اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر16)

بڑی مضبوط چوڑی اور اونچی دیواروں کے حصار میں بلبیس کا شہر آباد تھا۔ ان دیواروں کے اندر بھی جگہ جگہ لاشیں پڑی تھیں ان میں بے ہوش، زخمی بھی تھے۔ شارینا کو معلوم تھا کہ ہتھیار کہاں ڈلوائے جا رہے ہونگے۔ اندر ایک بڑا وسیع و عریض میدان تھا شارینا سب سے پہلے قیدیوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔
شارینا اور اربیلا اس میدان سے ابھی کچھ دور ہی تھی کہ انھیں رومی فوجیوں کی ایک ٹولی آتی نظر آئی تعداد میں وہ پچیس تیس ہونگے۔ تین چار مجاہدین انہیں ہانک کر میدان کی طرف جا رہے تھے۔ یہ ٹولی ان دونوں کے قریب سے گزری تو اچانک اربیلا چلائی روباش ۔۔۔وہ اس ٹولی کی طرف دوڑ پڑی تھی، شارینا بھی اس کے پیچھے دوڑی، روباش نے اربیلا کو دیکھا تو ٹولی سے نکل آیا۔
اوئے رومی۔۔۔۔ ایک مجاہد نے روباش کو ڈانٹ کر کہا ۔۔۔کدھر چل پڑے!،،،،،،، اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہو، تم قیدی ہو۔
اگر یہ مجاہد روباش کو دھکیل کر پھر ٹولی میں شامل نہ کردیتا تو روباش کو پتا ہی نہ چلتا کہ مجاہد نے کیا کہا تھا کیونکہ مجاہد عربی بول رہا تھا اور روباش یہ زبان نہیں سمجھتا تھا ۔
شارینا نے اربیلا کو وہیں روک لیا اور کہا کہ وہ چہرے پر پہلے کی طرح نقاب ڈال لیے۔
تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔مجاہد نے ان دونوں سے کہا۔۔۔ دوسری عورتوں کے ساتھ جا کر اپنا کام کرو یہاں تماشہ دیکھنے کے لئے مت روکو۔
شارینا نے اربیلا کو ساتھ لیا اور فوراً وہاں سے چل پڑی اور بڑی تیزی سے چلتی ہوئی شہر سے نکل گئی معلوم نہیں اس مجاہد نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رومی فوج کا ایک افسر انہیں دیکھ کر ان کی طرف کیوں چل پڑا تھا؟
شارینا یہ خطرہ محسوس کرتی ہی رہی کے روباش سے پوچھا جائے گا کہ وہ ان لڑکیوں کی طرف کیوں جا رہا تھا؟
شارینا اربیلا کو ساتھ لئے بڑی ہی تیز چلتی اپنے خاوند حدید کے پاس پہنچی۔
اس نے اربیلا کو حدید سے متعارف کروایا اور وہ ساری بات سنائی جو اربیلا نے اسے سنائی تھی یہ بھی بتایا کہ انہوں نے روباش کو قیدیوں میں دیکھا ہے اگر اسے رہائی مل جائے تو یہ دونوں اسلام قبول کرلیں گے،،،،، حدید نے اپنے ساتھیوں کو بتایا حدید اور اس کے ساتھی جاسوسی کے نظام کے مجاہدین تھے ان کا سپہ سالار عمرو بن عاص کے ساتھ براہ راست تعلق تھا یہ مسئلہ سپہ سالار کا تھا اور وہی اس کا آخری فیصلہ دے سکتے تھے۔ اس وقت سپہ سالار کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ شہر ابھی ابھی فتح ہوا تھا سپہ سالار نہ جانے کہاں کہاں گھوم پھر رہے تھے۔ انہیں شہر کا نظم ونسق کو بحال کرنا تھا اور ہر طرف کی رپورٹ لینی تھی اور سب سے زیادہ نازک اور اہم کام سرکاری مال غنیمت اکٹھا کرنے کا تھا۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ شہریوں کو کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہ ہو اور لوٹ مار بھی نہ ہو ۔مجاہدین تو لوٹ مار کو گناہ سمجھتے تھے لیکن ان کے ساتھ مصری بدو تھے جو اس افرا تفریح اور نفسانفسی میں اسلامی اصولوں کے خلاف ورزی کا موقع نکال سکتے تھے۔
حدید ، شارینا اور اربیلا کو ساتھ لئے سپہ سالار کی تلاش میں چل پڑا تلاش بسیار کے بعد سپہ سالار مل گئے لیکن ایسی حالت میں کہ وہ شہر کے چند ایک سرکردہ افراد اور اپنے دو نائب سالاروں کے ساتھ مصروف تھے۔ انتظار میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا وہاں کوئی مسجد تو تھی نہیں ایک مجاہد نے باہر کھڑے ہوکر اذان دی اور وہی سب باجماعت نماز کے لیے اکٹھا ہو گئے سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنی سرگرمیاں ملتوی کردی اور امامت کے لیے آ گئے۔
یہ موقع اچھا تھا نماز سے فارغ ہوتے ہی حدید سپہ سالار سے ملا اور انہیں اربیلا اور روباش کے متعلق ساری بات سنائی سپہ سالار نے حکم دے دیا کہ روباش نام کے رومی افسر کو قیدیوں سے نکال کر انکے خیمے میں پیش کیا جائے۔

عمرو بن عاص نماز کے بہت دیر بعد اپنے خیمے میں آئے تو روباش وہاں موجود تھا ۔حدید، شارینا، اور اربیلا بھی تھے۔ عمرو بن عاص نے چاروں کو خیمے میں بٹھایا اور پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے سب سے پہلے اربیلا نے بولنا شروع کیا اور وہ ایسی روئی کہ بولنے کے لیے دشوار ہو گیا اپنے آپ کو سنبھال کر اس نے وہی بات سنائی جو وہ شاعینا کو سناچکی تھی۔
اب تم کیا چاہتی ہو؟،،،،، عمرو بن عاص نے پوچھا اس سوال کا جواب مجھ سے سنیں۔۔۔۔ روباش نے کہا۔۔۔۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں مظلوم انسان ہوں اور مجھے رہائی چاہیے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا میں اس ملک میں واپس نہیں جانا چاہتا جس ملک میں کسی کی عزت اور آبرو ہی محفوظ نہ ہو اور ایک جرنیل اپنا قانون چلاتا پھرے۔ ہرقل وہ بادشاہ ہے جس نے اپنا ہی مذہب رائج کردیا ہے اور بزور شمشیر لوگوں کو اپنے مذہب میں لا رہا ہے۔ میں نے مسلمانوں کے متعلق بہت کچھ سنا ہے اگر یہ سب صحیح ہے تو میں آپ کا مذہب اختیار کرنا چاہتا ہوں ۔
اربیلا کی بھی یہی خواہش ہے میں تجربے کار فوجی افسر ہوں میری خدمات آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔ اگر آپ نے مجھے قید میں ہی رکھنا ہے تو سوچ لیں کہ آپ ایک قیمتی انسان کو ضائع کر رہے ہیں ۔ میں عیسائی ہو لیکن رومی حکمرانوں سے انتقام لینے کو بے تاب ہوں۔
عمرو بن عاص اتنی آسانی سے کسی غیر کی باتوں میں آنے والے سپہ سالار نہیں تھے۔ انہوں نے روباش کے ساتھ ایسی گفتگو کی جس سے یہ دیکھنا مقصود تھا کہ یہ رومی افسر قابل اعتماد ہے یا نہیں۔
شارینا نے سپہ سالار کو یہ بتایا کہ وہ اربیلا کو بچپن سے جانتی ہے اور اخلاقی لحاظ سے قابل تعریف ہے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
خاصی لمبی اور بامقصد گفتگو کے بعد عمرو بن عاص نے فیصلہ دے دیا کہ روبا ش اور اربیلا کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا جائے اس طرح روباش اور اربیلا نے عمرو بن عاص کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اس کے ساتھ ہی عمرو بن عاص نے اسلامی اصول کے مطابق دونوں کا نکاح پڑھوا دیا ۔ سپہ سالار نے یہ حکم بھی دیا کہ ان دونوں کو اسلامی اصولوں سے پوری طرح آگاہ کردیا جائے اور انہیں نماز پڑھنی سکھا دی جائے،،،،،،،، ایسا حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ نظام موجود تھا جو نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کرتا تھا۔ مسلمان جس بستی کو فتح کرتے تھے وہاں کئی لوگ ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے فوراً ہی ان کی تعلیم و تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق شروع ہوجاتی تھی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص مصر سے تو واقف تھے ،لیکن وہ اس وقت مصر کئی بار آئے تھے جب انہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، اور وہ تجارت کے سلسلے میں آیا کرتے تھے وہ سب سے زیادہ اسکندریہ سے متاثر تھے اس کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
اب عمرو بن عاص جس خطے میں پیش قدمی کر رہے تھے اس سے بھی وہ واقف تھے ،لیکن اتنا نہیں جتنا اب ضرورت محسوس ہو رہی تھی، انہوں نے اس وقت مصر کو کسی اور نگاہ سے دیکھا تھا اب وہ اس علاقے کو جنگی نگاہ سے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اپنے جاسوس انہیں معلومات فراہم کر رہے تھے لیکن انہیں وہ غالباً کافی نہیں سمجھتے تھے۔ اب رومی فوج کا ایک افسر ان کے ہاتھ آگیا تھا صحیح اور مکمل معلومات تو اس سے مل سکتی تھی انہوں نے روباش کا نام فاروق اور اربیلا کا نام فاطمہ رکھا تھا۔
تم فوج کے افسر ہو فاروق!،،،،،، عمر بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تم ایک اس دستے کی قیادت کرنے والے ہو اور تجربہ بھی رکھتے ہوں لیکن ابھی میں تمہیں کسی دستے کی کمان نہیں دوں گا۔ تم تھوڑا ہی عرصہ میری جاسوسی نظام میں رہو گے تمہیں شب خون مارنے کے لیے بھی بھیجا جائے گا میں تمہیں نہایت اہم فرد سمجھتا ہوں، ابھی میری ضرورت یہ ہے کہ مجھے دریا نیل تک اور اس سے کچھ آگے کی معلومات مل جائے، یہ تو میں جانتا ہوں کہ آگے دو تین اور قلعے ہیں لیکن جنگی نقطہ نگاہ سے میں ان قلعوں کے احوال و کوائف معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
مجھ سے بہتر اور کون آپ کو یہ باتیں بتا سکتا ہے۔۔۔۔ فاروق نے کہا۔۔۔ یہاں سے آپ پشقدمی کریں گے تو تھوڑی دور جاکر صحرا آجائے گا اس سے آگے اس قدر سرسبزوشاداب اور خوشنما علاقہ آجائے گا جو شاید آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا ۔نیل کے کنارے پر ایک شہر ام دنین آباد ہے جو بڑا مضبوط قلعہ بند شہر ہے اس کے بالکل قریب دریا کا گھاٹ ہے جہاں کشتیاں بھی کھڑی رہتی ہیں اور درمیانہ درجے کے بادبانی جہاز بھی ہیں ،فرعونوں نے اپنے زمانے میں اس شہر کو اپنا دارلحکومت بھی بنایا تھا دراصل مصر کا دفاعی نظام یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ آپ کی جرات اور آپ کے جذبے کا بڑا ہی سخت امتحان انہیں قلعوں پر ہوگا جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو میں یہ کہنے کی جرات کرونگا کہ آپ کے ساتھ جو لشکر ہے اس کی تعداد بہت کم ہے اس قلعے کے اندر جو رومی فوج ہے اس کی تعداد آپ کے لشکر سے بہت زیادہ ہے،،،،،،، اس قلعے میں اور آگے آنے والے ہر قلعے میں جو رومی فوج ہے اس میں ایک ایسی کمزوری ہے جو آپ کو فائدہ دے سکتی ہے، وہ یہ کہ اس فوج پر آپ کا ایسا رعب طاری ہے کہ جب آپکی فوج سے نعرے بلند ہوتے ہیں تو رومی فوج کے ہر سپاہی کے چہرے پر خوف اور بزدلی کا تاثر آجاتا ہے۔ آپ نے بلبیس فتح کیا ہے ۔اس فتح میں آپ ہاتھ ایک اتنا بڑا قلعہ بند شہر اور بے شمار مال غنیمت ہی نہیں آیا بلکہ آپ کی فوج ایک دہشت بن کر رومی فوج پر طاری ہو گئی ہے ۔وہ جو رومی فوجی بلبیس سے بھاگ گئ ہے وہ جہاں بھی جائی گی وہاں آپ کا رعب طاری کرتے جائی گ مختصر یہ کہ جو جذبہ آپ کے لشکر میں ہے وہ رومی فوج میں نہیں،،،،،،،،
ام دنین کے جنوب میں چند میل دور بابلیون کا بہت بڑا قلعہ بند شہر ہے میں آپ کو پورے خلوص سے مشورہ دیتا ہوں کے اس قلعے کو سر کرنے کے لیے یہ لشکر نہ لے جائیں۔ کیونکہ یہ بہت ہی کم ہے اور شہر کے اندر اتنی زیادہ فوج ہے کہ اس نے باہر آکر آپ کے لشکر پر حملہ کردیا تو آپ کے قدم اکھڑ جائیں گے ۔اس قلعے کی دیواروں پر پتھر پھینکنے والی منجیقیں بھی نصب ہیں یہ آپ کے لشکر کو بہت نقصان پہنچائے گی، اس قلعے کی دیواریں بہت ہی چوڑی اور پتھریلی ہے ان میں آپ شگاف نہیں ڈال سکیں گے ۔یہ فرعونوں کا تعمیر کیا ہوا قلعہ ہے جسے رومیوں نے آکر اور زیادہ مضبوط کردیا ہے رومی اسے ناقابل تسخیر قرار دیتے ہیں جو غلط نہیں،،،،،
