نوجوان نے یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، وہ گولڈ میڈلسٹ تھا، یونیورسٹیوں میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے چہروں پر ایک خاص قسم کا اعتماد ہوتا ہے، ان کی آنکھیں روشن ہوتی ہیں، یہ بھنویں چڑھا کر دائیں بائیں دیکھتے ہیں، ان کی گردن میں تناؤ ہوتا ہے، یہ ناک کو بار بار سکیڑتے ہیں، ان کی آواز بھاری ہوتی ہے اور یہ عموماً سیدھے ہو کر چلتے ہیں، یہ چال، ڈھال اور یہ اعتماد شاید کامیابی کی دین ہوتی ہے، کامیاب لوگ شاید اتنے ہی بااعتماد ہوتے ہیں لیکن یہ کیونکہ یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے عملی زندگی میں آنے والے نوجوانوں کی پہلی کامیابی ہوتی ہے چنانچہ ان کا اعتماد ان کی باڈی پر سوٹ نہیں کر رہا ہوتا، یہ دور سے پہچانے جاتے ہیں بالکل ان لوگوں کی طرح جو زندگی میں پہلی بار سوٹ پہنتے ہیں، جو زندگی میں پہلی بار کافی پیتے ہیں یا جو زندگی میں پہلی بار سگار پیتے ہیں۔
ان نوجوانوں کا اعتماد مانگے ہوئے کوٹ کی طرح ڈھیلا ڈھالا سا محسوس ہوتا ہے، میں کیونکہ گولڈ میڈلسٹ تھا اور میں نے زندگی میں بے شمار گولڈ میڈلسٹ دیکھے ہیں چنانچہ میں ان لوگوں کی نفسیاتی حالت اور چال ڈھال سے پوری طرح آگاہ ہوں، میں اس معاملے میں اتنا تجربہ کار ہو چکا ہوں کہ میں چند لمحوں میں سو ڈیڑھ سو نوجوانوں میں سے گولڈ میڈلسٹ کو تلاش کر لیتا ہوں اور تلاش کے بعد میں اس کے سوالوں اور جوابوں کا اندازہ بھی کر سکتا ہوں، یہ بے چارے بہت ہی بے چارے ہوتے ہیں، یہ بعض اوقات قابل رحم بھی ہوتے ہیں، یہ قابل رحم اور بے چارے کیوں ہوتے ہیں، یہ میں آپ کو اگلی سطروں میں بتاؤں گا، ہم سرے دست اس نوجوان کی طرف آتے ہیں، یہ نوجوان پورے اعتماد کے ساتھ میرے سامنے بیٹھ گیا۔
میں نے اس سے پوچھا ” آپ کیا کرنا چاہتے ہو” اس نے جواب دیا ” میں صحافی بننا چاہتا ہوں” میں نے عرض کیا “ویری گڈ لیکن صحافت کے 34 شعبے ہیں، آپ کس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہو” اس نے جواب دیا ” میں اگر پرنٹ میڈیا میں رہا تو کالم نگار بنوں گا اور اگر ٹی وی جوائن کیا تو اینکر” میں نے عرض کیا ” بہت اچھا، آپ کاغذ اور قلم لو اور مجھے دنیا کے پانچ بڑے کالم نگاروں اور پاکستان کے پانچ اردو اور پانچ انگریزی کے کالم نگاروں کے نام لکھ کر دو” نوجوان کا رنگ فق ہوگیا، اس نے کاغذ لیا اور رک رک کر، سوچ کر نام لکھنے لگا، وہ دس منٹ کی محنت سے صرف چھ نام لکھ سکا، ان ناموں میں لیری کنگ کا نام بھی شامل تھا، میں نے اس کے بعد اس سے عرض کیا “بیٹا آپ اب ان کالم نگاروں کے سامنے ان کے کالم کا ٹائیٹل اور اخبارات کے نام لکھو” یہ ایک مشکل کام تھا، نوجوان نے تھوڑی سی کوشش کی لیکن جلد ہی ہمت ہار کر قلم نیچے رکھ دیا۔
