اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر 8)

سابقہ اقساط
| قسط نمبر 01  |قسط نمبر 02 | قسط نمبر 03 | قسط نمبر 04|  قسط نمبر 05 | قسط نمبر 06

عراق اور شام کے درمیان وسیع و عریض الجزیرہ کے علاقوں میں عیسائی قبائل کی سرکوبی کی جارہی تھی ۔ان میں ایک دلچسپ صورتحال بنو تغلب نے پیدا کردی تھی۔بنو تغلب کا علاقہ شام عراق سرحد اور دریاے فرہاد کے درمیان تھا ،کچھ علاقہ شام میں بھی تھا یہ صحرائی علاقہ تھا امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بنو تغلب کی سرکوبی کی ذمہ داری ایک سالار ولید بن عقبہ کو سونپی تھی، بنو تغلب کئی ایک بستیوں میں آباد تھے، جن میں دو یا تین بڑی بستی قلعہ بند تھی۔ سالار ولید بن عقبہ کو ان بستیوں پر قبضہ کرنے کے لیے کئی دشواریاں پیش آئیں جن میں سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ بنو تغلب کے لوگ صحیح معنوں میں جنگجو تھے، وہ عربی نسل کے لوگ تھے، مجاہدین کے جس لشکر نے پہلے مثنیٰ بن حارثہ اور اس کے بعد سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں کسریٰ ایران کی طاقتور فوج کو ہر میدان میں شکست دی اس لشکر میں بنو تغلب کے عیسائی بھی شامل تھے اور ان میں سے بعض نے شجاعت کے بڑے ہی حیران کن کارنامے کر دکھائے تھے۔اب بنو تغلب نے ہرقل کی شہ پر مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دی تھی عراق پر بھی مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہو گیا تھا اور شام پر بھی ، بنو تغلب نے مسلمانوں کے اس قبضے کے خلاف سرکشی شروع کردی تھی۔مجاہدین کا لشکر سالار ولید بن عقبہ کی قیادت میں وہاں پہنچا تو اس قبیلے کے لوگوں نے جم کر مقابلہ کیا لیکن کسی بھی جگہ قدم جما نہ سکے مجاہدین کو ایک سہولت یہ حاصل ہو گئی تھی کہ انہیں رومیوں اور ایرانیوں کے بے انداز گھوڑے مل گئے تھے اس طرح مجاہدین کے اکثریت گھوڑ سوار تھی مجاہدین کو ایک اور فائدہ حاصل ہو گیا تھا انہوں نے ہرقل کو شکست دی تھی جو اس دور میں ایک عجیب بات سمجھی جاتی تھی کیونکہ ہرقل کی جنگی طاقت ایک دہشت کا نام تھا ،مجاہدین نے اس طاقت کو ملک شام کے جنگلوں اور صحرا میں بکھر ڈالا تھا اس طرح مجاہدین کی دھاک ہر طرف بیٹھ گئی تھی۔الجزیرہ کے عیسائی قبائل لڑنے کے لیے میدان میں آ تو جاتے تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرتا تھا کہ گھٹنے ٹیک دیتے تھے ۔بنو تغلب نے بھی ایسی ہی لڑائی لڑی تین چار معرکوں میں انہیں منہ کی کھانی پڑی تو ان کے سردار صلح کا معاہدہ کرنے آگئے اور انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔سالار ولید بن عقبہ نے بنو تغلب کے سرداروں سے کہا ۔۔۔کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔

 بنو تغلب ان قبائل میں زیادہ جنگجو اور باوقار قبیلہ سمجھا جاتا تھا اس قبیلے کے سرداروں نے اسلام قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ولید بن عقبہ نے کہا کہ انہیں اسلام قبول کرنا ہی پڑے گا ورنہ ان پر ایسی سختی عائد کردی جائیں گی جو وہ برداشت نہیں کر سکیں گے ۔سرداروں نے متفقہ طور پر کہا کہ امیرالمومنین حضرت عمر جو فیصلہ کریں گے وہ اس فیصلے کو قبول کر لیں گے۔سالار ولید بن عقبہ نے اسی روز امیرالمومنین کو پیغام بھیج دیا جس میں لکھا کہ انہوں نے بنو تغلب سے اسلام قبول کرنے کو کہا تھا جس سے انہوں نے انکار کر دیا ہے اور وہ فیصلہ امیرالمومنین پر چھوڑتے ہیں۔حضرت عمر کی دور اندیشی اور تدبر کی تعریف تو غیر مسلم مؤرخوں نے بھی کی ہے۔ حضرت عمر نے جواب دیا کہ بنو تغلب کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور یہ فیصلہ ان پر ہی چھوڑ دیا جائے۔ حضرت عمر نے یہ بھی لکھا کہ بنو تغلب کے سرداروں سے کہہ دیاجائے کہ ان کے قبیلے میں سے کوئی بھی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہے تو قبیلے کے لوگ اسے روکیں گے نہیں۔تاریخ میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمر کا یہ فیصلہ سالار ولید بن عقبہ نے بنو تغلب کے سرداروں وغیرہ کو سنایا تو اس فیصلے سے ہی متاثر ہوکر متعدد عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا ، امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پیغام میں یہ بھی لکھا تھا کہ بنو تغلب سے جزیہ وصول کر کے انہیں ذمی قرار دیا دے دیا جائے ۔بنو تغلب کے سرداروں نے جزیہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ زمی نہیں کہلائیں گے۔ائے بنو تغلب! ۔۔۔ولید بن عقبہ نے کہا ہم تمہارے لئے اپنا قانون اور دستور بدل نہیں سکتے میں اب یوں نہیں ہونے دوں گا کہ تمہاری ہر ضد مدینہ امیر المومنین کے پاس بھیجوں اور وہاں سے فیصلہ لوں جزیہ تو ہم کبھی معاف نہیں کریں گے۔ہم رقم دینے سے انکار نہیں کررہے ایک سردار نے کہا۔۔۔ آپ جزیہ سے دوگنی رقم ہم سے لیں، لیکن ہمیں زمی نہ کہیں اور اس رقم کو جزیہ نہ کہیں۔  آخر طے پایا کہ بنو تغلب کے سرداروں کا ایک وفد امیر المومنین کے پاس مدینہ جائیگا اور وہ ان کے آگے مطلوبہ رقم بھی رکھ دے گا اور اپنا مطالبہ بھی۔

اسی روز ان کا ایک وفد مدینہ کو روانہ ہوگیا اس وفد میں بنو تغلب کے نو مسلم بھی تھے سالار ولید بن عقبہ نے اپنا ایک نمائندہ ساتھ بھیج دیا تھا مدینہ پہنچ کر یہ وقت حضرت عمر کے حضور پہنچا اور یہی اصرار پیش کیا کہ وہ جزیہ دیں گے اور رقم جس قدر بھی ان سے طلب کی جائے گی وہ فوراً ادا کریں گے۔ ہم نے جو جزیہ مقرر کیا ہے اس سے زیادہ نہیں لیں گے حضرت عمر نے کہا۔۔۔ اور اسے ہم جزیہ کہیں گے۔لیکن ہم اسے صدقہ کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔بنو تغلب کے ایک معمر سردار نے کہا ۔تم اسے کوئی بھی نام دے دو ۔۔۔۔حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔دستور کے مطابق اسے جزیہ کہا جاتا ہے ،،،،میں حیران ہوں کے تم لوگ کیسی بے معنی بات پر اڑے ہوئے ہو۔امیرالمومنین! ۔۔۔۔معمر سردار نے کہا۔۔۔ ہم آپ کو امیر المومنین تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ ہماری عزت اور قومی وقار کو برقرار رہنے دیں، آپ جانتے ہیں کہ بنو تغلب کا کتنا اونچا نام یے ۔ جزیہ کو  بے عزتی اور ذلت سمجھا جاتا ہے ، یہ نہ بھولیں کہ ہمارے قبیلے کے آدمی آپ کے لشکر میں شامل ہوکر کسریٰ ایران کی فوج کے خلاف لڑے تھے، اب بھی ہم آپ کی لڑائیاں لڑیں گے، ہم نے آپ کی اطاعت قبول کرلی ہے، ہماری روایت کو تباہ نہ کریں۔حضرت عمر جزیہ کو جزیہ ہی کہنے پر قائم رہے کچھ بدمزگی سی پیدا ہونے لگی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت عمر کو ایک سالار سعد بن مالک کا واقعہ یاد دلایا جس نے ایک علاقہ فتح کر کے وہاں کے لوگوں سے جزیہ لینے کے بجائے دو گنا صدقہ قبول کر لیا تھا۔  حضرت عمر بلاوجہ اپنی بات پر اڑا نہیں کرتے تھے۔ انہیں وہاں کیا یاد آگیا اور (مورخ لکھتے ہیں کہ ) حضرت عمر کو یہ خیال بھی آیا کہ یہ قبیلہ ایک جنگی طاقت ہے جو اپنے کام آسکتا ہے ،آخر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جزیہ کے بجائے  صدقہ قبول کرلیا جائے لیکن رقم دگنی ہو گی۔ بنو تغلب کے سرداروں نے یہ فیصلہ بخوشی قبول کر لیا اور رقم ادا کر دی اس طرح ایک طاقتور قبیلہ بھی مسلمانوں کے زیر اطاعت آگیا اور اس قبیلے کے لوگوں نے آہستہ آہستہ اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔

آنتونیس، روتاس، لیزا، اور یوکلس حلب کے قریب ایک بستی میں پہنچ گئے، یہ جنگل میں چند ایک گھروں کی بستی تھی اور یہ بنو ربیعہ کے لوگ تھے انہوں نے انتھونیس اور اس کے ساتھیوں کو دیکھا تو سب گھروں سے باہر آگئے وہ جان گئے ہوں گے کہ یہ رومی ہیں رومیوں کے متعلق ان لوگوں کی رائے اچھی نہیں رہی تھی۔انتھونیس اور روتاس خاصا لمبا عرصہ الجزیرہ کے علاقے میں رہے تھے اس لیے انہوں نے ان کی زبان سیکھ لی تھی انہوں نے بستی والوں سے کہا کہ وہ کسی بڑے آدمی یعنی بزرگ سے ملنا چاہتے ہیں۔ لوگ انہیں ایک گھر میں لے گئے یہاں ایک ضعیف العمر آدمی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں عزت و احترام سے بٹھایا یہ بوڑھا کوئی عام سا اور غریب سا آدمی نہیں لگتا تھا اس کے بولنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ وہ صاحب حیثیت ہے۔تم رومی ہو بوڑھے نے کہا۔۔۔ ہمارے دلوں میں اب رومیوں کی وہ عزت نہیں رہی جو ان کی شکست سے پہلے ہوا کرتی تھی، لیکن تم ہمارے مہمان ہو دل سے تمھاری عزت کریں گے ۔کیا تم لوگ کہیں جا رہے ہو ؟کیا تمہیں ہماری کسی بھی قسم کی مدد درکار ہے؟ راستہ بھول گئے ہو تو ہم راستے پر ڈال دیں گے۔قابل احترام بزرگ! ۔۔۔انتھونیس نے کہا ۔۔۔ہم راستہ نہیں بھولے ہم ایک نیا راستہ بنانے آئے ہیں اور ہمیں آپ کی اور آپ کے قبیلے کی مدد درکار ہے۔

کہو۔۔۔ بوڑھے نے پوچھا۔۔۔ کیسی مدد چاہیے ہم تمہیں مایوس نہیں کریں گے۔ہمیں اپنی ذات کے لئے کچھ بھی نہیں چاہیے انتھونیس نے کہا۔۔۔ ہم آپ کی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ اپنے لئے بھی، ہرقل بھاگ گیا ہے اس کی فوج مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئی ہے ،اور جو بچ گئی تھی وہ ایسی بکھر کر بھاگی کے اس کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے، میں رومی فوج کا جرنیل ہوں اسے بھی جرنیل سمجھیں،  یہ عورت اور یہ لڑکا کون ہے یہ بعد میں بتائیں گے ابھی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں رومی نہ سمجھیں اپنا ہم مذہب بھائی سمجھیں ، ہرقل پہلے بادشاہ ہے اس کے بعد عیسائی اور وہ بھی برائے نام ہم پہلے عیسائی ہیں اس کے بعد رومی۔انتھونیس نے وہ صلیب اس بوڑھے کو دکھائی جو روتاس کو ابو عبیدہ نے تحفے کے طور پر دی تھی۔ہم اس کی سلطنت قائم کرنا چاہتی ہیں جو صلیب کے ساتھ لٹکا ہوا ہے، انتھونیس نے کہا۔۔۔ یہ روم اور ایران جیسی بادشاہی نہیں ہوگی یہ یسوع مسیح کی سلطنت ہوگی اگر الجزیرہ کے تمام عیسائی قبائل اکٹھے ہوجائیں تو میں اور میرا یہ ساتھی انھیں ایک ایسی زبردست فوج میں منظم کر دیں گے کہ تھوڑے ہی سے عرصے میں مسلمانوں کو شام سے دھکیل باہر کریں گے۔بوڑھے کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق اور ہونٹوں پر تبسم آگیا ،یہاں سے وہ بات چلی جس بات پر انتھونیس قبائل کے سرداروں کو لانا چاہتا تھا ۔بوڑھا جب بولا تو معلوم ہوا کہ وہ اس کا ہم خیال ہے اور ایسے ہی ارادے اس کے سینے میں بھی تڑپ رہے ہیں۔کبھی ہم ایرانیوں کے غلام ہو جاتے ہیں۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔کبھی رو می آکر ہمیں اپنا زرخرید رعایا بنا لیتے ہیں، اور اب مسلمانوں نے ہمیں تہ تیغ کر لیا ہے مجھے اپنے اس تمام علاقے کی خبریں مل رہی ہیں ہمارے قبائل نے بغاوت تو کردی ہے لیکن الگ الگ ہوکر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قبیلے کچھ لڑکے اور فوراً ہی ہتھیار ڈال کر اطاعت قبول کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بنو تغلب جیسے طاقتور قبیلے نے بھی مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی ہے صرف حلب رہ گیا ہے جہاں ابھی کچھ نہیں ہوا میری نظر اس قلعے بند شہر پر ہے ، دو طاقتور قبیلے ابھی بچے ہوئے ہیں ایک ہے بنی ربیعہ اور دوسرا ہے بنی تنوخ اگر ہم حلب میں جم گئے اور مسلمانوں کو ناکام کردیا تو تمام قبائل کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ ہمارے پرچم تلے متحد ہو جائیں گے۔کیا آپ ان قبیلوں کے سرداروں کو یہاں بلوا سکتے ہیں انتھونیس نے کہا ۔۔۔ہم ابھی سامنے نہیں آناچاہتے خطرہ ہے کہ ہرقل کے مخبر اور جاسوس ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے ہونگے۔تمہارے لئے کوئی خطرہ نہیں بوڑھے نے کہا۔۔۔ جب تک تم ہمارے پاس ہو تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا، کسی بھی سردار کو یہاں بلانے کی ضرورت نہیں ہم تمہیں حلب میں پہنچا دیں گے اور سردار تمہارے پاس آجائیں گے۔ ہم تمہیں اپنا لباس پہنا دیں گے اور غریب سے کسانوں اور مزدوروں کے بہروپ میں حلب میں داخل کریں گے

تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ حلب جیسے بڑے اور قلعہ بند شہر کو مسلمانوں نے کیوں اتنا نظر انداز کر رکھا تھا کہ وہاں مجاہدین کی نفری آبادی کے لحاظ سے بہت تھوڑی تھی، اور یہ چند ایک مجاہدین جزیہ اور محصولات وصول کرنے اور انتظامیہ کا کاروبار چلانے میں مصروف رہتے تھے، حلب کی آبادی بڑھتی جا رہی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ الجزیرہ کے علاقوں سے بھاگے ہوۓ عیسائی قبائل حلب میں جاکر پناہ لیتےتھے، مختلف قبیلوں کے کئی ایک سردار بھی وہاں جا پہنچے تھے، یا وقتا فوقتا وہاں جاتے رہتے تھے ،حلب میں ابھی بغاوت اور سرکشی کے کوئی آثار نہیں تھے۔انتھونیس، روتاس، لیزا، اور یوکلس جب حلب میں داخل ہوئے تو کسی نے انہیں اچھی طرح دیکھا بھی نہیں کسی کو دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی اس قسم کے خانماں برباد پناہ گزیں تو حلب میں آ ہی رہے تھے۔ انتھونیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی ایسے ہی پریشان حال پناہ گزین سمجھا گیا ان کے ساتھ بوڑھے کے بھیجے ہوئے دو خاص آدمی تھے جو انہیں ایک سردار کے گھر میں لے گئے۔حلب میں جا کر پتہ چلا کہ جس بزرگ کے پاس یہ لوگ گئے تھے وہ کوئی معمولی حیثیت کا آدمی نہیں بلکہ ان قبائل کا دانشور تھا جسے سردار بھی پیرومرشد کا درجہ دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انتھونیس جن سرداروں کے پاس گیا انہوں نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی بہت ہی عزت اور پذیرائی کی۔انتھونیس نے ان سرداروں کے ساتھ بات کی تو انہوں نے تین چار اور سرداروں کو بلا لیا جو حلب میں ہی موجود تھے انتھونیس نے اپنا مدعا بیان کیا تو اس نے سرداروں کو پہلے ہی تیار پایا ،اب یہ پلان بنانا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف معرکہ آرائی کی ابتدا کس طرح کی جائے کچھ دیر بات چیت اور بحث و مباحثہ ہوا اور ایک لائحہ عمل تیار ہو گیا۔اس کے مطابق سرداروں نے اپنے خاص آدمی بلائے اور انہیں کچھ ہدایت دے کر دوڑا دیا ،دو ہی دنوں بعد قلعہ حلب میں آنے والے پناہ گزین کا قبائلیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور بڑھتی ہی چلی گئی، جو مسلمان مجاہدین شہر میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ ان پناہ گزینوں کے ساتھ ہتھیار بھی آ رہے ہیں ان ہتھیاروں میں زیادہ تر برچھیاں تھیں اور اس سے زیادہ کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی ترکشیں تھیں ۔ بعض ہتھیار تو کھلم کھلا آئے تھے اور زیادہ تر ہتھیار چھپا کر لائے جارہے تھے۔

رومی اس شہر سے بھاگ گئے تھے ان کے مکان اور فوجیوں کی بارکیں خالی پڑی تھیں پناہ گزین ان میں آ کر قیام کرتے تھے اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ خیمے گاڑ نے پڑے ۔انتھونیس سرداروں کو فوجی اور جنگی نوعیت کی ہدایت دیتا تھا اور سردار یہ ہدایت اپنے خاص آدمیوں کو دیتے اور اس طرح تمام لوگوں تک یہ پہنچ جاتی تھی اور لوگ اس کے مطابق تیاریاں کر رہے تھے۔انتھونیس اور اس کے کسی بھی ساتھی کو مسلمان تو پہچانتے ہی نہیں تھے لیزا اور یوکلس تو شاہی خاندان کے افراد تھے انہیں مسلمان پہچان ہی نہیں سکتی تھے، البتہ یوکلس کو تقریبا تمام عیسائی سردار پہچانتے تھے، اور یہ بھی ایک وجہ تھی کہ یہ سردار فوراً انتھونیس کے ساتھ ہو گئے تھے کیوں کہ اس نے ایک قبائلی لڑکی کو قسطنطین کی دست درازی سے اس طرح بچایا تھا کہ تلوار نکال لی تھی اور اگر محافظ دستے کا ایک افسر درمیان میں نہ آ جاتا تو ان دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک قتل ہو جاتا ۔ پھر یوکلس لڑائی سے پہلے ان قبائلیوں کے لشکر میں گھومتا پھرتا رہتا تھا اور سب کے دلوں میں اس واقعے کی وجہ سے یوکلس کی عزت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ قبائلی اس کو اپنی عزت و آبرو کا محافظ سمجھنے لگے تھے۔ قبائلیوں کا تیس ہزار کا لشکر بد دل ہو کر ہرقل کا ساتھ چھوڑ آیا تھا جس کی اور وجوہات تو تھی لیکن اس میں یوکلس کا عمل دخل بھی تھا ،اب وہی یوککس اپنے باپ کا ساتھ چھوڑ کر اور شاہی زندگی ترک کرکے ان کے پاس آ گیا تھا۔

لیزا تو رات کے وقت کبھی باہر نکلتی اور قلعے کی دیوار پر گھوم لیتی تھی ،یوکلس نوجوان لڑکا تھا وہ ایک گھر میں قید رہ ہی نہیں سکتا تھا، اور قید رہنے کی ضرورت بھی نہیں تھی اسے مجاہدین میں سے تو کوئی پہچانتا نہیں تھا ایک روز وہ شہر سے نکلا اور ویسے ہی سیر سپاٹے کے لئے ایک طرف چل پڑا اس طرف سبزہ زیادہ تھا اور بڑے گھنے اور خوبصورت درخت تھے ،اور وہیں کہیں ایک چشمہ بھی تھا کچھ کھیت بھی تھے وہ اس طرف جارہا تھا کہ چار پانچ لڑکیاں کچھ دور سے ہنستی کھیلتی آ رہی تھیں، اس کو دیکھ کر وہ رک گئیں، یوکلس نے ان کی طرف دیکھا ایک لڑکی دوڑتی ہوئی یوکلس کے پاس آئی ،یوکلس اسے ٹھیک طرح پہچان نہ سکا۔تم وہی ہو لڑکی نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ساری عمر نہیں بھول سکتی تم نے میری عزت بچائی تھی تم نہ ہوتے تو،،،،،،،، وہ میرا فرض تھا۔۔۔ یوکلسس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ مجھے تو تمہاری صورت یاد نہیں رہی تھی۔وہ بڑی بھولی بھالی معصوم سی اور بڑی خوبصورت لڑکی تھی ،ابھی تو وہ بمشکل نوجوان ہوئی تھی جذبات کی شدت سے اس نے یوکلس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اس نے محسوس کیا کہ یوکلس کا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے بہت ہی مختلف ہے، لڑکی نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے آنکھوں سے لگا کر چوم اور پھر بائیں ہاتھ کو غور سے دیکھا، یوکلس نے اسے بتایا کہ اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر بیکار اور سوکھا ہوا ہے۔ لڑکی کے چہرے پر اداسی آئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔میں تمہیں خوابوں میں دیکھتی رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ جب یہ خیال آتا تھا کہ تمھیں ساری عمر نہیں دیکھ سکوں گی تو بہت دکھ ہوتا تھا ،تم جیسے غیرت مند آدمی مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز لگتے ہیں۔وہ میرا بڑا بھائی تھا جسے میں قتل کرنے کو تیار ہو گیا تھا۔۔۔ یوکلس نے کہا۔۔۔ میرا ایک بازو نہیں ہے پھر بھی میں تلوار سے برچھی اور کلہاڑی سے دو تین آدمیوں کا مقابلہ کرسکتا ہوں۔سنا تھا تم بادشاہ کے بیٹے ہو؟ ۔۔۔لڑکی نے کہا ۔۔۔وہ بادشاہ تو بھاگ گیا ہے تم یہاں کیوں آئے ہو؟ میں بادشاہی کو ٹھوکر مار کر آیا ہوں… یوکلس نے کہا۔۔۔ اس روز تمہاری عزت بچائی تھی اب تمہارے قبیلے کی عزت بچانے آیا ہوں اب یہیں رہوں گا۔لڑکی کے چہرے پر ایسا تاثر آ گیا تھا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ اس کے خوابوں کا شہزادہ اس کے سامنے کھڑا ہے ،دوسری لڑکیاں ذرا پرے کھڑی دیکھ رہی تھیں، لڑکی نے انہیں ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ چلی جائیں، وہ سب قہقہے لگاتی چلی گئیں، اور کچھ دیر بعد یوکلس اور لڑکی چشمے کے کنارے ایک پھول دار جھاڑی کے پاس اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ دونوں نے ایک دوسرے کو ایک ایک بازو کے گھیرے میں لے رکھا تھا۔اس روز کے بعد لڑکی یو کلس سے کئی بار ملی، وہ ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی تھی۔ رات کو بھی وہ یوکلس کے پاس آئی اور دونوں قلعے کے دیوار پر بیٹھے یا ٹہلتے رہے۔ وہ تو جیسے ایک دوسرے میں تحلیل ہو گئے تھے ،یوکلس نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ یہاں کیا کررہا ہے، اب تو لڑکی نے اسے آسمان سے اترا ہوا فرشتہ سمجھنا شروع کر دیا تھا۔میرا ایک وہم تم کس طرح ختم کر سکتے ہو؟ ۔۔۔لڑکی نے ایک روز یو کلس سے کہا ۔۔۔جو سلطنت یا بادشاہی تم قائم کرنے آئے ہو وہ ہوگئی تو پھر تم شہزادے بن جاؤ گے اور مجھے بھول جاؤ گے تمہارے سامنے تو میری کوئی حیثیت ہی نہیں،،،، ۔یوکلس نے اسے الفاظ میں نہیں اپنے ساتھ لگاکر عملاً یقین دلایا کہ وہ اسے کبھی نہیں بھولے گا ،اور کتنا ہی اونچا کیوں نہ چلا جائے اس کے بغیر نہیں رہ سکے گا، یوکلس نے اپنے ایک ہی بازو میں لڑکی کو اتنی شدت سے بھیجا جیسے اس کی پسلیاں توڑ ڈالے گا۔

انتھونیس نے جنگ کی ابتدا کی جو رات مقرر کی تھی اس رات قبائلیوں نے بغیر کسی دشواری کے ان مجاہدین پر قابو پا لیا جو قلعے میں موجود تھے، وہ جہاں جہاں رہتے تھے وہاں گہری نیند سوئے ہوئے تھے، اس کام کے لئے جو قبائلی منتخب کیے گئے تھے وہ انتھونیس اور روتاس کی ہدایت اور ریہرسل کے مطابق پہنچے اور ان مجاہدین کو مقابلے کی مہلت ہی نہ دی ان سب کو ایک بڑے مضبوط دروازوں والے مکان میں بند کردیا گیا۔شہر کے صدر دروازے پر دو مجاہدین ڈیوٹی پر رہتے تھے انھیں کسی طرح پتہ چل گیا کہ شہر میں بغاوت ہو گئی ہے اور ان کے ساتھی پکڑے گئے ہیں یہ دونوں وہاں سے نکلنے لگے تو ان پر چند ایک قبائلیوں نے حملہ کردیا دونوں نے جم کر مقابلہ کیا ،زخمی ہوئے لیکن وہاں سے نکل آئے وہاں سے تین میل دور ایک بستی تھی وہاں پہنچے اور دوگھوڑے لے کر ان پر سوار ہوئے اور گھوڑے دوڑا دیے، تقریبا بیس میل دور قنسرین کا شہر تھا خالد بن ولید اس وقت تک قنسرین میں تھے یہ ایک مضبوط قلعہ تھا اور خاصا وسیع وعریض شہرتھا۔یہ رومیوں سے خالد بن ولید نے چھینا تھا۔اور انہیں بھاگایا تھا۔دونوں مجاہد زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پہنچے ،اور خالد بن ولید کو اطلاع دی کہ بغاوت ہو گئی ہے، خالد بن ولید نے ایک قاصد سپہ سالار ابوعبیدہ کو پیغام دینے کے لئے بھیج دیا اور اپنا لشکر فوراً تیار کرکے حلب کی طرف روانہ ہوگئے۔ خالد بن ولید کی پیش قدمی تیز و تند طوفان کی طرح ہوا کرتی تھی ان کی رسد اونٹوں پر اور بیل گاڑیوں پر پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔ جس کی طرف خالد بن ولید کی ذرا سی بھی توجہ نہیں تھی وہ تو بھوکے پیاسے بھی اپنے ہدف پر پہنچنا چاہتے تھے۔یہ گھوڑسوار لشکر جب حلب پہنچا تو خالد بن ولید جیسے تاریخ ساز سالار نے بھی محسوس کرلیا کہ اس قلعے کو آسانی سے سر نہیں کیا جاسکے گا۔ مشہور تاریخ دان واقدی لکھتا ہے کہ دور دور کے قبائل کے لڑنے والے لوگ بھی حلب میں اکٹھا ہو گئے تھے، اور بروقت مسلمانوں کو پتہ نہ چل سکا نہ انہوں نے انہیں غور سے دیکھنے کی ضرورت محسوس کی تھی، مسلمان انہیں پناہ گزین سمجھتے رہے اور یہ خیال رکھا کہ انہیں رہائش اور روٹی ملتی رہے اور کوئی محرومی اور محتاجی محسوس نہ کرے ،اب یہی لوگ چاروں طرف دیواروں پر اس طرح کھڑے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں کمانیں اور بعض کے پاس پھینکنےوالی برچھیاں تھیں، ان کی تعداد اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گزر سکتی تھی ۔خالد بن ولید کے لشکر کی تعداد چار ہزار تھی خالد بن ولید نے دیواروں پر کھڑے قبائلیوں پر تیر پھینکے لیکن دیواروں سے جو تیر آئے ان کے سامنے اپنے تیر انداز ٹھہرنا سکے۔خالد بن ولید نے سپہ سالار کی طرف ایک قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑایا کہ مزید لشکر کی ضرورت ہے کیونکہ قلعہ بھی مضبوط ہے اور دفاع اور زیادہ مستحکم اور مہلک ہے۔ ابو عبیدہ نے سالار عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو پانچ ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ حلب پہنچنے کا حکم دیا یہ لشکر بڑی تیزی سے روانہ ہو گیا۔خالد بن ولید قلعے توڑنے اور سر کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے، اس مقصد کے لئے انہوں نے جاں باز گروہ بنا رکھے تھے۔ تاریخ اسلام کا یہ عظیم سپہ سالار محاصرے کو طول دینے کا قائل نہیں تھا۔ واقدی نے لکھا ہے کہ محاصرہ بہت طویل ہو گیا تھا، دو یورپی مورخ لکھتے ہیں کہ خالد بن ولید اس قدر غیظ و غضب میں  تھے کے انہوں نے محاصرہ طویل نہ ہونے دیا بلکہ ایسی چال چلی جن سے عیسائی قبائلی ان کے پھندے میں آگئے۔آنتونیس نے یہ حرکت کی کے محاصرے کے تیسرے چوتھے ہی روز ان تمام مجاہدین کو قلعے کی دیوار پر پہلو بہ پہلو کھڑا کر دیا جنہیں ایک رات سوتے میں پکڑ کر قید کردیا گیا تھا ۔سب کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اس نے دیوار پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ محاصرہ فوراً اٹھا لو ہم زیادہ انتظار نہیں کریں گے، ان میں پہلے دس آدمیوں کے سر کاٹ کر تمہاری طرف پھینک دیں گے ،محاصرہ پھر بھی نہ اٹھایا گیا تو مزید دس آدمیوں کے سرکاٹ کر باہر پھینکے جائیں گے۔محاصرہ نہیں اٹھانا۔۔۔ ایک قیدی مجاہد نے بڑی ہی بلند اور پرجوش آواز میں کہا۔۔۔ ہمارے سرکٹ جانے دو ہم گھروں سے اللہ کی راہ میں سر کٹوانے ہی نکلے ہیں، محاصرہ نہ اٹھانا ۔ اللہ تمہاری مدد کرے گا قلعہ توڑ لو گے۔تمام قیدی مجاہدین نے جن کی تعداد کم و بیش ایک سو تھی، نعرے لگانے شروع کر دیے وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ محاصرہ نہ اٹھانا ہمارے سر کٹ جانے دو ، قیدی مجاہدین کے جذبے ایثار اور جوش و خروش نے باہر والے مجاہدین کو آگ بگولہ کردیا یہ تو سالاروں کا کمال تھا کہ انہوں نے مجاہدین کو اپنے قابو میں رکھا ورنہ وہ تو اس قدر جوش میں آ گئے تھے کہ سب کے سب قلعے پر ہلہ بول دینے کو تیار ہو گئے تھے ،وہ کہتے تھے کہ تیر انداز اوپر دیوار پر تیر پھینکتے رہیں اور وہ دروازے توڑ لیں گے یا دیوار میں کہیں شگاف ڈالیں گے۔ خالد بن ولید اور عیاض بن غنم ہوشمند سالار تھے وہ جذبات کے جوش سے نہیں جنگی فہم و فراست سے کارروائیاں کیا کرتے تھے۔ایک دو دنوں کی کوششوں کے بعد خالد بن ولید نے شہر کے اندر افراتفری پھیلانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ فلیتے والے تیر شہر کے اندر پھینکنے شروع کر دیئے ، یہ آگ لگانے والے تیر تھے انہی دیواروں کے اوپر سے اندر تک پہنچانا آسان نہیں تھا لیکن شہر کے ایک طرف کچھ بلند جگہ مل گئی جس پر تیر انداز کھڑے ہو کر تیر اندر پھینک سکتے تھے ۔بعض تیرانداز درختوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے آگ والے تیر اندر پھینکنے لگے یہ تیر کچھ زیادہ اثرانداز نہیں ہوئے جس کی وجہ یہ تھی کہ آبادی دیواروں سے اتنی دور تھی جہاں تک تیر نہیں پہنچ سکتے تھے، ایک میدان میں خیمے لگے ہوئے تھے۔

