دو ہی دن گزرے ہوں گے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے فیصلہ سنا دیا کہ کل صبح بعد نماز فجر بابلیون کی طرف کوچ ہوگا ،اور اس شہر کو محاصرے میں لیا جائے گا ۔ یہ توقع ہی نہیں تھی کہ رومی قلعہ سے باہر آ کر لڑیں گے،،،،، ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک جاسوس بابلیون سے آیا اس نے عمرو بن عاص کو یہ خبر سنائی کہ رومی باہر آ کر لڑیں گے جاسوس نے بابلیون کی فوج کو کھلی لڑائی کی مشق کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔اور پھر وہاں بنائے ہوئے اپنے ذرائع سے معلوم کر لیا تھا کہ اب مقوقس اور تھیوڈور محاصرے میں نہیں آئیں گے بلکہ بابلیون سے دور آ کر مجاہدین اسلام کو للکاریں گے۔
عمرو بن عاص نے اسی وقت اپنے سالاروں کو طلب کیا اور خوشخبری کے انداز سے یہ خبر سنائی، تمام سالار یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے انہیں پوری امید تھی کہ رومیوں کو میدان کی کھلی جنگ میں ٹکنے نہیں دیں گے۔ عمروبن عاص نے سب سے پہلے تو اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں انہوں نے رومیوں کو لا کر لڑانا تھا۔ پھر انہوں نے سالاروں کو لڑائی کی ترتیب سمجھا دیں۔ یہ بھی کہا کہ پیشتر اس کے کہ رومی شہر سے نکل کر کسی اور جگہ للکاریں فوراً کوچ کر کے اپنی پسند کے میدان میں پہنچ جائیں۔ رومی مجبور ہو جائیں گے کہ وہاں آئیں۔
عشاء کی نماز کے وقت بابلیون سے ایک اور جاسوس آگیا جس نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ اطلاع دی کہ آج دوپہر رومی فوج شہر سے نکل آئی ہے، اور اس کا رخ عین شمش کی طرف ہے، اس جاسوس نے رومی فوج کی تعداد بھی بتائیں جو مجاہدین کی تعداد سے کئی گناہ زیادہ تھی۔
عشاء کی نماز کی امامت کروا کے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجاہدین سے یوں خطاب کیا کہ پہلی بار رومی کھلے میدان میں آ رہے ہیں ،اور ان کی تعداد ہم سے بہت ہی زیادہ ہے تم نے کبھی تعداد کی پرواہ نہیں کی، کیا یہ ہمارا ایمان نہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، جس نے اتنی کم تعداد کے باوجود ہمیں نیل تک پہنچا دیا ہے؟ اسلام کے مجاہدوں میں ایک بات پہلے کئی بار کہہ چکا ہوں وہی بات اب بھی کہوں گا ،اگر میدان جنگ سے ہمارے قدم اکھڑ گئے تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہیں جاسکے گا، ہمارا تو نام و نشان مٹ ہی جائےگا، مصر میں اسلام کے لیے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔
اس خطاب کے بعد عمرو بن عاص نے کہا کہ صبح نماز فجر کے فوراً بعد کوچ ہوگا۔ یہ تو انہوں نے رات کو ہی لشکر کو بتا دیا تھا کہ رومی فوج باہر نکل آئی ہے اور اب اس کا ارادہ کھلے میدان میں لڑنے کا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عمرو بن عاص کی جنگی پالیسی اور چالیں خالد بن ولید کے عین مطابق تھی، انتہائی خوفناک خطرہ مول لینے میں یہ دونوں تاریخ ساز سپہ سالار ایک جیسے تھے۔ عمرو بن عاص نے فوج کی ترتیب سالاروں کو سمجھا دینے کے علاوہ ایک اقدام یہ کیا کہ پانچ پانچ سو جانبازوں کے دو دستے الگ کر دیئے، ایک دستے کے قائد خارجہ بن حذافہ، اور دوسرے کے مقداد بن اسود تھے، یہ صحابی تھے اور کمک کے ساتھ ایک ایک دستے کے سالار کی حیثیت سے آئے تھے۔
عین شمس اور بابلیون کے درمیانی علاقے میں کچھ علاقہ پہاڑی تھا جس میں بڑے بڑے کشادہ غار بھی تھے، اس علاقے کو بنو وائل کہتے تھے۔
ایک جانباز دستے کو بن وائل کے غاروں کی طرف روانہ کردیا گیا ،اور دوسرے کو ام دین کے قریب ایک پہاڑی سلسلے میں جا کر چھپ جانے کو بھیج دیا گیا۔ ان دونوں دستوں کو رات کو ہی روانہ کر دیا گیا تھا تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے۔
نماز فجر کے فوراً بعد باقی لشکر نے کوچ کیا۔ آج اس علاقے کو عباسیہ کہتے ہیں جہاں یہ لشکر جا پہنچا اس دور میں یہ وسیع و عریض میدان ریگستانی ہوا کرتا تھا ۔حسب معمول جاسوس مختلف بہروپوں میں آگے بھیج دیئے گئے تھے۔
ادھر رومیوں نے اپنے جاسوس بھیج رکھے تھے جنہوں نے تھیوڈور کو جا کر اطلاع دی کہ مسلمانوں کا لشکر عباسیہ کی طرف آرہا ہے۔ تھیوڈور یہ خبر سن کر بہت ہی خوش ہوا اس نے اپنے ساتھی جرنیلوں کو بتایا کہ اسے توقع یہ تھی کہ مسلمان عین شمس کے کھنڈروں سے باہر نہیں آئیں گے اور انہیں مار بھگانے میں مشکل پیش آئے گی، تھیوڈور نے اپنی فوج کو وہیں روک لیا۔
سلطنت روم کے جانبازوں!،،،،، تھیوڈور نے بڑی بلند اور جوشیلی آواز میں اپنی فوج سے خطاب کیا ۔۔۔۔تمہارا دشمن آج تک تمہیں بزدل اور کمزور سمجھتا رہا ہے آج وہ تمہارے سامنے آ کر لڑنے آرہا ہے۔ اس کی تعداد تمہاری تعداد کے نصف بھی نہیں ہے، آج ثابت کرکے دیکھا دو کہ بزدل کون ہے ،اگر تم اس میدان سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر اتنے زرخیز اور خزانوں سے بھرے ہوئے ملک سے محروم کر دیئے جاؤ گے، سلطنت روم بحیرہ روم کے پار سکڑ جائے گی، پھر تمہاری قسمت میں مسلمانوں کی غلامی یا بحیرہ روم میں ڈوب مرنا لکھ دیا جائے گا۔ آج قسم کھا لو کہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کو کاٹ کر اس ریگستان میں پھینک دو گے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ تمام فوج نے بلند آواز میں خدا کے نام پر قسم کھائی کہ وہ فتح حاصل کریں گے ورنہ جانیں دے دیں گے۔
میدان جنگ عین شمس اور بابلیون سے دور نہ تھا ۔ سورج جب سر پر آیا اس وقت دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے صف آرا ہو چکی تھیں۔ عمرو بن عاص درمیان والے دستوں کے سامنے گھوڑے پر سوار تھے ۔ ادھر تھیوڈور بھی اپنی درمیانی والی فوج کے سامنے گھوڑے پر سوار تھا۔
عمرو بن عاص کے کہنے پر ان کا ایک محافظ سوار آگے بڑھا اور بلند آواز سے رومیوں سے کہا کہ حملے میں پہل تم کرو تا کہ تمہیں افسوس نہ رہے کہ عرب کے مسلمانوں نے تمہیں موقع نہیں دیا تھا۔
عمرو بن عاص کے اس محافظ نے اپنا اعلان ختم کیا ہی تھا کہ تھیوڈور نے حملے کا حکم دے دیا۔ عمرو بن عاص کی پہلے دی ہوئی ہدایت کے مطابق پہلو والے دستے اور زیادہ دائیں اور بائیں کو چلے گئے ،سپہ سالار نے دیکھ لیا تھا کہ رومی ایک ہجوم کے مانند ہلہ بول رہے ہیں، یہ انہیں پہلے ہی توقع تھی اس کے مطابق انہوں نے مجاہدین کو ہدایت دے رکھی تھی۔
جب مجاہدین کے پہلو والے دستے اور زیادہ باہر کو ہوگئے تو اس کے مطابق رومی سواروں کو بھی پھیلنا پڑا ۔ عمرو بن عاص یہی چاہتے تھے۔ عمرو بن عاص نے بڑھتے ہوئے رومیوں کا سامنا کیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے دستوں سے کہا کہ لڑتے ہوئے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا تاکہ دشمن اور آگے آجائے۔
تاریخ میں اس لڑائی کو معرکہ عین شمس کہا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہ مصر کی لڑائیوں میں یہ معرکہ سب سے زیادہ خونریز اور تیز تھا۔ کیونکہ وہ ایسا ریگزار تھا جس میں ریت کے ساتھ مٹی بھی تھی اس لیے اس قدر زیادہ گرد اٹھی کے دونوں طرف کے آدمی اس میں چھپ گئے اور دوست اور دشمن کی پہچان محال ہو گئی۔
مجاہدین کے جو دستے دائیں اور بائیں پھیل گئے تھے انہیں انکے سالار دشمن کے پہلوؤں میں لے گئے، اور پہلوؤں سے حملہ کیا جس سے دشمن کے سپاہی کٹنے لگے ،اور دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ رومی دونوں پہلوؤں کے دباؤ سے اندر کو اکٹھے ہونے لگے جس سے ان کے لیے پینترے بدلنے کی جگہ نہ رہی، ان کے گھوڑے آگے پیچھے سے اور دائیں بائیں سے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے تھے۔
کثیر تعداد دشمن کو ایسی ہی چال سے بے بس کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو عمرو بن عاص کی جنگی فہم و فراست نے کر دیا۔ لیکن دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ مجاہدین پر حاوی ہوتے نظر آنے لگے تھے۔ تھیوڈور بڑی اچھی چالیں چل رہا تھا اور اس کے احکام بڑی تیزی سے دوسرے جرنیلوں تک پہنچ رہے تھے۔
اپنی فوج کو یوں سکڑتا اور بے بس ہوتا دیکھ کر تھیوڈور نے فوج کو پیچھے ہٹا لیا اور پھر پھیلا دیا ،معلوم ہوتا تھا کہ رومی فوجیوں نے جو قسم کھائی تھی وہ پوری کرکے ہی رہیں گے۔ تھیوڈور نے فوج کو پیچھے ہٹا کر پھر جو حملہ کیا وہ کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا ۔اس نے مجاہدین کے پھیلاؤ کے مطابق اپنے دستے کو پھیلا دیا تھا۔
گردوغبار میں چھپا ہوا سورج آگے چلا گیا، اور مغرب کی طرف نیچے جانے لگا اس وقت مجاہدین نے اپنے سالاروں کی قیادت میں پھر وہ پوزیشن حاصل کر لی تھی کہ رومی فوج پھر اندر کی طرف سُکڑ و سمٹ گئی اس وقت اس فوج پر عقب سے قیامت ٹوٹ پڑی۔
یہ بنو وائل کے غاروں میں چھپا ہوا منتخب جانبازوں کا پانچ سو کا دستہ تھا ،جو وہاں اشارے کا منتظر تھا سپہ سالار نے ان کی طرف قاصد دوڑا دیا اور اس دستے کے سردار نے پیغام ملتے ہیں ان سے رومیوں پر حملہ کر دیا۔
رومی یہ سمجھے کہ یہ مسلمانوں کا کوئی اور لشکر ہے جو عقب سے آگیا ہے ۔
رومی فوجیوں پر جو دہشت پہلے ہی طاری تھی اور جسے تھیوڈور کے خطاب نے اور قسم نے دبا لیا تھا وہ پھر ابھر آئی، اور فوجیوں کے دلوں کو گرفت میں لے لیا۔
رومی فوجی بوکھلا اٹھے اور ہجوم کی صورت میں لڑائی سے نکل کر ام دنین کی طرف بھاگنے لگے ،رومی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا تھا اور ان کی ترتیب ٹوٹ گئی تھی وہ ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح ام دنین کی طرف نکلے۔
جونہی وہ پہاڑی کے قریب سے گزرے تو اس پہاڑی کے غاروں میں سے جاں باز مجاہدین کا دوسرا پانچ سو کا دستہ نکلا اور ان رومیوں پر ٹوٹ پڑا ۔ تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اب رومیوں کو یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کا ایک نہیں بلکہ تین لشکر ہیں۔ رومیوں کی کوئ ترتیب رہی نہیں تھی، اور وہ جرنیلوں کے قابو سے نکل گئے تھے، وہ ایسے خوفزدہ ہوئے کے اپنے دفاع میں بھی نہ لڑے وہ صرف پسپا ہونے اور زندہ نکل جانے کی کوشش میں تھے۔ جانباز مجاہدین نے ان کا ایسا قتل عام کیا کہ شاید ہی کوئی رومی زندہ نکلا ہوگا۔ یہ خالد بن ولید کی ایک خصوصی چال تھی جس سے وہ اس رومی فوج سے زیادہ تعداد کی فوج کو بھی بے بس کر کے ختم کر دیا کرتے تھے۔
بھاگنے والے بہت سے فوجی واپس بابلیون میں جا پناہ گزین ہوئے، لیکن بابلیون کے اندر جو فوج تھی اس نے بھاگ کر آنے والوں کو دیکھا پھر سنا کے مجاہدین نے کس طرح رومی فوجیوں کو کاٹا ہے تو وہ قلعہ بابلیون سے بھاگ اٹھے ،دریائے نیل کے کنارے بے شمار کشتیاں فوج کے استعمال کے لیے بندھی رہتی تھی بھگوڑے فوجی ان کشتیوں پر جا چڑھے اور ملاحوں کو ڈرا کر کشتیاں کھلوا لی اور دریا پار کر گئے۔
مقوقس بابلیون میں تھا وہ اپنی فوج کا یہ حشر دیکھ رہا تھا لیکن اس کی بے بسی اور کسمپرسی کا یہ عالم کے اس نفسانفسی اور کھلبلی پر قابو نہیں پایا جا سکتا تھا۔ اگر وہ فوجیوں کی اس ذہنی کیفیت میں انہیں روکتا تو وہ فوجیوں کے ہاتھوں بھی قتل ہو سکتا تھا۔
عمرو بن عاص بابلیون پر حملہ کرتے تو شاید یہ قلعہ بھی لے لیتے لیکن جاسوسوں نے انہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ فوج باہر بھیج کر خاصے دستے بابلیون میں ہی تیار رکھے گئے تھے۔ یہ مقوقس اور تھیوڈور کی احتیاطی تدبیر تھی انہیں احساس تھا کہ ان کی فوج پسپا بھی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں مسلمانوں کا بابلیون پر حملہ متوقع ہو سکتا تھا۔ اس لیے انہوں نے بابلیون میں اچھی خاصی فوج دفاع میں رکھی ہوئی تھی۔
عمرو بن عاص نے بہتر سمجھا کے بابلیون پر طاقت صرف کرنے کی بجائے باہر جو رومی فوج خوفزدگی کے عالم میں بھاگتی اور پناہیں ڈھونڈتی پھر رہی ہے اسے ختم کر لیا جائے۔
کئی ایک مؤرخوں نے لکھا ہے کہ متعدد فوجی افسر اسکندریا کو بھاگ گئے تھے، رومی فوج جو مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ مری تھی اس کی تعداد کسی بھی مؤرخ نے نہیں لکھی۔ صرف یہ لکھا ہے کہ جانی نقصان کا کوئی شمار نہ تھا مجاہدین اسلام نے ایک دو اور قلعے بغیر لڑے لے لیے ۔ لیکن ان کی اصل فتح یہ تھی کہ رومیوں کی تمام تر فوج پر مجاہدین کی دہشت طاری ہو گئی تھی ۔ اور اب یہ فوج کچھ عرصے کے لئے لڑنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
اب تو ہرقل نے مقوقس کو بخشا ہی نہیں تھا، شہروں اور قلعوں کی بات الگ تھی مسلمانوں نے اب جو فتح حاصل کی تھی اس سے انہیں نیل کے دونوں کناروں کا قبضہ مل گیا تھا۔ مقوقس نے تو ہرقل کو یقین دلا رکھا تھا کہ وہ عرب کے ان بدوؤں کو نیل تک پہنچنے ہی نہیں دے گا ۔ معرکہ عین شمس سے رومی فوج جس طرح تتر بتر ہو کر بھاگ گئی اس سے فیوم کا تمام علاقہ خالی رہ گیا تھا ۔عمروبن عاص نے آگے بڑھ کر اس تمام علاقے پر قبضہ کرلیا۔
فیوم کا ذکر پہلے آ چکا ہے یہ علاقہ اس قدر وسیع و عریض تھا کہ اسے مصر کے ایک صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔ عمروبن عاص کے حکم سے اس صوبے کے بڑے شہروں میں مسلمانوں کے عمال پہنچ گئے اور انہوں نے ان لوگوں سے وہ ٹیکس وصول کرنے شروع کر دیے جو ان پر عائد ہوتے تھے ۔ تاریخوں میں آیا ہے کہ ان لوگوں پر بھی مسلمانوں کا ایسا رعب بیٹھ گیا تھا کہ انہوں نے بلا چوں وچرا ٹیکس ادا کرنے شروع کردیے ۔ تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ فاتح مسلمان رومی فوج کے افسروں اور دیگر حاکموں کو پکڑ کر زنجیروں میں باندھ دیتے اور پھر اپنے سپہ سالار کے سامنے لے جاتے ہیں اور سپہ سالار انہیں سزا دیتا ہے۔ اس صوبے میں جو مسلمان عمال حاکم مقرر کیے گئے انہیں عمرو بن عاص نے بڑی سختی سے حکم دیا تھا کہ لوگوں کی حیثیت دیکھ کر اس کے مطابق ٹیکس وصول کرے اور کسی کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ ملے۔
ہرقل تک اس شکست کی خبر پہنچانا مقوقس کا فرض تھا اور مقوقس کو معلوم تھا کہ ہرقل کا ردعمل بڑا ہی شدید ہوگا۔ یہ تو مقوقس دیکھ چکا تھا کہ ہرقل اپنی شام کی شکست اور وہاں سے پسپائی پر پردہ ڈالنے کے لئے تمام تر الزام مقوقس کے منہ پر تھوپ رہا ہے۔ مقوقس نے ہرقل کے نام پیغام لکھوایا اور ایک قاصد کو دے کر بزنطیہ کو روانہ کر دیا۔
مقوقس کو اب ہرقل کا کوئی ڈر نہیں تھا اس نے ہرقل کے قتل کا بڑا پکا انتظام کردیا تھا۔ اسے امید تھی کہ اس پیغام سے پہلے ہرقل اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہوگا۔ اس کے تیار کیے ہوئے دو آدمی لڑکی کو ساتھ لے کر روانہ ہو گئے تھے۔
یہ دو آدمی لڑکی کو ساتھ لئے اسکندریہ پہنچے انہیں بحری جہاز وہاں سے ہی مل سکتا تھا۔ انہوں نے معمولی سی آدمیوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے ،اور لڑکی کو غریبانہ اور میلا سا لباس پہنا دیا گیا تھا ۔اس کا سر اور چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ صرف آنکھیں نظر آتی تھی۔ اسکندریہ پہنچے تو پتہ چلا کہ بحری جہاز دو دنوں بعد روانہ ہو رہا ہے وہ ایک سرائے میں رک گئے۔
یہ سرائے بندرگاہ کے بالکل قریب تھی اور یہاں عام طور پر وہی لوگ ٹھرا کرتے تھے جنہیں بحری جہاز کی روانگی کا انتظار ہوتا تھا۔ جب ایک جہاز تیار ہوجاتا تھا تو بحری جہاز کا کپتان خود یا اس کا کوئی آدمی سرائے میں آکر اعلان کرتا تھا کہ جہاز کل فلاں وقت روانہ ہو رہا ہے۔ جہازوں کے کپتان اور عملے کے آدمی اسی سرائے میں آ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔
بزنطیہ کی طرف والے بحر روم کے ساحل تک جانے والا بحری جہاز تیار ہو رہا تھا ایک دن پہلے اس جہاز کا کپتان سرائے میں آیا وہ دیکھنے آیا تھا کہ یہاں کتنے مسافر ہیں۔ مسافروں کو پتہ چلا کہ جہاز کا کپتان آیا ہے تو سب باہر نکل آئے۔
اتفاق سے کپتان نے اس لڑکی کو دیکھ لیا، معلوم نہیں اس نے لڑکی کو کیسے اور کہاں دیکھا اس وقت لڑکی کے چہرے پر نقاب نہیں تھا۔ کپتان لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گیا اسے پتہ چلا کہ یہ لڑکی بھی جا رہی ہے۔
اس زمانے میں جہازوں کے کپتان جہازوں میں اپنے آپ کو بادشاہ سمجھا کرتے تھے۔ اور عموماً یہ لوگ بڑے ہی بدکار بلکہ مجرمانہ ذہنیت کے ہوتے تھے ۔ اس کپتان نے اس لڑکی پر بری نظر رکھ لی۔
کپتان چلا گیا تو کچھ دیر بعد اس جہاز ایک کا ایک اور آدمی سرائے میں آیا اور جانے والے مسافروں میں گھومنے پھرنے لگا وہ ان دو آدمیوں سے ملا جو لڑکی کو لے جا رہے تھے۔ ان کے پاس ویسے ہی رک گیا اور اس طرح باتیں کیں جیسے یہ ملاقات ویسے ہی ہو گئی ہو۔ لیکن وہ کپتان کا بھیجا ہوا آدمی تھا اور یہ اہتمام اس لڑکی کو پھسانے کے لیے تھا۔
جہاز کے اس آدمی نے ان دونوں سے پوچھا کہ ان کے ساتھ یہ لڑکی کون ہے اور کیوں آئی ہے؟
انہوں نے بتایا کہ یہ ان کے ساتھ جہاز میں جائے گی، جہاز کے آدمی نے کہا کہ اس عمر کی لڑکی جہاز میں نہیں جا سکتی یا یہ کہ وہ اس جہاز میں نہیں جاسکتی، کسی اور جہاز میں جاسکتی ہے لیکن اگلا جہاز ایک مہینے سے زیادہ دنوں بعد جائے گا۔
یہ سن کر دونوں آدمی پریشان ہوگئے انھیں تو بہت جلدی جانا تھا، انھیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ فرمانروائے مصر مقوقس کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں نہ ہی انہیں ہرقل کے ساتھ دشمنی تھی کہ اسے قتل کرنا ہی تھا ،بلکہ ان کی دلچسپی اس کثیر رقم اور بیش بہا انعام پر تھی جو مقوقس نے انہیں پیش کیا تھا۔ وہ اتنا لمبا انتظار نہیں کر سکتے تھے کرنا چاہتے ہی نہیں تھے ،انہیں خدشہ نظر آتا تھا کہ دیر ہو گئی تو مقوقس اپنا یہ ارادہ بدل سکتا ہے،،،،،، انہوں نے جہاز کے اس آدمی کو رشوت پیش کی اور کہا کہ کسی طرح وہ اس لڑکی کو جہاز میں لے چلے۔
بہت ہی مشکل کام ہے ۔۔۔جہاز کے آدمی نے اپنی رشوت کا بھاؤ چڑھانے کے لئے کہا ۔۔۔اسے مردانہ لباس پہنا کر لے جایا تو جا سکتا ہے لیکن اتنے لمبے سفر میں اسے کپتان سے چھپا کر رکھنا بڑا ہی خطرناک ہو گا، کپتان اتنا سخت اور ظالم آدمی ہے کہ لڑکی کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گا۔
ان آدمیوں نے رشوت میں اضافہ کردیا اور منت سماجت الگ کی اور کہا کہ جہاز میں اسے چھپائے رکھنے کا کام بھی وہی کرے۔
ان دونوں آدمیوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ کسی سے پوچھ ہی لیتے کہ یہ لڑکی کیوں نہیں جا سکتی یا یہ کہ یہ کس کا حکم ہے، ان کی عقل پر وہ خزانہ سوار تھا جو مقوقس نے انہیں پیش کیا تھا۔
آخر جہاز کے اس آدمی نے منہ مانگی رشوت لے کر ان آدمیوں سے کہا کہ اپنا کوئی لباس نکالو کمرے کا دروازہ بند کر کے لباس لڑکی کو پہنایا، پھر اس کا سر اور چہرے کا کچھ حصہ اس طرح ڈھانپ دیا جس طرح لوگ صحرائی سفر میں یا ویسے ہی ڈھانپا کرتے تھے ،اچھی طرح جائزہ لے کر جہاز کے آدمی نے فیصلہ سنایا کہ اب یہ نہیں پہچانی جا سکے گی۔
لیکن میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔۔۔ جہاز کے آدمی نے کہا ۔۔۔میں لڑکی کو جہاز میں چھپائے رکھنے کی پوری کوشش کروں گا لیکن کپتان کو پتہ چل گیا، اس نے لڑکی کو دیکھ لیا تو پھر میں ذمہ دار نہیں ہو نگا ،کپتان کو راضی کرنا اور اس کی سزا سے بچنا تمہارا کام ہو گا۔
اگلے روز مسافر بندرگاہ پر جاکر جہاز میں سوار ہونے لگے یہ دونوں آدمی لڑکی کو مردانہ لباس میں ساتھ لئے سوار ہوگئے جہاز کے کسی آدمی نے دیکھا تک نہیں ،کرایہ وصول کرنے والے نے کرایہ وصول کر لیا یہ خاصا بڑا جہاز تھا مسافروں کے لیے دو منزلہ جگہ تھی ایک طرف جہاز کا سامان پڑا تھا اور اضافی بادبان بھی لپٹے رکھے تھے۔
جب مسافر اپنا اپنا ٹھکانہ کر رہے تھے اور اپنا سامان بھی رکھ رہے تھے اس وقت جہاز کے اس آدمی نے جس نے رشوت لی تھی آ کر لڑکی کو ساتھ لیا اور جہاں بادبان رکھے تھے وہاں ایک ذرا گہری جگہ بٹھا دیا اور ایک بادبان کا کچھ حصہ اس کے اوپر کردیا۔
وہ کوئی سیدھی سادی دیہاتی لڑکی نہیں تھی کہ بھیڑ بکری بنی رہتی کہ جہاں باندھ دیا وہی بندھی رہے، وہ بڑی ہی عیار اور مکار طوائف زادی تھی اس کم عمری میں ہی کایاں اور گھاگ مردوں کو انگلیوں پر نچا سکتی تھی۔ اس کا کارگر ہتھیار حسن تھا اور کم عمری اور پھر وہ تربیت تھی جو ماں نے اسے دی تھی، اس نے جہاز کے اس آدمی سے پوچھا کہ جہاز کتنے دنوں بعد منزل پر پہنچے گا۔
دس بارہ دن لگنا چاہیے۔۔۔ اس آدمی نے جواب دیا۔۔۔ لیکن اس کا انحصار ہواؤں پر ہے، ہوا موافق اور تیز ملی تو جہاز بھی تیز جائے گا۔ اگر ہوا میں زور ہی نہ ہوا تو پندرہ سے بیس دن بھی لگ سکتے ہیں ،اور اگر طوفان آگیا تو پھر جہاز کو طوفان نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا دے۔
تو کیا میں اتنے دن یہی چھپی بیٹھی رہوگی؟۔۔۔ لڑکی نے پوچھا.
نہیں!،،،،، جہاز کے آدمی نے کہا۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم پہچان ہی نہ جا سکوں گی اس لئے تمہیں ہر وقت چھپے رہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، یہ تو تمہیں جگہ بتانے کے لئے بٹھایا ہے کہ چھپنے کی صورت میں یہاں چھپنا ہے ،دوسری بات یہ کہ کپتان ہر وقت باہر تو نہیں پھرتا رہتا دن کے وقت کچھ دیر سو جاتا ہے، اس وقت میں تمہیں یہاں سے نکال کر عرشے پر بھیج دیا کروں گا بے خطر گھومتی پھرتی رہنا۔
لڑکی کو وہاں بیٹھا کر یہ آدمی سیدھا کپتان کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس کا شکار آگیا ہے، پھر کپتان کو وہ جگہ بتائی جہاں اس نے لڑکی کو چھپایا تھا ،کپتان نے خوش ہو کر اس آدمی کو کچھ انعام دیا۔
جہاز کا لنگر اٹھا دیا گیا اور عملے نے بادبان کھول دیے کپتان جہاز کو کنٹرول کرنے والی جگہ جا کھڑا ہوا اور پہیے کو پکڑ لیا جہاز بندرگاہ سے ہٹ کر کھلے سمندر کی طرف روانہ ہو گیا۔
جب سورج سارا دن گزر جانے کے بعد سمندر میں ڈوب رہا تھا اس وقت خشکی کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا تھا ، جدھر نگاہ جاتی سمندر ہی سمندر نظر آتا تھا۔ لڑکی دن بھر کے دوران تین مرتبہ باہر نکلی اور عرشے پر سمندر کے نظارے سے لطف اندوز ہوتی رہی تھی، یہ اس کا پہلا سمندری سفر تھا ،وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ بھی جا کر بیٹھی رہی تھی۔ جہاز کا وہ آدمی آ گیا اور لڑکی سے کہا کہ کھانا کھا کر وہ فوراً اپنے چھپنے کی جگہ چلی جائے اور رات وہیں گزارے اس آدمی نے تسلی دی کے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔
اپنے آدمیوں کے ساتھ کھانا کھا کر لڑکی چھپنے والی جگہ چلی گئی اور کچھ دیر بعد سو گئی۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
رات کو جب مسافر گہری نیند سو گئے اور جہاز کے عملے کے وہی آدمی بیدار تھے جنھیں بیدار رہنا تھا ۔اس وقت کپتان اپنے کیبن سے نکلا اور سیدھا جگہ پہنچا جہاں لڑکی لپٹے ہوئے بادبانوں میں چھپی سو رہی تھی۔ کپتان نے لڑکی کے پاؤں کو ہلکی سی ٹھوکر مار کر جگایا لڑکی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
کون ہو تم ؟،،،،کپتان نے بڑے رعب سے پوچھا۔۔۔ یہاں کیوں سو رہے ہو؟
میں جہاز کا مسافر ہوں،،،،،لڑکی نے جواب دیا۔۔۔۔ یہاں کھڑا تھا تو میری آنکھ لگ گئی۔
کپتان نے لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور اس کے سر کا کپڑا اتار دیا لڑکی کے لپٹے ہوئے لمبے بال کھل گئے اور شانوں اور پیٹھ پر بکھر گئے اس کا لباس تو مردانہ تھا لیکن وہ اپنی آواز کو مردانہ نہیں بنا سکتی تھی۔
مجھے دھوکہ دے رہی ہو۔۔۔ کپتان نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ اور اسے باہر گھسیٹ کر کہا۔۔۔ اکیلی ہو یا کوئی آدمی ساتھ ہے؟
کپتان کو معلوم تھا کہ اس کے ساتھ دو آدمی ہے لیکن وہ ظاہر کر رہا تھا جیسے اسے کچھ بھی معلوم نہیں اور وہ ویسے ہی اس طرف آ نکلا تھا ۔لڑکی نے بتا دیا کہ اس کے ساتھ دو آدمی ہیں، یہ نہ بتایا کہ جہاز کے ہی ایک آدمی نے اسے کرائے کے علاوہ رشوت لے کر مردانہ لباس میں جہاز میں سوار کرایا تھا۔
میں تمہیں سمندر میں پھینک دوں گا۔۔۔ کپتان نے لڑکی کو ایک جھٹکے سے اپنے قریب کرلیا۔۔۔۔۔لڑکی اپنے حسن و جوانی سے واقف تھی اور وہ مردوں کی کمزوری سے بھی آگاہ تھی کپتان نے اسے جب جھٹکے سے اپنے قریب کیا تو وہ دانستہ کپتان کے سینے سے جا لگی اور اپنا ایک بازو کاپتان کے گلے میں ڈال دیا پھر اپنا ایک گال کپتان کے گال سے لگا دیا۔
مجھے روشنی میں لے جاکر دیکھو۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ اتنی قیمتی چیز کوئی پاگل ہی سمندر میں پھینکتا ہو گا۔
کپتان تو آیا ہی اسے اپنے کیبن میں لے جانے کے لیے تھا، وہ لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اپنے کیبل میں لے گیا، اس نے اس لڑکی کو سرائے میں دیکھا تھا لیکن کچھ دور سے صرف چہرہ دیکھا تھا، اب اسے دیکھا اور اس کے ریشمی چمکدار بال دیکھے تو کپتان کو پتہ چلا کہ یہ تو بہت ہی قیمتی چیز ہے اور ایسی لڑکیاں عموماً کسی بادشاہ کے حرم میں ہی دیکھی جاتی ہیں لڑکی ذرا سی بھی گھبرائی ہوئی نہیں تھی۔
دیکھ لڑکی!،،،،، کپتان نے کہا۔۔۔ یہ عمر مرنے والی نہیں یہ خطرہ میں مول لیتا ہوں اس سفرمیں تم میرے اس کمرے میں رہو گی تیرے لئے میں شہنشاہ ہرقل کا قانون توڑ رہا ہوں۔
کپتان نے شراب نکالی خود بھی پینے لگا اور لڑکی کو بھی دی لڑکی نے بلاتکلف پینی شروع کردی،،،،،، لڑکی نے وہ رات کپتان کے کمرے میں گزاری۔
صبح کپتان لڑکی کے دونوں ساتھیوں سے ملا اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کہا کہ انہوں نے اسے دھوکہ دیا ہے لیکن لڑکی اتنی بھولی بھالی اور معصوم ہے کہ اسے اس پر ترس آ گیا ہے ورنہ اگلی بندرگاہ پر جاکر انہیں گرفتار کرلیا جاتا اور سزا ملتی پھر اس نے کہا کہ لڑکی کو چھپا کر رکھے گا دونوں آدمی چپ رہے انہیں کوئی غم نہ تھا کہ لڑکی جہاز میں کہاں رہتی ہے۔
تین چار دن لڑکی کپتان کے ساتھ رہی اس نے مردانہ لباس اتار دیا تھا کپتان اسے نہایت اعلی قسم کا کھانا کھلاتا تھا اور رات شراب بھی پلاتا تھا لڑکی کپتان کے ساتھ پوری طرح بے تکلف ہو گئی ، وہ تو تکلف اور حجاب والی لڑکی تھی ہی نہیں۔
تین چار دنوں بعد ایک رات لڑکی کچھ زیادہ ہی شراب پی گئی ادھیڑ عمر کپتان زندہ دل اور خوش گوار طبیعت آدمی تھا اس نے ایسی فضا پیدا کر دی اور اس کے ساتھ شراب نے اپنا رنگ دکھایا کہ لڑکی آپے سے باہر ہو گئی۔ کپتان نے اسے اپنے ساتھ لگاتے اور کچھ بیہودہ حرکتیں کرتے ہوئے کہا تم جیسی حسین لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
تم نے میرا صرف حسن دیکھا ہے۔۔۔ لڑکی نے مخمور آواز میں کہا۔۔۔ جب سنو گے کہ ہرقل قتل ہو گیا ہے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میں صرف حسین ہی نہیں بلکہ جس کی چاہو جان لے سکتی ہوں، خواہ وہ کسرہ روم ہرقل ہی ہو۔
کپتان قہقہے لگا کر ہنسا اس کا خیال تھا کہ لڑکی نے یہ بات مذاق میں کہی ہے لڑکی اس کے قہقہے پر سنجیدہ ہو گئی۔
کیا سمجھتے ہو میں مذاق کر رہی ہوں ؟،،،،لڑکی نے کہا۔۔۔ میں ہرقل کو زہر پلانے جارہی ہو یہ جو دو آدمی میرے ساتھ ہیں یہ میرے محافظ ہیں میں واپس مصر پہنچوں گی تو پھر میرے پاس آ کر وہ خزانہ دیکھ لینا جو مصر کا حکمران مجھے دے گا۔
یہ بات سن کر کپتان کچھ سنجیدہ ہوا ۔
تھا تو وہ بھی شراب کے نشے میں لیکن اس ادھیڑ عمری میں آکر شراب اس کی عقل پر حاوی نہیں ہوسکتی تھی، لڑکی عیار اور مکار ہی سہی لیکن نوجوانی کی عمر میں وہ پختہ کار نہیں ہوسکتی تھی، اور شراب کا اس کی عقل پر حاوی ہو جانا قدرتی تھا ۔ نوعمری کی وجہ سے وہ راز فاش کرنے پر اتر آئی تھی۔ اور فخر محسوس کر رہی تھی کپتان نے محسوس کیا کہ لڑکی یہ بات شراب کے نشے میں نہیں کہہ رہی بلکہ کوئی بات ضرور ہے۔ اس نے ذرا بہتر طریقے سے یہ راز لینا چاہا،
ہرقل کو کوئی نہیں قتل کرسکتا۔۔۔ کپتان نے کہا۔۔۔ میں خود چاہتا ہوں کہ ہرقل کو قتل کر دیا جائے لیکن مجھے اتنی ہمت نہیں نہ میں ہرقل تک پہنچ سکتا ہوں۔
میں ہرقل تک پہنچنے کے لئے جا رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ اور دیکھنا میں کس طرح پہنچتی ہوں۔
کس طرح ؟،،،،،کپتان نے پوچھا۔
تم نے سرائے میں مجھے غریبوں جیسے کپڑوں میں دیکھا تھا۔۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ میرا اصل لباس میرے سامان میں ہے وہ لباس دیکھو گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ میں کس حیثیت اور معیار کی لڑکی ہوں، میرے ساتھ جو دو آدمی ہیں ان کو بھی پہنے ہوئے کپڑوں سے نہ دیکھنا یہ کوئی معمولی سے آدمی نہیں یہ مقوقس کے خاص اعتماد کے آدمی ہیں، ہم غریبانہ کپڑے پہن کر اس لئے جارہے ہیں کہ کسی کی نظر ہماری طرف نہ اٹھے۔
لیکن میں سوچتا ہوں۔۔۔ کپتان نے کہا۔۔۔تم ہرقل تک پہنچو گے کس طرح؟
نہایت آسانی سے پہنچوں گی۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔یہ دو آدمی مجھے مقوقس کی طرف سے تحفے کے طور پر ہرقل کو پیش کریں گے، مقوقس نے مجھے ہرقل کی عادت بتادی ہے میں اس کی شراب میں تھوڑا سا زہر ملا دوں گی۔
زہر کہاں سے لاؤں گی؟،،،، کپتان نے پوچھا۔
ساتھ لے جا رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ زہر ہمارے سامان میں ہے۔
اس طرح لڑکی نے نوعمری کی نادانی اور شراب کی زیادتی کے زیر اثر اس قدر خطرناک راز فاش کردیا۔ کپتان نے مزید باتیں کرید کر یقین کر لیا کہ لڑکی زیادہ پی جانے کی وجہ سے بے معنی باتیں نہیں کر رہی بلکہ اس کے اندر سے صحیح بات نکل رہی ہے۔ اس لڑکی اور اس کے ساتھ دونوں آدمیوں کی بدقسمتی اور ہرقل کی خوش بختی کی یہ کپتان رومی تھا اور ہرقل کے مداحوں میں سے تھا ،ایسا نہ ہوتا تو بھی کپتان نے انعام واکرام کے لالچ میں فیصلہ کر لیا جو یہ تھا کہ وہ ھرقل تک پہنچے گا اور اسے بتائے گا کہ اس لڑکی کو مقوقس نے تمہیں زہر دینے کے لئے بھیجا ہے۔ اس نے اگلی صبح باہر نکلتے ہی ان دونوں آدمیوں کو بلایا اور پھر اپنے عملے کے دو چار آدمی بلائے انہیں کہا کہ ان ان دونوں آدمیوں کو لے جاؤ اور ان کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں باندھ دو اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو ، جہاز میں جہاز میں ایسے ایک دو کمرے بنے ہوئے تھے جن میں عملے کے ان آدمیوں کو بند کیا جاتا تھا جو جہاز میں کوئی جرم کرتے تھے۔ دونوں آدمیوں کو وہاں لے جا کر بند کر دیا گیا۔
کپتان نے پہلے تو یہ سوچا تھا کہ لڑکی کو بھی قید میں ڈال دے لیکن پھر سوچا یہ کہ ہرقل کے سامنے جاکر یہ تینوں کہہ دیں گے کہ کپتان جھوٹ بول رہا ہے اور یہ زہر اس نے خود اس کے سامان میں رکھا ہے وجہ یہ بتائیں گے کہ کپتان اس لڑکی کو اپنے کمرے میں رکھنا چاہتا تھا اور یہ آدمی اپنی بہن کو اس ذلت سے بچانے کی فکر میں تھا، مختصر یہ کہ کپتان نے سوچ لیا کہ یہ لوگ اس کے خلاف کوئی بھی کہانی گڑھ سکتے ہیں۔
اس نے بہتر یہ سمجھا کہ لڑکی کو ہاتھ میں لے لے اور لڑکی اپنی زبان سے بتائیے کہ اسے مقوقس نے بھیجا ہے اور کام یہ سونپا ہے۔
اس سوچ کے مطابق کپتان نے لڑکی کے ساتھ اور زیادہ محبت اور مروت شروع کردی، وہ بڑا کایاں اور تجربے کار آدمی تھا اس کے سامنے لڑکی کی چالاکیاں اور فریب کاریاں دم توڑ گئی، کپتان نے لڑکی کا دل جیت لیا اور اسے ہم خیال بنا لیا ہے لیکن اسے کامیابی پوری طرح حاصل ہوگئی، کپتان نے لڑکی کو خاص طور پر یقین دلایا تھا کہ وہ اسے ہرقل سے اتنا انعام دلا دے گا کہ مقوقس کے انعام کو بھول جائے گی، اگر لڑکی چاہے تو ہرقل اس کے ساتھ شادی کر کے اپنی چہیتی ملکہ بھی بنا لے گا۔ یہ ایسا خوبصورت خواب تھا جو کپتان نے اسے دکھایا تو لڑکی اس کے آگے ڈھیر ہوگئی اس نے لڑکی کو تیار کرلیا کہ وہ ہرقل کے آگے یہ سارا بیان دے دی گی۔
پھر جہاز بحیرہ روم کی بندرگاہ سے جا لگا اتنے بڑے بحری جہازوں کے کپتانوں کو کسی حد تک قانونی اختیار حاصل ہوتے تھے جو آج بھی ہیں، اس کپتان نے دونوں آدمیوں کو قید سے نکالا اور اپنے چار آدمی ساتھ لیے پھر سواری کا انتظام کیا اور اپنی دیگر جہاز کی مصروفیات سے فارغ ہو کر بزنطیہ کی طرف سفر کا قصد کیا۔
وہاں سے بزنطیہ بہت ہی دور تھا راستے میں دو پڑاؤ تو کرنے ہی پڑھتے تھے ،کپتان نے ان کا سامان اپنے قبضے میں کرلیا تھا لڑکی نے اسے زہر کی پڑیا سامان میں سے نکال کر دکھائی تھی جو کپتان نے دیکھ کر پھر سامان میں رکھ دی تھی، دونوں آدمیوں کو جب قید سے نکالا گیا تو انہیں بدستور زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا رہنے دیا گیا ، وہ کپتان کی منتیں کرتے تھے کہ انہیں چھوڑ دے اور وہ لڑکی کو بھی یہیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے لیکن کپتان بڑا ہی سخت طبیعت آدمی تھا اور پھر ہرقل سے انعام ملنے کی توقع تھی، کچھ اور انعام ملتا یا نہ ملتا یہی کافی تھا کہ وہ کسریٰ روم شاہ ہرقل کا منظور نظر بن جاتا۔
کپتان نے دو گھوڑا گاڑیوں کا انتظام کیا ایک میں وہ لڑکی کو لے کر بیٹھا دوسری میں دونوں آدمیوں کو اور اپنے چار مسلح محافظوں کو بٹھایا اس طرح بزنطیہ کی طرف سفر شروع ہوا۔
وہ چوتھے روز بزنطیہ پہنچے ، اور کپتان سیدھا ہرقل کے محل میں گیا اور اندر اطلاع بھیجوائی کہ فلاں نام کے بحری جہاز کا کپتان بڑے ہی ضروری کام سے آیا ہے۔
ہرقل کو اطلاع بھیجوائی گئی، تو جواب آیا کہ ابھی ابھی مصر سے قاصد کوئی ضروری پیغام لے کر آیا ہے، کپتان کو یہ بھی بتایا کہ جب وہ اندر جائے تو ذرا سنبھل کر بات کرے کیونکہ ہرقل یہ پیغام پڑھ کر غصے میں آیا ہوا ہے۔
ہرقل کو غصے میں آنا ہی تھا کیونکہ یہ مقوقس کا پیغام تھا جس میں اس نے ہرقل کو اطلاع دی تھی کہ عین شمس کے میدان میں لڑائی ہوئی ہے اور اپنی کتنی فوج ماری گئی، اور مسلمانوں کو کیا کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، جن میں قابل ذکر یہ ہے کہ مسلمان نیل کے دونوں کناروں پر قابض ہوگئے ہیں، اور کشتیوں کا پورا بیڑہ ان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔
بہت دیر بعد کپتان کو اندر بلایا گیا ہرقل نے اسے دیکھتے ہی گرج کر پوچھا، تم کیا لینے آئے ہو؟،،،، کیا تمہارا جہاز ڈوب گیا ہے؟،،،،، اور تمہیں نیا جہاز بنوا دوں۔
نہیں قیصرائے روم!،،،،، کپتان نے کہا۔۔۔۔ میں کچھ لینے نہیں بلکہ دینے آیا ہوں میرا جہاز سلامت ہے میں سلطنت روم کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے آیا ہوں۔
تو پھر جلدی بولو۔۔۔۔ ہرقل نے غضب ناک لہجے میں کہا۔
فرمانروائے مصر مقوقس نے آپ کے لئے ایک بڑی ہی حسین اور نوخیز لڑکی تحفے کے طور پر بھیجی ہے۔۔۔۔ کپتان نے کہا۔۔۔۔ لیکن یہ لڑکی آپ کی موت کا بڑا ہی دلکش فرشتہ بن کر آئی ہے، اپنے حسن اور دلکش جسم کے ساتھ آپ کے لئے زہر کی پڑیا بھی لائی ہے۔ حکم ہو تو اس لڑکی اور اس کے ساتھ آئے ہوئے دو آدمیوں کو پیش کرو؟
فوراً حاضر کرو۔۔۔۔ ہرقل نے حکم دیا۔
کپتان باہر نکلا اور لڑکی کو اندر لے گیا اب لڑکی اپنے اس لباس میں تھی جو وہ پہنا کرتی تھی ہرقل نے اسے دیکھا تو کچھ دیر دیکھتا ہی رہ گیا، ہر بادشاہ کی طرح وہ ایسی ہی لڑکیوں کا دلادہ تھا۔
قیصر روم روم کو سناؤ کہ تمہیں کس نے اور کیوں بھیجا ہے؟،،،، کپتان نے لڑکی سے کہا۔
لڑکی نے ذرا ذرا سی تفصیلات کے ساتھ ہرقل کو پوری بات سنا دی کہ اسے مقوقس نے کس کے ذریعے طلب کیا ،اور اسے کیا کام سونپا تھا ،اور کیا انعام پیش کیا تھا۔
ان دونوں کو حاضر کرو۔۔۔ ہرقل نے بیتابی سے کہا۔
دو آدمی پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالے اندر آئے۔
کیا تم اس لڑکی کے محافظ بن کر آئے ہو؟،،،،،، ہرقل نے پوچھا اور ساتھ ہی کہا ۔۔۔۔سچ بولو گے اور مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کرو گے تو میں سر قلم کردوں گا۔
اب جواب دو۔
دونوں آدمیوں نے اپنے سروں کو اوپر نیچے جنبش دے کر اقرار کیا کہ وہ اس لڑکی کے محافظ بن کر آئے تھے مقصد یہ بیان کیا کہ اس لڑکی نے ہرقل کو زہر دینا تھا۔
ہرقل پہلے ہی غصے میں تھا مقوقس نے شکست کا پیغام دے کر اسے آگ بگولہ بنا ڈالا تھا ویسے بھی وہ فرعونی ذہن کا بادشاہ تھا کسی پر رحم کرنا جانتا ہی نہیں تھا۔
شہنشاہ روم!،،،،، ان دونوں میں سے ایک آدمی نے رندھی ہوئی آواز میں عرض کی۔۔۔ ہم مقوقس کا حکم ٹال نہیں سکتے تھے ٹالتے تو وہ ہمیں جلاد کے حوالے کردیتا ،ادھر آپ ہمارا سر قلم کرنا چاہتے ہیں ہم جان بخشی کی عرض کرتی ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ واپس مصر نہیں جائیں گے۔
تم میری جان لینے آئے تھے۔۔۔۔ ہرقل نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لا کر کہا ۔۔۔اور میں تمہاری جان بخشی کر دوں ،میں جانتا ہوں تم انعام کے لالچ میں مجھے زہر دلوانے آئے تھے۔
ہرقل نے تالی بجائی اور باہر سے ایک محافظ دوڑتا اندر آیا ہرقل نے اسے کہا کہ ان دونوں آدمیوں کو اور اس لڑکی کو بھی لے جاؤ اور جلاد کے حوالے کردو ان کی لاشیں کہیں دور پھینک دینا۔
یہ حکم سن کر لڑکی کی چیخ نکل گئی ،کپتان اٹھ کھڑا ہوا اور ہرقل سے استدعا کی کہ اس لڑکی نے تو یہ راز مجھے دے دیا تھا اسے بخش دیا جائے۔
یہ ایک خوبصورت ناگن ہے۔۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ مقوقس سے انعام لے کر مجھے زہر دینے کا وعدہ کیا ، اور اسے دھوکہ دیا، یہ اس قابل ہے کہ اسے اپنے حرم میں رکھ لو لیکن یہ کسی بھی وقت مجھے دھوکہ دے سکتی ہے،،،، لے جاؤ انھیں۔
پلک جھپکتے تین محافظ اندر آئے اور تینوں کو پکڑ کر اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے لڑکی کی چینخ و پکار سنائی دیتی رہی، جو ہوتے ہوتے دور نکل گئی، ان کے سرقلم کرنے کے لئے جلاد تیار تھا۔
تم نے میری جان بچائی ہے۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ اور پوچھا۔۔۔۔ کیوں؟
اس لئے کہ میں آپ کے مداحوں میں سے ہوں۔۔۔ کپتان نے کہا ۔۔۔میں نے بڑی استادی سے اس لڑکی سے یہ راز لیا تھا۔
میں تمہیں اپنی جان کی قیمت دوں گا ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ اور پھر تالی بجائی۔
ایک آدمی اندر آیا تو ہرقل نے کسی کا نام لے کر کہا اسے فوراً بلاؤ، وہ شخص فوراً آ گیا جو شاید اس کا وزیر یا کوئی ایسا ہی بڑا حاکم تھا،ہرقل نے اسے کہا کہ اس کپتان کو اتنا انعام دے دو وہ حاکم کپتان کو اپنے ساتھ لے گیا۔
ہرقل کی اس ذہنی اور جذباتی کیفیت میں یہی توقع رکھی جاسکتی تھی کہ وہ کسی وقت مصر حکم بھیجے گا کہ مقوقس کو معزول کرکے قید میں ڈال دیا جائے، یا یہ کہ مقوقس کو فوراً بزنطیہ بھیجا جائے۔
ہرقل جیسے فرعون بادشاہ سے یہ توقع ہو ہی نہیں تھی کہ وہ مقوقس کی یہ حرکت معاف کردے گا، لیکن ایک رومی وقائع نگار کے حوالے سے تاریخ داں ابن الحکم نے لکھا ہے کہ ہرقل گہری سوچ میں کھو گیا اور پھر اس نے اپنے دو تین مشیروں اور ایک دو جرنیلوں کو طلب کیا، سب آ گئے تو ہرقل نے انھیں یہ ساری بات سنائی سب پر سناٹا طاری ہو گیا۔
مجھے مشورہ دو ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
اس جرم کی سزا موت سے کم کیا ہوگی۔۔۔۔ ایک مشیر نے کہا۔
باقی سب نے اس کی تائید کی ،پھر انہوں نے باری باری مقوقس کے خلاف زہر اگلا اور یہ مشورہ متفقہ طور پر پیش کیا کہ مقوقس کو یہاں پابجولاں لا کر سر عام قتل کیا جائے۔
نہیں !،،،،، ہرقل نے خلاف توقع کہا ۔۔۔موت کوئی سزا نہیں میں اس شخص کو زندہ رکھوں گا اور اسے ذلیل و خوار کر کے ملک بدر کروں گا ،یہ سزا موت سے زیادہ بری ہے کہ آدمی ذلت و خواری میں زندہ رہے ،اسے فرمانروائی سے ہٹاکر بھکاری بنا دوں گا ،تاکہ جو لوگ اس کے دربار میں سجدے کرتے تھے وہ اسے دیکھیں اور منہ پھیر لیں،،،،،، وہ ایسے حالات خود ہی پیدا کرتا چلا جارہا ہے کہ عربوں کے ہاتھوں مارا جائے گا یا اسے جنگی قیدی بنا کر قتل کر دیں گے، یا وہ خود ہی مجھے موقع دے گا کہ میں اسے ملک بدر کر دو،،،،،
تم دیکھ رہے ہو کہ وہ شکست پر شکست کھائے جارہا ہے، آدھی فوج مروا چکا ہے۔ مسلمان دریائے نیل کے دونوں کناروں پر قابض ہوگئے ہیں، میں اسے بخشونگا نہیں ، اور اسے پتہ بھی نہیں چلنے دوں گا کہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ اس نے میرے قتل کا انتظام کیا تھا۔
مقوقس بابلیون میں بیٹھا ہرقل کی موت کی خبر کا انتظار کر رہا تھا اور مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص اپنے لشکر کے ساتھ مصر پر چھاتے چلے جارہے تھے۔ مقوقس کو صرف یہ کامیابی حاصل ہوئی تھی کہ بنیامین کے کہنے پر قبطی عیسائی رومی فوج میں شامل ہونے لگے تھے۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
مقوقس اور اس کا جرنیل تھیوڈور قلعہ بابلیون میں بیٹھے ہرقل کی موت کی اطلاع کا انتظار بڑی ہی بے تابی سے کر رہے تھے، ان کے اندازے کے مطابق کتنے دن گزر گئے تھے کہ اب تک اطلاع آ جانی چاہیے تھی ،دن پر دن گزرتے جا رہے تھے اور ان دونوں کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی۔
ان دونوں نے یہاں تک سوچ رکھا تھا کہ حالات سازگار ہوئے تو ہرقل کی موت کی اطلاع کے فوراً بعد مصر میں اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیں گے۔ یہ دونوں دراصل قبطی عیسائی تھے انہوں نے ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کیا تھا ،ان کا یہ عقیدہ ہرقل نے صرف اس لیے برداشت کر لیا تھا کہ مقوقس مصر کا فرمانروا تھا، اور جرنیل تھیوڈور ، اطربون کے بعد دوسرا بڑا ہی قابل اور تجربہ کار جرنیل تھا ۔ اس حیثیت کے علاوہ ہرقل کو معلوم تھا کہ تھیوڈور کو مصر کے قبطی عیسائیوں میں خصوصی مقبولیت حاصل ہے ہرقل مقوقس اور تھیوڈور کی دوستی سے بھی آگاہ تھا ان دونوں کی ناراضگی سے ہرقل ڈرتا تھا۔
اب تو بہت ہی زیادہ دن گزر گئے تھے ان دونوں کو شک ہونے لگا کہ ان کی سازش ناکام ہو گئی ہے۔
یہ مت بھولیں۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔جس لڑکی کو ہم نے اتنی خطرناک مہم پر بھیجا ہے وہ اصل میں ایک طوائف زادی ہے ، مجھے شک ہے کہ اسے ہرقل کا حرم پسند آگیا ہے ،اور چونکہ وہ بہت ہی خوبصورت ہے اس لیے ہرقل اس پر فریفتہ ہوا جا رہا ہوگا ،اور لڑکی اس دھوکے میں آگئی ہوگی کہ روم اور مصر کا بادشاہ ہمیشہ کے لئے اس کے ہاتھ میں آ گیا ہے اور اب وہ ملکہ بنے گی۔
یہ شک مجھے بھی ہوتا ہے۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن یہ خیال بھی آتا ہے کہ لڑکی کو موقع ہی نہیں ملا ہوگا۔
دونوں نے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا تو اس فیصلے پر پہنچے کہ اپنا کوئی جاسوس اسکندریہ بھیجا جائے جو یہ معلوم کرے کہ ایک لڑکی دو آدمیوں کے ساتھ کس جہاز پر اور کب بحرہ روم کے پار جانے کے لیے روانہ ہوئی تھی ۔
تھیوڈور نے اس یقین کا اظہار کیا کہ لڑکی نے ان کا راز فاش نہیں کیا،،،،،، اگر ایسا ہوتا تو اب تک مقوقس اور تھیوڈور ہرقل کے قیدی ہوتے یا اب تک انہیں جلاد کے حوالے کیا جا چکا ہوتا۔
جب یہ طے کر لیا کہ کوئی جاسوس استعمال کیا جائے تو یہ مسئلہ سامنے آیا کہ ایسا کونسا جاسوس ہے جسے اعتماد میں لیا جا سکتا ہے، جاسوس بھی ایسا درکار تھا جو بزنطیہ میں ہرقل کے محل کے اندر کے حالات بھی معلوم کرنے کی اہلیت اور اثر و رسوخ رکھتا ہو، ایک تو عام قسم کے جاسوس تھے، اور دوسرا گروہ ان جاسوسوں کے افسروں کا تھا جو بادشاہ اور جرنیل وغیرہ جاسوس افسروں کے ساتھ دوستی کا ماحول پیدا کیے رکھتے تھے، مقوقس اور تھیوڈور نے سوچ سوچ کر ایک افسر کو منتخب کرلیا ۔
وہ بھی درپردہ قبطی عیسائی تھا۔ ان دونوں نے اس جاسوس افسر کو بلایا دونوں نے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ اس جاسوس کو کیا بتانا ہے۔
انہوں اس جاسوس کو یہ بتایا کہ ایک لڑکی کو بزنطیہ جاسوسی کے لئے بھیجا تھا معلوم یہ کرنا تھا کہ ہرقل مصر کی مخدوش صورتحال جانتے ہوئے بھی کمک کیوں نہیں بھیج رہا، اور کیا وہ کمک بھیجے گا بھی یا نہیں؟،،،، جاسوس کو یہ بھی بتایا گیا کہ لڑکی کے ساتھ دو آدمی بھیجے گئے تھے انہوں نے لڑکی کو ہرقل کے پیش کرنا تھا اور یہ کہنا تھا کہ یہ مقوقس نے بطور تحفہ بھیجی ہے۔
جاسوس افسر کے لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ مقو اس ہرقل کی جاسوسی کر رہا تھا ، جاسوس جانتا تھا کہ ہرقل نے اپنے جاسوس مصر میں بھیج رکھے ہیں جو یہ دیکھتے رہتے اور ہرقل کو پیغام اور اطلاعات بھیجتے ہیں کہ مقوقس اور جرنیل یہاں کیا کر رہے ہیں، اور ان کی نیت اور ان کے ارادے کیا ہیں، اگر مقوقس اور تھیوڈور ہرقل کی نیت اور ارادے معلوم کرنا چاہتے تھے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔
جاسوس نے کہا کہ یہ کام اگر اسے بتایا جاتا تو وہ بہتر طریقے سے کسی تجربے کار جاسوس سے کروا لیتا۔
اگر ہمارا یہ کام نہیں ہوا تو کوئی افسوس نہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔خطرہ یہ نظر آتا ہے کہ لڑکی نے ہرقل کے یہاں جاکر اور محل کی شان و شوکت سے متاثر ہوکر راز ہی فاش نہ کر دیا ہو ،،،،،،، ہمارے دونوں آدمیوں کو تو واپس آ جانا چاہیے تھا۔
جاسوس کو ہر ایک بات اچھی طرح سمجھا دی گئی اور اسے کہا گیا کہ وہ اسکندریہ جاکر معلوم کرے اور اگر اسے پتہ چل جائے کہ لڑکی اور یہ دو آدمی فلاں دن اور فلاح جہاز سے گئے تھے تو جاسوس بزنطیہ چلا جائے اور وہاں سے ان کا سراغ لگائے ،جاسوس کو یہ بھی بتایا دیا گیا کہ یہ دونوں آدمی اور لڑکی کس لباس میں اور کس حلیے میں گئے تھے، جاسوس اسی شام بابلیون سے اسکندریہ روانہ ہو گیا۔
یہ جاسوس جو اچھی خاصی حیثیت کا افسر تھا بادبانی کشتی کے ذریعے اسکندریہ پہنچا، کشتی ہی اسے پہچانے کا تیز ذریعہ تھی۔ دریائے نیل کا بہاؤ اسی طرف تھا اور کشتی بادبانی تھی اسکندریہ میں ایک ہی ایسی بڑی سرائے تھی جہاں بحیرہ روم کے پار جانے والے مسافر جہاز کی روانگی کا انتظار کرتے تھے، جاسوس مسافر کے بھیس میں اسی سرائے میں ٹھہرا۔
جاسوس کو بتا دیا گیا تھا کہ لڑکی اور وہ دو آدمی کن دنوں اسکندریہ پہنچے تھے، جاسوس نے اسکندریہ کے سرائے میں سرائے کے مالک اور نوکر وغیرہ سے پوچھنا شروع کردیا وہ بڑا ہی قابل اور تجربہ کار جاسوس تھا، اسے ہر کسی سے یہی ایک جواب ملا کہ اس سرائے میں تو مسافر آتے جاتے ہی رہتے ہیں اور کئی ایک کے ساتھ عورتیں بھی ہوتی ہیں کسی کے لئے یہ بتانا ممکن نہیں تھا کہ کوئی خاص قسم کی لڑکی خاص قسم کے آدمیوں کے ساتھ یہاں ٹھہری تھی۔
آخر ایک ذہین سے نوکر کو کچھ یاد آیا جاسوس نے اس کے ساتھ کچھ باتیں کی اور اسے ان تینوں کا لباس اور حلیہ بتایا تو نوکر نے کہا کہ اگر یہی لڑکی تھی تو اسے اس نے دیکھا تھا۔
نوکر نے کہا کہ وہ حیران اس لئے ہوا تھا کہ وہ لباس سے تو بالکل معمولی سے لوگ لگتے تھے لیکن انہوں نے سرائے میں الگ کمرہ لیا تھا ،وہاں تو اچھے اچھے لوگ آتے اور دو چار دن گزارنے کے لئے بڑے کمرے میں رہتے تھے تاکہ خرچہ زیادہ نہ ہو، یہ تینوں یعنی دو آدمی اور ایک لڑکی ایسے کمرے میں ٹھہرے تھے جو امیرکبیر لوگوں کے لئے ہی بنائے گئے تھے، نوکر ان کے ساتھ کمرے تک گیا تھا، اس کے بعد بھی وہ چند مرتبہ کمرے میں کچھ لے کر گیا اور ایک بار لڑکی جو ہر وقت چہرے پر نقاب رکھتی تھی بے خیالی میں نقاب ہٹا بیٹھی اور نوکر کی نظر اس کے چہرے پر پڑی وہ تو بہت ہی حسین لڑکی تھی۔
مختصر یہ کہ جاسوس کو بہت حد تک یقین ہو گیا کہ نوکر نے اسی لڑکی کو دیکھا تھا اور اس کے ساتھ وہی دو آدمی تھے جن کو مقوقس اور تھیوڈور نے لڑکی کے ساتھ بھیجا تھا۔ جاسوس کو پتہ چل گیا کہ وہ دو تین دن رک کر فلاں جہاز سے گئے تھے ،اسے جہاز کا نام بھی معلوم ہو گیا اور جہاز کے کپتان کا نام بھی۔