دریا کے پار فیوم ایک اور قلعہ بند شہر ہے یہ بھی مضبوطی کے لحاظ سے کچھ کم نہیں جب تک آپ ام دنین اور بابلیون کوفتح نہ کرلیں آپ فیوم تک پہنچ ہی نہیں سکیں گے ،کیونکہ آپ سیدھے چلے جائیں گے تو بابلیون کے اندر کتنی فوج ہے جس کا کچھ حصہ فیوم کا محاصرہ توڑنے کے لیے آپ پر عقب سے حملہ کردے گی ،اگر آپ کو کمک مل جائے تو پھر آپ بابلیون تک کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔
ان تمام علاقے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کریں کہ فرعونوں کے احرام اسی علاقے میں ہے اور ابوالہول کا مجسمہ بھی اسی علاقے میں ہے۔ یوں سمجھ لیں کے جس نے یہ وسیع و عریض علاقہ لے لیا اس نے پورا مصر فتح کر لیا ۔ہمیں مقوقس اور اطربوں نے اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا تھا کہ امدنین، بابلیون اور فیوم تک اگر مسلمان پہنچ گئے تو یہ رومیوں کے لئے زندگی اور موت کی جنگ ہوگی، اگر رومی ہار گئے تو ان کا مصر میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا ۔ اور ہرقل نے شام سے نکلتے وقت کہا تھا اے ملک شام الوداع اب ہم کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔ اگر آپ یہ جنگ جیت گئے تو ہرقل مصر کے ساحل پر کھڑا ہو کر یہی الفاظ کہے گا الوداع مصر اب ہم کبھی یہاں نہیں آ سکیں گے۔
عمر بن عاص فاروق کی یہ تفصیلات غور سے سنتے رہے اور کچھ سوال بھی کرتے گئے اس طرح اس علاقے کا بڑا ہی واضح اور شفاف نقشہ ان کے سامنے آگیا۔ پھر انہوں نے فاروق سے پوچھا کہ قبطی عیسائیوں کا رویہ کیا ہے؟،،،،،، اور کیا ایسا امکان موجود ہے کہ وہ ھرقل کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔
کبھی ان پر بھروسہ نہ کریں۔۔۔ فاروق نے کہا۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ قبطی عیسائی جنگ کے دوران رومی فوج کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے لیکن بنیامین بڑا دانشمند اور دوراندیش آدمی ہے وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اس نے ہرقل کو ناراض کردیا اور فاتح اسی کی ہوئی تو مصر میں کسی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اس کے علاوہ ہرقل کا بنایا ہوا اسفق اعظم قیرس بھی بڑا دانشمند اور ہوشیار آدمی ہے وہ ایسی چال چلے گا کہ قبطی عیسائیوں کو اپنا گرویدہ بنا لے گا۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ قیرس اور بنیامین کی سیاست بازی کو سمجھیں اور قبطیوں پر بھروسہ نہ کریں بھروسہ اسی لشکر پر کریں جو اس وقت آپ کے پاس ہے یہ تھوڑا ہے خواہ زیادہ ہے یہ آپ کی اپنی طاقت ہے یہی آپ کے کام آئے گی۔

مدینہ سے چلی ہوئی کمک ابھی تک عمرو بن عاص تک نہیں پہنچی تھی۔ عمروبن عاص نے بلبیس کی فتح کی پہلی ہی رات امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پیغام لکھوا کر کہ انھوں نے ایک اورقلعہ فتح کرلیا ہے۔ اوراب کمک کے بغیر آگے ایک قدم بھی اٹھانا ایسے خطرے میں کود جانے کے مترادف ہوگا جس میں پورے لشکر کی ہلاکت کا امکان زیادہ ہے۔ قاصد کو مدینہ کے لیے دوڑا دیا تھا۔ ان کو ابھی یہ اطلاع نہیں ملی تھی کہ کمک مدینہ سے چل پڑی ہے۔
اگلے روز نماز فجر کے بعد عمرو بن عاص نے اپنے نائب سالاروں اور ان سے چھوٹے عہدیداروں کو بلایا یہ ایک اہم اجلاس تھا۔
میرے رفیقو!،،،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ مجھے احساس ہے کہ میں تم سب کو بڑے امتحان میں ڈال رہا ہوں لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں اپنے لشکر کی جسمانی حالت کو میں دیکھ رہا ہوں اس کے باوجود میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہاں سے ہمیں فوراً پیش قدمی کرنی چاہیئے اور ہم آگے آنے والے کسی قلعے کو محاصرے میں لے لیں ،ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ مصر پر فوج کشی کے مخالفین نے جن میں بزرگ صحابی عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، کہا تھا کہ میں اندھا دھند خطروں میں کود پڑتا ہوں اور میں پورے لشکر کو کسی انجان خطرے میں ڈال کر مروا دوں گا۔ میرے مخالفین نے غلط نہیں کہا تھا لیکن میں اندھا دھند کوئی خطرہ قبول نہیں کرتا۔
میں سوچ سمجھ کر اور ہر پہلو کو سامنے رکھ کر خطرے میں داخل ہوا کرتا ہوں۔
ائے سپہ سالار!،،،،،،،، ایک سالار نے کہا ۔۔۔۔اس وقت ہمارا سامنا ان مخالفین سے نہیں جو مصر پر حملے کے خلاف تھے ،ہمارا سامنا رومی فوج سے ہے جو آگے آنے والے قلعوں میں موجود ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ اس دشمن کی بات کریں۔
تو نے میرے دل سے بوجھ اتار دیا ہے میرے رفیق۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ رومی فوج کو دم لینے اور سستانے کی مہلت نہ دی جائے اگر ہم یہی بیٹھے کمک کا انتظار کرتے رہے تو رومیوں کو یہ تاثر ملے گا کہ ہم آگے بڑھنے کے قابل نہیں رہے ۔ اور ہم قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے کثیر تعداد رومی فوج سے خائف ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ہم یہاں بیٹھے رہے تو کسی بھی وقت رومی فوج آکر بلبیس کو محاصرے میں لے لے گی اور ہمارے لئے رسد رک جائے گی۔ یہ سوچ لو کہ رومی فوج کے لئے پیچھے ہٹنے کو پورا مصر پڑا ہے مگر ہم مات کھا گئے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا نہ کہیں پناہ ملے گی۔ میں رومی فوج پر اپنے لشکر کی دہشت اور اس کا رعب برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ میں اتنا بھی تاثر نہیں دینا چاہتا کہ ہم تھک گئے ہیں اور کچھ دن سستا کر اگلا قدم اٹھائیں گے۔
کیا ہمیں کمک کی توقع رکھنی چاہیے یا نہیں۔۔۔۔ ایک سالار نے پوچھا۔
کمک آرہی ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ایسا سوچو ہی نہیں کہ کمک نہیں آئے گی کیا تم سب امیرالمومنین سے واقف نہیں وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے،،،،،
میرا ارادہ اور فیصلہ یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ کر ام دنین کو محاصرے میں لے لیں گے۔
اور اپنی پوری طاقت صرف کرکے یہ قلعہ سر کریں گے اگر ہم اللہ کی مدد سے کامیاب ہوگئے تو اس گھاٹ پر کھڑے تمام جہاز اور کشتیاں ہماری ہوگی پھر ہمیں دریائے نیل پار کرنے کی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ حالات کا اور احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ عمرو بن عاص پیش قدمی کا خطرہ مول نہ لیتے اور کمک کا انتظار کرتے لیکن وہ اللہ تعالی کی ذات باری پر بھروسہ رکھنے والے اور خطروں میں کود جانے والے سپہ سالار تھے۔ انہیں اپنے آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے فیصلوں کے خلاف کسی کی کوئی بات نہیں سنتے تھے۔
سالاروں اور عہدے داروں نے کچھ مشورے دیے عمرو بن عاص نے کچھ مشورے قبول کئے اور کچھ رد کئے اور آخر یہ پلان بنا کے فوری طور پر پیش قدمی کی جائے۔

ادھر مقوقس نے ام دنین اور بابلیون میں مزید فوج بھیج دی تھی، اس سے پہلے مقوقس اس خوش فہمی میں مبتلا رہا تھا کہ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے اور اتنی تھوڑی نفری کسی بھی قلعے کو فتح کرنے کے لیے کافی نہیں ،اس خوش فہمی کے زیر اثر اس نے یہ پھندا تیار کیا تھا کہ مسلمانوں کو اور آگے آنے دیا جائے اور پھر انہیں نرغے میں لے کر بالکل ہی نیست و نابود کردیا جائے گا۔ لیکن جو ہوا وہ اس کی توقعات کے بالکل الٹ تھا مسلمانوں نے بلبیس جیسا ہر لحاظ سے مضبوط قلعہ بھی لے لیا اور جرنیل اطربون کو مار بھی ڈالا۔
اطربون کی لاش نے اور ہرقل کے پیغام نے مقوقس کو خوش فہمیوں سے نکال دیا تھا۔
ہرقل کا بنایا ہوا اسقف آعظم قیرس بھی اس کے ساتھ مل گیا تھا ،اور قیرس نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ بنیامین کو بھی راضی کر لے آئے گا ۔ اور اب کیا سایوں کو اپنے محاذ پر لے جائے گا۔ اب مقوقس کی سوچیں بدل گئی تھیں اس نے ان دو قلعہ بند شہروں کو نا قابل تسخیر بنانے کے لئے نئی تیار کی ہوئی فوج استعمال کی، ام دنین میں بھی اس نے فوج میں اضافہ کردیا لیکن اس کی زیادہ توجہ بابلیون پر تھی اسے احساس تھا کہ بابلیون ہاتھ سے نکل گیا تو پھر مصر کو مسلمانوں سے بچانا تقریبا ناممکن ہو جائے گا۔
اس نے بابلیون میں فوج میں جو اضافہ کیا تھا وہ صرف اس شہر کے دفاع کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ مقوقس کا پلان یہ تھا کہ مسلمان جدھر بھی حملہ کریں گے وہ بابلیون سے کچھ دستے نکال کر مسلمانوں پر عقب سے حملہ کرے گا۔ سپہ سالار عمرو بن عاص کو نومسلم فاروق نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آگے دفاعی نظام کیسا ہے۔ اس نے عمروبن عاص کو بابلیون سے خبردار کر دیا تھا اس کے باوجود عمرو بن عاص اسی علاقے میں جا رہے تھے۔
عمرو بن عاص نے صرف ایک دن انتظار کیا اور وہ بھی اس لیے کہ بلبیس شہر کا نظم و نسق اور دیگر امور بحال کرنے کے انتظامات کرنے تھے ۔ اگلے ہی روز نماز فجر کے بعد انہوں نے لشکر کو پیش قدمی کا حکم دے دیا
پیش قدمی سے پہلے انہوں نے لشکر سے انتہائی مختصر خطاب کیا اس خطاب کے الفاظ کچھ مختلف ہوں گے اس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ کا حکم ہے کہ تمہارے دین کا دشمن جب بھاگ اٹھے تو اس کے تعقب میں جاؤ اور اس کا ٹھکانہ بھی تباہ کر دو مجھے احساس ہے کہ ہماری نفری بہت تھوڑی ہے لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ کمک آرہی ہے۔ مدینہ سے کمک شاید کچھ دیر سے پہنچے لیکن اللہ نے فرشتوں کی کمک تمہارے ساتھ کردی ہے۔ میں تمہیں جس خطرے میں لے جا رہا ہو وہاں تم میرے حکم سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لڑو گے، یاد رکھنا اسلام کے مجاہدوں کہ ہم یہاں پیٹ گئے تو ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی، یہاں کی زمین یہاں کے پیڑ اور پتھر اور یہاں کے ریت کے ذرے بھی تمہارے دشمن ہیں اللہ کا نام لیکر آگے بڑھو۔
مقوقس بابلیون میں آگیا تھا اسے مسلمانوں کی پیشقدمی کی اطلاعات تواتر سے مل رہی تھیں مجاہدین جب ام دنین کی طرف جا رہے تھے تو انہوں نے توجہ نہیں کی تھی کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک دو ایک مسافر آ جا رہے تھے۔ ظاہری طور پر وہ بے ضرر لوگ معلوم ہوتے تھے لیکن وہ مقوقس کے جاسوس تھے جو مجاہدین کے لشکر کو دیکھ رہے تھے کے اس کا رخ کس طرف ہے اور اس کی نفری کتنی کچھ ہے۔
مجاہدین کی نفری تو اور ہی زیادہ کم ہو گئی تھی بلبیس کی لڑائی میں مجاہدین شہید بھی ہوئے اور شدید زخمی بھی ہوئے تھے ، معمولی طور پر زخمی ہونے والے لشکر کے ساتھ جا رہے تھے ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہیں کہا گیا تھا کہ وہ ابھی لشکر کے ساتھ نہ جائیں، اور اس وقت آگے آئے جب ان کے زخم ٹھیک ہو جائیں گے لیکن انہوں نے لشکر کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ لڑنے کے قابل ہیں اور پیچھے نہیں رہیں گے۔