دونوں سالاروں ۔۔۔۔خالد بن ولید اور عیاض بن غنم کو قلعے کے اندر کے حالات کا تو کچھ بھی پتہ نہیں تھا اندر اگر کوئی مسلمان جاسوس تھا بھی تو وہ باہر نہیں آ سکتا تھا اور باہر سے کسی کو قبائلی عیسائیوں کے بہروپ میں اندر نہیں بھیجا جا سکتا تھا، دیواروں پر جو قبائلی تیر اور کمان اور پھینکنےوالی برچھیاں لیے کھڑے رہتے تھے وہ روز اول کی طرح جوش وخروش میں معلوم ہوتے تھے۔ خالد بن ولید نے اپنے نائب سالاروں سے اور ایک دو مرتبہ مجاہدین کے پورے لشکر سے کہا تھا کہ حلب کو اپنا ہی شہر سمجھو، ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے خالد بن ولید نے پراعتماد انداز میں کہا تھا کہ شہر میں کوئی تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوج نہیں یہ لوگ فرداً فرداً لڑنا جانتے ہیں یا ہجوم کی صورت میں ہلہ بول سکتے ہیں، لیکن محاصرے میں ٹھہرنا اور محاصرہ توڑنا ان کے بس کی بات نہیں بلکہ ان لوگوں کو اپنے بس میں سمجھو اور تھوڑے ہی عرصے بعد یہ ہتھیار ڈال کر ہماری اطاعت قبول کر لیں گے ،یا کوئی ایسی حماقت کر بیٹھیں گے جو ان کی شکست کا باعث بنے گی۔ خالد بن ولید کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محصورین کی قیادت رومی فوج کے ایک بھگوڑے جرنیل کے ہاتھ میں ہے اور اس کا نائب اور معاون رومی فوج کا ہی ایک افسر ہے جو سپہ سالار ابوعبیدہ کی قید میں رہ کر گیا ہے ۔مسلمان سالاروں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ہرقل کی ایک بیوی بھی ہے جو ایران کے شاہی خاندان کی عورت تھی اور ہرقل کے شاہی خاندان میں دھوکے سے داخل ہوئی تھی، مسلمانوں کے یہاں تو جہاد کا جذبہ اور دین و ایمان تھا اور ان کا اپنا کلچر تھا جس سے وہ  ذرا سا بھی نہیں ہٹتے تھے۔ اس کے مقابلے میں قلعے کے اندر جو رومی قیادت تھی اس کا اپنا کلچر اور اپنا کردار تھا، جسے وہ لوگ اپنی ضرورت اور اپنے مفادات کے مطابق دستبردار ہو جایا کرتے تھے۔قلعے کے اندر کے حالات کچھ اس طرح تھے کہ انتھونیس اور روتاس تو جیسے راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے ان کے لئے یہ ایک قلعے یا ایک بڑے شہر کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ان کی زندگی اور موت کی لڑائی تھی۔ انتھونیس کا یہ عزم بھی تھا کہ وہ ایک عیسائی سلطنت کی بنیاد رکھے گا اور الجزیرہ کے قبائلی عیسائیوں کو ایک جنگی طاقت کی صورت میں منظم کرے گا ،اس عزم کی تکمیل کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ حلب کو ہاتھ سے نہ جانے دے ۔

روتاس اس کا دست راست بن گیا تھا۔ہرقل کا بیٹا یو کلس بھی ان کے ساتھ تھا لیکن وہ نوجوان تھا اور ایک بازو سے معذور بھی وہ ایک ہاتھ سے لڑنا جانتا تھا قیادت کے قابل نہیں تھا پھر بھی وہ اہنے آپ کو جرنیل ہی سمجھتا تھا۔اپنی اس حیثیت کو وہ اپنا حق سمجھتا تھا۔ کیونکہ وہ شاہ ہرقل کا بیٹا تھا ،وہ بھی دن رات بھاگتا دوڑتا رہتا تھا اور جب سے حلب محاصرے میں آیا تھا اس رومی نوجوان نے یہ معمول بنا لیا تھا کہ دیوار پر جاتا یا نیچے شہر میں گھوم پھر رہا ہوتا۔ تو چند ایک آدمیوں کو اکٹھا کرکے انہیں بتاتا تھا کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں، اس لئے آخر فتح ان کی ہوگی ،اس طرح وہ جوشیلی اور جذباتی باتیں کر کے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا تھا ،وہ کئی کئی راتیں اپنی ماں کے پاس نہیں جاتا تھا۔ عام طور پر قلعے کے صدر دروازے کے اوپر جو کمرے بنے ہوئے تھے ان میں سے کسی کمرے میں سو جاتا تھا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

انتھونیس، اور یوکلس ایک مکان میں رہتے اور روتاس الگ مکان میں رہتا تھا، یہ نہایت اچھے صاف ستھرے اور اونچے درجے کے مکان تھے، روتاس دو چار دنوں کے وقفے سے لیزا کے گھر آیا کرتا تھا اور اس کا یہاں آنا محض رسمی ہوتا تھا، جب سے حلب محاصرے میں آیا تھا روتاس نے لیزا کے ہاں جانا بہت ہی کم کر دیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ محاصرے کے سلسلے میں اسے دن رات بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔یہ انتھونیس کا گھر تھا لیکن وہ بھی اب اس گھر میں اس طرح آتا تھا جیسے روتاس کی طرح رسمی طور پر آگیا ہو، انتھونیس اور روتاس کا تو یہ عالم تھا کہ الگ الگ بھاگتے دوڑتے رہتے تھے، اب بھی دیوار پر ہے تو یوں لگتا تھا جیسے کود کر نیچے آگئے ہوں، دیکھنے والوں کو شک ہوتا تھا کہ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود رہتے ہیں، انتھونیس کبھی بہت دیر سے گھر جاتا اور پلنگ پر گرتا اور اس کی آنکھ لگ جاتی تھی کچھ ہی دیر بعد وہ ہڑبڑا کر جاگ اٹھتا اور باہر کو بھاگ جاتا ، وہ گھر ہوتا تو بھی لگتا تھا گھر سے غیر حاضر ہے۔یہ دونوں آخر کمانڈر تھے انھیں احساس تھا کہ جن کی وہ قیادت کر رہے ہیں وہ لڑنا تو جانتے ہیں لیکن منظم ہو کر لڑنے کا انہیں کوئی تجربہ نہیں وہ ان لوگوں کو ہدایت دیتے رہتے اور خود دیوار پر گھوم پھر کر دیکھتے رہتے کہ مسلمان دروازوں کے قریب نہ آ جائیں اس کے ساتھ ہی وہ جوان آدمی کو قلعے سے نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بھی تیار کر رہے تھے، مختصر یہ کہ دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ محاصرے کے دوران لوگوں کو ٹریننگ بھی دے رہے تھے۔

ایک رات انتھونیس گھر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا وہ بہت تھکا ہوا تھا لیزہ اسے دیکھتی رہی کہ وہ کوئی بات کرے گا ۔ذرا سا سستا کر انتھونیس  نے محاصرے کی بات شروع کردی، لیزا کے چہرے پر نمایاں طور پر اکتاہٹ کا تاثر آگیا اور صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ انتھونیس کی باتوں میں ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لے رہی، کیا تم میرے ساتھ کوئی اور بات نہیں کرنا چاہتے لیزا نے ایسے لہجے میں کہا جسے انتھونیس بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا۔لیزا! ۔۔۔۔انتھونیس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا تم یہ بات کہہ رہی ہوں میں تو یہ توقع رکھتا ہوں کہ میں گھر آؤ تو تم پہلی بات مجھ سے یہ پوچھو کہ محاصرہ کب ٹوٹے گا؟ اور اسے توڑنے کی کوئی صورت پیدا کی جا رہی ہے یا نہیں؟ تم تو یوں بات کر رہی ہو جیسے حالات معمول کے مطابق ہیں مجھے تو کوئی اور بات سوچتی ہی نہیں۔لیزا کچھ زیادہ ہی اکتاہٹ کا اظہار کر رہی تھی، انتھونیس نے اسے غور سے دیکھا تو لیزا کی آنکھوں میں اسے کوئی اور ہی خمار چڑھا ہوا نظر آیا وہ اس خمار سے اور لیزا کے چہرے پر آئے ہوئے تاثرات سے بڑی اچھی طرح واقف تھا۔ ان دونوں کے تعلقات میاں بیوی والے تھے یہ کوئی عشق و محبت والا معاملہ نہیں تھا کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر مرتے ہوں۔لیزا !۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ ہوش میں آؤ اور حقیقت کو دیکھو یہ وقت  رومان لڑانے کا نہیں حالات کو دیکھو اور سوچو کہ ہم یہ جنگ ہار گئے تو ہمارے لئے کوئی پناہ نہیں ہوگی ہم یہاں سے بھاگ کر جائیں گے کہاں ، بنو تغلب جیسے طاقتور قبیلے نے چند اور قبیلوں کے ساتھ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ہے تمہیں تو میری طرح گھر سے باہر ہونا چاہیے۔کیا تم خود نہیں سوچ سکتی کہ ان قبائلیوں کی عورتوں کو تم لڑنے کے لئے تیار کر سکتی ہو۔انتھونیس ،لیزا کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا جس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی کہ لیزا نے اس کے ساتھ جو دوستی لگائی تھی وہ صرف جسم کے ساتھ تعلق رکھتی تھی، اور لیزا نے اسے جسمانی تشنگی کی تسکین کیلئے اسے اپنا دوست بنایا تھا۔

لیزا ہر قل کے حرم کی ایک عورت تھی ۔ صرف اسے  یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ ہرقل کی بیوی تھی، اور دوسرا اعزاز یہ کہ وہ ایران شاہی خاندان میں سے تھی ۔وہ جانتی تھی کہ شاہی محلات میں خوبصورت عورت کا استعمال کیا ہوتا ہے ، اس نے ایران کے محلات میں بھی دیکھ لیا تھا اور روم کے بادشاہ کے ہاں بھی۔پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لیزا نوجوان اور غیر معمولی طور پر حسین و جمیل لڑکی تھی، اسے خون کے رشتوں نے ایک طلسماتی دھوکہ بنا کر ہرقل کے یہاں بھیجا تھا کہ اس پر اپنے حسن کا طلسم طاری کرکے اسے زہر دے کر وہاں سے بھاگ نکلنے کی کوشش کریں۔ ہرقل کے پاس پہنچی تو اس کی بیوی بن گئی وہ بڑی ہی زہریلی ناگن بن کر ہرقل کے پاس آئی تھی لیکن ہرقل کو دیکھ کر اور اس کے جذبات سے متاثر ہوکر وہ ناگن سے وہ انسان بن گئی تھی جس میں جذبات ہوتے ہیں اور دل و جگر بیدار ہو کر اپنا آپ اپنی پسند کے انسان کے حوالے کر دیتے ہیں ۔لیکن ہرقل نے تھوڑے ہی عرصے میں اس کے یہ جذبات کچل ڈالے اور اسے اپنے حرم میں پھینک دیا جو عورتوں کا گودام تھا۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لیزا کی ذات میں صرف حیوانی جذبات رہ گئے وہ جوان تھی اور اسے ایک جوان ساتھی کی ضرورت تھی۔اس جذباتی کیفیت میں وہ ایسا آتش فشاں پہاڑ بن گئی تھی جس کا منہ بند تھا اور لاوا باہر نکلنے کو تڑپ رہا تھا ۔

انتھونیس کی جگہ اسے کوئی اور اپنے قریب آتا نظر آجاتا تو وہ اسی کے ہو کے رہ جاتی، اتفاق ایسا ہوا کہ انتھونیس اس کے قریب آ گیا اور لیزا نے لپک کر اسے اپنے ساتھ چپکا لیا اور جب دیکھا کہ اس شخص کے ساتھ ملاقاتیں آسانی ہوجاتی ہیں تو فرض کر لیا کہ یہی اس کا خاوند ہے، اب تو اس کے بیٹے یو کلیس نے بھی قبول کر لیا تھا کہ اس کا باپ ہرقل نہیں انتھونیس ہے۔بادشاہوں کی بیویاں اور ان کے حرموں کی عورتوں میں قومی جذبہ نام کو بھی نہیں ہوا کرتا تھا، نہ انہیں کسی ملک اور وطن سے محبت ہوتی تھی، وہ تو اس صورتحال کو بھی قبول کیے رکھتی تھی کہ کوئی اور بادشاہ اس ملک پر حملہ کرے گا اور انھیں بھی اپنے قبضے میں لے کر اپنی تفریح کا ذریعہ بنا لے گا، یا کوئی جرنیل یا کوئی شہزادہ انہیں اپنے ساتھ لے جائے گا انہیں فتح و شکست کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔لیزا بھی ایسی ہی عورتوں میں سے ایک تھی، اس وقت اسے حلب کی نہیں انتھونیس کی شدید ضرورت تھی اس نے یہ بھی محسوس نہ کیا کہ انتھونیس بھی ہرقل کی طرح اس سے اکتا سکتا ہے اس نے انتھونیس سے اپنے جذبات کی حرارت پیدا کرنے کی کوشش کی مگر انتھونیس  جذباتی سطح سے بہت اوپر چلا گیا تھا، اس نے لیزا کو دھتکارا تو نہیں لیکن یہ بھی قبول نہ کیا کہ اس کے پاس بیٹھے، تم اپنی بادشاہی قائم کرنے کی فکر میں ہوں۔۔۔ لیزا نے یاس انگیز لہجے میں کہا۔۔۔ یہ بادشاہی نہ جانے کب قائم ہوگی لیکن تم ابھی سے شاہ ہرقل بن گئے ہو۔ تم میرے ساتھ اب پہلے کی طرح بیٹھ کر بات ہی نہیں کرتے۔انتھونیس بہت ہی تھکا ہوا تھا ،تھکاوٹ کے علاوہ اس پر محاصرہ اور حلب کی فتح و شکست سوار تھی اور یہی ایک سوچ اس کے ذہن پر غالب رہتی تھی کہ محاصرے کو کس طرح توڑے اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دے ۔ اس نے لیزا کی طرف کوئی توجہ نہ دی جس کی وہ طلبگار تھی، وہ کبھی جذباتی اور کبھی شاقی لہجے میں کچھ نہ کچھ بولتی رہی، اور انتھونیس گہری نیند سو گیا ۔لیزا نے اسے سوتے ہوئے دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے وہ مر گیا ہو وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑے دیکھتی رہی اور اسے یوں دھچکا لگا جیسے ایک چشمہ تھا جو خشک ہو گیا ہو۔اس کا اپنا بیٹا یوکلس جسے دیکھ دیکھ کر وہ جیتی تھی اور جس پر وہ اپنی جان نچھاور کیے رکھتی تھی ،اس کی طرف پہلی سی توجہ نہیں دیتا تھا ۔وہ تو دو دو اور کبھی تین تین دن اور رات میں گھر سے غائب رہتا تھا۔ کبھی ذرا سی دیر کے لئے کے پاس آجاتا اور اسے حوصلہ اور تسلی دے کر بھاگم  بھاگ چلا جاتا ۔انتھونیس تو کہتا تھا کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرے گا، لیکن یوکلیس کو اس سلطنت کے ساتھ یہ دلچسپی زیادہ تھی کہ وہ ھرقل اور قسطنطین کو قتل کرے گا، لیزا نے کبھی نہ سوچا کہ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ چپکا لیں تا کہ وہ لڑائی میں مارے جانے سے محفوظ رہے، وہ انتھونیس ہی کی ضرورت محسوس کرتی تھی لیکن انتھونیس اس کے ہاتھ سے نکل ہی گیا تھا۔

اگلی سب لیزا کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں قلعےے کی دیواروں کے اوپر سے اندر آ گئی تھی، لیزا اٹھی اور تمام کمروں میں گھوم پھر آئی وہاں انتھونیس بھی نہیں تھا ،یوکلس بھی نہیں تھا، یہ تو اس کا روزمرہ کا معمول تھا، لیکن اس دن اس نے اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی تنہا محسوس کیا۔ اس کی ملازمہ نے اس کے آگے ناشتہ رکھا لیزا ناشتے پر اور ملازمہ فرش پر بیٹھ گئی۔خدا آپ کو اور زیادہ عزت اور وقار دے مالکن۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔۔۔ کچھ ہم غریبوں کو بھی بتا دیں کیا یہ محاصرہ اٹھ جائے گا؟ ۔۔۔آپ کو تو معلوم ہی ہوگا شہر میں آناج کم بڑھتا جا رہا ہے پانی کی تو کمی نہیں لیکن صرف پانی پر تو زندہ نہیں رہا جاسکتا۔گھبراؤ نہیں لیزا نے کہا ۔۔۔محاصرہ اٹھ جائے گا ،نہ اٹھا تو باہر نکل کر مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کریں گے۔آپ کو گرجے میں کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔۔۔ گرجے میں ہر روز اپنی فتح کی اور مسلمانوں کی شکست کی دعائیں ہوتی ہیں۔ پادری کہتے ہیں کہ گناہوں سے توبہ کرو یہ بہت بڑی آفت ہے جو ہم پر گناہوں کی وجہ سے نازل ہوئی ہے ہم غریبوں نے کیا گناہ کیے ہے؟ لیزا نے ملازمہ کی بات پوری نہ ہونے دی اور ہنس پڑی ،ملازمہ چپ ہو گئی اور لیزا کے منہ کی طرف دیکھتی رہی ،ملازمہ نے بتایا کہ شہر کے کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے لیکن بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی ختم کر دی جائے اور ان کے لیے دروازے کھول دیے جائیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمان بڑے اچھے لوگ ہیں جس شہر کو فتح کرتے ہیں اس شہر کے لوگوں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرتے ہیں۔لیزا کی ہنسی ایک مسکراہٹ میں سمٹ آئی تھی ،اس نے ملازمہ کی اس بات کو ذرا سی بھی اہمیت نہ دی اور اس طرح ہستی رہی جیسے وہ کوئی بڑی ہی دلچسپ بات سنا رہی ہو ،اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور اٹھ کر باہر نکل گئی۔محاصرے کا شوروغل شہر کے اندر بھی سنائی دے رہا تھا محاصرے کی ایک اور رات گزر گئی تھی ،شہر کے جو لوگ شہر کے دفاع کے لئے دیوار پر کھڑے تھے وہ نعرے لگا رہے تھے اور مسلمانوں کو للکار بھی رہے تھے ان کا حوصلہ اور جوش و خروش بظاہر تروتازہ معلوم ہوتا تھا۔ لیزا آہستہ آہستہ چلتی گئے وہ کسی خاص جگہ پہنچنے کے ارادے سے نہیں نکلی تھی شہر کی عورتیں اسے جانتی تھیں، وہ اس کے جرنیل کی بیوی تھی ایک جگہ عورتوں نے  اسے گھیر لیا ،وہ کچھ گھبرائی ہوئی تھی ،اس سے پوچھنے لگیں کہ محاصرہ کب تک رہے گا؟ ۔۔۔اور کیا یہ شہر لمبے عرصے کیلئے محاصرے میں ہی رہے گا؟ لیزا اپنے آپ میں آ گئی جیسے بیدار ہو گئی ہو اس نے عورتوں کو بہت تسلیاں دیں اور ان کا حوصلہ اس طرح مضبوط کیا کہ انھیں کہا کہ وہ بھی لڑنے کے لئے تیار ہو جائیں اس نے یہ بھی کہا کہ محاصرے کو طویل نہیں ہونے دیا جائے گا اور جلد ہی باہر نکال کر مسلمانوں پر بڑا ہی زور دار حملہ کیا جائے گا۔اس نے جرنیل کی بیوی کی حیثیت سے ایسی جوشیلی باتیں کی کہ عورتوں کی گھبراہٹ ختم ہو گئی اور کئی عورتوں نے کہا کہ وہ مردوں کی طرح لڑیں گی اور مسلمانوں کا محاصرہ کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ لیزا کے اپنے ذہن میں بھی کچھ تبدیلی آگئی اور وہ آگے کو چل پڑی۔کچھ دیر بعد وہ دیوار پر پہنچ گئے دیوار اتنی چوڑی تھی کہ اس پر چار پانچ آدمی پہلو بہ پہلو آسانی سے چل پھر سکتے تھے لیکن اس وقت دیوار پر چلنے کے لئے راستہ ہی نہیں ملتا تھا کیونکہ شہر کے تقریبا تمام لوگ دیوار پر کھڑے تھے اور ادھر ادھر آجا بھی رہے تھے۔ لیزا اس ہجوم میں سے راستہ بناتی چلی جا رہی تھی اسے جاننے والے آدمی رک کر سلام کرتے تھے اس کی گردن اس خیال سے تن گئی اور سر اونچا ہو گیا کہ وہ اس شہر کے سب سے بڑے جرنیل کی بیوی ہے۔ وہاں تو انتھونیس اکیلا ہی جرنیل تھا اور ایک غیر منظم لشکر کا کمانڈر بنا ہوا تھا۔لیزا نے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا روک کر پیچھے دیکھا وہ روتاس تھا ،لیزا کا چہرہ چمک اٹھا اس نے روتاس سے پوچھا کہ صورتحال کیا ہے؟ ۔۔۔اور کیا محاصرہ جلدی توڑا جاسکے گا یا شہر کو خطرہ ہے؟ محاصرے کو تو ہم نے روکا ہوا ہے روتاس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن یہ کہنا کہ کوئی خطرہ نہیں اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے والی بات ہے۔ مسلمانوں کا سپہ سالار خالد بن ولید ہے آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ میں شاہ ہرقل کے جاسوسی کے محکمے کا عہدہ دار ہوں میں بھیس بدل کر مسلمانوں کے خیمہ گاہوں میں گیا ہوں اور خالد بن ولید کو قریب سے دیکھا ہے ،شام سے ہماری فوج کے پاؤں اسی سالار نے اکھاڑے تھے اور اکھاڑے بھی ایسے کہ کہیں جم نہ سکے۔یہ نام میں نے بھی سنا ہے لیزا نے کہا ۔۔۔ہرقل کو یہ کہتے سنا تھا کہ خالد بن ولید کے قتل کا انتظام ہوجائے تو میں مسلمانوں کو صرف شام ہی سے نہ نکالوں بلکہ عرب سے بھی بھگا کر  سمندر میں ڈبودوں ۔قاتلوں کو اس تک پہنچانا ممکن نظر نہیں آتا۔آپ کو پوری طرح معلوم نہیں۔۔۔ روتاس نے کہا ۔۔۔دو مرتبہ خالد بن ولید کو قتل کرنے کے لئے چار چار آدمی بھیجے گئے تھے وہ مسلمانوں کے لباس میں گئے تھے اور عربی عربوں کی طرف بول سکتے تھے، اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ مسلمانوں کے لشکر میں سے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کوئی اور ہیں، لیکن وہ سب وہاں جاکر خود قتل ہوگئے دونوں جماعتوں کی کہانی الگ الگ ہے لیکن اس وقت ہمارے سامنے مسئلہ اس محاصرے کا ہے اور اس کا سالار خالد بن ولید ہے جو قلعے توڑنے اور سر کرنے کی خصوصی مہارت رکھتا ہے۔ روتاس بولتے بولتے چپ ہو گیا اور باہر کی طرف دیکھ کر بولا وہ دیکھیں آئیں میں آپ کو خالدبن والید کھاتا ہوں۔روتاس لیزا کو دیوار کی برجی کے قریب لے گیا دور دو گھوڑسوار آگے آگے اور آٹھ دس گھوڑسوار ان کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔

اگلے دو سواروں میں جو دائیں طرف ہے وہ خالد بن ولید ہے روتاس نے کہا۔۔۔ بائیں طرف عیاض ہے میں اس کا پورا نام نہیں جانتا یہ بھی سالار ہے آپ اتنی دور سے خالد بن ولید کا چہرہ اچھی طرح نہیں دیکھ سکتیں قریب سے دیکھیں تو دشمن ہونے کے باوجود آپ بے ساختہ کہہ اٹھے گی کہ اس چہرے پر خدا نے اپنا تاثر سجا دیا ہے جو دیکھنے والوں کو متاثر کرتا ہے، اس سالار کے چہرے پر اس کی روح کی چمک دمک بھی نظر آتی ہے، یہ ان جرنیلوں اور سالاروں میں سے ہے جو صرف فتح کرنا جانتے ہیں اور شکست سے واقف ہی نہیں ہوتے۔تو کیا خالد بن ولید حلب کو فتح کرلے گا ؟۔۔۔لیزا نے پوچھا۔میں آپ کا حوصلہ نہیں توڑنا چاہتا ۔۔۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہم جان لڑا دیں گے لیکن حلب کو بچانے کے لئے ہمیں اس شہر کی آدھی آبادی قربان کرنی پڑے گی موقع ملتے ہی ہم باہر نکل کر حملہ کریں گے۔روتاس بولتا رہا وہ لیزا کو بتا رہا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیزا کو صورت حال سے تفصیلی آگاہ کر رہا تھا، اور لیزا نے باہر سے نظر ہٹا کر اس کے چہرے پر روک لی اور اسے نظر بھر کر دیکھا پھر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر ایسا تبسم آ گیا جس میں کچھ تشنگی سی تھی، لیزا نے بغیر کسی سوچ اور بغیر ارادے کے روتاس کا بازو پکڑا اور اسے اس چھوٹی سی برجی سے ہٹا لائی، روتاس اس کے ساتھ پالتو جانور کی طرح چل پڑا۔

انتھونیس اور یوکلس کی طرح روتاس پر بھی ہیجانی کیفیت طاری رہتی تھی وہ بھی شہر کے لوگوں کے کمانڈروں میں سے تھا اس کی عمر تیس چالیس سال کے درمیان تھی اور وہ خوبرو آدمی تھا لیزا سے تین چار سال ہی چھوٹا تھا وہ شاہی خاندان کا فرد تھا، اور ذمہ دار عہدے پر بھی فائز تھا۔ اس نوجوانی کی مناسبت سے روتاس لیزا کا احترام کرتا تھا، اور احترام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لیزا ہرقل کی بیوی تھی۔وہ دیکھئے روتاس نے روک کر باہر محاصرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ایک سوار دستہ جا رہا ہے ہو سکتا ہے اس کی جگہ تازہ دم دستہ آجائے، لیکن مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے مسلمان محاصرہ آہستہ آہستہ اٹھا رہے ہیں۔کم و بیش ایک ہزار گھوڑسوار خالد بن ولید کے حکم سے محاصرے سے نکل گئے اور ایک طرف کو جا رہے تھے، روتاس اور لیزا دیکھتے رہے اور سواروں کا وہ دستہ دور ہی دور ہٹتا گیا اور پہاڑی کے اندر چلا گیا۔لیزا نے روتاس کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر مسرت کے آثار نظر آئے اور وہ کچھ زیادہ ہی خوبرو نظر آنے لگا ،روتاس کے ساتھ لیزا کی کوئی بے تکلفی نہیں تھی۔روتاس محاصرے کے دوران بہت دنوں کے وقفے سے انتھونیس کے گھر جایا کرتا تھا، لیکن اس وقت جب انتھونیس گھر پر ہوتا تھا۔ وہ لیزا سے نہیں انتھونی سے ملنے جاتا تھا۔

میں اس تنہائی سے اکتا ہو گئی ہو روتاس! ۔۔۔لیزا نے دوستانہ بے تکلفی سے کہا ۔۔۔شہر کی ان عورتوں کے ساتھ تو میں گھل مل سکتی ہی نہیں تم جانتے ہو میں کس ماحول سے آئی ہوں، انتھونیس دن رات باہر رہتا ہے اور جب آتا ہے تو تھکا ماندہ پلنگ پر گرتا اور سو جاتا ہے میں تو آج تنگ آکر دیوار پر آئی تھی کتنا اچھا ہوا تم مل گئے کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے گھر چلوں۔روتاس بھلا کیسے انکار کرسکتا تھا اس نے کہا کہ وہ تو گھر ہی جا رہا تھا رات بھر وہ باہر رہا تھا ،اس نے لیزا کو ساتھ لیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ روتاس نے لیزا کو احترام سے بٹھایا اور خود الگ ہٹ کر بیٹھنے لگا لیکن لیزا نے اس کا بازو پکڑ لیا اور کھینچ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا، یہی نہیں بلکہ اس کے کمر میں ہاتھ ڈال دیا اور سخت کر دیا پھر بے تکلفی کا ایک ایسا مظاہرہ کیا جو وہ انتھونیس کے ساتھ ہی کرسکتی اور کیا کرتی تھی ۔روتاس کو ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اس کے ساتھ اتنا زیادہ بے تکلف ہو جائے گی، لیزا نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں ایک آدھ بات بھی کہہ دی روتاس بچہ تو نہ تھا اتنا واضح اشارہ سمجھ گیا اور جب اس نے لیزا کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہاں کچھ اور ہی تاثر تھا۔

میرے دل میں آپ کا احترام ہے ۔۔۔روتاس نے کہا۔۔۔ بے شک آپ شاہی خاندان سے بھاگ آئی ہیں لیکن میں خود اسی خاندان کا فرد ہوں اس لئے آپ کا احترام کرتا ہوں، اگر میں یہ ذہن سے اتار دوں کہ آپ شاہی خاندان کی آبرو ہیں تو میں یہ نہیں بھول سکتا کہ آپ میرے جرنیل اور کمانڈر انتھونیس کی دوست ہیں۔میں انتھونیس کی ملکیت نہیں ہوں روتاس! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ اس وقت تم ہی میرے دوست ہو اور تم ہی میرے ساتھی ہو، مجھ سے دور ہٹنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس وقت میں ہرقل کی بیوی بھی نہیں اور انتھونیس کی دوست بھی نہیں، اس وقت میں صرف لیزا ہوں اور مجھے احترام سے بلانے کے بجائے پیار سے لیزا کہو۔پھر یہ بھی سوچ لو لیزا! ۔۔۔روتاس نے کہا۔۔۔ پادری ہر روز فتح کی دعا کرتا ہے اور ایک ہی بات دوہراتا آتا چلا جارہا ہے کہ ہم پر بیٹھے بٹھائے بہت بڑی آفت آن پڑی ہے جس سے نجات کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کرو، اور کوئی گناہ نہ ہو۔میں سراپا گناہ ہوں! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ ایران کے شاہی خاندان سے ایک بڑا ھی حسین گناہ بن کر ہرقل کے شاہی خاندان میں آئی تھی، لیکن اس گناہ میں ناکام رہی اور جب شاہ ہرقل نے میرے ساتھ شادی کر کے تھوڑے ہی عرصے بعد حرم میں پھینک دیا تو میں نے ایک اور گناہ کیا۔لیزا نے جذبات سے مغلوب ہو کر روتاس کو تفصیل سے سنایا کہ اس نے انتھونیس کو کس طرح اپنی تسکین کا ذریعہ بنایا تھا ،اور کس طرح اس کے ساتھ یہ دوستی در پردہ نبھاتی رہی اس نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ یوکلسس ہرقلل کا نہیں انتھونیس کا بیٹا ہے۔تم غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔ لیزا نے کہا ۔۔۔تم یہ سمجھتے رہے کہ میں بھی انتھونیس کے اس عزم میں شامل ہوں کہ ہم شام میں یسوع مسیح کی سلطنت قائم کریں گے، انتھونیس بھی یہی سمجھتا ہے کہ میرا بھی یہی عزم ہے ،لیکن روتاس میں تمہیں سچ بتاتی ہوں کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے یوکلس کو ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین کے ہاتھوں سے قتل ہونے سے بچانے کے لئے انتھونیس کے ساتھ آ گئی۔

لیزا نے روتاس کو یہ بھی بتا دیا کہ ہرقل اور قسطنطین یوکلسس کو قتل کروانا چاہتے تھے لیکن انتھونیس نے بروقت دیکھ لیا اور قاتلوں کو قتل کر ڈالا ،لیزا نے یہ واقعہ بھی روتاس کو تفصیل سے سنایا اور کہا کہ انتھونیس بھی اس وجہ سے بھاگ آیا ہے کہ یوکلس اس کا اپنا بیٹا ہے، اور دوسرا یہ کہ ہرقل انتھونیس کو بھی قتل کروا دے گا۔میں یہ ساری بات سن کر حیران نہیں ہوا۔۔۔ روتاس نے کہا۔۔۔ یہ سب کچھ شاہی خاندانوں میں ہوتا ہی رہتا ہے ایک کی بیوی دوسرے کی داشتہ ہوتی ہے ،بادشاہ کے بیٹے بادشاہ کی دوسری بیویوں یا داشتاوں کے ساتھ تعلقات بنا لیتے ہیں میں تو یہاں تک کہوں گا کہ بادشاہوں کی شکست کی درپردہ وجہ یہی ہے، کیا تم نے کبھی سوچا بھی تھا کہ ایران اور روم جیسی زبردست طاقت عرب کے عام اور انتہائی معمولی لوگوں سے شکست کھا جائیگی شکست بھی ایسی کہ بادشاہ بھاگتے اور پناہ ڈھونڈتے پھریں گے، مسلمان ہمارے دشمن ہی سہی لیکن میں جاسوسی کیلئے مختلف بہروپ دھار کے مسلمانوں کی آبادیوں میں بھی رہا اور ان کے خیموں میں بھی گھوما پھرا تھا ان کے یہاں عیش و عشرت کا کوئی تصور ہی نہیں ان کے کردار پہاڑی چشمے سے پھوٹنے والے پانی کی طرح شفاف ہوتے ہیں ،سطح پر دیکھو تو چشمے جس طرح نظر آتے ہیں مسلمان بالکل ایسے ہی ہیں، یہ ہے ان کی اصل طاقت جس کے سامنے کوئی جنگی طاقت نہیں ٹھہر سکتی ،میرا مشورہ مان لو لیزا ، اب بھی تم اس گناہ سے بچ سکتی ہو، انتھونیس کو  لے کر گرجے میں جاؤ اور اس کے ساتھ باقاعدہ شادی کر لو۔تم میری بات کیوں نہیں سمجھتے روتاس! ۔۔۔لیزا نے اکتاہٹ سے کہا۔۔۔ مجھے انتھونیس کے ساتھ وہ محبت ہے ہی نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، ہرقل سے محبت ہو گئی تھی لیکن اس نے میرے ساتھ جو سلوک کیا اس سے میں سمجھ گئی کہ یہ شخص محبت کے قابل تھا ہی نہیں میں نے اس کے اس جرنیل انتھونیس کے ساتھ دوستی لگا کر اسے دھوکے دیے۔ میں انسان اور جوان عورت ہوں! ۔۔۔ تمہیں بتایا ہے کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قتل سے بچانے کے لئے اسے ساتھ لے کر انتھونیس کے ساتھ بھاگ آئی۔

اس کے باوجود لیزا! ۔۔۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہمیں انتھونیس کے اس عزم کا احترام کرنا چاہیے کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ ہمیں پورا پورا تعاون کرنا چاہیے۔تم کم عقل انسان ہوں روتاس! ۔۔۔لیزا نے طنزیہ سی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ جاسوسی کے محکمے کے ایک ذمہ دار افسر کو اتنا کم فہم نہیں ہونا چاہیے غور کرو گہرائی میں جاؤ، اور پسپائی اور شکست کا جو تجربہ ہمیں ہوا ہے اس پر غور کرو، انتھونیس ایسا خواب دیکھ رہا ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوا کرتی، ان تھوڑے سے مسلمانوں نے ایران اور روم کے بادشاہوں کو کچل ڈالا ہے انتھونیس ناتجربہ کار قبائیلوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتا ، یہ بات تم خود سمجھ سکتے ہو ، یہ تو محاصرہ ہے اور ہم قلعے میں محفوظ ہیں ،اس لئے اتنے دن گزر گئے ہیں، اگر یہ کھلے میدان کی لڑائی ہوتی تو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مسلمان لڑائی کا فیصلہ اپنے حق میں کرچکے ہوتے۔ اتنی مایوسی لیزا! ۔۔۔روتاس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔تم انتھونیس اور یوکلس کے ساتھ بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتی ہو؟ نہیں! ۔۔۔لیزا نے کہا ۔۔۔ان کے ساتھ تو میں نے اس مسئلہ پر کبھی بات کی ہی نہیں، ان دونوں کو یقین ہے کہ وہ محاصرہ توڑ کر مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں گے۔لیزا روتاس کو کچھ اور قریب کر لیا اور جذباتی سی سرگوشی میں کہا ۔۔۔کیا تم پسند نہیں کرو گے کہ اس وقت ہم اس مسئلہ پر بات نہ کریں، کیا تم ابھی تک مجھے نہیں سمجھے۔ روتاس بھی آخر جوان آدمی تھا ،اور وہ بھی شاہی خاندان کا تھا، کوئی زاہد اور پارسا تو نہ تھا ،اس پر بھی وہی خمار طاری ہونے لگا جس سے لیزا مخمور تھی ،زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ روتاس اس طرح لیزا کے جذبات کے جال میں آ گیا جیسے مکھی مکڑی کے جالے میں آجاتی ہے۔لیزا جب وہاں سے رخصت ہونے لگی تو اس کے چہرے پر تعصب کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ وہ مطمئن اور مسرور لگتی تھی۔ یہ بھی سوچا ہے لیزا! ۔۔۔روتاس نے پوچھا۔۔۔ اگر انتھونیس کو ہماری اس دوستی کا پتہ چل گیا تو کیا ہو گا؟  بہت برا ہو گا۔۔۔ لیزا نے ہلکے ہلکے سے لہجے میں جواب دیا ،انتھونیس شاید تمہیں قتل کر دے لیکن ہم اسے پتہ ہی کیوں چلنے دیں گے۔دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے ،اور لیزا وہاں سے چل دی۔

محاصرے کی بات یہاں تک پہنچی تھی کہ مجاہدین نے فلیتے والے تین شہر کے اندر پھینکنے شروع کر دیے تھے، لیکن دیواروں کے اوپر سے تیر آبادی کے اندر تک پہنچانا ممکن نہیں تھا ،ایک بلند جگہ مل گئی تھی جس پر چڑھ کر تیر انداز تیر پھینکتے تھے، اور بعض تیرانداز درختوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے فلیتے والے تیر اندر پھینکنے لگے لوگوں کے مکان دیوار سے دور تھے اس لئے یہ تیر بے اثر ثابت ہو رہے تھے۔درختوں پر چڑھ کر تیر پھینکنے والے مجاہدین میں سے ایک نے ایک روز دیوار کے اندر خیمے دیکھ لئے جو دوسری طرف ہے اس طرف دیوار کے قریب نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی بلند جگہ ،یہ دیکھ لیا گیا کہ خیمے اس طرف کی دیوار تک چلے گئے تھے، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مختلف قبیلوں کے عیسائی پناہ گزینوں کے روپ میں داخل ہوتے رہے تھے اور وہ ہتھیار چھپا کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ ان کے لئے ایک میدان میں خیمے لگانے پڑے یہ انتظام ان مسلمانوں کا تھا جو شہر کا انتظام اور دیگر سرکاری امور چلاتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے خیموں کی ایک بستی آباد ہو گئی جن میں قبائلیوں کے پورے پورے کنبے رہائش پذیر ہوگئے۔خیموں کو دیکھنے والے مجاہد نے یہ بات سالاروں تک پہنچا دی اور انھیں بتایا کہ اس طرف سے اگر تیر پھینکے جائیں تو دیوار کے اوپر سے ہوتے ہوئے یہ تیر خیموں کے اوپر گریں گے۔خالد بن ولید اور عیاض بن غنم خود اس درخت تک گئے جس پر چڑھ کر اس مجاہد نے خیمے دیکھے تھے ،دونوں سالاروں نے کچھ اور اوپر چڑھ کر خیمے دیکھے، وہاں سے خیموں کے صرف اوپر کے حصے نظر آتے تھے کیونکہ درمیان میں شہر کے مکان حائل تھے۔خدا کی قسم ابن غنم! ۔۔۔خالد بن ولید نے پرمسرت لہجے میں عیاض بن غنم سے کہا ۔۔۔ہم شہر میں دہشت پھیلا سکتے ہیں اگر ہم شہر میں خوف و ہراس پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھو ہم نے آدھی فتح حاصل کر لی۔

سپہ سالار عیاض بن غنم نے کہا ۔۔۔اللہ کے فضل و کرم سے آخر فتح ہماری ہوگی۔ شہر میں کوئی فوج نہیں شہریوں کا ہجوم ہے میرے دفاع میں ہی ایک ترکیب آتی ہے کہ ان لوگوں کو یہ دھوکا دیا جائے کہ ہم محاصرہ اٹھا رہے ہیں، لیکن محاصرہ فوراً نہ اٹھایا جائے سواروں کے ایک دو دستے یہاں سے ہٹا دیئے جائیں پھر اپنی سرگرمیاں بھی روک دی جائیں تاکہ شہر کے لوگ یہ سمجھ لے کہ ہم محاصرے کی کامیابی سے مایوس ہو گئے ہیں۔سالار عیاض بن غنم نے یہ بات درخت سے اتر کر کہی تھی، خالد بن ولید گھوڑے پر سوار ہوتے ہوتے رک گئے اور پاؤں رکاب سے نکال کر اس کی طرف دیکھنے لگے ان کے چہرے پر ایسا تاثر آگیا تھا جیسے انھیں یہ مشورہ اچھا لگا ہو۔خدا کی قسم ابن غنم! ۔۔۔خالد بن ولید نے عیاض کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔ تم نے مجھے ایک روشنی دکھا دی ہے، آ کہیں بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ ہم انہیں یہ دھوکہ کس طرح دے سکتے ہیں۔خالد بن ولید نے ایک کارروائی یہ کی کے درختوں سے اور بلند جگہ سے تیر اندازوں کو ہٹا لیا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے ،وہ جب شہر کی اس طرف پہنچے جس طرف خیمے تھے تو انہوں نے تیر اندازوں کو بتایا کہ اب وہ فلیتہ والے تیر کس طرح پھینکیں۔آگ والے ان تیروں کی کمی نہیں تھی، تیر اندازوں کو دیوار سے اتنی دور کر دیا گیا جہاں تک دیوار سے آنے والے تیر ان تک نہیں پہنچ سکتے تھے، فلیتے والے تیر آگئے اور تیر اندازوں نے کمانوں میں ڈال ڈال کر یہ تیر پھینکنے شروع کر دیئے، دو گھوڑ سوار تیر اندازوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا کہ کسی بڑے کے حکم کے بغیر گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور دیوار کے قریب جا کر دوڑتے گھوڑوں سے تیر اندر پھینکے شہریوں نے دیوار پر سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ ے بھی کی لیکن اللہ نے انہیں محفوظ رکھا انہوں نے گھوڑے کہیں روکے نہیں تھے۔ان کی دیکھا دیکھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک یا دو گھوڑسوار تیرانداز اپنے گھوڑے دوڑاتے اور دوڑتے گھوڑوں سے اندر تیر پھینک جاتے تھے ۔دیوار سے جو تیراندازی ہو رہی تھی وہ اور تیز اور شدیدتر ہوگئی ،اس میں سے بچ نکلنا بہت ھی مشکل تھا تین چار گھوڑسوار تیروں کا نشانہ بن گئے تو عیاض بن غنم نے باقی گھوڑ سواروں کو روک دیا کہ وہ اتنا خطرہ مول نہ لیں۔کسی اور گھوڑسوار تیرانداز کو دیوار کے قریب جانے کی ضرورت ہی رہی کیونکہ دیوار پر جو عیسائی تیر انداز تیر پھینک رہے تھے ان میں سے کسی نے بڑی بلند آواز سے کہا کہ خیموں کو آگ لگ گئی ہے اس کی اس گھبرائی ہوئی پکار کی تصدیق دھوئیں نے کر دی ،جو دیوار کی اوٹ سے اوپر اٹھ آیا تھا اور اوپر ہی اوپر اٹھتا چلا جا رہا تھا، یہ دھواں بڑی تیزی سے پھیلتا اور گھنا ہوتا جا رہا تھا ،ان خیموں میں رہنے والوں کی چیخ وپکار باہر بھی سنائی دینے لگی۔

خیمے بہت ہی زیادہ تھے اور ایک دوسرے کے بالکل قریب قریب لگے ہوئے تھے ایک جلتا ہوا خیمہ دائیں بائیں والے خیمے کو جلا رہا تھا اور آگ بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی ، مؤرخین نے لکھا ہے کہ جلتے ہوئے خیموں میں سے نکلنے والوں میں سے اکثر کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی، کئی ایک تو نکل بھی نہ سکے اور زندہ جل گئے ،دیوار پر جو عیسائی کھڑے تیر اور پرچھیاں پھینک رہے تھے وہ ایسے گھبرائے کہ وہاں سے دوڑ پڑے اور خیموں کی آگ بجھانے کے لئے نیچے اترے ،دیوار کا خاصا حصہ خالی ہو گیا۔ مجاہدین دو رسے لے کر دیوار تک پہنچے اور کماندیں دیوار پر پھینکیں۔ کمندیں بالکل صحیح جگہوں پر پہنچ کر اٹک گئ تو مجاہدین رسوں پر چڑھنے لگے لیکن دائیں اور بائیں سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ آنے لگی پیچھے والے بہت سے مجاہدین دوڑتے ہوئے آگے گئے اور دیوار والے تیر اندازوں پر تیر چلانے شروع کردیئے بہت سے عیسائی تیرانداز تیروں کا نشانہ بنے اور دو تین دیوار کے باہر بھی گرے لیکن وہ اپنا کام کر چکے تھے وہ یہ کہ رسوں پر چڑھنے والے مجاہدین کے جسموں میں کئی کئی تیر اتر گئے تھے اور وہ رستوں سے نیچے آ پڑے تھے دلیری اور جذبہ شہادت کا یہ مظاہرہ بھی کامیاب نہ ہوسکا لیکن اس مظاہرے نے مجاہدین میں نئی روح پھونک دی۔ کئی مجاہدین دیوار کی طرف دوڑے کے وہ رسوں سے اوپر چڑھ جائیں گے لیکن ایک تو انہیں سالاروں نے روک دیا ،اور دوسرے یہ کہ اوپر جہاں رسے اٹک گئے تھے وہاں سے قبائلیوں نے ر سے اتار پھینکے۔شہر کے اندر کا شوروغل بتا رہا تھا کہ جلتے ہوئے خیموں نے اندر کیسی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔وہ افراتفری پیدا ہوچکی تھی جو خالد بن ولید پیدا کرنا چاہتے تھے انہوں نے اپنے تیر اندازوں کو پیچھے ہٹا لیا اور جو سوار دیوار کی طرف کچھ آگے بڑھ گئے تھے انھیں بھی واپس بلا لیا۔رات کے وقت مجاہدین کی ٹولیاں ایک دو دروازوں تک پہنچ جاتی تھیں اور کلہاڑیوں سے دروازے توڑنے کی کوشش کرتی تھیں، لیکن اوپر سے تیر بھی آتے اور پرچھیاں بھی آتی تھیں، دشمن نے اوپر سے ان پر جلتی ہوئی مشعلے بھی پھینکی تھیں جن سے دو تین مجاہد کپڑوں کو آگ لگ جانے سے جھلس گئے تھے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

خالد بن ولید نے ایک روز تقریبا ایک ہزار سواروں کا دستہ محاصرے سے نکال کر پیچھے بھیج دیا ان سواروں کے جانے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ واپس جارہے ہوں، یہ تھے وہ ایک ہزار گھوڑسوار مجاہدین جنہیں روتاس نے دیوار پر کھڑے محاصرے سے جاتے دیکھا اور بڑی خوشی سے لیزا کو بھی بتایا تھا کہ شاید مسلمان محاصرے سے مایوس ہو کر اپنا لشکر آہستہ آہستہ واپس بھیج رہے ہیں۔خالد بن ولید نے ایک چال یہ بھی چلی کے تمام سرگرمیاں اور قلعہ سر کرنے کی کاروائیاں بالکل ہی بند کردی مجاہدین نے تو شجاعت اور شہادت کے مظاہرے اس حد تک کیے تھے کہ چند ایک مجاہدین کلہاڑی لیے تیروں کی بوچھاڑوں میں کسی ایک دروازے تک جا پہنچتے اور دروازہ توڑنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اوپر سے ان پر تیر بھی آتے تھے اور برچھیاں بھی اس طرح کئ ایک مجاہدین شدید زخمی ہوئے اور شہید بھی۔خالد بن ولید نے محاصرے کی ایک طرف سے ایک ہزار سوار کا ایک اور دستہ پیچھے بھیج دیا جو پہلے رخصت ہونے والے دستے کے راستے پر گیا اور ٹیکریوں کی اوٹ میں ہوتا پہاڑی کے پیچھے چلا گیا اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا تھا کہ اس دستے کو بھی واپس بھیج دیا گیا ہے ۔خالد بن ولید اور عیاض بن غنم گھوڑوں پر سوار شہر کے ارد گرد گھومتے پھرتے تو نظر آتے تھے لیکن باقی لشکر کا انداز یہ تھا کہ مجاہدین زیادہ تر خیموں کے اندر رہتے یا کچھ دیر کے لیے بعض مجاہدین باہر آتے اور پھر خیموں میں چلے جاتے یا پیچھے جا کر درختوں کے نیچے بیٹھ جاتے تھے۔

قلعے کے اندر انتھونیس تو بہت ہی خوش تھا اور اس پر فتح کا تاثر طاری رہنے لگا تھا ،لیکن آرام سے وہ پھر بھی کہیں بیٹھتا نہیں تھا وہ قبیلوں کے سرداروں کو اکٹھا کرکے انہیں ہدایت دیتا یا دیوار پر جاکر لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا اور کبھی نیچے آکر لوگوں کو اکٹھا کرکے انہیں فتح کی خوشخبری سناتا اور انہیں بتاتا تھا کہ ابھی لڑائی ختم نہیں ہوئی اور ان مسلمانوں کو بھاگا نہ نہیں بلکہ اس لشکر کو لاشوں میں بدل دینا ہے اور پھر جو زندہ رہیں گے انہیں قیدی بنا کر قلعے میں جانوروں کی طرح رکھنا ہے۔انتھونیس پر تو جنونی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور وہ تو جیسے لیزا کو اور دنیا  کی ہر دلچسپی کو ذہن سے ہی نکال بیٹھا تھا ،لیزا نے اب اسے یہ کہنا چھوڑ دیا تھا کہ وہ گھر نہیں آتا اور آتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اپنا ذہن اور دل باہر ہی چھوڑ آیا ہو، انتھونیس کے بجائے روتاس لیزا کے ہاں چلا جاتا تھا اور کبھی لیزا اس کے یہاں جا پہنچتی تھی۔یو کلیس پر تو ایسی جذباتیت غالب آ گئی تھی کہ وہ ماں سے جیسے لا تعلق ہی ہو گیا تھا اور اسے کھانے پینے کا بھی ہوش اور احساس نہیں رہتا تھا۔اس داستان کو ہم کچھ دن پیچھے اس مقام پر لے چلتے ہیں جہاں مسلمانوں کے پھینکے ہوئے فلیتے والے تیروں نے اندر خیموں کی بستی کو آگ لگا دی تھی خیموں میں رہنے والوں کا قیامت خیز شور و غل باہر بھی سنائی دے رہا تھا لیکن شہر کے اندر جو قیامت برپا ہوگئی تھی وہ مجاہدین کو نظر نہیں آرہی تھی خیموں کی یہ وسیع عریض بستی شعلوں میں بدل گئی تھی۔عورتیں بچے اور وہ لوگ جو بروقت نکل نہ سکے زندہ جل رہے تھے شہر کے لوگ گھروں سے نکل آیا اور کنویں سے پانی نکال نکال کر خیموں پر پھینکنے لگے لیکن آگ سے ان خیموں کو جو ابھی بچے ہوئے تھے بچانا ممکن نظر نہیں آرہا تھا، شہر کے لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہو گیا اتنی اونچی جانے والے شعلوں کی دہشت معمولی نہیں ہوا کرتی جسے انسان برداشت کرلیتے۔کچھ خیمے بچا تو لیے گئے لیکن وہاں خیموں کو نہیں بلکہ انسانوں کو بچانا تھا، وہی بچ سکے جو بروقت نکل گئے تھے شہر کے لوگوں پر خوف و ہراس تو تاری تھا ہی لیکن کچھ ایسی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھی کہ محاصرہ توڑ دو یا شہر مسلمانوں کے حوالے کر دو یہ آوازیں بھی سنائی دیں کہ آج خیمے جلے ہیں کل ہمارے گھر بھی جلیں گے۔انتھونیس روتاس اور یوکلس بھی وہاں موجود تھے اور لوگوں کی طرح بھاگ دوڑ کر آگ پر قابو پانے کی کوشش میں بری طرح مصروف تھے، انہوں نے بھی لوگوں کے احتجاجی نعرے سنے اور محسوس کرلیا کہ لوگ محاصرے سے تنگ آگئے ہیں۔ انتھونیس نے بڑی بلند آواز میں لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ اپنی قومی وقار اور آزادی کے لئے ایسی قربانیاں دینی ہی پڑتی ہے ان مسلمانوں کو دیکھو کتنی دور سے آئے ہیں مسلسل لڑ رہے ہیں اور اب اتنا زیادہ نقصان اٹھا کر بھی محاصرہ نہیں اٹھانا چاہتے۔میں تمہیں یہ بھی بتادوں انتھونیس نے کہا۔۔۔ مسلمان محاصرے کی کامیابی سے مایوس ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے دستے واپس بھیج دیئے ہیں اور مجھے یقین ہو گیا ہے کہ وہ خود ہی محاصرہ اٹھا کر واپس چلے جائیں گے۔ ایسی باتیں زبان پر مت لاؤ  کے شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے۔انتھونیس نے شہر کے لوگوں کو اکسایا اور بھڑکایا اور پھر اس کےاشارے پر یوکلس گھوڑے پر سوار ہو گیا تھا کہ سب لوگ اسے دیکھ سکے۔اے اہل صلیب! ۔۔۔یوکلسس نے بڑی ہی بلند آواز سے لوگوں کو خطاب کیا میری عمر دیکھو کیا یہ ہنسنے کھیلنے کی عمر نہیں؟ میرا ایک بازو بھی نہیں پھر بھی تم مجھے دیکھتے رہتے ہو کے آرام اور چین کی نیند اور کھانے پینے کو بھول گیا ہوں، تم دیکھو گے کہ میں کس طرح ایک بازو سے لڑتا ہوں ،میں تمہارا بچہ ہوں اور تمہاری عزت اور آبرو کی خاطر شاہی زندگی چھوڑ کر آیا ہوں۔

انتھونیس اور یوکلس نے لوگوں سے خطاب اس وقت کیا تھا جب خیموں کی آگ پر تقریباً قابو پالیا گیا تھا، لیکن ابھی لاشیں باہر نہیں لائی گئی تھیں لوگوں کا حوصلہ قائم ہو گیا تھا، اور ان کا احتجاج بھی ختم ہو گیا، انتھونیس اور یوکلس کے بولنے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ لوگوں نے اس کا اثر قبول کیا۔ شہر میں خوف و ہراس نہ ہونے کے برابر رہ گیا لوگوں نے پہلے سے زیادہ جوش اور جذبے سے آگ پر قابو پانا شروع کردیا۔سورج غروب ہونے تک آگ پر قابو پایا جا چکا تھا اور جو لوگ جلتے خیموں میں سے بچ نکلے تھے وہ اپنی بیوی بچوں اور دیگر افراد کو جلے ہوئے خیموں میں ڈھونڈنے لگے یہ کام رات بھر جاری رہا لوگ لاشیں اٹھا اٹھا کر ایک جگہ زمین پر رکھتے رہے ،سب لاشیں اکٹھی ہوئی تو شہر کے لوگ پھر خیموں کی جلی ہوئی بستی کے اردگرد اکٹھے ہوگئے ان کے سامنے ایسا منظر تھا جس نے انھیں سرتا پا ہلا کر رکھ دیا جلے ہوئے خیموں سے ذرا ہٹ کر بے شمار لاشیں پہلو بہ پہلو زمین پر رکھی ہوئی تھی، ان میں جوان آدمیوں کی لاشیں بھی تھی، بوڑھوں کی ،عورتوں اور بچوں کی لاشیں بھی تھیں، یہ سب کل کی آگ میں زندہ جل گئے تھے اور کوئی ایک بھی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی، بعض لاشیں تو ایسی تھی جیسے بڑی موٹی موٹی لکڑیاں جلی ہوئی ہوں، بے شمار لاشیں قابل شناخت نہیں تھی۔کل تو انتھونیس اور یوکلس نے لوگوں کے دلوں سے خوف و ہراس نکال دیا اور ان کے حوصلوں میں نئی روح پھونک دی تھی ،لیکن اب لوگوں نے یہ جلی ہوئی لاشوں کی لمبی قطار اور پھر لاشوں کی حالت دیکھی تو وہ بھول ہی گئے کہ کل انہیں انتھونیس اور یوکلس نے کیا کہا تھا۔عورتیں روتی چیختی چلاتیں اور بین کرتی اپنے بچوں کی لاشوں کو شناخت کر رہی تھیں لیکن وہاں تمام بچے ایک ہی جیسے ہو گئے تھے۔ خیموں میں رہنے والے اپنے عزیزوں رشتے داروں کو تلاش کررہے تھے ہر کسی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔کہاں ہے ہمارا رومی جرنیل؟ ۔۔۔ایک آدمی نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا ۔۔۔بچے جلے ہیں تو ہمارے جلے ہیں مال اسباب جلا ہے تو ہمارا جلا ہے، قلعے سے نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس شخص کی تائید میں کچھ اور آوازیں اٹھیں اور فوراً بعد یوں لگتا تھا جیسے ہر کوئی بول رہا ہوں اور ہر کسی کا یہی ایک مطالبہ ہو کے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے اس کے ساتھ ہی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں کہ رومی جرنیل کو بلاؤ۔انتھونیس کو اطلاع ملی تو وہ روتاس کو ساتھ لے کر دوڑتا ہوا وہاں پہنچا اسے دیکھ کر لوگوں نے احتجاجی نعرے لگانے شروع کر دیئے کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ رونی جرنیل یہاں بادشاہ بننے آیا ہے۔انتھونیس نے جب لوگوں کو اس قدر غم غصے میں دیکھا تو بڑی مشکل سے لوگوں کو خاموش کرایا اس نے کہا کہ محاصرہ خود ہی اٹھ جائے گا ۔

ہم اور انتظار نہیں کر سکتے ۔۔۔ایک آدمی نے کہا ۔۔۔ہم سب باہر نکل کر لڑیں گے۔انتھونیس آخر جرنیل تھا اور روتاس بھی فوجی افسر تھا وہ بڑی اچھی طرح جانتے تھے کہ محصور ہوکر کس صورتحال میں باہر نکل کر حملہ کیا جاتا ہے لیکن لوگ اپنے مطالبے سے ہٹ ہی نہیں رہے تھے انتھونیس اور روتاس نے انہیں باری باری سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔اے رومی جرنیل! ۔۔۔۔ایک معمر آدمی نے کہا۔۔۔ ہم مسلمانوں سے دشمنی رکھنا ہی نہیں چاہتے، تم باہر نکل کر محاصرہ توڑنے کی کوشش نہیں کرو گے تو ہم خود دروازے کھول دیں گے۔تم جاہل اور احمق ہو! ۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ تم دروازے مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ اسلام کے لئے کھولو گے مسلمان شہر میں آئیں گے تو سب سے پہلے تمہیں اسلام قبول کرنے کا حکم دیں گے ،تمہیں اپنے مذہب سے ہی نہیں بلکہ اپنی خوبصورت بیٹیوں اور جوان بیویوں سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا ، تم ایک قوم کی صورت میں زندہ  رہ ہی نہیں سکو گے۔اے اہل صلیب! ۔۔۔روتاس بڑی بلند آواز سے بولا۔۔۔ تم جن مسلمانوں کے لئے دروازہ کھولنا چاہتے ہو اور پھر تم جن مسلمانوں کی اطاعت قبول کرو گے ان کی یہ دردندگی  بھی دیکھ لو جو جلی ہوئی لاشوں کی صورت میں تمہارے سامنے موجود ہے انہوں نے تمہارے دودھ پیتے بچے بھی جلا ڈالے ہیں ، ہتھیار ڈال دیے تو وہ ہر اس عیسائی کو قتل کردیں گے جو ان کا مذہب قبول نہیں کرے گا۔بھیڑوں میں ایک بوڑھے نے آگے آکر کہا۔۔۔ جہاں لڑائی ہوتی ہے وہاں بچے بھی مارے جاتے ہیں کیا تم بھول گئے ہو کے رومی اور ایرانی فوج جدھر بھی گئی قتل عام کرتی گئی انہوں نے معصوم بچوں کو اپنے ہاتھوں قتل کیا نوجوان لڑکیوں اور کمسن بچیوں کو بھی بے آبرو کر کے مار ڈالا یا اپنے ساتھ لے گئے مسلمانوں کو ہم نے خود اپنا دشمن بنایا ہے پھر ہمارے لوگ رومیوں کی مدد کو چل پڑے اور رومی لڑنے کی بجائے بھاگ گئے، مسلمان ہمیں اپنا دشمن کیوں نہ سمجھیں؟ اگر اپنی عورتوں اور بچوں کا تجھے اتنا ہی خیال ہے تو باہر نکلوں اور حملہ کرو شہر کا بچہ بچہ لڑے گا۔

 وہاں سارا شہر اکٹھا ہو گیا تھا بوڑھے کی اس بات پر لوگوں نے شور و غل برپا کردیا جس میں یہی ایک مطالبہ سنائی دے رہا تھا کہ مسلمانوں پر حملہ کرکے محاصرہ توڑا جائے شوروغوغا میں ایک اور آدمی آگے بڑھا اور اس نے ایک اور بات پیش کردی ،ایک مصیبت اور آرہی ہے اس آدمی نے کہا ۔۔۔شہر میں اناج کم ہوتا جا رہا ہے تھوڑے ہی دنوں تک قحط پڑ جائے گا مویشیوں اور گھوڑوں کے لیے چارہ نہیں مل رہا کھیت قلعے کے باہر ہے جہاں سے ہرا چارہ نہیں لایا جاسکتا ، مویشی انسانوں سے پہلے مریں گے ایسے تڑپ تڑپ کر مر جانے سے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اپنے مذہب اور اپنی آزادی کے خاطر ابھی لڑیں اور جانیں قربان کردیں۔انتھونیس اور روتاس کے دماغوں میں صرف لڑائی اور محاصرہ سمایا ہوا تھا یہ دونوں رومی اس خوش فہمی میں بھی مبتلا تھے کہ فتح ان کی ہوگی مگر انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ لڑائی کے کچھ پہلو اور بھی ہوتے ہیں اور کچھ تقاضے بھی جن شہروں میں فوج رکھی جاتی تھی وہاں خوراک اور رسد کا اتنا زیادہ ذخیرہ رکھا جاتا تھا جو عموماً ایک سال سے زیادہ عرصے کے لئے کافی ہوتا تھا حلب میں کوئی فوج نہیں تھی شہریوں نے ذخیرے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔ مسلمانوں نے بھی وہاں فوج نہیں رکھی تھی اس لئے اناج کا ذخیرہ بھی نہیں رکھا گیا اب شہریوں کو پتہ چلا کہ شہر میں اناج بڑی تیزی سے کم ہو رہا ہے اور مویشیوں کے لئے ہرا چارہ بھی نہیں مل رہا۔یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس نے انتھونیس اور روتاس پر خاموشی طاری کر دی اور انھیں کوئی ایسی بات نہ سوجھی جس سے وہ لوگوں کے دل پر جا سکتے ،اور انہیں جھوٹی تسلیاں دے کر ان کا حوصلہ قائم رکھ سکتے۔ انتھونیس نے اسی وقت قبیلوں کے سرداروں کو بلایا اور الگ لے جا کر بٹھایا اور خوراک کی صورتحال ان کے سامنے رکھ کر کہا کہ اب ہمیں یہ محاصرہ باہر نکل کر توڑنا ہی پڑے گا اگر ہم نے انتظار کیا کہ محاصرہ خود ہی واپس چلا جائے گا تو شہر کے لوگ فاقہ کشی کے ڈر سے خود ہی دروازے کھول دیں گے، اور اس کا جو نتیجہ ہوگا وہ کہنے کی ضرورت نہیں۔سرداروں نے متفقہ طور پر فیصلہ کر دیا کہ محاصرے پر حملہ کیا جائے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، انتھونیس نے سرداروں سے کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کو اکٹھا کریں جو لڑنے کے قابل ہیں تاکہ انہیں ضروری ہدایات دی جا سکے۔

حلب کے اس محاصرے کے متعلق مورخوں نے جو تفصیلات لکھی ہیں ان کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خالد بن ولید دشمن کی نفسیات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش میں تھے وہ اب نفسیاتی داؤ پیچ کی جنگ لڑنے کے فکر میں تھے انہیں یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جو دو دستے محاصرے سے ہٹائے گئے ہیں اس کاروائی کا شہر کے اندر ردعمل کیا ہے، انھیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ شہر میں اناج کی قلت بھی پیدا ہوگئی ہے۔اپنے ساتھی عیاض بن غنم کے ساتھ صلح مشورہ کرکے خالد بن ولید نے شہر کے ایک پہلو سے محاصرہ اٹھا ہی دیا اور اس طرف کے دستوں کو واپس بھیج دیا ۔اس روز انتھونس روتاس اور قبیلوں کے سردار دیوار پر کھڑے خالد بن ولید کی یہ کارروائی دیکھ رہے تھے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اس طرف سے محاصرہ اٹھ ہی گیا ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ہم مزید انتظار نہیں کریں گے انتھونیس نے اپنا فیصلہ سنایا کل صبح اس طرف کے دونوں دروازہ کھول کر باہر نکلیں گے اور ان مسلمانوں کو کاٹ کر رکھ دیں گے۔

اگلی صبح ابھی طلوع ہوئی ہی تھی کہ شہر کے دو دروازے کھلے اور شہر کے لوگ پرچھیاں اور تلواریں لیے اس طرح دوڑتے باہر نکلے جیسے سیلابی دریا کا بند یا کنارہ ٹوٹ گیا ہو ان میں گھوڑ سوار بھی تھے، مسلمان ایسی حالت میں تھے جیسے وہ ایسا شدید اور تیز حملہ روک ہی نہیں سکیں گے ، نہ انہیں حملہ روکنے کی تیاری کی مہلت ہی ملے گی، لیکن مسلمان سالاروں نے مجاہدین کو ہر وقت تیار رہنے کا حکم دے رکھا تھا اور ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ وہ اس طرح چلے اور درختوں کے نیچے جا کر لیٹیں جیسے ان تھکن اور مایوسیوں کی چٹانیں آ پڑی ہو۔

انتھونیس نے حملے کی اسکیم دانشمندی سے تیار کی تھی یوں نہ کیا کہ ایک طرف حملہ کرتا اس طرح اس کے لشکر پر پیچھے سے مجاہدین حملہ کردیتے اس نے شہریوں کو بتا دیا تھا کہ دروازے سے نکلتے ہیں دو حصوں میں بٹ جائیں اور حملہ دائیں اور بائیں کریں تاکہ انکے عقب محفوظ رہیں، ایک حصے کا کمانڈر انتھونیس خود تھا اور دوسرے حصے کا کمانڈر روتاس کے پاس تھی یوکلس روتاس کے ساتھ تھا۔بظاہر ڈھیلے ڈھالے اور تھکے تھکے سے مجاہدین جب اٹھے اور مقابلے پر آئیں تو حملہ آواروں کو یقینا محسوس ہوا ہوگا کہ وہ بڑی سخت چٹانوں سے جا ٹکرائے ہیں ،مجاہدین نے بہادری سے اس اچانک حملے کا مقابلہ کیا،خالد بن ولید کی دوسری اسکیم یہ تھی کہ کبھی بھی اندر سے حملہ آجائے تو حملہ آوروں کے پیچھے سے کھلے دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی جائے لیکن یہ اسکیم کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ انتھونیس نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دائیں بائیں کو کر دیا تھا۔

گھمسان کی لڑائی میں انتھونیس اور روتاس نے اپنے لشکر کو ایک تربیت یافتہ فوج کی طرح لڑانے کی کوشش کی لیکن وہ فوج نہیں تھی وہ لڑنے والوں کا ہجوم تھا جو ایک ہی بات سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرنا ہے ہوا یہ کہ قبائلی خود ہی قتل ہونے لگے مجاہدین کی اکثریت گھوڑ سوار تھی۔

انتھونیس جان گیا کہ مسلمان دروازوں کی طرف آنا چاہتے ہیں لیکن اس نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اس کا لشکر مسلمانوں کو روک نہیں سکے گا اس صورتحال پر اس نے اس طرح قابو پایا کہ اپنے لشکر کو واپس شہر میں آ جانے کا حکم دیا اس کا حکم چل نہیں رہا تھا اس نے سرداروں سے کہا کہ اپنے اپنے آدمیوں کو واپس شہر میں دھکیلو۔ یہ سرداروں کا ہی کام تھا کہ وہ اپنے آدمیوں کو لڑائی میں سے نکالنے اور واپس شہر میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔ مجاہدین نے ان کا تعاقب کیا انہیں امید تھی کہ وہ حملہ آوروں کے پیچھے پیچھے شہر میں داخل ہو جائیں گے لیکن دروازے بند ہوگئے اندر والوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ ان کے چند سو آدمی باہر ہی رہ گئے تھے ان آدمیوں نے مقابلہ جاری رکھا چونکہ وہ دیوار کے قریب تھے اس لئے دیوار پر کھڑے تیراندازوں اور برچھی بازوں نے مجاہدین پر تیروں کا مینہ برسا دیا اور برچھیاں بھی پھیکی اس سے مجاہدین کو اچھا خاصا نقصان اٹھانا پڑا اور دشمن کے بہت سے آدمی جو باہر رہ گئے تھے بچ نکلے ان کے لیے دروازہ کھلا اور وہ اندر چلے گئے۔دیوار پر کھڑے قبائلیوں نے باہر کا منظر دیکھا دور دور تک لاشیں بکھر گئی تھی ، اور شدید زخمی اٹھ کر چلنے کی کوشش کررہے تھے، اس منظر سے قبائلی عیسائیوں کا حوصلہ اور زیادہ بڑھ گیا اور وہ اعلانیہ کہنے لگے کہ وہ ایسا ہی ایک اور حملہ پھر کریں گے۔ انتھونیس نے سب کو فیصلہ سنا دیا کہ ایسا حملہ بلکہ اس سے زیادہ زور دار حملہ ایک بار پھر کیا جائے گا۔شہر کی عورتیں اپنے بیٹوں بھائیوں اور خاوندوں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی وہ اس ہجوم پر ٹوٹ پڑی تھی جو لڑ کر واپس آیا تھا۔ان میں ایک لیزا بھی تھی جو پاگلوں کی طرح یو کلس یوکلس پکارتی پھر رہی تھی، اسے اپنا بیٹا نظر نہیں آ رہا تھا ، یوکلس بھی اس حملے میں شامل تھا، لیزا دوڑتی ہوئی دیوار پر جا چڑھی تو دور سے اسے اپنا ایکلوتا بیٹا نظر آگیا وہ روتاس کے پاس کھڑا تھا، لیزا یوں دوڑ کر یوکلس سے جا لگی جیسے چیل اوپر سے آکر چوزے کو پنجوں میں دبوچ کر اوپر لے جاتی ہے، لیزا نے بیٹے کو اوپر سے نیچے تک اور ہر طرف سے دیکھا کہ یہ زخمی تو نہیں ! یوکلس نے اسے حوصلہ دیا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور وہ اس کے لئے ایسی دیوانگی کا اظہار نہ کیا کریں۔یوکلس کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والی ایک نوجوان اور بڑی ہی حسین لڑکی روزی بھی تھی جو کسی سے پوچھتی ہی نہیں تھی کہ یوکلس واپس آگیا ہے یا نہیں یا وہ کہاں ہے؟ یہ وہی عیسائی لڑکی تھی جسے یوکلس نے قسطنطین سے بچایا تھا ۔یہ لڑکی اسے حلب میں ملی اور پھر ان کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھی۔روزی بھی دیوار پر چلی گئی اور دور سے یوکلس کو لیزا کے بازوؤں میں دیکھ لیا وہ دوڑ پڑی اور اس تک پہنچی۔ ان لوگوں میں حجاب تو تھا ہی نہیں ۔یوکلس نے روزی کو دیکھا  تو ماں کے بازو سے نکل کر روزی کو اپنے ایک بازو میں جکڑ کر سینے سے لگا لیا۔

شہر سے باہر مجاہدین اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھا رہے تھے زخمیوں کو اٹھانے کا کام عورتوں کے سپرد تھا یہ عورتیں مجاہدین کی بیویاں ،بہنیں، اور بیٹیاں تھیں، جو مجاہدین کے ساتھ رہتی تھیں ان کی رہائش کا انتظام محاصرے سے دور پیچھے خیموں میں کیا گیا تھا ،ان میں شارینا بھی تھی جو ہرقل کی بیٹی تھی اور اب ایک مجاہد حدید بن مومن خزرج کی بیوی تھی، وہ دوسری عورتوں کے ساتھ زخمیوں کو پانی پلا رہی تھی اور انھیں اٹھا اٹھا کر پیچھے مرہم پٹی کے لیے بھی لے جا رہی تھی۔مجاہدین کا جانی نقصان ہوا تھا لیکن اتنا نہیں کہ محاصرے کی تقویت پر اثرانداز ہوتا، زخمیوں کی تعداد کچھ زیادہ تھی لیکن یہ بھی محاصرے کو کمزور نہیں کر سکتی تھی، خالد بن ولید نے شہر کی دوسری طرف سے چند سو گھوڑ سواروں کو ہٹا کر اس طرف کر دیا جہاں سے انھوں نے اٹھایا تھا اس کے سوا انہوں نے کوئی اور سر گرمی نہ دکھائی یعنی قلعے پر حملے کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور مجاہدین کو پہلے کی طرح کا رویہ اختیار کرنے کو کہا۔یہ بتانا ممکن نہیں کہ محاصرہ کتنا عرصہ رہا اس سلسلے میں مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ایک نے تو یہ عرصہ سات سال لکھا ہے جو کسی پہلو قابل قبول نہیں ۔

مختلف مؤرخوں کی تحریروں سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ محاصرہ چند مہینے رہا تھا پھر کسی تاریخ میں ایسی تفصیلات نہیں ملتی کہ خالد بن ولید نے ان قبائلی عیسائیوں کو اور کیا کیا دھوکے دیے تھے کہ وہ اسی دفاعی کارروائی پر آگئے جو خالد بن ولید چاہتے تھے۔دونوں فریقوں کو کچھ دنوں کی مہلت درکار تھی تاکہ معمولی زخمی ٹھیک ہو جائیں۔ انتھونیس اور روتاس اگلے حملے کا پلان بناتے رہے قبیلوں کے سردار ان کے ساتھ رہتے تھے ہر حکم ہر بات ان سرداروں کے ذریعے شہریوں تک پہنچتی تھی اب تو نو عمر لڑکے بھی لڑنے کے لئے تیار ہو گئے تھے اور عورتوں نے بھی کہا تھا کہ ان کی ضرورت محسوس ہو تو وہ بھی لڑی گی۔مسلمانوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ نماز کی امامت سپہ سالار کرتا تھا ، خالد بن ولید فجر کی نماز کے بعد ہی مختصر الفاظ میں مجاہدین کو ان کے فرائض یاد دلایا کرتے تھے اور ایک بات اکثر کہا کرتے ۔۔۔اللہ کی سلطنت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، جہاد اللہ کے نام پر ہوتا ہے اور اس کا اجر اللہ ہی دیتا ہے۔۔۔ پھر کبھی کبھی وہ یہ بات بھی کہا کرتے تھے۔۔۔ دعا عمل کے بغیر اور عمل دعا کے بغیر اس پودے جیسا ہے جسے اگا تو لیا لیکن پانی دینا بھول گئے۔

خالد بن ولید مجاہدین کو براہ راست جو احکام دینا چاہتے تھے وہ فجر کی نماز اور دعا کے بعد دیا کرتے تھے انہوں نے مجاہدین کو تیار کر رکھا تھا کہ اندر سے دوسرا حملہ آئے گا اس کا انہیں اس طرح یقین ہو گیا تھا کہ جو قبائلی عیسائی زخمی ہو کر گرے اور پھر شہر میں واپس نہیں جا سکے تھے ،ان سے معلوم کر لیا گیا تھا کہ شہر میں اناج کی اتنی قلت پیدا ہو گئی ہے کہ کچھ ہی دنوں تک صورت قحط والی بن جائے گی۔ ان زخمیوں سے یہ بھی معلوم کرلیا گیا تھا کہ شہر کے لوگ جلدی سے جلدی محاصرہ توڑنا چاہتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لینے کے حق میں ہیں۔ اندر کی صورتحال معلوم ہوجانے سے خالد بن ولید اور عیاض بن غنم کے لئے داؤ پیچ سوچنا اور فیصلے کرنا آسان ہوگیا۔

قلعے کے اندر بھی اگلی دفاعی کارروائی کے متعلق فیصلے ہو رہے تھے، انتھونیس اور روتاس نے دو روز بعد الصبح حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، بہت سے معمولی زخمی ٹھیک ہو چکے تھے اور پہلے سے زیادہ شہری حملے میں شریک ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ انتھونیس کا عزم ہی یہ تھا کہ یہ حملہ فیصلہ کن ہوگا اندر کے لشکر کو اب دو کے بجائے چار دروازوں سے نکلنا تھا یعنی حملہ شہر کے دونوں پہلوؤں سے کیا جائے گا۔یوکلس نے انتھونی اور روتاس کو بتائے بغیر اپنا ایک جاں باز گروہ تیار کر لیا تھا جس میں اس جیسے نوجوان شامل ہوئے تھے اور وہ سب گھوڑ سوار تھے انہوں نے طے کر لیا تھا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار پر حملہ کریں گے، اور اسے زندہ یا مردہ شہر کے اندر لائیں گے ، یہ بھی طے کیا گیا کہ وہ کہیں اور نہیں لڑیں گے صرف اس جگہ پہنچیں گے جہاں یہ سالار ہوگا، وہ جانتے تھے کہ سپہ سالار محافظوں کے حصار میں ہو گا اور انھیں بڑی ہی خونریز لڑائی لڑنی پڑے گی۔حملے کی صبح میں ایک دن رہ گیا تھا اور ایک رات ، یوکلس اپنی ماں سے رخصت ہوکر چلا گیا اس نے صرف ماں کو بتایا تھا کہ ایک جاں باز گروہ تیار کیا ہے جس کا آنتھونیس اور روتاس کو علم نہیں اور اس کا یہ گروہ مسلمانوں کے سپہ سالار کو زندہ یا مردہ اپنے ساتھ لائے گا ،اس نے ماں سے کہا تھا کہ اب وہ اپنے گروہ میں جارہا ہے اور واپس گھر حملہ کے بعد ہی آسکے گا ،ماں نے اسے پیار اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا۔انتھونیس بہت مصروف تھا کبھی دیوار پر چلا جاتا اور مسلمانوں کے لشکر کو دیکھتا اور پھر دوڑا نیچے چلا جاتا اور قبائلی سرداروں سے مل کر انہیں پہلے کہی ہوئی باتیں ایک بار پھر کہتا ایک جنون اور ایک خبط تھا جو اس کے دماغ پر سوار ہو گیا تھا۔

دن کا پچھلا پہر تھا انتھونیس کو روتاس کی ضرورت محسوس ہوئی کسی اور کو بھیجنے کے بجائے وہ خود اس کی تلاش میں چل پڑا اس کا خیال تھا کہ اسی کی طرح باہر بھاگتا دوڑتا پھر رہا ہو گا ،لیکن وہ اسے نہ ملا۔ آخر وہ روتاس کے گھر کو چل دیا وہ اکیلے رہتا تھا اس لئے انتھونیس بغیر اطلاع اندر چلا گیا۔صحن میں جا کر اس نے روتاس کو آواز دی ایک کمرے میں سے روتاس کی آواز سنائی دی کہ وہ کپڑے بدل کر آتا ہے انتھونیس اس خیال سے اس کے کمرے کی طرف چل پڑا کہ وہ اکیلا ہوگا دروازہ بند تھا لیکن کواڑوں پر ہاتھ رکھا تو کواڑ کھل گئے، انتھونیس نے کمرے میں جو منظر دیکھا اس سے اس کا خون کھول اٹھا اور دماغ کو چڑھ گیا، لیزا بھی اس کمرے میں موجود تھی اور بڑی تیزی سے کپڑے پہن رہی تھی۔ کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ اس سے پہلے وہ برہنہ تھی ۔ روتاس بھی بڑی ہی تیزی سے کپڑے پہن رہا تھا انتھونیس محاصرے کو اور اگلے دن کے حملے کو بھول ہی گیا اور اس نے تلوار نکال لی۔ تلوار لے لو !۔۔۔انتھونیس نے روتاس کو للکارا صحن میں آ جاؤں پھر جو زندہ رہے گا یہ عورت اس کی ہوگی۔ یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ بعض تنازعات کے فیصلے تلوار کیا کرتی تھی، روتاس نے فوراً چیلنج قبول کرلیا اور تلوار لے کر صحن میں نکل آیا وہ بھی آخر رومی تھا اور اس کا کردار ان کے کلچر کے عین مطابق تھا۔ انتھونیس اور روتاس کی تلوار ٹکرانے لگیں اتنے میں لیزا نے کپڑے پہن لئے۔ اور وہ دوڑتی صحن میں آئی اس نے دونوں دوستوں کو دیکھا جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے، دونوں ایک دوسرے پر وار کرنے کے لئے پیچھے ہٹے دونوں کے یہ پینترے ایسے تھے جیسے دونوں کو یقین تھا کہ وہ دشمن کو مار لیں گے وہ تلواریں برچھی کی طرح سیدھی کر کے ایک دوسرے کو مارنے آگے بڑھے تو لیزا دوڑ کر ان کے درمیان آ گئی اور انہیں روک جانے کو کہا لیکن دونوں بڑی تیزی سے آگے بڑھے تھے اور فاصلہ کچھ تھا ہی نہیں اس لئے وہ روک نہ سکے اور ہوا یہ کہ ایک کی تلوار برچھی کی طرح لیزا کے پیٹ میں اتر گئی اور دوسرے کی تلوار لیزا کے پیٹ کے اندر دور چلی گئی۔ دونوں نے تلوار کھینچ لی لیکن وار اتنے بھرپور تھے کہ لیزہ زندہ رہ سکتی ہیں نہیں تھی وہ گری اور ایک پہلو کی طرف لوٹ گئی دونوں نے اسے دیکھا پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا انتھونیس پیچھے ہٹا جیسے وہ روتاس پر ایک اور حملہ کرے گا۔ ٹھہر جاؤ انتھونیس! ۔۔۔روتاس نے اپنی تلوار بڑی زور سے صحن میں پھینکی ۔تلوار کچے صحن میں اتر کر وہیں کھڑی رہی اور ہلتی رہی ۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہم دونوں ایک عورت کے پیچھے اپنی حیثیت بھول بیٹھے ہیں۔ کیا ہم نے یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرنے کا عزم نہیں کیا تھا ؟۔۔۔اگر مجھے قتل کرنا چاہتے ہو تو کر دو لیکن اپنے عزم  کو نہ بھولنا یہ جو مر گئی ہے ایک بدکار عورت تھی، ہمیں ایک عورت کی خاطر ایک دوسرے کا دشمن نہیں ہونا چاہیے۔ انتھونیس نے بھی تلوار نیام میں ڈال لی اور روتاس کی تلوار صحن سے اکھاڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دی اور اسے باہر چلنے کو کہا۔ باہر نکل کر انتھونیس نے روتاس سے کہا کہ جو ہوا ہے وہ دل سے اتار دے اور بھول جائے، ہمیں فتح حاصل ہوجائے عورتوں کی کمی نہیں۔ یوکلس اپنے جانباز گروہ میں چلا گیا تھا ۔وہ ماں کو کہہ گیا تھا کہ حملے بعد ہی واپس آسکے گا اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ اس کی ماں روتاس کے گھر میں مری پڑی ہے۔ انتھونیس اور روتاس یوں آپس میں پہلے کی طرح شیروشکر ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا جب شہر کے دو دروازے ایک پہلو سے اور دوسرے دو پہلو سے کھلے اور اندر سے لشکر بڑی ہی تیزی سے ان چاروں دروازے سے نکلنے لگے، ادھر پانچواں دروازہ کھلا اور یوکلس اپنے تقریبا ایک سو جانبازوں کے ساتھ شہر سے نکلا ، یہ دروازہ اسی نے کھلوایا تھا، انتھونیس نے صرف چار دروازے کھولنے کا حکم دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ حملے کے دوران دروازے کھلے رکھے جائیں۔اب کے لشکر کے لڑنے کا انداز کچھ اور تھا دائیں بائیں حملہ کرنے کے بجائے سیدھے حملے کیے گئے مسلمان حملہ روکنے کے لیے تیار ہوگئے اور تصادم ہوا۔مجاہدین کے لڑنے کا انداز یہ تھا کہ وہ مقابلہ تو کر رہے تھے لیکن دباؤ ڈالنے کے بجائے پیچھے ہٹتے جا رہے تھے ان قبائلیوں کو معلوم نہ تھا کہ خالد بن ولید کس قدر دانشمند سپہ سالار ہیں ،اور رہتی دنیا تک غیر قومیں بھی انکے حوالے دیا کریں گے۔ مجاہدین کا اس طرح آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا کہ دشمن کو یہ دھوکہ ہو کہ یہاں بھی بھاگ نکلیں گے مسلمانوں کی ایک خاص جنگی چال تھی جس سے انہوں نے بڑی بڑی جنگیں طاقتوں کو شکست دی تھیں۔ انتھونیس اور روتاس بھی اسی دھوکے میں آگئے اور محسوس ہی نہ کر سکے کہ انکے لشکر قلعے سے خاصی دور نکل آئے ہیں ۔جہاں سے ان کے لیے واپسی محال ہوجائے گی۔جب دونوں طرف سے قبائلی لشکر مسلمانوں سے لڑتے لڑتے شہر سے بہت دور نکل گئے تو شہر کے ساتھ والی ٹیکریوں اور پہاڑیوں میں سے گھوڑسوار مجاہدین کا ایک سیلاب نکلا یا وہ تیز تند طوفان تھا جو حیران کن رفتار سے شہر کی طرف آیا اور شہر کی دیوار اور قبائلی عیسائیوں کے لشکر کے درمیان حائل ہو گیا یہ وہ گھوڑسوار مجاہدین تھے جو محاصرے سے نکل گئے تھے اور انتھونیس اور شہر کے لوگوں کو یہ دھوکا ہوا تھا کہ مسلمان محاصرہ اٹھا رہے ہیں، اور یہ گھوڑ سوار دستے واپس چلے جائیں گے وہ گئے کہیں بھی نہیں تھے۔ ٹیکریوں اور پہاڑیوں کے پیچھے جا کر چھپ گئے تھے۔ اور اپنے سپہ سالار کے اشارے کا انتظار کرتے رہے تھے۔

انہیں بہت ہی دنوں بعد اشارہ ملا اور ان کے لیے جو حکم تھا ان کی تعمیل انہوں نے پوری خوش اسلوبی سے کی۔ان میں سے کچھ شہر کے کھلے دروازوں میں سے اندر چلے گئے اور باقی قبائلی لشکروں پر ٹوٹ پڑے محاصرہ کرنے والے وہ مجاہدین جو لڑتے لڑتے پیچھے ہٹ رہے تھے، یکلخت رک گئے اور قبائلیوں پر ہلہ بول دیا ۔اب قبائلی لشکر دونوں طرف نرغے میں آگئے اور ادھر مجاہدین شہر میں بھی داخل ہو گئے تھے۔ شہر میں کچھ مزاحمت ہوئی لیکن وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔مجاہدین تمام شہر میں گھوم گئے اور اعلان کرتے گئے کہ تمام آدمی گھر سے باہر نکل آئیں اور عورتیں گھروں کے اندر رہیں اگر کوئی مرد گھر کے اندر چھپا ہوا پایا گیا تو اسے قتل کردیا جائے گا، عورتیں بالکل نہ ڈریں ان کی طرف کوئی غلط نظر سے دیکھے گا بھی نہیں نہ کسی بوڑھے بچے یا مریض پر ہاتھ اٹھایا جائے گا نہ کوئی ضعیف العمر یا مریض آدمی گھر سے باہر آئے۔صرف کہنے پر کون یقین کرتا لوگوں نے اپنی عورتوں اور خصوصا نوجوان لڑکیوں کو گھروں میں ادھر ادھر چھپا دیا اور خود باہر نکل آئے۔ عورتیں ڈر کے مارے باہر نہیں آئی تھیں نہ اپنے مکانوں کی چھتوں پر جاتی تھیں کہ دیکھتی کے باہر کیا ہو رہا ہے ہر گھر میں افراتفری تھی۔ اگر یہ فوج رومیوں یا ایرانیوں کی یا کسی اور غیر مسلم قوم کی ہوتی تو وہ گھروں پر ہلّہ بول دیتیں لوٹ مار کرتیں اور قتل عام بھی کوئی جوان عورت ان کی دستبرد سے نہ بچتی لیکن مجاہدین نے لوگوں کے گھروں کی طرف دیکھا تک نہیں۔شہر میں تمام آدمی باہر میدانوں میں اکٹھے ہو گئے شہر کے باہر قبائلی عیسائیوں کا قتل عام ہو رہا تھا وہ خالد بن ولید کے پھندے میں آ گئے تھے۔یوکلس اپنے ایک سو جانبازوں کے ساتھ مسلمانوں کے سپہ سالار کو ڈھونڈ رہا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کا سپہ سالار بادشاہ نہیں ہوا کرتا جو میدان جنگ سے ذرا دور ایک جگہ کھڑے رہ کر حکم چلاتا ہے۔ خالد بن ولید جنگ کے دوران کسی ایک جگہ تو ٹھہرتے ہی نہیں تھے ، قاصد اور مجاہد ان کے ساتھ ساتھ رہتے تھے ، یوکلس انہیں ڈھونڈتا ہی رہا کہ وہ بھی اپنے جانبازوں کے ساتھ مجاہدین کے گھیرے میں آ گیا اور نوجوانوں کا یہ دستہ کٹ کٹ کر گھوڑوں سے گرنے لگا، اور گھوڑے انہیں پاؤں تلے روندنے مسلنے لگے۔دونوں رومی مارے گئے ہیں۔۔۔ کسی نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔۔۔ انتھونیس بھی نہیں رہا، روتاس بھی قتل ہو گیا ہے ۔یہ آواز کئی آوازوں میں بدل گئی اور تمام تر میدان جنگ میں یہ اطلاع پھیل گئی کہ قبائلیوں کے کمانڈر انتھونیس اور روتاس مارے گئے ہیں۔ قبائلی عیسائیوں کا جوش و خروش ایسا مانند پڑا جیسے جلتی مشعل اچانک بجھ گئی ہو۔ انہوں نے برچھیاں تلواریں اور کمانے پھینک دیں اور چلا چلا کر کہنے لگے کہ ہم نہیں لڑیں گے ان میں جو گھوڑوں پر سوار تھے وہ گھوڑوں سے اتر آئے اور اس طرح جو مرنے سے بچ گئے تھے ہتھیار پھینک کر موت سے محفوظ ہو گئے۔

خالد بن ولید نے جنگ روک دی اور یہ حکم نہیں دیا کہ ہتھیار ڈالنے والوں کو قید میں ڈال دیا جائے بلکہ یہ اعلان کیا کہ جو قبائلی ہتھیار ڈال چکے ہیں وہ شہر کے اندر چلے جائیں لیکن اپنے گھروں میں نہ داخل ہوں اس حکم کے مطابق قبائلی سر جھکائے ہوئے دروازوں میں داخل ہونے لگے اور ایک میدان میں اکٹھا ہو گئے کچھ دیر بعد خالد بن ولید اور سالار عیاض بن غنم شہر کے صدر دروازے سے فاتحین کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوئے۔ یہ شام کا آخری قلعہ تھا وہ بھی فتح ہو گیا اور شام کی فتح پر مسلمانوں کی مہر ثبت ہو گئی ۔

خالد بن ولید اس جگہ گئے جہاں شہر کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تھا ہتھیار ڈالنے والوں کو بھی وہی لے گئے اور خالد بن ولید نے ان سے مختصر سا خطاب کیا۔الجزیرہ کے لوگوں۔۔۔ خالد بن ولید نے کہا۔۔۔ ہم نے یہ شہر لڑ کر لیا ہے اور تم نے ہمیں جانی نقصان پہنچایا ہے تمہارے ساتھ ہمارا سلوک کچھ اور ہونا چاہیے تھا لیکن میں اس راستے پر چلوں گا جو مجھے ہمارے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دکھایا ہے ۔ ہمارے دستور کے مطابق تم سب کو اسلام قبول کر لینا چاہیے اور پھر ہمارا حق ہے کہ تم سے تاوان بھی وصول کریں لیکن بنو تغلب نے ہتھیار ڈالے تھے تو ہمارے امیرالمومنین نے حکم بھیجا تھا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اس کے بجائے جزیہ وصول کیا جائے ۔تم سب کو جزیہ دینا پڑے گا اور جزیہ ہر ایک کی حیثیت کے مطابق وصول کیا جائے گا ۔ تم لوگ ہمارے خلاف لڑنے کے لئے رومیوں کے ساتھ جاملے تھے تمہیں اس کی سزا ملنی چاہیے لیکن ہم تمہیں کوئی سزا نہیں دیں گے۔ کیا شہر کے کسی بھی گھر میں لوٹ مار ہوئی ہے؟ ۔۔۔کوئی مسلمان کسی گھر میں داخل ہوا ہے؟ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ سپہ سالار بہت سی آوازیں آئیں، جن کا مطلب یہ تھا کہ نہ لوٹ مار ہوئی ہے نہ کوئی مسلمان کسی گھر میں داخل ہوا ہے۔اور نہ ہوگا ۔۔۔خالد بن ولید نے کہا ۔۔۔ہم تمہاری عزت و آبرو اور تمہارے جان و مال کے محافظ ہیں لیکن کسی نے ذرا سی بھی بدامنی یا غداری کی تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ حلب کے غیرمسلموں کے دلوں پر جو خوف بیٹھ گیا تھا وہ نکل گیا اور کئی ایک نے اسی روز اسلام قبول کر لیا۔

سورج غروب ہونے میں ابھی بہت وقت باقی تھا مجاہدین اپنے زخمی ساتھیوں اور شہیدوں کی لاشوں کو اٹھا رہے تھے۔ ان کی خواتین زخمیوں کو پانی پلاتیں پھر رہی تھیں اور ان میں جو ذرا بھی چلنے کے قابل تھے انہیں سہارا دے کر وہاں پہنچا رہی تھی جہاں مرہم پٹی کا انتظام تھا۔وہاں دو ہی آوازیں سنائی دیتی تھی ایک زخمیوں کا کراہنا اور دوسرا پانی، پانی، خدا کے واسطے ایک بوند پانی،،،،،  شارینا بھی اسی کام میں مصروف تھی کہ وہ ایک زخمی کو دیکھ کر رک گئی اور حیرت زدگی کے عالم میں اس کے پاس بیٹھ گئی یہ ایک نوجوان زخمی تھا جس کے چہرے اور سر پر تو کوئی زخم نہ تھا لیکن اس کے تمام کپڑے لال سرخ ہو گئے تھے اور خون ابل ابل کر نکل رہا تھا۔تم یوکلس تو نہیں ہو سکتے! ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ شاہ ہرقل کے بیٹے کا یہاں کیا کام میں خواب تو نہیں دیکھ رہی!،  میں یوکلس ہی ہوں شارینا!۔۔۔زخموں سے نڈھال یوکلس نے کہا ۔۔۔میں تمہیں دیکھ کر حیران ہورہا ہوں تم یہاں کیسے؟

 یو کلس سے اچھی طرح بولا نہیں جارہا تھا وہ بولتا تھا تو اس کی آواز ڈوبنے لگتی تھی۔چپ رہو یوکلس! ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ یہ وقت کہانیاں سننے سنانے کا نہیں کہ تم یہاں کیسے آ گئے اور میں یہاں کس طرح آن پہنچی ہوں ۔یہ لو پانی پیئو اور میں تمھیں اٹھاکر مرہم پٹی کے لیے لے چلتی ہوں۔ نہیں شارینا! ۔۔۔یوکلس نے کہا۔۔۔ میرا وقت پورا ہوچکا ہے معلوم نہیں میں اب تک زندہ کیسے ہوں مجھے یہیں آخری سانس لے لینے دو۔ یوکلس نے شارینا کا ایک ہاتھ پکڑ لیا ۔یہ تو الگ بات ہے کہ یوکلس انتھونیس کا بیٹا تھا، لیکن سب اسے شاہ ہرقل کا بیٹا کہتے تھے کیونکہ وہ ہرقل کی ایک بیوی لیزا کا بیٹا تھا ۔شارینا بھی شاہ ہرقل کی بیٹی تھی اس لیے وہ اور یوکلس ایک دوسرے کو بڑی اچھی طرح جانتے تھے۔

شارینا نے یوکلس سے کہا کہ وہ مجاہدین کو بلواتی ہے اور اسے وہاں سے اٹھا کر شہر میں لے چلی گی، لیکن یوکلس نے شارینا کا ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیا اور زور زور سے سر ہلا کر کہنے لگا کہ وہ مرہم پٹی نہیں کروائے گا کیونکہ وہ بیکار ہو گی۔ ادھر دور دور تک بکھری ہوئی لاشوں  میں نوجوان روزی یوکلس کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی، عورتوں کے لئے باہر نکلنے کی پابندی تھی لیکن وہ چھپتی چھپاتی کسی طرح گھر سے ہی نہیں بلکہ شہر سے نکل آئی اور اس کو ڈھونڈتی رہی تھی شاید اسے کسی نے بتا دیا تھا کہ یوکلس مارا گیا ہے یا بری طرح زخمی ہو گیا ہے۔ روزی پاگلوں کی طرح زخمیوں اور لاشوں کو دیکھتی پھر رہی تھی وہ کئی بار کسی نہ کسی لاش سے ٹھوکر کھا کر گری اور اٹھ کر پھر زخمیوں اور لاشوں کو دیکھنے لگتی آخر وہ وہاں تک جا پہنچی جہاں شارینا یوکلس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ یوکلس کو دیکھ کر وہ اس کے اوپر گری اور دیوانہ وار اس کے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ اٹھنے کی کوشش کرو یوکلس شارینا نے اپنا ایک بازو یوکلس کے کندھوں کے نیچے لے جاتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم دونوں تمہیں اٹھاکر لے جائیں گی۔ہم اٹھالیں گے یوکلس روزی نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ہی انتظار میں تھا روزی !۔۔۔یوکلس نے روزی سے کہا۔۔۔میری ماں سے کہنا ۔۔۔اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا آنکھیں پتھرا گئیں۔ روزی کے سینے سے ایک چیخ نکلی اور وہ لاش سے لپٹ گئی ، شارینا وہاں سے اٹھی اور ایک آہ لے کر وہاں سے چلی گئی ، اس نے روزی سے یہ بھی نہ پوچھا کہ وہ کون ہے؟

جاری ہےــــــــ

اپنا تبصرہ بھیجیں