اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر20)

جب سے انسانی معاشرے میں حکمرانی کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے بغاوت بھی ساتھ ساتھ چلی آ رہی ہے۔ باغیوں نے بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہوں کے تخت الٹے تھے۔
بغاوتوں کی تاریخ دیکھیں بعض بغاوت اتنی بڑی تھی اور اتنی مشہور ہوئی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گئی ۔
بیشتر بغاوت کچھ کم پیمانے کی تھی اس لئے تاریخ میں جگہ نہ پا سکی۔
بغاوت بڑی ہو یا چھوٹی اسے فرو کرنے یا دبانے کا ایک ہی طریقہ کار چلا آ رہا ہے۔
باغیوں کے لیڈر کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے تشدد کیا جاتا ہے اور باغیوں کو بے دریغ قتل کیا جاتا ہے۔ عموماً بغاوت دب جاتی ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں چنگاری کی طرح اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے، لیڈروں کی گرفتاری اور ان کے باغی پیروکاروں کی قتل وغارت کا بغاوت میں انتقام کا جذبہ بھی شامل ہو جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بغاوت بزور شمشیر فرو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بغاوت خانہ جنگی کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے اور حکمرانوں کے تختے بھی الٹ جاتے ہیں جو باغیوں کی فتح ہوتی ہے ،اور باغی شکست بھی کھاسکتے ہیں۔
جب سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ رپورٹ دی گئی کے بابلیون میں پولیس میں جو قبطی عیسائی ہیں وہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ ان پسماندہ عربی مسلمانوں کے محکوم نہیں رہ سکتے اور آثار بغاوت کے نظر آرہے ہیں ، تو تمام سالاروں کو یہ توقع تھی کہ سپہ سالار یہی حکم دیں گے کہ ان قبطیوں کو تشدد سے دبا کر رکھا جائے اور اگر وہ ایسے باغیانہ خیالات سے باز نہیں آتے تو انہیں سخت سزا دی جائے، جو دوسروں کے لئے عبرت ناک ہو۔ لیکن عمرو بن عاص جو پورے لشکر کو یقینی موت کے منہ میں ڈال دیا کرتے تھے یہ رپورٹ سن کر بالکل ہی چپ رہے اور گہری سوچ میں گم ہوگئے ان کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئے اور پھر ان کے ہونٹوں پر تبسم آگیا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عرب غیر معمولی ذہانت کے لئے مشہور تھے ان میں معجزہ نما شجاعت تھی بلکہ ان کے دماغ ایسی ترکیب سوچ لیتے تھے جو اوسط درجہ ذہن کے انسان کے دماغ میں آ ہی نہیں سکتی تھیں۔
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ رومیوں نے پولیس کا باقاعدہ محکمہ بنا رکھا تھا، اسلامی حکومت و معاشرت میں ابھی پولیس کا محکمہ نہیں بنا تھا اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا تھا ،جسے احداث کہتے تھے، اور پولیس افسر کو صاحب الاحداث کہا جاتا تھا ۔
عمرو بن عاص نے گہری سوچ سے نکل کر تمام سالاروں کو بلوایا۔
کل ان قبطیوں کو اپنے لشکر کے کھانے پر مدعو کرنا ہے۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ایک ضروری بات اچھی طرح سن لو اپنے لشکر کے ہر مجاہد سے کہنا کے وہ کھانا اس طرح کھائے جس طرح میدان جنگ میں لڑائی کے دوران کھاتے ہیں اور ان کا لباس جنگی ہوگا۔
تاریخ میں آیا ہے کہ کوئی ایک بھی سالار نہ سمجھ سکا کہ سپہ سالار کا مطلب اور مقصد کیا ہے۔ اگلے روز بے شمار اونٹ زبح کئے گئے اور ان کا گوشت اس طرح پکایا گیا کہ شوربا زیادہ رکھا گیا ۔ پولیس کے تمام ملازمین کو اس کھانے پر مدعو کیا گیا تھا کھانا زمین پر بیٹھ کر کھایا جاتا تھا اس کھانے پر قبطی عیسائیوں اور مجاہدین کو ایک دوسرے کے بالمقابل بٹھایا گیا۔
مجاہدین نے بڑی تیزی سے کھانا شروع کردیا اور ان کا کھانے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ بوٹی منہ میں لے کر کھینچتے تو شوربے کی چھیٹے سامنے بیٹھے ہوئے قبطیوں پر پڑتی تھی ۔ مجاہدین کو اس طرح بدتمیزی سے کھاتے دیکھ کر قبطی ناک بھوں چڑھانے لگے۔ انہوں نے دل ہی دل میں یہ رائے قائم کر لی ہو گی کہ عرب کہ یہ مسلمان جنگلی ہیں اور انہیں سلیقے اور شائستگی سے کھانا کھانے کا کچھ پتہ ہی نہیں ۔ مجاہدین رکابیاں اٹھا کر منہ سے لگاتے اور شوربا پیتے تو پینے کی آوازیں پیدا ہوتی تھیں، کوئی بھی ان مجاہدین کو اس طرح کھاتے دیکھتا تو یہی کہتا کہ ان لوگوں کو اچھا کھانا کبھی نہیں ملا اور ان میں کھانے کا سلیقہ بھی نہیں۔
آخر کھانا ختم ہوا اور قبطی چہروں پر نفرت کا تاثر لیے چلے گئے
عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ اپنے کچھ آدمی یہ دیکھیں کہ قبطیوں کی رائے کیا ہے، اور وہ کیا باتیں کرتی ہیں؟
کچھ مجاہدین قبطیوں کی باتیں سننے چلے گئے انہوں نے سپہ سالار کو آکر بتایا کہ قبطی عیسائی مجاہدین کے خلاف کھلم کھلا نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ان عربوں کے محکوم نہیں رہیں گے۔
مصری تاریخ دا محمد حسنین ہیکل بٹلر اور تین چار مسلمان تاریخ دانوں کے حوالوں سے لکھتا ہے کہ دو دنوں بعد سپہ سالار نے اپنے سالاروں کو بلوایا اور کہا کہ کل پھر اسی طرح لشکر کے لئے کھانا پکے گا اور قبطی عیسائیوں ہونگے۔ سپہ سالار نے دوسری ہدایت یہ دی کہ مجاہدین کے تمام لشکر کو یہ بتا دیا جائے کہ وہ اس طرح کھانا کھائیں گے جس طرح وہ امن کے وقت کھایا کرتے ہیں ۔
اور ان کا لباس جنگی نہیں بلکہ وہ لباس ہوگا جو وہ اپنے گھروں میں پہنتے ہیں۔
مقریزی نے لکھا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے مجاہدین کو یہ کہا تھا کہ وہ کھانے پر مصری لباس پہن کر آئیں چنانچہ تمام مجاہدین بڑے صاف ستھرے مصری لباس میں اس دعوت میں آئے ۔مقریزی کی یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ مجاہدین کا یہ لشکر جب سے مصر میں داخل ہوا تھا اسے لڑائیوں سے ہی فرصت نہیں ملی تھی، تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے مصری لباس سلوا لئے ہونگے ،ویسے بھی مجاہدین اس قسم کی عیاشیوں کے قائل نہیں تھے۔
بہرحال تاریخ میں یہ واضح ہے کہ مجاہدین اپنے اچھی قسم کے لباس میں کھانے میں شریک ہوئے اب بھی کھانے پر بیٹھنے کی ترتیب وہی تھی جو پہلے کھانے میں رکھی گئی تھی۔ قبطی عیسائی اور مجاہدین آمنے سامنے دسترخوان پر بیٹھے۔ کھانا شروع ہوا تو مجاہدین نے بڑی ہی تمیز شائستگی اور سلیقے سے کھانا کھایا اور قبطیوں کے ساتھ باتیں بھی کرتے اور ہنستے مسکراتے بھی رہے۔ قبطی حیران رہ گئے کہ آج ان میں اتنی تہذیب کیسے آ گئی یہ تو شک کیا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ وہ کوئی اور تھے، اور یہ مجاہدین کوئی اور جو تمیز اور سلیقہ والے ہیں ۔
پچھلے کھانے میں قبطی مجاہدین کے خلاف نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار کھلم کھلا کرتے رہے لیکن اس کھانے کے بعد حیران تھے کہ کیا کہیں اور کیسے سمجھیں کہ یہ تبدیلی کیسے آئی ہے وہ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ یہ کوئی اور عرب تو نہیں تھے ۔کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے یہ حکم دیا کے کل صبح تمام لشکر گھوڑدوڑ میدان میں امن کی ترتیب میں اکٹھا ہو گا اور سپہ سالار لشکر کا معائنہ کریں گے۔
سالاروں نے سپہ سالار کا یہ حکم تمام لشکر تک پہنچا دیا اور مزید جو ہدایات سالاروں کو دی گئی تھی وہ بھی لشکر تک پہنچا دی گئی۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مجاہدین کا لشکر کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی جس کی درجہ بدرجہ تنخواہ مقرر ہوتی اور انہیں باقاعدہ فوج کی طرح ٹریننگ دی گئی ہوتی ہے ۔ تنخواہ دار فوج امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس سے تھوڑا ہی عرصہ بعد بنائی تھی تمام مجاہدین رضاکارانہ طور پر لشکر میں شامل ہوتے تھے۔ تیغ زنی، برچھی بازی ،اور تیراندازی تو مسلمانوں کی گھریلو تربیت میں شامل تھیں۔ لشکر میں انہیں صرف یہ بتایا اور سمجھایا جاتا تھا کہ ایک سالار کے تحت کس طرح لڑا جاتا ہے۔انہیں ڈسپلن کا الگ تھلگ کوئی لیکچر نہیں دیا جاتا تھا نہ ان میں ڈسپلن پیدا کرنے کی کوئی بات ہوتی تھی۔ مجاہدین ایک جذبے کے تحت لشکر میں شامل ہوتے اور محاذوں پر جاتے تھے۔ رومیوں کی فوج باقاعدہ تنخواہ دار فوج تھی اور اسے آجکل کی فوج کی طرح ٹریننگ دی جاتی تھی۔
اگلی صبح ان تمام قبطی عیسائیوں کو جو وہاں کی پولیس میں تھے اور انہیں بھی جو انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے تھے گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کیا گیا۔ تاریخ کی تحریر بتاتی ہے کہ ان قبطیوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ مسلمان اپنے لشکر کی نمائش کر رہے ہیں، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ لشکر باقاعدہ فوج نہیں اور اس کے تمام آدمی رضاکار ہیں۔
قبطی یہ دیکھ کر کچھ حیران ہوئے کہ جس لشکر کو وہ لڑنے والوں کا ایک غیر تربیت یافتہ ہجوم سمجھتے تھے ان میں فوج جیسا ہی ڈسپلن تھا انہیں ہانکنا نہیں پڑتا تھا بلکہ وہ سالاروں کے اشاروں پر حرکات وسکنات کرتے تھے۔ انہوں نے جو لباس پہن رکھے تھے اس کا بھی ایک تاثر تھا جو قبطی عیسائیوں نے خاص طور پر محسوس کیا۔
عمرو بن عاص نے لشکر کی نمائش کچھ سوچ کر کی تھی اور لشکر نے اپنے سپہ سالار کی توقعات پوری کردی۔ عمرو بن عاص ان میں جو تاثر پیدا کرنا چاہتی تھی لشکر نے وہ پیدا کردیا۔ حالانکہ لشکر کے کسی بھی مجاہد کو معلوم نہ تھا کہ کیا تاثر دینا ہے۔
عمرو بن عاص گھوڑے پر سوار تھے انہوں نے گھوڑے کا رخ موڑا اور قبطیوں کے ہجوم کے سامنے جا رکے۔
میں نے تمہیں اپنے لشکر کے تین روپ دکھائے ہیں۔۔۔ عمرو بن عاص نے قبطیوں سے خطاب کیا ۔۔۔مجھے بتایا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو بڑا مہذب اور میرے اس لشکر کو جنگلی اور بدتمیز سمجھتے ہو ،میں نے وہ سارے طعنے سنے ہیں جو تم نے مجاہدین کو دیے ہیں، یہ بہت بڑی بدتہذیبی ہے کہ دوسروں کو بد تہذیب کہا جائے، وہ یہی مجاہدین تھے جن کے ساتھ تم نے کھانا کھایا اور جن کے اڑتے شوربے کے چھیٹے تم پر پڑے تھے اور انہوں نے تمہارے خیال کے مطابق غیرشائستگی سے کھانا کھایا تھا، میں تمہیں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ انھیں کہا گیا تھا کہ اس طرح کھانا کھائے جس طرح جنگ کے دوران کھانا کھایا کرتے ہیں، میدان جنگ میں یہ کسی سلیقے اور شا ئستگی کی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ ان کے سامنے اس سے کہیں زیادہ بڑا مقصد ہوتا ہے اس وقت انہیں کھانے کی پرواہ نہیں ہوتی، اگر کھاتے ہیں تو اسی طرح جلد بازی میں کھا کر اپنے اس فرض کی ادائیگی میں گم ہو جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں سونپا ہے۔ میرے قبطی بھائیوں!،،،، پھر میں نے تمہیں ان کا وہ روپ دکھایا ہے جس میں شائستگی بھی ہے ،سلیقہ بھی، اور تہذیب بھی،انہیں صرف اتنا کہا تھا کہ اب تم میدان جنگ میں نہیں اس لئے کھانا اس طرح کھانا جس طرح امن کے وقت کھایا جاتا ہے اور یہ خیال رکھنا کہ تمہارے کھانے پر کچھ مہمان بھی ہوں گے۔ تم نے ان کا یہ روپ بھی دیکھ لیا اور تم حیران ہوتے رہے ہو کہ یہ تو وہی ہیں۔ لیکن ایک دن میں ہی اتنے تہذیب یافتہ کس طرح ہو گئے ہیں۔ انہیں کسی نے بھی نہیں کہا کہ تہذیب کا خیال رکھنا۔
یہ ہیں ہی تہذیب یافتہ اپنے گھروں میں یہ اسی طرح کھانا کھایا کرتے ہیں،،،،،،،،
پھر میں نے تمہیں ان کا تیسرا روپ دکھایا ہے میں جانتا ہوں تم انھیں غیر تربیت یافتہ فوجی سمجھتے ہو جو صرف لڑنا جانتے ہیں ۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے نظم و نسق کا کیا مظاہرہ کیا ہے یہ نظم و نسق اور اپنے سالاروں کے اشاروں پر چلنا ان کی فطرت میں شامل ہے، یہ جب ایک لشکر کی صورت میں اکٹھے ہوتے ہیں تو اپنی انفرادیت اپنے امیر یا سالار کے سپرد کر دیتے ہیں، اسلام کے حکم اور اصول کے مطابق اگر ان میں سے تین چار یا کچھ زیادہ اپنے لشکر سے الگ ہو جائیں تو ایک ساتھی کو اپنا امیر جماعت بنا لیتے ہیں۔ اور پھر اس کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔میں نے تمہیں ان کے یہ تینوں روپ اس لئے دکھائے ہیں کہ تم انہیں گنوار اور اجڈ بدوّ نہ سمجھتے رہو، اور اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا نہ کرو کہ تم ان کے خلاف نفرت پھیلا کر اپنے لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کر لو گے تو یہ مجاہدین تمہارے آگے بے بس ہو جائیں گے، ان کے ساتھ شرافت اور شائستگی سے رہو گے تو یہ تمہاری قدر کریں گے کیونکہ شرافت اور شائستگی ان کی فطرت میں شامل ہے اور اگر تم نے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر انہیں جنگلی اور پسماندہ سمجھ کر من مانی کرو گے تو جس طرح انہوں نے تمہارے کپڑوں پر شوربے کے چھٹے پھینکے تھے اسی طرح تمہارے کپڑے تمہارے ہی خون سے لال کر دیں گے، سوچ لو تمہیں کون سی صورت بہتر لگتی ہے ۔