نفری میں مزید کمی اس لیے بھی ہوئی تھی کہ مجاہدین کی کچھ تعداد بلبیس میں رکھنی تھی شہریوں میں نظم ونسق بحال کرنے کے علاوہ کئی اور سرکاری امور تھے جن کی دیکھ بھال ضروری تھی وہاں تین ہزار قیدی بھی تھے ان پر بھی کچھ نفری مقرر کر دی گئی تھی۔
یہ واضح نہیں کہ مجاہدین کا لشکر کتنے دنوں بعد ام دنین پہنچا یہ شہر کوئی زیادہ دور بھی نہیں تھا کہ کئی دن لگ جاتے بہرحال لشکر پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔
مسلمانوں کے دو چار جاسوس پہلے ہی اس شہر میں موجود تھے لشکر ابھی شہر کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ یہ جاسوس شہر سے نکل آئے کیونکہ محاصرے کی صورت میں دروازے بند ہوجانے کی وجہ سے وہ باہر نہیں آ سکتے تھے۔ انھیں سپہ سالار کو ضروری اطلاعات کی معلومات دینی تھی ،عمرو بن عاص کو بتایا کہ شہر میں رسد اور پانی کی کمی ہے اور یہ دونوں چیزیں باہر سے اندر جاتی ہیں ۔
عمرو بن عاص کے لیے یہ اطلاع بڑی ہی اہم تھی انہوں نے رسد کے راستے بند کردیئے اور پانی بھی روک لیا۔
عمرو بن عاص کو پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ جب ام دنین کو محاصرے میں لے گے تو بابلیون سے فوج نکل کر محاصرے پر حملہ کرے گی، عمرو بن عاص کے ساتھ لشکر پہلے ہی کم تھا جو محاصرے کے لیے بھی کافی نہیں تھا ۔ لیکن اسی کم لشکر میں سے انہیں ایسا انتظام بھی کرنا تھا کہ عقب سے حملہ آئے تو اس کا مقابلہ کیا جا سکے اس طرح انہیں محاصرہ کر کے دونوں طرف نظر رکھنی پڑھی۔
تقریباً تمام مستند مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ہر وقت توقع تھی کہ مقوقس بابلیون سے کچھ دستے نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرے گا۔ لیکن وجہ معلوم نہیں ہوسکی کہ اس نے یہ کاروائی کیوں نہ کی ۔ بابلیون ام دنین کے جنوب میں چند میل دور تھا تاریخ میں صحیح فاصلہ نہیں لکھا غالبا دس اور پندرہ میل کے درمیان تھا۔
مشہور غیر مسلم مورخ ایلفریڈ بٹلر نے لکھا ہے کہ بابلیون سے مقوقس نے فوج نہیں نکالی تھی جس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس کے پیش نظر اطربون کا انجام تھا اگر اطربون نے بلبیس کے محاصرے کے دوران عقب سے جا کر مسلمانوں پر حملے کیے تھے لیکن مارا گیا، مقوقس کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کھلے میدان میں شکست نہیں دی جاسکتی اسے اپنی فوج کے مورال کا بھی اندازہ تھا۔ تاریخ میں آیا ہے کہ رومی فوج اسی پر حیران رہ گئی تھی کہ مسلمانوں نے اتنی تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی ام دنین کو آ کر محاصرے میں لے لیا ہے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

ام دنین میں جو رومی فوج تھی اس نے وہی مخصوص انداز اختیار کیا جو فرما اور بلبیس کے دفاع میں دیکھا گیا تھا وہ یہ کہ دو تین دنوں کے وقفے سے شہرر کے دو تین دروازے کھلتے رومی فوج کے کچھ دستے باہر آتے اور محاصرے پر حملہ کرتے لیکن جم کر لڑنے کی بجائے واپس چلے جاتے اور شہر کے دروازے پھر بند ہو جاتے تھے۔
عمرو بن عاص نے یہاں یہ طریقہ اختیار کیا کہ تمام لشکر سے کہا کہ جب اندر سے فوج نکلے تو آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ نہ کیا جائے، یا یہ کہ جم کر مقابلہ نہ کیا جائے ،اور زیادہ تیراندازی کی جائے دراصل عمرو بن عاص اپنی نفری کو بچانے کی کوشش میں تھے وہ بہت بڑے خطرے میں کود تو آئے تھے لیکن انہوں نے اپنا دماغ حاضر رکھا ہوا تھا اور پوری احتیاط اور جنگی تدبیر سے کام لے رہے تھے ان کا تیر اندازی والا طریقہ خاص سا کامیاب رہا اندر سے دستے باہر آتے تو تیرانداز مجاہدین پیچھے ہٹتے ہوئے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیتے اس طرح ہر بار رومی اپنے کئی ایک سوار باہر ہی پھینک کر واپس چلے جاتے تھے۔
ایسے تین چار حملے ہی اندر سے آئے ہوں گے کہ ایک عربی گھوڑسوار آیا اور اس نے عمرو بن عاص کو اطلاع دی کہ کمک کا کچھ حصہ ایک دو دنوں تک پہنچ رہا ہے عمرو بن عاص نے یہ خبر تمام لشکر کو سنا دی کا کمک آ رہی ہے۔ یہ سن کر مجاہدین کے لشکر میں نئے حوصلے اور تروتازگی کی لہر دوڑ گئی۔
معروف مصری تاریخ داں محمد حسنین ہیکل نے مختلف مؤرخوں کے حوالوں سے کمک کے متعلق جو تفصیلات لکھی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کے پوری چارہزار کی کمک اکھٹی نہیں پہنچی تھی یہ دو حصوں میں آئی تھی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کمک کے دونوں حصوں میں کچھ زیادہ ہی فاصلہ تھا دوسرا حصہ بہت دنوں بعد پہنچا تھا۔ یہ پتا نہیں چلتا کہ دونوں حصوں کی الگ الگ نفری کیا تھی ساری کم کی نفری چار ہزار تھی یہ کمک تقریبا ساری گھوڑ سوار تھی۔
دو تین دنوں بعد کمک کا پہلا حصہ پہنچ گیا شہر کی دیواروں پر کھڑے رومی فوجیوں نے جب کمک کو آتے دیکھا تو ان پر مایوسی اور مرونی چھا گئی ان پر یہ اثر ہوا کہ انھوں نے باہر نکل کر حملوں کا سلسلہ بہت ہی کم کردیا۔ ان حملوں میں وہ پہلے ہی مسلمان تیر اندازوں سے خاصہ جانی نقصان اٹھا چکے تھے اور ان کے بہت سے گھوڑے مجاہدین کے ہاتھ لگ گئے تھے۔
محاصرے کو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا محاصرے کی صورت میں اندر سے کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی کہ رسد اور پانی کی کیفیت کیا ہے ۔ یہ عمرو بن عاص کا اندازہ تھا کہ اب تک شہر میں اور فوج کے لیے رسد اور پانی کی خاصی کمی واقع ہو چکی ہو گی اور یہ رومیوں کے لئے بڑا تلخ اور پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہوگا۔
ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے کہا کہ بیک وقت قلعے پر ہلہ بول دیا جائے اور دروازے توڑنے کی کوشش کی جائے ظاہر ہے کہ ایسا خطرناک اور دلیرانہ اقدام اندھا دھن نہیں کیا جاتا تھا تیر اندازوں کو اتنے فاصلے پر جانے کو کہا گیا جہاں سے وہ دیواروں پر کھڑے رومی فوجیوں کو تیروں کی زد میں لے سکتے تھے۔ بابلیون سے فوج کے آنے کا خطرہ بھی تھا اس کی قبل از وقت اطلاع دینے کا یہ اہتمام کیا گیا کہ اپنے جاسوس بابلیون کے راستے پر بھیج دیئے گئے کہ جونہی ادھر سے دستہ آئے فوراً اطلاع دی جائے۔ اس کے علاوہ عمرو بن عاص نے تین چار چھاپہ مار ٹولیاں بھی بھیج دیں ان ٹولیوں کو گھات میں بٹھانا تھا اور اس صورت میں کے بابلیوں سے فوج آرہی ہے اس پر دائیں بائیں سے حملے کرکے نقصان پہنچانا تھا۔
ان تین چھاپہ مار ٹولیوں میں حدید، فہد ،مسعود، اور نومسلم فاروق خاص طور پر شامل تھے۔ یہ سب چھاپہ مارنے اور شب خون مارنے کا خصوصی تجربہ رکھتے تھے۔
اللہ کے نام لیواؤں کو اللہ کی مدد حاصل تھی ادھر عمرو بن عاص نے قلعے پر ہلہ بولنے کا حکم دیا ادھر شہر کے دو تین دروازے کھلے اور رومی فوج روکے ہوئے سیلاب کی طرح حملہ کرنے کو باہر نکلنے لگی، تمام فوج ایک ہی بار تو باہر نہیں نکل سکتی تھی دروازوں میں سے دو دو تین تین گھوڑے نکل رہے تھے عمرو بن عاص نے اپنی اسکیم کے مطابق پورے لشکر کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔
تاریخوں میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اس حملے میں عمرو بن عاص سب سے آگے تھے
رومی سوار جو باہر آ چکے تھے وہ شہر کی دیوار اور مجاہدین کے تیزوتند سیلاب کی طرح بڑھتے ہوئے ریلے کے درمیان کچلے گئے، اور جو رومی ابھی باہر نکل رہے تھے وہ دروازوں میں سے ہی واپس اندر جانے لگے۔ مجاہدین نے انھیں دروازے بند کرنے کی مہلت نہ دی اور ان کے پیچھے شہر میں داخل ہوگئے لیکن وہ یقینی موت کے خطرے میں چلے گئے تھے۔ کیونکہ ان کی تعداد کم تھی تمام مجاہدین اکٹھے اندر نہیں جا سکتے تھے۔
تیر اندازوں نے اپنی پوزیشنیں سنبھال لی اور دیواروں کے اوپر کھڑے رومی فوجیوں پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص خود صدر دروازے پر جا پہنچے اور کلھاڑی لے کر انہوں نے اپنے ہاتھوں دروازے پر ضرب لگائی ،کسی مجاہد نے انکے ہاتھوں سے کلہاڑا لے لیا اور مجاہدین نے دیکھتے ہی دیکھتے دروازہ توڑ ڈالا۔
اس موقع پر وہ دہشت کام آئی جو رومی فوج پر پہلے ہی طاری تھی اب مجاہدین نے جو دلیرانہ ہلّہ بولا تھا اس سے اس دہشت میں اضافہ ہو گیا ،اور شہر میں بھگدڑ مچ گئی شہریوں میں افراتفری کا باپا ہو جانا قابل فہم تھا ،فوجیوں میں بھی بھاگ نکلنے کی کیفیت پیدا ہو گی رومی فوج میں یہ پہلے ہی مشہور ہوچکا تھا کہ مسلمانوں میں کوئی ایسی پراسرار طاقت ہے کہ وہ کتنی ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں، کئی گناہ زیادہ طاقتور دشمن کو زیر کر لیتے ہیں اب یہ فوجی مسلمانوں کی بے جگری اور بے خوفی کو دیکھ رہے تھے۔
اگر رومی فوجی ہمت اور حوصلہ ہارنے کی بجائے دروازوں کے سامنے قدم جما کر کھڑے ہو جاتے تو وہ اندر آتے ہوئے مجاہدین کو دروازوں میں ہی کاٹ دیتے لیکن وہ ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھے تھے۔ عمرو بن عاص نے حکم دیا کہ کسی شہری مرد اور عورت پر ہاتھ نہیں اٹھانا اور کسی فوجی کو زندہ نہیں رہنے دینا۔ سپہ سالار نے ایسے الفاظ کہے تو نہیں تھے لیکن ان کا مطلب صاف تھا کہ وہ کوئی قیدی نہیں لیں گے سب کو ختم کر دیا جائے ۔ خاصا وقت رومیوں کا قتل عام جاری رہا۔
قلعہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا تھا ۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد کئی رومی باہر نکلے یا ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے گئے ۔ان پر عمرو بن عاص کو رحم آگیا اور حکم دیا کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے۔
عمرو بن عاص نے دیوار پر جاکر ان مجاہدین کو دیکھا جنہیں باہر اس مقصد کے لئے چھوڑ آئے تھے کہ بابلیون کی طرف سے رومی فوج آجائے تو اسے باہر ہی روک لیں,,,,,,,, باہر خیر و عافیت تھی کوئی رومی دستہ حملے کے لئے نہیں آیا تھا۔
بٹلر نے چند عربی مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ یہ حملہ خود مجاہدین کے لئے اتنا خطرناک تھا کہ اسے خودکش حملہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا خطرناک بھی ایسا کہ بعض مجاہدین آگے بڑھنے سے گھبرانے لگے ان کے انداز اور رویے میں کوتاہی اور گریز صاف نظر آرہا تھا۔ بٹلر لکھتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو مجاہدین پر جبر کرنا پڑا اور سارے لشکر میں گھوم پھر کر غصے کی حالت میں حکم دیا کے آگے بڑھو ایک مجاہد نے کہا کہ ہم لوہے کے بنے ہوئے نہیں عمرو بن عاص نے اس مجاہد کو بڑے ہی سخت الفاظ کہے۔
تاریخ داں محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسی کسی روایت کا اشارہ نہیں ملتا ہو سکتا ہے کسی اور جنگ میں ایسا ہوا ہو ،ام دنین کی لڑائی میں ایسا بالکل نہیں ہوا البتہ یہ بات ضرور ہوئی تھی کہ کچھ صحابہ کرام بھی اس لشکر میں شامل تھے عمرو بن عاص کو پوری طرح احساس تھا کہ وہ اپنے لشکر کو یقینی ہلاکت میں جھونک رہے ہیں انہوں نے صحابہ کرام سے یہ الفاظ کہے آپ میرے ساتھ ہیں تو اللہ آپ کے طفیل ہمیں فتح عطا فرمائے گا۔
