹھ کر اگلے 20 سال کا قومی منصوبہ تیار کر لیں اور پھر کوئی شخص اسے چھیڑنے کی جسارت نہ کرے اور جو کرے اسے قرار واقعی سزا دی جائے، آپ یقین کریں ہم ان چند اقدامات سے ایک بار پھر عزت اورآبرو کی شاہراہ پرآ سکتے ہیں ورنہ ہم اسی طرح بھیک مانگ مانگ کر ختم ہو جائیں گے اور تاریخ کے اوراق میں ہمارا ذکر تک نہیں ہوگا۔