والدین کی محبت میں اظہار کی کمی اور بچوں سے دوستانہ رویہ نہ رکھنا جہاں بچوں میں خودکشی کی بڑی وجہ ہے وہاں ایک اور بڑی وجہ اپنے بچوں کا دوسروں کے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنا ہے۔ ان کے اخلاق سے لے کر ان کے امتحانات تک۔ فلاں کا بچہ دیکھو کتنا اچھا ہے۔ کتنے اچھے نمبرز لیتا ہے۔ تمھاری عمر میں ہم یہ کرتے تھے۔ ہم وہ کرتے تھے۔ یہاں پر دیکھا جائے تو غلطی بچے کی نہیں ہے۔ غلطی ان والدین کی ہے جو اپنے بچوں کو وہ ماحول اور حالات مہیا نہیں کر سکے جو دوسرے والدین نے اپنے بچوں کو مہیا کیا۔ جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہوئے۔۔ کبھی والدین نے اپنا موازنہ دوسرے والدین کے ساتھ کیا؟ کبھی والدین نے اپنا احتساب کیا؟ کبھی خود کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے؟ وہ کٹہرا جس میں معصوم بچہ ہر روز کھڑا ہوتا ہے؟
امتحانات میں اچھے نمبرز لینے کا دباؤ کتنے بچوں سے ان کا بچپن ان کے معصوم خواب اور کی حقیقی خوشی چھین لیتا ہے۔ میں ایک سکول کو بطور کیمپس ڈائریکٹر دیکھ رہی ہوں۔ وہاں پر ایک فیملی اپنی اڑھائی سال کی بچی کو پلے گروپ میں داخل کروانے آئی۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ ابھی بچی کو سکول داخل نہیں کروائیں۔ یہ بہت چھوٹی ہے۔ انھوں نے کہا یہ سب باتیں کر لیتی ہے۔ ایکٹیو ہے۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ بچی سکول کے نام سے بھاگے گی۔ اور چڑچڑی ہو جائے گی۔ وہ نہیں مانے اور بچی کو سکول داخل کروا دیا۔ چونکہ یہ عمر بچے کی صرف سیکھنے کی ہوتی ہے۔ اس کو زبانی چیزیں یاد کروائی جا سکتی ہیں۔ یا سکھائی جا سکتی ہیں۔
اس بچے کو لکھنا سکھانا اور پھر اسے لکھنے پر مجبور کرنا بچے کو ذہنی اور جذباتی طور پر پریشان کرتا ہے۔ یہ عمر کھیل کود سے سیکھنے کی ہوتی ہے۔ یا وہ بچہ اپنی ماں سے جذباتی طور پر بہت اٹیچ ہوتا ہے۔ اور صبح صبح اسے جگا کر ماں سے دوری بھی سہنی پڑتی ہے اور نیند بھی خراب ہوتی ہے۔ اس سارے دباؤ کے ماحول کا نتیجہ بلاوجہ رونا اور چڑچڑا پن ہوتا ہے۔ اب کل پریشان ہو کر والدین میرے پاس آئے۔ کہ ہماری بچی بہت چڑ چڑی ہوگئی ہے۔ بات بات پر ضد کرتی ہے۔ سکول کا نام لیتے ہی رونے لگتی ہے۔ میں نے انھیں جواب دیا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا یہ سب ہوگا۔ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے لیکن اتنی کم عمر میں بچے پر سکول کا بوجھ ڈالنا میرے نزدیک جرم ہے۔
امتحانات میں اچھے نمبرز لینے کا دباؤ جو عموماً اساتذہ اور والدین کی طرف سے ہوتا ہے۔ بچے کے اندر بہت سے نفیساتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ان تمام مسائل کی جڑ انگزائیٹی اور ڈپریشن ہے۔ جس کی وجہ سے دباؤ کا شکار بچہ بات بات پر رو دیتا ہے۔ یا غصہ کرتا ہے۔ چڑا چڑا پن بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتاہے۔ بچہ لوگوں سے گھلنے ملنے سے کترائے گا۔ وہ لوگوں کا سامنا کرنے سے بھی ڈرنے لگے گا۔ اسے لگے گا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نالائق ہوں۔ وہ خود کو دوسروں سے کمتر سمجھے گا۔ اور جب ایک انسان میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اس میں کوئی صلاحیت نہیں اور وہ دوسروں سے کم تر ہے تو اس کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہو جائے گا۔
