مرتینا کا بیٹا ہرقلیوناس وہاں موجود تھا اس نے دیکھا کہ کونتانس اس کی ماں پر اتنا سنگین الزام لگا رہا ہے تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور تلوار نکال لی۔
میری ماں پر یہ الزام ۔۔۔ہرقلیوناس نے للکار کر کہا ۔۔۔ادھر میرا سامنا کر میں تجھے اس الزام کا جواب دیتا ہوں۔
کونتانس تو پہلے ہی قہر و غضب کے غلبے میں آیا ہوا تھا اس نے بھی تلوار نکال لی اور ہر قلیوناس کو مقابلے کے لیے للکارا۔
قیرس اور ایک اور معمر رومی دوڑ کر ان دونوں کے درمیان آگئے وہ نہ آتے تو دونوں شہزادے ایک دوسرے کو لہو لہان کر لیتے ۔
ٹھہرو!،،،، مرتینا نے بڑی با آواز میں کہا۔۔۔ میرا حکم مانو میں ملکہ روم ہوں، تلواریں نیاموں میں ڈال لو۔
تم ملکہ نہیں ہوں۔۔۔ کونتانس نے کہا۔۔۔ کوئی ایسا شاہی فرمان جاری نہیں ہوا، تخت کی وراثت کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ حکم میرا بھی چل سکتا ہے۔
وہاں جتنے بھی لوگ موجود تھے وہ سب اونچے درجے کی شخصیت تھیں۔ سب ذمہ دار لوگ تھے۔ اور صورتحال کی نزاکت اور خطرات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ سبھی اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں شہزادوں کو الگ الگ کیا وہاں تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا تھا ۔کونتانس کسی کے ہاتھ نہیں آرہا تھا وہ بار بار کہتا تھا کہ اس لڑکے نے مجھے للکارا ہے مجھے اس سے دو ہاتھ دکھا لینے دو۔ پھر وہ یہ بھی کہتا تھا کہ اس بدطینت عورت سے کہو کہ اپنے آپ کو روم کی ملکہ نہ کہے۔ انہیں الگ الگ اور کچھ دور دور بیٹھا دیا گیا۔ قسطنطین کی لاش بےحس و حرکت اور دنیا کے ان مسائل سے بے نیاز قریب ہی پڑھی تھی۔
وہ معمر جو سب سے پہلے قیرس کے ساتھ ان دونوں شہزادوں کے درمیان آیا تھا سب کے درمیان کھڑا ہو گیا اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر سب کو چپ کرانے لگا ۔بڑھاپے کی کمزوری سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اس کے گورے سے چہرے کی گہری لکیریں بتا رہی تھیں کہ اسے اس دنیا میں آئے ہوئے ایک صدی گزر چکی ہے۔ شاہی خاندان کے ساتھ اس کا کوئی بڑا پرانا ہی تعلق تھا۔ اور اس کی آواز میں بڑھاپے کے ساتھ ساتھ دلی درد کا بھی تاثر تھا۔ وہ کوئی عام سا دانشور نہیں لگتا تھا اور اس سے سب شاید پہلے ہی متاثر تھے کہ اس کے کہنے پر سب خاموش ہوگئے۔
تم سب بےغیرت ہو گئے ہو۔۔۔ اس سفید ریش بزرگ نے کہا۔۔۔ آج میں ایسی بات کہوں گا جو رعایا میں سے کوئی بھی شخص شاہی محل میں کھڑا ہو کر نہیں کہہ سکتا ۔اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کا خون بہا دو میری بات سن لو پھر تم سب اپنی تلواریں میرے جسم میں اتار دینا۔ سب جانتے ہو کہ میری عمر سو سال سے زیادہ ہو گئی ہے تم سب نے دیکھا ہے کہ سلطنت روم بحیرہ روم سے آگے جاکر مصر، شام، اور عراق کے کچھ علاقے تک پھیل گئی تھی اور اب عرب کو بھی تیغ کرنا تھا۔ شاہ ہرقل کہا کرتا تھا کہ فارسیوں کو ناپید کر کے آگے ہندوستان پہنچے گا۔ اپنی سلطنت کی یہ وسعت تم سب نے دیکھی ہے ۔ ہرقل نے سلطنت کو وسعت دینے کے لیے ہی قیصر روم فوقاس کا تختہ الٹا تھا ۔ وہ وقت مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ فوکاس عیاش بادشاہ تھا ،وہ بذات خود اپنی سلطنت کے لئے بہت بڑا خطرہ تھا ،ہرقل تو ایک جرنیل تھا اس نے فوکاس کو پہلے گرفتار کیا، پھر قتل کیا اور پھر فتوحات کے ارادے سے نکل کھڑا ہوا، اس کی کامیابیاں تم سب نے دیکھی ہیں،،،،، ہرقل نے آتش پرست فارسیوں کو مصر سے نکالا پھر شام سے بےدخل کیا اور اب عراق سے انہیں نکالنا تھا یہ کام عرب کے مسلمانوں نے کر دیا۔ عربوں کی طاقت ہی کیا تھی، ہرقل کہتا تھا کہ ان تھوڑے سے عربوں کو تو وہ ایک ہی ضرب سے مار بھگا دے گا لیکن ہوا کیا؟
یہ تھوڑے سے عرب سلطنت روم پر چھا گئے۔
کیوں؟
