مقوقس کے لیے بابلیون کے اردگرد اور دور دور تک جو صورتحال پیدا ہو چکی تھی اس سے اس کی نیندیں حرام ہو گئی تھی۔
اسے ہرقل کی طرف سے بھی خطرہ تھا کہ ہرقل کو پتہ چل گیا ہوگا کہ یہ لڑکی اسے قتل کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی، مقوقس نے اپنے جاسوس کی پوری رپورٹ سنکر جرنیل تھیوڈور سے کہا کہ اس جہاز کے کپتان کو اغوا کروا کر بابلیون بلایا جائے کیونکہ صحیح بات اسی سے معلوم ہو سکتی ہے۔ چنانچہ تھیوڈور نے دو ایسے فوجی منتخب کیے جو کپتان کو اغوا کرنے کی ہمت اور مہارت رکھتے تھے، ان آدمیوں کو بحری جہاز کا نام اور کپتان کا نام بھی بتا دیا گیا اور بڑی سختی سے کہا گیا کہ اسے اسکندریہ سے اس طرح لانا ہے کہ کسی کو شک نہ ہو کہ اسے کسی بری نیت سے اغوا کیا جا رہا ہے،،،،، دونوں آدمی اسی روز اسکندریہ کو روانہ ہوگئے مقوقس مصر کا بادشاہ تھا کسی بھی بادشاہ کے لئے رعایا میں سے کسی شخص کو اغوا کروانا کوئی کام ہی نہیں تھا۔
اس بادشاہ کا اصل کام تو ایک بہت بڑا خطرہ بن کر اسے نرغے میں لئے ہوئے تھا ، وہ قلعہ بابلیون میں تھا اور اس قلعے میں فوج کی کمی نہیں تھی لیکن اس کے لئے یہ مشکل پیدا ہو گئی تھی کہ بابلیون کے قریب سے ہی شروع ہونے والا علاقہ جو اس دور میں فیوم کے نام سے مشہور تھا مجاہدین اسلام کے قبضے میں آ گیا تھا ،اور وہاں جو رومی فوج تھی کچھ تو بابلیون میں جا پناہ گزین ہوئی تھی، اور باقی قلعہ نقیوس میں جا بیٹھی تھی۔ مقوقس اس پر تکیہ کیے ہوئے تھا کہ صوبہ فیوم کے قبطی عیسائی مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور بغاوت کر دیں گے ،مجاہدین اسلام نے صرف اس صوبے پر ہی نہیں بلکہ اس سے ملحقہ دوسرے صوبے کے بھی دو بڑے شہر اپنی عمل داری میں شامل کر لئے تھے۔
یہ علاقے قبطی عیسائیوں کی اکثریت کے علاقے تھے مجاہدین اسلام کی تعداد اس قدر کم تھی کہ عمرو بن عاص نے بہت ہی تھوڑے مجاہدین کو ان مفتوحہ اور اتنے وسیع علاقوں میں چھوڑا تھا، ان مجاہدین کے ذمے ایک کام تو نظم و نسق صحیح رکھنا تھا ،اور امن وامان بھی قائم کرنا تھا، اگر قبطی بغاوت کر دیتے یعنی محصولات وغیرہ کی ادائیگی سے انکار کردیتے تو مجاہدین ان پر قابو نہیں پا سکتے تھے ،پھر کیا وجہ ہوئی کہ ان لوگوں نے بغاوت نہ کی؟،،،،،،،، ان کے اسقف اعظم بنیامین نے تو انہیں کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے سیلاب کو روکنا ہے اور رومی فوج کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
یہاں پر وہی عظیم نام سامنے آتا ہے،،،،،، اللہ،،،،،، یہ اللہ کا کرم تھا لیکن اللہ ایسا معجزہ نما کرم صرف ان پر کیا کرتا ہے جو اپنے دین اپنے ایمان اور اللہ کی راہ میں اپنے عزیز کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں، اور جن کے دلوں میں بنی نوع انسان کی محبت ہوتی ہے۔ یہ قلعے فتح ہوئے تھے ،اور رومی فوج آخری سپاہی تک بھاگ گئی تھی تو شہریوں میں بھگدڑ اور افراتفری کا بپا ہونا ایک قدرتی امر تھا لوگ جانتے تھے کہ فاتحین مفتوحہ لوگوں پر رحم نہیں کیا کرتے، لوٹ مار ہوتی ہے قتل و غارت ہوتی ہے، اور جواں سال عورتوں کو فاتحین اپنی ملکیت سمجھ لیتے ہیں، لیکن مسلمان فاتحین نے وہاں کے لوگوں کوحیران کردیا ،کتنی دلچسپ بات ہے کہ مجاہدین کے ساتھ ان کی مستورات بھی تھیں، ان مستورات نے وہ مہم سر کی جو بڑے بڑے لشکر بھی ذرا مشکل سے سر کیا کرتے ہیں۔
ان مستورات نے مفتوحہ بستیوں میں جا جا کر وہاں کی عورتوں اور ان کے آدمیوں کو یقین دلایا کہ وہ بھاگے نہیں اور اس طرح گھروں میں بیٹھے رہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجاہدین نے کسی گھر کی طرف دیکھا تک نہیں سوائے اس کے کہ اعلان کرتے پھرے کے کسی شخص کو بلا وجہ پریشان نہیں کیا جائے گا، اور عورتیں اپنے معمول کے مطابق باہر جائیں آئیں اور فاتحین کو اپنے بھائی اور محافظ سمجھیں۔
تاریخ دان ابن الحکم اور تغری نے “النجوم الزاہرہ ” میں لکھا ہے کہ مقوقس کی توقعات کے خلاف صوبہ فیوم کے لوگوں نے مسلمانوں کے احکام کی خلاف ورزی کی بجائے انھیں دل و جان سے قبول کرلیا ،اور ان میں ان کے اپنے ہی بزرگوں کی یہ آواز پھیلتی چلی گئی کہ آخر فتح اہل اسلام کی ہی ہونی تھی ،اس فاتح کو قبول کر لو ۔ قبطیوں کی طرف سے یہ آواز بھی سنائی دی کہ ہرقل کی درندگی آج سے ختم ہے اور اب امن و امان کا دور شروع ہو گیا ہے۔
توپھر یہ سب کیا تھا؟،،،،،،، وہ یہ تھا کہ مجاہدین کو لوگوں کے مال و اموال اور سونے چاندی اور انکی حسین لڑکیوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی ،انہوں نے اپنی مستورات کو ساتھ لے کر لوگوں کے دل فتح کرلئے تھے، انہوں نے حقوق العباد کو سامنے رکھا کیونکہ یہ حکم الہی تھا۔
خطرہ ان مصری بدوؤں کی طرف سے تھا جو مجاہدین اسلام کے لشکر میں شامل ہوئے تھے، لیکن انہوں نے بھی کسی شہری کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہ کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مال غنیمت کا پورا پورا حصہ مل جاتا تھا، اور انھیں ذہن نشین کرا دیا گیا تھا کہ مال وہی اچھا جو حلال کا ہو
، یہ بدو پسماندہ ذہن کے لوگ تھے اور توہم پرست بھی، انھیں بات سمجھانے کے لئے بتایا گیا کہ جو شخص لوٹ مار کرتا ہے اور کسی کی لڑکی پر ہاتھ اٹھاتا ہے وہ میدان جنگ میں مارا جاتا ہے، اور اس کی لاش چیل کوّے اور گیدڑ کھاتے ہیں، انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ہرقل جیسا فرعون بادشاہ مصر میں آنے سے کیوں ڈرتا ہے اور اسے کیوں شکست ہو رہی ہے صرف اس لئے کہ وہ نہتّے اور کمزور لوگوں پر ظلم وستم توڑتا تھا،،،،،،،، یہ ایسی دلیل تھی جو بدوؤں کے دلوں میں بیٹھ گئی۔
اب وہاں صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ رومی فوج کے دلوں میں مجاہدین اسلام کی دہشت اتر گئی تھی اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں مجاہدین کی محبت اور ان کا خلوص ایمان گھر کر گیا تھا، وہ تو جیسے مسلمانوں کے پیار اور ان کی شفقت کے اسیر ہوگئے تھے۔ اب سپہ سالار عمرو بن عاص کا ہدف قلعہ بابلیون تھا ،جسے انہوں نے محاصرے میں لے لیا تھا لیکن اس قلعے کو سر کرنا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا، اس لئے نہیں کہ مجاہدین کی تعداد بہت تھوڑی تھی بلکہ قلعہ بلا شک و شبہ نا قابل تسخیر تھا۔
عمرو بن عاص اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ قلعہ سر کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا ، پھر بھی انہوں نے محاصرہ کر لیا جس کی وجہ انھوں نے اپنے سالاروں کو یہ بتائیں کہ محاصرہ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر جو فوج ہے اسے پریشانی میں مبتلا رکھا جائے، دوسری وجہ یہ کہ رومی یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان اس قلعے کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں، مطلب یہ کہ عمروبن عاص دشمن کے سر پر سوار رہنا چاہتے تھے۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس قلعے کی مضبوطی کو تھوڑا سا بیان کر دیا جائے، آج بھی قدیم مصر میں گھوم پھر کر دیکھیں تو قلعہ بابلیون کی چند دیواریں اور دو برجیاں کھڑی نظر آتی ہیں، ان کھنڈرات کے اندر چلے جائیں اور دھیان اللہ کی طرف کر لیں اور پھر ان مجاہدین کو تصور میں لائیں جن کے دور میں یہ قلعہ ایک بہت بڑا چیلنج بن کر شان و شوکت سے کھڑا تھا، اور ان مجاہدین نے کفر کے اس چیلنج کو اللہ کا نام لے کر قبول کر لیا تھا۔
اس تصور سے آپ کو سرگوشیاں سے سنائی دیں گی یوں جیسے ان مجاہدین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائیوں کی روحیں سرگوشیوں میں داستان جہاد سنا رہی ہوں۔
روحوں کی سرگوشیاں وہی سن سکتا ہے جس کی اپنی روح بیدار ہو اور اس روح میں اللہ کا وجود رچا بسا ہوا ہو، آج تو وہاں یہ عالم ہے کہ فرعون تو نہیں ہیں لیکن آج کے حکمرانوں میں فرعونیت زندہ وہ بیدار ہے، اللہ کا نام لینے والوں اور جہاد کی باتیں کرنے والوں کو عسکریت پسند مسلمان یا بنیاد پرست کہہ کر قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے، اور بعض کو تو قتل ہی کر دیتے ہیں، ویسے نام کو یہ اسلامی ملک ہے اور اس پر جو حکمران ہیں وہ بھی مسلمان ہیں مگر ان کے دلوں میں اللہ کی نہیں اسرائیل کی خوشنودی غالب ہے۔
بابلیون کا قلعہ جب چودہ صدیاں پہلے اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑا تھا تو اس کی دیواریں اتنی بلند اور برجیاں اتنی مضبوط تھی کہ ان تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا اس کی دیواریں ساٹھ قدم اونچی اور اٹھارہ قدم چوڑی تھیں، یہ دیوار ایسی ٹھوس تھیں کہ ان میں شگاف ڈالا ہی نہیں جاسکتا تھا ۔
ان دیواروں کے اوپر جو برجیاں تھی وہ مضبوطی کے علاوہ بلند بھی تھی ان کے ساتھ زینے لگے ہوئے تھے اور ان کے اوپر چڑھ کر دیکھو تو دور دور تک علاقہ نظر آتا تھا دریائے نیل کا نظارہ تو دیکھنے والوں کو مسحور کردیتا تھا۔
قلعے کے ایک پہلو سے نیل گزرتا تھا ۔ جیسے اس طرف کی دیوار دریا میں کھڑی ہو، صدر دروازہ دریا کی طرف کھلتا تھا اور یہ دروازہ لوہے کا بنا ہوا تھا یا اس پر لوہے کی چادریں ڈالی گئی تھیں، اس طرف کشتیوں کا ایک بیڑا ہر وقت تیار رہتا تھا، وہاں سے بالکل سامنے نیل بہت چوڑا ہو کر دور دور تک پھیل جاتا تھا، پھیلاؤ کی وجہ سے دریا کے عین وسط میں ایک وسیع خطہ خشکی کا رہ گیا تھا ،جہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اس قلعے کا نام روضہ تھا ،اس قلعے میں فوج ہر وقت موجود اور تیار رہتی تھی، بوقت ضرورت یہ فوج کشتیوں میں بیٹھ کر فورا بابلیون میں پہنچ جاتی تھی اور محاصرہ کرنے والے اس کمک کو روک بھی نہیں سکتے تھے، اور آخر ناکام رہتے تھے۔
قلعہ بابلیون میں اتنے زیادہ کنوئیں موجود تھے کہ پانی کی قلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، دیوار کے باہر سے کھیت اور پھلوں کے باغات شروع ہو جاتے تھے جو لقعے کے ارد گرد تھے ان کی وجہ سے قلعے میں خوراک کی بھی قلت پیدا نہیں ہوتی تھی۔ قلعے کو اور زیادہ مستحکم اور ناقابل تسخیر بنانے کے لئے کھیتوں اور باغات کے ارد گرد ایک بڑی چوڑی اور گہری خندق کھودی ہوئی تھی، جس میں دریا کا پانی آتا رہتا تھا ، دریا کی طرف والے دروازے کے علاوہ ایک اور بڑا دروازہ تھا ،وہاں رسوں اور زنجیروں کی مدد سے ایسا انتظام کیا گیا تھا کہ اپنی فوجوں کو خندق سے گزرنے کے لئے ایک پل تھا جسے بوقت ضرورت خندق پر ڈال دیا جاتا تھا گزرنے کے بعد یہ پل اٹھا دیا جاتا اور دشمن کے لیے خندق عبور کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔
بابلیون کے اندر اپنے جو جاسوس گئے ہوئے تھے وہ محاصرے سے پہلے نکل آئے تھے انہوں نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا تھا کی قلعے کے اندر بہت ہی زیادہ فوج موجود ہے اور دریا کے جزیرے والے قلعے میں بھی فوج کی کمی نہیں یہ ساری فوج میدان جنگ سے اس حالت میں بھاگی تھی کہ اس پر خوفزدگی طاری تھی لیکن فوج اتنی زیادہ تھی کہ ہجوم کی صورت میں، اور قلعے کی دیواروں کی پناہ میں دفاعی جنگ لڑ سکتی تھی۔
مجاہدین اسلام نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا۔
چند دنوں بعد مقوقس کو اطلاع دی گئی کہ جہاز کے کپتان کو پکڑ کر لے آئے ہیں ،مقوقس نے اسی وقت کپتان کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔
زندہ رہنے کا ارادہ ہے تو سچ بول دو۔۔۔ مقوقس نے کپتان سے کہا۔۔۔ تم ایک لڑکی اور دو آدمیوں کو اسکندریہ سے بزنطیہ لے گئے تھے اور انھیں ہرقل کے پیش کیا تھا ،ان آدمیوں کو تم نے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کیوں ڈالی تھیں۔
کپتان گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر دیکھنے لگا اور یوں پتہ چلتا تھا جیسے اس کی زبان گنگ ہو گئی ہو، اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا، جو اس کے لئے جرم کا ثبوت تھا۔
میں تمہیں قتل نہیں کرواؤں گا ۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ تمہارے اتنی بڑے جہاز کو آگ لگوا دو گا اور تمہارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر کھلا چھوڑ دوں گا اور پھر بھیک مانگتے پھرنا۔
کپتان جان گیا کہ ساری بات کھل گئی ہے اسے یہ احساس بھی تھا کہ وہ کسی معمولی سے حاکم کے سامنے نہیں بلکہ اس ملک کے فرمانروا کے سامنے کھڑا ہے جو اسے کھڑے کھڑے قتل کروا سکتا ہے، وہ مقوقس کے پاؤں پر گر پڑا اور ماتھا رگڑنے لگا اس نے ساری بات سنا ڈالی اور کہا کہ یہ اس نے ایک تو انعام کے لالچ سے کیا اور دوسری وجہ یہ کہ وہ ہرقل کے مداحوں میں سے تھا۔
مقوقس صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ ہرقل کو پتہ چل چکا ہے یا نہیں کہ اس نے ہرقل کے قتل کا انتظام کیا تھا، یہ اسے اس کپتان سے پتہ چلا ۔
