بےچارہ قاتل

بےچارہ قاتل

رابرٹ بار کی مختصر کہانی An-Electrical-Slip سے ماخوذ

قاتل کا تعلق ایک چھوٹے سے قصبے کی امیر کبیر فیملی سے تھا اور وہ 4 بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔حد سے زیادہ اور بے جا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ رکھا تھا۔اس کی فیملی نے کبھی اس کی کوئی خواہش نہیں ٹھکرائی تھی اور جوان ہونے تک اس کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہو چکا تھا کہ وہ جو بھی خواہش کرے، وہ بہرحال پوری ہو۔اب ضروری نہیں تھا کہ گھر سے باہر کے لوگ بھی اس کی ہر جا بے جا خواہش پوری کرنے کے پابند ہوتے لیکن اس کی عادتیں اتنی بگڑ چکی تھیں کہ اس کے ذہن میں یہ سوچ جڑ پکڑ چکی تھی کہ وہ جو بھی کہے گھر والے اور باہر والے بے چوں و چرا وہ مان لیں اور یہی سوچ اسے لے ڈوبی۔

اسے اپنے قصبے کی ایک لڑکی سے پیار ہو گیا تاہم اُس لڑکی کو اس کا غرور اور تنک مزاجی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ایک دن اس نوجوان کو یہ اطلاع ملی کہ اس کی محبوب کی منگنی قصبے کے ایک ٹیلی گراف آپریٹر کے ساتھ ہو گئی ہے۔ابھی ٹیلی فون وغیرہ ایجاد نہ ہوئے تھے اور تیز ترین پیغام رسانی کا واحد ذریعہ ٹیلی گراف ہی تھا۔ منگنی کی اطلاع پاتے ہی وہ نوجوان شدید غصے میں آ گیا اور وہ دن کے وقت اس ٹیلی گراف آپریٹر سے دو دو ہاتھ کرنے اس کے دفتر پہنچ گیا۔ وہاں پر موجود دوسرے آپریٹر نے اسے بتایا کہ جس کی تلاش میں وہ آیا ہے، اس ٹیلی گراف آپریٹر کی ڈیوٹی رات کو ہوتی ہے البتہ اِس وقت وہ اپنی منگیتر کے گھر موجود ہو گا۔

آگ بگولا نوجوان اس لڑکی کے گھر جا پہنچا۔ لڑکی اپنے گھر میں اکیلی ہی تھی اور اس کے گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے۔دونوں کی شدید تلخ کلامی ہوئی اور بات اتنی بڑھ گئی کہ نوجوان نے اپنا پستول نکالا اور 4 گولیاں لڑکی پر چلا کر اسے موقع پر ہی قتل کر دیا۔ بقیہ دو گولیاں اس نے اپنے سر میں اتارنے کا ارادہ کیا لیکن بزدلی آڑے آ گئی اور وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔قتل کی اطلاع آگ کی طرح قصبے میں پھیل گئی اور قصبے کی پولیس کے فعال سربراہ کی کوششوں سے پولیس نے فرار ہوتے ہوئے نوجوان کو وہاں سے 25 میل دور، سڑک کنارے ایک اور گاؤں سے گرفتار کر لیا جہاں وہ رات گزارنے اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہر گیا تھا۔

اسے پکڑ کر پولیس واپس اپنے قصبے میں لے آئی اور وہاں کی چھوٹی سی جیل میں قید کر دیا۔بہیمانہ قتل کی وجہ سے لوگ بے پناہ مشتعل تھے اورصبح ہوتے ہی سینکڑوں لوگوں نےجیل کو گھیرے میں لے لیا۔پولیس چیف بھی جیل میں موجود تھا اور لوگوں کی آنکھوں میں خون اترا دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔ لوگ قابو سے باہرہو رہے تھے، ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ جیل کی چابیاں ہمارے حوالے کر دو تاکہ ہم سفاک مجرم کے چیتھڑے اڑا دیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا لگنے لگا کہ لوگ چابیاں بھول کر جیل کا دروازہ توڑ کر اندر گھس جائیں گے۔پولیس چیف سوچ رہا تھا کہ اگر لوگوں نے جیل کا دروازہ توڑ دیا تو پھر اسے ان پر فائر کھول دینے کا حکم دینا پڑے گا جس سے شاید چند لوگوں کی جان بھی چلی جائے۔وہ ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ خود بھی وہیں کا رہنے والا تھا اور قصبے کے ہر شخص سے اس کی دوستی و شناسائی تھی۔