یہ واقعہ لکھنے والے تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کا یہ طریقہ کار اور یہ انداز بیشتر قبطی عیسائیوں کو اتنا اچھا لگا کہ ان کے ایک خاص بڑے گروہ نے اسلام قبول کر لیا ۔ لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اس انداز نمائش میں ایک طنز اور اپنی توہین محسوس کی۔
اے قبطیوں!،،،، اپنی توہین سمجھنے والے قبطی عیسائیوں نے کہا۔۔۔ عربوں نے تمہیں اپنی ٹھوکر پر رکھا ہے۔
تاریخ میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ کسی لیڈر قسم کے قبطی نے کہا۔۔۔ عربی مسلمان قوم وہ ہیں جس قوم کو کوئی مفتوح اور مغلوب نہیں کرسکتا ۔آج اس قوم نے تمہیں اپنے قدموں تلے مسل ڈالا ہے۔
تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ ان آوازوں پر قبطی عیسائیوں نے دھیان نہ دیا ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا انکا جزیہ عمرو بن عاص نے وہیں معاف کردیا، اور ساتھ ہی یہ اعلان کردیا کہ آج سے انہیں مسلمانوں کے مساوی حقوق دے دیے گئے ہیں۔
تاریخ یہ رائے قائم کرتی ہے کہ عمرو بن عاص نے یہ انوکھی اور دلچسپ کارروائی کرکے قبطی عیسائیوں کو ایسا متاثر کیا کہ وہ پوری طرح مسلمانوں کے وفادار ہو گئے۔ عمرو بن عاص ایسی ہی کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ جب امیر المومنین کی طرف سے منظوری آجائے کے اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کروں تو عمرو بن عاص اطمینان سے اسکندریہ کو روانہ ہو جائیں پیچھے بدامنی اور بغاوت کا خطرہ نہ رہے۔
محاذوں کے سپہ سالار جب امیر المومنین کو اپنے اپنے محاذ کی صورتحال لکھ کر بھیجتے تھے تو اس طرح کے چھوٹے چھوٹے واقعات بھی لکھ دیتے تھے ،اگر نہ لکھیں تو پیغامات لے جانے والے قاصد خود چھوٹے چھوٹے واقعات سنا دیا کرتے تھے۔ یہ واقعہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچ گیا انہوں نے (تاریخ کے مطابق) یوں اظہار خیال کیا، خدا کی قسم ابن عاص کی جنگ ٹھنڈی اور نرم ہوتی ہے، اس میں وہ ہیجانی کیفیت پیدا نہیں ہونے دیتا، دوسرے لڑنے والے تلوار سے لڑتے ہیں لیکن ابن عاص کی زبان تلوار سے زیادہ کام کرتی ہے۔

صرف سپہ سالار عمرو بن عاص ہی نہیں تھے جنہیں امیرالمومنین کی منظوری کا انتظار تھا۔ بلکہ تمام تر لشکر اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کے لیے بے تاب ہوا جا رہا تھا، یہ لشکر مسلسل لڑائیاں لڑتا چلا آرہا تھا اسے صرف ایک بار کمک ملی تھی اس کے بعد ایک آدمی کا بھی اس میں اضافہ نہیں ہوا تھا، کمک تو دور کی بات تھی شہیدوں اور شدید زخمیوں کی وجہ سے لشکر کی تعداد اچھی خاصی کم ہو گئی تھی، ان حالات میں اس لشکر کو جسمانی طور پر تھکن سے ٹوٹ پھوٹ جانا چاہیے تھا لیکن اسلام کے ان شیدائیوں کے جذبے اور حوصلے میں عجیب و غریب سی تازگی آتی جا رہی تھی۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ بابلیون کی فتح نے مجاہدین کے جسموں میں جیسے بجلیوں کی سی طاقت پیدا کر دی تھی۔ یہ دراصل ایمان کی تازگی اور پختگی تھی ،ان مجاہدین نے اپنے جسموں کو اللہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اور وہ روحانی قوت سے لڑ رہے تھے بابلیون پر یلغار سے پہلے وہ توقع رکھتے ہی نہیں تھے کہ وہ بابلیون جیسا نہ قابل تسخیر قلعہ سر کر لیں گے، بابلیون بلاشک و شبہ ناقابل تسخیر تھا ،مجاہدین نے یہ سر کر لیا۔
یہ تو ان کا ایمان تھا کہ وہ اللہ کی راہ میں لڑرہے ہیں اور اللہ انہیں مدد دے رہا ہے۔ لیکن اب وہ اس یقین سے سرشار ہوئے جا رہے تھے کہ ان پر کوئی غالب نہیں آ سکتا اور وہ کفر پر غالب آئیں گے۔
کچھ مجاہدین ایسے تھے جو صرف اللہ اور اسلام کو پہچانتے تھے لیکن سوچوں کی گہرائی میں جانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، انہیں سالاروں نے بتایا تھا کہ مسلمان کا دشمن دراصل اسلام کا دشمن ہے، اور اسلام کا دشمن ہر مسلمان کا دشمن ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں کیوں نہ ہو اور یہ بھی کہ اللہ کا فرمان ہے کہ تم اسلام کے دشمنوں کے خلاف ہتھیار لے کر نکلو گے تو اللہ تمہارے ساتھ ہو گا۔
بابلیون کی فتح ایک شہر کی فتح نہ تھی مجاہدین جوں جوں اس علاقے کی تاریخ اور ثقافت کی قدیم کہانیاں سنتے جاتے تھے ان کے دلوں میں بابلیون کی فتح کی اہمیت بڑھتی جاتی تھی۔ یہ فرعونوں کا ایک بڑا شہر تھا اس شہر کے ارد گرد فرعونوں کے زمانے کے جو کھنڈرات تھے ان میں بھی ایک طرح کی عظمت اور شان و شوکت تھی، یہ کھنڈرات صرف فرعونوں کی ہی یاد نہیں دلاتے تھے بلکہ یہ بھی پتہ چلتا تھا کہ یہ ایک قدیم انسانی تہذیب کے آثار ہیں، مجاہدین تو یہ سوچتے تھے کہ یہ ان فرعونوں کے دور کے آثار تھے جنہوں نے خدائی کا دعوی کیا تھا اور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ ہمیشہ اس دنیا میں ہی رہیں گے اور لوگ ان کے آگے سجدے کرتے رہیں گے ،مجاہدین فخر محسوس کرتے تھے کہ اللہ نے انہیں سعادت عطا فرمائی ہے کہ فرعونوں کی اس سرزمین پر دین اسلام کا پرچم گاڑیں، اور لوگوں کے دلوں کو اللہ کے نور سے منور کر دیں۔
عظمت رفتہ کے ان آثار کے گردوپیش پھیلے ہوئے وسیع و عریض سبزہ زار تھے جنہوں نے عرب کے ان مجاہدین کو مخمور سا کر دیا۔ ایسے سبزہ زار عراق اور شام میں بھی تھے، لیکن مصر کے اس قدرتی حُسن میں کوئی اور ہی بات تھی ان سبزہ زاروں میں قبل از مسیح کے صدیوں پرانی تہذیب جیسے اب بھی نظر آ رہی تھی ،اور کبھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ علاقہ اس تہذیب و تمدن کا مدفن ہو اور اس پر اللہ نے یہ سبزہ اگا دیا ہو ، اس لیے نہیں کہ وہ تہذیب وتمدن اللہ کو عزیز تھا بلکہ اس لئے کہ لوگ دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔
بعض کھنڈرات خاموش زبان میں بتاتے تھے کہ کبھی وہ کیا ہوا کرتے تھے، اور ان کی شان و شوکت تھی، ان کی دیواروں پر اس دور کے کاریگروں نے خاکے اور تصویریں کندہ کردی تھیں صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ دیویوں اور دیوتاؤں کی شبیہیں ہیں جنہیں اس دور کے لوگ معبود سمجھتے تھے اور یہ ان کی عبادت گاہیں تھیں۔
بابلیون کے قریب ہیں ایسی ایک بہت بڑی عبادت گاہ تھی جسے فتاح کہتے تھے، اس میں سورج کی عبادت کی جاتی تھی ۔
کچھ دور ایسی ایک اور عبادت گاہ تھی جسے سرابیوم کہتے تھے اس میں ایک گائے کے بچھڑے کا بت تھا جو ابھی تک صحیح و سالم کھڑا تھا اس کا نام ایبس تھا ۔ اس عبادت گاہ کے عقب میں بہت سی قبریں تھیں ۔
مجاہدین کو بتایا گیا کہ یہ ان بچھڑوں کی قبریں ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے اور پھر انہیں قربان کردیا جاتا ہے ۔جب عیسائیت کے پیروکار حملہ آور مصر میں داخل ہوئے اور اپنی حکومت قائم کرلی تو انہوں نے ان عبادت گاہوں کو بند کردیا ، لیکن چوری چھپے یہ عبادت جاری رہی۔
یہ سعادت بھی اللہ نے مسلمانوں کے حصے میں لکھی کے باطل کی عبادت ہمیشہ کے لئے ختم کر دی اس کی جگہ وہ دین حق لائے جسے تا قیامت زندہ و پائندہ رہنا ہے۔

بابلیون میں مسلمانوں نے نظم و نسق شہری انتظامات اور امن و امان بحال کر دیے تھے، بغاوت کے کوئی آثار نہیں رہے تھے بلکہ قبطی عیسائی عملاً اپنی وفاداری کا اظہار کر رہے تھے ۔ان میں سے بہت سے عیسائی واپس آگئے تھے جو مسلمانوں کی یلغار کے دوران گھر بار چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ،انھیں پتہ چلا کہ مسلمانوں سے تو وہ بلاوجہ ڈرتے رہے ہیں امن وامان تو مسلمان ہی لائے ہیں اور ایک ادنیٰ شہری کو بھی انہوں نے اس کا وقار اور اس کے حقوق دے دیے ہیں۔
ایک روز ایک ضعیف العمر آدمی لاٹھی کے سہارے چلتا سپہ سالار عمرو بن عاص سے ملنے آیا، عمرو بن عاص نے حکم دے رکھا تھا کہ ان سے ملنے کوئی کتنا ہی معمولی اور ادنیٰ آدمی کیوں نہ آئے اسے ٹالنا نہیں اور ان سے ملوا دینا ضروری سمجھا جائے، اگر سپہ سالار وہاں موجود نہ ہو تو اس کی بات سن لی جائے اور اگر کوئی شکایت ہو تو اس کا ازالہ فوراً کیا جائے۔
ضعیف العمر آدمی سے سپہ سالار کے ایک محافظ نے پوچھا کہ وہ سپہ سالار سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟،،،،، اس نے بتایا کہ اس کی کمسن پوتی لاپتہ ہو گئی ہے ،اس نے پوتی کی عمر پندرہ سولہ سال بتائی ،محافظ نے فوراً سپہ سالار کو اطلاع دی اور عمرو بن عاص نے اسے فوراً اپنے پاس بلایا۔
اس لرزتے کانپتے بوڑھے نے بتایا کہ اس کی پوتی اس وقت لاپتہ ہوئی ہے جب رومی فوج اور کچھ شہری یہاں سے نکل رہے تھے وہ سمجھتا تھا کہ کوئی فوجی یا شہری اسے اغوا کرکے لے گیا ہے اس وقت تک اس کی پوتی گھر میں محفوظ تھی۔
میں خوشامد کی بات نہیں کررہا سپہ سالار۔۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ مجھے کسی مسلمان پر شک نہیں کہ اس نے میری پوتی کو اٹھا لیا ہو گا، تم لوگوں نے ہماری عزتیں محفوظ کر دی ہیں اس کے باوجود میں نے اپنی پوتی کو گھر میں چھپا کر رکھا ہوا تھا، وہ معمولی شکل و صورت کی ہوتی تو پھر مجھے کوئی ڈر نہ ہوتا، خطرہ یہ نظر آتا رہتا تھا کہ بچی بہت خوبصورت ہے ،اور جسے بہت اچھی لگی وہ اسے اٹھالے جائے گا ،میں تمہارے لشکریوں سے ڈرتا رہا ہوں لیکن ایک مہینہ ہوا مجھے تسلی ہو گئی کہ مسلمانوں سے ڈرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، بچی کو میں نے تھوڑی دیر کے لئے باہر جانے کی اجازت دے دی کل ہی وہ باہر نکلی پھر واپس نہیں آئی۔
بوڑھا اس سے آگے بول نہ سکا اس کے آنسو بہے جا رہے تھے اور اس کی ھچکیاں نکلنے لگی ۔ وہ چپ ہو گیا سپہ سالار عمرو بن عاص نے اسے بڑی شفقت سے کہا کہ اس کی پوتی کو تلاش کیا جائے گا اور ان شاءاللہ وہ مل جائے گی پھر اسے اغوا کرنے والوں کو اس کے سامنے سزا دی جائے گی۔
بوڑھے نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں عمرو بن عاص کو بتایا کہ گمشدہ پوتی کی ماں جوان اور خوبصورت تھی اس کی کوئی اور اولاد نہیں تھی، جب بابلیون میں مسلمان فاتحین کی حیثیت سے داخل ہوئے اور رومی فوج نکل رہی تھی تو چار رومی فوجیوں نے اس کے گھر پر ہلہ بول دیا۔
بوڑھے نے پوتی کو اندر کہیں چھپا دیا اور فوجیوں نے اس کی ماں کو پکڑ لیا بچی کا باپ بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تو ان فوجیوں نے اسے تلوار مار مار کر کاٹ پھینکا اور پھر اس بچی کی ماں کے ساتھ اجتماعی طور پر ایسا وحشیانہ سلوک کیا کہ وہ مر گئی پھر ان فوجیوں نے گھر میں جو ٹرنک رکھے تھے کھولے اور ان میں تھوڑا سا سونا اور کچھ رقم تھی وہ لے گئے۔
اے قابل قدر سپہ سالار!،،،،، اس ضعیف العمر آدمی نے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔۔میں نے زمانے کے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں وہ دور بھی یاد ہے جب آتش پرستوں نے مصر کو فتح کرلیا تھا، پھر رومی آئے ،اور اب تم آئے ہو ، نہ آتش پرستوں کے دلوں میں انسانیت کا درد تھا ،نہ رومیوں میں، میں ان کے دور حکومت میں شکایت لے کر آتا تو مجھے محل کے دروازے سے دھتکار یا دھکے دے کر رخصت کردیا گیا ہوتا، تمہارے پاس بھی یہی توقع لے کر آیا تھا لیکن تم نے مجھے فوراً اپنے پاس بلا لیا، تو میں تمہیں دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں کہ یہ تو انسان لگتا ہے لیکن ہے فرشتہ۔ پھر جس طرح تم توجّہ اور ہمدردی سے میری شکایت سن رہے ہو اس سے میں اور زیادہ حیران بھی ہو رہا ہوں اور پریشان بھی۔
میرے بزرگ!،،،،، عمرو بن عاص نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ حیران بھی نہ ہوں، اور پریشان بھی نہ ہوں، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ تم صرف مطلب کی بات کرو اور مجھے یہ نہ بتاؤں کہ اچھا کون تھا اور برا کون ہے ،کوئی ایسی بات کرو جس سے مجھے تمہاری بچی کا سراغ لگانے میں مدد ملے۔
بوڑھے کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی پوتی کو کس نے اغوا کیا ہے یا وہ اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ چلی گئی ہے، وہ اپنی پوتی کے لیے بہت ہی جذباتی تھا اس کے آنسو بہے جارہے تھے اور اس نے یہ سنانا شروع کردیا کہ پوتی اس کے ساتھ کتنا پیار کرتی تھی، پوتی کہا کرتی تھی کہ جب تک دادا زندہ ہے وہ شادی نہیں کرے گی، دادا یہ تسلیم ہی نہیں کرتا تھا کہ اس کی پوتی پندرہ سولہ سال کی ہوگئی ہے ،وہ اسے دو یا تین سال کی بچی سمجھ کر اپنے ساتھ سلاتا اور دن بھر اس کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔
میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا اے سپہ سالار۔۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ میں چاہتا ہوں کے مرنے سے پہلے اسے دیکھ لو اور مجھے یقین آجائے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلا کر کہا کہ اس بوڑھے کو عزت سے اپنے پاس بٹھائیں اور پولیس کے بڑے افسر کو بلا لائیں۔
پولیس کا بڑا افسر آیا تو عمرو بن عاص نے اسے بڑی سختی سے کہا کہ وہ اس بوڑھے کی پوتی کو تلاش کرے ۔ پولیس کا یہ افسر قبطی عیسائی تھا اور یہ بوڑھا بھی قبطی عیسائی تھا۔
ایک بار سن لو جوزف!،،،، عمرو بن عاص نے پولیس کے اس حاکم سے کہا۔۔۔ معلوم نہیں ہرقل کے دورحکومت میں تم لوگ اس قسم کی شکایت پر کیا رویہ اختیار کرتے تھے لیکن ہمارے لئے ایک لڑکی کا لاپتہ ہو جانا کوئی معمولی واقعہ یا جرم نہیں، اگر ہم ایک شہری کی شکایت رفع نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اپنا فرض ادا نہیں کررہے ۔