مقوقس اور جرنیل تھیوڈور جو اس وقت اس کے پاس بیٹھے تھے حیران ہونے لگے کہ ہرقل نے اس کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں کی، کپتان کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہرقل نے اس کی غیر حاضری میں کیا سوچا اور کیا کہا تھا۔
کپتان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے مقوقس نے اسے باہر بھیج دیا اور تھیوڈور کے ساتھ صلح مشورہ کرنے لگا اس نے کہا کہ اس شخص نے سچ بولا ہے اس لئے اس کی جان بخشی کردی جائے۔
نہیں،،،،،، تھیوڈور نے کہا۔۔۔۔ اسے آزاد کردیا تو یہ سب سے پہلا کام یہ کرے گا کہ بزنطیہ جا کر ہرقل کو بتائے گا کہ ہم نے اسے سے اندر کی بات معلوم کر لی ہے ،اس کے بعد ہرقل ہمارے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا،،،،،،،،،،، اس کپتان کا زندہ رہنا ہمارے لئے ٹھیک نہیں۔
مقوقس نے حکم دے دیا کہ اس کپتان کو جلاد کے حوالے کردیاجائے باہر سے کپتان کی آہ و بکا سنائی دینے لگی جو دور ہی دور ہٹتی گئی اور جلاد کے ہاں جا کر بالکل خاموش ہو گئی۔
محاصرے کے دوران ایک جاسوس مجاہد جو ابھی قلعہ بابلیون کے اندر ہی تھا باہر نکل آیا یہ اس کا ایک کارنامہ تھا جو اس نے کر دکھایا تھا ،وہ بابلیون میں کسی مخصوص بھیس میں تھا وہاں سے وہ کشتی میں دریا کے پار قلعہ روضہ تک چلا گیا ،وہ شہر کے چند آدمیوں کے ساتھ گیا تھا غالبا سرکاری طور پر قلعہ روضہ کے جزیرے میں کوئی کام تھا جس کے لیے اس مجاہد نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔
رات کے وقت یہ مجاہد چوری چھپے وہاں سے نکلا اور دریا میں اتر گیا ان دنوں دریا میں طغیانی کے آثار پائے جاتے تھے ویسے بھی وہاں سے دریا خاصہ چوڑا تھا جسے تیر کر پار کرنا کسی کسی کا ہی کام ہو سکتا تھا ،اس جاسوس نے دریا پار کر لیا اور پھر کنارے کنارے پر چلتا وہاں تک چلا گیا جہاں لشکر مجاہدین کا محاصرہ تھا ،اس لشکر میں پہنچ کر وہ گر پڑا تھا اور کچھ دیر بعد اس کے ہوش و حواس ٹھکانے آئے تھے۔
اس نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ خبر دی کہ قلعے کے اندر کتنی زیادہ فوج ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ مقوقس نے اس ساری فوج کو اکٹھا کرکے خطاب کیا ہے۔
مقوقس نے اپنے اس خطاب میں اپنی فوج سے کہا تھا کہ دریا میں طغیانی شروع ہو چکی ہے اور ایک یا ڈیڑھ مہینے تک دریا میں اتنی طغیانی آجائے گی کہ اس میں کوئی اترنے کی جرات نہیں کرے گا ۔اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ دریا کی طرف سے قلعہ بالکل محفوظ ہوجائے گا، باقی اطراف خندق پانی سے اتنی بھری رہے گی کہ عرب کے یہ مسلمان اسے پار نہیں کر سکیں گے۔
مقوقس نے یہ بھی کہا کہ طغیانی مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہے گی اور پھر اترنے لگے گی ایک مہینے تک دریا کا بہاؤ معمول پر آجائے گا اور پھر اسکندریہ سے کمک آ جائے گی۔
نیل اسکندریہ کی طرف بہتا تھا وہاں سے کمک دریائی راستے سے ہی آسانی سے اور کم وقت میں آ سکتی تھی لیکن طغیانی کی صورت میں کشتیاں الٹے رخ چلانا بہت ہی مشکل اور دقت طلب تھا۔ مقوقس نے کہا کہ اتنا عرصہ گزر جانے تک مسلمانوں کا حوصلہ پشت ہو چکا ہوگا اور انہیں آسانی سے پسپا کیا جا سکے گا۔
جاسوس مجاہد نے یہ بھی بتایا کہ مقوقس نے اپنی فوج کو انعام کا لالچ بھی دیا ہے، یہ تنخواہ دار فوج تھی مقوقس نے فوجیوں سے وعدہ کیا کہ مسلمانوں کو پسپا کردیا گیا تو ہر فوجی کو تین مہینوں کی دگنی تنخواہ دی جائے گی، اور جو فوجی زیادہ بہادری کر دکھائیں گے انہیں انعام واکرام سے مالا مال کر دیا جائے گا۔
جاسوس نے اپنی رائے یہ دی کہ رومی فوج کی تعداد تو بہت زیادہ ہے لیکن اس فوج کا حوصلہ اتنا مضبوط نظر نہیں آتا جتنا ہونا چاہیے، اس نے مزید یہ بتایا کہ جو فوجی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے اور بھاگ گئے تھے وہ تو مسلمانوں کا نام سنتے ہی چپ ہو جاتے ہیں، رومی فوجیوں کی یہ کیفیت تاریخ میں بھی صاف الفاظ میں آئی ہے وہ اپنی بزدلی اور کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لئے مجاہدین اسلام کے متعلق بڑی دہشت ناک باتیں سناتے تھے، ان میں سے بعض کی باتوں سے یوں ظاہر ہوتا تھا جیسے عرب کے یہ مسلمان جنات یا بھوت پریت ہوں۔
جاسوس مجاہد کی اس خبر کا جہاں تک تعلق تھا کہ نیل میں طغیانی آ رہی ہے سپہ سالار عمرو بن عاص کے لیے کوئی نئی خبر نہیں تھی، پھر بھی کچھ باتیں انہیں معلوم ہو گئی۔ عمرو بن عاص جانتے تھے کہ طغیانی کا موسم شروع ہوگیا ہے اور دریا چڑھنے لگا ہے۔ مقوقس نے کہا تھا کہ اتنے مہینوں کے انتظار سے مسلمان مایوس ہو جائیں گے لیکن عمرو بن عاص نے اپنے زاویہ نگاہ سے بات کی انہوں نے محاصرے میں گھوم پھر کر جگہ جگہ مجاہدین سے خطاب کیا۔
انہوں نے مجاہدین کو دریائے نیل اور اس کی طغیانی کے متعلق وہی بات بتائی جو جاسوس نے مقوقس کی زبانی سنائی تھی ۔
عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ کہ اتنا عرصہ قلعے والوں کو کہیں سے بھی مدد نہیں ملےگی اس دوران اس قلعے کے اندر کی فوج کو پریشان کئے رکھیں گے اس کے بعد قلعے پر باقاعدہ یلغار کی جائے گی۔
دین اسلام کے علمبردارو !،،،،،عمرو بن عاص نے اس موقع پر یہ تاریخی الفاظ کہے یہ خندق اس سےزیادہ چوڑی اور زیادہ گہری ہوتی تو بھی تمہارا راستہ نہیں روک سکتی تھی، رومی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا یہ قلعہ اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی سر نہیں کرسکتا۔ اسلام کے شیدائیوں!،،،،،، دنیا کا کوئی قلعہ تمہارے ایمان اور جذبہ جہاد سے زیادہ مضبوط نہیں۔
اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھو کہ کوشش تم کرو گے میں اس کا ثمر دوں گا میری راہ میں حرکت تم کرو برکت میں دوں گا۔
قلعہ بابلیون میں تھیوڈور کے علاوہ ایک مشہور جرنیل اور بھی تھا جس کا نام عربی مؤرخین نے اعیرج لکھا ہے، لیکن بٹلر نے کہا ہے کہ یہ نام دراصل جارج ہے، اور بگڑ کر اعیرج بنا ہے،،،،،، نیل چڑھتا جا رہا تھا قلعے کے اردگرد والی خندق پانی سے لبریز کر دی گئی تھی ،قلعے کی دیواروں سے مجاہدین پر منجیقوں سے پھینکے ہوئے پتھر آنے لگے۔
اس سنگ باری کے جواب میں مجاہدین نے بھی منجیقوں و سے قلعے پر پتھر پھینکنے شروع کر دیئے مجاہدین نے تیر دور تک پہنچانے کے لیے بڑی کمانیں بھی تیار کر لی تھیں۔
ان کمانوں کے تیرانداز خندق کے کنارے تک چلے گئے اور وہاں سے دیواروں کے اوپر رومیوں پر تیر پھینکنے لگے۔
نیل میں طغیانی بڑھتی گئی اور ادھر ایک دوسرے پر تیر اور پتھر پھینکے جاتے رہے شب و روز گزرتے چلے جا رہے تھے۔
قلعے کی دیواروں سے آنے والے پتھر تو مجاہدین کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے لیکن مجاہدین کی منجیقوں سے نکلے ہوئے پتھر شہر کے اندر گرتے تھے، انہوں نے شہر میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا ہر گھر پر یہ خوف طاری تھا کہ ابھی پتھر ان کی چھت پر گرے گا اور چھت گر پڑے گی۔ رومی فوج کا حوصلہ پہلے ہی متزلزل تھا پتھراؤ سے حوصلہ اور زیادہ کمزور ہونے لگا۔
ڈیڑھ پونے دو مہینے گزر گئے اور نیل میں طغیانی کے آثار ختم ہوگئے۔
ماہ اکتوبر 640 عیسوی کے پہلے ہفتے کی بات ہے کہ مقوقس نے اپنی فوج اور بابلیون کے شہریوں کے حوصلے اور جذبے کا جائزہ لیا تو اسے کچھ ایسا شک ہونے لگا کہ مسلمانوں نے اگر اپنے مخصوص انداز سے قلعے پر ہلّہ بول دیا تو عین ممکن ہے کہ یہ فوج مقابلے میں ٹھہر نہ سکے اور شہر کے لوگوں میں ایسی افراتفری اور نفسانفسی پیدا ہو جائے، جو اپنی فوج کے لیے رکاوٹ بن جائے، اس کے علاوہ مقوقس کی شروع ہی سے یہ خواہش اور کوشش تھی کہ عرب کے ان مسلمانوں کو کسی طرح قائل کیا جائے کہ وہ کچھ لے لیں اور مصر سے واپس چلے جائیں اب ایک بار پھر اس کے دماغ میں یہی بات آگئی۔
اس نے ایک خفیہ اجلاس بلایا جس میں جنریل تھیوڈور اور جرنیل جارج شامل تھے اور اس کے علاوہ مقوقس کے صرف دو مشیر شامل کیے گئے۔
میری بات تحمل سے سنو اور مجھے مشورہ دو ۔۔۔۔مقوقس نے کہا ۔۔۔اپنی فوج کو بھی تم نے دیکھ لیا ہے اور شہر کے لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو ہم کمک کی امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن یہ سوچوں کہ ہمارے پاس فوج کی کمی نہیں ، کمک صرف اس صورت میں ہمارے کام آسکتی ہے کہ یہ کمک مسلمانوں پر عقب سے حملہ کرے، جو ممکن نہیں نیل کے دونوں کناروں پر مسلمانوں کا قبضہ ہے،،،،،،
عرب کے یہ مسلمان جب خندق عبور کرنے پر آگئے تو عبور کر ہی لیں گے کیا تم ابھی ان کے جذبے اور ہمت و استقلال سے واقف نہیں ہوئے؟
یہ بھی دیکھ لو کہ یہ مسلمان کتنی جلدی مصر کے اندر کتنی دور تک پہنچ گئے ہیں میں بغیر لڑے محاصرہ اٹھانا چاہتا ہوں کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم ایک بار پھر ان عربوں سے صلح سمجھوتہ کی بات کریں اور کہیں کہ جو کچھ مانگتے ہو لے لو اور مصر سے نکل جاؤ۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مقوقس اپنے دلائل ایسے پر اثر انداز سے دیئے کہ اجلاس کے چاروں شرکاء نے اس کی تائید کی اور کہا کہ اس تجویز پر عمل درآمد فوراً ہو جائے تو اچھا ہے۔
میں صرف ایک مشورہ دوں گا۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔یہ اجلاس اور یہ ساری کاروائی سختی سے خفیہ رکھی جائے ،فوج کو تو اس کا علم ہی نہیں ہونا چاہیے ورنہ فوج صلح سمجھوتے کی آس لگا کر ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھے گی۔
جرنیل جارج نے یہ مشورہ دیا کہ مقوقس خود اس کارروائی کی قیادت کرے اور ذاتی طور پر اس کوشش میں شامل ہو،،،،،، مقوقس نے یہ مشورہ قبول کر لیا۔
اس اجلاس کو خفیہ تو رکھا گیا لیکن تاریخ سے خفیہ نہ رکھا جا سکا بہت سے مسلم اور غیر مسلم اور ان کے حوالے سے بات کی تاریخ دانوں نے یہ واقعہ پوری تفصیل سے لکھا ہے،،،،،، اسی اجلاس میں ایک مراسلہ بنام سپہ سالار عمرو بن عاص لکھا گیا جو مقوقس کی طرف سے تھا۔
اگلی رات کی تاریکی میں مقوقس ان دونوں جرنیلوں اور دونوں مشیروں کو ساتھ لے کر قلعے سے نکلا کشتی میں بیٹھا اور نیل کے وسط میں جزیرے تک پہنچ گیا جہاں قلعہ روضہ تھا ۔ اس قلعے میں ایک بڑا گرجا تھا جس کا پادری بھی موجود تھا آدھی رات کے وقت پادری کو جگایا گیا ظاہر ہے پادری بہت گھبرایا ہو گا کہ اس وقت فرمانروائے مصر اپنے جرنیلوں کے ساتھ کیوں آیا ہے؟
مقوقس نے پادری کو یہ مراسلہ دیا اور کہا کہ وہ صبح کشتی میں بیٹھے اور مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس چلا جائے اور اپنے ساتھ اپنے اعتماد کے تین چار آدمی لے جائے لیکن یہ ساری کارروائی خفیہ رکھنی ہے یعنی کسی کو پتہ نہ چلے کہ مقوقس نے مسلمانوں کے سپہ سالار کو پیغام بھیجا ہے۔
تاریخ میں مقوقس کے اس مراسلے کے الفاظ آتے ہیں لیکن اس میں درخواست نہیں بلکہ دھمکی کا تاثر ہے ۔
مراسلہ یوں تھا۔
تم ہمارے ملک میں یوں آ گھسے ہو جیسے یہ تمہارا ملک ہو یا جیسے اس ملک کا کا کوئی حکمران ہی نہ ہو، اور یہاں کے لوگ بھیڑ بکریاں ہو، تم نے ہم پر جنگ ٹھونسی ہے اور دونوں طرف جو خون خرابہ ہوا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو ،اور یہ بہت بڑا جرم ہے ،ہمارے ملک میں تمہارا قیام طویل ہو گیا ہے جو ہماری برداشت سے باہر ہے، ہماری فوج کے مقابلے میں تم مٹھی بھر بھی نہیں ہو، میں خود چاہتا تھا کہ تم نیل تک پہنچ جاؤ اب میں تمہیں موقع دیتا ہوں کہ یہیں سے واپس چلے جاؤ ورنہ تمہارا ایک بھی آدمی زندہ واپس نہیں جا سکے گا،،،،،،،،
تم سمجھتے ہو کہ فتح پر فتح حاصل کرتے آ رہے ہو لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ ان فتوحات نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے، اور تم یہ سمجھنے کے قابل بھی نہیں رہے کہ
اس وقت تم کہاں اور کس صورت حال میں بیٹھے ہو، دریائے نیل نے تمہیں گھیرے میں لے رکھا ہے، سمجھ جاؤ کے نیل بھی تمہارا دشمن ہے، پیشتر اس کے کہ تمہارا یہ چھوٹا سا لشکر میری اتنی بڑی فوج کے قدموں تلے روندا جائے میں تمہیں ایک موقع دیتا ہوں اپنا کوئی ایلچی یا وفد میرے پاس بھیجو ، جو میرے ساتھ صلح سمجھوتہ کی بات کر سکے ہو سکتا ہے کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ یہ خون خرابہ ختم ہوجائے، اور تم تباہی سے بچ جاؤں میں اب بھی کہتا ہوں کہ تم واپس چلے جاؤ اور جتنا معاوضہ مانگو گے میں دونگا تمہارے ایلچی یا وفد کا انتظار کروں گا۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
مقوقس کو توقع تھی کہ اس کا بھیجا ہوا پادریوں کا وفد شام سے پہلے پہلے جواب لے کر واپس آجائے گا ،وہ کسی لمبے سفر پر نہیں گئے تھے دریا کی چوڑائی جتنا فاصلہ تھا، وفد کو دوسرے کنارے تک جانا تھا لیکن وفد اس رات واپس نہ آیا اگلا دن اگلی رات اور اس سے اگلا دن بھی گزر گیا تب مقوقس نے کہا کہ مسلمانوں نے وفد کو قید کر لیا ہے یا قتل کردیا ہے۔
دو دنوں بعد وفد واپس آ گیا ،مقوقس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ دو دن وہاں کیا کرتے رہے ہیں؟