اچانک لوگوں کا شور تھم گیا۔چیف نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو ایک نوجوان جیل کی بیرونی دیوار پر چڑھ کر لوگوں کو ہاتھ کے اشاروں سے روک رہا تھا۔وہ نوجوان وہی ٹیلی گراف آپریٹر تھا ،جس سے قتل سے ایک دن پہلے مقتولہ کی منگنی ہوئی تھی۔نوجوان نے لوگوں سے کہا کہ تم کسی کا خون اپنے سر کیوں لینے پر مصر ہو۔تھوڑا سا انتظار کر لو اور قانون کو اپنا کام کرنے دو۔ قاتل اپنے جرم کا اعتراف کر چکا ہے اور عدالت سے جلد ہی اسے پھانسی کی سزا سنا دی جائے گی۔

اس کی تقریر کا لوگوں پر خاطر خواہ اثر ہوا اور وہ کچھ ہی دیر میں پرامن طور پر منتشرہو گئے۔پولیس چیف جیل سے باہر نکلا اور بڑی گرمجوشی سے ٹیلی گراف آپریٹر سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے شکریہ ادا کیا کہ اس کی عقلمندی سے فساد اور بلوے کا خطرہ ٹل گیا۔ آپریٹر نے سر کے اشارے سے شکریہ کا جواب دیا اور اپنی راہ چل دیا۔چیف نے دیکھا اس کی آنکھیں سرخ اور ورم آلود تھیں گویا وہ بہت دیر تک روتا رہا ہو۔

خیر مقدمہ چلا، قاتل کی امیر کبیر فیملی نے پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ اس کے وکیل نے اسکا ذہنی توازن درست نہ ہونے کا عذر بھی پیش کیا جو طبی معائنے سے غلط ثابت ہو گیا۔دوسری طرف قاتل چونکہ مجسٹریٹ کے سامنے بقائمی ہوش و حواس ابتداء میں ہی اپنے جرم کا اقرار کر چکا تھا لہٰذا اس کے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی اور بالآخر عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنا دی۔اب انسانی نفسیات کا عجیب پہلو سامنے آنے لگا۔ صرف مقتولہ کے منگیتر کو عدالتی فیصلہ سے دلی مسرت ہوئی جب کہ قصبے کے لوگوں میں دھیرے دھیرے مجرم کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔

اب جہاں بھی اس کا ذکر چھڑتا، لوگ اسے “بیچارہ قاتل” کہہ کر بات شروع کرتے۔ قاتل کی فیملی نے خزانے کے منہ ازسرنو کھول دئیے۔ جلد ہی قاتل کی سزا معافی کے لیے مختلف سماجی تنظیمیں ریاست کے گورنر کے نام رحم کی اپیلیں بھجوانا شروع ہو گئیں۔ شہریوں کی تنظیمیں بھلا کیوں پیچھے رہتیں، انہوں نے بھی ایک مشترکہ پٹیشن تیار کرنا شروع کر دی ،جس پر قصبے کے تمام شہریوں کے دستخط کروانے کا کام شروع کر دیا گیا۔دو معمر خواتین اس ٹیلی گراف آپریٹر کے پاس بھی رحم کی پٹیشن لیے ہوئے پہنچیں اور اس سے دستخط کی اپیل کی۔ وہ غصے سے آگ بگولہ ہو گیا اور بولا تم لوگوں میں کوئ شرم باقی نہیں رہی کہ ایک قاتل کی جاں بخشی کی کوشش کر رہے ہو اور ڈھٹائی کی ایسی انتہا کہ تم مجھ سے بھی دستخط لینے آن پہنچی ہو؟تم سب لوگ بے غیرت ہو چکے ہو کہ اسی قصبے کی تمہاری ایک ساتھی عورت کو ایک اوباش فطرت شخص نے بہیمانہ طور پر قتل کر دیا لیکن تمہیں مقتولہ کی بجائے قاتل کی فکر ہے؟

خواتین نے اس سے کہا؛ دیکھو خدا رحم پسند کرتا ہے اور ہم بھی ایک انسان پر رحم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ بیچاری مقتولہ کسی کی پھانسی سے واپس تو نہیں آ سکتی البتہ ایک انسانی جان بچائی جا سکتی ہے۔آپریٹر نے شدید غصے سے جواب دیا کہ خدا نے تو ظلم کرنے والے کو قرارواقعی سزا دینے کی ہدایت کر رکھی ہے اور میں تمہیں بتا دوں کہ اگر کسی وجہ سے گورنر سزائے موت بدل بھی دیتا ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی طرف سے میں خود اس بدذات قاتل کو جہنم رسید کر دوں گا، یہ میرا وعدہ کان کھول کر سن لو۔وہ خواتین افسردہ ہو کر بغیر دستخط کروائےچلی گئیں۔