حقیقت یہ ہے سپہ سالار۔۔۔ جوزف نے کہا۔۔۔ آپ سے پہلے ایسی کوئی شکایت اوپر تک پہنچتی ہی نہیں تھی ،اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ کسی کو کبھی کوئی شکایت ہوئی ہی نہیں اصل میں کوئی جرات نہیں کرتا تھا کہ ایسی شکایت لے کر کسی بڑے حاکم کے پاس چلا جائے ،کیوں کہ ہر کسی کو معلوم تھا کہ نہ صرف یہ کہ سنوائی نہیں ہوگی بلکہ بےعزتی کر کے بھگا دیں گے۔
اب ذہن میں رکھ لو کہ رومی حکمران چلے گئے ہیں اور یہاں اللہ کی حکمرانی ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔اب یہاں اللہ کا قانون چلتا ہے جس میں کسی کی حیثیت دیکھے بغیر انصاف ملتا ہے، میں ذرا سی بھی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا اور مجھے زیادہ سے زیادہ ایک دن میں بتایا جائے کہ کیا کوشش ہوئی اور لڑکی کا کچھ سراغ ملا ہے یا نہیں، اس بوڑھے کو لے جاؤ اور دلجمعی اور محنت سے سراغرسانی کرو۔
جوزف نے سپہ سالار کو یقین دلایا کہ وہ کوتاہی نہیں کرے گا، پھر اس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ لڑکی جوان ہو گئی ہے اور ہوسکتا ہے وہ اپنے کسی چاہنے والے کے ساتھ چلی گئی ہو ۔
عمرو بن عاص نے یہ رائے سن کر کہا کہ یہ معلوم کرنا اس کا کام ہے کہ وہ اپنے مخبروں سے اور ادھر ادھر سے پوچھ کر معلوم کرے کہ لڑکی کسی سے ملتی ملاتی ہوگی، ایسی ملاقاتیں چھپ نہیں سکتی۔
محترم سپہ سالار !،،،،،جوزف نے کہا ۔۔۔ایک امکان اور ہے شاید اس طرف دھیان نہ دیتے، لیکن میں چونکہ سراغ رساں ہوں اس لیے ایسے واقعات کے ہر پہلو پر غور کرتا رہا ہوں اور گہرائی میں بھی گیا ہوں یہ الگ بات ہے کہ عملاً کچھ بھی نہیں کر سکتا ،میں نے دیکھا ہے کہ ہر تین سال بعد اسی عمر کی ایک لڑکی اغوا ہوتی ہے اور پھر اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا، اس سے پہلے جو لڑکیاں اغواء ہوئی ہے وہ بابلیون کی نہیں تھیں کسی بھی شہر یا گاؤں سے ایک کمسن لڑکی اغوا ہوتی رہی ہے، یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص اتنی لمبی بات سننے کے عادی نہیں تھے دوٹوک بات کرتے اور دوٹوک بات سنتے تھے۔ انہوں نے جوزف سے کہا کہ وہ فوراً اصل بات پر آجائے۔
معافی چاہتا ہوں سپہ سالار!،،،،، جوزف نے کہا ۔۔۔میں بات صرف اس لئے لمبی کر رہا ہوں کہ آپ اچھی طرح سمجھ لیں یہ آپ کے لیے ایک نئی بات ہے یہاں سے کچھ دور ایک قدیم عبادت گاہ ہے جس کا نام سرابیوم ہے، آپ نے شاید اس عبادت گاہ کے کھنڈرات دیکھے ہوں گے ہو سکتا ہے آپ اندر بھی گئے ہو ، ان کھنڈرات میں سے ایک راستہ ایک اور طرف کھلتا ہے جس سے باہر کا کوئی آدمی واقف نہیں ،غار جیسا ایک دہانہ ہے جس کے اندر ایک اور دنیا آباد ہے۔
ہاں جوزف میں ان کھنڈرات کے اندر گیا تھا۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ دور اندر تک نہیں گیا، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ ایک فرقے کی عبادت گاہ ہے اور اسے سرابیوم کہتے تھے،،،،،،، اب موقع نکال کر اس غار کے اندر بھی جاؤں گا جس کا تم نے ذکر کیا ہے۔
کبھی ایسی جرات نہ کرنا سپہ سالار !،،،،جوزف نے کہا ۔۔۔آپ چلے تو جائیں گے لیکن واپس نہیں آسکیں گے، مجھے معلوم ہے اور شاہ ہرقل کو بھی معلوم تھا ،اور شاہ ہرقل کے بیٹے قسطنطین کو بھی اس غار کا راز معلوم تھا پہلے میں یہ بتاتا ہوں کہ اس کے اندر کیا ہوتا ہے، وہاں ابھی تک عبادت ہو رہی ہے اس فرقے کے کچھ پیروکار موجود ہیں۔
اس عبادت گاہ میں غالباً ایبس نام کے بچھڑے کی عبادت ہوتی تھی۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔
ہاں میرے محترم سپہ سالار!،،،،، جوزف نے کہا ۔۔۔آپ نے ان کھنڈرات میں ایبس بچھڑے کا بت دیکھا ہوگا میں نے چونکہ پوری سراغ رسانی اور تحقیقات کی ہے اس لیے وثوق سے بتا رہا ہوں کہ وہاں اب بھی اس بچھڑے کی عبادت ہوتی ہے اور ہر تین سال بعد ایک بچھڑے اور اس کے ساتھ ایک نو عمر کنواری لڑکی کی قربانی بھی دی جاتی ہے۔
تم لوگ تو عیسائی تھے ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔شاہ ہرقل تو کٹر عیسائی تھا کیا اس نے یہ ظالمانہ عبادت بند نہیں کروا دی تھی، مجھے بتایا گیا تھا کہ مصر میں عیسائیت کی حکومت آتے ہی ایسی تمام عبادت گاہیں بن کر دی گئی تھی، جن میں سورج کے پجاریوں کی بھی عبادت گاہ تھی۔
قابل احترام سپہ سالار!،،،،، جوزف نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لا کر کہا۔۔۔۔ آپ کو ٹھیک بتایا گیا ہے کہ شاہ ہرقل نے ایسے تمام قدیم معبد اور مندر بالکل ہی بند کروا دیے تھے۔ لیکن سرابیوم کو بند نہ کروا سکا نہ کروا سکتا تھا۔ لیکن شاہ ہرقل وہمی آدمی تھا اس کا اصل مذہب شہنشاہیت تھا اور یہ بھی کہ وہ اسکندر اعظم کی طرح ساری دنیا کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرنا چاہتا تھا عیسائیت اس کی نگاہ میں ثانوی بلکہ غیر اہم حیثیت رکھتی تھی،،،،،،،
شاہ ہرقل سرابیوم کی عبادت گاہ بھی بند کروا دی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس فرقے کا نام و نشان مٹ گیا ہے، لیکن کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ کھنڈرات کے اندر ڈھکا چھپا ایک راستہ ہے جس میں داخل ہو جاؤ تو آگے عبادتگاہ آجاتی ہے، یہاں ابھی تک ایبس بچھڑے کو پوجا جا رہا ہے۔ شاہ ہرقل نے ایک جرنیل سالقوس کو حکم دیا کہ وہ جاکر اس عبادت گاہ کو بند کروا دے اور وہاں جو کوئی بھی ہے اسے پکڑ کر باہر لائے اور قتل کردے،،،،، جرنیل سالقوس کچھ فوجی ساتھ لے کر گیا، اور شام کو شاہ ہرقل کو یہ اطلاع ملی کہ یہ جرنیل اپنی فوجی جماعت کے ساتھ اندر چلا گیا تھا لیکن کہیں سے ایک تیر آیا جو اس کے پہلو میں اتر گیا اور جرنیل مارا گیا اس کے باقی فوجی وہاں سے بھاگ گئے ، اگلے ہی روز شاہ ہرقل ایسا بیمار پڑا کے اس کے بچنے کی کوئی امید ہی نہ رہی، طبیبوں نے بڑی مشکل سے اسے صحت یاب کیا ، ایک فوجی نے بتایا کہ ان تاریک کھنڈرات کے اندر سے ایک آواز آئی تھی کہ اس عبادت گاہ پر جو بادشاہ ہاتھ رکھے گا وہ زندہ نہیں رہے گا اور اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی،،،،،،
شاہ ہرقل پر یہ وہم طاری ہو گیا کہ اس کی یہ پراسرار بیماری اس کے اس اقدام کا نتیجہ تھی جو اس نے سرابیوم کے خلاف کیا تھا۔ سالقوس جیسا قابل اور تجربہ کار جرنیل مارا گیا ۔پھر وہ وقت آیا جب شاہ ہرقل ملک شام فتح کرلیا اور اب وہ عراق اور عرب کو بھی فتح کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا ۔فارس بہت بڑی جنگی طاقت تھی جسے آپ نے توڑا ہے، شاہ ہرقل فارس سے سارے علاقے چھین لینا چاہتا تھا اس نے مصر اور شام سے فارسیوں کو بے دخل کر کے بھگا دیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ روم فارسیوں کے ٹکر کی جنگی طاقت تھی۔ شاہ ہرقل نے فارسیوں کو شکست دے کر اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرلیا تھا کہ اب اس کے سامنے آنے والی کوئی اور جنگی طاقت نہیں رہی اور اب وہ ساری دنیا کا فاتح ہوگا۔
لیکن جوزف!،،،، عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔اس میں مجھے کوئی شک نہیں کہ روم فارس کی ٹکر کی جنگی طاقت تھی لیکن فارسی اور ادھر رومی یہ ذہن سے اتار بیٹھے تھے کہ اوپر ایک اور طاقت ہے جو جسے چاہے طاقتور بنا دے اور طاقتوروں کو اتنا کمزور کردے کہ وہ حشرات الارض بن جائیں ۔ کیا ہم مسلمان جنگی طاقت کے لحاظ سے کسی شمار میں آتے تھے؟
میں یہی کہنا چاہتا ہوں سپہ سالار!،،،، جوزف نے کہا۔۔۔ پہلے مجھے سرابیوم کی عبادت گاہ کی بات کر لینے دیں،،،،،،،، شاہ ہرقل شام میں تھا پیچھے مصر میں اس کا بیٹا قسطنطین تھا جو مصر کا قائم مقام حکمران بھی تھا اور جرنیل بھی، جوان آدمی تھا اور وہ اس قابل تھا کہ اسے جرنیل بنایا جاتا ، سلطنت کا وفادار تھا اور بڑا ہی قابل جرنیل ، اس کے کان میں سرابیوم کی عبادت گاہ کی بھنک پڑی ،کسی ذریعے سے اسے معلوم ہوا کہ وہاں ہر تین سال بعد ایک گائے کے بچھڑے کی اور کمسن لڑکی کی قربانی دی جاتی ہے۔ قسطنطین نے حکم دیا عبادت گاہ کو بالکل تباہ کر دیا جائے اور بچھڑے کا بت توڑ کر باہر پھینک دیا جائے اور یہ عبادت گاہ چلانے والوں کو قتل کر دیا جائے،،،،،،،،
فوجی گئے اور نہ صرف ناکام لوٹے بلکہ چار پانچ فوجی پراسرار طریقے سے مارے گئے اور باقی ایسی خوفزدگی کے حالت میں واپس آئے کہ ان میں سے کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلتی تھی، یہ سب بولنے کے قابل ہوئے تو ہر ایک نے یہی ایک بات بتائی کہ کہیں سے ایک آواز آتی تھی کہ جو کوئی اس عبادت گاہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود تباہ ہو جائے گا،،،،،،،
ہم میں سے کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عرب کے ریگزاروں میں سے ایک قوم اٹھے گی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف غالب آجائے گی مجھے یاد ہے کہ جب آپ کی قوم کے ساتھ آٹھ ہزار نفری کے لشکر نے ملک شام پر پہلا حملہ کیا تھا تو شاہ ہرقل نے نفرت سے کہا تھا کہ چند گیدڑ ایک شیر کے مقابلے کو آئے ہیں، لیکن جنہیں اس نے گیدڑ کہا تھا انہوں نے شاہ ہرقل کو شام سے اس طرح پسپا کیا کہ اس کی زیادہ تر فوج کٹ گئی اور باقی تتربتر ہو کر بھاگی ۔
آپ کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ ہمارا ایک جرنیل کمک لے کر شام گیا تھا لیکن اس وقت وہاں پہنچا جب ہماری فوج پسپا ہو رہی تھی،،،،،
اس جرنیل نے شاہ ہرقل کو بتایا کہ قسطنطین نے سرابیوم کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اس نے پوری بات سنائی۔
پھر قسطنطین کو بہت ڈانٹا کے اس نے اس عبادت گاہ پر ہاتھ ڈالا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک گمنام قوم کا مٹھی بھر لشکر ہمارے قدم اکھاڑ چکا ہے، اور اس نے ملک شام پر قبضہ کر لیا ہے وہ کہتا ہے کہ اس عبادت گاہ کی توہین کی سزا ہے ،،،،،،میں نے آپ کو بتایا ہے کہ شاہ ہرقل وہمی آدمی تھا۔
جوزف!،،،،،،، سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ انسان جسمانی طور پر کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ صرف ایک کوئی سا وہم ذہن میں بٹھا لے تو اس کی جسمانی طاقت کسی کام نہیں آئے گی، ہم اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں جو یہ ہے کہ اصل طاقت اور حکمرانی اللہ کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور کوئی وہم نہیں، کیا تم نے دیکھ نہیں لیا کہ میرے ساتھ کتنی کچھ جنگی طاقت ہے لیکن اس لشکر کی فتوحات دیکھ لو یہ میری طاقت نہیں یہ اللہ کی طاقت ہے ،اور ہم پر کوئی وہم طاری نہیں۔
صرف میں نہیں سپہ سالار!،،،، جوزف نے کہا۔۔۔ میرے ساتھہی اور مجھ سے اوپر کے رتبوں کے قبطی عیسائی اسلام قبول کریں یا نہ کریں یہ مان گئے ہیں کہ عرب کے ان مسلمانوں کے پاس کوئی روحانی طاقت ہے ورنہ فارسیوں اور رومیوں کو کوئی اس طرح شکست نہیں دے سکتا ، کسریٰ ایران کا صرف نام باقی رہ گیا ہے، آپ نے مصر لے لیا ہے اور اب دیکھتے ہیں کہ قسطنطین باقی مصر کو آپ سے بچاتا ہے یا نہیں۔
اس وقت ہم ایک لڑکی کی گمشدگی کی بات کر رہے ہیں اس لئے میں کوئ اور بات چھیڑنا نا مناسب سمجھتا ہوں۔
اگر کوئی ضروری بات ہے تو وہ مختصراً بتا دو۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔پوری بات پھر کبھی سن لوں گا۔
بات تو لمبی ہے سپہ سالار!،،،،،، جوزف نے کہا۔۔۔۔ ذرا سا اشارہ دیتا ہوں بزنطیہ میں شاہ ہرقل کے مرنے کے بعد شاہی محل میں تخت و تاج کی وراثت پر رسا کشی شروع ہوچکی ہے اور ہوسکتا ہے یہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلے ملکہ مرتینا کو تو میں جادوگرنی کہوں گا وہ جو چاہتی ہے کر بھی لیتی ہے اور دوسروں سے کروا بھی لیتی ہے ۔ نئی خبر یہ ہے کہ قسطنطین نے شاہ ہرقل کے بنائے ہوئے اسقف اعظم قیرس کو جلاوطنی سے واپس بلا لیا ہے۔ وہاں اگر کسی کو مصر کا غم ہے تو وہ صرف قسطنطین ہے۔ ملکہ مرتینا اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانا چاہتی ہے ان حالات میں مصر کی رومی فوج کو شاید بزنطیہ سے کمک نہ ملے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص بزنطیہ کی بات سننا تو چاہتے تھے لیکن اس وقت ان کے ذہن پر یہ لڑکی سوار تھی اس کے علاوہ وہ اس کشمکش سے بے خبر نہ تھے جو بزنطیہ کے شاہی محل میں چل رہی تھی، انہیں اپنے خفیہ ذرائع سے وہاں کی خبریں مل رہی تھی، انہوں نے جوزف سے پوچھا کہ اس کی رائے کیا ہے؟
لڑکی اسی عبادت گاہ سے ملے گی۔۔۔ جوزف نے کہا۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ تین سال پہلے ایک لڑکی روضہ جزیرہ سے لاپتہ ہو گئی تھی،یہ الگ بات ہے کہ اس کے باپ کی شکایت کسی نے نہیں سنی تھی آپ سوچ لیں کہ ان کھنڈرات میں کچھ آدمیوں کو بھیجنے کا خطرہ مول لیں گے یا نہیں۔