انہوں نے ہمیں پورے احترام سے روکے رکھا تھا ۔۔۔۔بڑے پادری نے کہا ۔۔۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے ہمیں صرف اس لئے روکا تھا کہ ہم اپنی آنکھوں مسلمانوں کا حوصلہ اور عزم کی پختگی دیکھ لیں، ہم اپنی دلچسپی کی خاطر لشکر کو دیکھتے رہے کہ ان کا رہن سہن اور دیگر عادات و حرکات کیسی ہیں ہم سب نے مسلمانوں کو اتنے قریب سے پہلی بار دیکھا ہے۔
مقوقس نے مزید بات سننے سے پہلے کہا کہ اسے بتایا جائے کہ سپہ سالار نے کیا جواب دیا ہے۔۔۔۔ بڑے پادری نے سپہ سالار عمروبن عاص کا تحریری پیغام مقوقس کے ہاتھ میں دے دیا۔
عمرو بن عاص نے لکھا تھا میں پہلے بھی ایک بار فرمانروائے مصر کو بتا چکا ہوں کہ ہم ان شرائط پر صلح کی پیشکش قبول کر سکتے ہیں چونکہ یہ شرائط میری نہیں بلکہ میرے دین اسلام کی ہیں، اس لیے میں ان میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں کرسکتا ایک بار پھر بتا دیتا ہوں کہ صرف تین صورتیں ہیں کوئی سی بھی قبول کر لو صلح سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ اسلام قبول کر لو پھر تم ہمارے بھائی ہو گے۔ تمہارے اور ہمارے حقوق یکساں ہوجائیں گے۔ اگر یہ قبول نہیں تو دوسری صورت یہ ہے کہ ہماری اطاعت قبول کرو اور ہمارا مقرر کیا ہوا جزیہ ادا کرو ، تیسری صورت یہ کہ ہم جنگ بندی نہیں کریں گے بلکہ لڑیں گے اور ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ اللہ کرے گا سب سے اچھا فیصلہ کرنے الا اللہ ہی ہے جس کا پیغام ہم تمہارے لئے لائے ہیں۔
مقوقس نے عمرو بن عاص کا یہ جواب سب کی موجودگی میں پڑھ کر سنایا اس کے چہرے پر مایوسی اور حیرت کا ملا جلا تاثر آگیا۔
کیا تم سب سمجھے نہیں۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ یہ اس شخص کا جواب ہے جو صلح پر بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتا ،ذرا دیکھو اس شخص نے کس لہجے میں خط لکھا ہے یہ ایک ایسے فاتح کا خط ہے جو ہم پر اپنا حکم چلا رہا ہے، عربوں کی اس قوم کا غرور دیکھو دولت اور زرو جواہرات کی پیشکش کو یہ لوگ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔
مقوقس نے وفد کے ارکان کی طرف دیکھا اور کچھ دیر بعد پوچھا کہ وہ دو دن مسلمانوں میں رہے ہیں انہوں نے مسلمانوں کو کیسا پایا ہے؟،،،، کیا وہ ایسی ہی رعونت سے باتیں کرتے ہیں؟
نہیں فرمانروائے مصر!،،،،، وفد کے سربراہ بڑے پادری نے کہا ۔۔۔میں نے مسلمانوں کو ایک اجتماع کی صورت میں پہلی بار دیکھا ہے، میں کہتا ہوں کہ میں نے ایک ایسی قوم کو دیکھا ہے جو زندگی سے زیادہ موت کو ،اور غرور سے زیادہ عجزوانکساری کو عزیز رکھتی ہے، ان کی حرکات ،عادات ،اور گفتار میں رعونت کا نام و نشان نہیں ملتا۔
ان میں شاید کوئی ایک بھی ایسا نہ ہو جسے اس دنیا سے اور زمین سے دلچسپی ہو، وہ اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور بیٹھتے زمین پر ہے، ان میں حاکم، ماتحت، سالار ،اور سپاہی ،میں کوئی تمیز نہیں ہوتی ایک جیسا کھاتے ہیں اور پھر مل کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں،،،،،
میں نے پہلی بار مسلمانوں کو اجتماعی طور پر عبادت کرتے دیکھا ہے اسے وہ نماز کہتے ہیں۔
سپہ سالار امامت کرتا ہے اور باقی سب اس کے پیچھے صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے پہلے سب وضو کرتے ہیں اور اپنے آپ کو پاک کر کے نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، پھر جس طرح امام کرتا ہے باقی سب اسی طرح کرتے ہیں رکوع میں اکٹھے جاتے ہیں، سجدے میں اکٹھے جاتے ہیں ،اور اکٹھے اٹھتے ہیں، میں ان کے اس نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا ہوں، سالار سپاہیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ سالار سب سے آگے والی صف میں کھڑے ہوں۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو آج تک تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔
مقوقس تو پہلے ہی مسلمانوں سے کسی حد تک متاثر تھا اس نے جب بڑے پادری کی زبان سے مسلمانوں کی یہ اوصاف سنیں تو وہ گہری سوچ میں کھو گیا کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور سب کی طرف باری باری دیکھا ۔
وہ آخر مصر کا بادشاہ تھا سب پر سناٹا طاری ہوگیا تھا ۔کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ مقوقس کیا حکم صادر کرے گا اس نے جب بات کی تو سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
قسم ہے اس خدا کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔۔۔ مقوقس نے بے اختیار کہا۔۔۔ یہ مسلمان کسی پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلانے کا عزم کرلیں تو ہلاسکتے ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ ان کا مقابلہ جنگ میں کوئی نہیں کرسکتا ۔ان میں وہ اوصاف ہیں جو ہم میں نہیں اس حقیقت پر غور کرو میرے بھائیوں ان سے صلح سمجھوتا کرنے کا یہی وقت ہے جب وہ نیل کے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں، چند دنوں تک وہ اس خطرے سے نکل جائیں گے پھر ان سے صلح ناممکن ہوجائے گی وہ صلح پر آمادہ ہی نہیں ہونگے۔
سب نے دیکھ لیا کہ مقوقس صلح پر ہی بات کرتا ہے۔ وہ آخر فرمانروائے مصر تھا اگر وہ کوئی ارادہ ظاہر کر رہا تھا تو حاضرین میں کوئی جرات نہیں کرسکتا تھا کہ اس کے خلاف بولے ۔ مقوقس نے ان سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے اب تو اس نے بات ہی صاف کردی کہ وہ صلح کی ایک آخری کوشش کرنا چاہتا ہے۔
ابھی گنجائش ہے ۔۔۔حاضرین میں سے کسی نے کہا ۔۔۔آپ نے مسلمانوں کے سپہ سالار کو لکھا تھا کہ اپنے کچھ آدمی بات چیت کے لئے بھیجے لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ سپہ سالار کو ایک اور پیغام بھیجا جائے کہ وہ اپنے نمائندے بات چیت کے لیے بھیجے؟
سب نے اس مشورے کی تائید کی اور مقوقس نے اسی وقت سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام پیغام لکھوایا کہ آپ نے اپنے نمائندوں کا وفد نہیں بھیجا نہ کوئی جواب دیا ہے، آخری فیصلے پر پہنچنے کے لئے آپ اپنا وفد فوراً بھیجیں، میں بے تابی سے منتظر رہوں گا۔
مقوقس کا یہ پیغام ایک عام سے قسم کے ایلچی کے ہاتھ عمرو بن عاص تک پہنچا ،انہوں نے ایلچی کو جواب کے انتظار میں باہر بیٹھا دیا اور اپنے سالاروں کو بلایا انہیں مقوقس کا پیغام پڑھ کر سنایا۔
پہلے اس پر غور کرو کہ یہ شخص صلح ہی کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔میرا ایک خیال تو یہ ہے کہ مقوقس نے دیکھ لیا ہے کہ اس کی فوج حوصلے اور جذبے کے لحاظ سے لڑنے کے قابل نہیں رہی، دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ صلح کی گفتگو کا دھوکہ دے کر وقت حاصل کر رہا ہے اور وقت حاصل کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس دوران اسے کمک پہنچ جائے گی ، مجھے مشورہ دو کہ میں اپنا وفد اس کے پاس بھیجوں یا صاف انکار کر دوں ؟،،،میں کوئی ایک بھی شرط نرم نہیں کرسکتا یہ میرے بس سے باہر ہے۔
وقت اور مہلت ہمیں بھی درکار ہے۔۔۔ ایک سالار نے کہا۔۔۔ نیل کی طغیانی تو اتر گئی ہے لیکن پانی جو دریا سے باہر آ گیا تھا یہ ابھی واپس نہیں گیا اور ہم پانی کے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں، ہمیں اس پانی کے واپس جانے یا خشک ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا، ورنہ لڑائی کی صورت میں ہم اس زمین پر نہیں لڑ سکیں گے۔
اس پر غور کریں سپہ سالار !،،،،ایک اور سالار میں کہا ۔۔۔یہ بھی تو اللہ کا حکم ہے کہ دشمن صلح کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اسے پورا موقع دو، اور صلح قبول کرو بشرطیکہ تمہارا دشمن تمہاری شرائط قبول کرتا ہے۔
باہمی صلاح و مشورے کے بعد عمرو بن عاص نے دس افراد کا ایک وفد مقوقس کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے منتخب کیا اس کی قیادت ایک صحابی عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کی، جو زبیر بن العوام کی قیادت میں آئے ہوئے کمک کے ایک حصے کے سالار تھے، ان کا رنگ سیاہ تھا جسم گھٹا ہوا لیکن اوپر بڑھنے کی بجائے چوڑائی میں تھا، اور قد دراز نہیں تھا۔
عمرو بن عاص نے مقوقس کے پیغام کا جواب دے کر اس کے ایلچی کو رخصت کر دیا۔
جواب یہ تھا کہ ان کا ایک وفد آ رہا ہے ۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے اس وفد کے تمام ارکان کو بلایا اور عبادہ بن ثابت رضی اللہ تعالی عنی کو ہدایت دی کہ وہ کیا گفتگو کریں، اور پھر انہیں وہیں تین شرطیں بتائیں جو پہلے مقوقس کو پیش کر چکے تھے۔
سپہ سالار نے عبادہ بن صامت کو بڑا سخت حکم دیا کہ ان شرائط میں ذرا سی بھی نرمی نہیں کرنی۔
اگلے روز یہ وفد مقوقس کے پاس پہنچ گیا مقوقس کے اپنے مشیر اور جرنیل اس کے ساتھ تھے ، بات عبادہ بن صامت نے شروع کی لیکن مقوقس نے انہیں حقارت سے دیکھا اور یہ تاثر دیا جیسے وہ خفا ہو۔
اس سیاہ کالے آدمی کو میرے سامنے کیوں لایا گیا ہے۔۔۔ مقوقس نے حقارت آمیز لہجے میں کہا ۔۔۔ہٹاؤ اسے میرے آگے سے اور کوئی اور آدمی بات کرے۔
عبادہ بن صامت کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی، وفد کے ایک آدمی نے کہا کہ انھیں سپہ سالار نے وفد کا قائد بنا کر بھیجا ہے لہذا یہی بات کریں گے اور ہم سب کو ان پر پورا پورا اعتماد ہے۔
مقوقس نے ابھی اس بات پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا کہ وفد کے تمام ارکان بیک وقت بولنے لگے، وہ کہہ رہے تھے کہ عبادہ بن صامت ان کے قائد ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی اور نہیں بولے گا، مقوقس نے جب پورے کے پورے وفد کا یہ ردعمل دیکھا تو اس نے ہونٹ سی لیے۔
مقوقس کا اپنا ہم مذہب تاریخ دان بٹلر لکھتا ہے کہ مقوقس اس قسم کی اوجھی بات کرنے والا آدمی نہیں تھا، لیکن اس نے بڑی ہی اوجھی بات کہہ دی جس کا مطلب یہ ہو سکتا تھا کہ وہ مسلمان کے اس نمائندہ وفد میں اختلاف پیدا کرنا چاہتا تھا، شاید یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں میں نظم و نسق کس حد تک ہے اور یہ لوگ اپنے سپہ سالار کے حکم کے سوفیصد پابند رہتے ہیں یا نہیں، اس نے اشارہ کیا کہ وہ بات کرے۔
فرماں روائے مصر!،،،،، عبادہ بن صامت نے بات شروع کی۔۔۔۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کے احکام کے پابند، اسلام کسی کے چہرے کا رنگ اور لباس دیکھ کر اسے برتری یا کمتری قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا ،اس دنیا کے لہو و لعب کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہماری روحانی دلچسپی آخرت کے ساتھ ہے ،اور دنیا میں ہمارا فریضہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، کوئی لالچ اور خزانوں کے پہاڑ بھی ہمیں اس راستے سے نہیں ہٹا سکتے,,,,,,,,, آپ نے ہمیں بلایا ہے ،ہم آپ کے پاس بھیجے گئے ہیں پہلے اپنا مدعا بیان کریں۔
میں اپنا مدعا تمہارے سپہ سالار کو لکھ چکا ہوں ۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ تمہیں بھی بتادیتا ہوں اور تمہارا یہ فرض ہے کہ اپنے سپہ سالار کے ذہن میں میری یہ بات بٹھا دینا,,,,,,,,, تم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کے روم کی یہی فوج ہے جسے تم ہر میدان میں شکست دیتے چلے آرہے ہو، ہمارے پاس اس قلعے میں روم کی اتنی زیادہ اور اتنی طاقتور فوج موجود ہے، اور اتنی زیادہ فوج آرہی ہے جسے تم تصور میں بھی نہیں لا سکتے,,,,,,
تم تعداد میں بہت ہی تھوڑے ہو اس کے علاوہ میں جانتا ہوں کہ تمہیں کس قسم کی پریشانیوں کا سامنا ہے کچھ دن گزرے تو تم اپنے لشکر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہو گے، میں جو بار بار تمھیں تمہاری کمزوریوں کا احساس دلا رہا ہوں یہ صرف اس لئے دلا رہا ہوں کہ مجھے تمہارے اس ذرا سے لشکر پر رحم آ رہا ہے، تمہارا یہ لشکر میری فوج کے ہاتھوں کٹ مرے گا تو مجھے بہت افسوس ہوگا کیونکہ میں اسے گناہ سمجھتا ہوں میں اس وقت خوش ہونگا جب تم میرے ساتھ صلح کر لو گے۔
میں تمھارے لشکر کے ہر سپاہی کو دو دینار، اور سالار کو سو دینار، اور خلیفہ کو ایک ہزار دینار پیش کرتا ہوں، یہ مجھ سے وصول کر لو اور واپس چلے جاؤ، رومی فوج کے قہر اور غضب سے ڈرو۔
تاریخ نویسوں نے مختلف واقعات اور شخصیات پر تبصرے بھی لکھے ہیں اور تجزیے بھی کیے ہیں ، وہ کچھ حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک طرف تو مقوقس مسلمانوں کو اچھا سمجھتا تھا اور صلح کے لیے بے تاب نظر آتا تھا ،لیکن جب کسی مسلمان سے سامنا ہو جاتا تو رعب اور دھمکی کی زبان میں بات کرتا تھا، اسے غالبا یہ توقع تھی کہ مسلمان اگر کسی لالچ میں نہیں آتے تو شاید ڈر کر واپس چلے جائیں۔
تاریخ میں آیا ہے کہ عبادہ بن صامت نے حساب کیا تو یہ تیس ہزار دینار بنتے تھے جو مسلمانوں کو مصر سے چلے جانے کے عوض پیش کیے جا رہے تھے۔
میں کچھ بھی قبول نہیں کرسکتا ہے۔۔۔۔ عبادہ بن صامت نے کہا ۔۔۔۔۔میں اپنے سپہ سالار کے بڑے واضح سے کام لے کر آیا ہوں آپ کی دھمکیوں کا مجھ پر کچھ اثر نہیں ہو سکتا ہمارا تعلق براہ راست اپنے اللہ کے ساتھ ہے ہم یہ نہیں دیکھا کرتے کہ ہماری تعداد کتنی تھوڑی اور دشمن کی فوج کتنی زیادہ ہے۔
اللہ نے قرآن میں ہمیں بشارت دی ہے کہ ایسا اکثر ہوا ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی بڑی فوجوں پر غالب آتی ہیں، اللہ صبر و استقلال والوں کے ساتھ ہے,,,,,,,, آپ نے لشکر کی ضروریات کی جو بات کی ہے یہ ہمارے لیے بے معنی ہے، ہم دنیا کی تنگدستی یا خوشحالی کی پرواہ نہیں کیا کرتے کیونکہ ہمارا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ ہے,,,,,,,,,,,,,
ہمارے سپہ سالار نے جو ہمارا امیر بھی ہے آپ کو صاف الفاظ میں بتایا ہے کہ ہماری تین شرطیں ہیں ان میں سے جو چاہو قبول کر لو باقی سب گفت و شنید فضول باتیں ہیں، ان سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا مجھے میرے امیر نے اور میرے امیر کو امیر المومنین نے اور امیر المومنین کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا تھا میں وہ آپ کے آگے رکھ رہا ہوں، اسلام قبول کر لو اور یہاں اسلامی حکومت قائم کر دو تو ہم واپس چلے جائیں گے، یہ نہیں تو جزیہ ادا کرو اور ہم آپ کو اور آپ کے ہر فرد و بشر کو اپنی پناہ اور اپنی حفاظت میں لے لیں گے، اور اگر اسلام بھی قبول نہیں اور جزیہ بھی قبول نہیں تو ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ تلوار کرے گی۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مقوقس نے اس گفت و شنید کے بعد عبادہ بن صامت کے آگے کچھ تجویزیں رکھیں لیکن عبادہ بن صامت نے کوئی ایک بھی تجویز نہ مانی انہوں نے کہا کہ انہیں اتنا اختیار حاصل ہی نہیں، نہ سپہ سالار کو نہ ہی امیرالمومنین کو اختیار حاصل ہے کہ اسلام کی شرائط میں ذرا سی بھی لچک پیدا کریں۔
مقوقس اپنے مشیروں اور جرنیلوں سے مخاطب ہوا اور ان سے پوچھا کہ ان کی ان تین شرطوں میں سے کون سی شرط قبول کرتے ہو؟،،،،،، سب نے متفقہ طور پر کہا کہ انہیں اسلام قبول ہے نہ وہ جزیہ دینے کے لئے تیار ہیں۔
عبادہ بن صامت اٹھے اور اپنے وفد کو ساتھ لے کر واپس چل پڑے۔
اس کے بعد تاریخ مقوقس اور اس کے مشیروں کی گفتگو کچھ مختصر سی سناتی ہے وفد کے جانے کے بعد مقوقس نے اپنے مشیروں اور جرنیلوں کے ساتھ باتیں کیں۔
میں اب بھی کہتا ہوں کے مسلمانوں کے ساتھ ہماری صلح ہو جانی چاہیے۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ یہ کسی لالچ میں بھی نہیں آتے اور کسی دھمکی سے بھی نہیں ڈرتے۔
آپ کو ان کی کون سی شرط قبول ہے۔۔۔ مقوقس کے جرنیل جارج نے پوچھا۔
میں اس سوال کا جواب نہیں دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔میں اپنی رائے دوں گا اور تم سب اس پر غور کرو آج میں تمہیں صاف صاف بتا دیتا ہوں کہ ان مسلمانوں سے لڑنا تمہارے بس کی بات نہیں تم نے خود دیکھ لیا ہے، لہذا جنگ جاری رکھنے کو ذہن سے نکال دو اسلام قبول نہ کرو لیکن تیسری شرط ماننی پڑے گی۔
فرمانروائے مصر!،،،،، ایک مشیر نے حیرت سے کہا ۔۔۔آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہم جزیہ دینا قبول کرلیں اور پھر مسلمانوں کے غلام ہوکر زندگی بسر کریں۔
یہ غلامی اتنی سی ہی ہوگی کہ تم مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لو گے۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ تمہیں مسلمان غلام نہیں سمجھیں گے بلکہ تمہیں پورے حقوق اور عزت نفس دیں گے ،اگر تم لڑو گے اور مسلمان تم پر فتح پا لیں گے تو پھر تمہارے ساتھ مسلمانوں کا رویہ بالکل ہی مختلف ہوگا نہ تمہاری جان محفوظ ہوگی نہ تمہارے مال و اموال محفوظ ہونگے، اس صورت میں تم مسلمانوں کے صحیح معنوں میں غلام ہو جاؤ گے۔
اس سے موت بہتر ہے ۔۔۔جنرل تھیوڈور نے کہا۔۔۔ اور اٹھ کھڑا ہوا۔
تھیوڈور اٹھا تو باقی سب بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر سب مقوقس کو اکیلا چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے مقوقس نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی وہ سمجھ گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کی کوشش میں وہ تنہا رہ گیا ہے، جرنیلوں نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ اب تلوار ہی فیصلہ کرے گی مقوقس کو ان کا ساتھ دینا پڑا ورنہ بغاوت بھی ہو سکتی تھی، قبطی عیسائی پہلے ہی بغاوت پر آمادہ تھے۔
جرنیلوں نے اپنے ماتحت کمانڈروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ جنگ ہوگی اور محاصرے پر حملہ کیا جائے گا جرنیلوں نے یہ بات یہیں تک نہ رہنے دی بلکہ اپنے ماتحت کمانڈروں سے یہ بھی کہا کہ اب وہ اس جنگ کو پہلے والی جنگ نہ سمجھیں کہ جہاں مسلمانوں نے ذرا دباؤ ڈالا تو ہماری فوج بھاگ اٹھی ۔ اب یہ ذہن میں رکھ لو کہ ہمارا اپنا بادشاہ مقوقس ہمیں مسلمانوں کا غلام بنانے کا ارادہ کر چکا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کرنے کے لئے سودےبازی کر رہا ہے۔
جرنیلوں نے اپنے جونیئر کمانڈروں کو کچھ اور باتیں سنا کر بھڑکا دیا اور کہا کہ اپنے اپنے دستوں کو بتادوں کہ تم جنگی قیدی ہوگئے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مسلمانوں کے غلام ہو جاؤ گے، تمھیں انسانیت کے درجے سے گرا کر تمام حقوق سے محروم کر دیا جائے گا اور پھر تم ان کے مویشی ہوں گے ،مسلمان یہی سلوک تمہاری بیٹیوں اور بہنوں سے کریں گے۔
جونیئر کمانڈروں نے اپنی فوج کو یہ باتیں اور اپنے فرمانروائے مقوقس کے ارادے سنا کر بھڑکا دیا فوجیوں سے یہ باتیں شہریوں کے کانوں تک پہنچی، انہیں باتیں اس قدر اشتعال انگیز سنائی گئی کہ وہی لوگ جو مسلمان کے نام سے بھی ڈرتے اور اطاعت قبول کر لینے تک کی بات کرتے تھے یکلخت مسلمانوں کے دشمن ہو گئے ،اور انہوں نے اپنی فوج سے کہا کہ وہ فوج کے دوش بدوش لڑیں گے۔
بعض مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کا وفد چلا گیا تھا تو مقوقس نے عمرو بن عاص کو ایک اور پیغام بھیجا تھا کہ اسے کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے ایک مہینے کی مہلت دی جائے، لیکن عمرو بن عاص نے جواب دیا تھا کہ تین دنوں سے زیادہ مہلت نہیں دی جاسکتی ۔
عمرو بن عاص کا یہ شک صحیح ثابت ہو رہا تھا کہ مقوقس وقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے اور وہ کمک کا انتظار کر رہا ہے۔
اگر رومی فوج کی اس تعداد کو دیکھا جاتا جو قلعہ بابلیون میں موجود تھی تو مقوقس کو کمک کی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن وہ کمک کے لئے اس لیے بے تاب تھا کہ اسکندریہ سے آنے والی کمک تازہ دم ہو گی اسکندریہ میں رومی فوج کے ایسے دست موجود تھے جو ابھی تک مجاہدین اسلام کے مقابلے میں نہیں آئے تھے، بزنطیہ سے کسی کمک کے آنے کا تو امکان ہی نہیں تھا۔
یہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بابلیون میں موجود تھا وہ بھی اب ہرقل کے مخالفین میں شامل ہو گیا تھا ۔ اس نے بنیامین سے صلح کر لی تھی مسلمانوں کے معاملے میں میں وہ بڑا سخت متعّصب تھا ،اور کٹر اسلام دشمن، اس نے قلعے کے اندر قبطیوں کو اس قدر بھڑکایا کہ وہ آگ بگولہ ہوگئے۔
اب شہر کی یہ کیفیت تھی جیسے لوگ اچانک بڑی گہری نیند سے جاگ اٹھے ہوں فوج کو تو جنگ کی تیاری کرنی ہی تھی شہری بھی تیروکمان ،تلواریں ،برچھیاں لے کر لڑنے کے لئے تیار ہو رہے تھے، ان تیاریوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اس قدر بڑا ہجوم سیلاب کی طرح اپنے سامنے آئے ہوئے پہاڑوں کو بھی بہا لے جائے گا ۔ مقوقس اپنے محل میں خاموش بیٹھا تھا کبھی وہ باہر نکل کر لوگوں کو دیکھتا اور کبھی محل کے اوپر جا کر بالکونی میں کھڑا ہوجاتا اور اپنی فوج اور لوگوں کو تیاریوں میں ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے دیکھتا۔
فرمانروائے مصر!،،،،، قیرس نے ایک روز مقوقس کے پاس آکر کہا۔۔۔ اب ہم مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیں گے۔
کیا تم محسوس نہیں کررہے قیرس!،،،،، مقوقس نے کہا ۔۔۔کیا یہ افواج اور یہ لوگ میرے خلاف بغاوت نہیں کر رہے؟
نہیں!،،،،، قیرس نے جواب دیا ۔۔۔۔میں جانتا ہوں آپ صلح چاہتے ہیں اور یہ لوگ ایسے بیدار ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جان کی بازی لگا کر لڑنا چاہتے ہیں ان کی تیاریاں آپ کے خلاف نہیں، انہیں شک کی نظروں سے نہ دیکھیں، گرجوں میں دعائیں مانگی جا رہی ہیں، مایوس نہ ہو فرمانروائے مصر۔
تاریخ میں آیا ہے کہ مقوقس نے کچھ بھی نہ کہا نہ کوئی حوصلہ افزا بات کہی نہ کوئی حوصلہ شکن اشارہ دیا، اس کے ہونٹوں پر لطیف سی مسکراہٹ آ گئی، لیکن اس مسکراہٹ میں مسرت کی ذرا سی بھی جھلک نہیں تھی، البتہ طنز سے ضرور نظر آتی تھی۔ قلعے کے اندر رومی فوجی اپنی کثیر تعداد کے بھروسے اور لوگوں کے تعاون کے بھروسے پر جوش و خروش جنگی تیاریاں کر رہے تھے اور ان کا ایک بھروسہ یہ بھی تھا کہ نیل کے جزیرے روضہ سے فوراً فوج پہنچ جائیں گی، اور ان کی تعداد اور زیادہ ہو جائے گی۔
قلعے کے باہر خندق سے ذرا ہٹ کر قلیل تعداد مجاہدین اسلام صرف اللہ کی ذات باری پر بھروسہ کیے بیٹھے تھے، فن حرب و ضرب کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ یہ اتنے قلیل تعداد مسلمان چند منٹ بھی کثیر تعداد رومی فوج کے سامنے ٹھہر سکیں گے۔ جبکہ رومی فوج کو شہریوں کی مدد بھی حاصل ہو گئی تھی اور ان کی عورتیں بھی لڑنے کے لئے تیار تھیں۔
مجاہدین اسلام کو اللہ کی اس بشارت کا بھروسہ تھا کہ تم اگر ایمان کے پکے ہو تو تم میں سے دس سو کفار پر اور تم میں سے سو ایمان والے ایک ہزار کفار پر غالب آئیں گے۔
ایک رات جب قلعے کے باہر کی دنیا محو خواب تھی، رومی فوج دریا کی طرف سے نہایت خاموشی سے قلعےے سے نکلی کشتیوں میں بیٹھی اور اس جگہ جا پہنچی جہاں سے وہ مجاہدین اسلام پر حملہ کر سکتی تھی۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ رومی فوج دریا والے دروازے سے ہی نکلی تھی یا دوسرے دروازوں میں سے بھی، یہ پتہ چلتا ہے کہ رومی فوج نے رات ہی رات خندق پر پل ڈال دیے تھے جو اس مقصد کے لئے ہر وقت تیار رکھے جاتے تھے۔
رومیوں کی یہ کارروائی اس قدر خفیہ اور خاموش تھی کہ مسلمانوں کو خبر تک نہ ہوئی وہ سنتری بھی بے خبر رہے جو پہرے پر تھے۔
مجاہدین اسلام پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑی رومی فوج کا یہ حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا اور بڑا ہی تیز اور شدید نظر یہی آتا تھا کہ مجاہدین اسلام کو جاگنے کی بھی مہلت نہیں ملے گی اور رومی انہیں ابدی نیند سلا دینگے۔ لیکن مجاہدین نے زمین وآسمان اور اس تاریک رات کو اور پھر تاریخ کو حیرت میں ڈال دیا کہ حملہ ہوتے ہی وہ اس طرح سنبھل گئے جیسے پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے مشعلیں جل اٹھیں اور مجاہدین نے رات کو دن بنا دیا۔
یہ سپہ سالار عمرو بن عاص کا کمال تھا جنہوں نے اپنے سالاروں کو اور تمام لشکر کو کہہ رکھا تھا کہ دشمن کے ملک میں آکر چند لمحوں کے لئے بھی غافل نہیں ہونا، اور سونا بھی اس طرح جیسے ایک آنکھ کھلی ہو، جیسے کسی بھی لمحے حملہ ہو جائے گا۔
مجاہدین اسلام کا تو یہ ایمان تھا کہ انہیں اپنے سالاروں سے جو احکام ملتے ہیں وہ دراصل اللہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کے احکام ہوتے ہیں۔
اور ان احکام کی خلاف ورزی اللہ کے عذاب میں پھینک دیتی ہے۔
حملہ آور رومی فوج کو سب سے پہلا جھٹکا تو یہ پڑا کے مسلمان اس طرح بیدار ہو کر مقابلے میں آگئے تھے جیسے انھیں پہلے پتہ چل گیا ہو کہ حملہ آ رہا ہے پھر رومی فوج کے جرنیلوں نے غلطی یہ کی تھی کہ بہت سے شہری رضاکارانہ طور پر حملے میں شامل ہونا چاہتے تھے انہیں بھی فوج کے ساتھ حملے کے لئے بھیج دیا گیا تھا، وہ تیر اور تلوار اور برچھی چلا سکتے تھے لیکن جنگ کی صورت میں وہ کسی ترتیب میں ہو کر لڑنے کے قابل نہیں تھے ،بلکہ اپنی فوج کے لئے ایک رکاوٹ بن گئے مسلمانوں نے جب بیدار ہوکر قہر اور غضب سے اس یلغار کو روکا تو سب سے پہلے رضاکار شہریوں میں بھگدڑ باپا ہوئی۔
عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو پہلے ہی ذہن نشین قرار رکھا تھا کہ اچانک حملہ ہو جانے کی صورت میں لشکر کو کس ترتیب میں کرکے مقابلہ کرنا ہوگا اس سے یہ ظاہر ہوا کہ مسلمان ایک ترتیب اور تنظیم میں تھے اور ان کے مقابلے میں رومی فوج اور شہری ایک ہجوم کی صورت میں آئے، اور جب مسلمانوں نے قدم جما کر مقابلہ کیا تو رومی بکھرنے لگے۔
رومی سپاہیوں کو پہلا دھچکا تو یہ لگا کہ مسلمان تو جیسے پہلے ہی سے بیدار تھے، اور پھر انہوں نے مشعلیں جلا لی تھی رومی سپاہیوں کے لیے یہ خلاف توقع صورتحال ایک مصیبت بن گئی مجاہدین نے ان کی بوکلاہٹ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا تھوڑی سی دیر میں مجاہدین اسلام نے رومی فوج کو دفاعی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا۔
عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کو خاص طور پر یہ ٹریننگ دے رکھی تھی کہ دشمن قلعے سے باہر آکر حملہ کرے تو کس طرح لڑنا ہے ،اور کیا کیا چال چلنی ہے، مختصر یہ کہ دشمن باہر آئے تو ایک دستہ اس کے عقب میں جانے کی کوشش کریں تاکہ قلعے میں داخل ہو جائیں، اور اگر قلعے کے دروازے پہلے ہی بند ہو جائیں تو دشمن کی باہر آئی ہوئی فوج کو گھیرے میں لے کر آخری سپاہی تک ختم کر دیا جائے۔
مجاہدین کو اس قسم کی لڑائی اور عقب میں جانے کی چال کا خاص طور پر تجربہ حاصل ہو چکا تھا، اس سے پہلے وہ چند قلعےے ایسے ہی چال چل کر لے چکے تھے، اب قلعہ بابلیون کے باہر مجاہدین اسلام نے دیکھ لیا کہ رومی فوج خندق پر پل پھینک کر آگے نکل آئی ہے تو مجاہدین نے رومیوں کے پیچھے جاکر پلوں پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔
سپہ سالار نے پہلے ہی ایک سالار اور اس کے دستے کو اس کام کے لئے مقرر کردیا تھا کچھ وقت بعد رومیوں نے دیکھا کہ مسلمان ان کے عقب میں آ رہے ہیں اس سے ان کی بوکھلاہٹ اور زیادہ بڑھ گئی انھوں نے خندق پار کر کے قلعے میں واپس جانے کی کوشش شروع کردی، لیکن مجاہدین نے انھیں جانے نہ دیا ۔
خندق کا ایک آدھ پل ہی رہ گیا تھا جو ابھی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں آیا تھا وہاں سے کچھ رومی زندہ پیچھے کو نکل گئے۔ خندق سے باہر رہنے والے رومیوں میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو، بعض رومیوں نے خندق میں چھلانگیں لگا دی لیکن تیرانداز مجاہدین نے مشعلوں کی روشنی میں انہیں تیروں کا نشانہ بنا لیا اور اس طرح بہت سی لاشیں خندق میں بھرے پانی میں ڈوبنے اور تیرنے لگی۔
بہت تھوڑے رومی فوجی اور شہری قلعے میں واپس جا سکے، قلعے والوں نے جب دیکھا کہ ان کے فوجی تو پیچھے کو بھاگ رہے ہیں تو مقوقس کے حکم سے قلعے کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تاکہ مجاہدین قلعے میں داخل نہ ہوسکے ،مسلمانوں کو روکے رکھنے کے لیے مقوقس نے اپنی بہت سی فوج قربان کر دی۔
مؤرخوں نے اس لڑائی کو گھمسان کی لڑائی اور بڑی ہی خونریز لڑائی لکھا ہے، اور بعض غیر مسلم مؤرخوں نے اسلام کے خلاف تعصب کو الگ رکھ کر یہ بھی لکھا ہے کہ ایک طرف صرف جذبہ اور عزم تھا، اور دوسری طرف تعداد اور ہجوم پر بھروسہ تھا، جہاں ایک کے پاؤں کھڑے پورا ہجوم اکھڑ گیا لیکن مسلمانوں نے اپنے جذبے کو اور انکے سالاروں نے اپنی عقل کو بہت تامل سے استعمال کیا۔
اتنی زیادہ گھمسان کی خونریز لڑائی رات ہی رات ختم ہو گئی، صبح ہوئی اور سورج کی کرنیں زمین پر اپنا نور پھیلانے لگی تو جدھر نظر جاتی تھی لاش نظر آتی تھی کوئی زخمی ان لاشوں سے اٹھتا اور ایک دو قدم چل کر پھر گر پڑتا تھا، نیل کا پانی کناروں سے باہر آ گیا تھا ،جھیلوں اور تالابوں کی صورت میں دور دور تک بکھرا ہوا تھا، اور یہ پانی مرنے والوں کے خون سے لال ہو گیا تھا۔ پانی میں بھی لاشیں گریں تھیں۔ خندق کا پانی بھی سرخی مائل ہو گیا تھا اور اس ہیبت ناک منظر سے مسلمانوں کے نعرے اٹھ اٹھ کر گونج رہے تھے۔
بابلیون کے قلعہ بند شہر کے لوگ اور رومی فوج کے بھاگے ہوئے فوجی قلعے کی دیواروں پر کھڑے رات کی لڑائی کا انجام دیکھ رہے تھے ،اوپر سے تو یہ بھیانک منظر اور ہی زیادہ خوفناک اور ہیبت ناک لگتا تھا۔ کہاں ان لوگوں کا یہ عزم کے مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے عورتیں بھی لڑیں گی، مگر ہوا یوں کے مرد بھی جم کر نہ لڑ سکے اور کٹ مرے یا جو بچے وہ بھاگ کر شہر میں پناہ گزین ہوئے، اگر شہر کے دروازے بروقت بند نہ کیے جاتے تو دیواروں کے اندر بھی یہی منظر ہوتا کہ رومیوں کی لاشیں بکھری ہوئی ہوتیں۔
مقوقس کو اس کے مخبر نے بتایا کہ شہر کے لوگ اور فوجی دیواروں پر جاکر باہر کا منظر دیکھ رہے ہیں، اور ان کے حوصلے جو پہلے ہی کمزور تھے بالکل ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ۔
مقوقس نے یہ سنا تو غصے سے باہر نکلا اور حکم دیا کہ کوئی شہری یا فوجی دیوار پر نہ جائے سوائے ان فوجیوں کے جو قلعے کے دفاع کے لئے اوپر موجود رہتے ہیں، یہ حکم ملتے ہی مقوقس کے محافظ دستے کے بہت سے آدمی دوڑے گئے اور دیوار پر جا کر لوگوں کو ھانک کر اور دھکیل کر دیوار سے اتارا اور سارے شہر میں مقوقس کا یہ حکم پہنچایا کہ کوئی آدمی بغیر ڈیوٹی کے دیوار پر نہیں جا سکتا۔
سب دیواروں سے اتر گئے تو مقوقس نے اپنے جرنیلوں اور ایک دو مشیروں کو بلایا قیرس بھی آگیا ان سب کو ساتھ لے کر مقوقس دیوار پر چلا گیا اور باہر کا منظر دیکھا۔
دیکھ رہے ہو اپنی جنگ کا انجام۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔تم نے ان پر سوتے میں حملہ کیا تھا لیکن یہ خون آلود انجام بتاتا ہے جیسے تم سوئے ہوئے تھے اور مسلمانوں نے تم پر حملہ کیا تھا ۔میں جانتا تھا ایسا ہی ہوگا تم اپنے آپ کو فریب دیتے رہے ہو حقیقت کو دیکھو ہماری فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی۔ ہاں اگر اسکندریہ سے کمک آجائے تو پھر شاید ہم مسلمانوں کو للکارنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔
مقوقس کے ساتھ جو جرنیل اور مشیر تھے وہ خاموشی سے سنتے رہے ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ تھا۔
میں اب بھی کہتا ہوں ان سے صلح کر لو۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن اب ہمیں جزیہ قبول کر کے صلح خریدنی پڑے گی، میں جانتا ہوں تم سب نے لوگوں کو اور فوج کو گرمایا تھا کہ میں انہیں مسلمانوں کا غلام بنانا چاہتا ہوں۔ تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ اب جاؤ اور لوگوں سے کہو کہ جزیہ قبول کریں اور مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلیں۔
مقوقس کا یہ فیصلہ بلاجواز نہیں تھا وہ اس کے جرنیلوں کی خاموشی اور مشیروں کا سر جھکا لینا بھی بے معنیٰ نہیں تھا۔
سب دیوار سے دیکھ رہے تھے کہ باہر ان کی فوج اور شہریوں کی لاشیں ہی نہیں بکھری ہوئی، بلکہ مجاہدین اسلام کا لشکر خندق سے آگے آگیا تھا خندق ہی ایک رکاوٹ تھی جو گزشتہ رات مسلمانوں نے رومیوں کے بچھائے ہوئے پلوں سے عبور کر لی تھیں۔
خندق قلعے کی دیوار سے بہت دور تھی دیوار اور خندق کے درمیان ہرے بھرے کھیت اور پھلوں کے باغات تھے، ان پر اب مجاہدین اسلام کا قبضہ ہوگیا تھا ،مقوقس بھی جانتا تھا اور اس کے جرنیل بھی جانتے تھے کہ مسلمان جب کسی قلعے پر یلغار کرتے دیتے ہیں تو قلعہ لے کر ہی دم لیتے ہیں۔
ان سب نے یہی بہتر سمجھا کہ اپنے لوگوں کو اور فوج کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا جائے کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی شرط پر صلح کر لینے میں ہی اپنی عافیت ہے ۔
لوگوں کو ہم قائل کر لیں گے۔۔۔ قیرس نے مقوقس سے کہا ۔۔۔آپ سلسلے میں جو کارروائی کرنا چاہتے ہیں وہ کریں۔
لوگوں اور فوجیوں کو قائل کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا ،اس وقت اپنے حملے کا انجام دیکھ کر ان کے حوصلے بری طرح ٹوٹ گئے تھے۔ اور سارے شہر پر خوف و ہراس طاری تھا۔ پہلے جو لوگ نہیں مانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار قوت موجود ہے اب وہ بھی مان گئے ۔
گزشتہ رات سے پہلے وہ اپنے آپ کو قلعے کی دیواروں کے اندر محفوظ سمجھتے تھے لیکن اب ان دیواروں سے بھی انہیں خوف آنے لگا تھا۔
مقوقس نے اپنے جرنیلوں اور مشیروں کو اپنے محل میں لے گیا اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام ایک پیغام لکھوایا۔
میں امن اور خیرسگالی چاہتا ہوں مجھے ملاقات کا ایک موقع دیں، میرے دو چار رفیق ساتھ ہوں گے، اور آپ اپنے دوچار رفیقوں کو ساتھ رکھیں، اور ہم دونوں مل بیٹھ کر صلح سمجھوتے کا کوئی راستہ نکالیں گے، ہو سکتا ہے ہم کسی بہتر فیصلے پر پہنچ جائیں۔
پیغام ایک قاصد کو دے کر اسی وقت روانہ کردیا گیا۔
عمرو بن عاص اس وقت قلعے کے اردگرد گھوم پھر رہے تھے جب مقوقس کا پیغام ان تک پہنچا ،انہوں نے اپنے تمام سالاروں کو بلایا اور الگ لےجا کر انہیں مقوقس کا پیغام پڑھ کر سنایا ،پھر ان سے پوچھا کہ وہ کیا مشورہ دیتے ہیں۔
صاف انکار کر دیں!،،،،،، سالار زبیر بن العوام نے کہا ۔۔۔آپ کا خیال بالکل صحیح ہے کہ یہ شخص وقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
عمرو بن عاص نے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا سب نے زبیر بن عوام کی پرزور تائید کی اور متفقہ طور پر کہا کہ ملاقات نہ کی جائے۔
کیا تم لوگ میری مجبوری نہیں سمجھتے ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔کیا تم نہیں جانتے کہ امیر المومنین نے مجھے کیا احکام بھیج رکھے ہیں، امیر المومنین کا بڑا ہی واضح حکم ہے کہ مصر کا حاکم ان تین شرطوں میں سے کوئی ایک مان لے تو اس کے ساتھ صلح کرلو، لیکن اپنی شرط پر سو فیصد عمل درآمد کر آؤ۔ اب مقوقس نے ہماری ایک شرط مان لی ہے میں امیر المومنین کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا،،،،،،
اس کے علاوہ یہاں اپنی حالت بھی دیکھ لو کہ ہم کس کیفیت میں مبتلا ہیں ہمارے اردگرد پانی ہے بے شک ہم نے خندق عبور کر لی ہے، لیکن اس قلعے کو سر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا ۔کھیتوں اور باغات میں بھی پانی ہی پانی ہے ہم ابھی کسی دوسرے شہر کی طرف پیش قدمی بھی نہیں کر سکتے ،ہمیں پانی خشک ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا،،،،،،
اب دشمن کی کیفیت کا اندازہ کرو اس کے ساتھ ہی دشمن کا ذہن پڑھنے کی کوشش کرو ،اس وقت رومی فوج کے حوصلے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں ،ہم نے ان کے جو قیدی پکڑے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ فوج کے ساتھ شہر کے لوگ بھی حملے میں شامل تھے، اس سے ہمیں یہ فائدہ ملا ہے کہ شہر کے لوگوں پر بھی ہمارے مجاہدین کی دھاک بیٹھ گئی ہے۔ لیکن یہ لوگ قلعے کی پناہ میں بیٹھے ہیں پیشتر اس کے کہ ان کے حوصلے بحال ہوجائیں ہمیں ان کی یہ شرط قبول کر لینی چاہیے کہ یہ جزیہ ادا کریں گے، اگر یہ لوگ سنبھل گئے تو پھر یہ اس شرط سے بھی پھر جائیں گے۔
تمام سالار اپنے سپہ سالار سے متفق ہوگئے اور مقوقس کے پیغام کا جواب یہ دیا کہ وہ باہر آکر جہاں چاہے ملاقات کرے۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ ان کی ملاقات کہاں ہوئی سوائے اس کے کہ مقوقس اور مجاہدین کے سپہ سالار عمرو بن عاص کی ملاقات ہوئی ۔ مقوقس کے ساتھ دو جرنیل اور دو مشیر تھے، اور عمرو بن عاص کے ساتھ تین یا چار سالار تھے۔ عمرو بن عاص نے مقوقس کو کوئی اور بات کرنے کا موقع نہ دیا سوائے اس کے کہ وہ اطاعت قبول کر لے اور جزیہ ادا کرے۔
مقوقس تو یہی سوچ کر آیا تھا اور یہ اس کا فیصلہ تھا کہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کی جانی ہے ،اور جزیہ ادا کیا جائے گا۔ چنانچہ جو جزیہ طے پایا وہ دو دینار فی کس تھا ۔ یہ صرف بالغ مردوں کو ادا کرنا تھا نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں عورتوں اور بوڑھے مردوں کو جزیہ سے مستثنیٰ رکھا گیا۔
مقوقس حیران رہ گیا کہ اتنا تھوڑا جزیہ مقرر کیا گیا ہے ۔عمرو بن عاص نے مقوقس سے یہ بھی منوا لیا کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت جہاں کہیں بھی چاہے گی کچھ دن قیام کر سکے گی اور اگر دو تین مسلمان کسی مجبوری کے تحت کبھی کسی مصری کے گھر ٹھہرے گے تو گھر والے تین دن ان کی میزبانی کریں گے۔
اس معاہدے میں عمرو بن عاص نے مقوقس کے مطالبے کے بغیر ہی یہ بھی شامل کیا کہ مصریوں کی زمین ،مال و اموال ،ان کے گرجے ،اور دیگر عبادت گاہیں، اور خشکی یا دریا میں کوئی بھی ملکیت ہو گی یہ انہی کی رہے گی اور مسلمان ان کی حفاظت کریں گے۔ مصریوں کی تجارت پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی، مصری تاجر جہاں چاہیں مال لاسکیں گے اور کسی بھی ملک کو اپنا مال بھیج سکیں گے۔
مقوقس نے اس معاہدے پر اپنی مہر ثبت کر دی لیکن اس نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کی منظوری شاہ ہرقل سے لینی ضروری ہے۔ اس وقت تک دونوں طرف کی فوجی جہاں ہیں وہیں رہیں منظوری جلدی آ جائے گی ۔
یہ ملاقات اور معاہدہ مجاہدین اسلام کی بہت بڑی فتح تھی۔
مقوقس واپس اپنے قلعہ بابلیون میں گیا تو اپنے ساتھ گئے ہوئے جرنیلوں اور مشیروں سے صلاح مشورہ کیا کہ ہرقل کو کس طرح اطلاع دی جائے، عام طریقہ تو یہ تھا کہ ہرقل کے نام پیغام ایک ایلچی لے جایا کرتا تھا لیکن مقوقس نے کہا کہ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ ہرقل نہ جانے کیسے کیسے سوال کرے اور ایلچی جواب نہ دے سکے۔
سب نے بیک زبان اسے مشورہ دیا کہ وہ خود بزنطیہ چلا جائے اور ہرقل کو مطمئن کر دے۔ ہرقل کو مقوقس ہی مطمئن کر سکتا تھا۔
مقوقس نیل کے راستے اسکندریہ کو روانہ ہوگیا اسکندریہ سے اسے بزنطیہ جانا تھا لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ نہ جانے کیا وجہ ہوئی اور اس نے کیا سوچا کہ مقوقس اسکندریہ رک گیا، اور وہاں صلح کے معاہدے کی پوری تفصیلات لکھ کر اپنے ایک ایلچی کو دی کہ وہ بزنطیہ جائے اور ہرقل کے حوالے کر دے۔ معاہدے کی وہ اصل تحریریں بھی ساتھ بھیج دیں جس پر عمرو بن عاص اور مقوقس نے دستخط کرکے اپنی اپنی مہر لگائی تھیں۔
کچھ دنوں بعد ایلچی بزنطیہ پہنچا ہرقل مصر کی صورتحال معلوم کرنے کے لئے اتنا بے تاب تھا کہ اسے اطلاع ملی کے مصر سے ایلچی پیغام لایا ہے، تو ہرقل خود باہر کو دوڑ پڑا اور پیغام ایلچی کے ہاتھ سے چھین کر اندر لے گیا اور پڑھنے لگا اس نے جب معاہدہ دیکھا تو اسکے تن بدن کو آگ لگ گئی اور جب اس نے معاہدے کی تفصیلات پڑھی تو وہ غصے سے باؤلا ہونے لگا۔
ایلچی کو اندر بلایا۔
کیا تم مجھے کچھ بتا سکتے ہو۔۔۔ ہرقل نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔۔۔کیا یہ معاہدہ صرف بابلیون کے لیے ہے یا اس بدبخت مقوقس نے پورے کا پورا مصر مسلمانوں کی جھولی میں ڈال دیا ہے، اور کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ جزیہ وصول کرکے مسلمان واپس چلے جائیں گے یا مصر کے بادشاہ بن بیٹھیں گے۔
نہیں قیصر روم!،،،،،،، ایلچی نے جواب دیا۔۔۔ مجھے فرمانروائے مصر نے کوئی ایسی بات نہیں بتائی سوائے اس کے کہ یہ پیغام آپ کے حضور پیش کر دوں۔
کہاں ہے وہ؟،،،،، ہرقل نے پوچھا۔۔۔ اور خود ہی جواب دیا بابلیون میں ہوگا۔
نہیں قیصر روم!،،،،، ایلچی نے جواب دیا۔۔۔ اسکندریہ میں آپ کے جواب کا وہیں انتظار کریں گے ۔
ابھی روانہ ہو جاؤ۔۔۔ ہرقل نے حکم دیا ۔۔۔تمہیں بادبانی جہاز تیار ملے گا فوراً اسکندریہ پہنچو اور مقوقس سے کہوں کہ اسی جہاز پر آئے اور میرے پاس پہنچے۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
نہ جانے کتنے دنوں بعد مقوقس بزنطیہ پہنچا اور ہرقل سے ملا ہرقل نے رسمی طور پر بھی مقوقس کو شاہی احترام نہ دیا ۔
مقوقس آخر اتنے بڑے ملک کا فرمانروا تھا لیکن ہرقل کا رویہ ایسا تھا جیسے مقوقس اس کا غلام ہو۔
ہرقل نے اس سے پہلی بات یہ پوچھی کہ اس معاہدے کے بعد مسلمان مصر سے چلے جائیں گے یا نہیں ؟
ہاں !،،،،، مقوقس نے بھی قدرے بے رخی سے جواب دیا۔۔۔ وہ مصر سے چلے جائیں گے۔
تم مجھے دھوکا دے رہے ہو۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ معاہدے میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی کوئی بھی جماعت جہاں چاہے گی جاسکے گی، اور جہاں چاہے گی قیام کرے گی، اور دو چار مسلمان کسی مجبوری کے تحت کسی مصری کے گھر روکیں گے تو اس مصری پر ان کی میزبانی فرض ہوگی، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان نہیں جائیں گے۔
اس کے بعد ہرقل نے مقوقس سے اتنے زیادہ سوال پوچھے اور اتنی وضاحت مانگی کے مقوقس پریشان ہو گیا اور ( مورخین کے مطابق) اس نے سوچا کہ ہرقل کو حقیقت سے آگاہ کر ہی دیا جائے۔
قیصر روم !،،،،،،مقوقس نے کہا۔۔۔ آپ ان عربوں کی جوانمردی ،شجاعت اور کٹ مرنے کے عزم سے ناواقف نہیں ، آپ کا ان کے ساتھ مقابلہ ہو چکا ہے اور آپ نے اس کا انجام بھی دیکھا ہے ،کیا آپ مجھ سے اتفاق نہیں کریں گے کہ ان مسلمانوں کو شکست دینا کم از کم ہماری اس فوج کے لیے ناممکن نہیں، میرے سامنے سوائے صلح کے اس معاہدے کے کوئی اور راستہ نہیں تھا ، میں نے قلعہ بابلیون کو ان سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ اگر مسلمانوں نے بزور شمشیر بابلیوں لے لیا تو پھر سارا مصر ان کے قدموں میں پڑا ہو گا۔
دیکھو مقوقس!،،،،، ہرقل نے کہا۔۔۔ تم پہلے بھی مجھے شام کی شکست اور وہاں سے پسپائی کا طعنہ دے چکے ہو، اب تم مسلمانوں کی اطاعت قبول کرچکے ہو انہیں جزیہ ادا کرنے کا فیصلہ کرچکے ہو اور مصر میں ان کی موجودگی اور حکومت کو بھی برداشت کر رہے ہو ،پھر بھی تم مجھے شام کی شکست کا طعنہ دے رہے ہو؟
مقوقس نے اس کا یہ وہم رفع کرنے کے لیے بہت کچھ کہا کہ وہ اس پر طنز نہیں کر رہا بلکہ ایک حقیقت بیان کر رہا ہے، لیکن ہرقل اس کی کوئی دلیل قبول نہیں کر رہا تھا ۔
کیا تم یہ سمجھتے رہے کہ میں مصر سے اتنی دور ہوں اور مجھے وہاں کی حالات کی کچھ خبر ہی نہیں ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ مجھے پل پل کی خبر ملتی رہی ہے ۔ شام کے حالات کچھ اور تھے اور مصر کے حالات کچھ اور ہیں۔ مصر میں ہماری ایک لاکھ فوج موجود ہے اور اس میں صرف ساڑھے بارہ ہزار فوج ہی لڑی ہے، اگر اس فوج کی قیادت عقلمندی سے کی جائے تو ان مٹھی بھر مسلمانوں کو مصر کے ریگستان میں روندا اور مسئلہ جا سکتا ہے یا انہیں نیل میں ڈوبو دیا جائے اور نیل بہتا رہے گا,,,,,,,,,,,, مصر میں ہماری فوج بڑے مضبوط قلعوں میں محفوظ ہے، یہ ذرا جتنے مسلمان اس فوج کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، مجھے یقین ہے مقوقس کوئی ایسا راز ہے جو تم مجھے نہیں بتا رہے؟
مقوقس کو بھی غصہ آ گیا اور اس نے ایک دو جلی کٹی سے کہہ دیں، تم اپنا سب سے بڑا اور شرمناک جرم سن لو،،،،،، ہرقل نے کہا۔۔۔ جنہیں تم نے میرے قتل کے لیے بھیجا تھا وہ میرے ہاتھوں قتل ہوگئے اب تم غداری کے مرتکب ہو رہے ہو ،تم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا، اور مصر عربوں کے لئے خالی چھوڑ دیا ہے۔
ہرقل نے جب اس لڑکی کو اور اس کے ساتھ جانے والے دونوں آدمیوں کو جو اسے قتل کرنے گئے تھے جلاد سے قتل کروادیا تھا تو اس نے اپنے مشیروں اور دو جرنیلوں کو بلا کر یہ واقعہ سنایا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس سازش کے جواب میں مقوقس کو قتل کروا سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں کرے گا ،اور انتقام اس طرح لے گا کہ مقوقس کو رعایا کے سامنے ذلیل و خوار ہونے کے لئے چھوڑ دے گا۔
اب ہرقل کو وہ موقع مل گیا۔ اس نے تو جیسے تیسے کر لیا تھا کہ مقوقس کی بات اور کوئی دلیل نہیں سنے گا ،وہ جانتا تھا کہ روم کی فوج جو مصر میں ہے وہ نفسیاتی لحاظ سے اور حوصلے کے لحاظ سے لڑنے کے قابل نہیں ،لیکن اس نے مقوقس سے انتقام لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
ہرقل نے اسی وقت حاکم شہر اور کوتوال کو بلایا وہ دوڑتے ہوئے پہنچے ۔
ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال دی جائیں اور اسے بستی یا شہر میں گھما پھرا کر اور پھر ایک جگہ رک کر لوگوں کو اکٹھا کیا جائے، اور اعلان کیا جائے کہ یہ شخص غدار ہے اور اس نے مصر مسلمانوں کے مٹھی بھر لشکر کے حوالے کردیا ہے ،اس کے بعد اسے سلطنت روم سے نکال دیا جائے، اس کی ہتھکڑیاں کھول دی جائیں لیکن بیڑیاں پاؤں میں رہے، اور اسے اور زیادہ ذلیل و خوار کر کے سلطنت بدر کردیا جائے۔
ہرقل کے حکم کی تعمیل ہوئی مقوقس کو ہرقل کے حکم کے مطابق ذلیل و خوار کر کے سلطنت بدر کردیا گیا,,,,,,,, ہرقل نے انتقام لے لیا۔
ہرقل نے صلح کا معاہدہ منسوخ کردیا اور اس کی اطلاع سپہ سالار عمرو بن عاص کو بھیج دی گئی جو دسمبر 640 عیسوی میں بھیجی گئی تھی۔
عمرو بن عاص نے قلعہ بابلیون پر یلغار کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا جو بظاہر ناممکن تھا۔
کوتوال اور حاکم شہر جب ہرقل کے حکم کی تعمیل کے لیے مقوقس کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگانے کے لئے باہر لے گئے تو ہرقل کی ملکہ مرتینا تقریباً دوڑتی ہوئی اس کمرے میں گئی جہاں ہرقل اپنی عدالت یا دربار لگایا کرتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ہرقل نڈھال بیٹھا ہے اور اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا ۔چوبدار اور دو محافظ بت بنے چاک و چوبند کھڑے تھے۔ ملکہ کے سر کے اشارے سے وہ بڑی تیزی سے باہر نکل گئے۔
آفرین شہنشاہ ہرقل!،،،،،،،، ملکہ مرتینا نے اپنا ایک بازو ہرقل کے گلے میں ڈال کر اور پھر اس کا ایک رخسار چوم کر کہا۔۔۔ زندہ باد!،،،،، غدار کو یہی سزا ملنی چاہیے تھی ۔ موت تو کوئی سزا ہی نہیں ہوتی۔ انسان دنیا کے جھنجٹ سے آزاد ہو جاتا ہے، یہ شخص مقوقس مصر کا بادشاہ بنا ہوا تھا اب ذلیل و خوار ہوتا پھرے گا، اس کے چہرے پر لکھا نظر آئے گا کہ یہ غدار ہے۔
مرتینا!،،،،،،، ہرقل نے آہ لے کر کہا۔۔۔ اسے اتنی کڑی سزا دے کر مجھے خوشی نہیں ہوئی۔ روم کی سرزمین نے کبھی غدار پیدا نہیں کیا تھا۔
لعنت بھیجو اس پر!،،،،، ملکہ مرتینا نے کہا۔۔۔۔ اس نے آپ کو نہیں سلطنت روم کو دھوکا دیا ہے، دل پر غم اور افسوس کا اتنا بوجھ نہ ڈالیں آپ کا تو رنگ ہی پیلا پڑ گیا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں ہرقلیوناس کو مصر بھیج دیتی ہوں۔
وہ وہاں جا کر کیا کرے گا ؟،،،،،،ہرقل نے نحیف سی آواز میں کہا ۔۔۔وہاں میرے آزمائے ہوئے جرنیل بھی گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔
میں جانتی ہوں آپ کا مطلب کیا ہے ۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔ وہ لڑ نہیں سکے گا، لڑا بھی تو نہیں سکے گا، لیکن جرنیلوں پر نظر رکھے گا کہ کوئی کھلم کھلا یا درپردہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح صلح سمجھوتہ نہ کرے جس طرح مقوقس نے کیا تھا ۔
میرا بیٹا ہرقلیوناس یہ کام خوش اسلوبی سے کرے گا۔
مجھے جانا چاہیے۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ یا قسطنطین وہاں جائے۔ تم جانتی ہو قسطنطین تجربے کار جرنیل ہے لیکن میری صحت اتنی بگڑی گئی ہے کہ نہ میں جا سکتا ہوں نہ میں قسطنطین کو بھیجنا چاہتا ہوں ،یہاں کے معاملات اور امور قسطنطین ہی چلا رہا ہے ،اور میں چاہتا بھی یہی ہو کہ میرا یہی بیٹا سلطنت روم کی باغ ڈور سنبھالے ۔
ملکہ مرتینا کے چہرے پر ناگواری اور بیزاری کا تاثر آگیا لیکن وہ کوشش کر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آئی۔
یہ آپ نے ٹھیک کہا ۔۔۔مرتینا نے بظاہر خوشگوار لہجے میں کہا۔۔۔ آپ کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب معلوم ہوتی ہے میں طبیب کو بلواتی ہوں، مصر کا غم دل سے اتار دیں۔ وہاں تھیوڈور اور وہاں جارج بھی ہیں۔
پہلے ملکہ مرتینا کا تفصیلی ذکر آچکا ہے۔ مرتینا غیرمعمولی طورپر حسین و جمیل عورت تھی وہ جتنی حسین تھی اس سے کہیں زیادہ مکار اور عیار تھی، ہرقل کے حرم میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین عورت موجود تھی ، لیکن حسن کے استعمال کی جو صلاحیت خدا نے مرتینا کو عطا کی تھی وہ کسی اور عورت میں نہیں تھی، کسی بھی تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ حرم کی عورتوں کے علاوہ ہرقل کی باقاعدہ بیویاں کتنی تھیں۔ ان میں ایک مرتینا تھی جس کی حیثیت سورج جیسی تھی باقی سب چاند اور ستاروں جیسی تھیں، جب سورج طلوع ہوتا تھا تو چاند اور ستارے آسمان کی وسعتوں سے ہی ناپید ہو جاتے تھے۔
ہرقل کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مرتینا اس پر غالب آ گئی ہے، اور اسے یعنی ہرقل کو اس غلبے سے نکلنا ہے، لیکن اس کی ہر کوشش ناکام رہتی تھی یہاں تک کہ ہرقل کے دل میں مرتینا کا خوف سا بیٹھ گیا تھا ،ایک ہسپانوی تاریخ نویس فرڈیننیڈ نے یہاں تک لکھا ہے کہ مرتینا نے ہرقل پر کوئی آسیبی اثر پیدا کروارکھا تھا۔
ہرقلیوناس مرتینا کا بیٹا تھا۔ وہ اسے ہرقل کا جانشین بنانے کی کوشش میں لگی رہتی تھی، لیکن ہرقل کی ایک اور بیوی سے قسطنطین اس کا بیٹا تھا، جو ہرقلیوناس سے عمر میں خاصا بڑا تھا۔ ہرقل قسطنطین کو جانشین بنانا چاہتا تھا اب ہرقل نے دیکھا کہ ملکہ مرتینا اس کے اس فیصلے پر اسے خراج تحسین پیش کررہی ہے کہ اس نے مقوقس کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں باندھ کر سلطنت بدر کردیا ہے۔ مرتینا ہرقل کی صحت کے متعلق بھی پریشان نظر آتی تھی۔ لیکن ہرقل اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ محض دکھاوے کی ہمدردی ہے۔ مرتینا نے کہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو مصر بھیج دے گی، ،،،،،،ہرقل نے کہا کہ وہ قسطنطین کو بھیجنا چاہتا ہے لیکن اپنی صحت کے پیش نظر نہیں بھیج سکتا۔
ہرقل سمجھ گیا تھا کہ مرتینا اس صورتحال سے اپنا مطلب پورا کرنا چاہتی ہے جو مقوقس کی جلاوطنی سے پیدا ہوگئی ہے۔ لیکن ہرقل نے قسطنطین کا نام لے کر مرتینا کی خواہش رد کر دی ۔
مرتینا طبیب کو بلوانے کے لئے باہر نکل گئی تھی۔
ہرقل کی صحت مسلسل اور تیزی سے گرتی جا رہی تھی وہ بوڑھا تو ہو ہی گیا تھا، لیکن ایسا بھی نہیں کہ بڑھاپا اسے اس قدر معزور کردیتا ۔
بڑھاپا جسم کو لاغر کر دیا کرتا ہے لیکن ذہن کا کچھ نہیں بگاڑتا دماغی صلاحیتیں اچھے برے تجربات کی بدولت اور زیادہ تیز اور کارآمد ہو جاتی ہیں، انسان دانشمند بن جاتا ہے، لیکن ہرقل ذہنی طور پر بھی کمزور ہو گیا تھا۔
یہ بھی ایک وجہ تھی کہ وہ اپنی ملکہ مرتینا اور اس کے بیٹے ہرقلیوناس سے ڈرتا تھا۔
تمام مورخین نے ہرقل کو خراج تحسین پیش کیا ہے ان مورخین میں مسلمان بھی شامل ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ ہرقل سورج بن کر سلطنت روم کے افق سے ابھرا تھا اور اس نے رومی سلطنت کو بڑی دور دور تک پھیلا دیا تھا، یہاں تک کہ پورے کا پورا ملک شام بھی اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس کی نظریں عرب پر لگی ہوئی تھیں، یہ ہرقل ہی تھا جس نے کسریٰ ایران کی ہیبت ناک جنگی قوت کو شکست دے کر پہلے مصر سے بےدخل کیا اور پھر شام سے بھی ایرانیوں کو بھگایا، اور ان کی سلطنت عراق تک محدود کر دی تھی۔
وہی ہرقل جو عزت و عظمت اور شہنشاہیت کا آفتاب بن کر چمک رہا تھا اب اس کی عزت وعظمت ننگ و ہزیمت میں بدل گئی تھی۔
کسریٰ ایران کی ڈیڑھ پونے دو لاکھ نفری کی فوج کو گھٹنوں بٹھانے والا ہرقل چند ہزار مسلمانوں کے لشکر کے آگے بے بس اور مجبور ہوگیا تھا ،ان قلیل تعداد مجاہدین نے اسے شام سے بھگایا اور اب مصر بھی اس سے چھین رہے تھے، ہرقل بزنطیہ میں حسرت و ایاس کا بت بنا بیٹھا تھا۔
عام خیال یہی تھا کہ ہرقل کو سلطنت روم کے سکڑنے کا غم کھا گیا ہے، مصر کے قبطی عیسائی کہتے تھے کہ ہرقل نے جس بے دردی اور بہیمانہ انداز سے قبطیوں کا قتل عام کیا ہے اس کی سزا اسے دنیا میں ہی مل رہی ہے۔ غیرجانبدار دانشمند کہتے تھے کہ کمال اور زوال کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جیسے ہر چمکتا سورج افق سے ابھر کر افق میں غروب ہو جاتا ہے اور پیچھے رات کی تاریکی چھوڑ جاتا ہے ۔ لیکن پس منظر دیکھیں تو مؤرخین کوئی اور ہی کہانی سناتے ہیں۔
ملکہ مرتینا نے طبیب کو بلوایا تھا طبیب تو ہر لمحہ شاہی حکم کا منتظر رہتا تھا، ملکہ کا حکم پہنچتے ہیں وہ دوڑا آیا لیکن مرتینا اسے سیدھا ہرقل کے پاس لے جانے کی بجائے اپنے کمرے میں لے گئی، یہ طبیب اور اس طرح کے اور سب آدمی جو محل میں مختلف کاموں پر مامور تھے شاہی خاندان کے غلام بنے رہتے تھے۔ وہ اشارے کے منتظر رہتے تھے۔ اور بادشاہ، ملکہ، کسی شہزادے، یا شہزادی کے بلاوے پر دم ہلاتے دوڑتے پہنچتے اور ان لوگوں کے حکم بجا لا کر فخر محسوس کرتے تھے ۔ بات بات پر جھک جاتے اور پھر کام میں جت جاتے تھے۔ اس طبیب کا انداز بھی ایسا ہی تھا لیکن جونہی وہ مرتینا کے کمرے میں داخل ہوا اس کا انداز بالکل بدل گیا یوں لگتا تھا جیسے یہ شخص ملک مرتینا کا کوئی قریبی عزیز ہو، یا بے تکلف دوست۔
کیا حال ہے؟،،،،،،، طبیب نے مرتینا کے کہے بغیر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔دماغ ٹھکانے آیا یا نہیں۔
نہیں !،،،،،مرتینا نے جواب دیا ۔۔۔وہیں کا وہیں ہے میں نے ابھی ابھی ایک موقع دیکھ کر کہا کہ ہرقلیوناس کو مصر بھیج دیتے ہیں کہ جرنیلوں کی نگرانی کرے اور اس طرح غداری کا خطرہ ٹل جائے گا، لیکن ہرقل نے صاف طور پر کہہ دیا کہ وہ خود جائے ،یا قسطنطین کو بھیجا جائے، ہرقلیوناس کسی کام کے قابل نہیں۔
پھر میرے لئے کیا حکم ہے؟۔۔۔۔ طبیب نے پوچھا۔
تم اپنا کام جاری رکھو۔۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔ اب یہی ایک علاج رہ گیا ہے مجھے کچھ ایسا نظر آرہا ہے جیسے یہ شخص اپنی زندگی میں ہی قسطنطین کو تخت پر بٹھا دے گا، آج اسے دیکھ کر بتاؤ کہ یہ کتنے دن اور زندہ رہے گا اب میں جلدی میں ہوں۔
ملکہ محترمہ!،،،،،، طبیب نے کہا۔۔۔ ایک بات جو شروع سے ہی کہتا چلا آ رہا ہوں آج پھر وہی بات کہوں گا آپ کا مقصد دوچار لمحوں میں پورا کرسکتا ہوں لیکن میں تو پکڑا جاؤں گا ہی میرے ساتھ آپ بھی پکڑی جاسکتی ہیں، یہ کام آہستہ آہستہ ہونے دیں۔ کیا آپ اسکے اثرات دیکھ نہیں رہیں؟ کسی کو شک نہیں ہو رہا میں نے اچھے اچھے دانشمندوں کی زبان سے سنا ہے کہ ہرقل کو پے در پے شکستوں کا غم کھا رہا ہے، کہیں سے کوئی بہت ہی قابل طبیب لے آئیں اسے بھی پتہ نہیں چلے گا کہ شاہ ہرقل کو غم نہیں بلکہ کچھ اور کھا رہا ہے ۔ ہر طبیب یہی کہے گا کہ شاہ ہرقل کی جو ذلت و خواری ہوئی ہے اور ہو رہی ہے اس کا اثر اس کی صحت پر بہت برا پڑا ہے۔
اٹھو!،،،،، زیادہ وقت نہ لگے مرتینا نے کہا۔۔۔ وہ یہ نہ کہہ بیٹھے کے طبیب اتنی دیر سے کیوں پہنچا ہے۔
یہ طبیب ادھیڑ عمر آدمی تھا چہرے مہرے ڈیل ڈول اور انداز سے دانشمند طبیب لگتا تھا۔ مرتینا اس سے تین چار سال ہی بڑی ہو گی لیکن وہ طبیب سے چھوٹی لگتی تھی، طبیب اٹھا اور مرتینا کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا۔ مرتینا نے ذرا سی بھی مزاحمت نہ کی بلکہ اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا اور اتنا کہا کہ پہلے اپنا کام کر لو۔
پہلے مرتینا ہرقل کے کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے پیچھے طبیب اندر گیا رک کر پہلے جھکا سیدھا ہوا اور دایاں بازو آگے کرکے رومی انداز سے ہرقل کو سلام کیا پھر تیزی سے آگے بڑھا اور ہرقل کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ۔نبض چھوڑ کر اس کے پپوٹے دونوں انگوٹھوں سے اوپر کیے اور اس کی آنکھوں میں جھانکا اس طرح ہرقل کا معائنہ کرکے اس کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
قیصر روم !،،،،،،،طبیب نے کہا ۔۔۔سلطنت روم آپ کے دم سے قائم ہے فتح و شکست انسان کے ساتھ ساتھ لگی آرہی ہے، آپ مجھ سے زیادہ عقل اور دانش رکھتے ہیں، اگر آپ نے اس طرح ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے تو شکست آپ کے مقدر میں لکھ دی جائے گی، حوصلہ کریں اس تخت پر بیٹھے بیٹھے ہی آپ اس عارضی شکست کو فتح میں بدل سکتے ہیں، میں قیافہ شناس بھی ہوں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو علاقے سلطنت روم سے نکل گئے ہیں ان سے کچھ زیادہ ہی علاقے واپس سلطنت روم میں آئیں گے۔ ملکہ معظمہ آپ کو دیکھ دیکھ کر اکیلی بیٹھی روتی رہتی ہیں میں انھیں بھی یہ یقین دلاتا ہوں کہ سلطنت روم مزید سکڑے گی نہیں بلکہ اب اس کی وسعت شروع ہوجائے گی۔
باتیں کم کرو۔۔۔۔۔ مرتینا نے ذرا غصے سے طبیب کو کہا ۔۔۔۔اگر تم ان کا علاج نہیں کرسکتے تو صاف بتا دو ہم تمہیں اس کی سزا نہیں دیں گے، دیکھو ان کی حالت کیا ہو گئی ہے ،یہ نہ رہے تو میں بھی نہیں رہوں گی۔
آج میں تم سے صاف جواب چاہتی ہوں۔
میں غم کھانے والا آدمی نہیں تھا۔۔۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔میں اتنی کمزور فطرت کا آدمی ہوتا تو روم کے بادشاہ کا تختہ الٹ کر سلطنت روم کو اتنی وسعت نہ دے سکتا، اب ایک دکھ میرے دل پر اثر کیا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ رومیوں میں بھی غدار موجود ہیں، پھر بھی تم اور اچھی طرح دیکھو، کوئی اور ہی روگ لگ گیا ہے ۔
میں دیکھ چکا ہوں قیصر روم !،،،،،طبیب نے کہا ۔۔۔میں آج دوائیاں بدل رہا ہوں ۔
میں تمہیں پورا موقع دے رہا ہوں۔۔۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔جاؤ اور فوراً دوائیاں بھیجو۔
طبیب فوراً اٹھا اور رومی طریقہ ادب سے ہرقل کو سلام کرکے الٹے قدم دروازے تک گیا اور پھر باہر نکل گیا۔ مرتینا ہرقل کو یہ کہہ کر کمرے سے نکلی کے وہ طبیب کے ساتھ ایک آدمی کو بھیجے گی جو فوراً دوائیاں لے آئے گا ۔
مرتینا ایک بار پھر طبیب کو اپنے کمرے میں لے گئی اور پوچھا کہ اب اس کا کیا خیال ہے۔ کام جلدی ہوجائے گا ۔۔۔طبیب نے کہا ۔۔۔۔میرا اندازہ ہے کہ ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دو مہینے اور لگیں گے پھر اس تخت پر آپ کا بیٹا ہرقلیوناس بیٹھا ہوگا۔
میں اُس وقت تمہیں وہ انعام دونگی کہ تمہاری نسلیں بھی مجھے یاد کیا کریں گی ۔۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔۔ میں تمہیں زیادہ دیر روکوں گی نہیں۔ دوائیاں جلدی بھیجو اور بتاؤ کیا چاہیے۔
آپ کا کام ہو رہا ہے۔۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ مجھ سے نہ پوچھا کریں کہ مجھے کیا چاہیے، اس کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ مرتینا دوسرے کمرے میں چلی گئی واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں سونے کا ایک ٹکڑا تھا جسے سونے کی اینٹ کہا جاتا ہے ۔
آج کے حساب کے مطابق اس ٹکڑے کا وزن کم و بیش تیس تولے تھا۔
یہ پہلا ہی انعام نہیں تھا مرتینا اسے ایسے ہی انعامات سے نوازتی رہتی تھی ،طبیب جانے کے بجائے رکا رہا اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لاکر ملکہ کو ایسی نگاہوں سے دیکھنے لگا جن نگاہوں کو مرتینا سمجھتی تھی، منہ سے بولو کیا چاہیے مرتینا نے پوچھا۔ آج کی رات کو ذرا رنگین بنانے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔طبیب نے کہا ۔۔۔۔کوئی ادھ کھلی شام کے بعد بھیج دو تو تمہیں دعائیں دوں گا۔
آجائے گی۔۔۔۔ مرتینا نے کہا۔۔۔ اس کلی کو دیکھ کر کہو گے کہ یہ تو ہمیشہ تمہارے پاس ہی رہے لیکن صبح کا اجالا نکلنے سے پہلے اسے بھیج دینا۔
مرتینا نے ایک آدمی کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ طبیب کے ساتھ جائے اور دوائیاں لے آئے۔
ہسپانوی مؤرخ فرڈنینڈ نے لکھا ہے کہ یہ ایسا راز تھا جو ملکہ مرتینا اور طبیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں تھا، کسی کو شک نہ ہوا کہ ہرقل کو دوائیوں میں کوئی ایسی زہریلی دوائی دی جارہی ہے جو اسے اندر ہی اندر کھا رہی ہے، وہ بڑی ہی تیزی سے مرجھاتا اور معذور ہوتا چلا جا رہا تھا۔
مرتینا ہرقل کو مارنے کا فیصلہ کچھ عرصہ پہلے کیا تھا جب اسے یقین ہو گیا تھا کہ ہرقل اپنے دوسرے بیٹے قسطنطین کو ہی اپنا جانشین بنائے گا ۔
مرتینا کے بیٹے ہرقلیوناس کے ساتھ تو ہرقل نے کبھی بات بھی نہیں کی تھی۔
اسی رات طبیب کے اس خاص کمرے میں ایک نوخیز لڑکی داخل ہوئی جس کمرے میں طبیب کے گھر کا کوئی اپنا فرد بھی نہیں جاسکتا تھا، کوئی چلا بھی جاتا طبیب کو کسی غیر عورت کے ساتھ شراب پیتے یا رنگ رلیاں مناتے دیکھ بھی لیتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، یہ عیش و عشرت اور یہ رنگین بدکاریاں رومی معاشرے کا ایک لازمی حصہ تھیں۔ اس طبیب کو تو اس کے گھر کا کوئی فرد اس لیے بھی روک ٹوک نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ملکہ مرتینا کا منظور نظر تھا ،اور اس سے بیش قیمت انعامات لا کر گھر والوں کو دیتا تھا ۔
یہ لڑکی بھی انعام کے طور پر طبیب کے پاس آئی تھی اور یہ طبیب کا ذاتی انعام تھا۔
مرتینا نے طبیب کو ایسے ہی حسین اور دلکش انعام پہلے بھی بھیجے تھے، لیکن اس روز اس نے مرتینا سے کہا تھا کہ آج رات کوئی ادھ کھلی کلی بھیجے، طبیب نے جب اس لڑکی کو دیکھا تو کچھ دیر دیکھتا ہی رہا ، وہ صحیح معنوں میں ادھ کھلی کلی تھی، وہ حرم کی لڑکی تھی ایسی لڑکیاں عموماً ساقی کے طور پر کام کرتی تھیں، شاہی محفلوں میں یہ لڑکیاں نیم برہنہ لباس میں شراب پیش کیا کرتی تھیں اور انہیں خصوصی ٹریننگ دی ہوئی تھی ، اُس رات مرتینا نے طبیب کو خوش کرنے کے لیے ایسی ہی ایک لڑکی بھیج دی، حالانکہ ان لڑکیوں کو اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔
مرتینا طبیب سے یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی تھی کہ ڈیڑھ دو مہینے بعد اس کا بیٹا ہرقلیوناس ہرقل کے تخت پر بیٹھا ہوگا ، بات بڑی صاف تھی ہرقل کی زندگی ہی ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دو مہینے رہ گئی تھی، ملکہ مرتینا بڑی ہی خوبصورت ڈائن تھی۔
تمہارا نام؟،،، طبیب نے پوچھا۔
میریاقس !،،،،لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔مجھے میری بھی کہتے ہیں، اور میریا بھی۔
شاہی حرم میں بڑی ہی خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں موجود تھیں اور ان میں سے دو چار طبیب کے پاس آئی بھی تھیں، لیکن اس لڑکی سے زیادہ حسین لڑکی اس نے نہیں دیکھی تھی ، طبیب پر تو نشے کی سی کیفیت طاری ہونے لگی، اس کی تو جیسے عقل ہی مغلوب ہو گئی ہو، اس نے مخمور سی آواز میں کہا۔۔۔ تمہارا سراپا ہی اتنا نشہ آور ہے کہ اس کی موجودگی میں روم کی بہترین شراب بھی بیکار لگتی ہے۔
شراب تو میں آپ کو اپنے ہاتھوں پلاؤں گی۔۔۔ میریا نے جذباتی لہجے میں کہا ۔۔۔میرے ہاتھ سے جو پیتا ہے وہ بادلوں کے سفید سفید ٹکڑوں پر اڑنے لگتا ہے۔
ملکہ مرتینا نے اس لڑکی کو اپنے کمرے میں بلا کر خاص طور پر کہا تھا کہ وہ اسے نہیں بھیجنا چاہتی تھی، لیکن طبیب کو خوش کرنا بہت ضروری ہے، اس لئے وہ جائے اور طبیب کو اپنے ہاتھ میں لے لے ،مرتینا نے وجہ یہ بتائی تھی کہ قیصر روم ہرقل بیمار ہیں اور یہ طبیب ان کا علاج کر رہا ہے، لڑکی سمجھ گئی تھی کہ اس طبیب کو آسمان تک پہنچانا ہے۔
طبیب کے ہاں جا کر میریا نے فوراً بھانپ لیا کہ یہ طبیب ذہنی طور پر کمزور اور ڈھیلا آدمی ہے ۔
میریا نے اپنی تربیت کے مطابق طبیب کے ساتھ ایسی حرکتیں اور باتیں شروع کردیں کہ طبیب احمقوں جیسی حرکتیں کرنے لگا ۔
میریا نے اسے شراب پلانی شروع کی اور پلاتی ہی چلی گئی پھر یوں لگتا تھا جیسے طبیب نہیں بلکہ میریا اس ادھیڑ عمر کے ساتھ کھیل رہی ہو۔
طبیب نے بہکی بہکی باتیں شروع کردی اس نے ملکہ مرتینا کی بات چھیڑ دی اور یہاں تک کہہ دیا کہ وہ چاہے تو ملکہ کو یہاں بلا کر پوری رات اپنے کمرے میں رکھ سکتا ہے۔
ملکہ مرتینا جب میرے پاس ہوتی ہے تو وہ ملکہ نہیں بلکہ صرف مرتینا ہوتی ہے ۔۔۔طبیب نے میریا پر اپنا رعب گانٹھنے کے لئے اور شراب کے زیراثر کہا ۔۔۔آج اس نے تمھیں میرے پاس بھیجا ہے یہ حرم ہے تو شاہ ہرقل کا لیکن اصل میں یہ میرا حرم ہے۔
میریا پر طبیب کا رعب بیٹھا تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے، لیکن میریا کے لیے یہ بات عجیب تھی کہ ملکہ مرتینا طبیب کے پاس آتی ہے ، میریا کو یہ شک بھی ہوا کہ طبیب اپنا رعب جمانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے۔ میریا میں تجسس بیدار ہو گیا اور وہ اصلیت معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگی۔
اب میریا کا رویہ ایسا جذباتی اور اشتعال انگیز ہوگیا کہ طبیب کی اگر کچھ عقل صحیح رہ گئی تھی وہ بھی میریا کے قبضے میں آ گئی۔
تخت کے جانشین کے سلسلے میں شاہی محل میں جو کشمکش چل رہی تھی باہر کے کچھ لوگ اس سے واقف ہوگئے تھے اور شاہی محل کے اندر تو ادنیٰ درجے کے ملازموں کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ ملکہ مرتینا اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو ہرقل کا جانشین بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اور ہرقل اس لڑکے کو قبول نہیں کر رہا ،اور اس کی جگہ بڑے بیٹے قسطنطین کو تخت پر بٹھانا چاہتا ہے،،،،،،، میریا کو تو یہ سب چکر پوری طرح معلوم تھا اس نے دیکھا کہ طبیب مرتینا کے ساتھ دوستانہ بے تکلفی کی باتیں کر رہا ہے تو میریا نے سوچا کہ اس سے معلوم کیا جائے کہ ہرقلیوناس جانشین ہو گا؟،،،، یا قسطنطین، میریا نے یہ بات چھیڑ دی۔
آپ کو تو بالکل صحیح معلوم ہوگا۔۔۔ میریا نے کہا ۔۔۔آپ کی عظمت کا اندازہ تو اس سے ہی ہوجاتا ہے کہ ملکہ مرتینا کے ساتھ آپ کی اتنی گہری دوستی ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے شاہ ہرقل کا جانشین کون ہوگا؟
جسے میں چاہوں گا۔۔۔ طبیب نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔۔۔ مرتینا کے بیٹے کے سوا اس تخت پر اور کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔
اگر شاہ ہرقل کا حکم کچھ اور ہوا تو؟
شاہ ہرقل!،،،، طبیب نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔ اس شہنشاہ کی جان میری مٹھی میں ہے، چاہو تو کل اس کے جسم سے نکال لوں لیکن جو کام آہستہ آہستہ ہو جائے وہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
میریا نے اپنی تربیت اور پھر اپنے تجسس کی تسکین کے مطابق طبیب پر اپنے حسن اور اپنے ریشم جیسے ملائم بالوں اور گالوں کا سحر طاری کر دیا، اس کے ساتھ ہی شراب کا پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگا دیا ،پھر جانشین کا مسئلہ چھیڑ دیا۔
طبیب نے بات صاف تو نہ کی لیکن میریا کو شک ہو گیا کہ شاہ ہرقل کو جو روگ کھا رہا ہے اس میں ملکہ مرتینا اور اس طبیب کا بھی ہاتھ ہے۔ طبیب پر ایک تو شراب کا اور پھر اس نوخیز لڑکی کے حسن کا خمار طاری تھا ۔اس لئے وہ غیر محتاط ہو کر اتنی نازک بات کر رہا تھا لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ حرم کی ایک لڑکی میں اتنی جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ یہ بات کسی اور کے کانوں میں ڈال دے۔ بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ موجود تھی کہ میریا اس طبیب کے ذہن اور اعصاب پر ایک بڑا ھی حسین آسیب بن کر طاری ہو گئی تھی۔
رات گزر گئی میریا کی آنکھ اس وقت کھلی جب صبح ابھی تاریک تھی۔
طبیب سانس لیتی ہوئی لاش کی طرح بے سود پڑا خراٹے لے رہا تھا ،میریا آہستہ آہستہ اٹھی اور باہر نکل گئی اس کی ڈیوٹی پوری ہو چکی تھی ،وہاں سے وہ اپنے حرم میں جا پہنچی۔
اگلی رات میریا حرم سے پھر غیر حاضر تھی، گزشتہ رات تو ملکہ مرتینا کے حکم سے غیر حاضر ہوئی اور طبیب کے پاس گئی تھی، لیکن اگلی رات وہ چوری چھپے غیر حاضر ہوئی تھی وہ شاہی محل کے ساتھ ہی ایک بڑے ہی خوشنما اور روح افزا باغ میں ایسی جگہ بیٹھی ہوئی تھی جہاں اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، وہ اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ ایک شہزادہ بیٹھا تھا جس کا نام کونستانس تھا۔
کونستانس ہرقل کے بیٹے قسطنطین کا بیٹا تھا یعنی ہرقل کا پوتا چونکہ ہرقل قسطنطین کو زیادہ عزیز رکھتا تھا اس لئے کونستانس سے بھی ہرقل بہت پیار کرتا تھا۔
قسطنطین ادھیڑ عمری میں پہنچ گیا تھا اور کوننستانس کی عمر تیئس چوبیس سال تھی۔
یہ نوجوان انہیں شہزادوں میں سے تھا جو اپنے آپ کو شرم حجاب اور اخلاقیات کی پابندیوں سے آزاد سمجھا کرتے تھے، اپنے باپ کی حرم کو وہ اپنے اوپر حلال سمجھتے تھے، اورباپ کی پسند کی لڑکیوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے تھے۔
کونستانس بھی کچھ اسی قماش کا شہزادہ تھا عیش و عشرت کے دوران اس کی نظر میریا پر پڑی تو اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔
بادشاہ کے حرم میں اسکے بیٹوں بھتیجوں وغیرہ کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، لیکن شہزادے حرم کی نوکرانیوں اور ہیجڑوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے انہیں چوری چھپے اس خدمت کا بڑا اچھا معاوضہ مل جاتا تھا، کوئی شہزادہ کسی نوکرانی کو انعام و اکرام دے کر کہتا کہ رات فلاں لڑکی کو باہر لے آنا تو نوکرانی خطرہ مول لے کر اس لڑکی کو لے آتی تھی ۔
کونستانس بھی ایسی ایک دو عورتوں کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا تھا اور وہ اس کی فرمائش پوری کرتی رہتی تھیں۔
اب کونستانس نے میریا کو ایک محفل میں دیکھا تو ایک عورت سے کہا کہ اس لڑکی کو کسی طرح مجھ سے ملواؤں اس نے اس عورت کو اچھا خاصہ انعام دیا اور عورت نے ایک رات میریا کو باہر نکال کر اس کے حوالے کر دیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ میریا اس طرح کسی شہزادے کی فرمائش پر چوری چھپے نکلی تھی۔ وہ بڑی قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی اس لیے کوئی ملازمہ اسے باہر لانے کی جرات نہیں کر تی تھی، میریا کو معلوم تھا کہ وہاں درپردہ یہ کاروبار بھی چلتا ہے لیکن اس نے کبھی ایسی خواہش کی ہی نہیں تھی۔
اب ایک پرانی اور بہت ہی چالاک ملازمہ نے اسے کہا کہ قسطنطین کا بیٹا کونستانس اس کی ملاقات کا خواہشمند ہے تو اس نے کچھ پس و پیش کی۔
ملازمہ نے اسے بتایا کہ وہ انکار کا خطرہ مول نہ لے کیونکہ یہ شہزادے کسی بھی طرح انتہائی ذلیل انتقام لے سکتے ہیں ، اور اگر وہ چلی جائے گی تو اس شہزادے سے منہ مانگا انعام لے سکتی ہے۔
وہ رضا مند ہوگئی اور رات ملازمہ اسے کسی طرف سے باہر لے گئی اور کونستانس کے حوالے کردیا۔
یہ کوئی چھ سات مہینے پہلے کا واقعہ ہے کہ ان دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تھی میریا نے کونستانس کو بتایا کہ وہ باہر آنے سے ڈرتی تھی اور وہ اس زمین دوز کاروبار کو اچھا نہیں سمجھتی اس نے یہ بھی بتایا کہ شہنشاہ ہرقل نے صرف دو راتیں اسے اپنے پاس رکھا تھا اور پھر اسے شاہی محفلوں میں مہمانوں کو شراب پیش کرنے کا کام سونپ دیا اور اس کی تربیت بھی کی مختصر یہ کہ وہ اپنے آپ کو مردوں سے بچا کر رکھنا چاہتی تھی۔
تمہاری یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوئی ہے میریا!،،،،، کونستانس نے کہا۔۔۔ میں نے تمہیں اس مقصد کے لئے نہیں بلایا جو تم سمجھ رہی ہوں میرے دل میں تمہاری محبت پیدا ہوگئی ہے میں تمہیں مجبور نہیں کرسکتا کہ تم اپنے دل میں میری محبت پیدا کرو محبت جبر سے پیدا نہیں ہوا کرتی نہ ہی محبت کا معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔
میں نے اپنے دل کی بات کہہ دی ہے ۔۔۔میریا نے کہا ۔۔۔اور یہ صرف اس لئے کہی ہے کہ میں تمہیں ان شہزادوں جیسا شہزادہ سمجھتی ہوں جو حرم میں اسی طرح کی ڈاکہ زنی کرتے رہتے ہیں تم محبت کی بات کرتے ہو محبت کسے عزیز نہیں مجھے میرے ماں باپ سے نوچ کر یا جبراً خرید کر قید میں ڈالا گیا ہے، میں تو محبت اور پیار کو ترس گئی ہوں، اگر تم نے مجھے اپنی ہوس کی تسکین کے لیے بلایا ہے تو میں تمہارے لئے گوشت اور ہڈیوں کا بنا ہوا ایک بت ہوں جو تمہارے سامنے موجود ہے، اور اگر بات اس محبت کی کرتے ہو جس کا تعلق جسمانی ہوس کے ساتھ ہوتا ہی نہیں تو مجھے آزماء کر دیکھ لو تمہاری محبت پر جان بھی قربان کر دوں گی۔
یہاں سے ان کی محبت کا آغاز ہوا دونوں بہت دیر شاہی باغ کے ایک کونے میں بیٹھے رہے تھے، جب میریا جانے لگی تو کونستانس نے اسے کچھ نقد معاوضہ پیش کیا۔
میریا نے یہ نقدی دیکھی پھر کونستانس کے چہرے پر نظریں جماۓ اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
کونستانس نے اسے بازوؤں میں لے کر ساتھ لگا لیا۔
اس محبت کو یوں توہین نہ کرو۔۔۔ میریا نے کہا۔۔۔ جب تمہارا اشارہ ملے گا میں آجایا کرو گی۔
اور میں ایک خاص انتظام کر دوں گا ۔۔۔۔۔کونستانس نے کہا ۔۔۔۔میں حرم کی تمام عورتوں اور ہیجڑوں کو کہہ دوں گا کہ کوئی شہزادہ تمھاری فرمائش کرے تو صاف انکار کر دینا، البتہ تمھیں شاہ ہرقل اور ملکہ مرتینا کے حکم سے کسی کے حوالے کیا گیا تو یہ میرے بس سے باہر ہوگا۔
اگلے ہی روز کونستانس نے یہ انتظام کردیا حرم کی تمام عورتوں اور ہجڑوں کو شدید نتائج کی دھمکی دے کر کہا کہ میریا کو اس درپردہ کاروبار میں استعمال کیا گیا تو اسے باہر لے جانے والی کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔
اس کے اس حکم پر عمل ہوتا رہا میریا اور کونستانس اسی باغ میں ملتے رہے، اور وہ ایک دوسرے میں اتنے جذب اور تحلیل ہو گئے تھے کہ انہیں بعض ملاقاتوں میں یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ رات گزر گئی ہے ،اور پرندوں کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں ،اس محبت کا ایک اثر تو یہ دیکھا کہ میریا کو کوئی اور اپنی فرمائش پر نہیں بلاتا تھا ،اور دوسرا اثر یہ کہ کونستانس کا دھیان کبھی کسی اور لڑکی کی طرف نہ گیا۔
کونستانس قسطنطین کا بیٹا تھا اور قسطنطین کو ہرقل نے تجربہ کار جرنیل بنا دیا تھا اس نے لڑائیاں لڑی تھی اور میدان جنگ میں قیادت میں مہارت حاصل کر لی تھی اس نے ایسی ہی تربیت بیٹے کونتانس کی بھی کی ۔ یہ نوجوان فن حرب و ضرب میں بھی طاق ہو گیا تھا اور شاہی معملات و امور کو بھی بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا اور انتظامی امور میں تو اچھی خاصی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔
اس تعلیم و تربیت کا یہ اثر تھا کہ کونتانس کا شمار آوارہ شہزادوں میں نہیں ہوتا تھا۔
پہلی ملاقات کے چھ سات مہینے بعد کونتانس اور میریا ایک بار پھر باغ کے اسی ڈھکے چھپے کونے میں بیٹھے ایک دوسرے میں گم تھے۔
آج تمہیں ایک بات بتاتی ہوں میریا نے کہا ۔۔۔۔لیکن ابھی یہ دل میں ہی رکھنا میری گزشتہ رات اس طبیب کے ہاں گزری ہے جو شہنشاہ ہرقل کا علاج کر رہا ہے ،وہ ہے تو طبیب لیکن اس سے زیادہ احمق آدمی اور شاید کوئی نہ ہو مجھے ملکہ مرتینا نے اس کے یہاں جانے کا حکم دیا تھا ،طبیب تو مجھے دیکھ کر آپے سے باہر ہوگیا میں نے اسے شراب پلائی اور وہ پیتا ہی گیا ،اور جو اس نے باتیں کیں اس سے پتہ چلا کہ اس شخص کے اندر سے میں کوئی بھی راز نکال سکتی ہوں، اور اس کے ہوس پوری کئے بغیر رات بھی گزار سکتی ہوں،،،،،،،،،،، یہ سن کر تم کیا کرو گے کہ میری یہ رات کس طرح گزری یہ سن لو کہ وہ مجھ سے اتنا مرعوب اور مغلوب ھوا کہ اس کے دل میں سے ایک دو ایسی باتیں نکل گئیں جن سے میں ایک شک میں مبتلا ہو گئی ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ اس کوشش میں ہے کہ ہرقلیوناس ہرقل کا جانشین بنے، ملکہ کے متعلق اس نے ایسی باتیں کیں جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ملکہ کے ساتھ اس کی کوئی اور ہی بے تکلفی ہے۔
اسمیں کوئی شک والی بات نہیں ۔۔۔۔۔کونتانس نے کہا۔۔۔۔ملکہ چاہتی ہے کہ شاہ ہرقل صحت یاب ہوجائیں، اسی لئے اسے خوش کررہی ہے ۔وہ دراصل شاہ ہرقل کو خوش رکھنے کی کوشش میں ہے کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو انکا جانشین بنانا چاہتی ہے ۔
میرا شک پھر بھی وہیں قائم ہے ۔۔۔۔میریا نے کہا۔۔۔۔شک یہ ھیکہ ملکہ کی رضامندی سے طبیب شاہ ہرقل کو غلط یا زہریلی دوائیاں دے رہا ہے جن سے انکی صحت بڑی تیزی سے گرتی چلی جارہی ہے ۔
میرا خیال ہے طبیب ایسی جرات نہیں کر سکتا ۔۔۔کونتانس نے کہا۔۔۔۔ہمیں یہ بات ابھی کسی سے کرنی نہیں چاہئے ۔اگر کی تو بتانا پڑے گا یہ بات تمہاری زبان سے نکلی ہے ۔میں جانتا ہوں اسوقت سلطنت روم پر حکومت ملکہ مرتینا کی ہے اس تک تمہارا نام پہونچا تو تمہیں قتل کروا دے گی ۔اگر ملکہ پھر کبھی تمہیں طبیب کے ہاں بھیجے تو پھر یہ راز نکلوانے کی کوشش کرنا ۔وہ اگر تمہارے حسن اور تمہاری نوجوانی سے مرعوب ہے تو وہ راز اگل دے گا ۔
میں راز اگلوانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔میریا نے کہا۔
دونوں نوجوان تھے ان پر رومانی جزبات کا غلبہ تھا اور ایسی کیفیت طاری تھی کہ میریا کی بتائی ہوئی بات جیسے اوپر سے گزر گئی ہو لیکن اتنا ضرور ہوا کہ ملکہ مرتینا اور طبیب کے درمیان جو راز تھا، اس سے پردہ اٹھ گیا تھا۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
جاری ہے…………..