صحابہ اکرام نے یہ الفاظ سنے تو وہ عمرو بن عاص کے ساتھ سب سے آگے اس ہلّے کے لئے پورے جوش و خروش سے بڑھے ۔ انہیں دیکھ کر پورے لشکر میں نیا ہی جوش پیدا ہو گیا اور یہ اسی جوش کا اثر تھا کہ ام دنین جیسا مستحکم قلعہ جس میں فوج کوئی تھوڑی نہیں تھی مٹھی بھر مجاہدین نے فتح کر لیا ۔ اس وقت مقوقس بابلیون میں تھا تاریخ حیران ہے کہ ام دنین میں اسکی فوج کا قتل عام ہو رہا تھا اور وہ بابلیون میں اتنی زیادہ فوج لے کر بیٹھا رہا حالانکہ اس کی دفاعی اسکیم یہی تھی کہ ام دنین پر حملہ ہوا تو وہ بابلیون سے فوج لے کر اس حملے کو ناکام بنا دے گا۔
ام دنین سے بھاگے ہوئے کچھ رومی بابلیون پہنچے اور انھوں نے مقوقس کو بتایا کہ امدنین میں کیا ہوا ہے؟ ،،،،،،
ایک تو امدنین پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تھا اور دوسرا صدمہ یہ کہ وہاں جو فوج تھی اس کی اکثریت کٹ مری ہے ،اور وہی فوجی بچے تھے جو کہیں چھپ گئے تھے اور اب وہ جنگی قیدی ہیں اس کا مطلب یہ تھا کہ رومی فوج کی اتنی زیادہ نفری ختم ہی ہو گئی تھی۔
تاریخ میں آیا ہے کہ جب مقوقس کو یہ اطلاع پہنچی تو اس پر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ منہ کچھ زیادہ کھل گیا اور آنکھیں ٹھہر سی گئی جیسے اسے توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان امدنین کو فتح کرلیں گے اس کا دماغ تو شاید سوچنے سے ہی معذور ہو گیا اگر وہ حوصلہ قائم رکھتا اور ٹھنڈے دل سے سوچتا تو اسکے پاس اتنی فوج تھی کہ وہ فوراً جاکر ام دنین کو محاصرے میں لے لیتا ،قلعہ فتح ہوتا یا نہ ہوتا اسے یہ فائدہ ضرور ملتا کہ مسلمان ام دنین میں ہی قید ہو کر بیٹھے رہتے۔
ام دنین سے کچھ اور فوجی اور شہری بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے بابلیون پہنچے تو انہوں نے وہاں کی فوج کو مجاہدین اسلام کی بے خوفی کی ایسی باتیں سنائیں جنہوں نے سب کو حیرت زدہ او دہشت زدہ بھی کردیا فوجی خوفزدہ تو یہ سن کر ہوئے کے مسلمانوں نے رومی فوج کا کوئی ایک بھی افسر اور سپاہی زندہ نہیں رہنے دیا تھا۔ وہاں سے بھاگ کر آنے والے بعض فوجیوں نے یہ الفاظ کہے کہ مسلمان جنوں اور بھوتوں کی طرح قلعے میں داخل ہوئے تھے انہیں انسانوں کے روپ میں دیکھ کر بھی کوئی رومی یقین سے نہیں کہتا تھا کہ یہ انسان ہے,,,,,,,,,, آج کے علمی نفسیات کی زبان میں یوں کہنا چاہیے کہ مجاہدین اسلام نے رومی فوج پر نفسیاتی فتح پائی تھی اور ایسی فتح ایمان والے اور اپنے اللہ پر یقین رکھنے والے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
مقوقس ابھی ام دنین کا صدمہ برداشت کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک جاسوس نے یہ خبر سنائی کے مسلمان دریائے نیل پارکر کے اہرام کے علاقے میں سے آگے کو گزر گئے ہیں,,,,,,,,,, یہ سارا علاقہ لق و دق صحرا تھا ۔ مقوقس کو پہلی حیرت تو اس پر ہوئی کہ ان مسلمانوں نے دریا کس طرح عبور کرلیا ہے پھر وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ یہ جا کہاں رہے ہیں ؟
تاریخی تحریروں کے مطابق اس وقت مقوقس کے ساتھ اطربون کے بعد نامور جرنیل تھیوڈور تھا ویسے بھی یہ جرنیل مقوقس کا منظور نظر تھا۔ یہ دونوں اس مسئلہ پر بات کرنے لگے کہ مسلمانوں کا اگلا ہدف کیا ہے۔
کیا مسلمان اسکندریہ پر حملہ کرنے جارہے ہیں دونوں نے اس سوال پر بحث مباحثہ کیا اور اس رائے پر متفق ہوئے کہ مسلمانوں کا یہ سپہ سالار ایسی خطرناک حماقت نہیں کرے گا۔ اس وقت تک مقوقس اور تھیوڈور عمرو بن عاص کے لڑنے کا انداز اور ان کی جنگی پالیسیوں اور چالوں کو سمجھ گئے تھے۔ انھوں نے اسی وقت جاسوس دوڑا دیے کہ وہ جا کر دیکھیں کہ مسلمانوں کا رخ کس طرف ہے۔
جلد ہی پتہ چل گیا کہ مسلمانوں کا رخ فیوم کی طرف ہے حقیقت بھی یہی تھی کہ عمرو بن عاص کا اگلا ہدف فیوم تھا ۔ فیوم ایک بڑی بستی بھی تھی اور اس علاقے کو فیوم ہی کہتے تھے وہ تھا تو صحرا لیکن اناج اور مویشیوں کی وہاں کوئی کمی نہیں تھی۔
عمرو بن عاص کو اپنے لشکر کے لیے رسد اور گوشت کی ضرورت تھی۔
مسلمانوں کا نیل کو عبور کر جانا مقوقس کے لیے باعث حیرت تھا یہ مسلمانوں کی مستعدی اور چابکدستی کی ایک واضح مثال تھی انہوں نے فتح کیا تو دو یا تین دن شہر کا نظام بحال کرنے میں گزار اور لشکر کو ذرا سا بھی سستانے نہ دیا ۔ ام دنین ایک دریائی گھاٹ تھی جسے بعض نے پتن لکھا ہے ،اور بعض مؤرخوں نے بندرگاہ کہا ہے۔
اس بندرگاہ پر بہت سے چھوٹے اور درمیانہ درجہ بادبانی جہاز کھڑے تھے اور چھوٹی بڑی کشتیوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ ام دنین کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی جب عمرو بن عاص نے مجاھدین کا ایک چھوٹا سا دستہ بندرگاہ پر بھیج دیا تھا کہ وہاں سے کوئی جہاز اور کوئی کشتی نکل نہ جائے ،اور ان کے ملاح وہاں موجود رہیں۔ اس طرح انہوں نے کشتیوں اور جہازوں کے پورے بیڑے پر قبضہ کر لیا تھا۔
دو ہی دنوں بعد لشکر کو آرام کی مہلت دیئے بغیر عمرو بن عاص نے مکمل خاموشی سے رات کے وقت کشتیوں اور جہازوں میں سوار کیا اور نیل پار کر لیا جہاز اور کشتیاں اسی کنارے پر لنگر انداز رہیں ۔ ادھر جاسوسوں نے مقوقس کو صحیح خبر دے دی کہ مسلمان فیوم کے علاقے میں جا رہے ہیں۔
مقوقس نے یہ دفاعی انتظام کیا کہ کچھ دستے اس علاقے میں بھیج دیے وہ صحرا ہموار یا میدانی قسم کا نہیں تھا اس میں گہرے اور وسیع نشیب بھی تھے ۔ٹیلے اور گھاٹیاں بھی تھیں اور اس طرح چھپنے کا بہترین قدرتی انتظام تھا کہ چھاپہ مار بڑی آسانی سے گھات لگا سکتے تھے۔
مقوقس نے اپنے دستے بھیج تو دیے لیکن انہیں سختی سے کہا کہ مسلمانوں کے آمنے سامنے صحرا میں نہ آنا، کیوں کے صحرا کی لڑائی میں مسلمانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی ۔ مقوقس کے الفاظ یہ تھے کہ عرب کے مسلمان ریگستان کی پیداوار ہیں اور جہاں کہیں یہ کسی ریگستان میں چلے جاتے ہیں وہاں ان کی جسمانی اور روحانی قوت پوری طرح بیدار ہوجاتی ہیں۔

مجاہدین کے لشکر کے ساتھ مصری بدو بھی تھے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ جب مجاہدین کے لشکر میں آئے تھے تو ان سے یہ کام لیا گیا تھا کہ بستیوں کی طرف چلے جائیں اور چھاپے اور شب خون مارکر اناج اور مویشی اکٹھا کریں اور وہ لشکر کے لئے لائیں۔
ان بدو نے بڑی خوش اسلوبی اور بڑی کامیابی سے یہ کام کیا تھا انہوں نے لشکر کے لئے اور اپنے لیے خوراک کی کوئی کمی نہیں رہنے دی تھی اس کے بعد انہوں نے لڑنے کے علاوہ اپنا یہ فرض کئی بار ادا کیا اور لشکر کی ضرورت پوری کرتے رہے۔
عمرو بن عاص جب فیوم کے علاقے میں گئے اس وقت بھی لشکر کو رسد کی ضرورت تھی بدو اس کام میں مہارت حاصل کر چکے تھے اس لئے سپہ سالار نے یہ کام انہی کو سونپا،،،،، بدو ٹولیوں میں بٹ کر صحرائی بستیوں کی طرف چلے گئے یہ بستیاں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور وہاں جا کر صحرا ختم ہو جاتا تھا اور زمین زرخیز تھی وہاں گھروں میں اناج بھی تھا اور بھیڑ بکریاں اور مویشی بھی افراط سے تھے۔
بدو اب بستیوں پر چھاپے یا شبخون نہیں مارتے تھے۔ لیکن پہلے کی طرح نہیں بلکہ اب کوشش کرتے تھے کہ ان کے ہاتھوں کوئی قتل یا زخمی نہ ہو وہاں جاکر اعلان کردیتے کہ لشکر کے لئے اناج اور مویشیوں کی ضرورت ہے اگر لوگ خود ہی یہ چیزیں مہیا نہیں کریں گے تو گھر گھر کی تلاشی لے کر آخری دانہ بھی اٹھا لیا جائے گا اور کوئی ایک بھی مویشی پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔
بدو ان لوگوں کو یقین بھی دلاتے تھے کہ یہ مسلمانوں کا لشکر ہے جس اسے فتح حاصل ہوگی اور مصر کی حکومت انکے ہاتھ آگئی تو وہ ان دیہاتوں کی کایا پلٹ دیں گے ہر کسی کو پورے حقوق ملیں گے اور یہ مسلمان رومی بادشاہوں کی طرح بادشاہ نہیں کسی کا حق چھینتے نہیں بدو یہ بھی کہتے تھے کہ مسلمان ایک ایک دانے اور ایک ایک جانور کی قیمت ادا کریں گے۔
دیکھتے ہی دیکھتے بدؤوں نے اناج اور دیگر اشیائے خوردنی کے انبار لگا دیے اور بھیڑ بکریاں اور مویشی اس قدر اکٹھے کر لیے جو بہت دنوں کے لئے کافی تھے۔
ان بدوؤں سے ایک فائدہ تو یہ پہنچا کہ وہ خوراک اکٹھی کرنے کے ماہر ہو گئے تھے اور پھر لڑتے بھی تھے اب انہیں باقاعدہ ترتیب اور تنظیم میں لڑنا آگیا تھا فیوم کے علاقے میں جاکر ان بدوؤں سے ایک فائدہ اور حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ جس علاقے سے یہ بدو خوراک اور مویشی لا رہے تھے اس علاقے میں بھی انہی جیسے مصری بدبو بھی رہتے تھے کیونکہ یہ ایک ہی نسل کے تھے اس لئے یہ ایک دوسرے کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے تھے۔
بدوؤں کی ایک چھاپہ مار ٹولی کسی بستی میں گئی تو وہاں کچھ بدو رہتے تھے انہوں نے ان بدوؤں سے پوچھا کہ وہ کیوں یہ ڈاکہ زنی کررہے ہیں لشکر والے بدو نے انہیں تفصیل سے بتایا کہ وہ ڈاکو نہیں بلکہ عرب کے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور یہ مسلمان مصر کو فتح کرلیں گے۔
چونکہ تم بھی ہم جیسے بدو ہو اس لئے ہم تمہیں خبردار کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
فیوم کے بدوؤں کے ایک آدمی نے انہیں کہا۔۔۔۔ اس بستی میں تو تم آگئے ہو اس سے آگے نہ جانا آگے رومی فوج آگئی ہے جس کی تعداد کچھ زیادہ ہے تمہاری یہ چند آدمی کی ٹولی ایک ہی ہلّے میں رگڑیں جائے گی۔
عمرو بن عاص کے لشکر کے بدو نے ان بدوؤں سے پوری تفصیل معلوم کرلی کہ رومی فوج یہاں سے کتنی دور ہے اور وہ آگے بڑھ رہی ہے یا اس کا انداز کیا ہے،،،،، یہ معلومات لے کر ان بدو نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا۔
عمرو بن عاص رومی فوج کی آمد سے بالکل ہی بے خبر تھے اس علاقے میں انھوں نے اپنا کوئی ایک بھی جاسوس نہیں بھیجا تھا کیوں کہ انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ رومی فوج اس طرف آئے گی اب انہیں فوج کی اطلاع ملی تو انہوں نے لشکر کو وہیں سے واپسی کا حکم دے دیا وہ اس رومی فوج سے ٹکر لینا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ بے مقصد لڑائی ہوتی یہی طاقت عمرو بن عاص کسی قلعہ بند شہر پر استعمال کرنا زیادہ بہتر اور سودمند سمجھتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ مجاہدین کا لشکر ایک جگہ عارضی پڑاؤ کیے ہوئے تھا جو ضروری سمجھا گیا ۔
دو تین بدو اس پڑاؤ کے قریب سے گزرے انہوں نے مجاہدین کے لشکر کے ساتھ بدو دیکھے تو وہ بھی رک گئے لشکر والے بدو انہیں مہمان کے طور پر پڑاؤ میں لے آئے اور ان کے کچھ خاطر مدارت کی۔
ان بدوؤں نے بھی پوچھا کہ یہ لشکر کس کا ہے اور وہ یعنی بدو اس کے ساتھ کیوں ہیں؟ لشکر والوں نے انہیں وہیں تفصیل سنا دی جو وہ پہلے ایک بستی میں بدوؤں کو سنا چکے تھے.