میں نے عرض کیا “آپ ان کالم نگاروں میں سے کس کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں” اس نے فوراً جواب دیا ” آپ کو” میں اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے پوچھا ” آپ نے میرا آخری کالم کب پڑھا تھا” وہ اس سوال پر پھنس گیا، وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا، میں نے اسے خفت سے نکالنے کے لیے عرض کیا ” آپ کو میرے کسی ایک کالم کا تھیم یاد ہو” اس نے فوراً ایک کالم کا حوالہ دیا، میں نے اس کا حوالہ سن کر عرض کیا ” یہ کالم میں نے نہیں لکھا تھا، یہ ہارون الرشید صاحب نے تحریر کیا تھا” وہ شرمندہ ہوگیا، میں نے اس سے عرض کیا ” آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں” اس نے جواب دیا ” مجھے کتابوں میں زیادہ انٹرسٹ نہیں” میں نے پوچھا “آپ نے آخری فلم کب دیکھی تھی” اس نے جواب دیا ” میں نے کل ہی شادی کے سائیڈ افیکٹس دیکھی ہے” میں نے پوچھا ” آپ نے ہالی ووڈ کی کوئی فلم دیکھی ہو” اس نے جواب دیا ” ٹائی ٹینک” میں نے پوچھا ” اس کے بعد” اس نے انکار میں سر ہلا دیا، میں نے پوچھا ” آپ کون سا اخبار پڑھتے ہیں” اس نے برا سا منہ بنایا اور انکار میں گردن ہلا دی۔
میں نے پوچھا “صحافت کا کوئی ایک کام جو آپ اسی وقت کر سکتے ہوں” وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا، میں نے عرض کیا ” مثلاً خبر بنا سکتے ہوں، مضمون لکھ سکتے ہوں، اسٹوری بورڈ بنا سکتے ہوں، ریسرچ کر سکتے ہوں، خبر ایڈٹ کر سکتے ہوں، سرخیاں بنا سکتے ہوں، کاپی جڑوا سکتے ہوں اور اخبار کا لے آؤٹ تیار کر سکتے ہوں” اس نے انکار میں سر ہلا دیا، میں نے عرض کیا ” آپ صحافت سے باہر نکلیں، آپ اس کے علاوہ کوئی کام جانتے ہو مثلاً آپ کو بجلی کی وائرنگ آتی ہو، آپ ٹونٹی ٹھیک کر سکتے ہوں، آپ دیوار پینٹ کر سکتے ہوں، آپ گاڑی ٹھیک کر سکتے ہوں، آپ کو اردو ٹائپنگ آتی ہو، آپ ریکارڈ مینٹین کر سکتے ہوں یا آپ کمپیوٹر ٹھیک کر سکتے ہوں” اس نے انکار میں سر ہلا دیا، میں نے اس سے پوچھا ” کیا آپ کو ڈرائیونگ آتی ہے؟
” اس نے انکار میں سر ہلا دیا، میں نے پوچھا ” کیا آپ رائفل چلا سکتے ہیں” اس نے انکار کر دیا، میں نے پوچھا ” کیا آپ تاش کھیل سکتے ہیں” اس کا جواب نفی میں تھا، میں نے اس سے پوچھا ” دنیا کا کوئی ایک کام جس کے بارے میں آپ کو پورا یقین ہو، یہ آپ آنکھیں بند کرکے کر سکتے ہیں” وہ سوچ میں پڑھ گیا، میں اس کے چہرے کو دیکھتا رہا، اس کے چہرے پر پسینے کے سوا کچھ نہیں تھا، میں اپنے سوالوں اور اس کی حالت پر شرمندہ ہوگیا۔
میں نے اس سے عرض کیا “بیٹا آپ کو اگر کچھ نہیں آتا تو پھر آپ کو نوکری کیوں دی جائے” نوجوان نے جواب دیا ” سر میں سیکھ جاؤں گا، آپ بس مجھے موقع دیں” میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے عرض کیا ” یہ جواب ثابت کرتا ہے، آپ کی سولہ سال کی تعلیم اور فرسٹ کلاس فرسٹ ڈگری نے آپ کو کچھ نہیں سکھایا، آپ یونیورسٹی سے کچھ سیکھ کر نہیں آئے اور آپ کی ڈگری محض ایک ٹکڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی” وہ خاموش رہا لیکن اس کا چہرہ غصے سے تپ رہا تھا، اس کے گالوں پر جیسے آگ لگی ہوئی تھی، وہ چند لمحے خاموش رہا اور اس کے بعد بولا ” کیا آپ گھر سے سیکھ کر آئے تھے” میں نے انکار میں سر ہلایا اور آہستہ آواز میں جواب دیا “نہیں!