بہت سے بچوں کا ذہنی اضطراب انھیں تشدد پر بھی ابھارتا ہے۔ اور وہ دوسرے بچوں کو بلاوجہ یا کسی وجہ سے بھی مارتے پیٹتے ہیں۔ ذہنی اضطراب جو امتحانات کے دباؤ کی وجہ سے ہو بچے سے قوت اظہار بھی چھین سکتا ہے۔ اور بچہ اپنی ذات میں گم رہنے لگتا ہے۔ اپنے مسائل یا پریشانی کو کسی سے شئیر نہیں کرتا۔ بچہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں امتحانات میں اچھے نمبر لوں گا تو میں اس دنیا میں سب کے ساتھ چل سکتا ہوں۔ اگر ایسا نہیں تو میں ان سے مختلف ہوں۔ وہ خود کو مختلف سمجھتے ہوئے۔ خاموش ہو جائے گا۔ کھیل کود میں عدم دلچسپی یا بہت زیادہ دلچسپی دونوں صورتیں بچے کے اضطراب کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
بچے خود کلامی کا شکار ہو جائیں گے۔ وہ اپنی ذات سے ہی باتیں کریں گے۔ اور بعض بچے تو اپنے تصورات میں ہر وہ مقام اور چیز حاصل کرنے لگ جاتے ہیں اور اس سے لذت حاصل کرتے ہیں جو حقیقی زندگی میں وہ حاصل نہ کر سکیں۔ یہ انگزائیٹی بچے کی نفسیات، بچے کی صحت اور بچے کے رویے تینوں چیزوں پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچے کی زندگی کی طرف سے رغبت ختم ہو جائے گی۔ وہ والدین سے بہن بھائیوں سے نظریں چرائے گا۔
نیند کی کمی یا معمول سے زیادہ نیند یہ مسائل بھی بچے میں انگزائیٹی کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔ نیند میں باتیں کرنا۔ اور بعض بچوں میں دیکھا گیا ہے کہ وہ سوتے ہوئے بھی سبق یاد کرتے رہتے ہیں یا پھر نیند میں رونے لگتے ہیں کہ میں نے سکول نہیں جانا۔ یہ سب مسائل بچے کو مایوسی کی ایسی اندھی کھائی میں پھینکتے رہتے ہیں کہ ایک دن وہ اپنی جان لینے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔
اپنے بچوں کو نمبر گیم کا حصہ نہ بنائیں۔ انھیں اچھا اور نفیس انسان بنائیں۔ وہ جتنے بھی نمبرز لیں انھیں سیلیبریٹ کریں۔ ان میں اس سیلیبریشن سے آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ اساتذہ اور والدین بچوں سے گفتگو کے طریقوں کو بدلیں۔ کبھی یہ نہ کہیں کہ تم ہو ہی نالائق تم سے نہیں ہوتا۔ بلکہ کہیں کہ آپ تو بہت ذہین بچے ہیں۔ آپ یہ کرکے دکھا سکتے ہیں۔ ایک آدھ بار کی ناکامی پر انھیں بتائیں کہ ناکامیاں کامیابی کا راستہ ہیں۔
تعلیم کا مقصد نمبرز گیم نہیں۔ بلکہ تعلیم کا مطلب ہے کہ آپ کے بچے نے کیا سیکھا یا اس کا شعور کتنا بلند ہوا۔ اگر آپ کو یہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں تو نمبرز گیم کو بھول جائیں۔ بچے کے سکلز کو بڑھائیں۔ اگر بچہ مہارتیں حاصل کر لیتا ہے تو وہ زندگی میں کامیاب ہے۔ اگر وہ صرف نمبرز گیم کا حصہ ہے اور صلاحیتوں پر فوکس نہیں تو وہ ناکام ہے۔ بچے کو تنہا مت چھوڑیں۔ اس کے کم نمبروں یہاں تک کہ فیل ہونے پر بھی خوش دلی سے ویلکم کریں۔ اور اسے پیار سے سمجھائیں۔ اگر بچہ پڑھنا نہیں چاہتا۔ تو اس کو جس چییز میں دلچسپی ہے اس چیز کے اسباب مہیا کریں۔ وہ اپنے پسند کی فیلڈ میں ضرور کامیاب ہوگا۔
بچوں کو ڈاکٹر انجینئر بنانے سے پہلے اچھا انسان بنائیں۔ یہ مسائل انفرادی ہوتے ہیں اور ہر بچے کے ساتھ مختلف طریقے سے پیش آ سکتے ہیں۔ ان کو شناخت کرکے اپنے بچوں کے ساتھ تعاون کریں۔ انھیں صحت مند انسان کے طور پر پروان چڑھائیں۔ انھیں دباؤ سے آزاد ماحول مہیا کریں۔ ان کے جسم کے ساتھ ساتھ ان کے معصوم دلوں اور حساس ذہنوں کی بھی نگہداشت کریں۔