اخبارات نے الگ گورنر پر قاتل کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دینے کے لیے سخت دباؤ ڈال رکھا تھا۔ادارئیے،آرٹیکل شائع کیے جا رہے تھے۔گورنر سخت پریشان تھا ۔دلی طور پر وہ قاتل کی سزائےموت پر عملدرامد کے حق میں تھا، لیکن دوسری طرف چند ہی مہینے میں گورنرشپ کے لیے الیکشن ہونے جا رہے تھے اور وہ اگلی ٹرم کے لیے بھی منتخب ہونا چاہتا تھا اور عوام جنہوں نے ووٹ دینے تھے، سب مل کر ایک قاتل کی سزائےموت کو عمر قید میں بدل دینے کی اپیل کر رہے تھے۔اخبارات جنہوں نے رائے  عامہ ہموار کرنا تھی،بھی یہی مطالبہ کر رہے تھے۔

سزاۓ موت کے لیے 21 ستمبر کی تاریخ مقرر تھی اور 20 ستمبرکو دوپہر تک گورنر کوئی فیصلہ نہ کر سکا تھا۔لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ سزائے  موت میں 24 گھنٹے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور ابھی تک سزا میں تبدیلی کا کوئی فرمان نہ موصول ہونا ظاہر کر رہا ہے کہ سزائے موت پر عملدرامد ہو ہی جائے گا۔اگر کوئی پیغام آنا تھا تو وہ بذریعہ ٹیلی گراف ہی موصول ہوتا۔مقتول لڑکی کے منگیتر ٹیلی گراف آپریٹر کی نایئٹ ڈیوٹی ہوتی تھی، جو شام 6 تا صبح 6 بجے تک تھی۔

20 ستمبر کو ڈیوٹی پر جاتے ہوئے آپریٹر کو راستے میں پولیس چیف ملا۔آپریٹر نے اس سے پوچھا کہ سزا معافی کی کوئی اطلاع ملی۔چیف نے افسردگی سے سر ہلاتے ہوئے نفی میں جواب دیا۔اس نے کہا کہ میری اطلاع اور اندازے کے مطابق گورنر نے سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس نے پورے کیریئر کے دوران ایک مرتبہ بھی سزائے موت پر عملدرامد کے عمل کی نگرانی نہیں کی تھی ۔آپریٹر نے سُکھ کا سانس لیا اور اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گیا۔رات 9 بجے تک گورنر کی جانب سے کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔

اس وقت تک روٹین کے باقی پیغام آنا بھی بند ہو چکے تھے۔کمرے میں صرف ایک پیغام رساں لڑکا بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ رات 9 بجے کے بعد پیغامات کا سلسلہ موقوف ہو چکا تھا، اس لیے آپریٹر بھی پرسکون ہو کر بیٹھ گیا۔10 بجے کے قریب اچانک ٹیلی گراف مشین پر پیغام آنا شروع ہو گیا۔ آپریٹر اچھل کر بیٹھ گیا اور ٹِک ٹِک کے سگنلز کو ڈی کوڈ کر کے پیغام لکھنے لگا۔جب پیغام مکمل ہو گیا تو اس نے پورا پیغام پڑھا اوراسکا کلیجہ حلق کو آ گیا۔وہ بے اختیار اچھل کر کھڑا ہو گیا اور اس کے منہ سے گالی نکل گئی۔پھر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی اور دیکھ تو نہیں رہا لیکن یہ دیکھ کر مطمئن ہو گیا کہ صرف پیغام رساں لڑکا کونے میں کرسی پر نیم دراز خراٹے لے رہا تھا اور اس کی ٹوپی اس کے منہ پر تھی۔

پیغام پولیس چیف کے نام تھا اور لکھا تھا ” فلاں قاتل کی سزائے موت پر عملدرامد نہیں کرنا کیونکہ گورنر نے اس کی سزائےموت، سزائے عمر قید میں بدل دی ہے۔اس حوالے سے ضروری کاغذات آج رات تمہیں رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھیجے جا رہے ہیں۔جوابی پیغام سے کنفرم کرو کہ تم نے یہ پیغام وصول کر لیا ہے”۔ آپریٹر نے کچھ دیر تک سوچا اور پھر دو کام کئے۔ ایک تو اس نے پولیس چیف کی طرف سے گورنر کے دفتر کے نام پیغام بھجوا دیا کہ گورنر کا پیغام مل گیا ہے اور اس کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے۔ دوئم اس نے پولیس چیف کے نام تحریرًا لکھا کہ یہ پیغام گورنر کی جانب سے آپ کے لیے موصول ہوا ہے۔