میں نے یونیورسٹی دور میں سیکھنا شروع کیا تھا، میں نے ایم اے میں فیصلہ کر لیا تھا میں نے کالم نگار بننا ہے چنانچہ میں دن کے وقت یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، شام کے وقت بہاولپور کے ایک اخبار میں مفت کام کرتا تھا، خبر بنانا سیکھتا تھا، سرخیاں لگاتا تھا اور کالم لکھتا تھا، میں روز آدھی کتاب بھی ختم کرتا تھا چنانچہ میں جب پہلی نوکری کے لیے گیا اور مجھ سے غیر ملکی، اردو اور انگریزی کے پانچ پانچ کالم نگاروں کے نام پوچھے گئے تھے تو میں نے چند منٹوں میں سارے نام لکھ دیے تھے” اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا ” آپ یقینا بجلی کی وائرنگ، دیواروں پر پینٹ اور موٹرمکینک کا کام بھی جانتے ہوں گے” میں اس کا طنز بھانپ گیا، میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا، میں ساتویں اور آٹھویں کلاس میں شام کے وقت ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر ریپیئر کرنے والے ایک شخص کے پاس جاتا تھا، میں نے آٹھویں جماعت میں یہ کام بھی سیکھ لیا اور بجلی کی وائرنگ بھی، میں بچپن میں دیواروں پر پینٹ بھی کر لیتا تھا اور میں نے ایف ایس سی میں رائفل کھولنے، جوڑنے اور نشانہ لینے کی ٹریننگ بھی لے لی، میں سکاؤٹ بھی بن گیا، میں نے کیمپنگ بھی کی اور میں نے بی اے میں ڈرائیونگ اسکول سے گاڑی چلانا بھی سیکھ لیا، میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فری کوچنگ کلاسز لیتا تھا، میں چھوٹے بچوں کو پڑھانا سیکھتا تھا، میں نے آگ بجھانے کا ڈپلومہ بھی لیا اور میں نے سلائی مشینیں ٹھیک کرنے کا کورس بھی کیا”۔
اس نے قہقہہ لگایا اور بڑے دلچسپ ریمارکس دیے، اس کا کہنا تھا “آپ ایک کنفیوژ شخصیت ہیں” میں نے بھی قہقہہ لگایا اور عرض کیا ” ہاں آپ کہہ سکتے ہیں لیکن میں نے بچپن اور جوانی میں وقت ضایع نہیں کیا، میں سیکھتا رہا، میں آج بھی سیکھ رہا ہوں، یہ سوچ کر سیکھ رہا ہوں، مجھے اگر کسی دن صحافت چھوڑنی پڑ گئی تو میرے پاس کوئی نہ کوئی ایسا ہنر ضرور ہونا چاہیے جو مجھے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچا سکے، میں سلائی مشینیں ٹھیک کرنے کی دکان پر کام کر لوں، میں آگ بجھانے والی کمپنی میں کام کر لوں، میں بجلی کی وائرنگ کر لوں، دیواروں پر پینٹ کر لوں یا پھر کسی کا ڈرائیور بن جاؤں مگر بھکاری نہ بنوں۔
مجھے کسی انسان کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے” وہ نوجوان تھوڑا سا شرمندہ ہوگیا، میں نے اس سے عرض کیا ” میری شدید خواہش ہے، میں روز کسی نہ کسی یونیورسٹی جاؤں اور وہاں موجود طالب علموں سے ایک سوال کروں، کیا تم کوئی ایسا ہنر جانتے ہو جو تمہیں فوری طور پر روزی دے سکے، تم جس کی مدد سے اپنا بوجھ اٹھا سکو، جس جس نوجوان کا جواب ہاں ہو اسے ڈگری دے دی جائے اور جو انکار کرے اسے ڈگری کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے کیونکہ جو ڈگری آپ کو ہنر نہیں دیتی، وہ ڈگری کاغذ کے معمولی ٹکڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، وہ محض وقت کا ضیاع ہوتی ہے۔