تم شاید نہ سمجھ سکو جوزف!،،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ مجھے اپنی جان کا خطرہ بھی مول لینا پڑا تو لونگا میں اس لڑکی کے باپ کے آگے نہیں اپنے اللہ کے آگے جواب دہ ہوں ، اس کے بعد میں اپنے امیرالمومنین کے آگے جواب دہ ہوں، رہی بات لڑکی کے باپ کی تو لڑکی کی گمشدگی کی شکایت کے بعد میں لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھنا فرض سمجھتا ہوں ،میں نے اتنی لمبی بات کبھی نہیں سنی آج صرف اس لئے سنی ہے کہ شاید کوئی بات میرے فرض کی ادائیگی میں میری مدد کر سکے۔
عمرو بن عاص نے اسی وقت اپنے سب سے زیادہ نڈر اور خطرہ مول لینے والے سالار زبیر بن العّوام رضی اللہ عنہ کو بلایا انہیں لڑکی کی گمشدگی کی بات مختصراً سنا کر کہا کہ وہ جوزف کو ساتھ لیں اور کوئی ایسے ایک دو آدمی بھی ساتھ لے لیں جو ان کھنڈرات سے پوری طرح واقف ہو، اور جتنے مجاہدین ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لے جائیں اور وہاں چھاپہ ماریں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ لڑکی وہاں سے نہ ملی تو اس کی عبادت گاہ کو تباہ کر دیں ،اور وہاں جو آدمی ہوں انہیں پکڑ کر لے آئیں۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

ایک اطالوی وقائع نگار رونا لیتینی نے تاریخ کی خاک چھان کر اس قسم کے واقعات ذرا تفصیل سے بیان کئے ہیں ، تین بڑے مؤرخوں نے صرف اشارۃً ذکر کیا ہے بہرحال یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ سالار زبیر بن الّعوام آٹھ مجاہدین کو ساتھ لے کر سرابیوم کے کھنڈرات میں چلے گئے پولیس کا سب سے بڑا افسر صاحب الاحداث جوزف ساتھ نہیں گیا تھا اس نے سالار زبیر کو دوگائیڈ دے دیے تھے جو ان کھنڈرات سے واقف تھے اور بوقت ضرورت لڑنے کا تجربہ بھی رکھتے تھے ۔ جہاں تک واقفیت کا تعلق تھا ان کھنڈرات کو بے شمار لوگ دیکھ چکے تھے اور مجاہدین نے بھی ان کھنڈروں کی سیر کر لی تھی لیکن ان کے خفیہ گوشوں سے کوئی کوئی واقف ہو گا ۔ ان دونوں آدمیوں سے پوچھا گیا کہ وہ ان کھنڈروں کے اس حصے سے واقف ہیں یا نہیں جہاں عبادت گاہ بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اندر تو نہیں گئے نہ ہی کوئی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ اس حصے میں بھی گیا ہے لیکن وہ اتنا بتا سکتے ہیں کہ وہ حصہ کہاں سے شروع ہوتا ہے۔
سالار زبیر بن العّوام صرف نڈر اور بے خوف ہی نہیں تھے بلکہ عقل و دانش کے لحاظ سے کوئی کوئی ہی ان کی برابری کا دعویٰ کر سکتا تھا ۔ انہوں نے جوزف کو الگ بیٹھا کر بڑی باریکی سے پوچھ لیا تھا کہ پہلے جو آدمی مارے گئے تھے وہ کس طرح مارے گئے تھے۔ اور کچھ دیگر معلومات بھی لے لی تھی۔ ایک روز پہلے وہ دن کے وقت وہاں چلے گئے اور اس طرح اندر گھومتے پھرتے رہے تھے جیسے کوئی اجنبی سیروسیاحت کے لئے آیا ہو، انہوں نے بالائی منزل میں جاکر بھی اندر کی دنیا دیکھ لی تھی۔
یہ کھنڈر صرف اتنے ہی نہیں تھے کہ ایک چار دیواری کی ہوتی اور اندر دو چار کمرے بنے ہوئے ہوتے، وہ تو کمروں اور راہداریوں کی ایک دنیا تھی جس کے اندر جاکر بھول بھلیوں سے سامنا ہوتا تھا اور یہ ڈر کے آدمی بھٹک جائے گا اور باہر نہیں نکل سکے گا ۔
ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا پھر بھی راہداریاں غلام گردشیں یہی تاثر پیدا کرتی تھیں کہ یہاں جو آئے گا وہ باہر نہیں جا سکے گا ۔
جس زمانے میں یہ عمارت صحیح سالم تھی اور یہاں باقاعدہ کھلے عام عبادت ہوتی تھی اس دور میں یہ یقیناً ایک پرشکوہ اور قابل عظمت عمارت تھی، کھنڈرات ہی اس کے حسن و عظمت کو بزبان خاموشی بیان کر رہے تھے ۔
اب تو چھتیں کہیں گری ہوئی اور کہیں جھکی ہوئی تھیں، دیواریں بھی ایسی کے ان پر ہری کائی جم گئی تھیں، اور کچھ دیوار آدھی اور کچھ زیادہ گری پڑی تھیں، اور بعض اس طرح کھڑی تھی کہ انہوں نے چھتوں کو سنبھال رکھا تھا ،ایک ہیبت تھی جسے کمزور دل آدمی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
جالے ایسے گھنے تھے کہ ان پر شک ہوتا تھا کہ یہ جالے نہیں بلکہ کپڑے لٹک رہے ہیں، جو میلے بھی ہیں اور چیتھڑے بھی بن گئے ہیں، ان جالوں میں مرے ہوئے بڑے چمگادڑ پھنسے ہوئے تھے اور ایک جال میں ایک آلو پھنسا ہوا تھا اور جالے میں سے نکل نہ سکا اور وہیں پھڑپھڑاتا مر گیا، کہیں سے ایک دو سانپوں کا نکل آنا حیرتناک نہ تھا۔
ایسی دیواریں بھی تھیں جن پر کائی نہیں جمی تھی ان کا پلستر ابھی تک محفوظ تھا اور اس پر اس دور کے مصوروں نے دیویوں اور دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں، یہ تصویریں تیزدھار یا نوکیلے اوزاروں سے کھودی گئی تھیں اور ان میں رنگ بھرے ہوئے تھے، اس لئے یہ صدیوں بعد بھی محفوظ تھیں،
ایک وسیع اور خاصہ کشادہ حال تھا جس کی آدھی سے زیادہ چھت گری ہوئی تھی اور سارا ملبہ فرش پر ڈھیروں کی صورت میں بکھرا ہوا تھا۔
حال کی ایک دیوار کے ساتھ چبوترا یا سٹیج بنا ہوا تھا اس سٹیج پر اور محفوظ دیواروں پر جو نقش و نگار اور مورتیاں بنی ہوئی تھیں ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ عبادت گاہ تھی۔
اس عبادت گاہ کا ایک دروازہ ایک اور کمرے میں کھلتا تھا ، یہ چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی وسعت دمیں تقریباً ایک گز جوڑا گول چبوترا بنا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد کچھ ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں جو یقینا انسانی جسم کی تھیں، یہی خیال آتا تھا کہ اس کمرے میں جان کی قربانی دی جاتی ہوگی اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہوگا کہ جسے قربان کرنا ہوتا اسے اس گول چبوترے پر بٹھا کر اس کا سر چبوترے پر رکھ دیتے اور تلوار یا کلہاڑی سے اس کی گردن کاٹ دیتے تھے۔
دو تین جگہوں سے سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں سالار زبیر بن الّعوام اوپر بھی گئے تھے ،اوپر تو سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا تھا کیونکہ جگہ جگہ سے چھت گری ہوئی یا جھکی ہوئی تھیں، محفوظ چھتوں پر چلنے سے بھی ڈر آتا تھا کہ یہ گر پڑیں گیں، اوپر بھی رہداریاں تھیں اور چھوٹے بڑے کمرے بھی تھے۔ سالار زبیر یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ پہلے کبھی جو آدمی مارے گئے تھے ان پر تیر کہاں سے چھوڑے گئے تھے، تیر انداز کسی ڈھکی چھپی جگہ ہی چھپے ہوئے ہونگے ۔ زبیر بن الّعوام کو کچھ ممکنہ جگہ نظر آئیں، وہ اتنا جانتے تھے کے تیر اندازوں کو پکڑنے کے لئے ایک دو آدمی قربان کرنے پڑیں گے۔
زبیر وہاں تک چلے گئے جہاں تک عام سیاح نہ جاسکے ہونگے، اس طرح وہ ایک دن پہلے جہاں تک اس کھنڈر کو دیکھ سکتے تھے دیکھا آئے تھے، لیکن انہوں نے وہ دہانہ یا دروازہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی جس کے آگے ابھی تک کی عبادت ہوتی تھی، یہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ انھیں کوئی دیکھ رہا ہے وہ اپنے خلاف کوئی شک پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

آدھی رات ہونے کو آئی تھی جب سالار زبیر بن العّوام دس آدمیوں کی جماعت کے ساتھ کھنڈرات کے قریب پہنچ چکے تھے، وہ ابھی اس وسیع وعریض میدانی علاقے میں تھے جس کے آگے کچھ چٹانیں آجاتی تھیں اور ان چٹانوں کے درمیان یا ساتھ ہی سرابیوم کے کھنڈرات تھے۔ چاند اس سے کچھ پہلے افق سے خاصا اوپر آ گیا تھا اور چاند تقریباً پورا تھا اس کی چاندنی بڑی ہی شفاف تھی۔
نظر خاصی دور تک کام کرتی تھی زبیر اپنی جماعت کو آخری بار ضروری ہدایات دیتے جارہے تھے وہ پیدل گئے تھے انہیں دور سے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی جو ابھی مدہم تھی تھوڑی دیر بعد گھوڑا اور اس کا سوار نظر آنے لگے، اگر وہ سوار زیادہ ہوتے تو سالار زبیر اور ان کی جماعت تلوار نکال کر مقابلے کے لیے تیار ہوجاتی لیکن وہ گھوڑا اور اس کا سوار اکیلا تھا قریب پہنچا تو اس نے گھوڑے کی لگام اتنی زور سے کھینچی کے گھوڑے نے چاروں سُم زمین میں گاڑ دیئے اور چند قدم آگے آکر رکا۔
سوار کود کر اترا اور سالار زبیر کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
سالار نے پوچھا کہ وہ کون ہے؟
میں ایلی کو ڈھونڈنے آیا ہوں۔۔۔ اس نے تیز تیز بولتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ پوچھتے ہو میں کون ہوں ۔۔۔میں ایلی کا سب کچھ ہوں اور ایلی میرے لیے سب کچھ ہے، ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر خالی اور کھوکھلے جسم بن جاتے ہیں، مجھے اپنے ساتھ لے چلو ، ایلی اگر ان کھنڈروں میں ہے تو میں اسے یہاں سے نکالنے کے لیے اپنی جان پر کھیل جاؤں گا۔
ایلی اس لڑکی کا نام تھا جسے یہ سب ڈھونڈنے اور اپنے ساتھ لانے کے لیے جارہے تھے۔
اور یہ گھوڑ سوار ایک نوجوان قبطی عیسائی تھا ۔اس نے بڑے ہی جذباتی لہجے اور انداز میں بتایا کہ ایلی اسے چاہتی تھی اور وہ ایلی کی محبت میں دیوانہ ہو چکا تھا ۔ اسے ایلی کے دادا نے اسی شام بتایا تھا کہ ایلی لاپتہ ہے اور یہ بھی بتایا کہ آج مجاہدین رات سرابیوم کے کھنڈروں میں جارہے ہیں۔
اس نوجوان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں سے سراغ لگائے کہ ان کھنڈروں میں جانے والے کون ہیں، اور وہ کس وقت روانہ ہو رہے ہیں ،وہ بھاگتا دوڑتا رہا اور کچھ ہی دیر پہلے کسی نے بتایا کہ ایک مسلمان سالار کے ساتھ دس آدمی شہر سے نکلے ہیں اس نوجوان نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اس کی محبوبہ ایلی کو ڈھونڈنے جا رہے ہیں۔ اس نے باپ کے گھوڑے پر زین ڈالی اور نکل کھڑا ہوا ، شہر کا صرف ایک دروازہ تھا جس سے رات کو انتہائی مجبوری کے تحت کسی کو باہر جانے دیا جاتا تھا ۔ اس نوجوان نے باہر کی یہ وجہ بتائی کہ اسے اس جماعت کے ساتھ شامل ہونا ہے جو ایک سالار کے ساتھ گئی ہے ۔ سالار کے نام سے اس کے لئے دروازہ کھل گیا اور وہ گھوڑاسرپٹ دوڑاتا سالار زبیر کے پاس جا پہنچا۔
اس نے سالار زبیر کو بتایا کہ ان کی محبت کا ایلی کے دادا کو اچھی طرح علم تھا ۔ دادا ایلی کو کسی اور سے ملنے نہیں دیتا تھا اور ایلی اتنی معصوم فطرت تھی کہ وہ کسی اور کی طرف دیکھتی بھی نہیں تھی، اس نوجوان نے جذبات سے مغلوب ہوکر رومانی سی باتیں شروع کر دیں کہ ان کی ملاقاتیں کیسی ہوتی تھی اور ایلی کس طرح باتیں کرتی تھی ، اس نے یہ بھی بتایا کہ ایلی نے اس کے ساتھ شادی کا وعدہ اس شرط پر کیا تھا کہ وہ اپنے دادا سے الگ نہیں ہوگی بلکہ اس نوجوان کو اس کے گھر میں رہنا پڑے گا۔
سالار زبیر بن العّوام نے اسے کہا کہ جس مہم پر جا رہے ہیں وہ اس کے بس کی بات نہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ جذباتی ہوکر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے کہ مہم سر ہوتے ہوتے ناکام ہو جائے اور پوری جماعت ہلاکت میں پڑ جائے، لیکن یہ نوجوان ایسا ضدی نکلا کہ اس نے منتیں شروع کر دیں اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ نہ گیا تو یہ ایلی سے اس کی بے وفائی ہوگی ۔ آخر اسے ساتھ لے لیا گیا اور سالار زبیر نے اسے کچھ ہدایت دیں اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ رہے اور بالکل الگ نہ ہو۔
جانبازوں کی اس جماعت میں چار مجاہدین کے پاس تلواروں کے علاوہ کمانیں تھیں، اور ایک ایک تیرکش تیروں سے بھری ہوئی بھی تھیں، باقی سب کے پاس تلواریں تھیں اور دو کے پاس تلواروں کے علاوہ برچھیاں بھی تھیں، ان کے پاس چار پانچ مشعلیں بھی تھیں، لیکن انہیں بوقت ضرورت سالار کے کہنے پر جلانا تھا۔
سالار زبیر کو امید تھی کہ اتنے روشن چاند کی چاندنی گری اور جھکی ہوئی چھتوں اور گری ہوئی دیواروں سے کھنڈر کے اندر جاتی ہوگی اور یہ روشنی کافی ہوگی۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ یہ مہم مشعلوں کی روشنی کے بغیر سر کی جائے ۔
آگے چل پڑے لیکن اس نوجوان کے پاس گھوڑا تھا جسے آگے نہیں لے جانا تھا۔ کچھ آگے جہاں سے چٹانیں شروع ہوتی تھیں وہاں درخت بھی تھے گھوڑا ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا گیا اور یہ جماعت آگے چلی گئی۔
اور جب کھنڈرات میں داخل ہونے لگی تو سالار زبیر رک گئے۔
آخری بات سن لو ۔۔۔سالار زبیر نے کہا۔۔۔ یہ ذہن میں رکھ کر ان کھنڈرات میں داخل ہونا کے انہیں کسی کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے ، یہ بھی سوچ لو کہ ہم میں کچھ ایسے بھی ہونگے جو زندہ واپس نہیں جا سکیں گے، اللہ کا نام لو اور آگے بڑھو۔

کھنڈرات میں داخل ہوئے دونوں گائیڈ آگے آگے تھے ۔ سالار زبیر بن العّوام نے ایک روز پہلے اندر جاکر راستے دیکھ لیے تھے ،گائیڈ انہیں کسی اور طرف لے جارہے تھے ،سالار نے بڑی دھیمی آواز میں کہا کہ اب تیر انداز ایک ایک تیر کمانوں میں ڈالل لیں اور دوسرے اپنی تلوار نکال لیں۔
چاندنی اندر آ تو رہی تھی لیکن بعض راہداریاں بالکل تاریک تھیں اندر خاموشی طاری تھی اس ہیبت ناک خاموشی کو ایک الّو کی آواز نے توڑا الّو تین بار بولا ایسے بھیانک کھنڈروں میں الو ہی بول سکتا تھا۔
یہ الو کی آواز ہے۔۔۔ سالار زبیر بن العّوام نے کہا۔۔۔ لیکن یہ کسی انسان کے منہ سے نکلی ہوئی آواز بھی ہو سکتی ہے۔ اس عبادت گاہ کے چوکیدار نے آلو کی طرح بول کر اپنے سوئے ہوئے ساتھیوں کو خبردار کیا ہوگا۔