ان کے پاس کیا جادو تھا۔ جس کے زور پر انہوں نے ہمیں شام سے دھکیلا اور مصر بھی فتح کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ادھر فارسیوں کو بھی انہوں نے ٹھکانے لگا دیا ہے،،،،،، میں تمھیں اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں ہماری تباہی کی وجہ صرف یہ ہے کہ شاہ ہرقل نے مذہب میں دخل اندازی کی، مذہب میں ملاوٹ کی اور یسوع مسیح کو دھوکہ دیا ۔اس کے نتیجے میں مذہب دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک اسقف اعظم پہلے موجود تھا دوسرا ہرقل نے اپنی طرف سے بنا دیا۔ سلطنت روم پر شاہ ہرقل کے اس گناہ کی لعنت پڑی ہے۔ ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس ہم میں موجود ہے یہ یقینا ناراض ہو گا لیکن مجھے اس کی خوشنودی نہیں بلکہ سلطنت روم کا وقار زیادہ عزیز ہے۔ مجھے امید ہے کہ قیرس جھوٹ نہیں بولے گا اس نے قاتل وغارت کے ذریعے شاہ ہرقل کی عیسائیت لوگوں سے منوائی۔ یسوع مسیح نے ہمیں پیار اور محبت کا پیغام دیا تھا شاہ ہرقل اور قیرس نے بے گناہوں کا اور سچے مذہب کے پیروکاروں کا خون بہا دیا ۔ ہمارے دشمن تو دشمن تھے ہی۔ یہاں یہ حادثہ یہ ہوا کہ اپنے قبطی عیسائی بھی سلطنت روم کے دشمن ہو گئے۔
یہ بزرگ رومی بڑی جرات اور دانشمندانہ انداز سے بولتا جا رہا تھا ،،،،،،اور سننے والے اتنے زیادہ لوگوں پر سکوت طاری تھا۔ قیرس نے اپنے خلاف الزام سن کر ذرا سے بھی ردعمل کا اظہار نہ کیا۔
جانتے ہو عربی مسلمان کیوں کامیاب ہوئے؟۔۔۔۔ معمر رومی دانشور کہہ رہا تھا۔۔۔ صرف اس لئے کہ انہوں نے اپنے مذہب کو ایک رکھا، ایک ہی خدا اور اپنی ایک مقدس کتاب کی پیروی کی ، اور پھر متفق اور متحد رہے، میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا مذہب سچا ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ مسلمان سچے ہیں، اپنے عقیدے کے وفادار ہیں ،مذہب خون خرابے اور ظلم و تشدد سے نہیں پھیلایا جاسکتا میں اپنی بات کو تعصب سے پاک رکھ کر کہہ رہا ہوں کہ مسلمانوں نے حسن اخلاق سے غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں لے لیا ہے ۔ تم دیکھو گے دنیا دیکھے گی کہ آج کے دور کی باتیں اور ہر دور کی باتیں لکھنے والے آنے والی نسلوں کو بتائیں گے کہ جس روز ہماری طرح مسلمانوں نے بھی اپنے مذہب کو بانٹ بانٹ کر فرقے بنا لئے اسی روز ان کا زوال شروع ہو گیا ۔ تم نے تجربہ کر دیکھا ہے فرقوں میں بٹ جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اپنی قوم کے دشمن کو پہچاننے اور انکے ساتھ نمٹنے کی بجائے فرقے ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر آپس میں لڑنے لگتے ہیں جسے خانہ جنگی کہا جاتا ہے،،،،،،،
پھر جس قوم کے بڑوں میں حکومت اور اقتدار کی ہوس پیدا ہوجاتی ہے وہ زوال پذیر ضرور ہوتی ہے ۔اب ہم میں بھی یہ تنازعہ پیدا ہوگیا ہے کہ بادشاہ کے مر جانے کے بعد تخت کا وارث کون ہوگا ۔ یہ نہ سمجھنا کہ میں بوڑھا گھر بیٹھا ریشہ گیر رہتا ہوں اور مجھے کچھ پتہ ہی نہیں کہ میرے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ میری روح سلطنت روم میں ہے میرے اپنے مخبر سرگرم رہتے ہیں اور میں جانتا ہوں شاہی محل میں کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں ۔ تم تخت کی وراثت پر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں بھی کر رہے ہو، اور تمہاری تلواریں بھی نیاموں سے نکل آئی ہیں، عرب کے مسلمانوں میں ایسا کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں ان کے ہاں نہ تخت ہے نہ تاج۔ ایک اللہ ہے جس کا سب حکم مانتے ہیں۔ آج تم نے تلواروں سے وراثت کا مسئلہ حل کرنا شروع کیا ہے تو یہی رسم شروع ہوجائے گی اور بات وہاں جا ختم ہو گی جب مسلمان بحیرہ روم عبور کر کے یہاں آن پہنچیں گے اور تمہارے تخت و تاج کو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ مرتینا اپنے آپ کو ملکہ بنائے ہوئے ہے اور کونتانس کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ شاہ ہرقل اور قسطنطین کو مرتینا نے زہر دے کر مروایا ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
کونتانس اس الزام کا ثبوت پیش کرے۔۔۔ ایک جرنیل نے جو مرتینا کا حامی تھا اٹھ کر کہا۔۔۔ ملکہ پر ایسا سنگین الزام لگانا بجائے خود ایک سنگین جرم ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہر طرف سے یہ آواز اٹھنے لگی کہ کونتانس ثبوت پیش کرے۔ دو تین ایسی آوازیں بھی آئیں کہ وہ ثبوت پیش نہیں کرسکتا تو تخت کی وراثت سے دستبردار ہوجائے۔
میں شہادت پیش کروں گا ۔۔۔کونتانس نے کہا۔۔۔ لیکن یہ بھی سن لو اگر میرے پیش کئے ہوئے گواہوں کو کسی نے ڈرایا یا دھمکایا یا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو میں اس کے خلاف تلوار کی زبان میں بات کروں گا ۔
اب وہ جرنیل اور حاکم وغیرہ بولنے لگے جو مرتینا کے خلاف اور قسطنطین کے حامی میں سے تھے، وہ کہتے تھے کہ گواہوں کو بلایا جائے اور انھیں بولنے کی اور ثبوت پیش کرنے کی پوری آزادی دی جائے گی۔
دونوں طبیب وہاں موجود تھے ایک تو وہ طبیب تھا جس نے ہرقل کے علاج کے پردے میں اسے زہریلی دوائیاں دی تھی، اور پھر اس نے قسطنطین کا علاج شروع کیا تھا۔ دوسرا وہ طبیب تھا جسے پہلے طبیب کی جگہ بلایا گیا تھا اور اس نے تشخیص یہ کی تھی کہ قسطنطین کو کوئی زھریلی چیز دی گئی ہے۔
کونستانس نے حرم کی تین لڑکیوں کو بلوایا ایک تو میریا تھی جس کا تفصیلی ذکر پہلے آچکا ہے، دو اور لڑکیاں تھیں جنہیں مرتینا نے قیرس کو خوش کرنے کے لئے اس کے پاس رات کو بھیجا تھا یہ تینوں لڑکیاں حکم ملتے ہی آگئیں۔
کونستانس نے سب سے پہلے دوسرے طبیب سے کہا کہ وہ سب کے سامنے کھڑا ہو کر بتائے کہ اس نے کیا تشخیص کی تھی۔
اس طبیب نے بیان دیا کہ اسے قسطنطین کے علاج کے لئے اس وقت بلایا گیا تھا جب پہلا طبیب چھ سات دن قسطنطین کا علاج کرتا رہا تھا ،اس وقت تک مریض کی حالت خاصی بگڑ چکی تھی، اس طبیب نے اپنی تشخیص یہ بتائی کہ اس نے مریض کی علامت دیکھی تو اس نے یقین کی حد تک محسوس کیا کہ مریض نے غلطی سے کوئی زہریلی چیز کھائی ہے یا اسے زہریلی چیز دی گئی ہے ۔ طبیب نے طب کے کچھ حوالے دے کر بتایا کہ یہ علامت صرف زہر کی ہوتی ہے، جن کا علاج زہرخورانی کے فوراً بعد ہوسکتا ہے۔ لیکن قسطنطین کی حالت اس مرحلے تک پہنچ چکی تھی جہاں زہر جسم کے اندر اپنے اثرات مکمل کرچکا تھا اور یہ مرحلہ لاعلاج ہوتا ہے، اس کے دو روز بعد مریض فوت ہو گیا۔
یہ جھوٹ ہے۔۔۔ پہلے طبیب نے اٹھ کر چیخنا چلانا شروع کر دیا ۔۔۔یہ شخص پیشہ وارانہ حسد کا اظہار کررہا ہے ،اسے شک ہے کہ ملکہ مرتینا مجھے زیادہ چاہتی ہیں اس لئے یہ مجھ سے جلتا ہے اور اتنا سنگین اور جھوٹا الزام عائد کر رہا ہے۔
ابھی خاموش بیٹھے رہو۔۔۔ معمر بزرگ نے کہا۔۔۔ تمہارا بیان بھی لیا جائے گا پھر جو جی میں آئے کہنا اس طرح دخل اندازی نہ کرو۔
تمام حضرات اسی بات پر غور کریں۔۔۔ بیان دینے والے طبیب نے کہا ۔۔۔میں نے یہ تو کہا ہی نہیں کہ اس طبیب نے ہر قل یا قسطنطین کو زہر دیا ہے ۔اس شخص کا اتنا شدید احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ اسے معلوم تھا کہ مریض کے اندر کوئی زھریلی چیز گئی ہے یا اس نے خود مریض کو کوئی زھریلی چیز دی ہے۔ مجھے اس وقت کوئی پرواہ نہیں کہ میرے الفاظ سے کوئی ایسا اثر لیتا ہے۔ میرے پیش نظر علم طب کی عظمت اور سچائی ہے مجھے بہت ہی دکھ ہے کہ جس مریض کا علاج میں نے شروع کیا تھا وہ مریض فوت ہو گیا ہے۔
وہاں جو لوگ موجود تھے ان میں پہلے طبیب کے متعلق کھسر پھسر شروع ہوگئی، دوسرے طبیب کا بیان تو ختم ہو گیا تھا لیکن اس نے یہ کہہ کر اپنا بیان ختم کیا کہ اس شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل اور تجربہ کار طبیب موجود ہیں انھیں بلا کر لاش دکھائی جائے لاش کا رنگ بتا رہا ہے کہ مرنے والے کو زہر دیا گیا تھا۔
اب تو ان لوگوں میں جو وہاں موجود تھے اچھی خاصی بے چینی نظر آنے لگی تھی۔
کونستانس نے میریا کو آگے بلایا،
دل سے سب خوف اور خطرے نکال دو میریا!،،،،،، کونستانس نے کہا ۔۔۔آج یہاں کوئی بادشاہ اور کوئی ملکہ نہیں یہ جو ہمارے بزرگ یہاں بیٹھے ہیں آج ان کی حکومت ہے اور ہر فیصلے کا اختیار ان کے پاس ہے تم نے مجھے اس طبیب کی جو باتیں بتائی تھیں وہ ساری کی ساری ان سب بزرگوں کو سنا دو۔
میریا نے اس سے پہلے طبیب کے متعلق جس نے ہرقل کا علاج کیا تھا ساری بات سنا ڈالی۔ اس نے بات یہاں سے شروع کی کہ ایک روز اسے مرتینا نے بلا کر کہا تھا کہ آج رات اس نے طبیب کے پاس رہنا ہے۔ مرتینا نے اسے خاص طور پر کہا تھا کہ طبیب کو ایسی تفریح مہیا کرنی ہے کہ وہ مرتینا کا دیوانہ ھوجائے۔ میریا ساری بات سمجھتی تھی حرم میں اسکا اور کام ہی کیا تھا۔ پھر میریا نے بتایا کہ اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ اس طبیب سے اپنے جسم کو بچائے رکھنا ہے ۔ اس نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ شخص بہت ہی ڈھیلا اور کمزور ہے اور اسے زندگی میں پہلی بار میریا جیسی حسین اور دلکش لڑکی ملی ہے۔
پہلے اس کا بیان تفصیل سے گزر چکا ہے کہ میریا نے کونستانس کو اس رات کا سارا واقعہ پوری تفصیل سے کس طرح سنایا تھا ،وہی باتیں میریا نے سب کو سنائی اور کہا کہ طبیب پر ایک تو اس کے حسن و شباب کا نشہ طاری ہو گیا تھا۔ اور جو کسر رہ گئی تھی وہ میریا نے اس طرح پوری کردی کے طبیب کو شراب پلاتی چلی گئی اور پھر طبیب نے ایسی باتیں کہنی شروع کر دی جو وہ ہوش و حواس میں کبھی نہ کہتا۔
میریا نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے طبیب سے پوچھا کہ شاہ ہرقل کا جانشین کون ہوگا؟،،،،، طبیب نے جواب دیا کہ جسے میں چاہوں گا ۔پھر اس نے کہا کہ مرتینا کے بیٹے کے سوا اس تخت پر کوئی نہیں بیٹھ سکتا ۔میریا نے پھر سب کو یہ بتایا کہ اس نے طبیب سے پوچھا کہ شاہ ہرقل کا حکم کچھ اور ہوا تو کیا ہو گا طبیب نے یہ جواب دیا کہ شاہ ہرقل کی جان میری مٹھی میں ہے۔ میں چاہوں تو کل اس کے جسم سے جان نکال سکتا ہوں لیکن جو کام آہستہ آہستہ ہو جائے وہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
اس طرح تفصیلی باتیں اور چھوٹی چھوٹی باتیں سنا کر میریا نے سب پر کم از کم یہ ثابت کر دیا کہ اسے مرتینا نے طبیب کے پاس ایک انعام یا رشوت کے طور پر بھیجا تھا۔ میریا کا بیان سن کر سب میں کھسر پھسر پہلے سے زیادہ اور ذرا بلند ہوگئی۔ وہ یقیناً سوچ رہے ہونگے کہ مرتینا نے طبیب کو اتنا خوبصورت انعام دیا ہی کیوں تھا۔ میریا تو شاہ رقل کے حرم کی لڑکی تھی۔
اس کے بعد حرم کی دوسری دو لڑکیوں میں سے ایک نے بیان دیا، یہ لڑکی بھی میریا جیسی ہی حسین اور بلا کی دلکش تھی، اس نے بتایا کہ قسطنطین کی بیماری کے دوران جب یہی طبیب اس کا علاج کر رہا تھا تو مرتینا نے اس لڑکی کو طبیب کے گھر ایک رات کے لیے بھیجا تھا۔
ایسا ہی بیان دوسری لڑکی نے بھی دیا اسے بھی طبیب کے یہاں ایک رات کے لئے بھیجا گیا تھا۔
ملکہ مرتینا!،،،،،، معمر رومی بزرگ نے اٹھ کر کہا۔۔۔ کیا میں آپ سے اس سوال کے صحیح جواب کی توقع رکھ سکتا ہوں کہ آپ نے ان تین لڑکیوں کو طبیب کے یہاں کیوں بھیجا تھا؟
میں انکار نہیں کر رہی،،،،، مرتینا نے جواب دیا۔۔۔ پہلے میں طبیب کو صرف اس لئے خوش رکھنا چاہتی تھی کہ یہ شاہ ہرقل کا علاج پوری دلچسپی اور محنت سے کرے۔ پھر میں قسطنطین کی بیماری سے اتنی پریشان ہوئی کہ طبیب کو ایک بار پھر خوش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
شاہ ہرقل بھی مرگیا ،اور قسطنطین بھی زندہ نہ رہ سکا۔۔۔۔ ایک اور عمر رسیدہ عالم نے کہا۔۔۔ اگر آپ ملکہ ہیں تو آپ کے اس جواب کو ہم صرف اس لیے تسلیم نہیں کریں گے کہ آپ ملکہ ہیں آپ کا جواب ہمیں مطمئن نہیں کر سکا ۔
کونستانس کھڑا ہوا اور سب کے سامنے جا کر اس نے ہاتھ اوپر کئے کہ سب خاموش ہو جائیں۔
میں ایسا دعوی نہیں کروں گا کہ میں اسی عمر میں آپ بزرگوں جیسا دانش مند ہوگیا ہوں۔۔۔ کونستانس نے کہا۔۔۔ آپ سب نے دیکھ لیا ہے کہ مرتینا اور طبیب اس الزام کو نہیں مان رہے، اور مانے گے بھی نہیں، مجھے یقین ہے کہ میرے دادا اور میرے باپ کو مرتینا نے طبیب سے زہر دلوا کر مر والا ہے ۔اب میں اپنا حق آپ سے سے مانگوں گا کہ میں حقیقت کو سامنے لانے کے لیے جو کچھ بھی کرو مجھے روکا اور ٹوکا نہ جائے ۔ یہ بھی ابھی ثابت کرنا باقی ہے کہ دادا اور باپ کو زہر دلوایا گیا تھا۔
سب کو اگر یقین نہیں تو شک ضرور ہوگیا تھا کہ کونستانس کا الزام غلط نہیں اور اس میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے، یہی وجہ تھی کہ سب خاموش رہے اور مرتینا کے حامیوں میں سے بھی کوئی نہ بولا ۔
کونستانس نے ایک ملازم کو بلا کر کہا کہ وہ شاہی محافظ دستے کے دو گھوڑ سواروں کو ساتھ لے آئے اور وہ گھوڑے تیار حالت میں اپنے ساتھ لائیں، اس نے یہ بھی کہا کہ چار لمبی مضبوط رسیاں بھی ساتھ لیتے آئیں۔
تھوڑی ہی دیر میں دو گھوڑ سوار دو گھوڑے لے آئے، کونستانس نے گھوڑوں کے منہ اس طرح رکھیں کہ ایک گھوڑے کا منہ اگر مشرق کی طرف تھا تو دوسرے گھوڑے کو اس گھوڑے کے پیچھے اس طرح کھڑا کیا گیا کہ اس کا منہ مغرب کی طرف تھا۔ دونوں گھوڑوں کے درمیان آٹھ دس قدم کا فاصلہ رکھا گیا ۔کونستانس نے ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ دو رسیوں کے سرے مضبوطی سے باندھ دیے اسی طرح دو رسیاں دوسرے گھوڑے کے ساتھ باندھ دی اور ان رسیوں کے سرے گھوڑوں کے درمیانی فاصلے پر چھوڑ دیے۔
کونستانس آگے بڑھا اور ہرقل کا علاج کرنے والے طبیب کو جا بازو سے پکڑا اور طبیب سمجھ گیا تھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے وہ اپنا بازو چھڑا نے لگا لیکن کونستانس نے اسے زور سے جھٹکا دیا اور کھینچتا ہوا دونوں گھوڑوں کے درمیان لے آیا ،پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے ایک رسی کا سرا طبیب کی ایک کلائی کے ساتھ مضبوطی سے باندھ لیا، دوسری رسی کا سیرا طبیب کے ٹخنے سے باندھ دیا، اس طرح اس نے دوسرے گھوڑے کے ساتھ بندھی رسیوں میں سے ایک کاسیرا طبیب کی کلائی کے ساتھ اور دوسری رسی کا سرا ٹخنے کے قریب اس کی ٹانگ کے ساتھ باندھ دیا، گھوڑ سواروں سے کہا کہ وہ گھوڑوں پر سوار ہو جائیں۔
اب تم میرے اشارے کا انتظار کرنا۔۔۔ گھوڑوں پر سوار ہونے کے بعد کونستانس نے سواروں سے کہا ۔۔۔میں جب ہاتھ اوپر کر کے نیچے کرو تو تم دونوں گھوڑوں کو ایڑ لگا دینا۔
طبیب دونوں گھوڑوں کے درمیان بندھا کھڑا تھا اتنی سی بات وہ سمجھ سکتا تھا کہ دونوں گھوڑے جب اس طرح دوڑیں گے کہ ایک کا رخ مشرق کو اور دوسرے کا مغرب کو ہے تو اس کے بازو اور اس کی ٹانگیں جو رسیوں سے گھوڑوں کے ساتھ بندھی ہے اس کے جسم سے الگ ہو جائیں گی ،اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی ٹانگیں جب دائیں اور بائیں کھینچی گئی تو اس کا جسم دو حصوں میں کاٹ جائے گا۔
بہت بری موت مرو گے۔۔۔ کونستانس نے طبیب سے کہا۔۔۔ سچ بولو اور اپنی جان بخشی مجھ سے کراؤ، مرتینا ملکہ نہیں وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی، سوچ لو تمہاری زندگی میرے اشارے پر ختم ہوجائے گی۔
طبیب کی آنکھیں بند ہو گئی اس نے آسمان کی طرف دیکھا پھر دائیں ایک گھوڑے اور بائیں دوسرے گھوڑے کو دیکھا اور لمبی آہ بھری ۔
میرے خلاف یہ الزام سچ ہے۔۔۔ طبیب نے بلند آواز سے کہا ۔۔۔ میں شاہ ہرقل کو دوائیوں میں ایسا زہر دیتا رہا ہوں جو آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے ۔ پھر قسطنطین کا علاج بھی کرتے ہوئے میں اسے وہی زہر دیتا رہا ہوں جب میرے اس ساتھی طبیب نے علاج شروع کیا تو اس وقت تک زہر اپنا اثر کر چکا تھا۔ قسطنطین کو اب کوئی بھی موت کے منہ سے نہیں نکال سکتا تھا۔ ان مرنے والوں کے ساتھ میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی میں تو ان کا نمک خوار تھا مجھے یہ گناہ ملکہ مرتینا نے کروایا ہے۔
یہ موت کے ڈر سے جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ مرتینا اٹھ کر چلانے لگی یہ میرے خلاف سازش ہے یہ نہیں چاہتے کہ میں ملکہ بنوں۔
وہ ابھی بول رہی تھی کہ وہاں شور و غل برپا ہو گیا، سب مرتینا کے خلاف کچھ نہ کچھ کہہ رہے تھے عجیب بات یہ ہوئی کہ جو جرنیل اور دیگر حاکم وغیرہ مرتینا کے حامی تھے وہ بھی اسے برا بھلا کہنے لگے۔
ابھی طبیب کا بیان ختم نہیں ہوا ۔۔۔کسی نے اٹھ کر کہا ۔۔۔مرتینا کو ابھی بولنے کا کوئی حق نہیں، مرتینا ملزم ہے ملکہ نہیں۔
مرتینا ابھی تک احتجاج کے لہجے میں کچھ نہ کچھ بول رہی تھی لیکن اس کی کوئی سن نہیں رہا تھا ،آخر اسے چپ کرایا گیا اور طبیب سے کہا گیا کہ وہ اپنی بات پوری کرے۔
مجھ سے یہ گناہ ملکہ مرتینا نے کروایا ہے ۔۔۔طبیب نے کہا۔۔۔ یہ بھی سچ ہے کہ ملکہ میرے پاس حرم کی یہ لڑکیاں انعام کے طور پر بھیجا کرتی تھی، یہ مجھے سونے کے ٹکڑے بھی دیا کرتی تھی جو میرے گھر میں رکھے ہوئے ہیں،،،،،، اور اب میں ایسی بات کہنے لگا ہوں جو شاید کئی ایک کو جھوٹی لگے لیکن میں جو سچ بولنے پر آگیا ہوں ذرا سا بھی جھوٹ نہیں بولوں گا ۔ملکہ مرتینا خود ملکہ بننا چاہتی تھی یا اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانے کا ارادہ رکھتی تھی، اس کے دل اور دماغ پر تخت و تاج اس قدر سوار تھے کہ یہ ایک عام عورت کی طرح اپنا آپ میرے حوالے کر دیا کرتی تھی، اور میں اس کے جسم سے پورا پورا لطف اٹھاتا تھا اسے تو میں اپنی زرخرید داشتہ سمجھتا تھا۔
اب ملکہ نے ایک بار پھر اٹھ کر چیخ و پکار شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی اس کا بیٹا ہرقلیوناس بھی اٹھ کھڑا ہوا اور تلوار نکال کر للکارنے لگا کہ وہ اپنی ماں کے خلاف ایسا گھٹیا الزام برداشت نہیں کرے گا ،وہ طبیب کی طرف بڑھا کونستانس اس کے اور طبیب کے درمیان آگیا تین چار اور حاکم اٹھے اور انہوں نے دوڑ کر ہرقلیوناس کو پکڑ لیا اور پیچھے لے آئے۔
طبیب کا بیان ختم ہوچکا تھا کونستانس نے طبیب کے پاس کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ بلند کئے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور سب خاموش ہو جائیں، سب آہستہ آہستہ خاموش ہوگئے۔ کیا اب کوئی شک رہ گیا ہے کہ طبیب میرے دادا اور باپ کا قاتل ہے ۔۔۔کونستانس نے پوچھا اور کہا ۔۔۔میرے سوال کا جواب دو ۔
کوئی شک نہیں رہ گیا بہت سی آوازیں سنائی دیں،۔
طبیب قاتل ہے کیا مجھے حق نہیں کہ میں خون کے بدلے لوں ۔۔۔کونستانس نے پوچھا۔
اس کی تائید اور حمایت میں کئی ایک آوازیں اٹھیں۔
یہ اکیلا قاتل نہیں۔۔۔ کونستانس نے کہا۔۔۔ اس نے لالچ میں آکر یہ گناہ کیا ہے یہ نہ چاہتا تو صاف انکار کردیتا اور شاہ ہرقل کو بتا دیتا کہ وہ اس عورت سے بچے اگر شاہ ہرقل کو یہ بتا دیتا تو شاہ ہرقل مرتینا کو زندہ نہ رہنے دیتا ،اور آج ہم آپس میں نہ لڑ رہے ہوتے کیا میں نے ٹھیک کہا ہے ۔
ایک بار پھر کونستانس کی تائید اور حمایت میں آواز اٹھی ۔
قاتل کی جان بخشی نہیں کی جاسکتی کونستانس نے کہا۔۔۔۔۔اس نے دونوں سواروں کی طرف دیکھا جو پہلے ہی اس کی طرف دیکھ رہے تھے اس نے ہاتھ اوپر کیا اور جھٹکے سے ہاتھ نیچے کرلیا، سوار اسی اشارے کے منتظر تھے انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی وہ بڑے ہی طاقتور جنگی گھوڑے تھے دونوں گھوڑے مخالف سمتوں کو دوڑ پڑے، طبیب کی بڑی ہولناک چیخ سنائی دی دیکھنے والوں پر سناٹا طاری تھا ،طبیب کے بازو اور ٹانگ کھینچی گئی اور آنے واحد میں اس کے دونوں بازو کندھوں سے الگ ہوگئے، پھر دونوں ٹانگیں اس طرح الگ ہوئی کہ اس کے پیٹ کا بھی کچھ حصہ دو حصوں میں لٹک گیا ،اس کے دونوں بازو اور ٹانگیں گھوڑوں کے ساتھ ہی چلی گئیں اور پیچھے اس کا اوپر کا دھڑ رہ گیا۔
گھوڑے کچھ دور جاکر پیچھے مڑے اور پھر وہیں آ کر رک گئے، گھوڑ سواروں نے کونستانس کے کہنے پر گھوڑوں سے رسیاں کھول دیں اور پھر ٹانگیں دھڑ کے قریب رکھ دی، دونوں بازو دھڑ کے اوپر رکھ دیے۔
کونستانس نے ایک ملازم سے کہا کہ جائیے اور شکاری کتوں کو ساتھ لے آئے۔ کچھ ہی دیر بعد پندرہ بیس کتے آگئے جنہوں نے کونستانس کے اشارے پر طبیب کے کٹے پھٹے جسموں کے اوپر چھوڑ دیا ، دیکھتے ہی دیکھتے کتوں نے طبیب کا سارا گوشت کھالیا پیچھے اس کی ہڈیاں رہے گی جو ملازموں نے اکٹھی کیں اور کہیں پھینک دیدیں۔
اس وقت قسطنطین کی لاش محل کے اندر ایک کمرے میں پڑی تھی اور محل کے باہر اس قسم کی عوامی عدالت لگی ہوئی تھی، جس نے ہرقل اور قسطنطین کے قاتل طبیب کو ایسی سزا دی کہ اس کا نام و نشان ہی مٹا ڈالا ۔ ملکہ مرتینا کو ایسی سزا نہیں دی جاسکتی تھی کیونکہ وہ بادشاہ کی بیوی تھی اور ملکہ کہلاتی تھی۔
شاہی خاندان کو تو ویسے بھی قتل معاف تھے۔ ہرقل نے تو مصر میں اپنی رعایا کو بے دردی سے قتل کروایا تھا لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہو گیا تھا۔ مرتینا رعایا میں سے کتنے ہی آدمی قتل کروا دیتی کوئی اس سے باز پرس نہ کرتا۔ لیکن اس نے ایک بادشاہ کو اور بادشاہ کے بیٹے کو قتل کروایا تھا۔ وہاں جو فوجی اور شہری شخصیات موجود تھیں انہوں نے مرتینا کے اس جرم کو نظرانداز نہ کیا۔
مرتینا بڑی ہی ڈھیٹ فطرت کی عورت تھی وہ اب بھی کہہ رہی تھی کہ اس کے خلاف سازش کی گئی ہے اور طبیب کو ڈرا دھمکا کر اس سے یہ بیان دلوایا گیا ہے ۔مرتینا کو دکھ تو یہ دیکھ کر ہو رہا تھا کہ اس کے جو حامی جرنیل وغیرہ تھے اور جو اس کی حمایت میں مرنے مارنے پر اتر آتے تھے وہ اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے ۔ اور اس کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں کہہ رہے تھے۔
مصر میں ایک قلعہ بند شہر نقیوس ہوا کرتا تھا ۔اس شہر کا رہنے والا ایک مشہور تاریخ نویس گزرا ہے جس کا نام حنا تھا۔ اس نے اکثر واقعات پوری تفصیل سے لکھے ہیں دوسرے تاریخ نویس اس کے حوالے دیا کرتے ہیں۔ اس نے لکھا کہ مرتینا کو یہ سزادی گئی کہ وہاں جو لوگ موجود تھے انہوں نے فیصلہ دے دیا کہ مرتینا کو ملکہ نہیں بننے دیا جائے گا اور مرتینا روم کے تخت و تاج کو ذہن سے اتار دے۔
حنا کی تحریر کے مطابق مرتینا اس وقت خاموش ہوگئی لیکن وہ خاموش رہنے والی عورت نہیں تھی۔ اس کی زیادہ تر کاروائیوں پر اسرار اور زمین دوز ہوا کرتی تھیں۔ اگر یہ سارا واقعہ جرنیلوں اور شہری انتظامیہ کے افسروں تک ہی محدود رہتا تو صورتحال سنبھل سکتی تھی، لیکن قسطنطین کی موت کا باعث عوام سے چھپا نہ رہ سکا طبیب کو جس ظالمانہ طریقے سے سزائے موت دی گئی تھی وہ محل کے اندر یا دور کہیں جنگل میں نہیں دی گئی تھی، اس کے جسم کو محل کے باہر چیرا پھاڑا گیا تھا جو کئی لوگوں نے دیکھا اور یہ بات سارے شہر میں پھیل گئی اور شہریوں سے فوج میں جا پہنچی۔
فوجیوں نے جب سنا کہ ہرقل اور قسطنطین کو ملکہ مرتینا نے طبیب سے زہر دلواکر مروایا ہے تو شہری بھی اور فوجی بھی مرتینا کے خلاف بھڑک اٹھے، سپاہی تو اتنی عقل نہیں رکھتے تھے کہ اس واقعے کی گہرائی میں جاتے اور اس کا پس منظر سمجھتے لیکن جرنیلوں کے نیچے عہدوں کے جو افسر تھے وہ مرتینا کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے، وہ کہتے تھے کہ شاہی خاندان کے افراد اگر اس طرح تخت نشینی پر ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے تو سلطنت کا کیا بنے گا۔ یہ افسر مصر جا کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے بے تاب ہوئے جارہے تھے وہ کہتے تھے کہ مصر بھی ہاتھ سے نکل گیا تو پھر سلطنت روم اسی انجام کو پہنچے گی جس انجام تک مسلمانوں نے کسریٰ ایران کی جنگی طاقت کو پہنچایا ہے۔
بعض مستند مورخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مرتینا کے خلاف غم و غصے اور نفرت کا یہ پروپیگنڈہ قسطنطین کے حامی افسروں نے پھیلایا تھا ان جرنیلوں نے جو مرتینا کے مخالف تھے اورجو چاہتے تھے کہ کمک مصر جائے اور مسلمانوں سے مقبوضہ مصر چھوڑائے۔ انہوں نے تو فوج میں درپردہ مرتینا کے خلاف بہت زیادہ نفرت پھیلا دی تھی لیکن انہوں نے یہ دیکھا کہ جس طرح فوج بھڑک اٹھی ہے اس طرح ایسی صورتحال پیدا ہوگئی کہ کمک مصر جا نہیں سکتی۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کمک میں جانے والے دستے الگ کر دیئے گئے تھے، اور وہ روانگی کے حکم کے منتظر تھے ،لیکن ہرقل کی موت اور پھر تخت کی وراثت کے تنازعہ اور پھر قسطنطین کی بیماری اور موت کی وجہ سے کمک نہیں بھیجی جا سکتی تھی۔ اب اس کمک میں ایک ایسی لہر پِھر گئی تھی کہ اس کے افسروں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ مرتینا کے حکم سے نہیں جائیں گے وہ کونستانس کو ہرقل کا جانشین بنانا چاہتے تھے۔
قسطنطین تو اگلے روز دفن ہو گیا لیکن تخت کی وراثت کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ مرتینا کے حامی تو اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے لیکن جو اس کے خلاف تھے انہوں نے فوج کو اس کے خلاف اس قدر بھڑکا دیا کہ بغاوت کے آثار نظر آنے لگے۔ روم کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ فوج میں باغیانہ رجحان نظر آنے لگا تھا۔ بادشاہوں کی فوجوں میں اتنی جرات ہوا ہی نہیں کرتی کہ وہ من مانی کر سکتی اور بادشاہ کے کسی حکم کو نظر انداز کردیتی۔بزنطیہ میں پہلے یہ خطرہ تھا کہ قسطنطین کے حامیوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوجائے گی، لیکن اب بغاوت کا خطرہ پیدا ہو گیا فوج دیکھ رہی تھی کہ قسطنطین کے دفن ہو جانے کے اتنے دنوں بعد بھی کونستانس کو تخت نشین نہیں کیا گیا۔
مرتینا کہیں دبک کر بیٹھ نہیں گئی تھی وہ تو بڑی ہی خوبصورت ناگن تھی تخت کی وراثت کو وہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتی تھی۔
وہ نہیں تو اس نے اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو تخت نشین کرانا ہی تھا ۔
اس نے درپردہ ایک دو جرنیلوں کو خریدنے کی کوشش شروع کردی۔
قیرس دانستہ بہت دن مر تینا سے نہ ملا۔ وہ تو مرتینا کا سب سے بڑا حامی تھا اس نے جب سنا کہ مرتینا زمین دوز کاروائیوں میں مصروف ہے تو ایک روزاس کے یہاں چلا گیا۔
کیا تم بھی میرے دشمنوں سے جا ملے ہو قیرس!،،،،،،،، مرتینا نے کہا ۔۔۔۔تم شاید بھول گئے ہوں کہ میں نے تمہیں کس اونچے مقام تک پہنچا دیا ہے۔
یہ وہم دل سے نکال دو مرتینا!،،،،،،قیرس نے کہا ۔۔۔۔باہر کی صورتحال دیکھو کیا ہے، یہاں بھی قبطی عیسائی اور ان کے حامی موجود ہیں وہ اس قتل و غارت کو نہیں بھولے جو شاہ ہرقل نے میرے ہاتھوں کروائے تھے، کسی کو ذرا سا بھی شک ہو گیا کہ میں تمہارے حامیوں میں سے ہوں تو مجھے قتل کر دیا جائے گا ۔ میں اس کوشش میں ہوں کہ کمک لے کر مصر چلا جاؤں اور مسلمانوں کو وہاں سے نکالو ،تمہاری اور تمہارے بیٹے کی سلامتی کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ مصر کو دوبارہ اپنے قبضے میں لیا جائے۔ کسی بھی وقت تمہارے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے اگر میں نے مصر واپس لے لیا تو تمہیں اور تمہارے بیٹے کو وہاں پناہ مل جائے گی اور پھر ہم دونوں وہاں خودمختاری کا اعلان کر دیں گے ۔ مصر میں میرے لئے یہی ایک مہم نہیں ہوگی کہ مسلمانوں کو پسپا کرنا ہے ۔ بلکہ قبطی عیسائیوں کے دلوں سے اپنی اور ہرقل کے شاہی خاندان کی دشمنی بھی نکالنی ہے۔
دیکھو قیرس!،،،،، مرتینا نے کہا ۔۔۔میں تخت سے دستبردار ہو جاتی ہوں لیکن کسی طرح میرے بیٹے کو تخت کا وارث بنا دو، میں خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گی، اگر کونستانس تخت پر بٹھادیا گیا تو میں تمہیں بتا دیتی ہوں کہ اسے بھی قتل کروا دوں گی، تم جانتے ہو میں کیا کر سکتی ہوں اور کس حد تک پہنچ جایا کرتی ہوں ۔
اپنے آپ کو قابو میں رکھو ۔۔۔۔قیرس نے کہا ۔۔۔یوں دبک جاؤ جیسے تم مر ہی گیا ہو، میں ہرقلیوناس کو تخت پر بٹھا دوں گا لیکن کونستانس کو راضی رکھنا ضروری ہوگا ۔
بہرحال یہ فیصلے مجھ پر چھوڑ دو اور ابھی مجھے اس باغیانہ صورتحال پر قابو پا لینے دو۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ چند مہینے گزر گئے اور ہر لمحہ خطرہ ہوتا تھا کہ ابھی بغاوت ہوئی کے ہوئی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ بغاوت کے شعلے بھڑک نہ اٹھے۔
آخر قیرس نے جرنیلوں اور اونچے عہدوں کے شہری حاکموں کو اکٹھا کیا اور انہیں کہا کہ بزنطیہ کی یہ صورتحال مصر میں مسلمانوں کو مہلت دے رہی ہے کہ وہ مزید علاقے فتح کر لیں۔
یہ تنازعہ شاہی خاندان کا ہے۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔۔ لیکن اس کی سزا ہم سب کو بھگتنی پڑے گی، ہم سب کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ مصر میں جو فوج مسلمانوں کے مقابلے کے لئے موجود ہے وہ بے کار ہو چکی ہے، اس پر مسلمانوں کی دہشت طاری ہوگئی ہے ،اگر کمک جلدی نہ گئی تو مسلمان اسکندریہ تک پہنچ جائیں گے۔ پھر ہم مصر میں شاید داخل ہی نہ ہوسکیں۔
قیرس سب پر زور دے رہا تھا کہ تخت کی وراثت کا تنازعہ بہت جلدی طے ہو جانا چاہیے۔
قیرس نے یہ بھی کہا کہ مرتینا کے متعلق ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ڈر کر گوشہ نشین ہوگئی ہے، وہ کسی بھی وقت در پردہ کوئی نیا فتنہ کھڑا کر سکتی ہے ، قیرس نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے بیٹے ہرقلیوناس کو اور کونستانس کو بھی تخت نشین کر دیا جائے، مطلب یہ کہ دونوں مشترکہ طور پر حکومت کریں گے۔
ان بڑوں نے کچھ دیر بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ان دونوں میں اگر کبھی کسی مسئلہ پر اختلاف رائے پیدا ہو جائے تو کونستانس کا فیصلہ قابل قبول ہوگا۔
سب اس فیصلے پر متفق ہوگئے اور باقاعدہ طور پر شاہی فرمان جاری کردیا گیا ۔انتظام یہ کیا گیا کہ یہ فرمان ہر گھر تک اور فوج میں ہر سپاہی تک پہنچ جائے تاکہ لوگوں کو اور ساری کی ساری فوج کو پتہ چل جائے کہ تخت کی وراثت میں مرتینا کا کوئی حصہ اور عمل دخل نہیں۔ اور وہ ملکہ نہیں بن رہی۔
اس فیصلے کے اثرات توقع کے مطابق نہایت اچھے رہے بغاوت کا خطرہ ٹل گیا اور اب کمک کے فوجیوں نے خود ہی مطالبہ شروع کردیا کہ انہیں مصر بھیجا جائے۔ دوسرا فیصلہ یہ ہوا کہ کمک قیرس لے جائے گا جرنیل تو ساتھ تھے لیکن قیرس کو اس کمک کی کمان دے دی گئی تھی۔ تاریخ میں اس کمک کی صحیح نفری نہیں لکھی گئی۔ صرف یہ لکھا ہے کہ قیرس بھاری تعداد میں کمک لیکر مصر کو روانہ ہو گیا ۔ ان دستوں کے علاوہ قیرس اپنے ساتھ راہبوں اور مبلغوں کی بھی ایک جماعت لے گیا تھا، جو سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔
قیرس کو مصر جا کر ایک تو فوجی محاذ پر لڑنا تھا اور دوسرا محاذ مذہب کا تھا ۔
یہ کمک جس بحری بیڑے میں گئی وہ بیڑہ اگست کے آخر یا ستمبر 641 عیسوی کے پہلے ہفتے میں روانہ ہوا تھا۔