“فلاں مجرم کی سزائے موت برقرار رکھی گئی ہے لہٰذا مقررہ تاریخ اور وقت پر سزا پر بہرصورت عمل کر کے اطلاع کرو”۔ یہ پیغام لکھ کر آپریٹر نے سوئےہوئے پیغام رساں لڑکے کو اٹھا کر اسے ہدایت کی کہ گورنر کا یہ پیغام ابھی پولیس چیف کے پاس لے جاؤ، جو شاید اس وقت جیل میں ہو گا۔ اگر وہ جیل نہیں تو اس کے گھر میں یا جہاں کہیں بھی وہ ہے، اسے پہنچا کر آؤ اور اس کام میں بالکل دیر نہیں ہونی چاہیے۔لڑکا فوری نکل گیا اور 15،20 منٹ میں ہی واپس آ گیا۔آپریٹر سمجھ گیا کہ اسے پولیس چیف جیل میں ہی مل گیا ہو گا جو قریب ہی تھی۔

لڑکا پولیس چیف کا گورنر کے نام پیغام بھی لایا تھا جس پر ٹیڑھی میڑھی سطور اس امر کی عکاس تھیں کہ پولیس چیف نے کانپتے ہاتھوں سے پیغام لکھا ہو گا۔پیغام میں لکھا تھا، “آپ کے پیغام سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ مجرم کو سزائے  موت بہرطور دی جانا ہے جس پر میں عملدرامد کروں گا۔ سزائے موت کا وقت صبح 6 بجے ہے۔اگر اس وقت سے پہلے آپ اپنا ذہن بدل لیں تو خدارا فوری بذریعہ ٹیلی گراف مطلع کریں، آخر وقت تک انتظار کروں گا۔” پولیس چیف کا یہ پیغام ظاہر ہے آپریٹر نے گورنر کی طرف نہیں بھیجا۔

رات بارہ بجے کچھ اخباری نمائندے آپریٹر سے معلوم کرنے آئے  کہ گورنر نے سزا معاف تو نہیں کی۔آپریٹر نے نفی میں جواب دیا، ساتھ ہی دل میں دعا کرتا رہا، کہیں یہ بدبخت گورنر کے نام پیغام بھیج کر کنفرم نہ کروا لیں لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔منٹ، گھنٹے گزرتے رہے، آخر صبح 6 بجے کا وقت آن پہنچا۔ صبح کی ڈیوٹی والے آپریٹر نے پہنچنے میں 10،15 منٹ تاخیر کر دی اور قریب سوا 6 بجے وہ ڈیوٹی پر پہنچا۔ اس نے آتے ہی تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کی اور بتایا کہ وہ دراصل سزائے موت کے بارے کنفرم کر کے آیا ہے اس لیے دیر ہو گئی اور یہ کہ قاتل کو پورے 6 بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

یہ سن کر رات والے آپریٹر نے اطمینان سے ایک گہری سانس لی اور کہا، لو تم ڈیوٹی سنبھالو، میں تو اب چلا۔ اس کے بعد وہ سیدھا جیل کی طرف پولیس چیف سے ملنے چل دیا جو اسے جیل کے گیٹ پر مل گیا۔ اس کے چہرے سے دکھ و افسوس عیاں تھا۔آپریٹر نے اسے کہا کہ میں گرفتاری دینے آیا ہوں۔ہیں۔۔۔؟، گرفتاری، کس چیز کی؟ چیف نے پوچھا۔ آپریٹر بولا؛ قتل کے جرم میں ۔چیف نے کہا ؛میں اس وقت مذاق کے موڈ میں ہرگز نہیں، پلیز مجھے تنگ نہ کرو۔آپریٹر نے جواب دیا؛ میں تمہیں شکل سے کامیڈین نظر آتا ہوں کیا، اس کے بعد اس نے جیب سے کاغذات نکال کر چیف کو پکڑائے۔

چیف کاغذ پڑھتا گیا اور اس کا رنگ فق ہوتا گیا۔پھر وہ ہکلاتے ہوئے بولا، “تم،تمہارا مط،،مطلب ہے کہ یہ پیغام رات کو میرے نام آیا تھا؟ آپریٹر نے اطمینان سے جواب دیا ؛جی ہاں۔اور تم نے یہ مجھ تک نہیں پہنچنے دیا اور میں نے ایک ایسے شخص کو لٹکا دیا جس کی سزائے موت معاف کر دی گئی تھی؟ چیف نے پوچھا۔ آپریٹر بولا؛ جی بالکل۔چیف کے منہ سے بے اختیار “اف میرے خدا” نکلا اور وہ لڑکھڑا کر گیٹ کے ساتھ بنی دیوار پر بازو ٹکا کر بے اختیار زارو قطار رونے لگا۔