راہداریوں کے چند ایک موڑ مڑ چکے تو ایک کھلا راستہ آ گیا، اچانک یوں ہوا جیسے بڑی ہی تیز آندھی آ گئی ہو اور اس کے ساتھ ہلکی ہلکی چیخیں سنائی دینے لگی ،گائیڈ فوراً بیٹھ گئے اور باقی سب سے کہا کہ وہ بھی بیٹھ جائیں ۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہوا کے تیز جھونکے سر کے اوپر سے گزر رہے ہوں۔ یہ کوے جتنے بڑے بلکہ اس سے بھی بڑے پروں والے چمگادڑ تھے جو چھتوں کے ساتھ الٹے لٹکے رہتے تھے ان کے دنیا میں ذرا سی بھی مداخلت ہو تو یہ اسی طرح سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں اڑ جاتے ہیں اور سب کا رخ ایک ہی طرف ہوتا ہے۔
یہ طوفان باہر نکل گیا تو جانبازوں کی یہ جماعت اٹھ کر آگے کو چلی، اس کھنڈر کا صحن تھا ہی نہیں چھتیں ہیں چھپیں تھیں، دو تین کشادہ کمروں اور برآمدوں میں سے گزرے تو ایک گری ہوئی چھت سے چاندنی آرہی تھی اور اندر کا سارا منظر نظر آرہا تھا۔ ایک طرف سیڑھیاں تھیں سالار زبیر نے ان سیڑھیوں کو پہچان لیا اور اپنی جماعت کے اس آدمی کو سیڑھیوں پر چڑھ جانے کو کہا جسے وہ پہلے بتا چکے تھے کہ اوپر جا کر کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے یہ جانباز مجاہد تیر انداز تھا۔
اسی طرح دو اور سیڑھیوں سے سالار زبیر نے دو جانبازوں کو اوپر بھیج دیا انہیں خبردار کردیا گیا تھا کہ چھتیں کچھ تو گری ہوئی ہیں اور کچھ ویسے ہی جھک گئی ہیں ان سے خبردار رہیں ورنہ نیچے آپ پڑیں گے۔
کبھی تو یوں چیخ نما آواز آتی تھی جیسے چڑیلیں چینخ اٹھی ہوں، قدم گھسیٹنے کی بھی کہیں سے آواز آتی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے مرے ہوئے گنہگاروں کی بدروحیں اس ہیبت ناک ویرانے میں گھوم پھر رہی ہوں، لگتا یوں تھا جیسے یہ بد روحیں کسی نہ کسی روپ میں نظر آ جائیں گی لیکن وہاں ملبے کے ڈھیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ آخر جانبازوں کی یہ جماعت اس ہال میں جا پہنچی جہاں ایک دیوار کے ساتھ سٹیج سا چبوترا بنا ہوا تھا، یہ اس ہال کے نصف چوڑائی جتنا لمبا تھا اس کے دونوں طرف اس کے آگے بھی ملبہ پڑا ہوا تھا۔
دونوں گائیڈ آگے چلے گئے اور ملبے کے ایک ڈھیر پر جا چڑھے ان دونوں میں سے ایک کی ہلکی سی چیخ سنائی دی دوسرا دوڑتا ہوا ملبے کے ڈھیر سے نیچے آگیا، کسی طرف سے چاندنی کی کرنیں اندر آ رہی تھی اس کے ساتھ ہی اوپر سے کسی کے گرنے کا دھماکہ سنائی دیا۔ یہ کوئی آدمی ہی ہوسکتا تھا ،چاندنی کی روشنی کافی نہیں تھی
سالار زبیر نے کہا کہ فوراً مشعل جلا لو۔
مشال والے ایک مجاہد نے مشعل جلا دی۔ پہلے اپنے گائیڈ کو دیکھا جو گرا پڑا تھا ۔
پھر اس کی گردن کی ایک طرف سے تیر داخل ہوا اور دوسری طرف سے تھوڑا سا باہر آ گیا تھا ۔ گائیڈ تڑپ رہا تھا ۔
سالار زبیر نے دیکھا کہ تیر کی سامنے والی نوک باہر نکل آئی ہے تو انہوں نے دوسری طرف کے تیر توڑ دیا اور نوک والی طرف سے پکڑ کر کھینچا اور تیر باہر نکل آیا لیکن گائیڈ کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی، خون کا فوارہ پھوٹ رہا تھا یقینا شہ رگ کٹ گئی تھی۔
ایک جانباز مجاہد نے سالار کے کہے بغیر غیر ہی دوسری مشعل جلا لی اور اس طرف گیا جہاں کسی کے گرنے کی دھمک سنائی دی تھی۔ وہ کوئی آدمی تھا ان کے لئے اجنبی تھا اس کی پیٹ میں تیر اترا ہوا تھا اور اتنا اندر چلا گیا تھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ تیر قریب سے چلایا گیا ہے ،یہ آدمی بھی ابھی زندہ تھا اور تڑپ رہا تھا اسے بھی مرنا تھا۔ سالار زبیر نے اپنی تلوار کی نوک اس کے دل کے مقام پر رکھ دی اور پوچھا کہ وہ کون ہے وہ اٹھنے کے قابل نہیں تھا۔
نہیں بتاؤں گا۔۔۔ تیر کھائے ہوئے زخمی نے کہا۔۔۔ تلوار میرے سینے میں اتار دو مجھے تو اب مرنا ہی ہے اپنے دیوتاؤں کو ناراض کرکے نہیں مرنا چاہتا۔
سالار زبیر سمجھ گئے کہ اس شخص سے کچھ معلوم کرنا ممکن نہیں۔
بات بالکل صاف تھی گائیڈ اس جگہ تک پہنچ گئے تھے جہاں سے راستہ خفیہ عبادت گاہ تک جاتا تھا یہ شخص کسی چھت پر بیٹھا دیکھ رہا تھا اس نے اوپر سے تیر چلایا اور ایک گائیڈ کو نشانہ بنا لیا، اس نے اب دوسرے گائیڈ کو مارنا تھا لیکن زبیر بن العّوام نے پہلے ہی اس کا انتظام کر رکھا تھا انتظام یہ تھا کہ انھوں نے اپنے جانباز اوپر بھیج دیے تھے۔
سالار زبیر نے پہلے سنا تھا کہ دو آدمی جنھیں ہرقل اور بعد میں قسطنطین نے بھیجا تھا اسی طرح تیروں سے مرے تھے ۔ سالار زبیر نے سوچ لیا تھا کہ یہ تیر اوپر سے ہی آتے ہونگے۔ ایک روز پہلے انہوں نے اوپر جا کر دیکھ لیا تھا کہ کس جگہ سے تیر انداز نیچے کسی کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
انہوں نے ایک ایک جانبازوں کو ان جگہوں سے ذرا دور بھیج دیے تھے ،اور انہیں بتا دیا تھا کہ وہ کیا کریں گے ۔
عبادت گاہ کے آدمی نے اوپر سے تیر چلایا اور ایک گائیڈ کو نشانہ بنا لیا ،اور اوپر بیٹھے ہوئے جانباز نے اس آدمی کو تیر کا نشانہ بنایا اور وہ آدمی تیر کھا کر نیچے جا پڑا۔
اوپر سے ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے دو تین آدمی آپس میں لڑ رہے ہوں یہ آوازیں کوئی عجیب نہیں تھیں البتہ یہ ڈر آتا تھا کہ یہ جنات یا چڑیلوں جیسی کوئی مخلوق بھی ہو سکتی ہے ۔اگر ایسا تھا تو جانباز مجاہدین کی موت یقینی تھی، زبیر بن العّوام نے کہا کہ اوپر اپنے آدمیوں کی مدد کو پہنچا جائے لیکن وہ جگہ ایسی تھی جہاں تیز نہیں دوڑا جاسکتا تھا ،اور سیڑھیاں بھی تیزی سے نہیں چڑھی جا سکتی تھیں، پھر اوپر جاکر تیز چلنا اور اپنے ساتھی تک پہنچنا بلکل ہی ممکن نہیں تھا کیونکہ گری اور جھکی ہوئی چھتوں سے گرنا یقینی تھا ان مجاہدین کو جو اوپر بھیجے گئے تھے اللہ کے حوالے کر دیا گیا ۔
سالار زبیر نے دوسرے گائیڈ سے کہا کہ اب اوپر خطرہ کم ہو گیا ہے اور انھیں اس جگہ لے چلے جہاں خفیہ عبادت گاہ میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔
گائیڈ ایک بار پھر ملبے کے ڈھیر پر جا چڑھا اور دوسری طرف اتر گیا اتنے میں گری ہوئی چھت میں سے دو آدمی نیچے آ پڑے۔
جا کر دیکھا تو ایک مجاہد تھا اور دوسرا کوئی اور تھا۔
چھت بہت اونچی تھی۔ دونوں زخمی تھے ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں ظاہر تھا کہ انہوں نے لڑتے ہوئے ایک دوسرے کو زخمی کیا تھا۔ اتنی بلندی سے گرے تو دونوں بے ہوش ہوگئے صاف پتہ چلتا رہا تھا کہ دونوں اس بے ہوشی میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔
گائیڈ نے ذرا دھیمی آواز میں سالار زبیر کو پکارا سالار زبیر فوراً پہنچے اور ملبے کے ڈھیر پر چڑھ کر دوسری طرف اتر گئے۔
وہ تو دن کو بھی یہاں آئے تھے لیکن اس طرف نہ گئے ان کا خیال تھا کہ یہ ملبہ دیوار تک گیا ہوا ہے اور وہاں ملبے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ لیکن وہاں دیوار اس طرح ٹوٹی ہوئی تھی یا توڑی گئی تھی جس طرح ڈاکو دیوار میں نقب لگایا کرتے ہیں، یہ شگاف اتنا اونچا اور چوڑا تھا کہ ایک آدمی ذرا جھک کر اس کے اندر جاسکتا تھا ۔ زبیر اس شگاف میں داخل ہونے لگے تو ایک آواز نے ان کے قدم روک دئے
یہیں سے واپس چلے جاؤ۔۔۔ شگاف میں سے آواز گونجی۔۔۔۔ آگے بڑھو گے تو تمہاری بادشاہی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔ اور یہی انجام تمہارے خاندان کا ہوگا۔
یہ بھاری اور گرجدار آواز کچھ دیر کھنڈرات میں بھٹکتی رہی اور اس کی گونج آہستہ آہستہ مدہم ہوتی ختم ہوگئی۔
سالار زبیر نے پیچھے ہٹنے کی بجائے قدم آگے بڑھائے اور جانبازوں سے کہا کہ ان کے پیچھے آئیں۔
ہرقل کا انجام یاد کرو۔۔۔ آواز پھر گونجی۔۔۔ روم کی سلطنت کی تباہی سے عبرت حاصل کرو۔
زبیر اپنے جانبازو کے ساتھ آگے بڑھتے گئے یہ ایک سرنگ سی تھی جو شکاف سے زیادہ اونچی اور چوڑی تھی، دو تین قدم ہی آگے گئے ہونگے تو آواز پھر بلند ہوئی۔۔۔۔ ہم یہاں سے نہیں اگلے جہان سے بول رہے ہیں ۔۔۔۔پہلے جیسی آواز گرجی۔۔۔ ابھی وقت ہے دو قدم اور آگے بڑھائے تو زندہ واپس نہیں آ سکو گے ۔
سالار زبیر نے اپنے جانبازوں سے کہا کہ وہ سرنگ میں ہی ٹھہریں اور خود واپس آئے اور شگاف میں سے باہر نکلے۔
اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو میرے سامنے آ جاؤ ۔۔۔زبیر بن العّوام نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ تم زندہ رہو گے۔ ہماری بادشاہی نہیں ، بادشاہی اللہ کی ہے جسے کوئی انسان تباہ نہیں کرسکتا، ہم گنہگاروں کو اللہ کا راستہ دکھانے آئے ہیں ، عبادت صرف اللہ کی ہی کی جاتی ہے، اگر میرے سامنے خود ہی نہیں آ جاؤ گے تو زندہ نہیں رہ سکو گے۔
سالار زبیر تھوڑی دیر جواب کا انتظار کرتے رہے لیکن انھیں کوئی جواب نہ ملا وہ پھر شگاف کے اندر چلے گئے ایک مجاہد نے جلتی ہوئی مشعل اٹھا رکھی تھی۔
یہ سرنگ ختم ہوئی تو آگے راستہ بند تھا اور دو راستے نکلتے تھے ایک دائیں اور ایک بائیں کو ، بائیں طرف دیکھا تو یہ بھی سرنگ سی ہی تھی اور کچھ لمبی بھی تھی اس کے اگلے سرے پر جہاں یہ ختم ہوتی تھی ہلکی ہلکی روشنی نظر آرہی تھی سالار زبیر اس طرف مڑ گئے۔
جانبازوں گھبرانا نہیں۔۔۔ سالار زبیر نے اپنی جماعت سے کہا۔۔۔ اندر کوئی فوج نہیں ہوگی اللہ کو اپنے ساتھ سمجھو ہم کسی کا خزانہ لوٹنے نہیں آئے ، ہم یہاں اللہ کا یہ فرمان پہنچانے آئے ہیں کہ عبادت کے لائق صرف اللہ ہے۔
اس سرنگ سے نکلے تو سامنے ایک کشادہ کمرہ تھا جس کے ایک کونے میں چھوٹا سا فانوس جل رہا تھا۔ کمرے میں چار پانچ اچھی قسم کے پلنگ رکھے تھے ۔کمرے کے وسط میں ایک بوڑھا آدمی جو لمبے چوغے میں ملبوس تھا اور سر پر مصری ٹوپی اور ٹوپی پر رومال پڑا ہوا تھا ،کھڑا اس طرف دیکھ رہا تھا جس طرف سے زبیر اور ان کے جانباز داخل ہوئے تھے۔
اس کے پیچھے چار پانچ آدمی ہاتھوں میں تلواریں لیے کھڑے تھے۔
یہ شخص بہت ہی بوڑھا لیکن جوانوں کی طرح سیدھا کھڑا تھا اس کے جسم میں ذراسا جھکاؤ نہیں تھا ۔ سالار زبیر بن العّوام نے اپنے جانبازوں کو ابھی سامنے نہیں آنے دیا تھا وہ اکیلے ہی سرنگ سے نکل کر رک گئے تھے۔ یہاں مرنے کے لئے آئے ہو۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کر سکتی ہیں ۔ لیکن اس عمر میں مجھے اس گناہ سے بچا لو تو یہ تمہاری بہت بڑی نیکی ہو گی،
میں کسی کا خون بہانا بہت بڑا گناہ سمجھتا ہوں۔
کسی کا خون بہانے کا گناہ میں بھی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔سالار زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ تم اس عبادت گاہ کے راہب ہو، میں تمہیں بتانے آیا ہوں کہ صرف اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اور تمہاری یہ عبادت محض باطل ہے، یہ بند کرو اور ہمارے ساتھ چلے چلو، تمہیں پورے احترام کے ساتھ رکھا جائے گا۔
اے نادان انسان!،،،، بوڑھے راہب نے کہا۔۔۔ تو ہرقل سے بڑھ کر طاقتور نہیں تو یہاں تک آ گیا ہے ، ہرقل کے آدمی اس راستے کے منہ پر ہی پہنچے تھے کہ تیر ان کے جسموں میں اتر گئے، پھر سلطنت روم جس انجام کو پہنچی وہ تو نے دیکھا ہے، پھر ہرقل کو ہم نے اس دنیا سے ہی اٹھا دیا ، میں تیری جان بخشی کرتا ہوں اور تیری جرات کی تعریف کرتا ہوں کہ تو یہاں تک آگیا، واپس چلا جا ورنہ میرے یہ آدمی تیرے جسم کو کئی حصوں میں کاٹ کر انہیں کھنڈروں میں گم کر دیں گے ۔
لڑکی میرے حوالے کر دو ۔۔۔سالار زبیر نے کہا۔۔۔ پھر اپنے آپ کو بھی میرے حوالے کر دو۔
بوڑھے راہب کو شاید غلط فہمی تھی کے سالار زبیر اکیلے آئے ہیں، اس نے کوئی اور بات نہ کی اپنے پاس کھڑے چار آدمیوں کی طرف دیکھ کر سر سے ہلکا سا اشارہ کیا چاروں آدمی تلواریں سونت کر زبیر بن العوام کی طرف بڑی تیزی سے آئے زبیر ان کے مقابلے کے لئے آگے بڑھے۔
ان چار آدمیوں نے سالار زبیر کو گھیر لیا اور اس وقت اچانک تمام جانباز مجاہدین سرنگ سے نکلے اور ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑے ،ان جانبازوں کے ساتھ ایک گائیڈ اور دوسرا وہ نوجوان بھی تھا جو گم شدہ لڑکی کو تلاش کرنے آیا تھا اور اس لڑکی کو دل و جان سے چاہتا تھا ۔
ٹھہر جاؤ!،،،، بوڑھے راہب نے بلند آواز سے کہا۔
اس کی کسی نے نہ سنی اس کے چاروں آدمی مجاہدین کی تلواروں سے کٹ کر گر چکے تھے اور سالار زبیر کی تلوار کی نوک اس راہب کے پہلو کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ زبیر اسے کہہ رہے تھے کہ لڑکی ان کے حوالے کر دو۔
راہب حیرت زدگی اور غم زدگی کے کیفیت میں بت بنا کھڑا رہا اس نے جیسے سالار زبیر کی بات سنی ہی نہ تھی ۔
میں یہاں ہوں۔۔۔ ایک لڑکی کی چیخ نما آواز سنائی دی۔
سب نے ادھر دیکھا پندرہ سولہ سال عمر کی بڑی خوبصورت لڑکی ایک دروازے سے نکل رہی تھی، اسے کوئی بھی نہیں پہچانتا تھا، ایلی کی تلاش میں آنے والے نوجوان نے اسے دیکھا تو دوڑ کر اس تک پہنچا اور اسے اپنے بازوؤں میں لے کر اپنے ساتھ بھیج لیا ۔ لڑکی کے بازو بھی اس کے گرد لپٹ گئے گمشدہ لڑکی مل گئی تھی۔
سالار زبیر دو تین جانبازوں کو ساتھ لے کر اس دروازے میں داخل ہوئے جس سے لڑکی باہر آئی تھی دروازے کے کواڑ تھے ہی نہیں دیمک نے کھا لئے ہونگے ،وہ بھی ایک کمرہ تھا جس میں ایک پلنگ کے قریب گائے کا بچھڑا بندھا ہوا تھا، یہ ابھی چھوٹا تھا ، وہ اس قدر دھلا دھلایا تھا کہ اس کے بال مشعلوں کی روشنی میں چمک رہے تھے۔ بڑا ہی پیارا لگتا تھا۔
بات بالکل صاف تھی اس بچھڑے کو اور اس لڑکی ایلی کو ایبس بچھڑے کے نام پر قربان کرنا تھا، جوزف کا شک صحیح نکلا اس کمرے کی تلاشی لینے لگے تو پلنگ کے نیچے سے ایک آدمی چھپا ہوا برآمد ہوا اس نے اپنے ساتھیوں کو لہولہان ہوکر گرتے دیکھ لیا ہو گا اور پلنگ کے نیچے جا چھپا۔
اسے ساتھ لے کر اس کمرے سے نکلے اور اس کمرے میں گئے جہاں اب خون بہہ رہا تھا اور لاشیں پڑی تھیں ان لاشوں سے ذرا ہٹ کر بوڑھا راہب پیٹھ کے بل فرش پر پڑا تھا ایک تلوار اس کے سینے سے ذرا نیچے جسم میں اتری ہوئی تھی، بوڑھا تلوار کو اپنے جسم سے نکالنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کر رہا تھا۔
اسے کس نے مارا ہے۔۔۔ زبیر بن العوام نے بڑے غصے میں اپنے جانبازو سے پوچھا۔۔۔ تمہیں کس نے حکم دیا تھا کہ اسے مار ڈالو۔
مجاہدین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ،آخر ایک مجاہد نے بتایا کہ اس راہب نے اپنے ایک آدمی کی گری ہوئی تلوار اٹھا لی تھی لگتا تھا کہ وہ مجاہدین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے ،لیکن اس نے تلوار کا دستہ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھی اور بڑی زور سے دباؤ ڈال کر تلوار اپنے جسم میں اتار لی اس نے خود کشی کی تھی ۔
سالار زبیر بن العوام نے دور سے ہی دیکھ لیا تھا کہ بوڑھا ابھی زندہ ہے وہ دوڑتے پہنچے اور اس کے پیٹ اور سینے کے درمیان اتری ہوئی تلوار نکال لی لیکن اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔ تلوار پیٹھ تک چلی گئی تھی، جسم کے اس حصے میں تلوار اتر جائے تو یہ زخم موت کا باعث تو ضرور ہی بنتا ہے لیکن مرتے مرتے بعض اوقات ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ سالار زبیر نے راہب کو بٹھا لیا اور پوچھا کہ اس نے خود کشی کیوں کی ہے۔
میں کسی کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہونا چاہتا۔۔۔ بوڑھے راہب نے کہا ۔۔۔میری عبادت گاہ نہیں رہی میرا مذہب تم نے پراگندہ کر دیا ہے تو میں اب جی کے کیا کروں گا، میں جانتا ہوں تم مسلمان ہو اور تمہارے مذہب سے بھی کچھ واقفیت حاصل کر لی ہے ، لیکن مجھے یہ نہ کہنا کہ میرا مذہب باطل تھا۔ میں نے نوے برس اس عبادت گاہ میں عبادت کی بھی ہے اور کروائی بھی ہے۔
صرف ایک بات بتا دو۔۔۔سالار زبیر نے پوچھا۔۔۔ کیا میرا یا میری قوم کا ، یا میری قوم کی حکومت کا انجام واقعی برا ہوگا ،کیا ہرقل کو اس لئے شکست پر شکست ہوئی تھی کہ اس نے تمہارے مذہب اور تمہاری عبادت گاہ میں مداخلت کی تھی۔
ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ راہب نے درد کی شدت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔۔ تم ہرقل کی طرح ڈرے نہیں اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تمہارا انجام شاید برا نہ ہو ، تم نے اپنے دل میں ایک یقین پختہ کر رکھا ہے اور اس یقین یا عقیدے کے ساتھ تمہاری روحانی وابستگی اور وفاداری ہے ، جس شخص میں یہ خوبی ہوتی ہے وہ کبھی بُرے انجام کو نہیں پہنچتا۔
زبیر بن العوام اس سے کچھ اور ضروری باتیں پوچھنا چاہتے تھے اور راہب مر رہا تھا ،اس لیے انہوں نے یہ پوچھا کہ اس لڑکی کو کیوں اغوا کیا گیا تھا اس نے وہی بات بتائی جو جوزف سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتا چکا تھا۔
اس نے یہ بچھڑا ایک دو مہینے پہلے خریدا تھا اور پھر اپنے آدمی شہر میں اپنے مطلب کی لڑکی کو دیکھنے کے لئے بھیجے ،اتفاق سے ان کی نظر ایلی پر پڑی تو اسے کچھ ورغلا کر اور کچھ دھوکہ دے کر باہر لائے اور کوئی دوائی اس کی ناک کے آگے رکھ کر اسے بے ہوش کیا اور اٹھا لائے۔
سالار زبیر نے اس سے پوچھا کہ لڑکی کا وہ قربانی سے پہلے کیا بناتے ہیں ،اور اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں،،،،،،
راہب نے کہا کہ کسی ایسی غلط بات کو دل میں جگہ نہ دینا کہ لڑکی کو کسی غلط یا بیہودہ مقصد کے لئے رکھا جاتا ہے، انہیں قربانی کے لئے کنواری اور معصوم لڑکی درکار ہوتی ہے جو اس کے چہرے سے ظاہر ہو جاتا ہے، پھر یہاں لڑکی کو اس طرح پاک اور صاف ستھرا رکھا جاتا ہے جیسے یہ آسمان سے اتری ہو،،،،،، بعد میں اس لڑکی نے بھی بتایا تھا کہ اسے کچھ پلاتے تھے جس سے وہ بیدار تو رہتی تھی لیکن اسے یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ قید میں ہے ، رات کو اس کی آنکھ کھل جاتی تب اسے قید کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اسے اتنا زیادہ ڈرا کر رکھا گیا تھا کہ وہ فرار کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، پھر اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور یہاں سے نکل بھاگنے کا راستہ کونسا ہے۔
تھوڑی ہی دیر بعد راہب مرگیا سالار زبیر بن العوام ان سب کی لاشیں وہیں چھوڑ کر اور لڑکی اور بچھڑے کو ساتھ لے کر وہاں سے واپس آگئے، پلنگ کے نیچے سے جو آدمی نکالا گیا تھا اسے بھی قتل کردیا گیا۔
بالائی منزل میں ایک جانباز مجاہد کا سامنا ایک تیر انداز سے ہو گیا تھا یہ مجاہد زخمی تھا لیکن اس نے تیر انداز کو مار ڈالا تھا، ایک تو تیر سے گرا دیا گیا تھا۔
جانباز مجاہدین کی یہ جماعت رات کے پچھلے پہر واپس بابلیون پہنچی ، فجر کی نماز کے وقت سالار زبیر نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا کہ وہ لڑکی کو ڈھونڈ کر لے آئے ہیں اور پھر انہیں سارا واقعہ سنایا صبح ہوتے ہی لڑکی کے دادا کو بلا کر لڑکی اس کے حوالے کردی گئی۔ اسے یہ بتایا گیا کہ اس کی پوتی کو ڈھونڈ لانے کے لیے دو آدمی قربان کیے گئے ہیں۔ یہ بوڑھا آدمی اس قدر متاثر ہوا کہ ہر کسی کو یہ واقعہ سناتا پھر رہا تھا۔
شام تک سارے شہر میں یہ واقعہ مشہور ہو گیا اور اگلے روز کئی ایک عیسائی اسلام قبول کرنے کے لئے آ گئے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسی قوم پہلی بار دیکھی ہے جس کے یہاں انسانی ہمدردی اور انصاف ہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دیا کے سرابیوم کے کھنڈرات ویسے ہی رہنے دیے جائیں جیسے ہیں۔ ان کی اہمیت تاریخی نوعیت کی ہے لیکن اس کا عبادت گاہ والا حصہ مسمار کردیا جائے۔

ادھر بابلیون میں مجاہدین اسلام فتح و نصرت سے سرشار اپنے قدم جما چکے تھے ،اور اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کے لیے جوش و خروش سے تیار ہو رہے تھے، صرف بابلیون کا ہی نہیں بلکہ تمام مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق اور انتظامیہ کا سلسلہ رواں کرچکے تھے، سب سے بڑی کامیابی تو یہ تھی کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے تدبر نے قطبی عیسائیوں کے ذہنوں سے بغاوت کا خیال نکال دیا تھا اور ایسے اقدامات کئے تھے کہ ان کے دل موہ لئے تھے۔ تمام مجاہدین اسلام نے وہاں کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک اور رویہ روا رکھا تھا کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان بیگانگی اور غیرت کا نام و نشان نہیں رہا تھا۔ ابلیس رقص کر رہا تھا ۔ ہرقل مر چکا تھا۔ ایک وہ تھا جسے سلطنت روم کا غم کھاتا رہتا تھا، اور جس نے ساری دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھے تھے، یا اب اس کا بیٹا قسطنطین تھا جس کا خون ہر وقت کھولتا رہتا تھا اور اس پر غصے کی کیفیت طاری رہنے لگی تھی۔
پیچھے اس کی تفصیل گزر چکی ہے کہ رومی فوج کے جرنیل اور حکومت کے حاکم دو حصوں میں بٹ گئے تھے، کچھ قسطنطین کے حامی اور کچھ اس کی سوتیلی ماں مرتینا کے حامی بن گئے تھے۔
پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ملکہ مرتینا اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو ہرقل کی جگہ تخت نشین کرانا چاہتی تھی، لیکن تخت و تاج کا صحیح وارث قسطنطین تھا وہ بڑا بھی تھا اور منجھا ہوا جرنیل بھی تھا اور حکومت کے مسائل اور امور کو بھی سمجھتا تھا۔
اس کے مقابلے میں ملکہ مرتینا کا بیٹا ہرقلیوناس صرف شہزادہ تھا، نہ اس نے کبھی میدان جنگ دیکھا ،نہ کاروبار سلطنت سے آشنا تھا۔
ملکہ مرتینا حسین تو تھی ہی، لیکن عیاری اور مکاری کے لحاظ سے جادو گرنی تھی، پتھر دل آدمی کو بھی موم کرکے اپنی مٹھی میں لے لیتی تھی، جرنیل اور حکومت کے حاکم دو حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن بنے جا رہے تھے ان میں کچھ خوشامدی بھی تھے، وہ قسطنطین کو آئے دن کوئی نئی سے نئی خبر سناتے اور ملکہ مرتینا اور اس کے بیٹے ہرقلیوناس کے خلاف بھڑکاتے تھے ،قسطنطین کو مصر کا غم تو کھا ہی رہا تھا لیکن یہ خوشامدی اسے ایسی خبریں سناتے تھے کہ اس کا خون کھول اٹھتا تھا ۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ کسی اندرونی روگ میں مبتلا ہوگیا تھا، اور جسمانی کمزوری محسوس کرنے لگا تھا ،اس سے بڑا روگ اور کیا ہوسکتا تھا کہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جنگی طاقت سمجھنے والے شاہی خاندان کو مٹھی بھر عربوں نے جنہیں رومی گنوار بدوّ کہتے تھے شام سے مار بھگایا تھا، اور اب انھیں مصر سے بھی بری طرح بے دخل کیا جا رہا تھا۔
قسطنطین کی حالت تو اب یہ ہوگئی تھی جیسے ڈوبنے والا تنکوں کے سہارے تلاش کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کی نظریں بھٹک بھٹک کر ہرقل کے بنائے ہوئے اسقف آعظم قیرس پر جا رہی تھی، ہرقل نے مقوقس کے ساتھ قیرس کو بھی جلا وطن کردیا تھا۔
ہرقل کی موت کے بعد قسطنطین نے ایک ایلچی کو قیرس کی تلاش میں روانہ کیا اور یہ پیغام دیا تھا کہ قیرس کو مصر کی صورتحال بتا کر کہے کہ وہ واپس آجائے۔
ایلچی نے قیرس کو ڈھونڈ نکالا تھا اور اسے اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا ۔قسطنطین نے اس کا استقبال پورے احترام سے کیا اور اسے الگ تنہائی میں بٹھا لیا۔
سب سے پہلے یہ بات سن لیں۔۔۔ قسطنطین نے قیرس سے کہا۔۔۔ میں نے کبھی بھی آپ کو باغیانہ خیالات کا مجرم نہیں سمجھا ۔اصل قصور مقوقس کا تھا لیکن میرے بادشاہ باپ نے اس کے ساتھ آپ کو بھی جلا وطن کردیا۔ مجھے پوری امید ہے کہ سلطنت روم کے مسائل کے ساتھ آپ کو بھی اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی مجھے ہے میں آپ کا اسقف اعظم کا رتبہ بحال کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی آپ کو اپنا مقدس باپ سمجھتا ہوں۔
اس کے بعد قسطنطین نے قیرس کو مصر کی ساری صورتحال بتائی اور پھر بزنطیہ میں جو محلاتی سازشیں اور کدورتیں چل رہی تھیں وہ بھی تفصیل سے سنائی، پھر کہا کہ وہ مصر میں اپنی فوج کو کمک بھیجنا چاہتا ہے لیکن یہاں تو دو دھڑے ہو چلے ہیں جنہوں نے فوج کو تقسیم کرلیا ہے ،اس نے کہا کہ با ظاہر فوج ایک جاں ہے لیکن فوجیوں کے دل آپس میں پھٹ گئے ہیں۔
مجھے صرف ایک بات بتاؤ ۔۔۔قیرس نے پوچھا۔۔۔ میں کیا کرسکتا ہوں اور میرے فرائض کیا ہیں؟
بات بالکل مختصر کرونگا۔۔۔ قسطنطین نے کہا۔۔۔ سب سے پہلے تو آپ ملکہ مرتینا سے کہیں کہ وہ تخت کی جانشینی کے مسئلہ کو بھول جائے اور ہمیں مہلت دے کے ہم ان عربوں کو مصر سے نکال دیں، ضرورت یہ ہے کہ یہاں خانہ جنگی کی جو صورتحال بن رہی ہے یہ ختم ہوجائے، پھر میں آپ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کمک مصر بھیجوں گا مجھے اطلاع ملی ہے کہ قبطی عیسائی مسلمانوں کے دوست بنتے جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ہر طرح تعاون کرتے ہیں، مجھے یہ خطرہ نظر آ رہا ہے کہ مصر کے جو علاقے ابھی ہماری سلطنت میں ہیں ان علاقوں میں قبطی ہمارے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ آپ کچھ مبلغ ساتھ لے جائیں گے جو قبطیوں کو سلطنت روم کا وفادار بنانے کی کوشش کریں گے۔
آپ کو بھولنا نہیں چاہیے۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔قبطیوں کے دل میں ہمارے خلاف انتقام کی آگ سلگ رہی ہے، شاہ ہرقل نے جس بے دردی سے انکا قتل عام میرے ہاتھوں کروایا ہے وہ کبھی نہیں بھول سکتے۔
قبطیوں کو ساتھ ملانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ شاہ ہرقل نے جو عیسائیت بنائی تھی وہ منسوخ کی جاتی ہے ، اور اصل عیسائیت وہ ہے جو یسوع مسیح سے ہمیں ملی ہے،،،،،،، میں ملکہ مرتینا سے ملوں گا اور اسے قائل کرنے کی پوری کوشش کروں گا کہ وہ تخت و تاج کی وراثت کو ابھی متنازع نہ بنائے اور اپنے آپ کو سلطنت روم کی ملکہ نہ سمجھے۔
ان دونوں نے طے کیا کہ کل جرنیلوں کا ایک اجلاس بلایا جائے اور یہ مسائل اور یہ صورتحال ان کے آگے رکھی جائے۔

قسطنطین کی ملاقات کے بعد قیرس باہر آیا تو شام گہری ہو چکی تھی۔ ملکہ مرتینا اس انتظار میں تھی کہ قیرس باہر آئے تو اسے اپنے جال میں لے لے۔ اس نے اپنا ایک آدمی باہر کھڑا کر رکھا تھا۔ قیرس خود بھی چاہتا تھا کہ وہ ابھی ملکہ مرتینا سے مل لے ۔ اس آدمی نے قیرس کو روک کر آہستہ سے کہا کہ ملکہ بلا رہی ہیں۔ قیرس ملکہ کے پاس چلا گیا
ایسے واقعات کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات لکھنے والے وقائع نگاروں نے لکھا ہے کہ قیرس جب ملکہ مرتینا کے کمرے میں داخل ہوا تو ایسی خوشبو نے اس کا استقبال کیا جو اس نے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ اس پر جو تاثر طاری ہوا اس تاثر سے بھی وہ بیگانہ رہا تھا ۔ اس کے ساتھ ملکہ مرتینا کا کھڑا قد اور دلکش جسم اور پھر اس کے چہرے کا حسن قیرس پر خمار سا طاری کرنے لگا۔
ملکہ مرتینا اپنی عمر سے بہت کم لگتی تھی، اور وہ مردوں کو اپنے طلسم میں گرفتار کرنے کی خصوصی مہارت رکھتی تھی۔ اس نے بڑی بے باکی اور بے حیائی سے قیرس کا استقبال کیا ۔قیرس اپنے وجود میں بڑھاپے میں جوانی کا جوش و خروش محسوس کرنے لگا ۔ملکہ مرتینا نے قیرس کو بٹھایا اور دو نوخیز لڑکیاں دوڑی آئیں جو اپنے لباس میں تھی لیکن برہنہ لگتی تھیں۔ ملکہ مرتینا نے انھیں کہا کہ کھانا لگا دیں۔ لڑکیاں دوڑتی باہر نکل گئیں اور قیرس پر ایسا جادو طاری کر گئیں کہ اس کی نظریں اس دروازے پر لگی رہی جس دروازے سے وہ آئی تھیں اور پھر نکل گئی تھیں۔
ملکہ مرتینا نے جب اپنی عیاری چلائی تو تھوڑی سی دیر میں قیرس بھول ہی گیا کہ وہ مذہبی پیشوا ہے ۔اور شاہ ہرقل نے اسے اسقف اعظم بنایا تھا۔ اس کی تمام انسانی کمزوریاں ابھر آئیں اور اس کی اصل شخصیت پر چھا گئی۔
کھانا آیا ان حسین و جمیل نوجوان لڑکیوں نے کھانے کے دوران شراب پیش کی تو ملکہ مرتینا نے دیکھا کہ قیرس کی نظریں ان لڑکیوں کے جسم پر چپک گئی ہیں۔
کھانے کے بعد ملکہ مرتینا اصل بات پر آئی، اس نے ایسی کوئی بات نہ کی جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ وہ اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو تخت روم کا وارث بنانا چاہتی ہے، اس کی باتوں سے سلطنت روم کا غم ٹپک رہا تھا ،اور ان شکستوں اور سلطنت کے سکڑتے چلے جانے کی ذمہ داری ہرقل اور پھر قسطنطین پر عائد کر رہی تھی، اس کی ہر بات قیرس کے دل میں اترتی جا رہی تھی ۔
کچھ ہی دیر بعد قیرس یوں محسوس کرنے لگا جیسے وہ زمین پر نہیں بلکہ بہشت میں پہنچ گیا ہے، جہاں حوریں اس کی خدمت پر مامور ہو گئی ہیں،،،،،،، قیرس ملک امرتینا کا غلام ہو گیا تھا۔
ملکہ مرتینا نے قیرس کے لیے جو کمرہ تیار کروایا تھا وہ ملکہ کے کمرے سے زیادہ دلآویز اور دل نشین تھا ،اس دل آویزی اور دلکشی میں اضافہ اس طرح ہوا کہ ملکہ مرتینا نے رات بھر کے لئے اس کے پاس ان دو لڑکیوں میں سے ایک کو بھیج دیا،،،،،، صبح جن قیرس کی آنکھ کھلی تو اس کے دماغ پر ملکہ مرتینا سوار تھی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ روم کے تخت وتاج کاوارث ہرقلیوناس ہی ہوگا، لیکن اس نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ وہ قسطنطین کا وفادار بنا رہے گا اور کمک لے کر مصر جائے گا۔
کچھ دیر بعد ملکہ مرتینا آ گئی، ملکہ نے قیرس کے ساتھ کچھ باتیں کرکے بھانپ لیا کہ یہ شخص اس کی مٹھی میں آ گیا ہے۔ تب اس نے قیرس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ وہ کمک لے کر مصر جائے اور جنرل تھیوڈور سے مل کر فوج کو اس طرح لڑائے کہ مسلمانوں کو مصر سے نکال دیا جائے ۔ پھر ملکہ مرتینا وہاں پہنچ جائے اور خودمختاری کا اعلان کردے۔
قیرس نے اسے یقین دلایا کہ وہ ایسی صورت پیدا ہونے ہی نہیں دے گا۔ بلکہ قسطنطین کے لئے ایسی صورتحال پیدا کر دے گا کہ وہ خود کہے گا کہ ہرقلیوناس کو تخت پر بٹھا دیا جائے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

تاریخ اس حقیقت کو کھل کر بیان کرتی ہے کہ قیرس جو مذہبی پیشوا تھا اور جسے فتویٰ دینے کے اختیارات بھی حاصل تھے ذہنی اور جسمانی طور پر ایک عیار اور مفاد پرست ملکہ کا کٹھ پتلی بن گیا۔ ملکہ مارتینا نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ مصر میں وہ اسے اپنا وزیراعظم بنائے گی، اسقف اعظم وہ تھا ہی۔ ملکہ مرتینا نے قیرس کی فطری کمزوریوں کو ابھار کر اس کی دکھتی رگ اپنی مٹھی میں لے لی تھی۔ یہ تھے اثرات شراب کے، حسین و جمیل لڑکیوں کے، اور ایک عورت کی زبان کے طلسم کے۔
اسی روز قسطنطین نے جرنیلوں اور انتظامیہ کے حاکموں کا اجلاس بلا رکھا تھا ۔اس میں قیرس کو بھی شامل ہونا تھا تاریخ میں آیا ہے کہ قسطنطین کا انداز ہرقل جیسا شاہانہ نہیں تھا اجلاس میں شامل ہونے والے آگئے تو قسطنطین کچھ ڈرا ڈرا سا نظر آتا تھا ،حالانکہ اس کا انداز اور رویہ کچھ اور ہوا کرتا تھا بہرحال اس کے انداز میں شہنشاہیت کا تاثر نہیں بلکہ تدبر تھا اور اس نے ہمیشہ تدبر ہی سے کام لیا تھا۔
اجلاس میں تمام جرنیل اور شہری حکام حاضر تھے ان میں قسطنطین کے حامی اور اس کے خلاف ملکہ مرتینا کے حامی بھی موجود تھے۔ قسطنطین نے بات مصر کی شکست سے شروع کی اس نے سب سے پہلے یہ الفاظ کہے کہ باہر کے دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے لیکن اپنے اندر کے دشمن سے اپنی قوم غیرت اور ملک کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے ،اندر کا دشمن باہر کے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
میں دلی دکھ کے ساتھ یہ بات زبان پر لاتا ہوں۔۔۔ قسطنطین نے کہا۔۔۔ ہم دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اس تقسیم کو روکا جا سکتا ہے لیکن انتہائی خطرناک صورتحال یہ پیدا ہو گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں ، اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، ہم کمک نہیں بھیج سکے اس کا فائدہ عرب کے ان بدوؤں کو پہنچا جنہوں نے آدھا مصر لے لیا ہے۔ اصل تنازع تخت و تاج کی وراثت کا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس تنازع کو ابھی الگ رکھ دیں اور سلطنت کا کھویا ہوا وقار بحال کریں۔
آپ کی حیثیت ایک جرنیل کی ہے ۔۔۔ملکہ مرتینا کے ایک حامی جرنیل نے کہا ۔۔۔تخت کی وراثت کا کوئی تنازع نہیں ملکہ مرتینا کو ہم روم کی ملکہ تسلیم کرچکے ہیں۔
اس بات پر قسطنطین کے حامی جرنیل بیک وقت بولنے لگے اور ملکہ مرتینا کے حامیوں نے اٹھ کر ہنگامہ بپا کردیا قسطنطین اور قیرس نے بڑی مشکل سے اسے زبانی کلامی ہنگامے پرقابو پایا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کسی بھی وقت خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے ۔ قسطنطین کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا اس کا سر ڈولنے لگا جیسے اسے غشی آ رہی ہو، اس کے جسم میں قوت مدافعت بہت ہی کم ہو چکی تھی ۔قیرس اس کی حمایت میں بولنے لگا۔
شاہ ہرقل مقوقس کو ذلیل اور رسوا کرکے جلاوطن کردیا تھا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔۔جلاوطن صرف اس لئے کیا تھا کہ اس کی باتوں اور حرکتوں سے بغاوت کی بو آتی تھی۔ لیکن میں صاف کہتا ہوں کہ تم سب باغی ہوں تم اتنے اونچے رتبے کے جرنیل اور حاکم ہو اور تم نے خانہ جنگی تک نوبت پہنچا دی ہے۔ یہ شاہی فرمان کے خلاف بغاوت نہیں تو اور کیا ہے،،،،،،، قسطنطین نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ روم کا بادشاہ ہے اس نے کہا ہے کہ اس تنازع کو ابھی الگ رکھ دیں مگر تم ایک دوسرے کے اس حد تک دشمن بن گئے ہو کے عقل کی ایک بات کو بھی نہیں سمجھ رہے۔ تمہاری غیرت کہاں گئی کہ عرب کے مسلمان تم سے شام چھین چکے ہیں اور مصر چھین رہے ہیں اور تم آپس میں لڑ رہے ہوں لڑتےرھو۔
ایک دن مسلمان یہاں بھی آ جائیں گے اور تم سب ان کے قیدی ہو گے ۔
سب پر خاموشی طاری ہوگئی اور قیرس نے سب پر نگاہیں دوڑائیں اور کچھ دیر خاموش رہا۔
میں نہ قسطنطین کی حمایت میں بول رہا ہوں، اور نہ ملکہ مرتینا کے حق میں۔ قیرس نے ذرا وقفے کے بعد کہا ۔۔۔ہمیں شاہی خاندان کی نہیں بلکہ روم کی عزت و آبرو عزیز ہونی چاہیے، روم کا تخت و تاج ہم سب کا ہے اور یہ ہمارے قومی وقار کی بڑی مقدس علامت ہے۔ سب سے پہلے کمک کی بات کریں جو مصر بہت جلدی چلی جانی چاہیے دلوں سے ذاتی کدورتیں نکال دو ۔
ملکہ مرتینا کا سب سے بڑا حامی تو قیرس خود تھا ۔ لیکن آدمی جہاندیدہ اور دوراندیش تھا بات بچ بچ کر کر رہا تھا کوئی بھی اس کی نیت پر شک نہیں کر رہا تھا۔ وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ دربان اندر آیا اور سیدھا قسطنطین کے پاس گیا اس کے کان میں کچھ کہا تو قسطنطین نے سر ہلا کر کوئی اشارہ کیا دربان باہر نکل گیا اور ایک اور آدمی اندر آیا وہ سیدھا قسطنطین کے پاس گیا اور اس کے ہاتھ میں کچھ دیا یہ کوئی اہم آدمی ہی ہو سکتا تھا ورنہ اس طرح کے اجلاس میں کسی کو اندر آنے کی اجازت اور جرات نہیں ہوتی تھی۔ یہ جو آدمی اندر آیا تھا قاصد تھا جو مصر سے جنرل تھیوڈور کا پیغام لایا تھا ۔قسطنطین پیغام پڑھنے لگا تو اس کا رنگ جو پہلے ہی پیلا پڑ گیا تھا لاش کی مانند ہو گیا اور پیٹھ پیچھے لگائی جیسے نڈھال ہوگیا ہو ۔ حاضرین سمجھ گئے کہ یہ پیغام ہے اور کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔
تم لوگ آپس میں لڑتے رہو ۔۔۔قسطنطین نے ایسی آواز میں کہا جو بے جان سی تھی اور اس میں ہلکا سا لرزہ بھی تھا۔۔۔ عرب کے بدوؤں نے بابلیون اور اس کے گرد ونواح کا علاقہ اور جزیرہ روضہ فتح کرلیا ہے ،جنرل تھیوڈور اور جنرل جارج مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اپنی ساری فوج نکال لائے ہیں۔ کیا تم اب بھی کمک نہیں بھیجو گے؟
مؤرخ لکھتے ہیں کہ پہلی بار کچھ دیر کے لیے تمام جرنیل اوردیگرحکام متفق ہوئے اور مصر کو کمک بھیجنے کا فیصلہ ہوا قسطنطین کا یہ مشورہ بھی قبول کرلیا گیا کہ قیرس اس کمک کے ساتھ جائے گا۔
بابلیون کی فتح کا پیغام قسطنطین تک کچھ دیر سے پہنچا تھا وجہ یہ تھی کہ ایک تو فاصلہ بہت ہی زیادہ تھا اور آگے بحیرہ روم تھا اس کے آگے بزنطیہ تک پھر خشکی تھی ،لیکن جرنیل تھیوڈور نے پیغام بھیجا ہی تاخیر سے تھا اسے توقع تھی کہ مصر سے ہی کمک مل جائے گی اور بابلیون پر فوج کشی کرکے وہ شہر مسلمانوں سے واپس لے لے گا اور اس کے بعد بزنطیہ پیغام بھیجے گا لیکن اسے کمک نہ مل سکی کیونکہ مجاہدین اسلام نے کمک کے تمام راستے بند کر رکھے تھے ۔ کمک کو کسی اور راستے سے آنا تھا اور اس کے لیے خاصا وقت درکار تھا۔ بہرحال جنرل تھیوڈور نے پیغام بھیج دیا بابلیون کی شکست دراصل جنرل تھیوڈور کی شکست تھی جس پر وہ پردہ ڈالے رکھنا چاہتا تھا لیکن یہ ممکن نہ تھا۔

اجلاس میں شریک تمام جرنیلوں اور حاکموں پر سناٹا طاری ہو گیا لیکن فوراً ہی سب کی نظریں قسطنطین کی طرف ہو گئی کیونکہ وہ ایسا نڈھال ہو گیا تھا کہ اس کا سر ایک طرف ڈھولک گیا تھا، اور شاید غشی میں چلا گیا تھا ۔
قیرس اور دو جرنیلوں نے اسے جاکر دیکھا وہ بے ہوش تو نہیں تھا لیکن اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔
اسے اندر ہی اندر ایک غم روگ بن کر کھا رہا تھا۔ بابلیون کی شکست کی خبر آخری تنکا ثابت ہوئی یہ کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا ۔
قسطنطین کو سہارا دے کر اٹھایا گیا کسی نے دربان سے کہا کہ طبیب کو فوراً ساتھ لے آئے۔ قسطنطین کو اس کے سونے والے کمرے میں لے جاکر لیٹا دیا گیا ۔
قرآن کا ہر ایک فرمان ہرقل اور اس کے شاہی خاندان پر پورا اتر رہا تھا۔ ایک آیت میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ اندیشہ ہے ہی نہیں کہ وہ کبھی ان پر بھی برے دن آئیں گے ، ان لوگوں کے اعمال سے نظر ہٹا لو اللہ خود ایک گروہ بھیج کر ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔
دین اسلام کے اس دشمن خاندان نے خصوصا ہرقل نے مصر میں فرعونیت رائج کردی تھی اس نے عیسائیت کے نام پر اپنا مذہب بنا کر نافذ کردیا تھا اور اسے قتل وغارت کے ذریعے لوگوں سے منوایا تھا ۔
مجاہدین اسلام کو یہ خاندان عرب کے گنوار اوربدو کہتا تھا۔ ہرقل نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کے خاندان پر برے دن بھی آئینگے۔ اللہ اس کے اعمال دیکھ رہا تھا اور اب اس کی ذات باری نے ایمان والوں کا ایک گروہ بھیج دیا تھا جو اس خاندان کو اعمال بد کا بدلہ دے رہا تھا۔
ملکہ مرتینا کو پتہ چلا کہ قسطنطین کو اس بری حالت میں اجلاس سے لائے ہیں تو وہ اٹھ دوڑی اور قسطنطین کے کمرے میں جاکر پلنگ پر بیٹھی اور دو تین بار اس کا منہ چوم کر ایسی وارفتگی اور جذباتیت کا اظہار کیا جیسے وہ اس کی سگی ماں ہوں۔
اے خدا!،،،،،،، مرتینا نے ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف کیے اور منہ اوپر کرکے روتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میرے بیٹے کو صحت عطا کر دے میری جان لے لے، میرے بیٹے کو اچھا بھلا کر دے ،میں اسے گھوڑے کی پیٹھ پر دیکھو ،اور اس کے چہرے پر جوانی کی چمک دیکھو۔
طبیب آ گیا اور اس نے مرتینا کو وہاں سے اٹھا دیا۔
قسطنطین کی نبض دیکھی پھر اس نے جو معائنہ کرنا تھا کیا اور دوائی تجویز کرنے لگا یہ وہی طبیب تھا جو مرتینا کے ایما پر ہرقل کو علاج کے پردے میں زہریلی دوائی دیتا رہا تھا۔
کان کھول کر سن لو طبیب!،،،،،مرتینا نے جذباتی اور کچھ غصیلی آواز میں طبیب سے کہا۔۔۔ میرے بیٹے کو فوراً صحتیاب کرو ورنہ میں تمہیں جلاد کے حوالے کردوں گی۔ زندہ رہنے کے لئے چھوڑ نہیں دو گی اس وقت مجھے اس بیٹے کی زندگی چاہیے ۔
کمرے میں جو چند ایک افراد موجود تھے وہ مرتینا کی یہ وارفتگی دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے ،اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ جا رہے تھے، وہ تو قسطنطین کی دشمن تھی اور چاہتی ہی یہی تھی کہ قسطنطین کو موت اٹھالے اور اس کا بیٹا ہرقلیوناس تخت پر جلوہ افروز ہو۔
طبیب نے اپنا تھیلا کھولا اور ایک دو دوائیاں نکال کر جس طرح قسطنطین کو دینی تھی اس طرح دی اور کچھ دوائیاں وہیں چھوڑی کہ وقفے وقفے سے مریض کو دینی ہے ۔
وہ جانے کے لیے اٹھا قسطنطین کو تسلی دی کہ وہ جلدی سنبھل جائے گا اور باہر نکل گیا ۔اس کے نکل جانے کے فوراً بعد مرتینا یہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی کہ میں اس طبیب کو ایک بار پھر خبردار کردو کے توجہ سے علاج کرے ورنہ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔
طبیب آہستہ آہستہ جا رھا تھا اور بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہا تھا جیسے اسے توقع تھی کہ مرتینا اس کے پیچھے آئے گی مرتینا اسے نظر آگئی۔ طبیب نے اسے دیکھا تو مرتینا نے آنکھوں سے کچھ اشارہ کیا اور طبیب اس طرف مڑ گیا جس طرف مرتینا کا شہانہ کمرہ تھا ۔ پہلے طبیب اس کمرے میں داخل ہوا پھر مرتینا کمرے میں گئی اور دروازہ اندر سے بند کر دیا۔
کیا دے کر آئے ہو۔۔۔ مرتینا نے طبیب سے پوچھا ۔۔۔کیا یہ جلدی صحت یاب ہوجائے گا،،،،،،،،،
نہیں،،،،،، طبیب نے ہونٹوں پر تبسم لا کر کہا اور دائیں بائیں سر ہلا کر کہا۔۔۔ جگر بری طرح متاثر معلوم ہوتا ہے بڑی ہی محنت سے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن امید کچھ زیادہ نہیں۔ مرتینا کو اپنے بازوؤں میں لے کر اور اپنا ایک گال مرتینا کے منہ سے لگا کر پوچھا تم بتاؤ تم کیا چاہتی ہو؟
کیا تم خود نہیں جانتے ۔۔۔مرتینا نے کہا ۔۔۔میں وہی چاہتی ہوں جو ہرقل کی بیماری میں چاہا تھا، اس کا بھی وہی علاج کرو اسے جلدی اس کے باپ کے پاس پہنچا دو اگلے جہان میں باپ اسے تخت پر بٹھائے گا ۔
آج تو میں نے ٹھیک دوائی دی ہے۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ کل سے اسکا وہی علاج شروع کردوں گا جو اس کے باپ کا کیا تھا ۔
لیکن جلدی ۔۔۔مرتینا نے کہا ۔
اتنی جلدی بھی نہیں کہ ہم پکڑے جائیں۔۔۔ طبیب نے کہا ۔۔۔کچھ دن گزرنے دو اگر جلدی کی تو شک پیدا ہوسکتا ہے ،تمہاری خواہش پوری کر دوں گا لیکن ذرا سنبھل کر یہ کام کرنے دو۔
ملکہ مرتینا نے اسے سونے کے دو تکڑے دیے۔ یہ تو کافی نہیں طبیب نے ہاتھ میں لیے ہوئے سونے کے دونوں ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔تم جانتی ہو میرا اور کیا انعام ہے ؟
وہ بھی مل جائے گا ۔۔۔۔مرتینا نے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ لا کر کہا۔۔۔ رات کو پہلے سے زیادہ خوبصورت انعام بھیج دوں گی۔
چند مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ طبیب سات آٹھ دن قسطنطین کا اعلاج کرتا رہا خود آکر اسے دوائیاں اور ہدایات دیتا رہا اور ساتھ ہی یہ تسلیاں بھی کے وہ جلدی صحت یاب ہوجائے گا علاج کا تو نام ہی تھا یہ طبیب قسطنطین کے جسم سے آہستہ آہستہ جان نکال رہا تھا ۔ایک روز طبیب نے دوائیاں دیں تو مرتینا بھی وہاں موجود تھی اور ہر روز کی طرح طبیب کو قتل کروا دینے کی دھمکیاں دے رہی تھی طبیب یوں دبکا ہوا مرعوبیت کی حالت میں سرجھکائے ہوئے تھا جیسے وہ خوفزدگی کی حالت میں ہوں۔
میں شاید صحت یاب نہ ہوسکوں۔۔۔۔ قسطنطین نے نحیف آواز میں کہا۔۔۔ میرا روگ جسمانی نہیں میرے دل نے جو زخم کھائے ہیں ان کا کوئی علاج نہیں ۔
مرتینا اس کے اوپر جیسے گر ہی پڑی ہو غم سے نڈھال اور بے حد جذباتی ہوکر قسطنطین کا منہ چومنے لگی۔
یوں نہ کہو بیٹا!،،،،، مرتینا نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا ۔۔۔میرا جگر اس طرح نہ کاٹو میں تمہارے لئے اپنی جان دے دوں گی۔
طبیب قسطنطین کو یقین دلارہا تھا کہ وہ بالکل صحیح طور پر صحت یاب ہوجائے گا اور اپنے دل پر مایوسی کا بوجھ نہ ڈالے۔
قسطنطین کے لیے اگر کوئی دلی اور روحانی طور پر غمگین تھا تو وہ اس کا جواں سال بیٹا کونستانس تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ غم میں گھل رہا ہے اور یہ غم اسے لے ہی بیٹھے گا ۔
ہرقل نے جس طرح قسطنطین کو تعلیم و تربیت دی تھی اسی طرح قسطنطین نے کونستانس کو تعلیم بھی دلائی اور فن حرب و ضرب کا ماہر بھی بنایا اور سلطنت کے نشیب و فراز سمجھنے کے بھی قابل بنا دیا تھا۔
یہ بھی ایک غم تھا جو قسطنطین کو کھا رہا تھا تخت و تاج کا صحیح وارث کونستانس ہی ہوسکتا تھا لیکن مرتینا ایک چٹان بن کر راستے میں آ گئی تھی۔
اس کا شہزادہ اور آوارہ بیٹا ہرقلیوناس تخت تو دور کی بات ہے شاہی محل میں رہنے کے قابل بھی نہیں تھا۔
باپ کی بیماری کی وجہ سے کونستانس میریا سے نہیں مل سکا تھا ۔
میریا شاہی حرم کی لڑکی تھی لیکن اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ قسطنطین کسی تشویشناک مرض میں مبتلا ہے، اسے معلوم ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ بادشاہ کی بیماری کی خبر باہر نکلنے ہی نہیں دی جاتی تھی یہ بادشاہوں کا رواج تھا۔
ایک روز شاہی حرم کی ایک ادھیڑ عمر ملازمہ کونستانس کے پاس آئی اور سرگوشی میں میریا کا یہ پیغام دیا کہ آج رات اسی وقت اور اسی جگہ آ جائے ایک دوسرے کو دیکھیں بہت دن گزر گئے ہیں ۔
کونستانس نے اس ملازمہ کو کچھ انعام دے کر کہا کہ میریا کو بتا دے کہ میں آ جاؤں گا۔
رات کونستانس شاہی باغ کے اس گوشے میں چلا گیا جہاں وہ اور میریا بہت دیر ایک دوسرے میں گم رہتے تھے ،ان کی محبت روحوں میں اتری ہوئی تھی ۔
کونستانس کو دیکھ کر میریا اس طرح اس کے ساتھ چپک گئی جیسے ماں کو اس کا گمشدہ بچہ مل گیا ہو۔
میریا نے محسوس کیا کہ کونستانس کچھ پریشان اور مایوس سالگتا ہے۔ اس سے الگ ہو کر پوچھا کہ وہ اس کے پاس آ کر اداس اور مایوس کیوں ہو گیا ہے؟
کونسٹانس نے بتایا کہ اس کا باپ بیمار پڑا ہے اور روز بروز اس کی حالت بہتر ہونے کی بجائے بگڑتی جا رہی ہے۔
میریا نے بے تابی سے ایک ہی بار کی سوال پوچھ لیے، بیماری کیا ہے؟ کب سے ہے وغیرہ، اور آخر میں پوچھا کہ علاج کس کا ہو رہا ہے؟
اسی طبیب کا۔۔۔ کونستانس نے جواب دیا۔۔۔ اسے تم جانتی ہو جس نے میرے دادا ہرقل کا علاج کیا تھا۔
نہیں ،،،،نہیں،،،، میریا نے تڑپ کر اور کونتانس کے کندھے جھنجھوڑ کر کہا ۔۔۔اس طبیب کو فوراً ہٹا دو اور دوسرے کسی طبیب کا علاج کراؤ، تم نے پہلے میری بات پر یقین نہیں کیا تھا اور ٹال گئے تھے یہ طبیب جب شاہی ہرقل کا علاج کر رہا تھا تو میں نے تمہیں بتایا تھا کہ وہ شاہ ہرقل کو غلط دوائیاں دے رہا ہے، اور شاید یہ دوائیاں زہریلی بھی ہیں، میں آج بھی یقین سے کہتی ہوں کہ شاہ ہرقل کو اس طبیب نے زہریلی دوائیں دے کر مار ڈالا تھا ، اب وہ تمہارے باپ کو بھی ایسی ہی دوائیاں سے مار ڈالے گا ،یہ ملکہ مرتینا کی سازش ہے تمہارے باپ کو مروا کر وہ اپنے بیٹے کو تخت پر بیٹھائے گی، تمہارا باپ ہی تو اس کے راستے کی آخری رکاوٹ ہے۔ کونستانس اب بھی میریا کی اس بات پر دھیان نہیں دے رہا تھا لیکن میریا کے دل میں کونستانس کی جو محبت تھی اس نے اس کی زبان سے ایسی باتیں کہلواۓ اور ایسی بے تابی کا اظہار کروایا کہ کونستانس مان گیا۔
اگلی صبح کونستانس نے اپنے باپ قسطنطین سے کہا کہ وہ اس طبیب کو بدلنا چاہتا ہے ،اس نے باپ کو کوئی اور بات نہ بتائی، میریا کا شک بلکہ یقین اپنے باپ کے کانوں تک پہنچنے ہی نہ دیا ،اس نے غالبا سوچا ہوگا کہ یہ میریا کا صرف وہم یا شک ہی ہوسکتا ہے۔ اگر قسطنطین نہ مانا تو پھر اسے بتایا جائے گا کہ کونستانس کس کی بنا پر طبیب کو بدل رہا ہے ۔
قسطنطین اپنی صحت سے مایوس ہو چکا تھا اس نے بیٹے کو اجازت دے دی کہ وہ طبیب کو بدل دیے شاید دوسرا طبیب بہتر ثابت ہو۔
کونستانس اسی وقت خود گیا اور دوسرے شاہی طبیب کو لے آیا۔
اور پہلے طبیب کو پیغام بھیجا کہ وہ اب علاج کے لیے نہ آیا کرے۔
نئے طبیب نے دو یا تین روز دوائیاں دیں لیکن قسطنطین سنبھل نہ سکا ذرا سا بھی آفاقہ نہ ہوا بلکہ مرض بڑھتا ہی گیا۔
ایک روز کونستانس نے نئے طبیب سے پوچھا کہ صحت یابی کی کچھ توقع ہے بھی یا نہیں؟
طبیب نے کہا کہ وہ اپنی تشخیص کسی کو بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن اب بتا دینا ہی بہتر سمجھتا ہے ،اس نے کہا کہ یہ حالت کسی زہر سے یا غلطی سے کوئی زھریلی چیز کھا لینے سے ہی ہوتی ہے، طبیب کے اس تشخیص سے کونتانس کو میریا کی باتیں صحیح معلوم ہونے لگی۔ طبیب نے کہا کہ وہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ اس زہر کا اثر زائل ہوجائے۔
طبیب بھی اپنا پورا تجربہ استعمال کرتا اور دوائیاں دیتا رہا اور کبھی پورا پورا دن قسطنطین کے کمرے میں موجود رہا مگر ایک روز قسطنطین کی حالت ایسی بگڑی کے نزع کا عالم طاری ہوگیا اور وہ مر گیا۔
کسی بھی مؤرخ نے اس کی موت کی صحیح تاریخ نہیں لکھی صرف یہ لکھا ہے کہ قسطنطین اپنے باپ ہرقل کی موت کے پورے ایک سو دن بعد مارا تھا۔
ان حالات میں جب روم کی فوج پھر محاذ سے پسپا ہوتی چلی آرہی تھی۔ اور علاقوں پر علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آتے جارہے تھے۔ قسطنطین کی موت اہل روم کے لیے دوسرا بڑا صدمہ تھا وہ ابھی ہرقل کی موت کے صدمے سے سنبھل نہ پائے تھے ۔
قسطنطین اپنے شاہی خاندان کا کوئی عام سا فرد نہ تھا ،محل کے اندر کی سازشیں اور سیاست جو کچھ بھی تھی لوگ بہرحال قسطنطین کو ہرقل کا صحیح جانشین اور اسی کے پائے کا جرنیل سمجھتے تھے۔ اس کی موت کی خبر بڑی تیزی سے پھیلتی ہی گئی تمام جرنیل اور شہری انتظامیہ کے بڑے بڑے حاکم اور کچھ بزرگ دانشور اطلاع ملتے ہی پہنچ گئے۔
ان میں ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بھی تھا۔
قسطنطین کے خون کے رشتے تو غمگین تھے ہی اور سب سے زیادہ غم اس کے بیٹے کونستانس کو تھا۔ لیکن ملکہ مرتینا غم اور اندوہ کی ایسی تصویر بنی پھرتی تھی جیسے اس کا اپنا سگا بیٹا مر گیا ہو۔
یوں لگتا تھا جیسے اس کے لیے بولنا بھی دشوار ہوگیا ہو ،وہ غموں سے بوجھل انداز میں حکم دیتی پھر رہی تھی جیسے سلطنت روم کی ملکہ بن گئی ہو۔
قسطنطین کا بیٹا کون تانس چپ چاپ الگ بیٹھا تھا اس کے چہرے پر غم کا تاثر تو نمایاں تھا ہی لیکن اس تاثر میں کچھ جھلک اور بھی تھی ۔ جوقہر اور غضب کی تھی، اور پتہ چلتا تھا کہ یہ جواں سال شہزادہ غصے اور اپنے قہر پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہر جرنیل اور بڑا حاکم یا کوئی بڑی شخصیت والا عالم اور دانشور وہاں موجود تھا رواج کے مطابق وہ سب ایک قطار میں قسطنطین کی لاش کے قریب سے آہستہ آہستہ گزرتے جا رہے تھے اور ان میں سے ہر کوئی کوئی نہ کوئی جملہ کہتا تھا۔
آجا روم کا اسکندراعظم دنیا سے اٹھ گیا ہے۔
سلطنت روم ایک جابر جرنیل سے محروم ہوگئی ہے ۔
روم کے دشمنوں کے لیے قسطنطین ایک دہشت کا نام تھا۔
قسطنطین نہیں مر سکتا اس کی روح سلطنت روم کے دشمنوں کو برباد کر دے گی ۔
قسطنطین کونستانس کے روپ میں زندہ رہے گا۔
ایک عظیم جرنیل اس وقت اٹھ گیا ہے جب روم کو اس کی شدید ضرورت تھی۔
ملکہ مرتینا غم زدگی کے عالم میں ادھر ادھر گھوم پھر رہی تھی، اس کے کندھے کچھ اس انداز سے آگے کو جھکائے تھے جیسے وہ بڑی مشکل سے اس صدمے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو ۔ اس نے دیکھا کہ جرنیل اور دیگر بڑے لوگ کچھ نہ کچھ کہہ رہے ہیں تو وہ قسطنطین کی لاش پر جا کھڑی ہوئی اور دونوں ہاتھ ذرا اوپر کو پھیلا دیے اور آسمان کی طرف دیکھا۔
اے خدا!،،،،،، مرتینا نے کہا۔۔۔ میرے ایکلوتے بیٹے ہرقلیوناس کی جان لے لیتا قسطنطین کو زندہ رہنے دیتا، میں اپنے بیٹے کا غم پی جاتی، مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔
تم جھوٹی اور عیار عورت ہو۔۔۔ کونستانس کانپتی ہوئی آواز بلند آواز میں بولا۔۔۔
مرتینا میرے باپ کو تم نے زہر دے کر مروایا ہے، میرے دادا شاہ ہرقل کو بھی تم نے زہر دلواکر مروایا تھا، تمہاری آنکھوں میں مگرمچھ کے آنسو ہیں۔
مرتینا کے اوپر کو اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے گرپڑے اور اس پر خاموشی طاری ہو گئی۔
وہاں جتنے لوگ موجود تھے ان پر سناٹا طاری ہوگیا۔ کونستانس نے جو الزام لگایا تھا وہ کوئی معمولی سا الزام نہ تھا ،کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا کہ اس سناٹے میں سے کیسا طوفان اٹھے گا۔ قیرس اٹھا اور تیزی سے آگے بڑھ کر کونستانس کو اپنے بازوؤں میں لیا اور اسے گلے لگا لیا۔
میرے عزیز بیٹے!،،،، قیرس نے کونستانس سے کہا ۔۔۔تم ناقابل برداشت صدمے کی حالت میں ہو، برداشت سے کام لو ایسی بے معنی باتیں منہ سے نہ نکالو۔
میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں ہوش وحواس میں کہہ رہا ہوں۔۔۔ کونستانس نے ایک جھٹکے سے قیرس کے بازوؤں سے نکل کر کہا۔۔۔ اس مکار عورت نے میرے دادا اور میرے باپ کو زہر نہیں دیا اس نے سلطنت روم کی رگوں میں زہر ڈالا ہے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

جاری ہے ………

اپنا تبصرہ بھیجیں