ایک بار غور سے سن لو ۔۔۔۔ایک بدو مہمان نے کہا۔۔۔۔ رومی فوج کا ایک زیادہ نفری والا دستہ تمہاری طرف آرہا ہے ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ سیدھا نہیں آ رہا بلکہ صحرا کی گہرائیوں میں چھپتا چھپاتا اور لمبے چوڑے ٹیلوں کی اوٹ سے پیچھے پیچھے آرہا ہے تاکہ تمہارے لشکر پر بے خبری میں حملہ کر سکے۔
لشکر کے بدبو ان بدو مہمانوں کو ایک سالار کے پاس لے گئے جس نے ان بدوؤں سے رومی فوج کے اس دستے کے متعلق تفصیلات معلوم کی انہوں نے یہاں تک بتا دیا کہ اس دستے کے ساتھ ایک جرنیل ہے جس کا نام حناّ ہے اور وہ علاقے کا مشہور جرنیل ہے اور لوگ اس سے بہت ڈرتے ہیں۔
سالار نے یہ اطلاع پوری تفصیل سے سپہ سالار عمرو بن عاص تک پہنچائی، عمرو بن عاص اسی وقت لشکر کو واپسی کے لئے کوچ کا حکم دیا لیکن لشکر کا ایک دستہ الگ کر لیا اسے ایک سالار کی قیادت میں دے کر کچھ خصوصی ہدایات دی، باقی لشکر واپسی کو روانہ ہوگیا اور یہ الگ کیا ہوا دستہ اس طرف چلا گیا جس طرف بدوؤں نے بتایا تھا کہ رومی دستہ چھپ چھپ کر آرہا ہے۔
اس مسلمان دستے نے ایک خاص چھپنے والی جگہ جاکر گھات لگائی سارا دستہ ایک ہی جگہ اکٹھا نہ رہا بلکہ تین چار حصوں میں بٹ کر ٹیلوں اور گہری نشیبوں میں چھپ گیا ۔
رومی دستہ جس کی نفری مسلمانوں کے دستے سے دگنی تھی اس طرف آ رہا تھا اور اس سے بے خبر کہ وہ ایک گھات میں آ رہا ہے۔
سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے رومی دستی گھات میں آ گیا اور اس پر ہر طرف سے قیامت ٹوٹ پڑی پیشتر اس کے کہ رومی جرنیل حناّ سمجھ پاتا کہ یہ کیا ہوا ہے وہ مارا جاچکا تھا اس کے دستے کا کوئی ایک بھی فرد مجاہدین نے زندہ نہ چھوڑا وہ جو مجاہدین پر بے خبری میں شب خون مارنا چاہتے تھے مجاہدین کی گھات میں آکر مارے گئے اور فرعون کے صحرا کی ریت ان کا خون چوسنے لگی۔

کسی قریبی بستی کے مکینوں نے بابلیون جاکر مقوقس کو اطلاع دی کہ اس کا بھیجا ہوا دستہ مارا گیا ہے اور جرنیل حنّا بھی زندہ نہیں رہا ۔مقوقس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اور اسے معلوم تھا کہ ہرقل حنّا کی موت کو مشکل سے ہی برداشت کرے گا۔ کیونکہ حنّا بھی اطربون جیسا ہی قابل اور تجربہ کار جرنیل تھا ۔
مقبو قیس کو یہ بھی معلوم تھا کہ جب ہرقل کو بزنطیہ حنّا کی موت کی اطلاع ملی تو وہ پہلا سوال یہ کرے گا کہ اس کے جواب میں کیا کارروائی کی گئی تھی۔
ہرقل کے عتاب سے بچنے کے لیے مقوقس نے مجاہدین کے لشکر پر جوابی حملہ کرنے کے لئے اچھی خاصی فوج بھیج دی، فوج جب اس مقام تک پہنچی جہاں حنّا اور اس کا دستہ مارا گیا تھا تو دیکھا کہ مسلمانوں کا لشکر دور نکل گیا تھا اور نیل کے کنارے پر جا پہنچا تھا۔
تاریخ میں اس رومی جرنیل کا نام نہیں ملتا جو اس رومی فوج کا کمانڈر تھا اس نے دیکھا کہ مسلمان دور نکل گئے ہیں تو وہ اپنی فوج کو وہیں سے واپس لے گیا۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ رومی مسلمانوں سے صحرا میں لڑنے سے ڈرتے تھے ان کے سامنے شام کا تجربہ تھا یہ جرنیل اسی ڈر سے اپنی فوج واپس لے گیا تھا لیکن مقوقس کو یہ جواز پیش کیا کہ مسلمان اسے دیکھتے ہی بھاگ اٹھے تھے اور نیل تک جاپہنچے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ حقیقت یہ تھی کہ یہ جرنیل اور باقی فوجی بھی بہت خوش تھے کہ صحرا میں مسلمانوں سے ٹکر نہ ہوئی اور وہ زندہ واپس آ گئے ہیں۔
مستند مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اصل واقعہ یہ تھا کہ عمرو بن عاص وہاں لڑنا ہی نہیں چاہتے تھے اور ذرا سا بھی وقت ضائع کئے بغیر نیل کے مشرقی کنارے پر ام دنین تک جا پہنچنے کی فکر میں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ایک قاصد نے انھیں صحرا میں آ کر اطلاع دی تھی کہ کمک کا باقی حصہ بھی پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ کم ام دنین نہیں پہنچی بلکہ ایک اور مقام ہیلو بولیس کے مقام پر خیمہ زن ہو گئی ہے۔
عمرو بن عاص یہ سوچ کر بڑی تیزی سے کمک تک پہنچنے کی کوشش میں تھے کہ ایسا نہ ہو کے کمک ان کے پیچھے فیوم کے علاقے تک پہنچنے کے لئے دریا عبور کرنے کی کوشش کرے۔ اور مقوقس بابلیون سے فوج بھیج کر اس پر حملہ کر دے مقوقس کی کوشش یہی ہونی چاہیے تھی کہ کمک لشکر تک نہ پہنچ سکے عمرو بن عاص دور اندیش اور باریک بین سپہ سالار تھے پیشتر اس کے کہ کمک ان کی طرف روانہ ہوتی وہ کمک تک پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ رومی کمک پر حملہ کردیتے تو صورتحال بڑی ہیں مخدوش ہو جاتی۔
بحری جہاز اور کشتیاں نیل کے مغربی کنارے پر موجود تھی عمرو بن عاص نے لشکر کو ان پر سوار کیا اور پورا لشکر خیر و عافیت سے دریا پار کر گیا عمرو بن عاص ام دنین جانے کی بجائے ہیلو بولیس جا پہنچے اور کمک سے مل گئے، اس کے سپہ سالار زبیر بن عوّام رضی اللہ تعالی عنہ تھے جن کا تفصیلی ذکر پہلے آچکا ہے۔
وہ مؤرخین جو جنگی امور کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے اپنی تحریروں میں حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ مقوقس نے بابلیون میں اتنی زیادہ فوج رکھی ہوئی تھی لیکن نہایت اچھے موقعے ملنے کے باوجود اس فوج کو استعمال نہ کیا معروف غیر مسلم تاریخ داں ایلفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے دو مرتبہ نیل عبور کیا ایک بار ام دنین سی فیوم کی طرف گئے، اور دوسری بار اس طرف سے واپس مشرقی کنارے پر آئے، یہ موقع تھا کہ مقوقس انہیں دریا میں اس لشکر پر حملہ کر دیتا اس کی فوج دریا کے دونوں کناروں پر کھڑی ہو کر تیر اور برچھیاں پھینکتی تو مسلمانوں کے لشکر کے لئے بڑی ہی مہلک مشکل پیدا ہوجاتی۔
بٹلر نے آگے چل کر لکھا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر دریا پار کرکے فیوم کے صحرا میں چلا گیا تھا اس وقت ام دنین میں مسلمانوں کی نفری بہت ہی تھوڑی تھی ۔ مقوقس اس وقت ام دنین کو محاصرے میں لے کر ہلہ بول دیتا تو وہ ام دنین پر دوبارہ قبضہ کرسکتا تھا۔
بٹلر نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی کمک آئی اور بابلیون میں اس کی خبر تک نہ پہنچی۔ خبر ضرور پہنچی ہوگی لیکن مقوقس اور جرنیل تھیوڈور نے کمک پر حملہ نہ کیا اور یہ موقع ضائع کردیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ رومی فوج بابلیون شہر کی دیواروں کے اندر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی اور وہیں دبکی رہنا چاہتی تھی ، جب کہ مسلمانوں کے حوصلے اور زیادہ بڑھ گئے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کمک تک پہنچے وہاں قدیم عمارات کے کھنڈر تھے ۔عمرو بن عاص نے وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ سے مل کر اگلے اقدام کے متعلق سوچنے لگے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ ہرقل کو جب اطلاع پہنچی کہ اس کا منظور نظر جرنیل حنّا مارا گیا ہے تو اسے اتنا صدمہ ہوا کہ اس کے آنسو پھوٹ پڑے اس نے حکم بھیجا کہ حنّا کی لاش اس کے پاس بزنطیہ بھیجی جائے۔ یہ حکم مقوقس تک پہنچا تو اس نے تابوت سے لاش نکلوا کر اسے حنوط کیا اور بزنطیہ روانہ کردی۔
ہرقل نے جب حنّا کی لاش دیکھی تو اس نے بلند اور غصیلی آواز میں عہد کیا کہ میں مصر کو مسلمانوں سے بچانے کے لئے اپنی تمام تر جنگی طاقت استعمال کروں گا اور مسلمانوں کو نیست و نابود کر کے دم لونگا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

ہیلو بولیس کے جن کھنڈرات میں عمرو بن عاص مدینہ سے آئے ہوۓ کمک سے جا ملے تھے وہ کھنڈرات کا ہی شہر تھا کوئی ایک بھی مقام صحیح و سلامت کھڑا نظر نہیں آتا تھا وہاں صحرائی لومڑیوں سانپ بچھوؤں اور چمگادڑوں کا بسیرا تھا۔ کھنڈرات بتاتے تھے کہ یہ عالیشان عمارتوں اور پرسکوں مکانوں کا شہر ہوا کرتا تھا ۔ اس شہر کا شمار مصر کے چند ایک عظیم شہروں میں ہوتا تھا۔
ہیلو بولیس یونانی لفظ ہے اس شہر کا یہ نام کسی قدیم دور میں یونانیوں نے رکھا تھا۔ اس کے بعد مصر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بادشاہ کی جھولی میں گرتا چلا آیا اور ان فاتحین میں سے کسی نے ہیلو پولیس کا نام عین الشمس رکھ دیا جو آگے چل کر عین شمس بن گیا ۔اب اس شہر میں کوئی آبادی نہیں تھی صدیوں بعد جن انسانوں نے ان ہیبت ناک کھنڈرات میں جا ڈیرے ڈالے وہ عرب کے مجاہدین تھے۔ اور ان کے ساتھ مصری بدو تھے انھیں بھی وہاں عارضی قیام کرنا تھا ۔
پہلی رات جب لشکر گہری نیند سویا ہوا تھا تو گستی پہرے پر پھرنے والے ایک مجاہد نے ایک کھنڈر سے ہلکی ہلکی روشنی آتی دیکھی۔ اسے معلوم تھا کہ اپنا کوئی مجاہد اندر نہیں ہوگا ،ہوتا بھی تو آدھی رات کے وقت روشنی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
جنگ کے دوران سب سے زیادہ خطرہ دشمن کے جاسوسوں کا ہوتا تھا جاسوس ان کسانوں کے روپ میں اور کچھ اپاہیج فقیروں کے روپ میں بھی لشکر کے کیمپ میں آ جاتے اور جو دیکھنا ہوتا وہ دیکھ لیا کرتے تھے، اسی شک کی بنا پر اس مجاہد نے اندر جا کر دیکھنا ضروری سمجھا۔
صحرا کی شفّاف چاندنی میں کھنڈر کچھ زیادہ ہی ہے ہیبت ناک لگ رہا تھا مجاہد سنتری نے ہر طرف گھوم پھر کر اندر جانے کا ایک راستہ دیکھ لیا یہ غلام گردش سی تھی جو اوپر سے ڈھکی ہوئی تھی اس لئے اندر تاریکی تھی۔ مجاہد آہستہ آہستہ اندر گیا تو اسے محسوس ہونے لگا جیسے چھت میں کوئی انسان بیٹھے بیٹھے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے ہو، یہ بد روحیں ہو سکتی تھیں، ایک خوف سا تھا جو مجاہد کے دل پر چھا گیا لیکن مجاہدین اسلام کی فتح مندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ خوف پر چھا جایا کرتے تھے۔ وہ آگے بڑھتا گیا اس کی رہنمائی بڑی ہی مدھم سی روشنی کر رہی تھی جو اندر سے آرہی تھی۔
کسی ایسی چیز سے مجاہد کو ٹھوکر لگی کہ اچانک تیز ہوا آندھی سی آ گئی اتنی بلند اور ہیبت ناک پھڑپھڑاہٹ سنائی دی کہ مجاہد دیوار کے ساتھ لگا اب وہ خوف پر قابو نہ پا سکا یہ آندھیاں طوفان نہیں ہوسکتا تھا یہ یقینا بدروحیں تھی جنہوں نے یہ دھماکہ خیر طوفانی آوازیں پیدا کی تھیں مجاہد نے ہوا کے جھونکے بھی محسوس کیے اس نے باہر کی طرف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ یہ تو بڑے پروں والے چمگادڑ ہیں جو چھت اور دیواروں کے ساتھ چپکے ہوئے تھے اور یہ ان کا مسکن ہے۔ ان کے پروں نے اتنی ہوا دی کے مجاہد اسے طوفانی ہوا کے تھپیڑے سمجھتا رہا۔
وہ اٹھا اور جھکا جھکا آگے بڑھا اس نے اندر کی روشنی کا بھید معلوم کرنے کو اپنا فرض سمجھ لیا تھا۔ ایک جگہ سے چھت گری ہوئی تھی اور وہاں سے چاندنی کی کرنیں اندر آرہی تھی لیکن اور آگے سے جو روشنی آرہی تھی وہ چاندنی کی سفیدی میں گڈمڈ نہیں ہوسکتی تھی ۔ مجاہد گری چھت کے ملبے پر چڑھا اور جب آگے گیا تو ایک دروازہ نظر آیا جس کے کواڑ نہیں تھے۔ مجاہد اس دروازے میں داخل ہوا تو یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جس کی دیواریں بتا رہی تھی کہ یہ کبھی شاہانہ عمارت ہوا کرتی تھی اور یہاں کسی بادشاہ نے عمر گزاری ہے۔