تھوڑی دیر بعد خود پر قابو پا کر چیف بولا ؛” بدمعاش انسان، اب مجھ سے کسی نرمی کی توقع نہ رکھنا”۔ آپریٹر نے کہا؛ میں کسی بھی نرمی پر لعنت بھیجتا ہوں۔ نرمی لینا ہوتی تو میں فرار ہونے کی کوشش نہ کرتا، میں تو خود گرفتاری دینے آیا ہوں۔پھر چیف نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا؛ کہ میں پہلی ٹرین سے گورنر سے ملنے جا رہا ہوں، امید ہے میرے آنے تک تم یہیں رہو گے اور فرار کی کوشش نہیں کرو گے۔ آپریٹر نے ٹھنڈے لہجے میں کہا؛ میں تمہیں ہر وقت اسی قصبے میں ملوں گا، فکر نہ کرو۔ اس کے بعد چیف پہلی ٹرین پر بیٹھ کر گورنر کے پاس جا پہنچا۔اب صورتحال نے ایک مرتبہ پھر عجیب رخ اختیار کرنا شروع کر دیا۔

وہی اخبارات جو گورنر پر سزائے موت معاف کر کے عمر قید میں بدل دینے کے لیے دباؤ بڑھا رہے تھے، انہوں نے گورنر کی جرات اور انصاف پسندی پر ضمیمے شائع کرنے شروع کر دئیے۔گورنر کی اپنی سیاسی جماعت نے مشکل صورتحال میں ثابت قدم رہنے پر اس کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دئیے جبکہ اپوزیشن نے بھی علی الاعلان گورنر کی ثابت قدمی کو سراہا اور کہا کہ اس نے ثابت کر دیا کہ وہ کمزور اعصاب کا مالک شخص نہیں ہے جیسا کہ ہم سمجھتے رہے۔اور تو اور عوام الناس نے بھی پہلے دبے اور پھر کھلے الفاظ میں گورنر کے قانون کے احترام اور جرم سے نفرت پر اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دئیے۔

وہی عوام جو پہلے گورنر پر دباؤ ڈالنے میں پیش پیش تھے، اب یکسر بدل گئے۔اس بدلی ہوئی  صورتحال کا کچھ اندازہ تو گورنر کو پولیس چیف کے پہنچنے سے پہلے ہی ہو چکا تھا اور باقی فیڈبیک چیف کی وہاں موجودگی کے دوران ملتی گئی۔ گورنر تو خوشی سے بے قابو ہو گیا اور اس نے چیف سے چہکتے ہوئے پوچھا کہ یار میرے رات کے احکامات پر مبنی پیغام اور اس کی آپریٹر کی جانب سے تبدیلی کا کتنے لوگوں کو علم ہو گا؟ پولیس چیف بولا،آپ  اور آپ کا سٹاف۔ گورنر نے کہا، میں ان کا منہ بند رکھنے کا انتظام کیے دیتا ہوں اور تمہارے قصبے میں کتنے لوگ اس واردات سے باخبر ہوں گے؟چیف نے کہا ؛صرف میں اور وہ آپریٹر۔ گورنر نے کہا، آپریٹر سے چُپ رہنے کا اگر تم کہہ دو تو اسے کیا اعتراض ہو گا اور تم خود بھی اپنا منہ بند ہی رکھنا۔

پھر گورنر نے اپنے پرایئویٹ سیکریٹری کو بلا کر اسے سارے واقعے پر خاموش رہنے کا حکم دیا اور پوچھا ؛کیا پولیس چیف کے نام رات کے میرے پیغام پر مبنی تحریری پیغام تم نے رجسٹری کر دیا تھا؟ پرائیویٹ سیکریٹری نے جواب دیا کہ نہیں جناب۔ میرا آج صبح بھیجنے کا ارادہ تھا۔ گورنر نے کہا ؛کوئی ضرورت نہیں بس بھول ہی جاؤ کہ میں نے کوئی پیغام بھیجا تھا بلکہ تمام کاغذ میرے سامنے لا کر ضائع کرو۔کاغذات ضائع کر دئیے گئے ۔سب سے بہتر یہ ہوا کہ کسی اخباری نمائندے کو اس سارے واقعے کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔اس واقعے کے چند ماہ بعد الیکشن ہوئے  اور وہی گورنر اپنی  مردانگی، قانون کے احترام اور جرم سے نفرت کی بناء پر بھاری اکثریت سے دوبارہ گورنر منتخب ہو گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں