اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر 7)

سابقہ اقساط
قسط نمبر 01  |قسط نمبر 02 | قسط نمبر 03 | قسط نمبر 04|  قسط نمبر 05 | قسط نمبر 06

بزنطیہ میں ہرقل کو اطلاع مل گئی تھی کہ اس کی یہ فوج جو مصر سے آئی تھی اور وہ بچی کچھی فوج جو بذبطیہ میں اس کے پاس تھی سب کٹ مری ہے یا تتر بتر ہو کر بھاگ نکلی ہے۔ ہرقل نے اس اطلاع پر پہلا اقدام یہ کیا کہ بزنطیہ سے نکل جانے کی تیاریاں شروع کردی اس نے حکم دے دیا کہ بزنطیہ خالی کردیا جائے۔خالی کر دینے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ایک دو دنوں میں وہ محل بھی خالی کر جاتا اور وہاں سے نکلنے والے لوگ نکل بھی جاتے اس انخلا میں بہت سے دنوں کی مہلت درکار تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ ہرقل نے شکست تسلیم کرلی تھی اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ مصر چلا جائے گا ۔اپنے مصاحبوں سے اسنے کہا تھا کہ وہ مصر جاکر فوج کو تیار کریگا ۔اور پھر شام پر فوج کشی کرکے مسلمانوں کو یہاں سے نکال باہر کرے گا ـــــــ یہ ایک قدرتی ردعمل تھا یا اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کا ایک ڈھنگ کہ اسنے اعلان کیا۔خفت مٹانے کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔یوکلس میدان جنگ سے نکلا تو رات کے وقت بزنطیہ اپنی ماں لیزا کے پاس گیا تھا ،یہ ایک احتیاط تھی کہ ہرقل کو پتہ نہ چلے کہ یوکلس آیا ہے۔  ماں یوکلس کو دیکھ کر یقینا حیران ہوئی ہوگی کہ یہ لڑکا واپس کیوں آگیا ہے؟ یوکلس نے ماں کو سارا واقعہ بتایا اور کہا کہ انتھونیس نہ ہوتا تو ماں کو اس کی لاش ملتی جس کا سر الگ ہوتا ۔یوکلس لیزا کا ایکلوتا بیٹا تھا، وہ تو ایسی چونکی کے اس کی آنکھیں ٹھہر گئی اور منہ کھل گیا پھر اس کے چہرے پر غصے کا تاثر آگیا اور وہ دانت پیسنے لگی۔ظالم جلاد ! ـــــــ لیزا نے دانت پیستے ہوئے کہا ـــــــ میں اسے زہر پلانے آئی تھی لیکن میرے دل میں اسکی ایسی محبت پیدا ہوئی کہ میں نے اسے صاف بتا دیا تھا کہ میں کس طرح ایران کی طرف سے اس کے لیے سراپا دھوکہ اور فرشتہ اجل بن کر آئی تھی، میں نے محبت سے اندھی ہو کر اس کے ساتھ شادی کرلی اور آج یہ میرے بیٹے کو قتل کروا رہا ہے ،اس سے میرا اعتماد شادی کے کچھ دنوں بعد ہی اٹھ گیا تھا لیکن میں اس کے ہاتھوں میں مجبور ہو چکی تھی۔لیزا نے یہ بات ایسے انداز سے کہی جیسے وہ اپنے آپ سے بات کر رہی ہو، یوکلس اس کے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ ماں کیا کہہ رہی ہے۔ ایک دو دنوں بعد انتھونیس بھی بزنطیہ پہنچ گیا لیکن اس نے بھی ایسی احتیاط کی کہ ہرقل کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ اس کا ایک جرنیل میدان جنگ سے آیا ہے وہ اپنے گھر بھی نہ گیا کسی دوست کے یہاں یا اپنے کسی خفیہ ٹھکانے پر چلا گیا ،وہ جرنیل تھا اور جرنیل عموما شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،انتھونیس نے اپنے کسی قابل اعتماد دوست یا نوکر یا کسی اور کو خفیہ طور پر لیزا کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اسے آ کر ملے۔لیزا تو بڑی بے تابی سے اس کا انتظار کر رہی تھی وہ انتھونیس سے پوچھنے کو بے تاب تھی کہ اسے کس طرح پتہ چلا تھا کہ ہرقل اور اس کا بیٹا قسطنطین یوکلس کو اس طریقے سے قتل کرنا چاہتے تھے جو یوکلس نے اسے سنایا ہے ۔جونہی اسے انتھونیس کا پیغام ملا وہ چل پڑی اور انتھونیس کے پاس پہنچ گئی۔وہ ایک عام عورت کے لباس میں چہرے پر نقاب ڈالے اس کے پاس گئی تھی تاکہ کوئی اسے پہچان نہ سکے۔آؤ لیزا ـــــــ انتھونیس نے پوچھا کیا تمہیں اپنا بیٹا زندہ و سلامت واپس مل گیا ہے؟ ہاں مل گیا ہے ـــــــ لیزا نے کہا ـــــــ لیکن یہ سب ہوا کیا ؟اور ہوا کیسے؟ میں کچھ سمجھی ہوں اور کچھ جاننا چاہتی ہوں۔انتھونیس نے کہا کہ اس نے اسے یہی بتانے کے لیے بلایا ہے کہ وہ یوکلس اور موت کے درمیان کس طرح آ گیا تھا۔ ذرا اس منظر کو سامنے لائیں جب قسطنطین ہرقل کے پاس بیٹھا تھا اور وہ یوکلس کے اس جرم پر تبادلہ خیالات کر رہے تھے کہ اس نے غداری کی ہے اور قبائلیوں میں قسطنطین کے خلاف بداعتمادی کی ہے پھر ہرقل نے یوکلس کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا ، اور اسے قتل کروانے کا جو طریقہ اس کے دماغ میں آیا تھا وہ قسطنطین کو بتا دیا پھر اس نے لیزا کو اور یوکلس کو بھی بلایا تھا اور انہیں یہ جہنسا دیا تھا کہ وہ یوکلس کو جنریل بنانے کا فیصلہ کر چکا ہے، اور عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے یوکلس کو میدان جنگ میں جانا پڑے گا۔ہرقل کے کمرے میں ایک نوخیز اور بڑی ہی دلکش کنیز موجود تھی جو وقفے وقفے سے ہرقل کو شراب پلا تی اور پھر الگ ہٹ کر اس طرح کھڑی ہوجاتی تھی کہ اس کی پیٹھ ہرقل اور قسطنطین کی طرف ہوجاتی تھی یا وہ باہر نکل جاتی۔اس کے کان ہرقل اور قسطنطین کے باتوں پر لگے ہوئے تھے اس نے بڑی اچھی طرح سن لیا تھا کہ یوکلس کو قتل کروایا جائے گا اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اسے جرنیل بنانے کی جو بات کی تھی،  وہ ایک جھانسا تھا، جب ہرقل نے کہا کہ وہ یوکل س کو انتھونیس کے حوالے کردے گا ،تو کنیز چونک اٹھی تھی اور اب وہ ہرقل اور قسطنطین کی باتیں پہلے سے زیادہ غور اور توجہ سے سننے لگی اس نے یوکلس کے قتل کی ساری سازش سن لی۔یہ کنیز کمسنی میں اس کی بیوہ ماں سے چھینی گئی تھی اور اسے ہرقل کو بطور تحفہ پیش کیا گیا تھا ،لڑکی چونکہ غیر معمولی طور پر خوبصورت تھی اس لئے اسے ہرقل کے خاص کنیز بنا کر اس کے مطابق تربیت دی گئی تھی ،انتھونیس کنیز کی ماں کو اچھی طرح جانتا تھا اور ماں انتھونیس کو اپنا ہمدرد سمجھتی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ اس عورت کا خاوند انتھونیس کا دوست تھا ،وہ مر گیا تھا ،کنیز کی ماں انتھونیس کے آگے فریاد کرتی رہتی تھی کہ اس کی بیٹی اسے واپس مل جائے۔

انتھونیس نے اس عورت کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اس کی بیٹی کو کسی نہ کسی طرح ہرقل کے چنگل سے آزاد کرا لے گا۔ کنیز اسے اپنا مونس و غمخوار سمجھتی تھی اور دل میں اسے باپ کا درجہ دے دیا تھا ۔کنیز انتھونیس کو یوں خوش کرتی رہتی تھی کہ ہرقل اپنے خاص کمرے میں کسی ساتھ کوئی بات کرتا اور اسمیں کوئی راز ہوتا تو موقع پیدا کرکے انتھونیس کو بتا دیتی تھی ۔اس طرح اس نے قتل کی سازش انتھونیس تک پہنچا دی۔ اس نے انتھونیس کو اس لئے سنائی تھی کہ وہ اس خبر سے لطف اندوز ہو گا اس سے زیادہ انتھونیس کااس راز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن وہ یہ جان نہ سکی کہ انتھونیس کے لیے یہ خبر کس قدر اہم تھی اور اسے جب اس سازش کی تفصیلات معلوم ہوئی تو وہ کس قدر مسرور ہوا تھا۔یوکلس کو انتھونیس کے ساتھ ہی لگا کر یعنی اس کا شاگرد بناکر محاذ پر بھیجا گیا تھا۔انتھونیس نے یوکلس کی ماں کو بتایا کہ یوکلس اس کے ساتھ میدان جنگ میں آیا تو ہر وقت اس پر نظر رکھی کہ ایسا نہ ہو کہ قسطنطین کہیں اسے لڑائی سے پہلے مروا دے ، انتھونیس اسے الگ ہونے ہی نہیں دیتا تھا، آخر جنگ شروع ہو گئی اب تو انتھونیس یوکلس کو بالکل ہی اپنے ساتھ رکھتا تھا ،لیکن یوکلس موقع دیکھ کر اس سے الگ ہو گیا، انتھونیس نے جس طرح یوکلس کو بچایا وہ بیان ہوچکا ہے، تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا؟ ـــــــ لیزا نے پوچھا ـــــــنہیں لیزا ـــــــ انتھونیس نے جواب دیا ـــــــ میں نے کچھ سوچ کر ہی تمہیں نہیں بتایا تھا ـــــــ سوچا یہ تھا کہ تم ہرقل کو جا بتاؤ گی اور پھر یوکلس کو محاذ پر نہیں جانے دوگی تو ہرقل اسے کسی اور طرح قتل کروا دے گا ۔