کمرہ زرد پیلی روشنی میں ٹھیک طرح نظر آ رہا تھا ایک کونے میں کوئی شخص ہاتھ جوڑے بیٹھا کچھ بڑبڑا رہا تھا اس کے سامنے چھوٹی سی مشعل جل رہی تھی اس کے قریب کچھ سامان جو روزمرہ کی زندگی کے لیئے ضروری تھا پڑا تھا۔ اس شخص کے کپڑے میلے سے رنگ کے تھے ۔اور وہ سر سے ننگا تھا اس کے دودھ جیسے سفید بال کندھوں پر آ گئے تھے ۔اور سر کی چوٹی پر کوئی بال نہیں تھا چوٹی ہتھیلی کی طرح صاف تھی۔ مجاہد دبے پاؤں چلتا اس کے قریب جا پہنچا۔ اس شخص نے آہستہ آہستہ سر مجاہد کی طرف گھمایا اور سر سے اشارہ کیا کہ وہ بیٹھ جائے۔
مجھے معلوم تھا تم آؤ گے۔۔۔ اس بوڑھے نے بڑھاپے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میں عرب کے ان مہمانوں کے انتظار میں تھا تم آ گئے تمہیں آنا ہی تھا۔
پہلے یہ بتا میرے بزرگ محترم!،،،، مجاہد نے پوچھا ۔۔۔کیا تو زندہ ہے یا جو اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں ان میں سے کسی کی روح ہے ؟ میں تجھے بدروح نہیں روح کہہ رہا ہوں اور وہ پاک ہوتی ہے اور تیرا چہرہ بتا رہا ہے کہ تیرا وجود بدی سے پاک ہے۔
ابھی زندہ ہوں ۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ بڑی مدت بعد میری زبان حرکت میں آئی ہے میں کسی سے نہیں بولتا کوئی میرے ساتھ بات نہیں کرتا۔
کیا یہاں کوئی اور آیا کرتا ہے ؟،،،،،مجاہد نے پوچھا۔
ہاں!،،،،، بوڑھے نے رعشہ گیر آواز میں جواب دیا ۔۔۔۔یہاں سے تھوڑی تھوڑی دور دو گاؤں ہیں وہاں سے تیسرے چوتھے روز ایک دو آدمی آتے ہیں اور کچھ کھانے پینے کے لئے دئے جاتے ہیں۔
اے بزرگ!،،،،،، مجاھد نے کہا۔۔۔۔ تو ان کے پاس ہی کیوں نہیں چلا جاتا یہاں اکیلے پڑا کیا کر رہا ہے؟
عبادت !،،،،،،بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ خاک و خون کی دنیا سے تعلق توڑ کر یہاں بیٹھا ہوں بہت آئے سب رخصت ہو گئے اب تیرا لشکر آیا ہے ۔
کیا میرا لشکر بھی رخصت ہو جائے گا ؟،،،،مجاہد نے پوچھا۔
نہیں !،،،،بوڑھے نے کہا۔۔۔۔ تیرا لشکر رخصت ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ انہیں رخصت کرنے کے لئے آیا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو انسانوں کا بادشاہ سمجھ لیا تھا فرعون خدا بن گئے تھے، کہاں ہیں وہ سب رخصت ہو گئے۔
کمرے میں ہلکی ہلکی چڑ چڑ اور دھیمی دھیمی پھڑپھڑاہٹ سنائی دینے لگی مجاہد نے اوپر اور ہر طرف دیکھا چمگادڑ واپس آکر چھتوں میں بیٹھ رہے تھے ۔کچھ آواز غلام گردش سے بھی آ رہی تھی فضا بڑی ہی پراسرار تھی اور بار بار یہی خیال آتا تھا کہ یہاں مرے ہوئے لوگوں کی روحیں رہتی ہیں۔ مجاہد سفید ریش ضعیف العمر سے کوئی اور بات کرنی ہی والا تھا کہ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور خوف کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی وہ اس لئے کہ اسے سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک سیاہ کالا سانپ رینگتا نظر آیا جس کا رخ ان کی طرف نہیں بلکہ دوسری طرف تھا۔
وہ دیکھو سانپ ۔۔۔ مجاہد نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
میں ہر روز دیکھتا ہوں۔۔۔ بوڑھے نے لاتعلق سے لہجے میں کہا۔۔۔ ہم اکٹھے رہتے ہیں سانپ صرف اس انسان کو ڈستا ہے جو انسان خود سانہ بن جاتا ہے۔ یہاں ایک ہی نہیں تین چار سانپ رہتے ہیں میں نے ان پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میں انسان ہوں اور انسان کسی کو ڈسا نہیں کرتے۔ ہر انسان اپنے وجود میں سانپ کا زہر لیے پھرتا ہے۔ پیار کر پیار ملے گا۔ اب بتا تیرے لشکر کا سردار کہاں ہے؟
کیا تو اسے ملنا چاہے گا؟،،،،، مجاہد نے پوچھا اور کچھ سوچ کر کہا۔۔۔ تجھے اس سے ملنا ہی ہوگا ہمارے لشکر کا سردار نہیں سپہ سالار ہوتا ہے میرا یہ فرض ہے کہ میں تجھے اپنے سپہ سالار کے پاس لے جاؤں ، ہمارا لشکر یہاں قیام کیے ہوئے ہے ہم کسی پر شک تو نہیں کیا کرتے لیکن شک رفع کر لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ میں تجھ جیسے بزرگ پر بھی شک نہیں کروں گا لیکن بظاہر بے ضرر اور بے کار سے آدمی دراصل دشمن کی آنکھ اور کان ہوا کرتی ہیں کیا تو میرے سپہ سالار کے پاس جائے گا؟،،،
میری ایک بات سمجھنے کی کوشش کر بیٹا!،،،، بوڑھے نے کہا ۔۔۔اگر تیرا سپہ سالار فرعون جیسا ہے یا فارس کے آتش پرست بادشاہوں جیسا ہے یا رومی ہرقل جیسا بادشاہ ہے تو وہ تجھے حکم دے گا کہ اس بوڑھے کو گھسیٹ کر پیش کرو ،وہ یہاں ہمارے درمیان بیٹھا کیا کر رہا ہے۔ اور اگر وہ اس جیسا سردار ہے جس کا مجھے ایک صدی سے انتظار ہے تو جا اسے بتا اور وہ خود میرے پاس آئے گا یا اسے بتا کہ وہ تیرے ہی انتظار میں بیٹھا ہے۔
بوڑھے کی اس بات سے اور یہ بات کہنے کے انداز سے مجاہد کچھ ایسا مرعوب ہوا کہ اس کے دل میں تقدس سا پیدا ہو گیا۔ اسے شک پھر بھی رہا۔ لیکن اس کا تقدس اس شک پر حاوی ہوگیا ۔ وہ اٹھا اور باہر کو چل پڑا۔

مجاہد جب باہر شفّاف چاندنی میں نکلا تو اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ روحوں کے دیس میں چلا گیا تھا۔ اس ہیبت ناک کھنڈر کا اس پر جو خوف طاری ہوا تھا وہ کھنڈر کے اندر ہی نکل گیا تھا اس نے یہ بھی محسوس کیا جیسے یہ سفید ریش جھریوں بھرے چہرے والا بزرگ اس دنیا کا زندہ انسان نہیں، کیونکہ وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے اندر گیا تھا اس لئے اس نے اس شک کو فراموش نہ کیا کہ اس بوڑھے کے پاس گاؤں کے جو آدمی آتے ہیں ان میں کوئی جاسوس ہوسکتا ہے ۔ بہرحال اس نے اپنی گشت کا وقت پورا کیا اور اپنے کماندار کو جگا کر بتایا کہ اس کھنڈر میں ایک بوڑھا آدمی رہتا ہے اور اس کے پاس گاؤں کے کچھ لوگ آتے ہیں۔ مجاہد نے کماندار کو بوڑھے کی کچھ باتیں بھی سنائی۔
فجر کی نماز کا وقت ہو گیا کھنڈرات کے اس شہر میں اذان کی مقدس آواز اٹھی اور کھنڈروں میں سے صدائے بازگشت سنائی دینے لگی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اللہ کی آواز کھنڈروں میں سے گھوم پھر کر روحوں کو بھی بیدار کر رہی ہوں اور مصر کے اس صحرا میں پھیلتی جا رہی ہو۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے امامت کے فرائض ادا کئے نماز کے بعد کماندار نے اپنے دستے کے سالار کو رات کے مجاہد کی رپورٹ سنائی اور سالار نے عمرو بن عاص تک یہ بات پہنچا دی۔
اتنی دور پردیس میں ذرا ذرا سا شک بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عمرو بن عاص نے رات کی ڈیوٹی والے مجاہد کو طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ پوری بات سنائے۔
مجاہد نے بوڑھے کا ایک ایک لفظ اپنے سپہ سالار عمرو بن عاص کو سنایا اور اس وقت اس کے جو اپنے تاثرات تھے وہ بھی بیان کیے۔
عمرو بن عاص نے جب بوڑھے کہ یہ الفاظ سنے کے تیرہ سردار فرعون ہرقل جیسا بادشاہ نہ ہوا تو وہ خود میرے پاس آئے گا۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ میں ابھی اس کے پاس چلوں گا۔
مجھے وہاں لے چل ۔۔۔۔عمرو بن عاص نے رات والے مجاہد سے کہا ۔۔۔اور سالار سے کہا۔۔۔ اس بوڑھے کے لئے کچھ کھانے کا سامان ساتھ لے چلو۔
کچھ ہی دیر بعد عمرو بن عاص کمک کے سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجاہد کی رہنمائی میں اس کھنڈر میں داخل ہورہے تھے جس میں وہ بوڑھا بیٹھا عبادت کر رہا تھا۔ ان کے پیچھے دو مجاہد بوڑھے کے لئے دودھ اور کھانے کی کچھ اشیاء اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ جب سپہ سالار بوڑھے کے کمرے میں داخل ہوئے اس وقت بوڑھا لاٹھی کے سہارے کمرے میں یوں ٹہل رہا تھا کہ بڑی مشکل سے پاؤں گھسیٹتا اور آگے رکھتا تھا ۔ صبح کا اجالا دو بے کواڑ کھڑکیوں میں سے اندر آ رہا تھا لیکن چھوٹی سی مشعل پھر بھی چل رہی تھی ۔ بوڑھا اس پارٹی کو دیکھ کر رک گیا۔
تجھ پر اللہ کی سلامتی ہو ۔۔۔عمرو بن عاص نے بوڑھے سے کہا۔۔۔ تو نہ کہتا تو بھی میں تیرے پاس آ جاتا۔
تو بادشاہ معلوم نہیں ہوتا۔۔۔ بوڑھے نے روک کر کہا۔۔۔ مصری کی مٹی تیرے قدموں کی منتظر تھی آجا میرے پاس اس زمین پر بیٹھ جا۔۔۔۔بوڑھا قدم گھسیٹا وہاں تک جا پہنچا جہاں وہ رات بیٹھا ہوا تھا اس نے اپنے پاس زمین پر ہاتھ مارا جو عمرو بن عاص کے لیے اشارہ تھا کہ یہاں بیٹھ جاؤ ۔
عمرو بن عاص نے اشارہ کیا تو مجاہدین آگے بڑھے اور دودھ اور کھانے پینے کی چیزیں بوڑھے کے آگے رکھ دی، پھر عمرو بن عاص، اور زبیر بن العوام اس کے پاس بیٹھ گئے، مجاہدین پیچھے ہٹ کر کچھ دور جا بیٹھے،
پہلے اپنے بارے میں کچھ بتا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تو کب سے یہاں پڑا ہے؟ اور کیا کر رہا ہے؟ اور تیرے پاس کون آتا ہے؟
پہلے مجھے اس کا شکر ادا کرنے دے جس نے مجھے زندہ رکھنے کے لئے یہ نعمتیں تیرے ہاتھ بھیجی ہے۔۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ پھر تجھے پہلے اس شہر کے عروج و زوال کی بات سناؤں گا کہ تو عبرت حاصل کرے کہ ایک طاقت اور ہے جو نظر نہیں آتی اور وہی طاقت انسان کو بلندیوں تک پہنچا کر پستیوں میں پھینک دیتی ہے، لیکن ہر کسی کو نہیں میں نے رات تیرے اس آدمی سے کہا تھا کہ وہ فرعون کہاں ہے جو خدا بن بیٹھے تھے، سن سپہ سالار تو نے اس زمین کا احترام کیا تو آسمان کی بلندی تک پہنچے گا اور اگر تو نے یہ کہا کہ تو خود ہی آسمان کی بلندی تک پہنچ گیا ہے تو اس زمین کے نیچے جاکر گم ہوجائے گا۔
تو عبادت کس کی کرتا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے بوڑھے کا مذہب اور عقیدے معلوم کرنے کے لئے پوچھا۔
اپنی ۔۔۔۔بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ میں اپنی ذات کی عبادت کرتا ہوں حیران مت ہو سپہ سالار تو اسے خدا کہہ لے، کچھ کہہ لے، جو کچھ بھی ہے وہ میری اپنی ذات میں ہے اپنی ذات سے یہ مراد نہیں کہ سب مجھے لائق عبادت سمجھیں ۔ میں اپنی بات کر رہا ہوں ۔کیا تو میرے اس عقیدے کو پسند نہیں کرے گا کہ میں کسی بت کی عبادت نہیں کرتا؟ میں آگ کی عبادت نہیں کرتا ۔اور میں نے اپنا کوئی خدا نہیں بنا رکھا ۔لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ مذہب ابھی تک میرے سامنے نہیں آیا جو مجھے یہ بتائیے کہ عبادت کے لائق کون ہے؟ اتنا جانتا ہوں کہ وہ خدا ہے یا جو کوئی بھی ہے وہ بندوں کو نظر نہیں آتا۔ نظر آنا بھی نہیں چاہیے۔
مجھ سے سن وہ کون ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہمیں ایسے ہی نظر نہ آنے والے خدا نے بھیجا ہے کہ جاؤ میرے بندوں کو گمراہی سے نکالو اور انہیں بتاؤ کہ میں اپنے ہر بندے کی ذات میں موجود رہتا ہوں، اور یہ بھی بتاؤں کہ سدا بادشاہی میری ہے کسی بندے کی نہیں اور بندہ بندوں کو غلام نہیں بنا سکتا۔
یقین ہو چلا ہے کہ میں تیرے ہی انتظار میں زندہ ہوں۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں نہیں مصری کی مٹی تیرے انتظار میں تھی۔ لیکن مت سوچنا کہ تیری ذات کا انتظار تھا ۔اپنے آپ کو اس خدا کا قاصد سمجھ اور اس نے جو پیغام دے کر تجھے بھیجا ہے اس پر دھیان رکھ اور گمان میں نہ رہنا کہ اب کوئی موسٰی نہیں آئے گا ۔فرعون کو موسٰی نے نیل میں ڈبو دیا فرعون کو نہیں بلکہ فرعونیت کو اپنے آپ کو موسٰی سمجھ کہ مصر سے فرعونیت ابھی گئی نہیں۔
تیری عمر کتنی ہوگی آئے بزرگ !،،،عمرو بن عاص نے پوچھا ۔۔۔عمر کی مت پوچھ بوڑھے نے جواب دیا لگتا ہے یہ دنیا وجود میں آئی تھی تو میں بھی اس کے ساتھ آ گیا تھا اور اس وقت دنیا سے رخصت ہونگا جب یہ دنیا رخصت ہو جائے گی جہاں تک یاد کام آتی ہے میری عمر ایک سو سے بیس پچیس سال اوپر ہو گی بڑی بڑی بستیاں بستے اور اجڑتے دیکھی ہے۔
عمرو بن عاص اور تمام مسلمان جوتش اور نجوم یا کسی بھی ایسے علم کے پیشنگوئیوں کے قائل نہیں تھے ،عقیدہ یہ تھا کہ غیب کا حال احوال صرف اللہ جانتا ہے پھر بھی کسی خیال سے عمرو بن عاص نے اس بوڑھے سے پوچھا کیا وہ پیشن گوئی کرنے کا علم رکھتا ہے۔
نہیں اے سپہ سالار۔۔۔ بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ میرے پاس ایسا کوئی علم نہیں دنیا دیکھی ہے اور وہی کہتا ہوں جو دیکھا ہے، اور دیکھ رہا ہوں، گمراہ کو دیکھ کر کون پیشنگوئی نہیں کرسکتا کہ یہ شخص تباہی کے گڑھے میں گرے گا، اور جن کے اعمال نیک اور بنی نوع انسان کی محبت کے حامل ہوتے ہیں ان کے متعلق کوئی بھی شخص پیشن گوئی کرسکتا ہے کہ یہ سب سے بلندیوں کی طرف جا رہا ہے،،،،،،،،میں سمجھتا ہوں تو نے یہ کیوں پوچھا ہے،،،،، میں تجھے پہلے ہی اس سوال کا جواب دے چکا ہوں۔ تیرا یہاں میرے پاس آنا اور اس مٹی پر میرے ساتھ بیٹھنا اس امر کی دلیل ہے کہ فتح تیری ہوگی۔ اور تونے اسے اپنی ذاتی فتح سمجھ کر خود ہی انعام حاصل کرنے کی کوشش کی تو پھر پیشنگوئی الٹ جائے گی۔
=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اس شہر کے بارے میں کچھ بتا ۔۔۔عمرو بن عاص نے پوچھا ۔
آہ یہ شہر ۔۔۔۔بوڑھے نے کہا یہ شہر عظمت کی یادگار بھی ہے اور عبرت کا نشان بھی، لگتا ہے جیسے یہ شہر فرعونوں نے میری آنکھوں کے سامنے آباد کیا تھا اور اس کی عمارتوں اور شاہانہ مکانوں میں اپنی پوری شہنشاہیت اور قدرت کا تمام تر حسن سمو دیا تھا۔ انہوں نے اس شہر کا نام مدینۃ الشمس رکھا تھا ۔ مجھے اس شہر کے جو بن اور عروج کا قصہ میرے آباء و اجداد نے اورانہیں ان کے آباؤ اجداد نے سنایا تھا ۔میرے باپ دادا مذہبی پیشوا تھے اور مذہبی پیشوائی مجھے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن آگے چل کر میں عقیدوں میں الجھ گیا اور کچھ عرصہ تو یوں گزرا کے سمجھ نہ سکا کہ عبادت کرو تو کس کی کروں،،،،،،یہ میرا ذاتی معاملہ ہے میں تجھے اس شہر کی داستان سنا رہا ہوں،،،،،، جانے دے اس بات کو کہ یونانی یہاں کب اور کیسے آیے میں صرف یہ بتاتا ہوں کہ یہ شہر مختلف علوم کا مرکز بن گیا تھا۔ یونان کے مشہور فلسفی افلاطون، ارسطو ،اور سقراط اسی شہر میں آکر علم و فضل سے فیضیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے فلسفے اور ہیئت کی تعلیم یہیں سے حاصل کی تھی۔ عجیب بات سن فرعونوں کا زوال شروع ہوا تو اس شہر کا عروج شروع ہو گیا فرعونیت پر نزع کا عالم طاری ہوا تو اس شہر میں مختلف مذہبوں اور مذہبی عقیدوں کی عبادت گاہیں ابھرنے لگی، مینار اور گنبد نظر آنے لگے اور ان سے شہر کے حسن میں اضافہ ہوگیا ،مختلف مذہبی شخصیتوں نے یہاں کے مدرسوں سے تعلیم پائی تھی اور سارے مصر میں اور اردگرد کے ممالک میں پھیلائی،،،،، فارس کے آتش پرستوں نے یہاں اپنے آتشکدے بنائے لیکن رومیوں نے آکر انہیں مصر سے بے دخل کردیا اور اپنے ساتھ عیسائیت لائے، اہل مصر نے عیسائیت قبول کرنی شروع کردی اور آتشکدوں اور دیگر عبادت گاہوں کی جگہ گرجے ابھرنے لگے،،،،، یہاں سے اس شہر کی تقدیر الٹے پاؤں چل پڑی، وجہ یہ ہو گئی کہ یہاں جو بھی عقیدہ پھیلا وہ لوگوں نے متاثر ہو کر قبول کر لیا تھا ،لیکن رومیوں نے یہاں بزور شمشیر عیسائیت پھیلائی آج بھی دیکھ لے۔ یہ مت سمجھ کہ میں یہاں اس کھنڈر میں بیٹھا ہوں اور مجھے باہر کی کوئی خبر نہیں پل پل کی خبر مجھ تک پہنچتی ہے،،،،، آج بھی دیکھ لے رومی بادشاہ ہرقل نے اپنی ہی عیسائیت کا چہرہ مسخ کرڈالا ہے اور ایسے ظلم و ستم سے اسے پھیلا رہا ہے کہ سنو تو جگر کانپ اٹھتا ہے۔ ہزاروں لوگ ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہ کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں،،،،،،، رومیوں نے یہاں آتے ہیں اس شہر سے عبادتگاہوں کو اجاڑنا شروع کردیا تھا۔ بڑے خوبصورت بت اور حسین مرتیاں اٹھا کر لے گئے ،کیا تو مانے گا کہ انھیں کوئی مینار اچھا لگا تو وہ سالم کا سالم اکھاڑ کر لے گئے ۔ بے انداز کتابیں جو علوم کا خزانہ تھیں یہاں سے اٹھا لیں کچھ جلائی اور کچھ روم بھیج دیں ۔مختصر یہ کہ انہیں یہاں جو کچھ بھی اچھا لگا وہ اٹھایا اور بحرہ روم سے پار روم بھیج دیا ۔ یوں کہہ لیں کہ رومیوں نے اس اتنے حسین اور عظیم شہر کا وہی حال کردیا جو گدھ اور لومڑیاں مردار کا کیا کرتی ہیں،،،،،، انہوں نے علوم کا یہ سرچشمہ بند کردیا تو اس شہر کی رونقیں ہیں مانند پڑ گئی۔ باہر سے علم کے شیدائیوں نے آنا ہی چھوڑ دیا۔ یونانیوں نے اس شہر کا نام پہلے ہیلو بولیس رکھا تھا لیکن رومیوں نے اس کا نام بدل کر عین الشمس رکھ دیا ۔ اب لوگ اسے عین شمس کے کھنڈر کہتے ہیں۔ آج دیکھ اس شہر کی زنگ آلود دیواریں جھکی ہوئی چھتیں، اور دیمک کے کھا ہوئے کواڑ والے دروازے، اس شہر کی عظمت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ میں تجھے اس شہر کی نہیں بلکہ بادشاہوں کے عروج و زوال کی بات سنا رہا ہوں،،،،،،،،،، اس داستان سے میں نے عرق نکالا ہے اور اس کے زیر اثر کبھی کا پیش گوئی کر رہا ہوں کہ ایک لشکر آ رہا ہے جو طوفان بادوباراں کی طرح سب کچھ اڑا اور بہا لے جائے گا۔ اور ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔عروج اسی کو حاصل ہوگا جو ایک ایسا عقیدہ لائے گا جو کسی انسان کی تخلیق نہیں ہو گا بلکہ اس کی تخلیق ہو گا جو انسان کا خالق ہے۔ تیرا لشکر طوفان بادوباراں کی طرح یہاں پہنچا ہے میں سب کچھ سن چکا ہوں یہ بھی معلوم ہے کہ رومیوں کے مقابلے میں تیرے پاس طاقت ہے ہی نہیں لیکن سوچ ، تو نے شاید سوچا بھی ہوگا کہ تیرے ساتھ کوئی ایسی قوت ہے جو رومیوں کی جنگی قوت کو روندتی تجھے یہاں تک لے آئی ہے۔ لیکن ان کامیابیوں سے اس خوش فہمی میں نہ پڑ جانا کہ اب تو فتح ہی فتح ہے ۔کسی بھی قلعے کو اپنا سمجھ جب تو اپنا جھنڈا اس پر گاڑ دے گا ۔ یہ مت سوچ کے یہ قلعہ تو بس اپنے ہاتھ آ یا کے آیا۔ یہ بھی یاد رکھ کہ تو آیا نہیں بھیجا گیا ہے۔
جس نے مجھے بھیجا ہے اسے ہم اللہ کہتے ہیں۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہم دنیا کی جاہ و حشمت کے لیے نہیں لڑتے ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے اوراسکاپیغام ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے لڑتے ہیں ہمارا نصب العین ہ بنی نوع انسان کی نجات ہے ۔
جا فتح تیری ہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص اور سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہا وہاں سے اٹھے سپہ سالار نے حکم دیا کہ جب تک ان کا لشکر ان کھنڈرات میں ہے اس بزرگ کا کھانا ہمارے ذمے ہوگا۔

ادھر بابلیون میں مقوقس کے یہاں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ اس نے تو یہ پلان بنایا تھا کہ مسلمان اور آگے آ جائیں تو انھیں گھیرے میں لے کر ختم کردیا جائے لیکن اس کا یہ پلان بری طرح ناکام ہوا اور اطربون جیسا جرنیل مارا گیا ۔سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ رومی فوج کو اتنا جانی نقصان اٹھانا پڑا جس کی مقوقس کو توقع نہیں تھی، اور اس کے ساتھ نقصان یہ کہ جو فوج زندہ تھی اس کا لڑنے کا جذبہ بری طرح مجروح ہو گیا تھا۔
اس فوج میں وہ دستے بھی تھے جو شام میں مسلمانوں سے نہیں لڑے تھے شام سے بھاگ کر آنے والے فوجیوں نے انہیں بتایا تھا کہ مسلمان کس بے جگری اور بے خوفی سے لڑتے ہیں اب انہوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا تو انہیں یقین آیا کہ مسلمان تو اس سے زیادہ نڈر اور بے خوف ہے جتنا انہیں بتایا گیا تھا۔ ذہنی طور پر یہ فوج شکست قبول کرچکی تھی۔
مقوقس پر دوسری چوٹ یہ پڑی تھی کہ ہرقل نے اسے مسلمانوں کی فتوحات کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے بڑا سخت پیغام بھیجا اس پیغام کے جواب میں مقوقس نے ہرقل کو ایسا ہی پیغام بھیجا اور اس پر شام کی شکست کی طنز بھی کی تھی، اس کا اثر یہ ہوا کہ مورخوں کے مطابق ہرقل اور مقوقس کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کدورت پیدا ہو گئی تھی۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مقوقس نے ہرقل کے بنائے ہوئے اسقف اعظم قیرس کے مشورے سے اپنا ایک خاص آدمی قبطی عیسائیوں کے اسقف اعظم بنیامین کی طرف اس درخواست کے ساتھ بھیجا تھا کہ بنیامین قیرس سے ملے اور مسلمانوں کی پسپائی کا کوئی بندوبست کیا جائے۔
مقوقس کا یہ آدمی بنیامین تک پہنچ گیا تھا اس نے مقوقس اور قیرس کی ہدایت کے مطابق بنیامین کو تفصیل سے سنایا کہ ہرقل نے مقوقس اور قیرس پر کیا الزام عائد کیے ہیں۔ اور یہ دونوں ہرقل کے خلاف ہوگئے ہیں پھر اس آدمی نے بنیامین کو یقین دلایا کہ قیرس نے اسے نیک نیتی سے بلایا ہے اور ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ اسے گرفتار کر لیا جائے گا ۔ یہ بھی بتایا کہ ان کی ملاقات کی خبر ہرقل کو نہیں ملے گی کیونکہ اس ملاقات کا واحد مقصد عیسائیت کا تحفظ اور فروغ ہے۔ اور مسلمانوں کا راستہ روکنا بھی مقصود ہے۔
بنیامین اصل عیسائیت پر قربان ہوا جا رہا تھا اور اصل عسائیت کو ہی بحال کرنا چاہتا تھا۔ اصل عیسائیت پر اس نے اپنا ایک بھائی قربان کردیا تھا۔ بنیامین مقوقس کے اس آدمی کے ساتھ ہی آ گیا اور جب مسلمانوں کا لشکر ام دنین کی طرف بڑھ رہا تھا بنیامین بابلیون میں قیرس اور مقوقس کے پاس پہنچ گیا۔
مقوقس اور قیرس نے اس کا استقبال بڑے ہی خلوص سے کیا۔ اور اسے پہلا یقین یہ دلایا کہ یہ ملاقات خفیہ ہوگی اور اگر بنیامین نے اس ملاقات کو ناکام کیا تو بھی اسے بحفاظت واپس بھیج دیا جائے گا۔ بنیامین اور قیرس کی یہ ملاقات تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ بعض یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی فتح کا باعث یہ تھا کہ قبطی عیسائی ان کے ساتھ مل گئے تھے اور انہوں نے رومی فوج کو زمین دوز طریقوں سے بھی نقصان پہنچایا تھا ۔
یہ محض بے بنیاد بات ہے مصر میں مجاہدین اسلام کو اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہیں تھی۔
بنیامین جب بابلیون پہنچا تو مقوقس نے قیرس سے کہا کہ وہ دونوں الگ بیٹھ کر بات کریں اور اس میں وہ خود دخل انداز نہیں ہو گا۔ مقوقس اور قیرس کا مقصد یہ تھا کہ قبطی عیسائی رومی فوج کے ساتھ ہو جائیں قیرس نے بنیامین کے آگے یہی مقصد رکھا اور کہا کہ عیسائیت کو بچانا اور اسلام کا راستہ روکنا ہے۔
بنیامین زیادہ زور اس بات پر دیتا تھا کہ جب تک ہرقل زندہ ہے وہ اپنی عیسائیت سے دستبردار نہیں ہو گا نہ کسی کو دستبردار ہونے دے گا۔ قیرس نے اسے بتایا کہ ہرقل اب اثرانداز نہیں ہو سکے گا۔ مقوقس نے یہاں تک کہا کہ ہرقل نے بے جا دخل اندازی کی تو اسے مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ مصر سے دستبردار ہو جائے۔ اور اپنی عیسائیت کو سنبھال کر رکھے۔
مقوقس نے ان دونوں مذہبی پیشواؤں کو الگ بیٹھ کر بات کرنے کو کہہ دیا لیکن انہیں یہ نہ بتایا کہ وہ خود کیا سوچ رہا ہے۔ اس نے ہرقل کو بلبیس کے قلعے کی فتح کی خبر سنا دی تھی ،اور پھر یہ خبر سنائی کہ مسلمان نیل تک پہنچ گئے ہیں۔ اور اطربون کے بعد اس کا ایک اور منظورنظر جرنیل حنّابھی مارا گیا ہے۔ مقوقس کو معلوم تھا کہ ہرقل کا ردعمل کیا ہو گا۔ مقوقس کو یہ بھی شکایت تھی کہ ہرقل بزنطیہ سے مصر کے لیے امدادی فوج نہیں بھیج رہا اتنی شکستوں کے بعد مقوقس کو یہ توقع تھی کہ ہرقل اسے مصر کی فرمانروائی سے معزول کر دے گا ۔ اس کے علاوہ مقوقس کو ہرقل سے توقع تھی کہ قبطیوں کو اپنا دشمن بنائے رکھے گا اور اپنی عیسائیت کو نہیں چھوڑے گا ۔ اور اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ کسی بھی وقت قبطی بنیامین کے اشارے پر بغاوت کر دیں گے۔
بنیامین اور قیرس الگ بیٹھے گفت و شنید کر رہے تھے مقوقس نے اپنے جرنیل تھیوڈور کو بلایا اور اپنے خاص کمرے میں جابیٹھا ،تھیوڈور کے ساتھ مقوقس کی رازداری تھی ،اب بازی تھیوڈور کے سر تھی، وہ اور مقوقس مزید شکست کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔
تھیوڈور !،،،،،مقوقس نے کہا ۔۔۔بنیامین اور قیرس کو میں نے الگ بیٹھا دیا ہے لیکن میں سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہرقل ہمارے سروں پر موجود ہے ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ،اور ایک روز مسلمان سارے مصر پر چھا جائیں گے اور ہرقل اس کا الزام ہمارے منہ پر تھوپ دے گا۔
میں ساری صورتحال سے واقف ہوں۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔یہ بتائیں کہ اس کا حل کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ہرقل کو معزول کر دیں ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن یہاں اس کے حامی فوج میں موجود ہیں وہ ہم دونوں کو یا مجھے قتل کروا دیں گے، دوسری صورت زیادہ بہتر ہے وہ یہ کہ ہم ہرقل کو قتل کروا دیں۔
جرنیل تھیوڈور نے سر جھکا لیا جیسے گہری سوچ میں کھو گیا ہوں مقوقس اسے کچھ دیر دیکھتا رہا آخر تھیوڈور نے سر اٹھایا اور آہستہ آہستہ سر اوپر نیچے ہیلایا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مقوقس سے اتفاق کرتا ہے۔
کام خطرناک تو ہے لیکن آسان نہیں۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔۔اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ کیا اس کا انتظام کیا ہوگا؟
میں انتظام کر چکا ہوں ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ دو آدمی تیار کرلیے ہیں ان کے ساتھ ایک ایسی خوبصورت اور ہوشیار لڑکی جائے گی کہ اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہرقل نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی یہ لڑکی میں تحفے کے طور پر ہرقل کو بھیج رہا ہوں اسے میرے اپنے دو قابل اعتماد آدمی لے جائیں گے اس کام کے لئے میں نے انہیں ایک خزانہ پیش کیا ہے۔
کیا اس لڑکی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔ تھیوڈور نے پوچھا۔۔۔۔ ظاہر ہے لڑکی کم عمر ہو گی وہاں جاکر ڈر ہی نہ جائے۔
قتل خنجر یا تلوار سے تو نہیں کرنا ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔۔ ہرقل کی شراب میں زہر ملانا ہے جو یہ لڑکی آسانی سے ملا دے گی میں نے لڑکی کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ ہرقل کس طرح شراب پیتا ہے۔ اور اس دوران کیا کرتا ہے اور لڑکی کس طرح موقع پیدا کرکے ذرا سا زہر اس کے گلاس میں ڈال دے ، زہر اتنا تیز ہے کہ اس کے چند ذرے شراب میں پڑ گئے تو کام کر دیں گے۔
احتیاط تو آپ کرینگے ہی۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ ایک احتیاط سب سے زیادہ ضروری ہے، یہ جو دو آدمی ساتھ جا رہے ہیں انھیں کوئی پہچان نہ سکے۔
مقوقس نے اسے بتایا کہ اس نے یہ احتیاط خاص طور پر پیش نظر رکھی ہے انہیں وہ نہایت معمولی قسم کے لوگوں کے لباس میں بھیج رہا تھا ،لڑکی کو بھی کسی غریب آدمی کی بیٹی کے لباس میں بھیجنا تھا اور چہرے پر نقاب رکھنا تھا،،،،،، مقوقس نہ جانے کب سے ہرقل کے قتل کا پلان بنا رہا تھا اور اب اس نے عملدرآمد کا پکا فیصلہ کر لیا تھا ۔
اس نے تھیوڈور کو بتایا کہ دونوں آدمیوں اور اس لڑکی کو وہ دو بار ریہرسل کروا چکا ہے۔ تھیوڈور نے اس کی تائید ہی نہ کی بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔
اس کے بعد دونوں نے بائبل پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا کہ وہ اس راز کو راز ہی رکھیں گے اور ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دیں گے۔
ادھر بنیامین اور قیرس عیسائیت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف متفق ہوگئے۔ بنیامین صرف ہرقل کی ضمانت چاہتا تھا مقوقس نے اسے یقین دلایا کہ ہرقل اس اقدام کو پسند کرے گا ۔ مقوقس نے یہ بھی کہا کہ ہرقل کو عیسائیت سے زیادہ اپنی سلطنت پیاری ہے۔ اسے مصر چاہیے مذہب نہیں۔ قیرس نے تو پہلے ہی بنیامین کو یقین دلا چکا تھا ۔
تھیوڈور کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا کہ مقوقس کس بنیاد پر ہرقل کی ضمانت دے رہا ہے، وہ تو ہرقل کو اس دنیا سے ہی اٹھا رہا تھا۔
بنیامین یہ وعدہ کرکے رخصت ہوا کہ وہ اپنے مشیروں کو اس فیصلے سے آگاہ کر دے گا۔ اور پھر قبطی فوج میں شامل ہو جائیں گے وہ فوج میں شامل ہو یا نہ ہو بغاوت نہیں کریں گے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ ذرا سا بھی تعاون نہیں کریں گے۔

مجاہدین اسلام کا لشکر عین شمس کے کھنڈرات میں قیام کئے ہوئے تھا کمک پہنچ گئی تھی اور اب سپہ سالار عمرو بن عاص کو آگے بڑھنا تھا وہ زیادہ دیر انتظار کرنے والے سپہ سالار نہیں تھے۔ لیکن لشکر میں زخمیوں کی تعداد کچھ زیادہ ہو گئی تھی ان کی مرہم پٹی ہو رہی تھی اور توقع تھی کہ کچھ دنوں تک یہ لڑنے کے قابل ہو جائیں گے غوروخوص کرکے یہ بھی طے کرنا تھا کہ اگلا قدم کدھر اٹھایا جائے۔
عین شمس کے کھنڈرات کا شہر ذرا بلندی پر تھا اور دفاعی لحاظ سے یہ موزوں تھا دشمن اچانک حملہ کر دیتا تو اس شہر کی بلندی فائدہ دے سکتی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں پانی کثرت سے موجود تھا جس کے ختم ہونے کا امکان نہیں تھا اشیائے خوردنی کی ایسی افراط کے خوراک کی قلت کا خطرہ تھا ہی نہیں۔
ایک روز عمرو بن عاص نے زبیر بن عوام اور دوسرے تمام سالاروں کو طلب کیا۔
میرے رفیقو !،،،،،عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا۔۔۔۔ اب بابلیون کا قلعہ بند شہر ہمارے سامنے ہے لیکن وہاں جو رومی فوج ہے اس کا کوئی شمار ہی نہیں ایک تو مفتوحہ قلعوں سے بھاگے ہوئے فوجی بابلیون میں جا پہنچے ہیں، اور دوسرے یہ کہ مقوقس اپنی زیادہ سے زیادہ فوج شہر میں لے آیا ہے ظاہر ہے اس شہر کا محاصرہ کرنا ہوگا،،،،،،،، اگر اللہ میری دعا قبول فرما لے تو رومی باہر آکر کھلے صحرا میں لڑائی کریں، دعا کرو میرے بھائیوں اللہ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ رومیوں کو قلعے سے باہر لے آئے، اللہ نے ہمیں مایوس تو کہیں بھی نہیں کیا۔۔۔ زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ اگر ہمارے لیے رومیوں کا باہر آ کر لڑنا بہتر ہوا تو اللہ یہ صورت بھی پیدا کر دے گا۔
یہ بات بھی دل میں بٹھا لو میرے رفیقو!،،،،، عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔۔۔اب ہم مصر کی فتح و شکست کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اب ہم کہیں بھی ہار گئے تو ہماری منزل اگلے جہان ہوگی یا ملک شام،،،،،،،،،، میں اپنے اسی اصول کا پابند رہوں گا کہ کہیں بیٹھے دشمن کا انتظار نہ کرتے رہیں ،دشمن کے سر پر سوار رہیں ،اس اصول نے ہمیں ہر معرکے میں کامیاب کیا ہے۔
ادھر بابلیون میں مقوقس اور تھیوڈور دو تین جرنیلوں کو بٹھائے مسلمانوں کو پسپا کرنے کی اسکیم بنا رہے تھے ۔
مقوقس کہہ رہا تھا کہ ان عربوں نے بابلیون بھی لے لیا تو پھر ان کے کہیں بھی پاؤں نہیں جم سکیں گے۔
عمرو بن عاص نے اپنے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کسی جگہ کہا تھا کہ ہم کہیں سے پسپا ہوئے تو یاد رکھو دشمن ملک میں ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی ،اور بھاگنے کی کوئی جگہ بھی نہیں ہوگی۔
لیکن بابلیون میں مقوقس یہی الفاظ اپنے جرنیلوں سے کہہ رہا تھا کہ ہم بابلیون سے اکھڑ گئے تو پھر سارے مصر میں ہمیں کہیں بھی جم کر لڑنے کی مہلت نہیں ملے گی، خود اپنے لوگ ہمیں اپنے گھروں میں پناہ نہیں دیں گے۔
میں مسلمانوں کی چال سمجھ گیا ہوں ۔۔۔جرنیل تھیوڈور نے کہا ۔۔۔افسوس ہے اطربون جیسا تجربہ کار جرنیل نہ سمجھ سکا،،،،،، عربوں کا سپہ سالار پہلے حملے سے ہیں اس اصول کا کاربند چلا آرہا ہے کہ اپنی تعداد کو نہ دیکھوں، اور حملہ کرنے میں زیادہ دیر نہ کرو ،ایک جگہ بیٹھے نہ رہو، اور دشمن پر اس طرح ٹوٹ پڑو کہ وہ اس حملے کو غیرمتوقع سمجھے ،یہی وجہ ہے کہ عرب ہر معرکے میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ قلعہ بند ہو کر دشمن کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں ،محاصرے میں ہمارا طریقہ جنگی رہا ہے کہ ایک ایک دو دو دستے باہر نکال کر عربوں پر حملہ کرتے ہیں ،عرب ہماری یہ چال سمجھ گئے ہیں اور انہوں نے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے۔
تم جو چاہتے ہو وہ بیان کرو ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم قلعہ بند ہو کر نہ لڑیں۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔۔ہم عربوں کو اتنی مہلت دے ہی نہیں کہ وہ آکر بابلیون کا محاصرہ کر لیں ان کے سپہ سالار کا ایک اصول یہ ہے کہ دشمن کے سر چڑھے رہو تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ دل چھوڑ بیٹھے، اور حوصلہ ہار بیٹھے، یہی اصول میں آپ کو دینا چاہتا ہوں آپ نے شاید سنا نہیں کہ مصر کے لوگ ہمیں بزدل اور کمزور کہنے لگے ہیں۔ جو قلعوں کی دیواروں کی پناہ میں بیٹھ کر اپنا دفاع کرتت ہیں،،،،،، اب ہمیں باہر جا کر مسلمانوں کو للکارنا چاہیے۔
یہی دعا سپہ سالار عمرو بن عاص مانگ رہے تھے انہوں نے اپنے دو تین جاسوس بابلیون بھیج رکھے تھے۔ جو دوسرے مفتوح شہروں سے بھاگے ہوئے شہریوں کے بہروپ میں وہاں گئے تھے، اللہ ان کی دعا قبول کر رہا تھا۔
مقوقس نے کہا کہ فوج کو شہر سے باہر کھلی جنگ کے لئے تیار کیا جائے اور کوئی پہلو کمزور نہ رہ جائے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

جاری ہے………………

اپنا تبصرہ بھیجیں