ہرقل کی صحت پہلے ہی گر گئی تھی اب اسے احساس ہوا کہ مقوقس غداری کر گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا اور گرتی ہوئی صحت پر اس کا اثر بہت برا پڑا ،اس نے اس مسئلے پر غور کیا ہی نہیں کہ مقوقس نے غداری کی تھی یا دانشمندی کا ثبوت دیا تھا، مقوقس کا موقف یہ تھا کہ اب رومی فوج اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی اس نے سوچا تھا کہ بجائے اس کے کہ مسلمان پورے کا پورا مصر لے لیں ان کے ساتھ معاہدہ کرکے انہیں وہیں تک رکھا جائے جہاں تک وہ آ گئے تھے ،وہ قلعی بابلیون کو مسلمانوں سے بچانے کی فکر میں تھا، بابلیون اور قلعہ روضہ جو نیل کے وسط میں ایک جزیرے میں تھا بہت ہی اہم اور مستحکم مقام تھا۔ مقوقس یہ دونوں قلعے اور گردونواح کا علاقہ مسلمانوں سے بچا کر رکھنا چاہتا تھا اور اسی کے پیش نظر اس نے عمرو بن عاص کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا ۔
لیکن ہرقل نے اس کا یہ استدلال سنا ہی نہیں یا مانا ہی نہیں، وہ تو مقوقس سے اس سازش کا انتقام لے رہا تھا جس کے تحت مقوقس نے ہرقل کو قتل کروانے کی کوشش کی تھی۔
مقوقس کی قسمت کا فیصلہ کرکے ہرقل کی جسمانی اور ذہنی حالت بہت ہی بگڑ گئی یہ اس کا ذہنی ردعمل تھا ،طبیب اسے دیکھ لیا اور پھر طبیب کی بھیجی ہوئی دوائی کھا لیں تو اس نے پیغام لکھنے والے آدمی کو بلوایا اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام پیغام لکھوایا جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ اس نے مقوقس کا کیا ہوا معاہدہ منسوخ کردیا اور مسلمانوں کو بڑے ہی برے نتائج کی دھمکیاں لکھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان کسی معاہدے کے بغیر مصر سے نکل جائیں ۔
پیغام لکھا جا چکا تو ھرقل نے قاصد کے بجائے ایک ایلچی کو بلوایا اور پیغام اسے دے کر کہا کہ بہت تیزی سے بابلیون پہنچے اور یہ پیغام مسلمانوں کے سپہ سالار تک پہنچائے۔
کاتب جب پیغام لکھ کر ہرقل کے حکم سے باہر نکلا تو ایک ملازمہ نے اس کے کان میں کہا کہ اسے ملکہ مرتینا بلا رہی ہے، کاتب اس کمرے میں چلا گیا جہاں ملازمہ نے اسے بتایا تھا کہ ملکہ اندر بیٹھی انتظار کر رہی ہے۔
بیٹھو اور ایک پیغام اور لکھو۔۔۔ مرتینا نے کاتب سے کہا۔۔۔ اس پیغام کا ذکر کسی کے ساتھ نہ ہو ، ذرا سا بھی شک ہوا کہ تم نے کسی کو بتایا ہے تو اس کے فورا بعد تم اس دنیا میں نہیں ہوں گے، میں تمہیں اس راز داری کا انعام دوں گی ،،،،،،،،لکھو!،،
وہ آدمی بیٹھ گیا اور مرتینا جنرل تھیوڈور کے نام پیغام لکھوانے لگی اس وقت تھیوڈور مصر کے قلعہ بند شہر بابلیون میں تھا۔
کاتب پیغام لکھ چکا تو طبیب کی طرح اس کاتب کو بھی ملکہ مرتینا نے سونے کا ایک ٹکڑا دیا کاتب نے سونے کا ٹکڑا ہاتھ میں لیا تو اس کے چہرے پر حیرت زدگی کا تاثر آ گیا اسے اتنے زیادہ معاوضے کی توقع نہیں تھی۔
مرتینا نے دیکھا کہ یہ شخص سونے کے ٹکڑے کو دیکھے ہی جا رہا ہے تو اس نے اسے کچھ خوشگوار سے لہجے میں ڈانٹ کر کہا کہ اسے جیب میں ڈال دو اور کسی کو یہ نہ بتانا کہ یہ میں نے تمہیں دیا ہے،،،،، یہ سن کر کاتب نے بڑی تیزی سے ٹکڑا جیب میں ڈال لیا۔
روم کے اس شاہی خاندان کے پاس اس قدر کثیر خزانہ تھا جس کا حساب کتاب ان کے پاس بھی نہیں تھا ،ایک کاتب کے لیے صرف ایک ٹکڑا ایک خزانہ تھا لیکن ملکہ مرتینا کے لئے اتنا سونا ایسے ہی تھا جیسے ایک تنکا اٹھا کر باہر پھینک دیا ہو۔
کاتب باہر نکلا تو ملازمہ نے اندر آکر مرتینا کو بتایا کہ ایلچی آگیا ہے، مرتینا نے ایلچی اندر بلایا۔
ایک پیغام میرا بھی لیتے جاؤ ۔۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔ تم جانتے ہو کہ میرے پیغام کسی اور کو نہیں دکھائے جاتے مصر پہنچو گے تو جنرل تھیوڈور کو تنہائی میں میرا یہ پیغام دینا کسی اور کو پتہ چل گیا تو تم جانتے ہو اس کی سزا کیا ہے۔
مرتینا نے ایلچی کو بھی سونے کا ایک ٹکڑا دیا جو ایلچی نے لے کر فوراً جیب میں ڈال لیا۔ اسی وقت الچی ہرقل کا الگ اور مرتینا کا الگ پیغام لے کر مصر کو روانہ ہو گیا اس کا سفر خشکی کا بھی تھا اور پھر اسے بحیرہ روم بادبانی جہاز میں پار کرنا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام ہرقل کا یہ پیغام دسمبر 640 عیسوی کے ابتدائی دنوں میں بزنطیہ سے چلا ہوگا، یہ دسمبر کے آخری ہفتے کے وسط میں منزل پر پہنچا ،مجاہدین کا لشکر بابلیون کا محاصرہ کیے ہوئے تھا اس لیے سپہ سالار عمرو بن عاص اسے باہر ملے۔ انہیں پیغام دے کر ایلچی دریا کی طرف چلا گیا اسے اس دروازے سے اندر جانا تھا جو دروازہ دریا میں کھلتا تھا۔
عمرو بن عاص نے ہرقل کا پیغام پڑھا اور اپنے سپہ سالار کو اس طرح بلایا جیسے انہیں کوئی خوشخبری ملی ہو۔
سالار دوڑے آئے ۔عمرو بن عاص نے انہیں ہرقل کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ معاہدہ منسوخ کردیا گیا ہے اور اب مسلمانوں کا مقابلہ مقوقس کی بجائے دوسرے جرنیلوں سے ہوگا ۔ ہرقل نے کچھ ایسے الفاظ بھی لکھے تھے کہ کوئی حکمران اپنی قوم کے کسی غدار کا طے کیا ہوا معاہدہ تسلیم نہیں کیا کرتا ، ہرقل نے یہ بھی لکھا تھا کہ پیشتر اس کے کہ تمہاری ہڈیاں مصری کی مٹی میں مل جائیں تو زندہ و سلامت مصر سے نکل جاؤں بابلیون کو فتح کرنا تمہارے بس کی بات نہیں۔
اللہ کے شیروں !،،،،،،عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا ۔۔۔۔ہرقل کی یہ دھمکی ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں، مقوقس نے یہی دھمکیاں دیتے دیتے معاہدے پر آمادہ ہوگیا تھا ،کیا تم سمجھتے نہیں کہ رومیوں کے پاس سوائے دھمکیوں کے اور کچھ بھی نہیں رہا ،بابلیون کا معاملہ صرف اس لئے کچھ مختلف ہے کہ یہ بہت ہی مضبوط قلعہ ہے۔ اسے ایک طرف سے نیل کا تحفظ حاصل ہے اور یہ خندق بڑا ہی کارآمد دفاعی انتظام ہے۔ ہمارے مجاہدین کو نیل بھی نہیں روک سکا اور صحرا بھی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
ان شاءاللہ تم بابلیون کو بھی سر کر لو گے خدا کی قسم میں ہرقل کو اس کی دھمکی کا جواب دینا چاہتا ہوں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے بابلیون کو سر کرنے کا پالان سالاروں سے صلح مشورہ کرکے بنا رکھا تھا وہ منتظر تھے کہ ہرقل معاہدہ منظور کرتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ہوگیا تو سپہ سالار نے بابلیون پر حملے کا حکم دے دیا اور کہا کہ چند ثانیے وقت بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
سالار دوڑے گئے اور اپنے اپنے دستوں کو اکٹھا کر کے سپہ سالار کا حکم سنایا اور جوش بھی دلایا ہر مجاہد کے کانوں میں ہرقل کی دھمکی ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس دھمکی کا جواب زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر دیں گے۔
پہلے یہ گزر چکا ہے کہ مجاہدین کس طرح خندق پھاند کر قلعے کی دیواروں تک پہنچ گئے تھے، لیکن مقوقس نے صلح کا پیغام بھیج دیا اس لیے لڑائی روکنی پڑی پھر معاہدہ ہوگیا۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے دیکھا کہ ان کا لشکر خندق اور قلعے کے درمیان آ گیا تھا ۔قلعے اور خندق کا درمیانی فاصلہ خاصا زیادہ تھا معاہدہ تو ہو گیا تھا لیکن عمرو بن عاص دور اندیش سپہ سالار تھے ،انہوں نے پہلے ہی اپنے سالاروں سے کہہ دیا تھا کہ مقوقس نے وقت حاصل کرنے کے لیے یہ معاہدہ کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس معاہدے کی منظوری ھرقل سے لینا ضروری ہے دراصل مقوقس کمک کا منتظر تھا عمرو بن عاص کو خیال آیا کہ پہلے ہی وقت زیادہ گزر گیا ہے اور ابھی تک معاہدے کی منظوری نہیں آئی ہو سکتا ہے معاہدے کی منظوری کی بجائے اسکندریہ سے یا بزنطیہ سے زیادہ نفری کی کمک آجائے پھر مجاہدین کے لئے بڑی ہی مشکل پیدا ہوجائے گی۔
اس خدشے کے پیش نظر سپہ سالار نے اپنے لشکر کی پوزیشن کا جائزہ لیا ،لشکر قلعہ اور خندق کے درمیان تھا سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کے کمک دریا کے راستے سے آئے گی اور اس طرف کے دروازے سے اندر چلی جائے گی ایسا ہوسکتا ہے کہ رومی خندق میں پانی چھوڑ دیں اور اندر سے فوج باہر نکال کر حملہ کر دیں، اس صورت میں مجاہدین کے لئے پیچھے ہٹنا خطرناک ہوجائے گا ،وہ خندق اور زیادہ نفری کی رومی فوج کے درمیان ایسی صورتحال میں پھنس جائیں گے کہ سالار کوئی چال کوئی پینترہ نہیں بدل سکیں گے۔
مجاہدین نے یہ خندق اس صورت میں پار کی تھی کہ نیل کے اتر جانے سے خندق کا پانی بھی دریا میں واپس چلا گیا تھا، سپہ سالار کو معلوم نہیں تھا کہ خندق میں پانی چھوڑنے کا کوئی اور انتظام ہے یا نہیں، خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ کوئی اور انتظام ضرور ہوگا ان خطروں اور خدشے کے پیش نظر سپہ سالار نے یہ احتیاطی تدبیر اختیار کی کہ معاہدے کی منظوری یا نامنظوری آنے سے پہلے ہی تمام لشکر کو حصار خندق سے باہر لائے۔ محاصرہ برقرار رکھا گیا سپہ سالار نے سالاروں سے کہہ دیا تھا کہ ضندق کسی اور طریقے سے عبور کر لیں گے۔
قلعہ بند رومیوں نے جب دیکھا کہ مسلمان پھر خندق میں سے گزر کر پیچھے چلے گئے ہیں تو ان کے جرنیلوں نے ایک اور چال چلی وہ فوج کو تو باہر نہ لائے یوں کیا کہ منجیقیں باہر لے آئے اور شہر کے چاروں طرف نصب کرلیں ،ان کے ساتھ تیر اندازوں کی ایک فوج باہر آگئی جسے آگے بڑھ کر حملہ نہیں کرنا تھا بلکہ ایک مقام پر رک کر مجاہدین کے لشکر پر تیر پھینکنے تھے۔
رومیوں کو ایک سہولت یہ حاصل تھی کہ خندق اور قلعے کے درمیان پھلوں کے باغات تھے اور پھلوں کے درخت گھنے جھنڈ چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے یہ درخت خاص گھنے تھے، رومی تیرانداز ان درختوں پر چڑھ گئے اور مجاہدین کے لشکر پر تیر پھینکنے لگے ساتھ ہی منجیقوں سے پتھر آنے لگے۔
مسلمانوں کے پاس بھی منجیقیں تھیں اور تیر دور پھینکن والی کمانیں بھی۔
تیروں کے جواب میں بے تحاشا تیراندازی کی لیکن رومی تیرانداز جو کے درختوں پر چڑھ گئے تھے اس لئے نظر نہیں آتے تھے، درختوں کی آڑ اور سہولت ملنے کی وجہ سے رومی زیادہ فائدہ حاصل کر رہے تھے، سپہ سالار نے اپنے لشکر کو تیروں سے بچانے کے لئے اور پیچھے ہٹا لیا۔
شام کے بعد جب رات تاریک ہو جاتی تھی تو صاف پتہ چلتا تھا کہ رومی خندق میں کچھ کر رہے ہیں ،رات کو تیراندازی رک جاتی تھی پھر بھی کوئی مجاہد آگے نہیں جاتا تھا کہ ذرا سے شک پر رومی تیروں کی بوچھاڑ پھینکنے لگے گے ، رومی اپنے آپ کو اس قدر آزاد اور محفوظ سمجھنے لگے تھے کہ انہوں نے دروازے کھلے رکھے تھے ،تیرانداز آزادی سے اندر باہر آتے جاتے تھے ایک تیرا انداز دستہ دن بھر تیر اندازی کرتا اور شام کو اندر چلا جاتا اور اس کی جگہ تازہ دم دستہ آجاتا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص ہر طرف گھوڑا دوڑاتے پھرتے اور لڑائی کی صورت حال دیکھ کر ہدایات جاری کرتے تھے۔
سنگ باری اور تیر اندازی کے جواب میں سنگباری اور تیر اندازی میں ہی جنوری 641 عیسوی کا مہینہ گزر گیا اور ماہ فروری کا آغاز ہوا، مجاہدین کا لشکر ابھی تک خندق سے باہر کچھ دور تھا اور رومی خندق اور قلعے کے مستحکم دفاعی انتظام میں بالکل محفوظ اور خوش و خرم تھے۔ عمرو بن عاص نے لڑائی جاری رکھی ان کی مجبوری یہ تھی کہ مجاہدین کی نفری رومیوں کے مقابلے میں اور بابلیون کے دفاعی انتظامات کو توڑنے کے لئے بہت ہی تھوڑی تھی، سپہ سالار کا دماغ بڑی تیزی سے کام کر رہا تھا لیکن انھیں کوئی راستہ یلغار کے لئے نظر نہیں آرہا تھا۔
سپہ سالار نے ایک انتظام یہ بھی کر رکھا تھا کہ کئی ایک مجاہدین کو نیل کے کنارے اسکندریہ کی طرف خاصی دور تک بھیج دیا تھا ان کے ذمہ کام یہ تھا کہ ادھر سے کمک آئے تو فورا اطلاع دیں ۔ان مجاہدین میں تیر انداز زیادہ تھے ان کے لئے حکم یہ تھا کہ وہ بحری جہازوں اور کشتیوں پر جن میں کمک آرہی ہوگی، تیر پھینکیں اور انکی رفتار سست کریں ۔سپہ سالار کا ایک حکم یہ بھی تھا کہ کمک سے لدی کشتیاں ندی کے کنارے کنارے آ رہی ہو تو مشعلیں جلا کر انکے بادبانوں پر پھینکیں۔ تاکہ بادبان جل اٹھے لیکن کمک کے آنے کی اطلاع سپہ سالار تک فوراً پہنچائیں۔
قرآن میں اللہ تعالی نے جہاد کو افضل ترین قرار فرمایا اور اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کے ساتھ کچھ وعدے کیے ہیں، مثلا سورہ العنکبوت میں اللہ کا ارشاد ہے کہ جو لوگ اللہ کے لیے جہاد کرتے ہیں انہیں اللہ ضرور اپنے راستے (فتح کے) دیکھا دیتا ہے اور اللہ نیکوکار لوگوں کے ساتھ ہے۔
اللہ نے بابلیون کے محاصرے میں مجاہدین سے اپنا وعدہ پورا کیا کہ ایک روز ان مجاہدین میں سے ایک جنہیں نیل کے کنارے دور تک بھیجا گیا تھا گھوڑا دوڑاتا آیا اور سیدھا سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس جا رکا اسے دیکھ کر یہی توقع کی جاسکتی تھی کہ کمک آ گئی ہے اور یہ اس کی خبر لایا ہے۔
کیا رومیوں کی کمک آرہی ہے۔۔۔ سپہ سالار نے اس مجاہد سے پوچھا ۔
نہیں سپہ سالار!،،،،، مجاہد نے جواب دیا ۔۔۔اچھی خبر لایا ہوں ایک خبر یہ کہ شہر میں کوئی ایسی بیماری پھیل گئی ہے جس سے آبادی کا خاصا حصہ بیمار پڑا ہے اور لوگ مررہے ہیں، یہ بیماری اس فوج میں بھی پھیل رہی ہے جو شہر میں موجود ہے، دوسری خبر یہ کہ ہرقل مر گیا ہے ،تیسری خبر یہ کہ کمک کا دور دور تک نام و نشان نہیں اور فوج کے لوگ برجیوں پر چڑھ چڑھ کر اس طرف دیکھتے رہتے ہیں جس طرف سے انھیں کمک کے آنے کی توقع ہے۔
سپہ سالار کو یہ خبر سن کر بڑی ہی خوشگوار حیرت ہوئی یہ خبریں باہر اس طرح نکلی اور سپہ سالار تک پہنچی کہ ایک کشتی قلعے کے دروازے کی طرف آئی جو دریا میں کھلتا تھا یہ ماہی گیروں کی کشتی تھی جو اتفاق سے نیل کے مغربی کنارے کے قریب آ گئی وہاں جو مجاہدین موجود تھے انہوں نے کشتی کو روک لیا اور پوچھا کہ شہر کے اندر کیا حال ہے؟ ماہی گیروں نے انہیں یہ خبر سنا دی اور مجاہدین نے انہیں چھوڑ دیا۔
سپہ سالار نے اسی وقت تمام سالاروں کو بلایا اور انہیں یہ خبر سنا کر کہا کہ اب توقع رکھی جا سکتی ہے کہ رومی فوج کا حوصلہ مزید کمزور ہوجائے گا ،رومی فوج کے جرنیل اپنے بادشاہ کی خوشنودی کی خاطر ہی لڑا کرتے تھے اور ان کا بادشاہ مر گیا تھا اس کے برے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے۔۔۔ عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا۔۔۔ کہ کمک آئے گی ہی نہیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہرقل کو مصر کی یہ خبر پہنچے کے مسلمان بابلیوں تک پہنچ گئے ہیں اور وہ کمک نہ بھیجے۔
مرنے سے پہلے اس نے کمک بھیجنے کا حکم دے دیا ہوگا لہذا ہمیں بابلیون سر کرنے میں مزید جوش و خروش پیدا کرنا ہوگا۔
ہرقل کی موت کے متعلق بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مارچ 641عیسوی میں مرا تھا، لیکن مستند تاریخ 11 فروری 641عیسوی ہے۔
ہرقل سلطنت روم کا آخری جنگجو اور جابر بادشاہ تھا وہ زندہ و سلامت تھا تو روم کی طاقت بھی سلامت تھی یہ تو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا جوش ایمان تھا کہ ہرقل کو پے در پے شکست دی تھی لیکن سپہ سالار عمرو بن عاص اور امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہا کرتے تھے کہ رومی کسی بھی وقت قدم جماکر جوابی یلغار کر سکتے ہیں۔ یہ تو وہ سانپ تھا جو مرتے مرتے بھی ڈس جاتا تھا۔
بہرحال اللہ تعالی نے مجاہدین کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا اور ان کی کامیابی کے راستے کھول دیے تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ نیکو کار بندوں کے ساتھ ہے۔
عمرو بن عاص کو تو یہ اطلاع ملی تھی کہ ہرقل مر گیا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس کی موت کے بعد بزنطیہ میں کیا صورتحال پیدا ہوگئی تھی ،انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ملکہ مرتینا نے جنرل تھیوڈور کو الگ اور خفیہ پیغام بھیجا ہے اور یہ پیغام اپنا اثر دکھائے گا۔
پہلے اس پیغام کی بات ہو جائے تو بابلیون کے اندر کی کیفیت کا پتہ چل جائے گا ،کسی بھی مورخ نے ملکہ مرتینا کے پیغام کا پورا متن نہیں لکھا اس کا لب لباب یا اختصار لکھا ہے۔ اس پیغام سے صاف پتہ چلتا تھا کہ ملکہ مرتینا نے جنرل تھیوڈور کو اپنے حسن کا اور انعام واکرام کا اسیر بنا رکھا تھا، تھیوڈور اس کا مدح سرا ہی نہیں اس کا غلام بنا ہوا تھا۔
مرتینا نے اسے لکھا تھا کہ شاہ ہرقل کی زندگی کا اب کچھ پتہ نہیں کیونکہ اس کی صحت تیزی سے گزر رہی ہے اور وہ روز بروز نڈھال ہوتا جا رہا ہے، اس نے لکھا کہ تم جانتے ہو کہ میں اپنے بیٹے ہوقلیوناس کو سلطنت کے تخت پر بٹھا کر تاج اس کے سر پر رکھونگی ۔
ضروری ہے کہ عرب کے ان مسلمانوں کو مصر سے نکالو پھر میں یہ کہنے کے قابل ہو جاؤں گی کہ شاہ ہرقل نے تو شکست تسلیم کر لی تھی لیکن میرے بیٹے نے شکست کو فتح میں بدل دیا ہے ۔ یہ خیال رکھنا کسی قیمت پر بابلیون مسلمانوں کے ہاتھ نہ چلے جائے ۔ تم جانتے ہو کہ میں اس کے عوض تمہیں کیا دونگی، بتانے کی ضرورت نہیں اتنا بتا دیتی ہوں کہ تم حیران رہ جاؤ گے، یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ میری یہ بات اور یہ خواہش پوری کر دو تو تمہیں سلطنت روم کی ساری فوج کا کمانڈر بنا دوں گی اور مصر میں تمہیں وہی حیثیت حاصل ہوگی جو مقوقس کی تھی تم مصر کے حکمران ہو گے۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مرتینا نے اس پیغام میں کچھ رومانی باتیں بھی لکھی تھی، اور یہ بھی کہ مرتینا تھیوڈور کے لیے بزنطیہ سے حسین ترین اور نوخیز دو تین لڑکیاں بھیجے گی ۔ مختصر یہ کہ مرتینا نے جنرل تھیوڈور کو یہ کہا تھا کہ وہ مصر سے مسلمانوں کو نکالے اور اس کے عوض مرتینا نے تھیوڈور کے لئے ایسی کشش اور دلکشی پیدا کردی تھی جو انسان کو دنیا میں ہی جنت دکھا دیا کرتی ہے۔
یہ پیغام ملتے ہی تھیوڈور میں بے پناہ جوش اور جذبہ پیدا ہو گیا تھا اس نے اپنے ماتحت جرنیلوں اور دیگر کمانڈروں کو بلا کر ایک تو جذباتی انداز سے بھڑکایا پھر فوجی نقطہ نگاہ سے انہیں بڑے سخت احکام دیے اور کہا کہ یہ روم کی عزت و آبرو کا سوال نہیں بلکہ ہر رومی کے ذاتی وقار کا مسئلہ ہے۔ تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ تھیوڈور نے بابلیون کو مجاہدین اسلام سے بچانے کے لیے کیا کیا جتن کئے ہونگے۔
جب ہرقل کی موت کی اطلاع بابلیون پہنچی تو اس کے ردعمل کے طور پر یہ توقع تھی کہ سب کے حوصلے پست ہوجائیں گے لیکن تھیوڈور نے ساری فوج کو اکٹھا کرکے ایسے پرجوش طریقے سے خطاب کیا کہ ہر فوجی کو بھڑکا دیا اس نے کہا کہ شکست کا ذمہ دار سب سے پہلے مقوقس تھا ،اس کے بعد ہرقل اب دونوں نہیں ہیں تو یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ جن شکستوں کی ذمہ دار وہ دونوں تھے انہیں ہم فتح میں بدل دے سلطنت روم ہرقل کی نہیں بلکہ تمہاری ہے۔
تھیوڈور کے اس خطاب کے صحیح الفاظ تاریخ میں نہیں ملتے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے فوجیوں اور شہریوں میں بےپناہ ولولہ اور جذبہ پیدا کردیا تھا اب وہ اس جنگ کو ذاتی جنگ سمجھنے لگا تھا۔
مستند مؤرخوں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ بزنطیہ میں ہرقل کی موت کے بعد کیا صورتحال پیدا ہوگئی تھی پہلی بات تو یہ تھی کہ ہرقل کو مرتینا نے طبیب کے ہاتھوں زہریلی دوائیاں دلوا دلوا کر مروایا تھا ۔
طبیب نے صحیح اندازہ لگایا تھا کہ ہرقل ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دو مہینوں بعد مر جائے گا اس کا اندازہ صحیح نکلا۔
بزنطیہ میں صورتحال کچھ اس طرح بن گئی کہ جونہی ہرقل مرا ملکہ مرتینا نے اعلان کردیا کہ اس کا بیٹا ہرقلیوناس ہرقل کا جانشین ہے اور یہ فیصلہ ہرقل نے مرنے سے پہلے کر دیا تھا ۔حقیقت یہ تھی کہ ہرقل نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا مرنے سے پہلے مسلسل تین یا چار دن وہ بے ہوشی میں پڑا رہا تھا اور ایک رات ملکہ نے دیکھا کہ وہ مرا پڑا ہے ،وہ رات بے ہوشی یا نیند میں مر گیا تھا۔
ملکہ مرتینا کے اس اعلان کو سنتے ہی ہرقل کے بڑے بیٹے قسطنطین نے ہنگامہ برپا کردیا وہ کہتا تھا کہ ہرقل نے اسے کہہ دیا تھا کہ اس کی موت کے بعد وہ یعنی قسطنطین جانشین ہو گا ۔ وہ کہتا تھا کہ ہرقلیوناس نوعمر ،ناتجربہ کار، اور سلطنت روم کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لیے بالکل ہی نا اہل ہے، اس صورتحال میں جب مسلمانوں نے رومیوں کو شام سے دھکیل باہر کیا ہے اور مصر کے اتنے بڑے حصے پر قابض ہوگئے ہیں کوئی ایسا حکمران ہونا چاہیے جو فوجی امور کی سوجھ بوجھ ہی نہیں بلکہ تجربہ رکھتا ہو اور انتظامی امور کو بھی سنبھال سکے۔
فوج کے جرنیل اور شہری انتظامیہ کے حاکم جانتے تھے کہ ہرقلیوناس کو اس صورتحال میں تخت پر بٹھانا بہت بڑی اور بڑی ہی خطرناک غلطی ہے، اس کے لئے قسطنطین ہی موزوں تھا لیکن یہ جرنیل اور انتظامیہ کے چھوٹے بڑے حاکم دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے کچھ ملکہ مرتینا کے حامی تھے اور باقی قسطنطین کی حمایت کرتے تھے، اس طرح فوج اور شاہی محل میں دھڑے پیدا ہوگئے جو جانشینی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے، قسطنطین تو کسی قیمت پر تخت و تاج نہیں چھوڑنا چاہتا تھا وہ چونکہ بڑا بیٹا تھا اس لیے بھی تخت کا وارث وہی تھا۔ ملکہ مرتینا اسے قبول نہیں کر رہی تھی۔
تاریخ میں یہ بھی واضح ہے کہ ھرقل زیادہ نفری کی تازہ دم کمک تیار کرنے اور فوراً مصر بھیجنے کا حکم دے دیا تھا ،کمک بالکل تیار ہو گئی تھی لیکن ابھی روانہ ہوئی تھی کہ ہرقل مر گیا قسطنطین نے فوراً حکم دیا کہ کمک کو مصر بھیجنے کے لئے جہاز تیار کیے جائیں۔ ملکہ مرتینا نے اس حکم پر یہ اعتراض کیا کہ قسطنطین خود اس کمک کے ساتھ جائے وہ جواز یہ پیش کرتی تھی کہ قسطنطین چونکہ میدان میں قیادت کا تجربہ رکھتا ہے اس لیے وہ کمک کا صحیح استعمال کرے گا ورنہ پہلے والے جرنیل اس کمک کو بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مروا دیں گے۔
قسطنطین جانتا تھا کہ اس وقت ملکہ مرتینا کو مصر کا کوئی خیال نہیں اس کی تمام تر دلچسپیاں اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانے پر مرکوز ہے وہ بزنطیہ سے غیر حاضر نہیں ہونا چاہتا تھا۔
حکم میرا چلے گا۔۔۔ملکہ مرتینا نے اعلان کردیا۔۔۔۔یا میرے بیٹے کا چلے گا۔ قسطنطین فوج کا کمانڈر ہے وہ مجھ سے یا میرے بیٹے سے حکم لے اس کے لیے شاہی حکم یہ ہے کہ کمک لے کر مصر کو روانہ ہوجائے جانشینی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
قسطنطین جانتا تھا کہ اس کی پشت پناہی میں جو لوگ ہیں وہ ایک محاذ پر متحد ہوچکے ہیں اور اسے یہ پشت پناہی ملتی رہے گی۔
ہوا بھی یہی اس کے حامی جرنیل اور اس سے نیچے کے عہدوں کے فوجی افسر اور شہری انتظامیہ کے بڑے حاکم اور شاہی خاندان کے کچھ افراد اس کی حمایت میں سامنے آگئے۔ اور صحیح معنوں میں انھوں نے متحد محاذ بنا لیا یہاں تک کہ مصر کی شکست کو اور مجاہدین اسلام کی پیش قدمیوں کو نظرانداز کردیا اور اولیت اور اہمیت صرف اس مسئلہ کو دینے لگے کہ تخت کا وارث قسطنطین کو ہی بنانا ہے۔
یہ تو وہ فوجی اور شہری حاکم تھے جو حقیقت پسند تھے اور سلطنت روم کا وقار بحال کرنا چاہتے تھے اور سلطنت کی توسیع بھی ان کے پیش نظر تھی بجا طور پر وہ قسطنطین کو ہی اس قابل سمجھتے تھے کہ اس صورتحال کو وہ سنبھالنے کی اہلیت اور تجربہ رکھتا ہے۔ عمر کے لحاظ سے قسطنطین ادھیڑ عمری کی آخری اسٹیج تک پہنچ چکا تھا جہاں انسان کی عقل و دانش مزید تیز ہوجاتی ہے اور وہ گزشتہ زندگی کے اچھے برے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
دوسری طرف ملکہ مرتینا نے اپنے بیٹے کے حامی خرید رکھے تھے خزانہ اس کے ہاتھ میں تھا اور شاہی حرم پر اس کا حکم چلتا تھا اس لئے اس نے یہ دونوں چیزیں یعنی زرو جواہرات اور حسین و جمیل لڑکیاں بے دریغ استعمال کر کے چند ایک جرنیلوں اور شہری حاکموں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا اب وقت آگیا تھا کہ یہ فوجی اور شہری حاکم انعام و اکرام کا حق ادا کریں، جو انہوں نے کیا اور محاذ بنا کر قسطنطین کے حامیوں کے خلاف مورچہ بند ہوگئے۔
شاہی حکم تو معطل ہی ہو گئے ،کمک روانگی کے حکم کے انتظار میں ہی بارکوں میں بیٹھی رہی دونوں دھڑوں کے جرنیلوں نے اپنے اپنے دستوں کو الگ کر لیا اور صورتحال خانہ جنگی والی پیدا ہو گئی۔
اس صورتحال میں کمک کو بھی جرنیلوں نے تقسیم کرلیا اور یہ بات ہی ختم ہو گئی کہ مصر کو کمک بھیجنی ہے ۔
کون نہیں سمجھ سکتا کہ جہاں اس طرح دھڑے بندی شروع ہوجائے اور یہ کشمکش اور چپقلش دونوں دھڑوں کو مرنے مارنے تک پہنچا دے تو وہاں کیسی تباہی آتی ہے۔ سارا سرکاری نظام ہی جام ہو کر رہ گیا ملکہ مرتینا کی عیاریاں عروج پر پہنچ گئی۔
قسطنطین سلطنت روم کے معاملے میں مخلص تھا وہ دل و جان سے چاہتا تھا کہ یہ کشمکش ختم ہوجائے ۔ ملکہ مرتینا نے یہ چال بھی چلی کے تین چار بڑے پادریوں کو قسطنطین کے پاس بھیجا کہ اسے قائل کرے کہ وہ تمام تر فوج کا کمانڈر انچیف بن جائے اور تخت پر ہرقلیوناس بیٹھے، بے شک تمام امور قسطنطین اپنے ہاتھ میں رکھے۔
پادری قسطنطین کے پاس گئے اور مذہب کے نام پر اسے قائل کرنے لگے، قسطنطین نے کہا کہ اسے اگر یقین ہوتا کہ ہرقلیوناس کو تخت کا وارث قرار دینے سے سلطنت روم کے استحکام کو فائدہ پہنچے گا تو وہ اپنے حق سے دستبردار ہو جائے گا ۔ پادریوں نے مزید دباؤ ڈالنا شروع کردیا اور غالبا کسی پادری نے اسے کوئی توہین آمیز بات کہہ دی۔
میں آپ لوگوں کا احترام کر رہا ہوں۔۔۔ قسطنطین نے کہا۔۔۔ لیکن آپ مجھے ڈرا رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں کیا آپ میں اتنی سی بھی عقل و دانش نہیں کہ ہرقلیوناس کے اخلاق اور عقل کو جانتے ہوئے اسے تخت کا وارث بنا رہے ہیں، لیکن آپ مجبور ہیں کیونکہ آپ کے اندر مرتینا کا دیا ہوا خزانہ بول رہا ہے۔ اور آپ سب پر ان حسین و جمیل لڑکیوں کا سحر طاری ہے جو مرتینا آپ کو پیش کرتی رہی ہے۔ پیشتر اس کے کہ میں آپ کو کلیسا سے بے دخل کردوں یہاں سے چلے جائیں۔
ان پادریوں کے ضمیر مجرم تھے اس لیے وہ خاموشی سے چلے گئے۔
قسطنطین نے اب ایک بادشاہ کی حیثیت سے حکم دیا کہ کمک فوراً تیار کرکے مصر بھیجی جائے ،لیکن اس کے حکم کا وہی حشر ہوا جو ہوا میں چلائے تیر کا ہوتا ہے ،اس کے حامی جرنیلوں نے اسے بتایا کہ کمک تقسیم ہوچکی ہے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جو فوج قسطنطین کے حق میں ہے اس میں سے کمک بھیجی جائے ورنہ حامی فوج کی نفری بہت کم رہ جائے گی اور مرتینا کی حامی فوج اپنی طاقت سے تخت پر قابض ہو کر ہرقلیوناس کو روم کا بادشاہ بنا دے گی۔
یہ ایک بہت بڑا کرم تھا جسے اللہ تعالی نے مجاہدین اسلام کو نوازا تھا ،اور یہ بہت بڑی لعنت تھی جو اللہ تعالی نے رومیوں پر نازل کی تھی ،اللہ تبارک وتعالی اپنا یہ وعدہ بھی پورا کر رہا تھا کہ تم میں سے صرف دس ثابت قدم رہنے والے اور ایمان والے ہوئے تو ایک سو پر غالب آئیں گے اور سو ہوئے تو ایک ہزار پر غلبہ حاصل کریں گے ، مطلب یہ کہ اللہ ثابت قدم رہنے والے مومنین کی اتنی مدد کرتا ہے کہ معجزہ رونما ہوتے ہیں۔
رومی شہنشاہیت کے ایوانوں میں جو صورت حال پیدا ہوگئی تھی یہ مجاہدین کے لئے ایک معجزے سے کم نہ تھی ، وہاں تو مجاہدین کو مصر سے نکالنے والے رومی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کو بالکل ہی معلوم نہ تھا کہ بزنطیہ میں یہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور کمک کا خطرہ بالکل ہی ختم ہوگیا ہے۔ سپہ سالار تو یہ پلان بنا رھے تھے کہ کس طرح خندق عبور کر کے قلعے پر یلغار کی جائے ،لیکن ممکن نظر نہیں آتا تھا رومیوں نے منجیقیں باہر لگا رکھی تھیں اور تیرانداز درختوں میں چھپے ہوئے تیروں کی بوچھاڑ پھینک رہے تھے۔
ملکہ مرتینا نے (تاریخ کے مطابق) جنرل تھیوڈور کو ایک پیغام اور بھیجا اس میں مرتینا نے شاہی محل کی تمام صورت حال لکھی اور اسے بتایا کہ کسی بھی وقت یہاں خانہ جنگی ہو سکتی ہے، خانہ جنگی ہو یا نہ ہو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ ہرقلیوناس کو تخت کی وراثت نہیں مل سکے گی ،مرتینا نے لکھا کہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل ہوشمندی سے استعمال کرو اور مسلمانوں کو وہاں سے نکالو، مرتینا کا مطلب یہ تھا کہ ہو سکتا ہے ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ لوگ اس کے اور اس کے بیٹے کے خلاف ہو جائیں تو اسے اپنے بیٹے کے ساتھ پناہ لینے کے لیے مصر آنا پڑے۔
اس صورت میں وہ مصر سے خودمختاری کا اعلان کردی گی۔ اس نے تھیوڈور کو پرزور الفاظ میں لکھا تھا کہ مصر محفوظ رہنا چاہیے اور وہاں سے ہماری بادشاہی کی ابتدا ہوگی اور جو فوج وہاں موجود ہے وہ ہماری اپنی ہوگی۔
ہرقل نے بزنطیہ میں مقوقس پر غداری کا الزام لگا کر بالکل ٹھیک کہا تھا کہ مصر میں ایک لاکھ رومی فوج موجود ہے، جس میں سے صرف بارہ ہزار کو لڑایا گیا ہے، اگر عقل مندی اور دیانتداری سے اس فوج کو استعمال کیا جاتا تو آٹھ دس ہزار نفری کے لشکر کو مصر میں ہی کچلا اور مسلا جاسکتا تھا۔
یہ صحیح ہے کہ مصر میں ایک لاکھ رومی فوج موجود تھی لیکن یہ فوج مختلف مقامات پر بکھری ہوئی تھی اور ان میں جو مجاہدین اسلام کے مقابلے میں آئی تھی اس میں سے ہزاروں کی تعداد میں کٹ گئی تھی۔ تھیوڈور نے مرتینا کے اس دوسرے پیغام کے مطابق اپنے دفاعی پالان میں رد و بدل کیا ایک تو اسے یہ پتہ چل گیا کہ بزنطیہ سے کمک نہیں آئے گی۔ وہ کسی دوسرے مقام سے کمک نہیں منگوا سکتا تھا کیونکہ بابلیون مجاہدین کے محاصرے میں تھا دریائی راستہ بھی مجاہدین کی موجودگی میں محفوظ نہیں تھا۔
ایک روز مجاہدین نے دیکھا کہ رومی منجیقیں قلعے کے اندر لے جارہے ہیں اور تیرانداز دستے بھی قلعے کے اندر چلے گئے ہیں۔ دروازے بند ہوگئے سپہ سالار عمرو بن عاص دیکھتے رہے اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے منجیقیں قلعے کی دیواروں پر پہنچا دی گئیں اور وہاں سے پھر سنگ باری شروع ہوگئی۔
ایک بات جو پہلے بتا دینے والی تھی وہ اب بتائی جا رہی ہے، چونکہ قسطنطین سلطنت روم کے حق میں مخلص تھا اور اپنے شاہی خاندان اور سلطنت کا وقار بحال کرنے کی کوشش میں مصروف تھا ،اس لئے وہ دیکھ رہا تھا کہ اس صورتحال پر کس طرح قابو پایا جاسکتاہے ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس قسطنطین کو یاد آیا لیکن ہرقل نے اس پر بھی بے وفائی اور مقوقس کا ساتھ دینے کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا تھا ۔اس کے لئے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ اسے بیڑیاں اور ہتھکڑیاں لگاکر جلاوطن کیا جائے بلکہ اسے یہ حکم دیا گیا کہ وہ سلطنت روم سے نکل جائے۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ قسطنطین کو معلوم تھا یا نہیں کہ جلاوطنی کے بعد قیرس کہاں چلا گیا ہے؟
تاریخ میں لکھا ہے کہ قسطنطین نے اپنا ایک دانشمند ایلچی قیرس کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ شاہ ہرقل مر چکا ہے اور وہ یعنی قسطنطین اس کی جلاوطنی منسوخ کرتا ہے ،اور وہ فوراً بزنطیہ آ پہنچے۔
قسطنطین نے ایلچی کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ قیرس کو قائل کر کے واپس لانا ہے۔ پھر آگے مورخ لکھتے ہیں کہ قیرس کا سراغ مل گیا تھا اوروہ بزنطیہ آ گیا تھا ،لیکن یہ بعد کی بات ہے، پہلے ہم اس سے پہلے کے واقعات سناتے ہیں۔
بابلیون کے باہر اب جو کیفیت تھی وہ اس طرح تھی کہ جب رومی منجیقیں اور تیر انداز قلعے کے اندر چلے گئے تو مجاہدین آگے بڑھ کر خندق کو دیکھنے لگے تیر اندازوں کی موجودگی میں وہ خندق کو دیکھ ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ تیر موسلا دھار مینہ کی طرح آتے تھے۔
مجاہدین یہ دیکھنے کو آگے بڑھے کہ خندق عبور کی جا سکتی ہے یا نہیں۔
وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ رومیوں نے خندق کو ناقابل عبور بنا دیا تھا اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا لیکن تمام تر خندق خار دار تاروں کے گچھوں سے سے بھری پڑی تھیں، ان گچھوں کے علاوہ خندق میں لوہے کی نوکیلی سالاخیں گاڑھی ہوئیں تھیں۔ اگر خندق میں پانی ہوتا ، خواہ پانی سے خندق لبریز ہوتی تو تیر کر اسے عبور کیا جا سکتا تھا۔لیکن رومیوں نے خندق کو خار دار تاروں اور نوکیلی سلاخوں سے بھر دیا تھا۔ اور کوئی انسان خندق میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔
محاصرے کو تقریبا آٹھ مہینے گزر گئے تھے مجاہدین کے لشکر میں مایوسی اور بددلی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
لیکن سپہ سالار اور دیگر سالار بے تاب و بے قرار ہو تے جا رہے تھے۔ خندق اتنی چوڑی تھی کہ اسے اندرونی رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے عبور کرنے کی سوچی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ پھر بھی سب اپنا اپنا دماغ لڑا رہے تھے کہ خندق عبور کرنی ہی کرنی ہے۔
اب دیکھئے گوشت پوست کا ایک انسان کیا موجزے کر کے دکھاتا ہے ، یہ تھے زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ اس مرد مجاہد کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے ۔ زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے ۔
ان کا شمار عرب کے بہادر ترین افراد میں ہوتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا تھا ۔ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے میرے حواری زبیر بن عوام ہیں۔
زبیر بن عوام نے بابلیوں کے محاصرے میں جب دیکھا کہ خندق عبور کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تو ایک رات انہوں نے چند مجاہدین کو ساتھ لیا اور چار پانچ درختوں کے بڑے بڑے ٹہنیں کٹوائے پھر یہ ٹہن شاخوں اور پتوں سمیت گھسیٹ کر خندق تک لے گئے اور خندق میں پڑی ہوئی خار دار تاروں کے گچھے اور نوکیلی سلاخوں پر اس طرح پھینکنے شروع کیئے کہ اگلے کنارے تک ٹہن پہنچ گئی۔
اس طرح انھوں نے خندق پر پڑے ہوئے ٹہوں پر چلتے چلتے اور ٹہن پھینکے اور خندق کے اوپر سے گزرنے کا اچھا خاصا راستہ بنالیا۔
اسی رات انہوں نے مجاہدین کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور ان سے یوں خطاب کیا۔۔۔۔۔
یاد کرو خالد بن ولید کے وہ کارنامے جو انہوں نے دمشق میں کر دکھائے تھے ،یاد کرو سعد بن ابی وقاص کی وہ شجاعت جو انہوں نے مدائن میں دکھائی تھی، اور نہاوند میں نعیم بن مقرن کی بہادری یاد کرو، تم میں کون ہے جو شجاعت اور جانبازی میں ان مجاہدین سے پیچھے رہنا چاہتا ہے؟،،،،،،،،،، کیا تم میں کوئی بھی نہیں جو اللہ کی راہ میں سرفروشی کے جذبے سے سرشار نہ ہو؟
ہم ہیں۔۔۔۔ تمام مجاہدین کی آواز اٹھی۔۔۔ ہم اللہ کی راہ کے جانباز اور سرفروش ہیں۔ ہم سے تو کونسا کارنامہ کروانا چاہتا ہے۔
میں اللہ کی راہ میں اپنی جان پیش کرتا ہوں۔۔۔۔ زبیر بن عوام نے کہا۔۔۔ اللہ میری اس قربانی کو مسلمانوں کی فتح کا سبب بنائے۔
زبیر بن عوام نے اتنی سی بات کہہ کر مجاہدین کو جوش اور جذبے کے شعلے بنا دیا۔ وہ اب پوچھ رہے تھے کہ کرنا کیا ہے۔
لشکر میں ڈسپلن ایسا تھا کہ کوئی سالار ایسی کاروائی جو زبیر کرنے لگے تھے اپنے طور پر نہیں کرتا تھا۔ سپہ سالار کو پہلے اپنا پورا پلان بتاتے تھے پھر وہ کارروائی کی جاتی تھی۔
زبیر سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ انہوں نے قلعے پر یلغار کے لئے مجاہدین کا ایک پورا دستہ تیار کر لیا ہے، اور پھر اپنا پلان بتایا۔
عمرو بن عاص تو خطرہ مول لینے میں ہی شہرت رکھتے تھے ،انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ بابلیون کا قلعہ سر کرنا ہے تو کوئی بہت ہی بڑا خطرہ مول لینا پڑے گا۔ وہ زبیر بن عوام لے رہے تھے۔
سپہ سالار نے سالار زبیر کو اجازت دے دی۔ زبیر بن العوام جب واپس اس جگہ گئے جہاں انہوں نے خندق پر درختوں کے ٹہن پھینکے تھے، وہاں پہلے سے زیادہ مجاہدین اکٹھے ہوگئے تھے وہ سب اپنی جان پیش کرنے آئے تھے اور بے تاب تھے کہ انھیں بتایا جائے کرنا کیا ہے۔
سالار زبیر نے ایک دستے کی نفری الگ کرلی اور بتایا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اور کیسی قربانی دینی ہوگی۔ ان کا پلان ایسا تھا جس میں شہادت یقینی نظر آتی تھی۔
سالار زبیر کی ہدایات کے مطابق مجاہدین نے سیڑھیاں اکٹھا کر لیں اور دو دو سیڑھیاں باندھ لیں۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
یہ کام رات کی تاریکی میں ہورہا تھا، تاریکی مجاہدین کو فائدہ تو دے رہی تھی کہ وہ ذرا ہی دور سے کسی کو نظر نہیں آ سکتے تھے، لیکن اس تاریکی میں کچھ خطرے بھی تھے۔ فتح انہیں کے مقدر میں لکھی جاتی ہے جو آتش نمرود میں بے خطر کود پڑتے ہیں ،سپہ سالار عمرو بن عاص وہاں موجود تھے اور مجاہدین کا حوصلہ بڑھا رہے تھے وہ بہت ہی خوش تھے کہ انہیں زبیر بن العوام جیسے سالار مل گئے تھے۔
اس جانباز اور سرفروش سالار نے قلعہ بابلیون سر کرنے کی مہم میں نئی روح پھونک دی تھی۔
کئی ایک مجاہدین کی خواتین لشکر کے ساتھ تھیں جو لشکر کے پیچھے رہتی تھیں ۔ان خواتین میں زیادہ تر بیویاں تھیں ایک دو مجاہدین کی مائیں بھی تھیں اور دوچار کی بہنیں ان کے ساتھ تھیں ۔ کسی طرح ان خواتین کو پتہ چل گیا کہ مجاہدین خندق عبور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ بڑا ہی خطرناک کام ہے ،مجاہدین خندق عبور کیا ہی کرتے تھے لیکن خواتین جانتی تھی کہ بابلیون کے اردگرد جو خندق ہے یہ سب سے نرالی اور دشوار ہے، انھیں بتانے والے نے بتایا کہ خندق کس طرح عبور کی جارہی ہے اور یہ بھی کہ سیڑھیاں اور کچھ سامان بھی ساتھ لے جایا جا رہا ہے ،بیس پچیس جوان سال خواتین اس طرف اٹھ دوڑی جہاں سے خندق عبور کی جارہی تھی ،سپہ سالار عمرو بن عاص نے ان خواتین کے دوڑ کے قدموں اور ان کی باتوں کی آوازیں سنی تو خود دوڑے گئے اور عورتوں کے راستے میں جا کھڑے ہوئے۔
انہیں روک کر پوچھا کہ وہ کیا لینے آئی ہیں؟،،،،، یہ بھی کہا کہ وہاں آواز نہ نکالے مکمل خاموش اختیار کیے رکھیں، ایک خاتون نے آگے بڑھ کر سپہ سالار کو بتایا کہ وہ کیوں آئی ہیں۔
فوراً خاموشی سے واپس چلی جاؤ ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔تمہاری ضرورت محسوس ہوئی تو تمہیں بلا لیں گے۔
سیڑھیاں اور سامان ہمیں اٹھا کر آگے لے جانے دیں۔۔۔ خاتون نے کہا۔۔۔ ہم پیچھے خیموں میں بیکار پڑی ہیں ۔
عمرو بن عاص نے انہیں ذرا سختی سے کہا کہ وہ واپس چلی جائیں خندق عبور کرنا مجاہدین کے لئے کوئی نیا کام نہیں جو عورتوں کی مدد کے بغیر ہو ہی نہ سکے۔
سات، آٹھ ہزار نفری سے آپ کیا کچھ کر لیں گے ۔۔۔ایک اور خاتون نے کہا۔۔۔۔ ہمارے جسموں میں بھی اللہ نے طاقت ڈال رکھی ہے یہ کسی کام تو آئے، ہم صرف لاشیں اٹھاتی ہیں اور زخمیوں کو ڈھونڈتی پھرتی اور انہیں پیچھے لے جاتی ہیں ،ہم اس خندق سے واقف ہیں ہمارے مردوں کو آگے جا کر لڑنا بھی ہے، جو کام ہم کرسکتے ہیں وہ ہمیں کرنے دیں۔
تمہارے کرنے کا صرف ایک کام ہے۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا ۔۔۔فوراً واپس جاؤ اور یہ کام شروع کر دو وضو کرو نفل پڑھو اور ہماری کامیابی کی دعا کرو ہمیں اس مدد کی ضرورت ہے۔
خواتین واپس چلیں تو گئی لیکن سب پر مایوسی طاری تھی خیموں میں واپس جا کر سب نے وضو کیا اور فرداً فرداً نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔
ادھر مجاہدین کے سپہ سالار کا یہ جذبہ کے وہ سپاہی بنا ہوا مجاہدین کے ساتھ کام کر رہا تھا ۔اور ادھر قلعے کے اندر رومیوں کا سپہ سالار اپنے آپ کو ہرقل جیسا بادشاہ سمجھے ہوئے تھا ، مقوقس کے بعد مصر میں وہ مختارکل تھا، وہ تھا جرنیل تھیوڈور آدھی رات ہونے کو آئی تھی اس کے سونے کے کمرے میں کچی عمر کی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
تھیوڈور ایک اور کمرے میں تھا اس کے ساتھ اس کے دو ماتحت جرنیل تھے ،اور چار پانچ اور فوجی افسر بھی تھے جو جرنیلی کے درجے سے ایک درجہ ہی کم تھے، ان میں ایک جرنیل جارج تھا جو تجربے اور قابلیت میں تھیوڈور کا ہم پلہ تھا۔
جنرل تھیوڈور کے دماغ پر ملکہ مرتینا سوار تھی اور وہ انعام جس کا مدینہ نے اس کے ساتھہ وعدہ کیا تھا ۔ وہ تو ابھی سے اپنے آپ کو مقوقس کا جانشین سمجھنے لگا تھا یعنی فرمانروائے مصر۔
وہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے فوجی افسروں کو یقین دلارہا تھا کہ یہ عربی لشکر بابلیون کی دیوار کے قریب بھی نہیں آسکے گا ، اس دعوے میں وہ حق بجانب تھا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ بابلیون کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے کیا اہتمام کیا گیا تھا ۔
تھیوڈور ہی نہیں بلکہ اس کے تمام تر چھوٹے بڑے افسر اور پوری کی پوری فوج کو یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان اس خندق سے باہر ہی رہیں گے اور ان کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ خندق کو عبور کر سکیں گے، یہ یقین انھیں بڑا ہی پرلطف اطمینان دے رہا تھا۔
جنرل تھیوڈور نے اپنے اعلیٰ فوجی افسروں کا اجلاس بلا رکھا تھا لیکن دو نیم برہنہ جوان اور خوبصورت لڑکیاں انہیں شراب پیش کر رہی تھیں۔
شراب اپنا اثر دکھانے لگی تھی۔
اگر بزنطیہ سے تم نے کوئی امید وابستہ کر رکھی ہے تو وہ دل سے نکال دو۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شاہ ہرقل کمک نہیں بھیج رہا تھا۔ اب اس کا بیٹا قسطنطین یہ ذمہ داری پوری کر سکتا ہے۔ لیکن مجھے اس سے بھی کمک کی توقع نہیں، بزنطیہ سے مجھے جو خبری ملی ہے وہ ہمارے لئے اور مصر کے لیے اچھی نہیں۔ قسطنطین شاہ ہرقل کا جانشین بننے کی کوشش میں ہے۔
بلکہ مرتینا کا پیغام میرے پاس آ چکا ہے ۔شاہ ہرقل کی جانشین صرف ملکہ مرتینا ہو سکتی ہے ،اور اسے ہونا بھی چاہئے ،بہر حال ہمیں ایسی امید رکھنی ہی نہیں چاہیے کہ قسطنطین کمک بھیجے گا ۔ البتہ ملکہ مرتینا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ زیادہ نفری کی کمک بھیجی گی لیکن اس میں کچھ عرصہ لگے گا۔ شاہ ہرقل کو بھی مصر کا کچھ خیال نہ تھا اور قسطنطین کو بھی نہیں ،اس کی دلچسپیاں صرف تخت و تاج پر مرکوز ہے، یہ عزم ذہن میں رکھ لو اور عہد کرو کہ ہمیں اس مٹھی بھر مسلمانوں کو یہی خندق کے باہر ہی نیست و نابود کر دینا ہے، میں مصر کے اندر سے ہی کمک منگوا رہا ہوں۔
عرب کے یہ بدوّ آخر کب تک محاصرے میں بیٹھے رہیں گے۔۔۔ جنرل جارج نے کہا۔۔ انہیں کچھ عرصہ بیٹھے رہنے دو ہم ان کی رسد کے راستے مسدود کر رہے ہیں، اور جب یہ بھوکے مرنے لگیں گے تو ان کے عقب سے ان پر حملہ کریں گے۔
مصر میں اپنی فوج کی کمی نہیں۔۔۔ تھیوڈور بولا۔۔۔ ان عربوں کو ذرا نڈہال ہو جانے دو ابھی یہ فتح کے نشے سے سرشار ہیں تھوڑے ہی دنوں بعد اس خوش فہمی سے نکل آئیں گے۔
یہ رومی فوج کے افسران علی کا اجلاس تھا یا محفل مے نوشی تھی، اس میں یہ سمجھا گیا کہ مجاہدین اسلام خندق عبور نہیں کر سکیں گے اور مصر سے ہی کمک آئے گی، اور مجاہدین کی رسد کے راستے بند کر دیے جائیں گے ۔اور ان پر عقب سے حملہ کیا جائے گا ، یہ رومی افسر اپنے دفاعی انتظامات سے بجا طور پر مطمئن تھے اور ان کا دفاعی پناہ بھی بالکل صحیح تھا، ہرقل نے مقوقس پر یہ جو الزام عائد کیا تھا کہ مصر میں روم کی ایک لاکھ فوج موجود ہے غلط نہیں تھا، مقوقس نے اس فوج کا تھوڑا سا حصہ ہی جنگ میں استعمال کیا تھا، تھیوڈور نے پوری فوج کو استعمال کرنے کا پلان بنا لیا تھا ۔ تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ فوج کے مقابلے میں مسلمانوں کے سات آٹھ ہزار نفری کے لشکر کی کیا حیثیت تھی۔
آدھی رات کے وقت یہ محفل برخاست ہوئی اور تمام فوجی افسر رخصت ہوگئے۔ تھیوڈور کے سونے کے کمرے میں جو نوخیز لڑکی اس کے انتظار میں بیٹھی تھی وہ نیند پر قابو نہ پا سکی اور پلنگ پر سو گئی ، وہ فرمانروائے مصر کے حرم کی لڑکی نہیں تھی نہ ہی مقوقس نے کوئی حرم بنا رکھا تھا یہ ایک غریب ماں باپ کی بیٹی تھی اس کا گھرانہ کوئی ایسا غریب بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ کسی کے محتاج ہوتے ، دو وقت کی روٹی باعزت طور پر میسر آ جاتی تھی، لیکن اس لڑکی نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا کہ وہ کسی رات شاہی محل کے سونے کے کمرے کی زینت بنے گی، وہ پلی بڑھی تو غربت میں تھی لیکن خدا نے اسے بے مثال حسن سے نوازا تھا اس کے چہرے پر معصومیت کا جو تاثر تھا وہ اس کے حسن کو طلسماتی بنا رہا تھا۔
تھیوڈور نے اس نوخیز لڑکی کو کہیں دیکھ لیا تھا، وہ کچھ دیر اسے دیکھتا ہی رہا تھا، تھیوڈور کے ساتھ اس کا ایک خاص معتد بھی تھا ،اس معتمد نے اس کے کان میں کہا کہ یہ لڑکی اسے اتنی ہی اچھی لگی ہے کہ وہ دیکھے ہی جارہا ہے تو آج رات یہ اس کے سونے کے کمرے میں پہنچائی جاسکتی ہے۔ تھیوڈور کے ہونٹوں پر ابلیسی مسکراہٹ آگئی اور اس نے سر سے اشارہ کیا کہ ایسا ہو جائے تو اچھا ہے۔
یہ معصوم سی لڑکی رات کے پہلے پہر ہی تھیوڈور کے یہاں پہنچا دی گئی تھی، لڑکی کو اغوا نہیں کیا گیا تھا ،نہ اس پر جبر ہوا تھا ظاہر ہے کہ اس کے باپ کو اتنی رقم دی گئی ہو گی جو اس نے تصور میں بھی نہیں دیکھی ہوگی ۔ اس غریب باپ کو یہ خواب بھی دکھایا گیا ہوگا کہ جنرل تھیوڈور اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کر لے گا اور اب تھیوڈور ہی مصر کا فرمانروا ہوگا۔
تھیوڈور کی عمر بڑھاپے میں داخل ہو چکی تھی، وہ سونے والے کمرے میں داخل ہوا تو لڑکی کو پلنگ پر سوتا ہوا دیکھا ، اس کی بیوی اور بیٹے بیٹیاں اپنے اپنے کمرے میں گہری نیند سوئی ہوئی تھے۔ تھیوڈور کو ایسا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ اس کی بیوی کو پتہ چلا کہ اس کے پاس ایک لڑکی آئی ہوئی ہے تو وہ ہنگامہ برپا کردے گی۔ بیوی اپنے طور پر آزاد تھی۔ یہ اس معاشرے کا سب سے زیادہ اور اونچا طبقہ تھا جس میں شرم و حجاب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، اس وقت کے مرد کسی بھی عورت کو اپنے ساتھ گھر لے آنا اپنا حق سمجھتے تھے۔
لڑکی گہری نیند سوئی ہوئی تھی تھیوڈور کو وہ کچھ اور ہی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ شراب کے نشے نے تھیوڈور کو اپنے آپ میں رہنے ہی نہیں دیا تھا وہ کچھ دیر کھڑا گھومتا رہا اور لڑکی کو دیکھتا رہا ۔وہ تو اس کے لیے ایک کھلونا تھی جس طرح چاہتا اس کے ساتھ کھیل سکتا تھا۔ اس نے لڑکی کے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیر کر اسے جگایا۔
لڑکی گھبراکر جاگی اور اٹھ بیٹھی اس کے معصوم چہرے پر خوف کا تاثر آگیا لیکن تھیوڈور کے ہونٹوں پر کھلی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کر خوف میں کمی آگئی۔ تھیوڈور اس کے پاس بیٹھ گیا اور ایسے پیارے انداز سے ایک دو باتیں اور کچھ حرکتیں کیں کہ لڑکی کو اس انداز میں اپنائیت سی محسوس ہونے لگی۔
مجھ سے یوں نہ ڈر لڑکی۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ میرے دل نے تمہیں پسند کیا ہے ،میں تمہیں مصر کی ملکہ بناؤں گا ،کیوں تم مصر کی ملکہ بنوں گی نا۔
لڑکی جواب دینے کی بجائے بچوں کی طرح ہنس پڑی وہ شاید محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص نشے میں ہے، اور صبح تک بھول چکا ہوگا کہ اس نے رات کیا کہا تھا۔
تھیوڈور اس پر وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑنے کی بجائے بڑے پیار سے اس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا رہا۔
چند ہی باتوں اور کچھ پیاری سی حرکتوں سے لڑکی تھیوڈور کے ساتھ بے تکلف ہو گئی۔ انہی باتوں میں عرب کے مسلمانوں کا ذکر آگیا تھیوڈور نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا، لڑکی کے ماں باپ قبطی عیسائی تھے اور مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی اور کٹر تھے، لڑکی کے خیالات پر بھی ان کا اثر تھا۔
میں ایک مسلمان جاسوس کو پکڑوا سکتی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے مجھے بھی وہ اچھا لگتا ہے میں جانتی ہوں کہ وہ عرب کے اس لشکر کا جاسوس ہے جس نے ہمارے شہر کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ لیکن میں اس کے خلاف زبان نہیں کھولنا چاہتی تھی کیونکہ اس نے میری جان بچائ تھی ۔
پھر اب کیوں زبان کھولی ہے؟،،،، تھیوڈور نے پوچھا۔
مجھے احساس ہے کہ میں اس کے ساتھ بے وفائی کر رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔لیکن آپ کی باتیں سن کر میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کے ساتھ وفا کرتی ہوں تو یہ اپنے مذہب اور اپنے ملک کے ساتھ بےوفائ ہوگی جسے غداری بھی کہا جاسکتا ہے۔
لڑکی نے تھیوڈور کو بتایا کہ یہ مسلمان کب سے یہاں ہے، اور کہاں رہتا ہے ۔
شاباش!،،،،،، تھیوڈور نے کہا۔۔۔ محبت اور جزبات کی قربانی جان کی قربانی سے زیادہ بڑی ہے۔ میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں اور تمہیں اس کا پورا صلہ ملے گا ۔
صبح یہ مسلمان جاسوس ہتھکڑیوں میں بندھا ہوا یہاں ہو گا ،اور تمہارے سامنے اس کا سر اس کے جسم سے الگ پھینک دیا جائے گا۔ لڑکی خواب و خیال میں مصر کی ملکہ بن گئی اور اپنے آپ کو تھیوڈور کے حوالے کردیا۔
یہ مسلمان جاسوس کون تھا ؟
اس کا نام اسامہ بن اظہری تھا اس کی عمر چوبیس پچیس سال تھی، اس کا باپ عراق میں مثنیٰ بن حارثہ کے لشکر میں تھا جو کسریٰ ایران کی فوجوں کے خلاف لڑ رہا تھا، یہ مجاہد ایک معرکے میں شہید ہو گیا تھا، اسامہ بن اظہری کا ایک ہی بڑا بھائی تھا وہ شام کی جنگ میں ہرقل کی فوجوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا تھا، پیچھے اسامہ رہ گیا تھا
ماں نے اسے اس لیے محاذ پر نہیں بھیجا تھا کہ وہ اکیلی رہ جاتی تھی، لیکن باپ کے بعد بڑا بھائی بھی شہید ہو گیا تو ماں نے اسامہ سے کہا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی جگہ چلا جائے اس طرح اسامہ رومیوں کے خلاف لڑنے والے لشکر میں شامل ہوا اور اس کی ماں بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔
اسامہ بن اظہری کو سالاروں نے دیکھا کہ یہ تو ایک خاص قسم کی ذہانت کا مالک ہے تو انہوں نے اسے جاسوسی کی تربیت دی اسامہ بڑا خوبصورت نو جوان اور نہایت پر اثر انداز میں بات کرتا تھا، اور اس میں روپ بہروپ کا فن قدرتی طور پر موجود تھا اسے پہلی بار جاسوسی کے لئے بھیجا گیا تو وہ ایک رومی فوج کے افسر کا خدمت گار بن گیا ڈیڑھ ایک مہینے بعد واپس آیا تو نہایت قیمتی باتیں اپنے ساتھ لایا، آخر اسے اس لشکر میں بھیج دیا گیا جس کے سپہ سالار عمرو بن عاص تھے اور مصر پر فوج کشی کے لئے روانہ ہوئے تھے۔
مصر میں بھی اس نے جاسوسی کے میدان میں کچھ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں جو سپہ سالار کے کام آئیں، اب وہ بابلیون کے اندر چلا گیا تھا ایک بار واپس آیا تو سپہ سالار کو بتایا کہ شہر کے اندر رومی فوج کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کیا ہے، اور شہری کیا سوچ رہے ہیں، اس ضمن میں اس نے سپہ سالار کو بڑی ہی کارآمد باتیں بتائیں۔
وہ پھر کسی بہروپ میں بابلیون کے اندر چلا گیا اور ایک عیسائی تاجر کا قابل اعتماد نوکر بن گیا وہ عیسائیوں کے بہروپ میں گیا تھا اسے واپس آنا تھا لیکن مجاہدین کے لشکر نے بابلیون کو محاصرے میں لے لیا اس صورتحال میں اس کا واپس آنا بہت ہی مشکل تھا، اس نے یہ بھی سوچا کہ واپس نہ ہی جائے تو اچھا ہے، شہر کے اندر رہے اور اپنے لشکر کی مدد کا سامان پیدا کرلے اس نے تو یہاں تک سوچ لیا تھا کہ جب مجاہدین کا لشکر قلعے پر یلغار کرے گا تو وہ اپنی جان کی بازی لگا کر شہر کا کوئی نہ کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا۔
یہ تھا وہ مسلمان جاسوس جس کی نشاندہی یہ لڑکی تھیوڈور کے آگے کر رہی تھی لڑکی نے کہا تھا کہ اس مسلمان کو اس کے ساتھ محبت ہے اور وہ خود بھی اسے چاہتی ہے۔ یہ محبت ایک واقعہ سے شروع ہوتی تھی جو اس لڑکی کے لئے اور اس کے ماں باپ کے لئے ایک حادثہ بن چلا تھا۔ یہ واقعہ یوں ہوا کہ ایک بڑی بادبانی کشتی بابلیون سے سامنے والے جزیرے تک جا رہی تھی جہاں قلعی روضہ تھا ۔ اسامہ کو اس تاجر نے جزیرے میں جانے کو کہا تھا جس کا وہ ملازم تھا اس تاجر کو وہاں کوئی کام تھا۔
چونکہ اس طرف دریائے نیل تھا اس لئے شہر کا وہ پہلو محاصرے سے محفوظ تھا جزیرے اور بابلیون کے درمیان دریائی آمدورفت لگی رہتی تھی، کشتی بہت بڑی تھی جس میں بہت سے مسافر جا رہے تھے سامان بھی تھا اور چند ایک گھوڑے بھی تھے یہ تین ساڑھے تین مہینے پہلے کا واقعہ تھا جب نیل میں طغیانی آئی ہوئی تھی طغیانی کا زیادہ جوش و خروش دریا کے وسط میں تھا کشتی وسط میں پہنچی تو ملاح دیکھ نہ سکے کہ طغیانی بڑھ گئی ہے اور لہریں کچھ زیادہ ہی اوپر نیچے ہو رہی ہیں ،کشتی جب اس مقام تک پہنچی تو لہروں نے اسے اٹھا اٹھا کر گرانا شروع کردیا اور ایک بار کشتی کا رخ بدل گیا اور تیز ہوا نے بادبانوں کو ملاحوں کے قابو سے نکال دیا۔
کشتی ایک پہلو سے اس قدر جھک گئی کہ یوں لگتا تھا جیسے دریا کشتی کے اندر آجائے گا ،ایک نوخیز لڑکی جو اس طرف کھڑی تھی اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور دریا میں جا پڑی، اسے اب ڈوبنا ہی تھا بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی، لڑکی کا باپ بھی اس کے ساتھ تھا لیکن وہ رونے چلانے اور لوگوں کی منت سماجت کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اسامہ کی فطرت میں خطرہ مول لینے والا عنصر موجود تھا اور اس کے ساتھ انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی تھا۔ اس نے اور کچھ بھی نہ سوچا اور دریا میں لڑکی کے پیچھے کود گیا ۔ لڑکی کو موجیں اٹھا اٹھا کر پٹخ رہی تھی اور اپنے ساتھ لے جا رہی تھی، اسامہ جوان تھا جس میں طاقت تھی اور زیادہ طاقت تو اس جذبے میں تھی جو ہمدردی کا جذبہ تھا ،وہ پوری طاقت صرف کرتا کرتا تیرتا چلا گیا ،اسے تو طغیانی بھی آگے کو دھکیل رہی تھی۔
ملاحوں نے کشتی نہ روکی اس کے بادبانوں کو قابو میں رکھا اور کشتی کو دریا کے وسط سے نکال کر لے گئے ۔اسامہ لڑکی تک پہنچ گیا اور اسے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر ڈال لیا اب بڑا ہی خطرناک مرحلہ شروع ہوا یہ تیرنا تھا تو یعنی کے جوش و خروش میں سے نکلنا۔ بہت دور جا کر وہ موجوں کی لپیٹ سے نکلا اور سامنے والے کنارے تک چلا گیا ۔
وہ کچھ ہی دیر اور تیر سکتا تھا ،اس کے بازو اکھڑنے لگے تھے۔
یہ اسامہ کی اور لڑکی کی خوش قسمتی تھی کہ کنارہ آ گیا اور اسامہ لڑکی کو نیل کے منہ سے نکال کر لے گیا۔
کناروں کے ساتھ ساتھ چھوٹی کشتیاں چلتی رہی تھیں، ان میں سے ایک میں اسامہ لڑکی کو جزیرے میں لے گیا لڑکی کا باپ مل گیا اس نے یہ صورت قبول کر لی تھی کہ اس کی بیٹی ڈوب کر مر چکی ہے ۔اس نے اسامہ کو گلے لگایا اور اسے کہا کہ وہ بابلیون میں اس کے گھر آئے، اسامہ نے اپنے تاجر کا کام بھی کر لیا اور لڑکی اور اس کے باپ کے ساتھ واپس بابلیون آگیا۔
وہ پہلی بار لڑکی کے گھر گیا تو ان لوگوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا، لڑکی تو اس پر مری جا رہی تھی۔ اس نے لڑکی کو یقینی موت کے منہ سے چھینا تھا ،اسامہ آخر جوان سال اور غیر شادی شدہ تھا اس کے دل میں لڑکی کی ایسی محبت پیدا ہوگئی جو انسان کو مجبور اور بے بس کر دیا کرتی ہے۔ اور اسے اس کے راستے سے بھی ہٹا لیتی ہے۔ یہاں سے ان کی ملاقاتیں شروع ہوگئی۔
اسامہ کو تاجر نے ایک چھوٹا سا الگ مکان دے رکھا تھا لڑکی اس کے پاس وہاں پہنچ جاتی تھی ،ایک روز جذبات کا ایسا غلبہ ہوا کہ اسامہ نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ عرب لے جائے گا ۔
لڑکی نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا کہ وہ عرب کیوں جائے گا؟ اسامہ نے تو اسے بتایا تھا کہ وہ عیسائی ھے۔
اسامہ پستانے لگا کے اس کے منہ سے ایسی بات نکل گئی ہے کہ اس کا پردہ اٹھ گیا ہے اس نے ادھر ادھر کی باتیں بنائیں کہ وہ اپنی اصلیت پر پردہ ڈال لے لیکن لڑکی کو شک نہیں بلکہ یقین ہو گیا تھا کہ اسامہ دراصل کچھ اور ہے، اسامہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا لڑکی کا حسن اور اس کی عمر ایسی تھی اور پھر لڑکی نے باتیں بھی کچھ ایسی کی کہ اسامہ کو اپنا راز فاش کرنا پڑا۔ دونوں کی محبت ایسی تھی کہ اسامہ کو ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ لڑکی اسے دھوکا دے گی ۔
لڑکی نے اسے قسم کھا کر کہا کہ وہ اس کے راز کو اپنے سینے میں دفن کر لے گی اسامہ نے کھل کر بات کر دی اور لڑکی نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مسلمان ہو جائے گی اور اس کے ساتھ عرب بھی چلی جائے گی۔ وہ تو اس کی بہت ہی ممنون تھی اس کے دل پر دریا کا ایسا خوف بیٹھ گیا تھا کہ بہتے پانی کو دیکھ کر ہی ڈر جاتی تھی۔ اسامہ کو وہ اپنا محافظ سمجھتی تھی۔
اسامہ کو لڑکی پر بھروسہ تو تھا لیکن اسے یہ احساس پریشان کرتا ہی رہتا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو بے نقاب کردیا ہے۔ لڑکی کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اسامہ نے یوں بھی کیا کہ اس کے دل میں رومیوں کی نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی اسے بتایا کہ ہرقل اور قیرس نے کس طرح قبطی عیسائیوں کا قتل عام کیا ہے۔ وہ لڑکی سے یہ بھی کہتا تھا کہ رومیوں کی بادشاہی مصر میں قائم رہی تو یہاں کسی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ اگر مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گئی تو ہر کوئی اپنے مذہبی امور میں آزاد ہوگا ۔
لڑکی کو رومیوں کا قبطی عیسائیوں پر ظلم و تشدد اچھی طرح معلوم تھا لیکن وہ کمسن اور نادان لڑکی تھی، جنرل تھیوڈور نے اس کی معصومیت کے ساتھ کھیلنے کے لئے کہہ دیا کہ وہ اسے مصر کی ملکہ بن آئے گا، تو وہ اس کی باتوں میں آ گئی اور جب تھیوڈور نے مصر کی اور مسلمانوں کی باتیں کیں اور پھر لڑکی کو اور زیادہ بھڑکا دیا تو لڑکی نے نادانی میں آکر اسامہ کا پردہ چاک کردیا۔
اسامہ اپنے گھر میں اکیلا گہری نیند سویا ہوا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کی آخری رات ہے، اس سے جذبات میں آکر جو غلطی ہوئی تھی اس کی سزا تھیوڈور نے لڑکی کو سنا دی تھی,,,,, سزائے موت,,,,,,,یہ سزا تو دراصل اسامہ کی ماں کو بھگتنی تھی، اس کا خاوند بھی شہید ہوگیا تھا، بڑا بیٹا بھی شہید ہوگیا ،اور اب چھوٹا بیٹا رات گزرتے ہیں تھیوڈور کے جلاد کے ہاتھوں قتل ہونے والا تھا۔ پیچھے ماں کو سزا بھگتنے کے لیے اکیلے رہ جانا تھا ۔
ماں یہاں بھی اسکے ساتھ تھیں اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے کہنے پر دوسری عورتوں کے ساتھ نفل پڑھ رہی تھی اور مجاہدین کی فتح کی دعائیں مانگ رہی تھی اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا بیٹا شہر کے اندر پھندے میں آ چکا ہے اور اب وہ اپنے بیٹے کو کبھی بھی نہیں دیکھ سکے گی۔
یہ تھی وہ رات اور یہ تھا وہ وقت جب یہ لڑکی تھیوڈور کو بتا رہی تھی کہ وہ ایک مسلمان جاسوس کو پکڑوا سکتی ہے، اور تھیوڈور نے اس سے کہا تھا کہ اس جاسوس کو اس کے سامنے قتل کروایا جائے گا ،بالکل اس وقت مجاہدین اپنے سالار زبیر بن العوام کی قیادت میں ان کی ہدایت کے مطابق خندق کی روکاوٹوں پر درخت ڈال کر خندق عبور کر رہے تھے۔
قلعوں کی دیواروں پر چڑھنے کے لئے ایک تو کمند پھینکی جاتی تھی اور اگر دیواری کمزور ہوتی تو ان میں شگاف ڈال لیا جاتا تھا ،ایک طریقہ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چڑھنے کا بھی تھا بابلیون کی دیواریں بہت ہی مضبوط عام دیواروں کی نسبت زیادہ چوڑی اور اونچی بھی خاصی زیادہ تھی، اس بلندی کو دیکھتے ہوئے ہی مجاہدین نے دو سیڑھیاں باندھ لی تھیں تاکہ یہ دیوار کے اوپر تک پہنچ جائیں۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعے کے محاصرے کو آٹھ مہینے گزر گئے تھے عمرو بن عاص کبھی بھی محاصرے کو طول دینے کے حق میں نہیں ہوئے تھے، کچھ دن محاصرہ کر کے قلعے پر یلغار کر دیا کرتے تھے۔ بابلیون کی بات دوسرے قلعوں کے مقابلے میں بالکل ہی مختلف تھی ، اندر کی رومی فوج کو ہی نہیں بلکہ فوج کے جرنیلوں کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان خندق عبور نہیں کر سکیں گے ،وہ کہتے تھے کہ خندق عبور کرنی ہوتی تو یہ عربی مسلمان ایک دن کی بھی دیر نہ لگاتے کسی نہ کسی طور خندق عبور کرلیتے۔
رومی بجا طور پر مطمئن تھے، خندق بہت چوڑی تھی اور رومیوں نے اسے جن خاردار تاروں اور نوکیلی سالاخوں سے بھر دیا تھا انہیں عبور کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی، اور نہ کوئی ذریعہ تھا کہ اسے عبور کیا جا سکتا ۔
اس یقین نے رومی جرنیلوں کو اور ان کی فوج کو اتنا مطمئن کردیا تھا کہ رات کو رومی پوری طرح بیدار رہتے ہی نہیں تھے، اور دیوار پر پہرے کی خاصی کمی ہو گئی تھی، گشتی سنتری رسمی طور پر دو چار مرتبہ اوپر چکر لگاتے تھے، اس فوج کے سپریم کمانڈر جنرل تھیوڈور پر بھی بے نیازی اور بے پرواہی کا موڈ طاری رہنے لگا تھا۔
تھیوڈور تو مکمل طور پر مطمئن تھا کہ مصر کے اندر سے ہی اس کی کمک آرہی ہے اور وہ مسلمانوں کے لشکر پر عقب سے حملہ کرے گا اس نے اپنے اعلی افسروں کو بتا ہی نہیں دیا بلکہ یقین دلادیا تھا کہ بابلیون کے باہر خندق سے کچھ دور کی زمین مسلمانوں کے لشکر کا قبرستان بنے گی۔
رات آدھی سے کچھ زیادہ گزری تھی جب سالار زبیر بن العوام نے سب سے پہلے درختوں کے تنوں پر قدم رکھا اور شاخیں پکڑ پکڑ کر اور سنبھل سنبھل کر آگے بڑھے اور خندق عبور کر لی، وہ پھر واپس آئے اور خندق سے کچھ دور جا کر مجاہدین کو اپنے پاس بلایا۔
میرے رفیقو!،،،،، سالار زبیر نے کہا۔۔۔ مجھے پار جاتے اور واپس آتے دیکھ کر یہ نہ سمجھ لینا کہ یہ کوئی آسان کام ہے تم نے دیکھا ہے کہ یہ ٹہن تاروں کے گچھے اور نوکیلی سالاخوں پر رکھے گئے ہیں، ان پر جب جسم کا بوجھ پڑتا ہے تو قدم آگے رکھنے سے یہ ٹہن دائیں بائیں ہلتے ہیں، اور کچھ نیچے کو بھی ہو جاتے ہیں، شاخوں کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن یاد رکھو کہ کوئی کمزور شاخ ہاتھ میں آ گئی تو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے، اور ٹہنیوں کے ہلنے سے اپنا توازن بگڑ بھی سکتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی گر پڑا تو نوخدار سالاخیں اس کے جسم میں اتر جائیں گی، پھر خندق سے اس کی لاش ہی نکلے گی ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قدم آگے بڑھائیں ہی نہیں فتح اور کامیابی صرف اسے عطا ہوتی ہے جو دماغ کو حاضر رکھ کر خطرہ مول لیا کرتے ہیں، مت بھولو کہ اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے، اللہ کے اس وعدے کو بھی یاد رکھو کہ تم میری مدد کرو میں تمہاری مدد کروں گا,,,,,,,
ان مجاہدین کو جو سیڑھیاں پار لے جائینگے اور ہی زیادہ احتیاط سے ٹہنوں پر چلنا ہوگا ،ہم جب خندق کے پارچلے جائیں گے تو ایک اور خطرہ موجود ہوگا ہوسکتا ہے میدان صاف ہی ہو لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ خطرہ بھی موجود ہوگا، یہ خطرہ ان گھنے درختوں میں ہوسکتا ہے جو خندق سے قلعے تک کھڑے ہیں، ممکن ہے ان درختوں میں رات کے وقت کچھ رومی چھپے رہتے ہوں، رات بھی تاریک ہے اگر رومی ان درختوں میں ہوئے تو نیچے سے گزرنے والوں کو تیروں سے ختم کردیں گے، بہرحال کسی درخت سے ایک بھی تیر آیا تو ہم جوابی کارروائی کرکے یہ خطرہ ختم کر ڈالیں گے لیکن ذہن میں رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔
ان ہدایات کے بعد سالار زبیربن العوام نے چند ایک مجاہدین کو الگ کرکے کہا کہ چار چار یا پانچ پانچ آدمی ایک ایک سیڑھی اٹھائیں اور خندق عبور کریں، مجاہدین نے فوراً اس حکم کی تعمیل کی اور تین سیڑھیاں اٹھا کر خندق کے طرف چلے ،سالار زبیر بن العوام ان کے آگے آگے خندق عبور کرنے لگے۔ نہایت احتیاط سے ٹہنوں پر قدم رکھتے آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور اللہ نے انہیں پار پہنچا دیا پار جا کر رکے اور زبیربن العوم نے دو مجاہدین کو آگے بھیجا ان کا مقصد یہ تھا کہ درختوں میں اگر رومی فوجی موجود ہوئے تو وہ ان دونوں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے یا اوپر سے تیر چلائیں گے، اس خطرے کی نشاندہی کے لیے ان دو مجاہدین کی قربانی پیش کردی گئی تھی۔
دونوں مجاہدین تاریکی میں گم ہوگئے اور کچھ دیر درختوں کے نیچے نیچے گھوم پھر کر بخیروعافیت واپس آگئے، انہیں یقین ہو گیا کہ راستہ صاف ہے ،اب پھلوں کے باغات کے یہ درخت مجاہدین کے محافظ بن گئے یہ نہایت اچھی آڑ مہیا کرتے تھے۔
جس سے دیوار پر کھڑے کسی رومی کو نظر نہیں آ سکتا تھے کہ کوئی دیوار کے قریب آ رہا ہے رات تاریک تھی لیکن انسان سائے کی طرح نظر آسکتا تھا۔
سیڑھیاں خندق کے اگلے کنارے کے قریب رکھوا کر زبیر بن العوام نے اپنے جانباز دستے کو اشارہ کیا کہ اب وہ آگے آجائیں، اشارہ ملتے ہی پورا دستہ ایک دوسرے کے پیچھے خندق عبور کر گیا، سالار زبیر نے ان میں سے چند ایک جانبازوں کو الگ کرکے کہا کہ وہ سیڑھیاں اٹھالیں اور قلعے کی دیوار تک پہنچ جائیں۔ باقی دستے کو وہی روکا رہنے کو کہا اور پہلے دی ہوئی ایک ہدایت کو دہرایا۔
ایک بار پھر سن لو ۔۔۔زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ ہم جب اوپر جائیں گے تو ایک بار نعرہ تکبیر بلند ہوگا اس نعرے پر جو مجاہدین میرے ساتھ جا رہے ہیں اوپر چڑھائیں گے ،پھر سب مل کر اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں گے اور تم سب یعنی سارا دستہ دوڑ کر سیڑھیاں چڑھے گا اور اوپر آجائے گا۔
خندق عبور کرنے سے پہلے زبیر بن العوام نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بھی ان نعروں کے متعلق بتا دیا تھا ۔انہوں نے کہا تھا کہ جب تیسری بار نعرہ تکبیر بلند ہو گا تو پھر باقی دستے اوپر آئیں گے اور یہ دستے مزید سیڑھیاں اپنے ساتھ لائیں گے تاکہ دیوار پر چڑھنے میں زیادہ وقت نہ لگے پھر یہ طے ہوا تھا کہ یہ دستے اگر نیچے جانے میں کامیاب ہوگئے تو قلعے کے دو تین دروازے کھولنے کی کوشش کی جائے گی اور باقی لشکر ان دروازوں سے اندر آئے گا۔
یہ نعرے بجائے خود ایک خطرہ تھا۔ پہلے ہی نعرے پر رومی فوجی بیدار ہو کر اوپر آ سکتے تھے ۔
اس وقت چند ایک جانبازوں کو اوپر ہونا تھا جن پر زیادہ تعداد میں رومی ٹوٹ پڑتے تو انہیں کاٹ کر دیوار سے پھینک دیتے، لیکن خطرہ مول لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
تین سیڑھیاں قریب قریب دیوار کے ساتھ لگ گئی، ان کی لمبائی دیوار کی بلندی تک تھی۔ خاموشی قائم رکھنی تھی جو سیڑھیاں لگاتے قائم نہ رہ سکی ۔سیڑھیوں کی آواز پیدا ہوئی لیکن اوپر کوئی حرکت نہ دیکھی گئی۔
سالار زبیر بن العوام نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اللہ تبارک وتعالی سے مدد مانگی اور پھر آپ نے وہ الفاظ دہرائے جو انہوں نے کہے تھے کہ اللہ میری قربانی کو مجاہدین اسلام کی فتح کا سبب بنائے ۔ اس دعا کے بعد انہوں نے سیڑھی پر قدم رکھا اور جن مجاہدین کو انہوں نے اپنے ساتھ لے جانا تھا انھیں سیڑھیاں چڑھنے کا اشارہ دیا سب سے پہلے زبیر دیوار پر پہنچے اور ادھر ادھر دیکھا کوئی حرکت نظر نہ آئی مجاہدین سیڑھیاں چڑھتے آئے اور سالار زبیر کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے ۔
انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اب تو ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا پہلے تو یہ دیکھنا تھا کہ اس نعرے پر رومی بیدار ہوتے ہیں یا نہیں؟
رومی فوج کوئی ایسے غافل بھی تو نہیں تھے کہ رات کی خاموشی میں اتنے بلند نعرے سے بھی بیدار نہ ہوتے۔ دیوار پر جن فوجیوں کا پہرا تھا وہ برجیوں میں سوئے ہوئے تھے۔ باری باری جاگتے اور تھوڑا سا چکر لگا کر واپس چلے جاتے تھے۔ اتنا بلند نعرہ انہیں جگانے کے لیے کافی تھا ۔ وہ برچھیاں اور تلواریں لیے دوڑے، دیوار خاصی چوڑی تھی لڑنے اور پینترے بدلنے کے لئے کافی تھی۔
رومی فوجی قریب آئے تو مجاہدین نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا، رومی فوجیوں کی کمزوری یہ تھی کہ وہ یہی دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے تھے کہ یہ مسلمان اتنی اونچی دیوار پر کس طرح چڑھ آئے ہیں ، دوسرا یہ کہ ان مسلمانوں کی تعداد یقیناً زیادہ ہوگی ، انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہی چند ایک مجاہدین ہیں جو اوپر آئے ہیں۔ اور ان کی اصل طاقت یہ ہے کہ یہ جانوں کی بازی لگاکر اور شہادت کو قبول کرکے آئے ہیں۔
پھر یہ بھی رومی بےجگری سے لڑے ، جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ پہرے پر تھے اور یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ نظر رکھیں کہ دیوار پر کوئی چڑھ نہ سکے اگر وہ مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ جاتے تو انہیں اس جرم میں جلاد کے حوالے کردیا جاتا کہ اپنے فرائض اور ذمہ داری کو بھول کر سوئے ہوئے تھے انہوں نے لڑ کر مرنا بہتر سمجھا۔
یہ ایک خونریز معرکہ تھا مجاہدین جان توڑ کر لڑ رہے تھے اور انہوں نے تمام رومیوں کو کاٹ پھینکا۔ نیچے سالار زبیر کا باقی دستہ نعرہ سن کر پہنچ گیا اور تمام جاں باز سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔
ادھر سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دے دیا کہ تمام سیڑھیاں خندق کے پار پہنچائی جائیں اور تین چار اور دستے خندق پار کرجائیں ۔
عمرو بن عاص زندہ وہ بیدار اور نعروں کے ہی انتظار میں بےتاب ہوئے جا رہے تھے۔ انہوں نے تیسرے نعرے کا انتظار نہ کیا مزید سیڑھیاں اور دوچار دستے آگے بھیج دیے۔ دیوار کے ساتھ کئی سیڑھیاں لگ گئی۔ یہ سب سیڑھیاں دو دو کی صورت میں بندھی ہوئی تھی ۔خاموشی کی ضرورت بھی نہیں تھی مجاہدین بڑی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے جا رہے تھے اور اس وقت سالار زبیر کے حکم سے تیسرا نعرہ تکبیر بلند کیا گیا۔
ان گرجدار اللہ اکبر کے پرجوش نعروں نے قبروں میں مردوں کو بھی جگا دیا ہو گا۔ نیچے شہر کے اندر سوئی ہوئی رومی فوج تو ہڑبڑا کر جاگ اٹھی ، جنرل تھیوڈور اس نوخیز اور معصوم لڑکی کو پہلو میں لیے گہری نیند سویا ہوا تھا، اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ باہر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے، اس کے دروازے پر دو تین بار دستک ہوئی تو اس کی آنکھ کھلی تو اس نے لیٹے لیٹے بڑے غصے سے پوچھا کہ یہ کون دروازہ توڑ رہا ہے، اور کیا مصیبت آن پڑی ہے، لڑکی بھی بیدار ہو کر اٹھ بیٹھی۔ عربی لشکر دیوار پر آگیا ہے۔۔۔ باہر سے آواز آئی۔۔۔ اوپر بڑی سخت لڑائی ہو رہی ہے۔
وہ تھیوڈور کے محافظ دستے کا کمانڈر تھا تھیوڈور غصے میں کچھ نہ کچھ بولتا باہر نکلا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بیداری میں یہ خبر سن رہا ہے، شاید اسے وہ خواب سمجھ رہا تھا اسے تو یقین تھا کہ دیوار تو دور ہے کوئی انسان خندق ہی عبور نہیں کر سکتا۔
محافظ دستوں کے کمانڈر نے اسے پوری طرح صورت حال سنائی، تھیوڈور کو کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھی وہ اپنے محل نما مکان سے باہر نکلا تو اسے قیامت کا شوروغل سنائی دیا، اس کا اپنا پورا خاندان پہلے ہی جاگ اٹھا تھا، تھیوڈور دوڑتا کمرے میں گیا اور لڑائی والا لباس پہنا اس کے اوپر ذرّہ اور سر پر آہنی خود رکھ کر تلوار اٹھائی اور لڑکی کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا ۔
دوسرے جرنیل بھی بیدار ہوگئے تھے اور باقی افسر پہلے ہی شور شرابہ سن کر اٹھے اور اپنے اپنے دستوں تک جا پہنچے تھے، لیکن دیوار پر اب یہ صورتحال تھی کہ وہاں مجاہدین کو بالادستی حاصل تھی، یوں کہہ لیں کہ دیوار پر مجاہدین کا قبضہ تھا اندر سے دیوار پر چڑھنے کے لیے چند ایک جگہوں پر پکی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، مجاہدین اوپر ان سیڑھیوں کے دائیں بائیں گھات لگا کر بیٹھ گئے تھے جونہی رومی فوج اوپر آتے مجاہدین انہیں کاٹ پھینکتے، اوپر برجیوں اور برجوں میں جو فوجی سوئے ہوئے تھے انہیں تو مقابلے کی مہلت ہی نہ ملی پوری طرح بیدار بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجاہدین کی پرچھیوں اور تلواروں کی نذر ہوگئے۔
ان میں سے چند ایک گھبراہٹ کے عالم میں یہ خبر سناتے گئے کہ مسلمانوں کا پورا لشکر دیوار پر آ گیا ہے، اور نیچے آکر کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا ،اس طرح انہوں نے سارے شہر میں افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم پیدا کر دیا۔
اندر سے اوپر جانے والی سیڑھیوں کا یہ حال تھا کہ رومی فوجیوں کی لاشوں سے اٹ گئی تھیں۔ نہ کوئی اوپر جا سکتا اور نہ اوپر سے کوئی نیچے آ سکتا تھا ،نیچے مشعلیں جل اٹھی ان کی روشنی میں جب فوجیوں اور شہریوں نے دیکھا کہ سیڑھیوں سے خون نیچے بہتا رہا ہے تو ان کے حوصلے بالکل ہی پست ہو گئے اور ان پر دہشت طاری ہو گئی۔
مجاہدین اسلام ایک معجزہ کر کے تاریخ کے دامن میں ڈال رہے تھے، غیر مسلم مؤرخوں نے بھی ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن کر کے دکھا رہے تھے۔
یہ سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی دعا تھی جو اللہ نے قبول کی اور پوری ہوئی تھی، انہوں نے اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر دعا کی تھی کہ میری قربانی مجاہدین اسلام کی فتح کا سبب بنے، یہ ان خواتین کی دعاؤں کا بھی اثر تھا جو وہ خندق سے کچھ دور نفل پڑھ پڑھ کر اللہ کے حضور دعا مانگ رہی تھیں۔
ان خواتین میں اسامہ بن اظہری کی ماں بھی تھی جو صرف اپنے بیٹے کی زندگی کی ہی دعا نہیں مانگ رہی تھی بلکہ اس کی زبان پر یہی ایک التجا تھی کہ اللہ اپنے جانبازوں کو فتح عطا کر، لیکن اسے اپنا بیٹا یاد آتا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، اس نے صرف ایک بار کہا یا اللہ میرا ایک ہی بیٹا رہ گیا ہے وہ بھی تیرے نام پر قربانی کے لئے پیش کر دیا ہے میں اکیلی رہ گئی ہوں۔
یہ دعائیں بھی بے اثر نہیں جا رہی تھیں۔
اسامہ بھی جاگ اٹھا تھا اور باہر نکل آیا تھا اس نے لوگوں سے سنا کے مجاہدین دیوار پر آگئے ہیں اور اب کوئی رومی فوجی اوپر نہیں جا سکتا، نیچے جب مشعلیں جلیں تو اوپر دیوار پر مجاہدین نے بھی مشعلیں جلا لیں اس سے نیچے کے لوگوں پر اور زیادہ دہشت طاری ہو گئی۔
اوسامہ کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تھیوڈور کے فیصلے کے مطابق یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے، لیکن اللہ کے فیصلے نے زمین پر رہنے والوں کے تمام فیصلے رد کر دیے تھے ،اسامہ کی ماں کے سینے سے نکلی ہوئی یہ فریاد کے میں اکیلی رہ جاؤں گی اللہ نے سن لی تھی۔
وہ تھیوڈور جس نے اسامہ کی سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا تھا شہر کے اندر بھٹکتا پھر رہا تھا ،اپنی فوج پر اس کی کمانڈ ختم ہو چکی تھی وہ اپنے جرنیلوں اور دیگر افسروں کو ڈھونڈتا اور پکارتا پھر رہا تھا ، لیکن اس کے اپنے ہی فوجی اور شہری بھاگتے دوڑتے اس کے ساتھ ٹکراتے گزرتے جا رہے تھے ،کسی نے دیکھا تک نہیں کہ یہ فوج کا سپریم کمانڈر اور مقوقس کی جگہ اس کی حیثیت فرمانروائے مصر جیسی ہے۔
اسامہ اوپر جاکر اپنے لشکر سے جا ملنا چاہتا تھا لیکن جن سیڑھیوں سے چڑھنے لگتا انہیں لاشوں سے اٹا ہوا دیکھا اوپر جانا ممکن نہیں تھا ،آخر وہ ایک سیڑھیوں سے لاشوں کے اوپر چلتا گرتا اٹھتا اوپر چلا ہی گیا دو تین مجاہد تلوار اٹھائے اس کی طرف لپکے تو اس نے ہاتھ اوپر کر کے کہا کہ میں تمہارا ہی آدمی ہوں اسامہ بن اظہری ، وہ اب آزاد تھا وہ سپہ سالار کو ڈھونڈنے لگا اسے اب اس بڑے شہر کا گائیڈ بننا تھا ، اس نے معلوم کر لیا تھا کہ اسلحہ خانہ کہاں ہے، خزانہ کہاں ہے ،اور اسی طرح کچھ اہم اور ڈھکی چھپی جگہیں تھی جو اس نے دیکھ لی تھی، وہ یہ ساری جگہیں سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتانا اور ان کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا۔
اب دیوار کے چاروں طرف مجاہدین کافاتحانہ شوروغل اور تکبیر کے نعرے بڑھتے اور بلند سے بلند تر ہوتے جارہے تھے، تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ رومی فوج کا دم خم بڑی ہی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہا تھا ، یہ تو ہونا ہی تھا فوج اور شہر کے لوگوں پر جس وجہ سے زیادہ دہشت طاری ہوئی وہ یہ تھی کہ جرنیلوں تک نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اب مسلمان تو کیا دنیا کی کوئی طاقت خندق عبور نہیں کر سکتی، رومی فوجی اور شہری حیرت زدہ تھے کہ مسلمان آخر کس طرف سے آئے ہیں۔
مجاہدین اسلام کے متعلق رومی فوج میں یہاں تک کہا سنا جارہا تھا کہ انھیں جنات کی طاقت حاصل ہے یا جنات ان کے ساتھ رہتے ہیں۔
یہ تاثر مجاہدین کی پہلی فتوحات سے پیدا ہوا تھا اب بابلیون میں لوگ اسے سچ ماننے لگے اور ان میں جو سب سے زیادہ خوفزدہ تھے انہوں نے یقین کے ساتھ کہنا شروع کردیا تھا کہ مسلمانوں کو جنات کی مدد حاصل ہے ان کے مقابلے میں کوئی نہ آئے۔
کئی فوجی قلعے کے دریا والے دروازے کی طرف چلے گئے، وہ اس دروازے سے بھاگ نکلنا چاہتے تھے انہیں امید تھی کہ کشتیاں تیار ہو گی اور وہ انہیں دریا کے وسط والے جزیرے تک پہنچا دے گی، لیکن وہ دروازہ کھلا نہیں جارہا تھا وہاں جو رومی فوج پہرے پر موجود تھے وہ کہتے تھے کہ یہ دروازہ کھلا تو مسلمان اس طرف سے اندر آ جائیں گے۔
ایک روایت یہ ہے کہ زبیر بن العوام چند ایک مجاہدین کے ساتھ نیچے چلے گئے اور قلعے کے دو تین دروازے کھول دیے لیکن یہ روایت صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ معروف اور مستند تاریخ نویس طبری نے کچھ قابل اعتماد حوالے دے کر اور کچھ استدلال کا سہارا لے کر لکھا ہے کہ جرنیلوں نے اپنی فوج کی افراتفری شہریوں کی نفسانفسی دیکھی اور پھر یہ دیکھا کہ مسلمانوں کا پورا لشکر دیوار پر آ گیا ہے اور رومی فوج دیوار پر جا ہی نہیں سکتی اور بھاگنے کے راستے دیکھ رہی ہے تو جرنیلوں نے اعلان کروایا کہ جو کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا اسے قتل کردیا جائے گا۔
طبری نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل تھیوڈور کے حکم سے نیچے سے اعلان کیا گیا کہ وہ مقابلہ نہیں کریں گے اور صلح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
ڈر کے مارے کوئی قاصد اوپر نہیں جا رہا تھا۔ طبری کی تحریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص بھی دیوار پر آگئے تھے انہوں نے تھیوڈور کا اعلان سنا تو اس کے جواب میں اعلان کردیا کہ جرنیل اوپر آ جائیں اور بات کریں۔
ہم یہاں کا سارا خزانہ تمہارے حوالے کردیں گے۔۔۔ تھیوڈور نے اعلان کردیا۔۔۔ یہ لے کر دیوار سے باہر کو اسی راستے اتر جاؤ جس طرح چڑھے تھے اور خندق کی حدود سے بھی نکل جاؤ اس کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہوں تو ہم وہ بھی پیش کر دیں گے۔
ہمیں جو کچھ چاہئے اب وہ ہم خود ہی لے لیں گے۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے اعلان کروایا ۔۔۔۔ہم دیوار سے باہر کو نہیں اندر کو اتریں گے ،دو تین جرنیل اوپر آجائیں۔
اس کے ساتھ ہی عمرو بن عاص نے چند ایک مجاہدین کو حکم دیا کہ دیوار کے چاروں طرف یہ اعلان کرتے جائیں کہ شہر کے لوگ نہ بھاگیں ان کی جان و مال کی پوری حفاظت کی جائے گی ،انہیں امان دی جائے گی، اور ہمارے لشکر کا کوئی فرد کسی گھر میں داخل نہیں ہو گا اور سب کی عزت کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔
ہم اوپر آجائیں۔۔۔۔ جنرل تھیوڈور نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ لیکن اس کی کیا ضمانت کے ہمیں گرفتار یا ہلاک نہیں کر دیا جائے گا۔
گرفتار یا ہلاک کرنا ہو تو ہم نیچے آکر بھی کرسکتی ہیں۔۔۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے اب کی کسی اور سے کہلوانے کی بجائے خود اوپر سے جھک کر نیچے دیکھا اور کہا۔۔۔ کوئی ہے تم لوگوں کو ہم سے بچانے والا ؟
ہم مسلمان ہیں وہی کرتے ہیں جو ہم زبان سے کہتے ہیں ہم دھوکے میں قتل نہیں کیا کرتے بے دھڑک اوپر آ جاؤ ۔
جنرل تھیوڈور اس جگہ کھڑا تھا جہاں سے عمرو بن عاص اوپر سے جھک کر بات کر رہے تھے۔ تھیوڈور نے جنرل جارج کو اپنے ساتھ لیا اور قریبی سیڑھیوں سے اوپر چڑھنے لگا لیکن سیڑھیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ تھیوڈور نے اپنے محافظ دستے سے کہا کہ وہ لاشیں گھسیٹ کر نیچے پھینکیں۔
محافظوں نے بڑی تیزی سے رومی فوجیوں کی لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر نیچے پھینکی اور دونوں جرنیل اوپر چلے گئے۔
صلح کی شرائط طے کرنے کے لئے عمرو بن عاص نے جرنیلوں کے ساتھ مجاہدین سے دور ہٹ گئے۔
اب بتاؤ کیا چاہتے ہو ؟۔۔۔عمرو بن عاص نے پوچھا ۔۔۔یہ پیش نظر رکھنا کے اپنی شرط پیش کرنا کہ تمہاری فوج لڑ نہیں رہی بلکہ بھاگ بھاگ کر پناہ ڈھونڈ رہی ہے۔
تین دنوں کی مہلت۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ہمیں تین دنوں کی مہلت دی جائے کہ ہم قلعہ خالی کر دیں اور اس کے بعد قلعے پر تمہارا قبضہ ہوگا۔
مجھے یہ شرط منظور ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔تیسرے دن کا سورج غروب ہوجائے گا تو جو فوجی قلعے میں رہ جائے گی اسے قتل کردیا جائے گا یا جنگی قیدی بنا لیا جائے گا۔
تاریخ میں آیا ہے کہ عمرو بن عاص نے تھیوڈور کی شرط قبول کرلی تو سالار زبیر بن العوام نے عمرو بن عاص کا بازو پکڑا اور انہیں ایک طرف لے گئے۔
خدا کی قسم سپہ سالار ۔۔۔سالار زبیر نے کہا۔۔۔ تھوڑی سی دیر اور صبر کر لے اور ان کی بات نہ مان مجھے نیچے جانے دے پہلے میں قلعے پر اور ان کے شاہی محل پر قبضہ کر لو پھر ہم ان پر اپنی شرائط مسلط کرکے معاہدہ کریں گے۔ یہ جو کہہ رہے ہیں کہ تین دنوں میں قلعہ خالی کر دیں گے اس میں کوئی راز ہے ابھی ان کے ساتھ معاہدہ نہ کریں، انہیں نیچے بھیج دیں اور ہم اپنے طور پر قلعے پر باقاعدہ قبضہ کریں گے ہو سکتا ہے ہم انہیں کہیں کہ اپنی آدھی فوج یا اس سے کچھ کمک ہماری قید میں دے دو اور قلعے سے نکل جاؤ۔
نہیں زبیر بن العوام!،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ میں تمہارا مشورہ اچھی طرح سمجھتا ہوں اور جو تم کہہ رہے ہو ہونا یہی چاہیے۔ لیکن میں امیرالمومنین کے حکم کا پابند ہوں امیرالمومنین کا حکم ہے کہ دشمن تمہارے آگے جھک جائے اور صلح کی پیشکش کرے تو فوراً قبول کرلو، دوسری بات یہ ہے کہ مزید خون بہائے بغیر ہم اپنا مقصد پا لیتے ہیں تو کیوں نہ ابھی جنگ روک دیں۔ ہمیں مجاہدین کی جانیں اور ان کا خون بچانا ہے، قلعہ تو ہم نے لے ہی لیا ہے۔
سپہ سالار اور سالار زبیر نے آپس میں صلح مشورہ کرکے وہ شرائط طے کر لی جو ان رومی جرنیلوں سے منوانی تھی دونوں ان کے پاس جا کھڑے ہوئے۔
قلعہ خالی کرنے کے لیے ہم تمہیں تین دن دیتے ہیں۔۔۔۔ عمر بن عاص نے تھیوڈور سے کہا کہ قلعہ خالی ہونے تک تم دونوں یہاں ہمارے پاس یرغمال کے طور پر رہو گے ،قلعے میں جو اسلحہ ہے اور جو خزانہ ہے اور جو دیگر مال و دولت ہے تم اس میں سے کچھ بھی نہیں لے جا سکو گے، یہ سب مسلمانوں کا مال غنیمت ہوگا فوج بغیر ہتھیاروں کے قلعے سے نکلے گی۔
دونوں جرنیلوں نے بلا حیل وحجت یہ شرائط قبول کرلی، اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کس قدر مجبور اور کمزور ہو چکے ہیں ،وہ تو جیسے اپنی صرف جان بچانے کی فکر میں تھے۔
عمرو بن عاص نے انہیں کہا کہ وہ اوپر سے ہی نیچے حکم بھیجیں کہ خندق پر پل ڈال دیئے جائیں۔
تھیوڈور نے اوپر سے ہی کسی سے کہا کہ خندق پر پل گرا دیے جائیں اس حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ پل کس طرف ڈالے اور اٹھائے جاتے تھے اتنا ہی لکھا ہے کہ صدر دروازے کے اندر کوئی ایسا انتظام تھا جہاں سے پل اٹھا لئے جاتے تھے اور گرا بھی دیے تے تھے ۔ پل گرانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی تھی کہ مجاہدین کا پورا لشکر ابھی قلعے کے قریب نہیں آیا تھا آدھے سے زیادہ لشکر خندق سے باہر تھا اتنا لشکر ایک ہی راستے سے نہیں آسکتا تھا۔ پل گرائے گئے تو سارا لشکر تھوڑے سے وقت میں خندق عبور کر آیا۔
عمرو بن عاص نے دیوار پر کھڑے کھڑے حکم دیا کہ لشکر باہر اگلے حکم کے انتظار میں رک جائے۔
عمرو بن عاص نے دونوں رومی جرنیلوں سے کہا کہ اپنے قاصدوں کو اوپر بلا لیں اور انہیں کہیں کہ سارے شہر میں اعلان کر دیں کہ جنگ بندی ہوگئی ہے اور فوج ہتھیار رکھ دے اور باہر نکلنے کے لئے تیار ہوجائے ، یہ بھی کہا گیا کہ کوئی فوجی یا شہری کوئی قیمتی چیز اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا۔
دیوار پر پھر پھر کر تین چار مجاہدین اعلان کررہے تھے کہ شہری بھاگنے کی کوشش نہ کریں انہیں امان میں لے لیا جائے گا اور ان کی جان و مال کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہو گی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے دریا والے دروازے پر مجاہدین کی کچھ نفری تعینات کردی جس کا کام یہ تھا کہ باہر جانے والے فوجیوں اور شہریوں کی تلاشی لیں پھر انہیں جانے دیں۔
فیصلہ یہ ہوا تھا کہ رومی فوج کا انخلاء مکمل ہو جائے گا تو مجاہدین شہر میں داخل ہوں گے اور پھر ان دونوں جرنیلوں کو جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔
بابلیون شہر بہت ہی وسیع وعریض تھا مصر میں جس کی بھی بادشاہی آئی اس نے اس شہر کو بہت ہی اہمیت دی اور اس کی آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ اہمیت ابھی تک قائم تھی۔ اس شہر کی دفاعی پوزیشن بھی بہت اچھی تھی مصر کا دارالحکومت تو اسکندریہ تھا لیکن بابلیون کو اسکندریہ سے زیادہ اونچا مقام حاصل تھا۔
قلعہ شہر کے ایک طرف تھا اس کے اوپر بڑے برج اور برجیاں تھی دیوار سارے شہر کے ارد گرد کھڑی کی گئی تھی اس پر بھی کئی جگہوں پر برجیاں بنائی گئی تھیں،،،،،، اس شہر کے متعلق تمام تر تفصیلات پہلے بیان ہو چکی ہیں ۔ یہاں یہ ذکر اس لیے آیا ہے کہ یہ ذہن میں رکھا جائے کہ مجاہدین اور ان کے سالار ابھی تک قلعے کے اوپر کھڑے تھے اور انہوں نے ابھی پورا شہر نہیں دیکھا تھا، انہوں نے حکم دے دیا تھا کہ شہر خالی کردیا جائے لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی کے شہر کس طرح خالی ہو رہا ہے اور لوگ کیا کر رہے ہیں۔
سپہ سالار نے یہ تسلی کرلی تھی کہ فوج کا انخلاء شروع ہوگیا ہے شہر کے نظم و نسق کی بحالی کے لیے جو کچھ کرنا تھا وہ رومیوں کے نکل جانے کے بعد ہی ہو سکتا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے یہ تو دیکھ لیا کہ رومی فوج کا انخلا شروع ہو گیا ہے لیکن یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ بدبخت رومی جاتے جاتے شہر کی کچھ آبادی کا خون بہا گئے ہیں۔
یہ اس وقت پتہ چلا جب فوج نیچے گئی اور مجاہدین نے اندر جاکر شہر پر اپنا قبضہ کیا۔
ہوا یوں کے رومیوں نے سیکڑوں قبطی عیسائیوں کو قید میں ڈال رکھا تھا یہ محض تعصب کا مظاہرہ تھا ، یہ قبطی ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کرتے تھے اور اس کے خلاف تبلیغ میں بھی مصروف پائے گئے جو ایک جرم تھا، انہیں ہمیشہ کے لئے قید خانے میں ڈال دیا گیا تھا قید خانے کا تمام عملہ رومی تھا ،اس عملے کو جب حکم ملا کہ شہر خالی کرنا ہے اور وہ یہاں سے نکل چلیں تو انہوں نے اسے ایک بہت بڑی چوٹ اور صدمہ سمجھا وہ مسلمانوں کے خلاف تو کوئی کاروائی کر نہیں سکتے تھے انہوں نے غصہ ان قبطی قیدیوں پر نکالا اور وہ بھی ایسی بے دردی سے کہ تمام قیدیوں کے ہاتھ کاٹ دیے اور خود وہاں سے چلے گئے۔
یہ تو قید خانے میں ہوا جس کا باہر کسی کو پتا نہ چل سکا ۔ شہر کے اندر رومی فوجیوں نے اپنی شکست کا انتقام مصری عیسائیوں سے لیا ،اور یہ بھی ایسی بے دردی کے وہ کئی گھروں میں جا گھسے ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی اور کسی نے ذرا سی بھی مزاحمت کی تو اسے قتل کردیا ۔ بہت سے قبطی عیسائی ان کے ہاتھوں زخمی ہوئے رومیوں نے لوٹ مار بھی کی لیکن وہ کوئی چیز اپنے ساتھ باہر نہیں لے جا سکتے تھے۔
یہاں چھوٹا سا ایک اور واقعہ ہو گیا ۔ جن مجاہدین کو دریا والے دروازے پر اس کام کے لئے بھیجا گیا تھا کہ شہر خالی کرکے جانے والوں کی تلاشی لے کر جانے دیں ان میں اسامہ بن اظہری بھی تھا، اور اس کے تین چار اور جاسوس ساتھی بھی تھے ، رومی فوجی نکل رہے تھے اور ہر ایک کی تلاشی لی جا رہی تھی ، یکلخت کچھ شہریوں اور فوجیوں کا ایک ریلا آگیا جن پر قابو پانا مشکل ہو گیا ، انہیں پیچھے دھکیل کر اکیلے اکیلے گزرنے کو کہا جانے لگا اور وہاں اچھی خاصی افراتفری پیدا ہو گئی، اسامہ کو یوں آواز آئی جیسے کسی عورت نے اسے پکارا ہو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اور اس نسوانی آواز نے ایک بار پھر اسے پکارا۔
اس نے ادھر دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی تو یہ منظر نظر آیا کہ دو رومی فوجی اس لڑکی کو جس کے ساتھ اسامہ کی محبت تھی ، اور وہ گزشتہ رات تھیوڈور کے پاس تھی، اپنے درمیان لیے ایک طرف گھسیٹ اور دھکیل رہے تھے، اور لڑکی اسامہ کو پکار رہی تھی ، اس وقت باہر جانے والوں کے ہجوم میں افراتفری مچی ہوئی تھی اس لئے کوئی ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔
اسامہ نے اپنے ایک جاسوس ساتھی کو ساتھ لیا اور ہجوم کو چیرتا ہوا لڑکی تک پہنچا ، دونوں فوجی اسے چھوڑ کر وہاں سے کھسکنے لگے لیکن اسامہ اور اس کے ساتھی نے انہیں پکڑ لیا، لڑکی بری طرح رو رہی تھی اسامہ نے اس سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے اور یہ اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟
انہوں نے میری ماں کو اور میرے باپ کو قتل کر ڈالا ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ میرے گھر سے زیورات بھی اٹھالئے ہیں اور مجھے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔
ان دونوں فوجیوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا کہ وہ لڑنے پر اتر آتے تمام فوجیوں کو سپہ سالار کے حکم سے نہتا کر دیا گیا تھا۔ اسامہ اور اس کا ساتھی انہیں اور لڑکی کو دھکیلتے ہوئے ہجوم سے نکال کر کچھ دور لے گئے تھے ۔ قریب ہی ایک چھوٹا سا اور بڑا پرانا سا ایک مکان تھا جسکا دروازہ کھلا ہوا تھا اوسامہ کے کہنے پر انہیں اس مکان میں لے گئے مکان کے دو ہی کمرے تھے اور دونوں خالی تھے۔
ایک کمرے میں لے جا کر دونوں فوجیوں کی تلاشی لی گئی تو ان کے کپڑوں کے اندر سے ایک تھیلی برآمد ہوئی جس میں زیورات تھے یہ انہوں نے اس لڑکی کے گھر سے اٹھائے تھے۔
دونوں فوجیوں نے ہنس ہنس کر کہنا شروع کر دیا کہ یہ لڑکی اتنی خوبصورت ہے کہ ہم نے سوچا کہ اسے ساتھ لے چلیں ، زیورات تم رکھ لو ہمیں یہ لڑکی ساتھ لے جانے دو۔
اور اس کے ماں باپ کو تم نے قتل کیا ہے۔۔۔۔ اسامہ نے کہا۔۔۔ کیا یہ خون بھی تمہیں بخش دیں ایک کمسن لڑکی کو تم نے یتیم کردیا ہے۔
یہاں تو کئی لوگ قتل ہوئے ہیں۔۔۔ ایک فوجی نے کہا ۔۔۔اس کے ماں باپ قتل ہو گئے تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔
اسامہ نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا آنکھوں ہی آنکھوں میں انھوں نے طے کر لیا کہ کیا کرنا ہے دونوں نے بیک وقت خنجر نکالے اور دوسرے ہی لمحے یہ خنجر ان رومی فوجیوں کے پیٹوں میں اترے ہوئے تھے، دونوں مجاہدین نے ان فوجیوں کے پیٹ چاک کر دئیے دونوں گرپڑے مجاہدین لڑکی کو ساتھ لے کر باہر آگئے ۔
میں اب کہاں جاؤں؟،،،، لڑکی نے روتے ہوئے اسامہ سے پوچھا ۔۔۔گھر میں تو میرا رہا ہی کوئی نہیں۔
کیا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔۔۔ اسامہ نے زیورات کی تھیلی لڑکی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا تم میرے ساتھ نہیں چلو گی، کیا تم نے میرے ساتھ رہنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟
کیا تھا ۔۔۔۔لڑکی نے کہا ۔۔۔لیکن میں تمہارے ساتھ بے وفائی کر چکی ہوں اور میں بہت شرمسار ہوں۔
بے وفائی کیسی؟،،،، اسامہ نے پوچھا۔
لڑکی نے اسامہ کو گزشتہ رات کی ساری بات سنا ڈالی جو تھیوڈور کے سونے کے کمرے میں ہوئی تھی اس نے کچھ بھی نہ چھپایا اور کہا کہ اسے اتنے بڑے جرنیل نے اس کا دماغ ہی پھیر ڈالا تھا ، اور وہ تصورو میں مصر کی ملکہ بن گئی تھی اب یقین آیا کہ تمہارا خدا سچا ہے، لڑکی نے کہا تمہارا مذہب بھی سچا ہے اور برحق ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا تو اس وقت تم زندہ نہ ہوتے میں نے تو تمہیں پکڑوا دیا تھا اگر میرا یہ گناہ معاف کر سکتے ہوں تو مجھے اسلام میں داخل کرلو اور اپنے ساتھ لے چلو۔
میں تمہیں تمہارے ماں باپ واپس نہیں دلوا سکتا ۔۔۔اسامہ نے کہا ۔۔۔یہ زیورات تمہارے ہیں تمہیں لوٹا دیے ہیں سچ اور جھوٹ کو حق اور باطل کو سچے دل سے سمجھ گئی ہو تو میرے ساتھ آ جاؤ ،کسی بھی مسلمان کے پاس بیٹھ جاؤں گی تو تھوڑی ہی دیر بعد کہے اٹھو گی کہ یہ تو میرا وہ باپ ہے جسے رومیوں نے قتل کر دیا تھا۔
مسلمانوں میں لوٹیرے نہیں ہوا کرتے ان کے پاس شفقت اور انسانی ہمدردی ہے، میں تمھیں اپنے سپہ سالار کے پاس لے جاؤں گا تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ میں تمہیں زبردستی نہیں لایا اور تم اپنی خوشی اور رضا سے اسلام قبول کر کے میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو۔
اسامہ نے جب لڑکی کی یہ باتیں سنیں تو اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسے قتل کروانے والا جرنیل اس وقت مسلمانوں کی قید میں یرغمال کے طور پر ایک برجی میں بیٹھا ہوا تھا ، اور اسامہ فاتح کی حیثیت سے سر اونچا کرکے اس جرنیل کے قلعے میں گھوم پھر رہا تھا اور اپنے سالار کے حکم منوا رہا تھا۔
اسامہ لڑکی کو سپہ سالار کے پاس لے گیا اور انہیں ساری بات سنائی ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے لڑکی سے دو چار باتیں پوچھی اور اسے شفقت اور پیار سے مسلمان خواتین کے پاس بھیج دیا اس کے زیورات اس کے پاس رہنے دیے۔
سپہ سالار کو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ رومی فوجی شہر کے ایک حصے میں شہریوں کا خون خرابہ کر گئے ہیں، اس لڑکی کو بھی معلوم نہیں تھا ورنہ وہ بتا دیتی ، اس کے اپنے ماں باپ قتل ہو گئے تھے اس لئے اسے گردوپیش کا کوئی ہوش ہی نہ تھا۔
دو دنوں میں فوج قلعہ خالی کر گئی سپہ سالار عمرو بن عاص اپنے سالاروں کے ساتھ پہلی بار نیچے اترے ان کے ساتھ دونوں رومی جرنیل تھیوڈور اور جارج تھے۔ پہلے تھیوڈور کے محل جیسی رہائش گاہ میں گئے تمام خزانہ نکلوایا اور دونوں جرنیلوں سے کہا کہ وہ اپنے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر شہر سے نکل جائیں۔
شہر کے دروازے کھول دیے گئے اور مجاہدین کا لشکر اللہ اکبر کے نعرے لگاتا شہر میں داخل ہوا اس وقت عمرو بن عاص باہر کھڑے تھے جیسے اپنے لشکر کا استقبال کرنے آئے ہوں۔ ایک طرف سے دو تین سو شہریوں کا ہجوم جلوس کی شکل میں سپہ سالار کی طرف آتا نظر آیا اس ہجوم میں عورتیں بھی تھیں، یوں لگتا تھا جیسے یہ لوگ ماتم کرتے آ رہے ہوں، دور سے ہی نظر آتا تھا کہ کئی ایک کے کپڑوں پر خون کے بڑے بڑے داغ دھبے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے ایک سالار سے کہا کہ جاکر ان سے پوچھے کہ وہ کیوں ادھر آ رہے ہیں۔
سالار دوڑا گیا اور ان سے پوچھا ان لوگوں نے سالار کو بتایا کہ رومی فوجی ان کا کس طرح خون خرابہ کر گئے ہیں اور اب یہ لوگ یہ شکایت لے کر مجاہدین کے سپہ سالار کے پاس آئے ہیں، سالار نے واپس آکر عمرو بن عاص کو بتایا تو انہوں نے بجائے اس کے کہ انہیں اپنے پاس بلا تے بلکہ خود ان تک جا پہنچے اور کہا کہ انھیں بتایا جائے کہ ان پر کس نے یہ ظلم کیا ہے۔
ہم یہی بتانے آئے ہیں۔۔۔ ایک بزرگ سے آدمی نے آگے ہو کر کہا۔۔۔ لیکن یہ بتانے سے پہلے ہم یہ فریاد لے کر آئے ہیں کہ ایک وہ تھے جو ہمارے کئی آدمیوں اور عورتوں کو قتل کر گئے ہیں ،اور اب تم لوگ ہمارے گھروں کو لوٹنے آگئے ہو، یہ تو بتا دو کہ ہمارا قصور کیا ہے جس کی ہمیں سزا ملی ہے، اور باقی آپ سے ملے گی۔
کیا تم لوگوں نے ہماری طرف سے وہ اعلان نہیں سنے تھے۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہم دیوار پر کھڑے یہ اعلان کرتے رہے کہ کوئی شہری بھاگنے کی کوشش نہ کرے شہریوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کریں گے ، اور امان میں رکھیں گے ہم لوٹنے نہیں آئے کچھ دینے آئے ہیں،،،،، جس وقت رومی تمہارے گھروں میں قتل و غارت کر رہے تھے اس وقت ہمیں اطلاع دینی تھی، پھر تم دیکھتے کہ ہم انہیں زندہ کس طرح جانے دیتے ،،،،،اب بتاؤ تم پر کیا بیتی ہے۔
ان لوگوں نے اپنی اپنی بپتا سنانی شروع کر دی کسی نے کہا کہ اس کی بیٹی کو بے آبرو کیا گیا ہے، کسی نے کہا کہ اس کے گھر کے دو آدمی مارے گئے ہیں کیونکہ وہ گھر کی عورتوں کی عزت کی حفاظت میں مقابلے پر آ گئے تھے ،اس ہجوم میں جو بڑھتا ہی جارہا تھا کئی آدمی زخمی تھے اور کچھ ایسے زخمی جن کے زخم خاصے گہرے تھے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ سب مصری ہے اور قبطی عیسائی ۔
ان لوگوں میں سے ہی کسی نے بتایا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ قید خانے میں جو قیدی قبطی عیسائی تھے رومی ان کے ہاتھ کاٹ گئے ہیں۔ اس وقت عمرو بن عاص نے کچھ مجاہدین کو قید خانے کی طرف دوڑایا، ان کے ساتھ ایک حاکم کو بھی بھیج دیا جسے قیدخانے کی ذمہ داریاں سنبھالنی تھی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے ایک سالار سے کہا کہ شہر میں جتنے لوگ زخمی ہیں ان کی مرہم پٹی کا انتظام فورا کیا جائے، اور انہیں کھانا پینا اپنی طرف سے دیا جائے، یہ حکم دے کر سپہ سالار قید خانے کی طرف چلے گئے۔
وہاں ان لوگوں کی حالت دیکھ کر جن کے ہاتھ کاٹے گئے تھے سپہ سالار کانپ اٹھے ۔
ان کا خون بہتا ہی رہا تھا اس لئے کچھ تو مر ہی گئے تھے، اور باقی بے ہوش پڑے ایک ایک کر کے مر رہے تھے، ایک دن پہلے ان کے ہاتھ کاٹے گئے تھے، سپہ سالار کے حکم سے انہیں اٹھایا گیا جو ابھی زندہ تھے اور فوری مرہم پٹی کا انتظام کیا گیا انہیں شہد ملا دودھ بھی پلایا گیا اور اس طرح ان میں سے چند ایک کو بچا لیا گیا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے قید خانے سے واپس آتے اپنے سالاروں سے کہا کہ ان نہتے شہریوں پر رومی فوج کا یہ ظلم وستم بڑا ہی افسوسناک ہے، لیکن ان کے اس صدمے میں ہم یہ رویہ اختیار کریں کہ ان کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آئیں جیسا کہ اسلام کا حکم ہے، ان کے دلوں میں رومیوں کی نفرت پیدا ہو گئی اور ان کے خلاف یہ غم و غصے سے بھرے ہوئے رہیں گے ، اپنے ساتھ مبلغ بھی ہیں۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ انہیں کہو کہ گھر گھر جائیں ان لوگوں کی دلجوئی کریں اور انہی جیسی بھی مدد چاہیے وہ دیں، اور پھر انہیں کہیں کہ اب اسلام کی برکت اور رحمت کو بھی دیکھیں۔
سپہ سالار وہاں سے پھر فرمانروائے مصر کے محل میں چلے گئے، ان کے ساتھ چار پانچ سالار تھے اور کچھ تعداد دوسرے مجاہدین کی بھی تھی۔ اب انہوں نے سارے محل میں گھوم پھر کر دیکھا ایسی شاہانہ طرز بودوباش اور ایسی بیش قیمت اشیاء ،فرنیچر اور فانوس وغیرہ دیکھ کر کر عرب کے مجاہدین حیران ہوئے جا رہے تھے۔
غور سے دیکھو اور عبرت حاصل کرو ۔۔۔سالار زبیر بن العوام نے مجاہدین سے کہا ۔۔۔اگر یہ شاہانہ طرز رہائش ہمارے نصیب میں آئی ہوتی تو ہم خندق عبور کرنے کی سوچ بھی نہ سکتے۔
ان رومیوں کو اس شہانہ زندگی نے شکست دلوائی ہے، دیکھ لو اس قدر خزانہ اور ایسی شہنشاہیت یہیں رہ گئی ہے، اور وہ لوگ جو یہاں رہتے تھے صرف پہنے ہوئے کپڑوں میں یہاں سے شکست خوردگی کے عالم میں نکلے ہیں،،،،،،،،، وہ لوگ جو دنیا میں ہی اپنے لیے جنت بنا لیتے ہیں اللہ انہیں دنیا میں ہی جہنم کا عذاب دکھا دیتا ہے۔
اور میں تمہیں یہ بھی بتادوں۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔انہوں نے جن بے گناہ قیدیوں کے ہاتھ کاٹے ہیں، اور جن پر ظلم و ستم کر گئے ہیں ان کی بد دعا انہیں اب جہنم کا عذاب ہی دکھائی گئی۔ فتح ایمان والوں کی ہوتی ہے اور ان کی جو بنی نوع انسان سے محبت کرتے ہیں۔
رومی فوج نے 16اپریل 641عیسوی کے روز بابلیون کا شہر خالی کیا اور مسلمانوں نے اس پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا تھا۔
عمرو بن عاص نے وہیں بیٹھ کر امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پیغام لکھوایا جس میں اتنی بڑی فتح کی خوشخبری لکھی اور تفصیل سے لکھوایا کہ اس فتح کا سہرا سالار زبیر بن الّعوام کے سر ہے ، اور انہوں نے کس طرح خندق عبور کی اور پھر رومیوں سے کس طرح ہتھیار ڈلوا کر بغیر خون بہائے ان سے شہر خالی کروالیا گیا آخر میں انہوں نے لکھوایا کہ اب وہ مصر کے دارالحکومت اسکندریہ کی طرف کوچ کی اجازت چاہتی ہیں۔ انہوں نے لکھوایا کہ یہ اجازت جلدی ملنی چاہیے تاکہ رومی فوج کو سستانے اور دم لینے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ پیغام لکھوا کر انہوں نے قاصد سے کہا کہ وہ بہت ہی تھوڑے وقت میں مدینہ پہنچے اور یہ پیغام دے کر جواب لے آئے۔
بابلیون کی فتح کوئی عام سی فتح نہیں تھی اس اتنے بڑے شہر اور اس اتنے مستحکم قلعے کو فتح کر لینے سے مصر میں مجاہدین کی فتوحات کا ایک مرحلہ ختم ہوگیا، انہوں نے آدھا مصر فتح کر لیا تھا جسکا بابلیون والا علاقہ ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔
اللہ تبارک وتعالی نے اپنا یہ فرمان پورا کردیا کہ ہم نے تمہیں دین کے دشمنوں کے ان زرخیز علاقوں اور خزانوں تک پہنچایا جو کبھی تمہارے تصور میں بھی نہیں آئے تھے،،،،، یہ حقیقت ہے کہ بابلیون جیسی جگہ مسلمانوں کے تصور میں کم ہی کبھی آئی ہوں گی یہ اللہ کا ایک عظیم انعام تھا۔
مصر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ فرعونوں کا محبوب علاقہ تھا قلعے کی دیواروں پر کھڑے ہوجاتے تو ابوالحلول اور فرعونوں کے احرام نظر آتے تھے ،اور نیل کی اپنی ہی ایک دلکشی تھی ۔
بابلیون کا شہر فرعونوں نے ہی بسایا تھا حضرت موسی علیہ السلام نے یہیں کہیں فرعون کا طلسم سامری اپنے عصا سے توڑا تھا۔
وہاں جگہ جگہ فرعونوں کے دور کے آثار نظر آتے تھے اور تمام تر علاقے میں بکھرے ہوئے تھے۔
بابلیون فتح کر لینے سے جزیرہ روضہ بھی مسلمانوں کے تسلط میں آگیا تھا ۔
عمرو بن عاص نے حکم دیا کہ بابلیون کے دریا والے دروازے سے جزیرے تک کشتیوں کا پل بنا دیا جائے اس حکم کی فوری تعمیل شروع ہوگئی شہر کے لوگوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا تھا کہ انہوں نے ان کے گھر کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا اور انہیں ہر طرح کی مدد بہم پہنچائی تھی، اس کے اثرات یہ تھے کہ جب کشتیوں کا پل تیار ہونے لگا تو شہر کے لوگ دوڑے گئے اور اس کام میں مجاہدین کا ہاتھ بٹانے لگے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کی یہ مجبوری تھی کہ ان کے ساتھ لشکر کی نفری کم تھی اس نفری میں سے شہر کی انتظامیہ کے کام بھی کروانے تھے اور نظم ونسق بھی بحال کرنا تھا، کشتیوں کا پل بھی بننا شروع ہو گیا تھا، اور کئی اور کام تھے جو فوری طور پر کرنے والے تھے۔ مجاہدین کی تعداد اتنی ہی تھی جسے ان کاموں میں لگا دیا جاتا تو عسکری ذمہ داریاں التوا میں پڑ جاتی تھی، اس کا علاج یہ سوچا گیا کہ رومیوں کے دور حکومت میں جو قبطی عیسائی شہری انتظامیہ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے انہیں ہٹایا نہیں گیا۔ بلکہ یہ کام انہی کے سپرد کردیئے گئے۔ اردگرد کے علاقے میں اپنے لشکر کی کچھ نفری رکھنی لازمی تھی۔ سپہ سالار کا مقصد یہ بھی تھا کہ قبطیوں کو اعتماد میں لے کر انہیں اہمیت دی جاتی رہے تاکہ یہ بغاوت کی نہ سوچ سکیں۔
اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ہوگیا جو مؤرخوں نے تفصیل سے لکھا ہے یہ واقعہ یوں ہوا کے محکمے میں اکثریت قبطی عیسائیوں کی تھی اسے آج کی زبان میں پولیس کہا جاتا ہے ۔عمرو بن عاص نے پولیس کے فرائض قبطیوں کے پاس ہی رہنے دیے اور ان کی نفری میں اضافہ کردیا اس محکمہ میں اپنے مجاہدین کو بھی شامل کیا گیا لیکن بہت ہی تھوڑی تعداد میں۔
کچھ دنوں بعد سپہ سالار کو یہ رپورٹ ملی کے پولیس میں جو قبطیی ہیں وہ مسلمانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ بعض کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہم عرب کے اس پسماندہ مسلمانوں کے محکوم نہیں رہ سکتے، بابلیون میں قبطیوں کی بغاوت کے آثار نظر آنے لگے تھے۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
جاری ہے………