جاسوس نے بزنطیہ جانے کا فیصلہ کر لیا دوسرے مسافروں کو تو اگلے جہاز کا انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن اس جاسوس کے لئے سرکاری انتظام کردیا گیا تھا، بڑی بادبانی کشتیاں تیار رہتی تھیں، جاسوس نے بندرگاہ پر جاکر اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ اپنی ڈیوٹی پر جارہا ہے اور اسے فوراً بحیرہ روم عبور کرایا جائے، اسے اسی وقت ایک کشتی دے دی گئی جس میں تربیت یافتہ ملاح موجود تھے۔
جاسوس بزنطیہ پہنچا اور وہاں جاسوسی کے محکمے کے جو افسر تھے انہیں ملا ، وہ اسے بڑی اچھی طرح جانتے تھے اس نے انہیں بتایا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ مسلمانوں کے دو تین جاسوس یہاں آگئے ہیں وہ انہیں پکڑنے کے لیے آیا ہے۔
ان افسروں کے ساتھ وہ ادھرآدھر کی باتیں کرتا رہا قدرتی بات تھی کہ وہاں کے افسروں نے اس سے مصری کی جنگی صورتحال کے متعلق پوچھا جاسوس نے کہا کہ شاہ ہرقل نے قبطی عیسائیوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے تھے اس کا نتیجہ اب یہ سامنے آ رہا ہے کہ قبطی فوج کو تعاون دیتے ہیں نہ اپنے ملک کے دفاع کے لئے کچھ کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اسقف اعظم بنیامین نے انہیں کہہ دیا ہے کہ وہ اسلام کے اس طوفان کو روکنے میں اپنی فوج کی مدد کریں۔
جاسوسی کے محکمے کے یہ سارے افسر رومی تھے انہیں بجا طور پر افسوس ہو رہا تھا کہ مصر سلطنت روم سے نکلتا نظر آرہا ہے۔ انہوں نے ہرقل کے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کی باتیں شروع کر دیں ، باتوں باتوں میں ایک نے کہا کہ ڈیڑھ دو مہینے گزرے ہرقل نے ایک نوخیز اور خوبصورت لڑکی کو اور اس کے ساتھ دو آدمیوں کو جلاد کے حوالے کرکے ان کے سر قلم کروا دیے ہیں کسی کو بھی معلوم نہیں وجہ کیا تھی۔
مقوقس کے جاسوس نے یہ سنا تو وہ چونکا اور کرید کرید کر پوچھنے لگا کے وہ آدمی کون تھے اور لڑکی کو کہاں سے لائے تھے؟ اسے جواب ملا کہ مصر سے ایک بحری جہاز آیا تھا سنا ہے اس جہاز کا کپتان ان تینوں کو لایا تھا اور اس حالت میں لایا کہ دونوں آدمیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ ہرقل نے جہاز کے کپتان کو بہت سا انعام و اکرام دیا تھا۔
ہو سکتا ہے وہ مسلمان جاسوس ہوں۔۔۔ ہرقل کے ایک جاسوس افسر نے کہا ۔۔۔اور ہوسکتا ہے وہ یہی مسلمان جاسوس ہوں جن کے پیچھے تم آئے ہو۔
میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔۔۔ ایک اور بولا اگر وہ جاسوس ہوتے تو شاہ ہرقل انہیں ہمارے حوالے کرتا تاکہ ہم ان سے معلوم کر سکتے کہ انہوں نے یہاں سے کیا کیا معلومات حاصل کی ہے۔
مقوقس کے جاسوس نے اور بھی کئی ایک باتیں معلوم کرلیں اور اسے یقین ہوگیا کہ یہی تھی وہ لڑکی اور یہی تھے وہ دو آدمی جنھیں مقوقس نے بھیجا تھا ، وہ وہاں سے واپس مصر کو روانہ ہو گیا۔
کئی دنوں کی خشکی کا اور پھر سمندر کا سفر کرکے یہ جاسوس واپس مقوقس کے پاس پہنچا اور اسے ساری رپورٹ دی ،مقوقس اور جرنیل تھیوڈور پھر بھی حیرت زدہ رہے کہ ہرقل نے ان تینوں کو قتل کیوں کروایا تھا؟،،،،، ان دونوں کو یہ افسوس تو ہوا کہ ان کی قتل کی سازش ناکام رہی ہے لیکن اطمینان یہ جان کر ہوا کہ ان کا راز فاش نہیں ہوا اگر ہوجاتا تو اب تک ہرقل ان دونوں کو قتل کروا چکا ہوتا۔
مقوقس کے سامنے صرف یہی ایک مسئلہ نہیں تھا کہ ہرقل کو قتل کروانا ہے اس کے دماغ پر تو عرب کے مسلمان غالب آئے ہوئے تھے جو مصر میں ہر قلعے پر قابض ہوتے چلے آرہے تھے، انہوں نے دریائے نیل بھی پار کر لیا تھا اور پھر فیوم کے پورے کا پورا صوبہ اپنی تحویل میں لے کر محصولات اور دیگر ٹیکس وصول کرنے شروع کر دیے تھے ، وہ حیران ہوتا رہا تھا کہ ہرقل کمک کیوں نہیں بھیج رہا؟،،،،، شام کی جنگ میں جب ہرقل کی فوج کاٹ رہی تھی اور پیچھے ہی پیچھے ہٹتی چلی آرہی تھی تو ہرقل نے مصر سے اچھی خاصی کمک منگوالی تھی جس کا کمانڈر اس کا اپنا بیٹا قسطنطین تھا ،مگر اب ہرقل نے اپنے اس بیٹے کو بزنطیہ میں بٹھا رکھا تھا آخر کیوں؟ ۔۔۔۔مقوقس کو اس سوال کا جواب اس جاسوس افسر سے مل گیا۔
جاسوس نے مقوقس کو بتایا کہ وہ ہرقل کے شاہی محلات کے اندر کے احوال و کوائف بھی معلوم کر لایا ہے ہرقل بوڑھا ہو گیا تھا اور اب اس کی جانشینی کا تنازع سر اٹھا رہا تھا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو اس جاسوس نے بیان کی تھی، ہرقل کو اپنے بیٹے قسطنطین کے ساتھ بہت پیار تھا اور اسی کو اہمیت دیتا تھا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ قسطنطین جرنیل اور فوج کی قیادت میں خصوصی مہارت اور اہلیت رکھتا تھا ، ہر کسی کے ذہن میں یہی ایک یقین تھا کہ ہرقل کا جانشین قسطنطین ہی ہوگا لیکن ایک دعوے دار اور بھی تھا۔
یہ دعویدار ہرقل کی ایک اور بیوی کا بیٹا تھا، یہ بیوی صرف بیوی نہیں بلکہ ملکہ تھی، اور ملکہ بھی ایسی کے سلطنت روم پر اس کا حکم چلتا تھا بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ وہ ہرقل پر بھی اپنا حکم چلایا کرتی تھی ، بہت ہی چالاک اور عیار عورت تھی اس کا نام ملکہ مرتینا تھا۔
اس کا ایک جوان بیٹا تھا جس کا نام ہرقلیوناس تھا ۔ ملکہ مرتینا اپنے اس بیٹے کو ہرقل کا جانشین اور سلطنت روم کا وارث بنانا چاہتی تھی، لیکن ہرقلیوناس قسطنطین جیسا جنگجو طبع نہیں تھا ۔ وہ محض شہزادہ تھا اور اس میں خوبی یہی تھی کہ وہ ملکہ کا بیٹا تھا۔ بلکہ اسے میدان جنگ سے بچائے رکھتی تھی۔ اس کا میدان جنگ میں جانے کا امکان ہی نہیں تھا کیونکہ وہ لڑنے والا آدمی تھا ہی نہیں
تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہرقل ملکہ مرتینا سے کچھ ڈرتا بھی تھا شاید اس کی وجہ ہرقل کا بڑھاپا تھا ،ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مرتینا نے رومی فوج کے بڑے بڑے جرنیلوں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا اور انہیں اس قدر عیش و عشرت کرواتی تھی کہ وہ اس کی مٹھی میں ہی رہنے کو بے تاب رہتے تھے۔ بظاہر ان جرنیلوں کی وفاداری ہرقل کے ساتھ تھی لیکن وہ ملکہ مرتینا کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشاں رہتے تھے۔
ہرقل بڑا ہی ظالم بادشاہ تھا وہ چاہتا تو مرتینا کو قتل کروا سکتا تھا یا اسے غائب ہی کروا دیتا، لیکن اسے معلوم تھا کہ کسی نہ کسی طرف سے اس پر انتقامی وار پڑے گا جس سے وہ سنبھل نہیں سکے گا ،انتقام کا خطرہ اس کے اپنے بیٹے سے بھی تھا اس صورتحال کو وہ خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور اس نے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔
معروف مصری تاریخ داں محمد حسنین ہیکل نے یورپی اور عرب تاریخ نویسوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ ملکہ مرتینا نے پوری کوشش کر ڈالی تھی کہ ہرقل کو بڑھاپے کے بہانے تخت و تاج سے لاتعلق کر دے لیکن کامیاب نہ ہوسکی ۔ تاریخ میں تفصیلات نہیں ملتی کہ یہ کوشش کس نوعیت کی تھی لیکن یہ واضح ہے کہ جب مصر پر مجاہدین اسلام نے حملہ کیا تھا اس وقت ملکہ مرتینا ہرقل پر زور دیا تھا کہ قسطنطین کو فوج دے کر مصر بھیج دیں ورنہ مصر کا ہاتھ سے نکل جانا کوئی حیرت والا واقعہ نہیں ہوگا۔ مرتینا نے قسطنطین کی بہت ہی تعریفیں کی تھی اور کہا تھا کہ مصر کو عربوں سے قسطنطین بچا سکتا ہے۔
مرتینا تو چالاک اور ہوشیار تھی ہی ۔ہرقل بھی کچھ کم عیار نہیں تھا وہ جان گیا کہ اس کی ملکہ قسطنطین کی شجاعت کے جو قصیدے سنا رہی ہے اس میں اصل نیت یہ کار فرما ہے کہ قسطنطین مصر جائے اور مارا جائے ہرقل کوئی جواز پیش کرکے مرتینا کی یہ بات نہ مانی۔
اس کے بعد مصر سے جنگ کی صورتحال کی جو بھی اطلاع گئی وہ حوصلہ شکن اور انتہائی مایوس کن تھی، مرتینا نے ہرقل پر زور دینا شروع کر دیا کہ وہ خود فوج ساتھ لے کر مصر چلا جائے ورنہ مقوقس مصر عربوں کو دے بیٹھے گا۔ یہاں بھی مرتینا کی نیت یہی تھی کہ قسطنطین نہ مرے ہرقل ہی مارا جائے یا ہرقل مصر میں ایسا الجھ کر رہ جائے کہ مرتینا تخت پر بیٹھ کر روم کی شہنشاہیت کا دعوی کر دے ،،،،،،،،ہرقل نے اس کی یہ بات بھی نہ مانی۔
مقوقس کے جاسوس نے بتایا کہ ہرقل اپنی ملکہ سے تخت و تاج کو بچانے کے لئے اور پھر قسطنطین کو اپنا جانشین مقرر کرنے کے لئے نہ خود مصر آ رہا ہے نہ قسطنطین کو بھیج رہا ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ ہرقل نے مصر کی تمام تر ذمہ داری مقوقس پر ڈال دی تھی،،،،،،،،،، مقوقس نے اس جاسوس افسر کو انعام دے کر رخصت کردیا وہ اپنا جاسوسی کا کام بڑی ہی خوش اسلوبی سے جا کر پورا کر آیا تھا۔
ہرقل کو اب یہ یقین بھی ہو گیا تھا کہ مقوقس، اور اس کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بھی اس کے دشمن ہو گئے ہیں۔ مقوقس کو جب یہ یقین ہوگیا کہ ہرقل اس کی مدد کے لئے کچھ بھی نہیں کرے گا تو اس نے اپنے جرنیل تھیوڈور سے گفتگو کی تھیوڈور نے اسے حتمی طور پر کہہ دیا کہ مصر کا دفاع اب انہیں کے ذمہ داری ہے، اور ہرقل کی طرف دیکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔
آخر دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ ہرقل کو بدلتی ہوئی صورتحال کی اطلاع دیتے رہیں گے لیکن مصر میں اپنی پالیسی اور اپنی سہولت کے مطابق لڑیں گے اور ہرقل کا کوئی حکم نہیں مانیں گے، لیکن اسے یہ احساس نہیں ہونے دیں گے کہ اس کی حکم عدولی دانستہ کی جا رہی ہے، اس نے کبھی بازپرس کی تو یہ جواز پیش کریں گے کہ اس کا حکم جب مصر میں پہنچا تو یہاں کی صورتحال بہت ہی بدل چکی تھی۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مقوقس کا اسلام کے بارے میں رویہ دوسرے غیر مسلم بادشاہوں کی طرح جارحانہ اور حقارت آمیز نہیں تھا۔ دین اسلام کے متعلق اور رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق مقوقس کا اپنا ہی ایک نظریہ تھا۔ جس کا ذکر پہلے آچکا ہے ۔یہاں مختصراً ایک بار پھر پیش کیا جا رہا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک بار کسریٰ ایران، قیصر روم ، حیرہ، اور غسان کے بادشاہوں، عرب کے جنوبی علاقے کے حکمران ،اور فرمانروائے مصر مقوقس کے نام پیغام بھیجے تھے۔ جن میں ان سب کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی ۔
کسریٰ ایران نے بڑی رعونت سے یہ پیغام پھاڑ کر اس کے پرزے اڑا دیے تھے، اور پیغام لے جانے والے ایلچی کی بےعزتی کر کے دربار سے نکال دیا تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسریٰ کی سلطنت کے ٹکڑے اسی طرح بکھر جائیں گے اور یہ سلطنت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔
دوسروں کا رویّہ حقارت آمیز تھا ۔ لیکن مقوقس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا باقاعدہ جواب دیا اور ایسے نظریے کا اظہار کیا تھا جس سے سب حیران رہ گئے تھے، اس کے پاس حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ پیغام لے کر گئے تھے، مقوقس نے حضرت حاطب کا استقبال پورے احترام سے کیا اور حضور صلی اللہ وسلم کا پیغام پوری توجہ سے پڑھا تھا، تاریخ گواہ ہے کہ مقوقس نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کو الگ بیٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ باتیں پوچھی اور پھر پیغام کا جواب لکھا تھا۔
مقوقس نے پیغام میں لکھا تھا کہ میں جانتا تھا کہ ابھی ایک نبی کا آنا باقی ہے میرا خیال تھا کہ یہ نبی شام میں ظہور پذیر ہو گا لیکن یہ عرب کی انتہائی کٹھن اور صبر آزما زمین پر ظاہر ہوا ہے ۔ مقوقس نے اپنے پیغام میں ایسا اشارہ تک نہیں دیا کہ اسے رسالت پر اعتراض ہے بلکہ اس نے یہ لکھا کہ وہ قبطی عیسائیوں سے اس بارے میں کچھ نہیں کہے گا، البتہ یہ صاف طور پر کہا کہ عرب کے مسلمان مصر کے میدانوں میں اتریں گے اور مصر پر ان کا غلبہ ہو جائے گا۔
مقوقس نے پیغام کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو نوخیز اور خوبصورت لڑکیاں بطور تحفہ بھیجی تھی اور ایک نہایت اعلی نسل کا خچر بھی بھیجا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو لڑکیوں میں سے ایک کو اپنی ازواج مطہرات میں شامل کر لیا تھا، یہ تھیں حضرت ماریہ رضی اللہ تعالی عنہا ،انکے بطن سے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے تھے۔
اسلام کے بارے میں ایسا قابل احترام رویّہ رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مقوقس پورا مصر یا اس کا کچھ حصہ مجاہدین اسلام کے حوالے کردیتا۔ اس کے باوجود کے اس نے خود پیشن گوئی کی تھی کہ عرب کے مسلمان مصر پر غالب آجائیں گے، وہ عرب کے مجاہدین کا مقابلہ اپنی پوری طاقت اور تمام تر وسائل کے ساتھ کرنے کو تیار تھا اور کر بھی رہا تھا، اس نے اپنی فوج کو یہی ایک پیغام دیا تھا کہ اسلام کے اس سیلاب کو روکنا ہے البتہ اس نے اپنے رویے میں یہ ایک نرم گوشہ رکھا ہوا تھا کہ مسلمان کے ساتھ صلح صفائی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا، لیکن ساتھ یہ کہتا تھا کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں۔
اب اس نے مسلمانوں کی اس قدر برق رفتار اور قیامت خیز پیشقدمی اور فتوحات کا سلسلہ دیکھا، اور پھر ہرقل کی نیت کا اسے پتہ چلا تو اس نے تھیوڈور اور دیگر جرنیلوں سے کہہ دیا کہ اب وہ اپنی پالیسی کے مطابق لڑے گا اور جو کارروائی بہتر سمجھے گا وہی کرے گا۔
مجاہدین اسلام کی کامیابی صرف یہ نہیں تھی کہ وہ فتوحات حاصل کرتے بڑھے ہی چلے جا رہے تھے، بلکہ ان کی فتح یہ تھی کہ ان کی قیامت خیزی نے ہرقل کے شاہی نظام میں ایسا زلزلہ بپا کر دیا تھا کہ اس کا اپنا فرمانروا مقوقس، اور اس کے جرنیل، اور اس کا مقرر کیا ہوا اسقف اعظم اس کے دشمن ہو گئے تھے، وہ ہرقل جو فرعونِ ثانی تھا اپنے گھر میں اپنی ملکہ سے ڈرنے لگا تھا۔ اس کے گھر میں ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ وہ خود مصر جانے کا خطرہ مول لیتا تھا نہ اپنے بیٹے قسطنطین کو کمک دے کر بھیجتا تھا ۔
تاریخ آج تک حیران ہے کہ صحیح معنوں میں مٹھی بھر مجاہدین کو ایسی کامیابیاں اور وہ بھی اتنی بڑی جنگی طاقت کے مقابلے میں کس طرح حاصل ہوئی، تاریخ لکھنے والے صرف یہ لکھ گئے ہیں کہ یہ ایک معجزہ تھا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ معجزہ بیٹھے بٹھائے تو رونما نہیں ہو جایا کرتا۔
اللہ اپنے کرم و فضل سے صرف انہیں نوازا کرتا ہے جو اپنی جان اور اپنا مال اور اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربانی کے لئے پیش کر دیا کرتے ہیں، یہ ایمان کی مضبوطی کی ایک دلیل تھی اور یہ فتح دراصل اسلام کی صداقت کی فتح تھی۔
ہرقل کس انجام کو پہنچ رہا تھا اسے اللہ کی لعنت کہا جائے تو صحیح ہوگا ،قرآن میں کئی آیات میں آیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں پر کفار جو ظلم و ستم کرتے ہیں ان کفار کا انجام بہت ہی برا اور قابل نفرت ہو گا، اس کے ساتھ ہی اللہ نے یہ بھی بشارت دی ہے کہ جو اہل ایمان کفار کے ان مظالم کا مقابلہ ثابت قدم رہ کر کریں گے اللہ انہیں بہترین اور ہمیشہ رہنے والا اجر عطا کرے گا اور ظالموں سے انتقام لے گا۔
ہرقل اگر اسلام قبول نہ کرتا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی عیسائیت کے ساتھ ہی وفادار رہتا ،اور اپنے دل میں بنی نوع انسان کی وہی محبت رکھتا جو حضرت عیسی علیہ سلام کے دل میں تھی ،اور جس کی تعلیم آپ علیہ السلام نے کی تھی، تو شاید ہرقل کا انجام اتنا برا نہ ہوتا لیکن اس نے عیسائیت کو بھی مسخ کرکے اپنا ہی ایک مذہب بنا ڈالا تھا۔ اس پر تو لعنت برسنی ہی تھی۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
جاری ہے…………