میں نے اس کو بچانے کا عہد کرلیا تھا تم جانتی ہو کیوں؟ ہاں میں جانتی ہوں ـــــــ لیزا نے کہا ـــــــ یوکلس تمہارا اپنا بیٹا ہے, یہ ہرقل کا بیٹا نہیں میں نے جن بیٹیوں کو جنم دیا ہے وہ ہرقل کی ہیں۔ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا ـــــــ انتھونیسس نے کہا ـــــــ یوکلسس میرا اپنا بیٹا ہے۔ہوا یوں تھا کہ لیزا نے ہرقل کی محبت سے مجبور ہوکر اس کے ساتھ شادی کر لی تھی لیکن ہرقل کا دل چند دنوں بعد ہی لیزا سے ہٹنا شروع ہوگیا تھا اس وقت انتھونیس جرنیل نہیں تھا ، وہ ہرقل کے محافظ دستے کا کمانڈر تھا، اپنے وقت کا خوبرو اور جاذب نظر جوان تھا، لیزا کو وہ اتنا اچھا لگا کہ اس کے ساتھ اس کی خفیہ دوستی ہو گئی تھی ،یوکلس اس دوستی کی پیداوار تھا، انتھونسس کا بیٹا۔بادشاہوں کی اندرونی دنیا میں یہی کچھ ہوتا ہے ـــــــ انتھونیس نے کہا ـــــــ مجھے پتہ چلا کہ ہرقل نے قسطنطین کو یا اپنے کسی اور بیٹے کو قتل کروانے کی سازش کی ہے تو میں اس میں ذرا سی بھی دلچسپی نہ لیتا لیکن یوکلس کو میں یوں قتل ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا یہ میرے خون کا مسئلہ تھا۔قسطنطین نے ہرقل کو بتایا ہوگا کہ تم نے اس کی سازش ناکام بنا دی ہے ـــــــ لیزا نے کہا کہ ہرقل تمہارا یہ جرم بخش دے گا؟ نہ بخشے! ـــــــ انتھونیس نے کہا ـــــــ میں روپوش ہو جاؤں گا ,جس روز پکڑا گیا وہ میری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ابھی یہی چھپے رہو ـــــــ لیزا نے کہا ـــــــ کہیں بھاگنا ہے تو مجھے اور یوکلس کو بھی ساتھ لے کے چلو۔ہرقل اور قسطنطین کو شکست کا کڑوا گھونٹ نکل لینے دو ـــــــ انتھونیس نے کہا ـــــــ اس کے بعد سوچوں گا مجھے کیا کرنا چاہیے۔ادھر ہرقل کی بھاگی ہوئی فوج کے عہدے دار اور سپاہی بندرگاہ تک جا پہنچے اور بحری جہاز میں سوار ہوگئے یہ جہاز انہیں مصرلے کر روانہ ہو گیا۔

امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ابھی حمص سے خاصی دور تھے کہ ابو عبیدہ کا بھیجا ہوا قاصد ان تک پہنچا ابو عبیدہ نے محاذ سے امیر المومنین کو پیغام بھیج دیا تھا کہ اللہ نے انھیں فتح سے نوازا ہے اور اب اس لشکر کی ضرورت نہیں رہی جو حضرت عمر ساتھ لا رہے تھے۔ امیرالمومنین وہیں رک گئے ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ حمص تک چلے جاتے ابھی پانچ دنوں کی مسافت باقی تھی۔ہرقل کو تو فیصلہ کن شکست دے دی گئی لیکن عیسائی قبائل جب اپنے علاقوں میں پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف مسلح بغاوت کردی۔لیزا کی ایک تاریخ تھی وہ اپنے ماضی پر اور اپنے خاندانی پس منظر پر بجا طور پر فخر کر سکتی تھی۔وہ رومی نہیں تھی بلکہ ایرانی تھی اور کسریٰ کے خاندان کی شہزادی تھی مذہبی لحاظ سے وہ آتش پرست تھی۔جب ایران اور روم برسرپیکار تھے، اور کبھی ایک کو فتح حاصل ہوتی، اور کبھی دوسرے کو، اور کبھی مصر اور شام ایرانیوں کے زیر تسلط آ جاتے، اور کبھی رومیوں کے، اس وقت لیزا کی ملاقات ہرقل کے ساتھ ہوئی تھی، لیکن یہ کوئی دوستانہ ملاقات نہیں تھی لیزا ہرقل کے لیے بڑا ہی حسین پیغام اجل بن کر آئی تھی اس نے اپنا تعارف یوں نہیں کرایا تھا کہ وہ کس طرح ایران کی شہزادی ہے ، بلکہ اس نے اپنے اغواء کا ایک ناٹک کھیلا تھا اور ایک مظلوم مغویہ بن کر ہرقل کے پاس پہنچی یا پہنچائی گئی تھی، ہرقل کو بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکی ایک تاجر کی بیٹی ہے اور قافلے سے اغوا کر کے لائی گئی ہے ہرقل اس وقت جوان تھا اور ایسے ہی ہیرو اور موتیوں کی تلاش میں رہتا تھا اس نے یہ تحفہ دل و جان سے قبول کر لیا۔شام پر ایرانی قابض ہوگئے اور ہرقل نے ایرانیوں پر جوابی حملے کرنے کے لئے روم کے بادشاہ فوکاس کا تختہ الٹ کر بالکل معزول کردیا تھا اور پھر شام پر حملہ آور ہوا تھا ۔وہ آدھا شام فتح کر چکا تھا جب یہ لڑکی اس کے پاس آئی تھی یا اسے پیش کی گئی تھی۔لڑکی کسی تاجر کی بیٹی نہیں تھی نہ اغوا ہوئی تھی، کسریٰ کی ایک سازش کے تحت لڑکی کو بڑی ہی کامیابی سے ہرقل تک پہنچا دیا گیا تھا، کسریٰ نے کہا تھا کہ وہ ھرقل کو قتل کرنا چاہتا ہے، اور ہرقل ہو گیا تو پھر رومی فوج اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہرے گی لیکن اسے قتل کس طرح کیا جائے ؟اس موقع پر اس شہزادی نے کہا کہ وہ یہ کام کر سکتی ہے۔

کسریٰ کسی طرح رضامند نہ ہوا لیکن لڑکی نے جب اپنا منصوبہ بیان کیا تو کسریٰ نے ایک سازش تیار کر لی اور مطلوبہ افراد کو بلا کر سب کچھ سمجھا دیا لڑکی کا کام یہی تھا کہ شراب میں ہرقل کو زہر پلا دے گی اور وہاں سے فرار ہو آئے گی۔اس شہزادی کو اندازہ نہیں تھا کہ جسے وہ زہر پلانے آئی ہے وہ بڑا ہی شاطر اور غیر معمولی عقل و دانش رکھنے والا بادشاہ ہے ۔ہرقل نے بڑی کامیابی سے منصوبہ بنا کر بادشاہ کا تختہ الٹ دیا تھا اور روم کے عوام اور فوج اس کے ساتھ ہو گئی تھی۔ ہرقل اس شہزادی سے اتنا متاثر ہوا کہ اس سے کہا کہ تم ایرانی حسن کا ایک بے مثال نمونہ ہو۔ شہزادی کے منہ سے نکل گیا کہ میں ہوں ہی ایرانی، ہرقل اسی سے چوکنا ہوگیا، ایرانیوں اور رومیوں کی دشمنی تو ضرب المثل بن گئی تھی۔

ہرقل نے کسی شک و شبے کا اظہار کیے بغیر شہزادی کے ساتھ ایسا پیار اور پراثر سلوک کیا جس کی اس شہزادی کو توقع نہیں تھی، ہو سکتا ہے ہرقل کو اس لڑکی پر شبہہ ہو گیا ہو اور ہرقل نے اس کی اصلیت معلوم کرنے کے لئے یطریقہ اختیار کیا ہے کہ اسے داشتہ بنانے کے بجائے محبوبہ بنا لیا اور اس کے آگے بچھنے لگا۔ایک روز شہزادی کو موقع مل گیا اور اس نے شراب میں زہر ملا بھی دیا لیکن جب شراب کا یہ پیالہ ہرقل کے آگے رکھا تو اس کا اپنا دل اس کے خلاف ہو گیا ہرقل نے پیالہ  اٹھا لیا اور جب پیالا اس کے ہونٹوں سے ایک دو انچ ہی دور رہ گیا تھا شہزادی نے جھپٹ کر پیلا اس کے ہاتھ سے چھین لیا ہرقل حیرت زدگی کے عالم میں اسے دیکھنے لگا۔میں تمہیں زہر نہیں دے سکتی شہزادی نے کہا ۔۔۔اور ہرقل کو بتا دیا کہ وہ اغواء نہیں ہوئی تھی، اور ایک منصوبے کے تحت آئی تھی ہرقل نے اسی وقت ایک خاص ایلچی کو بلایا اور کسریٰ ایران کے نام پیغام لکھوا کر اسے دیا اور کہا کہ وہ فوراً روانہ ہو جائے اور یہ پیغام کسریٰ کے ہاتھ میں جا کر دے پیغام میں لکھا کہ جس کو تم نے مجھے زہر پلانے کے لیے بھیجا تھا وہ اب میری بیوی بن چکی ہے اور یہ بھی سن لو کہ اس پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ یہ اس کی خواہش تھی جو میں نے دلی مسرت سے قبول کرلی ہے۔اگر مجھے زہر دینا ہی مقصود ہے تو ایک اور شہزادی کو بھیج دوں لیکن یہ بھی ذہن میں رکھو کہ وہ بادشاہ جو مرد میدان ہوتے ہی میدان میں آ کر لڑا کرتے ہیں اور اپنی بیٹیوں کو اپنے دشمن کے پاس نہیں بھیجا کرتے۔یہ واقعہ تاریخ کے حوالے کرنے والے مؤرخ نے لکھا ہے کہ ہرقل کا الچی پیغام لے کر چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا کسریٰ نے اسے قتل کروا ڈالا تھا۔

ہرقل نے اس شہزادی کو عیسائی بنا لیا اور اس کا نام لیزا رکھا کچھ ہی دن ہرقل کی جذباتی کیفیت یہ رہی جیسے لیزا کے حسن و جمال اور طلسماتی جوانی میں کھو گیا ہو۔ لیزا نے پہلے بچے کو جنم دیا تو ہرقل کی توجہ لیزا سے ہٹ گئی یہ پہلا بچہ یوکلس تھا جس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر بیکار تھا۔لیزا خود ہرقل جیسے شاہی خاندان کی شہزادی تھی اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ تو بادشاہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ ایک چیز ذرا سی بھی پرانی ہو جائے تو اسے پھینک دیتے ہیں اور اسی جیسی ایک اور نئی چیز لے آتے ہیں لیزا نے یوکلس کے بعد ایک بچی کو جنم دیا تو ہرقل اسے یوں نظر آنے لگا جیسے کسی سفر میں ملا تھا کچھ دور تک ہمسفر رہا اور ایک دو راہے پر اس کا راستہ لیزا کے راستے سے جدا ہو گیا تھا۔

لیزا کی جگہ ایک اور کنیز آ گئی تھی اور ہرقل اسے بھی رخصت کرنے والا تھا ،لیزا نے اپنے آپ کو کوڑے کباڑے کی کوئی چیز نہ سمجھا وہ آخر شاہی خاندان کے فرد کی محلاتی سازشوں سے خوب واقف تھی، اس کی ماں ایسی ہی ایک سازش کا شکار ہوئی تھی ،اور اس نے ایسا ہی شکار کھیلا بھی تھا، لہذا ایک سے بڑھ کر ایک کارآمد اور تباہ کن سازش سوچ سکتی تھی اور اس پر عمل کروانا بھی جانتی تھی۔وہ ہرقل کے دماغ پر سوار رہی اور ہرقل اسے نظر انداز نہ کر سکا بلکہ ہرقل کے دل میں اس کا کچھ ڈر بھی پیدا ہو گیا ، یہ تھی یوکلس کی ماں جو اسے ہرقل کا جانشین بنوانا چاہتی تھی لیکن ہرقل نے اپنے دوسرے بیٹے قسطنطین کو جانشین بنا دیا تھا۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ اس وقت جابیہ کے مقام تک پہنچ چکے تھے جب انہیں ابوعبیدہ کا پیغام ملا کہ رومیوں کو فیصلہ کن شکست دے دی گئی ہے۔امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے وہیں سے مدینہ کو واپسی کا ارادہ کرلیا پہلے سنایا جاچکا ہے کہ امیرالمؤمنین اپنے ساتھ ایک لشکر لے کر گئے تھے لیکن اب اس لشکر کی ضرورت نہیں رہی تھی المومنین کی مدینہ سے لمبی غیر حاضری مناسب نہیں تھی، لڑائی صرف حمص اور اس کے گردونواح میں ہی نہیں لڑی جا رہی تھی، بلکہ ادھر ایران کی فتح ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کسریٰ ایران کی فوجوں کو شکست دی جا چکی تھی اور اب قبضہ مکمل کیا جا رہا تھا اور مفتوح علاقوں کا انتظام اور محصولات وغیرہ کا نظام رواں کرنے کی مہم جاری تھی۔ مجاہدین کے لشکر دور دور تک پھیل گئے تھے اور ان کے قاصد مدینہ پہنچتے رہتے تھے۔ احکامات اور ہدایت جاری کرنے کے لئے امیر المومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو مدینہ میں ہی رہنا چاہیے تھا۔حضرت عمر جابیہ سے ابھی واپسی کے سفر پر روانہ نہیں ہوئے تھے روانگی کی تیاری ہو رہی تھی کہ ابو عبیدہ کا ایک اور قاصد آ گیا یہ قاصد امیر المومنین سے ایک فیصلہ لینے آیا تھا۔ صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ ابو عبیدہ نے مدینہ قاصد بھیجا تھا کہ امیر المومنین سے کہے کہ حمص بڑے سخت خطرے میں آگیا ہے جس کے لیے کمک کی ضرورت ہے ۔

حضرت عمر نے کمک کے جو انتظامات کیے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا تھا کہ قعقاع بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر فورا حمص روانہ کر دے۔قعقاع بن عمرو برق رفتار پیش قدمی اور چیتے کی طرح دشمن پر جھپٹنے میں خصوصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ کوفہ سے چارکمک ہزار لے کر بگولے کی طرح حمص کو روانہ ہوگئے تھے، لیکن ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ رومیوں پر حملہ کرکے انہیں شام کی سرحد سے نکال دیا گیا اور اس طرح انہیں فیصلہ کن شکست دے دی گئی۔قعقاع اس وقت حمص پہنچے جب یہ فتح مکمل ہوچکی تھی، اس وقت کا قومی اور ذاتی کردار قابل توجہ ہے۔ابو عبیدہ نے محسوس کیا کہ مال غنیمت کی تقسیم میں قعقاع بن عمرو اور ان کے سالاروں کا حصہ بھی ہونا چاہیے ، لیکن وہ تو اس لڑائی میں شامل ہی نہیں تھے، اس لئے ابوعبیدہ خود یہ فیصلہ نہ کر سکے اور انہوں نے فوراً قاصد امیرالمومنین کی طرف جابیہ دوڑا دیا کہ یہ فیصلہ لائے کہ قعقاع اور ان کے سارے لشکر کو مال غنیمت کا حصہ دیا جائے یا نہیں۔امیرالمومنین نے جو تاریخی فیصلہ دیا وہ قاصد کو لکھوا کر ابوعبیدہ کے نام بھیجا اس فیصلے کے الفاظ آج بھی تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں ۔انہوں نے لکھا ـــــــاہل کوفہ کو مال غنیمت میں اتنا ہی شریک سمجھا جائے جتنا لڑنے والے مجاہدین شریک ہیں ،قعقاع اور اس کے مجاہدین اس پہلو سے مال غنیمت کے حقدار بنتے ہیں کہ ان کی آمد کی خبر رومیوں تک پہنچی تو رومی مرعوب ہوئے، اور یہ بھی ایک وجہ تھی کہ رومیوں نے شکست کھائی اللہ کوفہ والوں کو جزائے خیر دے کہ وہ اپنے مفتوحہ علاقے کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں مدد کیلئے بھی پہنچتے ہیں۔امیر المومنین نے قعقاع بن عمرو اور ان کے سواروں کو اہل کوفہ لکھا ہے ۔

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حمص کی طرف کمک لے کر جا رہے تھے تو انہوں نے کئی ایک جاسوس الجزیرہ کے عیسائی قبائل میں بھیج دیے تھے اور رومی علاقے میں بھی جاسوس بھیجے تھے انہیں یہ کام سونپا گیا تھا کہ دشمن کے علاقے میں یہ دہشت پھیلا دیں کہ ابو عبیدہ کے لیے عراق سے بھی مدینہ سے بھی اور کئی اور جگہوں سے بھی اتنی کمک آ رہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے طاقتور دشمن کو کچل دے گی۔یہ ایک نفسیاتی حملہ تھا جو امیر المومنین نے کیا تھا اس کا سب سے زیادہ اثر عیسائی قبائل پر پڑا تھا اور وہ رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے تھے۔امیرالمومنین یہ بھی جانتے تھے کہ قعقاع بن عمرو پیش قدمی کس طرح کیا کرتے ہیں، ان وجوہات کی بنا پر امیرالمومنین نے قعقاع بنعمرو اور ان کے چار ہزار سواروں کو مال غنیمت میں سے پورا پورا حصہ دلوایا۔پہلے ایک باب میں بیان ہوچکا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کون کون سے سالار کو الجزیرہ کا کون کون سا علاقہ دیا تھا اور یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ ان عیسائی قبائل کو چین نہ لینے دیا جائے جو رومیوں کی مدد کو تیس ہزار کی تعداد میں پہنچے تھے۔ یہ سالار اس حکم کے مطابق ان علاقوں میں پہنچ گئے تاکہ یہ قبائل سر نہ اٹھا سکیں، اور کہیں ایسا نہ ہو کہ پیٹھ پیچھے سے وار کر جائیں۔امیرالمومنین نے یہ سارا محاذ مضبوط کر دیا اور جب دیکھا کہ رومیوں کو شام سے ہمیشہ کے لئے بے دخل کر دیا گیا ہے تو جابیہ سے واپسی کے سفر کو روانہ ہو گئے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

یہ اسلامی فتوحات تھیں، جو بلا شک و شبہ قابل فخر تھی لیکن فتوحات کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا تھا کہ اس کے مطابق مجاہدین کی تعداد قلیل تھی، یہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور سپہ سالاروں کی عقل و دانش کا کرشمہ تھا کہ اسی قلیل نفری کو ایسا پھیلا دیا کہ فتوحات کی وسعت قابو میں رہی۔تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فتح بظاہر مکمل تھی لیکن سانپ ابھی مرا نہیں تھا ہرقل بزنطیہ  سے نکل گیا تھا اس کا رخ ارض روم کی طرف تھا۔تاریخ سے یہ پتہ نہیں ملتا کہ ہرقل کہاں جا ٹھہرا تھا ۔تاریخ میں ارض روم لکھا ہے ، شام سے کچھ آگے روم کا علاقہ شروع ہوجاتا تھا ہرقل خود کو تو شکست قبول کرکے چلا گیا تھا، لیکن اس کا کچھ زہر پیچھے رہ گیا تھا مسلمان مؤرخین نے اس پہلو پر کچھ بھی نہیں لکھا ،تین یورپی مؤرخوں کی تفصیلات ملتی ہے جو ایک اور ڈرامے سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ مسلمانوں پر جوابی حملے کی ایک کوشش تھی۔شکست خوردہ رومی فوج کا کمانڈر یعنی سپہ سالار ہرقل کا اپنا بیٹا قسطنطین تھا وہ بھی بوکھلا کر بھاگا اور بزنطیہ جانے کے بجائے اس نے انطاکیہ کا رخ کر لیا تھا اسے توقع تھی کہ ہرقل انطاکیہ میں ہی ہوگا اور وہاں سے وہ مصر کو روانہ ہوجائے گا، لیکن راستے میں اسے پتہ چلا کہ ہرقل اس وقت نہ بزنطیہ میں ہے نہ انطاکیہ میں بلکہ ایک اور جگہ جا پہنچا ہے قسطنطین اس طرف چلا گیا اور اپنے باپ سے ملا۔

محترم باپ! ـــــــ قسطنطین نے خفت مٹانے کے انداز سے کہا ـــــــ مجھے دلی صدمہ ہے کہ میں آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترا لیکن اس سے پہلے کہ آپ شکست کا الزام مجھ پر عائد کریں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ شکست کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ہرقل کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی وہ چپ چاپ قسطنطین کو دیکھتا رہا۔اگر الجزیرہ کے قبائل ہمارے ساتھ رہتے تو آج ہم یوں پسپا نہ ہوتے قسطنطین نے کہا ـــــــ انہیں یوکلس نے بھگایا تھا یہ تو آپ کو بھی یقین ہے، لیکن لڑائی کے دوران ایک اور بڑا ہی خطرناک غدار سامنے آیا ہے، وہ ہے ہمارا ایک جرنیل آنتھیونیس، اس نے میری آنکھوں کے سامنے دو تجربے کار کمانڈروں کو قتل کیا ہے۔ ہرقل جو پہلے نیم بیداری کی سی کیفیت میں تھا یک لخت بیدار ہو گیا۔ہمارے اس جرنیل نے ان دو کمانڈروں کو قتل کیا ہے ،جنہیں ہم نے یوکلس کو قتل کرنے کا کام سونپا تھا ـــــــ قسطنطین نے کہا ـــــــ میں خود دیکھ رہا تھا یوکلس الگ ہو کر لڑائی میں شامل ہو گیا تھا ،اور دونوں کمانڈر ہماری ہدایت کے عین مطابق اس  تک پہنچ گئے، انتھیونیس  کچھ دور تھا اس نے یوکلس کی طرف گھوڑا دوڑایا دیا ایک کمانڈر یوکلس پر تلوار کا وار کرنے ہیں لگا تھا کہ پیچھے سے انتھیونیس نے اس کمانڈر پر تلوار کا زوردار وار کر کے اسے گھوڑے سے گرا دیا، ہمارا دوسرا کماندر اپنے گھوڑے کو یوکلس کے گھوڑے سے آگے کرکے روک رہا تھا لیکن انتھیونیس نے وار کر کے اسے بھی قتل کر دیا ۔میں وہاں سے چلا گیا انتھیونیس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم یوکلس کو قتل کروا رہے ہیں ۔

پھر اس نے ان دونوں کمانڈروں کو کیوں قتل کیا صرف اس لئے کہ وہ اپنی فوج کو کمزور کر رہا تھا تاکہ ہمیں شکست ہو۔ میں نے لڑائی کی صورتحال کے مطابق انتھیونیس کی طرف قاصد دوڑایا کے اپنے دستے کو فلاں طرف لے جا کر مسلمانوں پر حملہ کرے لیکن قاصد اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر واپس آگیا نہ اسے انتھیونیس ملا نہ یوکلس یہ کیا  کھلی غداری نہیں؟ وہ اس وقت ہونگے کہاں؟ ـــــــ ہرقل نے پوچھا۔میں یہ بھی معلوم کر آیا ہوں ـــــــ قسطنطین نے جواب دیا ـــــــ وہ دونوں بزنطیہ چلے گئے تھے ۔وہاں جاتے دیکھے گئے ہیں۔ہرقل پہلے ہی صدمے اور غصے سے نیم پاگل ہو چکا تھا اس نے اپنے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلایا اور بڑی ہی گرجدار آواز میں حکم دیا کہ ابھی بزنطیہ جاؤ اور جرنیل انتھیونیس کو زنجیروں یا رسیوں سے باندھ کر یہاں لے آؤ۔سورج کب کا غروب ہو چکا تھا اور رات گہری ہوگئی تھی محافظ دستے کا کمانڈر آٹھ یا دس محافظوں کو ساتھ لے کر بزنطیہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔بزنطیہ تک پہنچنے کے لیے تین چار گھنٹے درکار تھے ہرقل کا حکم تھا کہ اس جرنیل کو فوراً لایا جائے محافظوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے سرپٹ دوڑتے گئے۔

آدھی رات سے کچھ پہلے یہ محافظ سوار بزنطیہ پہنچے۔ بزنطیہ ایک مضبوط قلعہ تھا اور قلعے کے دروازے سورج غروب ہوتے ہی بند کر دیے جاتے تھے ، لیکن اب بزطیہ کے دروازے کھلے تھے کیونکہ ہرقل نے یہ شہر خالی کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ کماندر کو انتھونیس کے گھر کا علم تھا اس گھر پر چھاپہ مارا لیکن مکان خالی پڑا تھا اور گھر میں کوئی بھی نہیں تھا، ابھی کئی لوگ شہر میں موجود تھے کماندار نے ساتھ والے تین چار مکانوں پر دستک دے کر سب کو جگایا اور انتھونیس کے متعلق پوچھا ـــــــ انہوں نے بتایا کہ انتھیونیس کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ شہر سے نکلتے دیکھی گئی تھی لیکن انھتیونیس کہیں نظر نہیں آیا۔اس وقت انتھونیس بزنطیہ سے پورے ایک دن کی مسافت جتنا دور نکل گیا تھا ، یوکلس بھی اس کے ساتھ تھا اور یوکلس کی ماں لیزا بھی۔ تینوں گھوڑے پر سوار تھے اور چوتھے گھوڑے پر انہوں نے کھانے پینے کا سامان اور کچھ ضروری اشیاء لاد لی تھی ان تک کسی کا پہنچنا ممکن نہیں رہا تھا۔محافظ دستے کے کمانڈر نے واپس جاکر بتایا کہ انتھونیس کا گھر خالی ہے اور اس کے بیوی بچے بھی لاپتہ ہیں ۔قسطنطین نے یہ سنتے ہی کہا کہ وہ غدار اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر کہیں بھاگ گیا ہے۔ ہرقل پہلے ہی غصے سے بوکھلایا ہوا تھا۔

 اس نے حکم جاری کردیا کہ یہ جرنیل جہاں کہیں نظر آئے اسے پکڑ کر اس کے سامنے لایا جائے۔اور دوسرے غدار یوکلس کے متعلق کیا حکم ہے ؟قسطنطین نے ہرقل سے پوچھا ـــــــاب میں اسے معاف نہیں کرسکتا ہرقل نے کہا ـــــــ اس کا اب خاتمہ ہی کرنا پڑے گا اور اگر اس کی ماں نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو میں اسے بھی دنیا سے اٹھا دوں گا۔ پورا ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے میں تو اپنے آپ کو بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔قسطنطین نے ہرقل کو اکسا دیا کہ یوکلس کو گرفتار کرلیا جائے، خفیہ طور پر وہ جہاں کہیں بھی ہے قتل کروا دیا جائے۔وہ لڑائی میں ہی نہ گئے ہوں ہرقل نے کہا ـــــــوہ تو لڑے ہی نہیں قسطنطین نے کہا ـــــــ میں معلوم کروا چکا ہوں وہ بہت پہلے میدان جنگ سے نکل گئے تھے۔آخر ہرقل نے یہ فیصلہ بھی دے دیا کہ یوکلس کو قتل کروا دیا جائے، قسطنطین اس فیصلے پر بہت خوش ہوا اور اس نے ہرقل سے کہا کہ وہ یہ کام خود کروائے گا، وہ باہر نکلا اور اپنے اعتماد کے دو فوجی کمانڈروں کو بلا کر کہا کہ وہ یوکلس کو ڈھونڈے اور بتائیں کہ وہ کہاں ہے اور پھر وہ انہیں بتائے گا کہ انہیں کیا کرنا ہے دونوں کمانڈر حکم لے کر یوکلس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

رومی فوج اپنی بے انداز لاشیں اور شدید زخمیوں کو میدان جنگ میں چھوڑ کر پسپا ہو گئی تو مجاہدین نے مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کردیا سپہ سالار ابوعبیدہ نے یہ یقین کر لیا کہ اب دشمن کی طرف سے جوابی حملے کا کوئی امکان نہیں رہا تو وہ حمص واپس چلے گئے ،اس کے فوراً بعد حمص میں رومیوں کے ہتھیاروں کا انبار لگنے لگا اور جو مال غنیمت ملا تھا وہ سپہ سالار کے آگے رکھا جانے لگا۔یہ کوئی معمولی فتح نہیں تھی اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو سرزمین عرب سے بے دخل کر دیا گیا تھا ہر کوئی جشن منانے کے موڈ میں تھا مجاہدین کی بیویاں بہنیں اور بیٹیاں زخمیوں کو اٹھانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے لیے میدان جنگ میں چلی گئی تھیں۔ شارینا بھی ادھر ہی جا رہی تھی کہ ایک آدمی نے اسے روک کر کہا کہ روم کی فوج کا وہ افسر جسے ایک کمرے میں نظربند رکھا ہوا ہے اسے بلا رہا ہے۔ وہ روتاس تھا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اسے کس طرح حدید اور شارینا اس کے دو سپاہیوں کو ہلاک کرکے اسے پکڑ لائے تھے، اور اس سے ابو عبیدہ نے معلوم کر لیا تھا کہ رومی فوج کہاں ہے اور ہرقل کی اگلی کارروائی کیا ہوگی روتاس نے جنگی نوعیت کی کچھ باتیں بتا دی تھی اور جو راز اس نے نہیں اگلا تھا وہ شارینا نے بڑے خوبصورت دھوکے سے اس کے سینے سے نکال لیا تھا۔ شارینا نے ہی اسے قید خانے کے بجائے ایک بڑے اچھے رہائشی کمرے میں رکھو آیا تھا۔ سپہ سالار ابوعبیدہ نے اس کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ رومی فوج کو شکست دے دی گئی تو اسے رہا کر دیا جائے گا۔شارینا تو اسے بھول ہی چلی تھی، روتاس نے ایک ملازم کو بھیج کر شارینا کو بلایا تو شارینا فوراً اس کے پاس پہنچی۔ معلوم ہوتا ہے سپہ سالار اپنا وعدہ بھول گیا ہے ۔روتاس نے شارینا سے کہا ـــــــ کیا تم اسے میری رہائی کا وعدہ یاد نہیں دلاؤں گی۔ سپہ سالار آج ہی واپس آیا ہے شارینا نے کہا ـــــــ میں ابھی اس کے پاس جا کر تمہاری رہائی کا حکم لے آتی ہوں۔روتاس کے دل پر قبضہ کرنے کے لئے شارینا اسے یہ تاثر دیتی رہی تھی کہ وہ ایک مسلمان کے ساتھ شادی کر بیٹھی ہے لیکن یہاں نہیں رہے گی اور اپنے خاوند حدید کو اپنے ساتھ لے کر ہرقل کے پاس واپس چلی جائے گی۔ اب روتاس نے اس سے کہا کہ وہ اسکے ساتھ چلے گی یا کیا کرے گی ۔اور وہ اس نے اسے کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلی گئی یا کیا کرے گی۔ میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکوں گی شارینا نے کہا ـــــــ اب صورت بالکل ہی مختلف ہو گئی ہے ہرقل نہ جانے کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے اور اس کی فوج کا تو وجود ہی نہیں رہا، میں حدید کو ساتھ لے کر جاوں گی کہاں؟ تمہیں یہاں سے نکلوا دونگی اور جب کبھی موقع ملا میں بھی آ جاؤ گی۔ شارینا  سپہ سالار ابوعبیدہ سے جا ملی اور انھیں روتاس کی رہائی کا وعدہ یاد دلایا۔ ابو عبیدہ نے اسی وقت روتاس کو اپنے پاس بلوایا روتاس عربی نہیں جانتا تھا اور ابوعبیدہ اس کی زبان نہیں سمجھتے تھے، شارینا دونوں زبانیں سمجھتی اور بولتی تھی وہ ان کے درمیان ترجمان بن گئی۔

شارینا بیٹی !۔۔۔ابوعبیدہ نے کہا ۔۔۔اسے کہو کہ فتح اور شکست اللہ کے اختیار میں ہے اس لئے ہم سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اس کے بعد ہم اس کے مشکور اور ممنون ہوتے ہیں جس نے ہماری فتح کے لئے ذرا سا بھی تعاون کیا ہو میری طرف سے روتاس کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے ہمارے ساتھ تعاون کیا تھا جس نے ہمیں اس فتح میں مدد دی ،میں اسے کوئی تحفہ دے کر رخصت کرنا چاہتا ہوں۔ سپہ سالار ابوعبیدہ باہر نکل گئے شارینا نے روتاس کو اپنی زبان میں بتایا کہ سپہ سالار نے کیا کہا ہے ـــــــ اور یہ بتایا کہ سپہ سالار اسے کوئی تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ روتاس یہ کہہ ہی رہا تھا کہ اس کے لیے یہی تحفہ بہت ہی قیمتی ہے کہ اسے باعزت طور پر رہا کیا جا رہا ہے، کہ سپہ سالار ابوعبیدہ واپس آگئے۔  ان کے ہاتھ میں ایک صلیب تھی جو بمشکل چھ انچ لمبی تھی اس پر حضرت عیسی علیہ السلام کا مصلوب بت بھی تھا صلیب تو لکڑی کی تھی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کا بت سونے کا تھا۔

 یہ عیسائی ہے ابوعبیدہ نے کہا ـــــــ میں اسے اس کے مذہب کے مطابق تحفہ دے رہا ہوں یہ صلیب ایک مرے ہوئے رومی فوجی افسر کے پاس تھی یہ میرے پاس مال غنیمت کے طور پر آئی ہے اسے بتاؤ کہ سپہ سالار کو اتنا اختیار حاصل نہیں ہوتا کہ وہ مال غنیمت میں سے ایک ذرہ بھی اپنی مرضی سے لے کر خود رکھ لے یا کسی کو دے دے لیکن اس شخص نے ہماری جو مدد کی ہے اس کا صلہ میں اپنے امیرالمومنین کی طرف سے اور اپنے تمام مجاہدین کی طرف سے دے رہا ہوں۔ ابو عبیدہ نے یہ صلیب روتااس کو دے دی، اور شارینا سے کہا ۔۔۔کہ باہر سے کسی نائب سالار یا کماندار یا عہدیدار کو میرے پاس لے آئے۔ شارینا باہر گئی اور ایک ذمہ دار مجاہد کواپنےساتھ لےآئی۔ سپہ سالار ابوعبیدہ نے اسے کہا کہ اس رومی افسر کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور اسے جو گھوڑا پسند آئے اس پر زین وغیرہ ڈال کر اسے دے دو ،اور کسی ایک مجاہد کو اس کے ساتھ بھیجو جو اسے میدان جنگ سے کچھ آگے تک چھوڑ آئے۔ ابوعبیدہ نے یہ انتظام یہ سوچ کر کیا تھا کہ مجاہدین اسے رومی سمجھ کر پکڑ نہ لیں۔ سپہ سالار کا میری طرف سے شکریہ ادا کروں شارینا روتاس نے کہا۔۔۔ مجھے آج پہلی بار معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا کردار کس قدر بلند اور قابل تعریف ہے میں اب سمجھا ہوں کہ اسلام کیوں اتنی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ انہیں یہ بھی کہوں کہ میں اس جنگ و جدل کو بھول جاؤں گا ملک شام کو بھی بھول جاؤں گا لیکن سپہ سالار کا حسن سلوک کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ روتاس نے سپہ سالار ابوعبیدہ کے ساتھ ہاتھ ملایا اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر رومی انداز سے سیلوٹ کیا اور باہر چلا گیا۔

 وہاں گھوڑوں کی کوئی کمی نہیں تھی ان رومیوں کے سیکڑوں گھوڑے پکڑے گئے تھے جو مارے گئے تھے یا شدید طور پر زخمی ہوگئے تھے۔ روتاس نے ایک اعلی نسل کا نہایت تندرست گھوڑا پسند کیا جو اس کی اپنی ہی فوج کے کسی مرے ہوئے سوار کا تھا وہ اس گھوڑے پر سوار ہوا اور ایک مجاہد اس کے ساتھ چلا گیا حمص سے کچھ دور جا کر اسنے اپنی فوج کی بکھری ہوئی لاشیں نظر آنے لگی ،وہ ان لاشوں کو دیکھتا اور اس احتیاط سے گھوڑے کو دائیں بائیں کرتا آگے بڑھتا گیا کہ گھوڑے کا پاؤں کسی لاش یا بے ہوش زخمی پر نہ آجائے۔  تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ اپنی فوج کی اتنی زیادہ خون میں نہائی ہوئی لاشیں دیکھ کر اس کی جذباتی کیفیت کیا ہوئی ہوگی، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس نے گھوڑا روک لیا اور اپنے ساتھ آنے والے مجاہد سے ہاتھ ملایا اور اشارے سے کہا کہ وہ اب واپس چلا جائے۔ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور گھوڑا دوڑ پڑا اور اس نے نہ دیکھا کہ گھوڑا لاشوں پر پاؤں رکھ کر دوڑ رہا ہے یا نہیں۔ سورج غروب ہو رہا تھا روتاس کا رخ بزنطیہ کی طرف تھا وہ جب میدان جنگ سے دور نکل گیا تو گھوڑے کی رفتار کم کر دی، تاکہ یہ تھک نہ جائے ۔

اس کی منزل ابھی خاصی دور تھی۔ اسے خیال آیا کہ وہ بزنطیہ جا رہا ہے لیکن ہرقل یا اس کا کوئی جرنیل اس سے پوچھے گا کہ وہ اتنا عرصہ کہاں رہا ہے تو کیا جواب دے گا وہ پہلے ہی اپنی فوج کی شکست سے دلبرداشتہ تھا صدمے کا بوجھ اس کے دل پر ایسا پڑا تھا کہ وہ کوئی صحیح فیصلہ نہ کر سکا اسے خطرہ یہ محسوس ہونے لگا کے اس کی صحت اور جسمانی حالت اتنی اچھی ہے کہ کوئی مانے گا ہی نہیں کہ وہ مسلمانوں کی قید سے رہا ہوکر آیا ہے ۔قیدی کے ساتھ کوئی ایسا اچھا سلوک نہیں کیا کرتآ کہ اسے معزز مہمان سمجھا جائے ۔اس کے ساتھ ہی اسے اس جرم کا احساس پریشان کرنے لگا کہ اس نے مسلمانوں کے سپہ سالار کو راز کی باتیں بتا دی تھیں،  وہ ہرقل کو بھی جانتا تھا ہرقل فرعون قسم کا بادشاہ تھا جو سزائے موت سے کم بات ہی نہیں کرتا تھا ۔روتاس تذبذب میں مبتلا ہوگیا اور اس کے ذہن میں ایک کشمکش شروع ہوگئی جو اذیت ناک ہوتی چلی گئی اس نے اپنی جیب سے وہ صلیب نکالی جو اسے سپہ سالار ابوعبیدہ نے تحفے کے طور پر دی تھی ، شام ابھی گہری نہیں ہوئی تھی کچھ دور تک نظر کام کرتی تھی اس نے صلیب پر مصلوب حضرت عیسی علیہ سلام کا بت دیکھا۔

 کہاں جاؤ؟ ـــــــاس نے بت سے پوچھا ـــــــ یسوع مسیح !میری رہنمائی کریں مجھے اس راستے پر ڈال دیں جو مجھے بھلائی اور روحانی اطمینان کی منزل تک پہنچا دے۔ اس نے بت کو آنکھوں سے لگایا ،ہونٹوں سے لگایا ،پھر جیب میں ڈال لیا اور گھوڑے کی لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا گھوڑا چل پڑا لیکن روتاس نے گھوڑے کا رخ بائیں طرف موڑ دیا۔ اس نے بزنطیہ کو ذہن سے نکال پھینکا تھا اس نے کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا تھا کہ آخر جائے گا کہاں؟ یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بزنطیہ نہیں جائے گا اور ہرقل کا سامنا نہیں کرے گا۔ روتاس ہرقل کی جاسوسی کے شعبے کا افسر تھا شام کے چپے چپے سے اور مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں سے اچھی طرح واقف تھا اسے معلوم تھا کہ وہ جس طرف چل پڑا ہے ادھر عیسائی قبائل رہتے ہیں، سوچ سوچ کر وہ اس فیصلے پر پہنچا کہ کسی قبیلے میں جاپناہ لے گا اور پھر سوچے گا کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے۔

ادھر انتھونیس، یوکلس اور اس کی ماں لیزا کو ساتھ لئے بڑی تیز رفتاری سے چلا جا رہا تھا وہ اتنی دور نکل گئے تھے کہ اب ان کو کوئی خطرہ نہیں رہا تھا پھر بھی وہ لوگ کہیں روک نہیں رہے تھے، حالانکہ رات گہری ہو گئی تھی اور ان کے گھوڑے ان کے بوجھ تلے دن بھر دوڑتے اور چلتے رہے تھے ، راستے میں لیزا نے انتھونیس سے تین چار مرتبہ پوچھا تھا کہ آخر وہ انہیں کہاں لے جا رہا ہے؟ انتھونیس نے ہر بار یہی کہا تھا کہ آگے چل کر بتاؤں گا۔رات گزرتی چلی جا رہی تھی اور اب وہ ہرے بھرے علاقے میں پہنچ گئے تھے ،جہاں سرسبز اونچی نیچی ٹیکریاں زیادہ تھیں، چاند اوپر آ رہا تھا ایک موزوں جگہ دیکھ کر انتھونیس رک گیا ،اور گھوڑے سے اترا اس نے بتایا کہ رات گزارنے کے لئے یہ جگہ ٹھیک ہے۔انہوں نے چوتھے گھوڑے سے کھانے پینے کا سامان نکالا اور کھانے بیٹھ گئے، ہم اپنی جانیں تو بچا لائے ہیں کھانے کے بعد لیزا نے کہا۔۔۔ اب ہمیں کہیں روپوش ہونا ہے تم جانتے ہو انتھونیس! میں کسریٰ خاندان کی شہزادی تھی یہاں میں ہر قل کے یہاں کسی اور مقصد کے لئے آئی تھی لیکن ہو کچھ اور گیا ۔میں وہاں بھی نہیں جا سکتی مجھے عام لوگوں جیسی زندگی گزارنی پڑے گی۔اور مجھے آپ اپنے ساتھ کیوں لائے ہیں یوکلس نے کہا ـــــــ میں تو قسطنطین کو قتل کرنا چاہتا تھا میں شاید اپنے باپ ہرقل کو بھی قتل کر دیتا آپ مجھے یہیں سے واپس جانے دیں، وہ بزدلوں اور فریب کاروں کی طرح مجھے قتل کروا رہے تھے میں ان کے سامنے جاکر اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قتل کروں گا۔اب کوئی ایسی ضرورت نہیں۔۔۔ انتھونیس نے کہا۔۔۔ اب ایک اور بادشاہی وجود میں آئے گی میں اس کی بنیاد رکھوں گا فارس اور روم کی بادشاہیت ختم ہو چکی ہے، اب زمین پر ایک اور بادشاہی نمودار ہوگی جو ایران کی نہیں ہوگی، نہ روم کی یہ صلیب اعظم کی بادشاہی ہو گی جو ساری دنیا پر پھیلے گی، ہرقل کے پاس صرف مصر رہ گیا ہے یا ارض روم میں اسے مصر سے نکال کر ارض روم میں محدود کر دوں گا۔انتھونیس! ـــــــ لیزا نے کہا ـــــــ تم بہت تھک گئے ہو ، تم پر یہ خواب بھی غالب ہے کہ پکڑے گئے تو ہرقل قتل کروا دے گا سو جاؤ آرام کرو دماغ ٹھکانے آجائے گا تم بیداری میں خواب دیکھ رہے ہو۔

نہیں لیزا! ـــــــ انتھونیس نے کہا ـــــــ میں تھکا ہوا بھی نہیں اور میں ڈرا ہوا بھی نہیں ،اتنا بیدار میں کبھی نہیں ہوا تھا جتنا اب، تم خواب کی بات کرتی ہوں میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کس حقیقت پر یہ ارادے باندھ رہا ہوں ،الجزیرہ کے یہ عیسائی قبائل میری فوج ہوگی کیا تم نے دیکھا نہیں تھا کہ یہ لوگ کس طرح تیس ہزار کا لشکر ہرقل کے پاس لے کر پہنچ گئے تھے ،اگر ہرقل ان پر اپنا اعتماد بٹھا دیتا تو تیس ہزار کا ایک اور لشکر آ سکتا تھا ،لیکن ہرقل پر اور ہرقل کی فوج پر ان قبائلیوں کو بھروسہ نہیں تھا یہ لوگ عیسائی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں ، میں انہیں جانتا ہوں یہ لوگ اسلام کے آگے دیوار کھڑی کرنے کو بے تاب ہیں میں انہیں اعتماد میں لونگا ،لیکن اب ہماری منزل کیا ہوگی؟ ۔۔۔لیزا نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔۔۔ انتھونیس نے کہا ۔۔۔اس ملک کے شام پر ہماری حکومت رہی ہے میں سارے ملک میں گھوما پھرا ہوں الجزیرہ میں تو میں بہت عرصہ رہا ہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کو صرف جانتا ہی نہیں بلکہ بعض کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات ہیں، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ان میں کون کون سے قبیلے زیادہ طاقتور ہیں، میں ان میں سے کسی ایک کے پاس جا رہا ہوں مجھے پوری امید ہے کہ یہ لوگ مجھے مایوس نہیں کریں گے ، یہ تو خوش ہونگے کہ انھیں ایک تجربے کار جرنیل مل گیا ہے، میں انہیں ایک فوج کی صورت میں منظم کر لوں گا اور ان کی تربیت اسی طرح کروں گا جس طرح ہم اپنی فوج کی کرتے تھے۔

انتھونیس نے جن دو عیسائی قبیلوں کی طرف اشارہ کیا تھا ان میں ایک تھا بنی ربیعہ ، دوسرا تھا بنی تنوع،  تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دو قبیلے انفرادی قوت اور مالی لحاظ سے بہت طاقتور تھے، اور دیگر چھوٹے بڑے قبائل انہیں اپنا لیڈر مانتے تھے، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یہ اطلاع ملی تھی کہ الجزیرہ کے عیسائی قبائل تیس ہزار لشکر کی صورت میں ہرقل کے پاس بزنطیہ میں پہنچ گئے ہیں، تو امیر المومنین نے پہلی بات کہی تھی کہ میں جانتا ہوں ان قبائل کی قیادت بنی ربیعہ اور بنی تنوخ کر رہے ہیں۔ امیرالمومنین نے ایک حکم یہ دیا تھا کہ ان دونوں قبیلوں کی بستیوں کو تباہ وبرباد کر دو تاکہ یہ آئندہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ کیونکہ یہ دو قبیلے جنگ و جدل کے شوقین بھی تھے اور یہ ان کی روایت بھی تھی۔ایسا طاقتور تیسرا قبیلہ بنو ایاد تھا یہ قبیلہ بھی طاقتور تھا لیکن اس قبیلے میں کچھ ایسے دانشمند بھی تھے کہ وہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کر لیتے تھے اور اپنے مفاد کی خاطر جھک بھی جایا کرتے تھے۔ یہ تینوں قبیلے حلب کے گردونواح میں رہتے تھے اور دوسرے قبائل الجزیرہ میں پھیلے ہوئے تھے۔یہ تھی ایک اور طاقت جو مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی تھی، یہ اس لئے خطرناک ہیں کہ اس کا کسی کو علم ہی نہیں تھا اور ایسی خفیہ کے اسے جاسوس بھی ابھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔تم جرنیل ہو انتھونیس! یقیناً مجھ سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہو ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ لیکن میں بھی کچھ جانتی ہوں جن مسلمانوں کا مقابلہ اتنی طاقتور فوج نہیں کر سکی ان کے مقابلے میں یہ غیر تربیت یافتہ قبائل کیسے لڑیں گے، یہ لوگ بغاوت کر سکتے ہیں اور ہرقل نے انہیں مسلمانوں کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے کہا بھی تھا۔میں جرنیل ہوں لیزا ـــــــ انتھونیس نے کہا ـــــــ میں فوجوں کی خوبیاں اور خامیاں سمجھتا ہوں مسلمانوں نے ملک شام فتح تو کر لیا ہے لیکن وہ اس قدر تھک چکے ہیں کہ یہاں سے آگے بڑھے تو ان کا دم خم ختم ہوجائے گا ،ان کے مقابلے میں قبائل تازہ دم ہیں ،ابھی تک وہ کہیں بھی نہیں لڑے ذاتی بہادری اور لڑنے کا جذبہ کافی نہیں ہوتا یہ اہلیت اور صلاحیت ان قبائلیوں میں ہے، انہیں ایک جرنیل کی ضرورت ہے اور میں ان کی یہ ضرورت پوری کرو نگا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

رومی جرنیل انتھونیس نے غلط نہیں کہا تھا کہ مسلمان تھک چکے ہیں لیکن مسلمانوں کے امیرالمومنین ،سپہ سالار، اور دیگر سالار دماغی طور پر زندہ و بیدار اور تروتازہ تھے، وہ دشمن کی طرف سے بے خبر ہو کر آرام کرنے بیٹھ نہیں گئے تھے یا مال غنیمت لوٹنے میں نہیں لگ گئے تھے، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب جابیہ سے مدینہ کو واپس چلے تھے تو یہ حکم آگے بھیج کر چلے تھے کہ جن سالاروں کو مختلف علاقے دیے گئے ہیں ان علاقوں کی بستیوں پر اور چھوٹی بڑی قلعہ بندیوں پر حملے شروع کردیں۔

یہ علاقے الجزیرہ کے عیسائی قبائل کے تھے، امیرالمومنین نے سوچا تھا کہ ان قبائل کو ذرا سا بھی دم لینے دیا تو یہ متحد ہو کر ایک لشکر بن جائیں گے، ایک بار تو رومیوں کے پاس جاکر بھی واپس آگئے تھے لیکن رومی انہیں ایک بار پھر اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکتے تھے۔یہ تمام علاقے مسلمانوں نے فتح کرلئے تھے لیکن کچھ چھوٹے بڑے ٹیلے اور بستیاں ایسی تھی جہاں مجاہدین کی نفری بہت ہی کم تھی، وہ اس لئے کہ ابھی زیادہ سے زیادہ نفری کی ضرورت حمص کے میدان جنگ میں تھی ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض علاقوں میں عیسائی قبائل نے بغاوت کردی اور مسلمانوں کا قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔پہلی بغاوت کی اطلاع ایک قلعہ بند شہر رقہ سے آئی، وہاں مجاہدین کی نفری بہت ہی تھوڑی تھی زیادہ نفری کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی تھی، یہ مجاہدین دراصل انتظامیہ کے اہلکار تھے جنہیں وہاں جزیہ اور دیگر محصولات وصول کرنے کے لئے رکھا گیا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے جزیہ اور محصولات دینے سے انکار کردیا اور ان مسلمان اہلکاروں کو ایک جگہ بند کرکے بے بس کردیا۔معلوم نہیں وہ کوئی مجاہد تھا جو کسی طرح ان عیسائیوں سے بچ کر نکل آیا ، یا ان چند ایک عیسائیوں میں سے کوئی تھا جیسے ان مسلمانوں نے اپنا جاسوس بنا لیا تھا، ان میں سے کسی نے وہاں سے نکل کر پیچھے اطلاع دی کہ رقہ میں بغاوت ہو گئی ہے ۔ یہ علاقہ ایک سالار سہیل بن عدی کی ذمہ داری میں تھا انہیں اطلاع ملی تو اپنے لشکر کے ساتھ فوراً رقہ کی طرف کوچ کر گئے۔

رقہ پہنچے تو دیکھا کہ یہ تو اچھا خاصا مضبوط قلعہ ہے جس کے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔ عیسائی دیواروں کے اوپر کھڑے مسلمانوں کو للکار رہے تھے ان کے پاس کمان تھی جن میں تیر ڈال کر وہ دفاع کے لئے تیار تھے ،بعض کے ہاتھوں میں پھینکنے والی چھوٹی برچھی تھی قلعے کا دفاع مضبوط نظر آ رہا تھا۔سالار سہیل بن عدی نے اعلان کروایا کہ فوراً ہتھیار ڈال دو ،اور قلعے کے دروازے کھول دو، اگر ہم نے لڑکے قلعہ فتح کیا تو سب کو غلام بناکر عرب بھیج دیا جائے گا، اس اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ جنہوں نے ہرقل جیسی طاقتور شاہی فوج کو مار بھگایا ہے ان کے سامنے تم لوگ ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکو گے، دروازے کھول کر اطاعت قبول کر لو تو تمہارے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو ہم لوگ ہر مفتوحہ جگہ کے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں ،تمہارے جان و مال اور عزت کی حفاظت ہم کریں گے۔ ہمت ہے تو آگے بڑھو اور دروازہ خود کھول لو۔رومی اس لیے بھاگ گئے ہیں کہ یہ علاقہ ان کا نہیں ہمارا ہے۔ یہ علاقہ تمہارا بھی نہیں ہم تمہیں بھی یہاں سے بھگا دیں گے مسلمانوں کے جواب میں ایسی ہی للکار سنائی دی اور عیسائی قہقہے لگانے لگے انہیں اپنی طاقت پر بھروسہ تھا ۔معلوم ہوا کہ تین چار قبیلے اس قلعے میں اکٹھا ہو گئے تھے، انہیں معلوم نہیں تھا کہ قلعے کو کوئی فوج ہی بچا سکتی ہے، جسے قلعہ بند ہو کر لڑنے کی تربیت دی گئی ہو ،اور یہ فوج تجربہ اور مہارت رکھتی ہو، قلعے کی دیواریں اور دروازے اندر والوں کو کچھ ہی وقت کے لئے بچا سکتے ہیں۔سالار سہیل بن عدی نے اپنے تیر اندازوں کو آگے کیا اور دیوار کے تھوڑے سے حصے پر بڑی تیز تیر اندازی کا حکم دیا، تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑ پھینکنی شروع کر دی لیکن دیوار کے اوپر والے تیر اندازوں نے جب تیر پھینکی تو ان کے سامنے ٹھہر نا محال ہو گیا تیروں کے ساتھ برچھیاں بھی آنے لگی۔یہ کم عقل اور اناڑی ہیں۔۔۔ سالار سہیل نے کہا ۔۔۔برچھیاں ضائع کر رہے ہیں برچھیاں اکٹھی کرلو یہ ہمارے کام آئیں گی۔ان تیروں کے سائے میں سالار سہیل نے اپنے کچھ جانبازوں کو پہلو کے ایک دروازے کی طرف اس مقصد کے لیے دوڑایا کہ وہ دروازہ توڑ دیں، یہ جانباز کلہاڑیوں سے مسلح تھے، لیکن دیوار پر کھڑے تیر اندازوں نے اپنے تیروں کا رخ اس طرف کردیا جس سے یہ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے، تیر اپنے جسموں میں لے کر واپس آئے اور کچھ تیروں کی زد میں آنے سے پہلے ہی پیچھے آ گئے۔سالار سہیل نے قلعے کا ایک چکر لگایا، وہ اب دیکھ رہے تھے کہ دیوار کہیں سے کمزور نظر آئے تو دیوار توڑی جائے، مجاہدوں نے کہا کہ دیوار مضبوط ہی سہی وہ کسی نہ کسی جگہ سے اسے توڑ لیں گے قلعے توڑنے اور سر کرنے میں مسلمان خصوصی مہارت رکھتے تھے ،تاریخ بتاتی ہے کہ اس مہارت کی اصل حقیقت یہ تھی کہ مسلمانوں میں جذبہ تھا ،انکا لڑنے کا اصول یہ تھا فتح یا شہادت۔

یہ تفصیلات خاصی طویل ہے کہ سالار سہیل بن عدی نے قلعی توڑنے کیلئے کیسے کیسے اقدامات کیے اور مجاہدین نے کس طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر اقدام کامیاب کرنے کی کوشش کی، کوشش تو کوئی بھی کامیاب نہ ہوئی لیکن دشمن پر دھاک بیٹھ گئی اور دیواروں کے اندر کے لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہونے لگا۔تاریخ نویس ابن کثیر اور بلاذری لکھتے ہیں کہ ابھی سات آٹھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ قلعے کے اندر سے اعلان ہوا کہ وہ لوگ صلح کرنا چاہتے ہیں اس لئے لڑائی ملتوی کی جائے ،اور جو جہاں ہے وہیں رہے سالار سہیل بن عدی نے عارضی طور پر جنگ بندی کر دی۔ان دونوں تاریخ نویس نے اس جنگ بندی کا پس منظر یوں بیان کیا ہے کہ جب ان عیسائی قبیلوں نے دیکھا کہ مسلمان غیر معمولی تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں تو وہ جان گئے کہ یہ قلعہ سر کرکے ہی رہیں گے، اور پھر ان کی کوئی شرط قبول نہیں کریں گے ،قبائل کے سرداروں نے سر جوڑے اور ایک معمر دانشور نے انہیں صحیح صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس پر غور کریں۔تم جنگجو بھی ہو سکتے ہو، بہادر بھی ،اس بزرگ دانشور نے کہا۔۔۔ لیکن یہ تو سوچو کہ تم کس کی لڑائی لڑ رہے ہو یہ عرب عجم اور روم کی جنگ ہے ، ہم عربی بھی نہیں ، عجمی بھی نہیں ، اور ہم رومی بھی نہیں ، یہ مسلمان اس جرم کی سزا دے رہے ہیں کہ ہم لوگ رومیوں کی مدد کو چل پڑے تھے، میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ پرائی لڑائی لڑنے نہ جاؤ فائدہ کچھ نہیں ہوگا اور تباہی ہوگی، آج ہم لوگ تباہی کا حصہ وصول کر رہے ہیں ، میرا مشورہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلو اور مجھے یقین ہے کہ مسلمان تمہیں عزت اور تکریم دیں گے۔ایک اور سردار نے کہا۔۔۔ کہ لڑنا ہے تو تمام قبائل اکٹھا ہو کر ایک لشکر تیار کرے اور پھر مسلمانوں کو للکارے کہ یہ ہماری زمین ہے یہاں سے چلے جاؤ ورنہ ہم تلواروں کے زور سے تمہیں نکالیں گے۔سب سردار متفق ہو گئے انھوں نے اسی وقت مسلمان اہلکاروں کو قید سے آزاد کیا اور اپنے پاس بلا کر پوچھا۔۔۔ کہ وہ صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اس کا اختیار کونسے سالار کے پاس ہے کیا یہی سالار صلح کرلے گا جس نے محاصرہ کر رکھا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔مسلمانوں نے انہیں بتایا کہ الجزیرہ کا علاقہ تین سالاروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان کا سپہ سالار عیاض بن غنم ہے جو اس وقت واسط میں ہوگا صرف اسے صلح کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ان عیسائی قبائل کے سرداروں نے اپنے دو نمائندے ان مسلمانوں کے ساتھ قلعے کے باہر بھیج دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ انہیں اپنے سالار تک پہنچا دے یہ سب سالار سہیل بن عدی کے پاس آئے اور مدعا بیان کیا ،سالار سہیل نے انہیں واسط بھیج دیا اور سپہ سالار عیاض بن غنم نے صلح کی شرائط تسلیم کرکے سہیل بن عدی کو صلح کی اجازت دے دی۔ اس طرح یہ محاصرہ اٹھا لیا گیا اور قلعے میں جو قبیلے موجود تھے انہوں نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی اور جزیہ بھی ادا کرنے لگے۔

صرف علامہ شبلی نعمانی ایک تاریخ نویس ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ ہرقل شام سے پسپا ہوکر ارض روم میں مرج الابیاض کے مقام پر جا پہنچا، اور اس نے وہیں قیام کیا تھا آج یہ شہر دنیا کے نقشے میں موجود نہیں ، وہاں بھی ہرقل کی جو جائے رہائش تھی وہ شاہی محل سے کم نہ تھی شاہی لوازمات بھی موجود تھے،  شراب بھی تھی، اور شراب پیلانے والی بھی تھی، اور حسین و جمیل کنیز حاضری میں موجود رہنے والی بھی تھی، عورتوں کا حرم بھی ساتھ تھا جس میں یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ بیوی کون اور داشتہ کون ہے۔ہرقل اپنے خاص کمرے میں سر جھکائے ہوئے ٹہل رہا تھا اس کے چہرے پر تذبذب اور احتجاج تھا، قسطنطین الگ بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا، اس کی تو جیسے جرات ہی نہیں ہو رہی تھی کہ باپ کے ساتھ کوئی بات کرے وہ باپ کی جذباتی کیفیت اور مزاج کے عتاب سے واقف تھا ،ہرقل ٹہلتے ٹہلتے رک گیا اور اس نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔صرف انتھونیس ہی غدار نہیں تھا ۔۔۔ہرقل نے کہا ۔۔۔میری اپنی بیوی لیزا اور بیٹا یوکلس بھی مجھے دھوکہ دے گئے ہیں، وہ یقیناً اکٹھے گئے ہیں میرا خیال ہے کہ لیزا کو پتہ چل گیا تھا کہ ہم اس کے بیٹے کو قتل کروا رہے ہیں۔محترم باپ! ۔۔۔۔قسطنطین نے کہا ۔۔۔میں انہیں غدار ہی کہوں گا ۔میں پوری فوج کو غدار کہتا ہوں۔۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ میں نے ابھی کوئی ایسا فیصلہ کیا تو نہیں لیکن ہو سکتا ہے میں کسی وقت یہ فیصلہ دے دوں کہ جو کماندار بچ کر نکل آئے ہیں انہیں قتل کر دیا جائے ،ان بدبختوں نے اپنے اوپر مسلمانوں کی دہشت طاری کرلی ہے ، میں اب نئ فوج بناؤں گا اور بہت جلد واپس آکر شام پر حملہ کروں گا، ہرقل کوئی ایسا معمولی نام نہیں تھا جو تاریخ سے مٹ جائے گا آنے والی نسلیں ہرقل کو ایک آسمانی طاقت کی طور پر یاد رکھیں گی۔اتنے میں دربان نے آ کر اطلاع دی کہ جرنیل انتھونیس کی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ آئی ہے اور وہ شاہ ہرقل سے ملنا چاہتی ہے۔ قسطنطین چونک کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے ہرقل کی طرف دیکھا کہ وہ اس عورت کو اندر آنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ ۔۔۔ہرقل کچھ دیر سرجھکائے سوچتا رہا پھر اس نے سر سے ہلکا سا اشارہ کیا کہ اسے اندر بھیج دو، حیثیت کے لحاظ سے وہ کوئی عام سی حیثیت کی عورت نہیں تھی ایک نامور جرنیل کی بیوی تھی۔وہ ہرقل کے سامنے آئی تو ہرقل نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں آئی ہے؟ اور پھر پوچھا کہ اسے معلوم ہے یا نہیں کہ اس کا خاوند کہاں ہے؟ یہی تو میں شہنشاہ معظم سے پوچھنے آئی ہوں۔۔۔۔ اس عورت نے کہا ۔۔۔میں پوچھ پوچھ کر یقین کر چکی ہوں کہ انتھونیس مارا گیا تھا یا زخمی ہو گیا تھا؟ لیکن ہر کسی سے یہی جواب ملا کہ وہ زخمی بھی نہیں ہوا اور مارا بھی نہیں گیا۔وہ جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی کہیں بھاگ گیا تھا ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ اگر وہ مجھے مل جاتا تو تمہیں اس کی لاش مل جاتی لیکن وہ لاپتہ ہے ، تم میرے پاس کیا لینے آئی ہو؟ پناہ اور سہارا ڈھونڈنے۔۔۔ انتھونیس جرنیل کی بیوی نے کہا۔۔۔ میرے ان معصوم بچوں کو دیکھیں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں رہا۔اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔۔۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔یہ اپنے باپ کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔

لیکن شہنشاہ معظم !۔۔۔اس عورت نے پوچھا۔۔۔ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے میں نے تو اپنے خاوند سے یہ نہیں کہا تھا۔میرے خزانے سے کسی غدار کی بیوی اور اس کے بچوں کی پرورش نہیں ہوسکتی ۔۔۔ہرقل نے شاہانہ انداز سے کہا ۔۔۔جاؤ کسی اور سے شادی کر لو اور بچوں کو سہارا مل جائے گا۔آنتونیس کی بیوی نے منت سماجت شروع کردی کہ اسے یوں دھتکارا نہ جائے، اس کے خاوند کی آخری فوج میں اتنی زیادہ خدمت بھی تو ہے۔ اس پر رحم کرنے کے بجائے اسے ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی ہرقلل چپ ہوتا تو قسطنطین انتھونیس کو برا بھلا کرنے لگتا تھا۔شہنشاہ معظم! ۔۔۔انتھونیس کی بیوی نے کہا۔۔۔ اگر میرا خاوند غدار تھا تو کیا یہ میرے لیے بہتر نہیں ہوگا کہ مجھے اور میرے بچوں کو سزا کے طور پر قتل کر دیا جائے، موت سے بہتر کوئی اور پناہ نہیں ہوسکتی۔میں نے تم پر رحم کیا ہے۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ رحم نہ کرتا تو میں تمھیں جلاد کے حوالے کر چکا ہوتا ، اگر موت کی خواہش ہے تو خود ہی زہر پی لو اور ان بچوں کو بھی پلا دو یہاں سے چلی جاؤ اور پھر کبھی میرے سامنے نہ آنا۔انتھونیس کی بیوی کے آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے وہ بھیک مانگنے کے انداز سے بات کر رہی تھی ہرقل کی بات سن کر اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر سرخی آگئی ،اور آنکھوں میں جو آنسو تیر رہے تھے وہ آنکھوں نے ہی پی لیے اس کی گردن تن گئی ۔اے شاہ روم! ۔۔۔اس عورت نے بالکل ہی بدلی ہوئی اور جاندار آواز میں کہا۔۔۔ اب مجھ سے سن لے میرا خاوند کہاں گیا ہے۔ آپکی ملکہ لیزا اسے اپنے ساتھ لے گئی ہے، میں آپ کے بے رحم عتاب سے واقف ہوں، لیکن مجھے اب کسی کا ڈر نہیں میرے خاوند نے اور لیزا نے میری زندگی جہنم بنا رکھی ہے، اور اب آپ مجھے اور میرے بچوں کو سزا دے رہے ہیں۔مجھے لیزا کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔وہ میرے بیٹے کو بھی ورغلا کر ساتھ لے گئے ہیں۔شہنشاہ روم !۔۔۔انتھونیس کی بیوی نے جرات مندانہ لہجے میں کہا ۔۔۔یوکلس آپ کا بیٹا تھا ہی نہیں وہ میرے خاوند کا بیٹا ہے ،اس سے پہلے کہ آپ کا عتاب مجھ پر نازل ہو کہ میں ملکہ پر جھوٹا الزام عائد کر رہی ہوں مجھ سے حقیقت سن لیں ۔لیزا میرے گھر میں آکر میرے خاوند کے ساتھ کئی بار تنہائی میں رہی ہے ، وہ مجھے بڑے قیمتی تحفوں سے خوش رکھنے کی کوشش کرتی رہتی تھی لیکن خاوند کی قیمت تو کوئی بھی نہیں دے سکتا میں نے جب اسے برا بھلا کہا کہ وہ میری زندگی تباہ کر رہی ہے تو اس نے مجھے یہ دھمکی دی کہ وہ شاہ ہرقل کی بیوی ہے اور مجھے قید خانے کی سب سے زیادہ غلیظ کوٹھری میں بند کروا سکتی ہے۔۔۔۔۔ جب یوکلس پیدا ہوا تھا تو لیزا نے مجھ سے کہا تھا کہ اب تو  وہ انتھونیس سے دور رہے ہی نہیں سکتی کیونکہ اس نے  انتھونیس کا بیٹا پیدا  کیا ہے۔وہ بتاتی تھی کہ آپ نے اسے جوانی میں ہی حرم میں پھینک دیا اور بھول گئے تھے کہ لیزا نام کی بھی آپ کی کوئی بیوی تھی، لیزا نے میرے خاوند کو اپنے جذبات کی تسکین کا ذریعہ بنا لیا تھا ان کے یہ تعلقات ابھی تک چل رہے تھے۔

انتھونیس کی بیوی کو شاید یہ توقع ہو گئی کہ ہرقل اس پر برس پڑے گا اور اسے دھکے دے کر محل سے نکال دے گا لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ ہرقل پر خاموشی طاری ہوگئی اور وہ کچھ دیر اس عورت کو دیکھتا رہا اسے یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ بادشاہوں کے ہاں یہی کچھ ہوتا ہے۔ اور جن جواں سال عورتوں کو وہ حرم میں پھینک دیتے ہیں اور انہیں بھول جاتے ہیں وہ اپنی تسکین کا کوئی نہ کوئی خفیہ انتظام کرلیتی ہیں۔ہرقل کے لیے یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرتا محل کی ایک عورت اگر کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی تو ہرقل کی نگاہ میں یہ کوئی نقصان نہیں تھا، اس وقت اس کے دماغ پر اتنی بڑی شکست سوار تھی کہ شام جیسا بڑا ملک اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔قسطنطین! ہرقل نے کہا۔۔۔ اسے ابھی محل میں مہمان کے طور پر رکھو اور میں اس کی دوسری شادی کا انتظام کرا دوں گا اس وقت تک اس کی پوری دیکھ بھال ہوتی رہے اور یہ کسی چیز کی کمی محسوس نہ کرے۔

انتھونیس، لیزا اور انکا بیٹا یوکلس ایک اور دن کی مسافت طے کرکے رات گزارنے کے لئے ایک اور جگہ رک گئے تھے یہ جگہ بھی سر سبز گھاس سے لدی ہوئی ٹیکریوں میں گھری ہوئی تھی، درختوں کی بہتات تھی اور قریب سے ایک صاف شفاف پانی کی ندی گذرتی تھی ، وہ کھانا کھا چکے تھے، اور یوکلس نوجوانی کی بے فکری کی نیند سو گیا تھا۔ انتھونیس اور لیزا بھی اس کے پاس ہی لیٹے تھے، لیکن دونوں اب اس کے پاس نہیں تھے، رات آدھی گزر گئی تھی اور وہ دونوں کچھ پرے ہٹ کر چھوٹی سی ٹیکری پر بیٹھے ایک دوسرے میں کھو گئے تھے، لیز ایران کے حسن کا ایک نادر نمونہ یا شاہکار تھی یہ الگ بات ہے کہ ہرقل اس سے جلدی اکتا گیا اور اسے حرم میں پھینک دیا تھا ، لیکن ہرقل اب بھی اس کے سامنے اس طرح بات نہیں کرسکتا تھا جس طرح بادشاہ کیا کرتے تھے، ہرقل جیسا جابر اور ظالم بادشاہ لیزا کا سامنا کرنے سے گھبراتا تھا ۔پہلے یہ بات ہوچکی ہے کہ لیزا انتھونیس کو اپنی تسکین کا ذریعہ بنا لیا تھا لیکن یہ تعلقات ایسی محبت کی صورت اختیار کر گئے جو دلوں میں اتر گئی تھی۔

اپنے بیٹے کو سوتا چھوڑ کر وہ الگ جا بیٹھے، اور بیٹھے بھی اس طرح جیسے دونوں کے جسم ایک ہوگئے ہو لیزا کی عمر ابھی چالیس برس نہیں ہوئی تھی لیکن وہ ابھی تک نوجوان اور حسین تھی انتھونیس اس سے پندرہ سولہ سال بڑا تھا لیکن اس نے اپنی جوانی کو برقرار رکھا ہوا تھا۔کیا تمہیں اپنی بیوی اور بچے یاد نہیں آتے؟ ۔۔۔لیزا نے انتھونیس سے پوچھا۔۔۔ تم پاس ہوتی ہوں تو مجھے خدا بھی یاد نہیں رہتا۔۔۔ انتھونیس نے جواب دیا ۔۔۔وہ تو ایک بیوی تھی جسے میں نے بیوی کے مقام پر ہی رکھا ہوا تھا ،دل میں ابھی کسی کی محبت پیدا نہیں ہوئی تھی میرا دل شاید تمہارا منتظر تھا اور تم آگئی۔کیا تم مجھے شاہانہ زندگی دے سکو گے؟ ۔۔۔لیزا نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں پوچھا۔۔۔ اور کہا۔۔۔ تمہیں دلی محبت کی ضرورت تھی اور میں نے تمہاری یہ جذباتی ضرورت پوری کر دی اب میں تمہیں یاد دلارہی ہوں کہ میں کس طرح ایران کے شاہی خاندان سے آئی تھی اور ہرقل کے شاہی محل میں اس عمر تک پہنچی ڈرتی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم یوں ہی جنگلوں میں بھٹکتے پھرے ،اور یہیں کہیں زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔میں جس بادشاہی کی بنیاد رکھنے جا رہا ہوں اس کی پہلی ملکہ عالیہ تم ہو گئی انتھونیس نے کہا۔انتھونیس حیوانیت کے غلبے میں آگیا تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ایسے مخمور اور مدہوش ہو گئے جیسے انھیں احساس ہی نہ  رہا ہو کہ وہ کسی شاہانہ کمرے میں نرم اور گداز پلنگ پر ہیں، یا جنگل کی ایک ٹیکری پر، لیزا ٹیکری کی سختی میں پلنگ کی نرمی اور ملائمت محسوس کر رہی تھی۔چاند کچھ اوپر آ گیا تھا نمناک جنگل کی چاندنی بڑی صاف اور شفاف تھی وہ دونوں اٹھے انتھونیس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اب سو جانا چاہیئے کہ لیزا نے پیچھے دیکھا تو لرز اٹھی یوکلس ننگی تلوار ہاتھ میں لئے بڑی تیزی سے ٹیکری چڑھتا آ رہا تھا۔

میرے پیچھے ہو جاؤ انتھونیس! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ اور یوکلس کے راستے میں کھڑی ہو گئی۔انتھونیس نے پیچھے دیکھا تو اسے یوکلس نظر آیا اس کے ہاتھ میں تلوار اور اس کے اوپر آنے کی تیزی سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کیوں اور کس کی ارادے سے آیا ہے لیزا کے کہنے کے مطابق وہ لیزا کے پیچھے ہو گیا۔تم اس شیطان کو مجھ سے نہیں بچا سکوں گی ماں! ۔۔۔یوکلس نے قریب آکر غضب ناک لہجے میں کہا ۔۔۔ہٹ جاؤ آگے سے میں نے دیکھ لیا ہے یہ تمہیں دھوکے میں اپنے ساتھ اسی مقصد کے لئے لایا تھا میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔رک جاؤ یوکلس! ۔۔۔لیزا نے گرجدار آواز میں کہا ۔۔۔کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو تمہیں قتل ہونے سے بچا لایا ہے تمہاری خاطر یہ اپنے بچوں کو چھوڑ آیا ہے۔یوکلس پھنکار رہا تھا اور ماں بازو پھیلائے اسے روک رہی تھی اگر انتھونیس نہتا نہ ہوتا تو یوکلس کا مقابلہ کر کے اس پر قابو پالیتا، اسے بتا دو لیزا میں کون ہوں۔۔۔ انتھونیس نے کہا ۔۔۔اسے حقیقت بتا دو ۔۔۔یوکلس انتھونیس کو للکار رہا تھا کہ وہ ایک عورت کو ڈھال نہ بنائے اور مردوں کی طرح سامنے آئے۔کیا تم اپنے باپ کو قتل کرو گے۔۔۔ لیزا نے کہا۔ہاں آگے سے ہٹ جاؤ ماں۔۔۔ یوکلس نے غصے سے لرزتی آواز میں کہا۔۔۔ اسے قتل کرکے میں واپس جاؤں گا اور اپنے باپ ہرقل کو بھی قتل کروں گا۔ہرقل تمہارا باپ نہیں ہے؟ ۔۔۔لیزا نے کہا وہ میرا صرف خاوند تھا تمہارا باپ یہ ہے انتھونیس تم اس کے بیٹے ہو۔یوکلس کا جوش اور عتاب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا اس کی تلوار جھک گئی ۔

آؤ یوکلس! ۔۔۔لیزا نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے تلوار لے کر کہا۔۔۔ میں تمہیں یہ بھی بتا دو کہ تم انتھونیس کے بیٹے ہو ،اور ہر قل اس حقیقت سے واقف نہیں وہ تمہیں اپنا بیٹا سمجھتا ہے ہم دونوں کسی وجہ سے تمہیں اپنے ساتھ لائے ہیں۔انتھونیس اور لیزا نے یوکلس کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔لیزا نے یوکلس کو بتایا کہ اسے کسریٰ ایران نے کس طرح اور کس مقصد کے لئے ہرقل کے پاس ایک دھوکے کے ذریعے بھیجا تھا اور ہرقل نے اسے بیوی بنا کر اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔لیزا یوکلس کو یہ ساری بات ایسے جذباتی انداز میں سنائی کہ یوکلس پوری طرح متاثر ہو گیا۔ ان لوگوں کے یہاں اخلاق اور کردار نام کی تو کوئی چیز ہی نہیں تھی ان کا کلچر ہی کچھ ایسا تھا جس میں حلال اور حرام کا حیا اور بے حیائی کا تصور کچھ اور تھا۔میں تمہیں شہزادہ بنا کر دم لونگا انتھونیس نے یوکلس سے کہا ۔۔۔ہرقل کو قتل نہیں کریں گے اس کی بادشاہی پر قبضہ کرکے اسے بھکاری بنا دیں گے اور وہ بازاروں میں بھیک مانگتا پھرے گا۔یوکلس نے اپنی ماں اور انتھونیس کو اس طرح دیکھ لیا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے دیکھا دونوں وہاں نہیں تھے، انہیں دیکھنے کے لیے وہ اٹھا ایک طرف ٹیکری پر  وہ اسے نظر آ گئے ، چاند ان کی دوسری طرف سے اوپر آ رہا تھا، یوکلس کو وہ اس طرح دکھائی دیے جیسے وہ دو سائے ہوں، وہ دونوں ایسی حالت میں تھے کہ قریب جا کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یوکلس نے تلوار نکالی اور ان کی طرف غیظ و غضب سے چل پڑا یہ تو وہ جانتا ہی تھا کہ اس کی ماں کس قدر خوبصورت عورت ہے یہی ایک خیال اس کے ذہن میں اٹک گیا کہ انتھونیس اس کی ماں کو ورغلا کر لایا ہے، اور اب ماں سے خراج وصول کر رہا ہے، وہ اپنی ماں کو اس کے ہاتھوں میں مجبور سمجھ رہا تھا۔ آخر ہم جا کہاں رہے ہیں ؟۔۔۔۔یوکلس نے پوچھا۔۔۔ ایک ہی دن کی مسافت رہ گئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا ۔۔۔کل رات ہم کسی جنگل یا صحرا میں نہیں ہونگے بلکہ کسی قبائلی سردار کے یہاں آرام دہ بستروں میں سوئے ہوئے ہونگے۔

انتھونیس کی سوچ اور اس کے ارادے بے بنیاد ہو سکتے تھے اور یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ وہ بیداری میں خواب دیکھ رہا ہے، لیکن اس نے اپنی منزل کا تعین کر لیا تھا کامیابی اور ناکامی تو بعد کے نتائج تھے، اس کے ذہن میں ایسی کوئی الجھن اور کوئی شک نہیں تھا کہ وہ غلط راستے پر جا رہا ہے اس نے اپنے ذہن میں ایک پلان تیار کر لیا تھا اور یہ بھی طے کر لیا تھا کہ وہ کس قبیلے کے سردار سے ملے گا۔اس کے مقابلے میں روتاس بھی بھٹکتا پھر رہا تھا اس نے یہ فیصلہ کر تو لیا تھا کہ اپنی فوج میں واپس نہیں جائے گا ۔تاکہ ہرقل سے سامنا نہ ہو لیکن چلتے چلتے وہ اس فیصلے سے یوں ہٹ جاتا جیسے اس کا پاؤں پھسل گیا ہو اور وہ گر پڑا ہو، اس کا ذہن چلتا تھا اور گر گر کر اٹھتا ،اور پھر چلتا تھا، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس پر جرم کا بوجھ سوار تھا راستے میں ایک رات آئی اور وہ ایک جگہ سو گیا اور اگلے روز پھر چل پڑا۔وہ بار بار تحفے میں ملی ہوئی صلیب اور سونے کے عیسٰی علیہ السلام کو دیکھتا تھا۔ جیسے یہ بت اس کی رہنمائی کرے گا لیکن صلیب کے ساتھ چپکا ہوا یہ بت اسکے کسی کام نہ آ سکا۔سوچ سوچ کر اسے ایک ہی پناہ نظر آئی اور یہ پناہ اسے کسی عیسائی قبیلے کے یہاں ہی مل سکتی تھی ،وہ جب حمص میں مسلمانوں کی نظربندی میں تھا تو شارینا اسے ملنے جاتی اور روزبروز کی خبریں سناتی رہتی تھی۔شارینا نے اسے سنایا تھا کہ الجزیرہ کے جو عیسائی قبائل ہرقل کی مدد کو گئے تھے وہ سب بددل ہو کر واپس چلے گئے ہیں ۔یہ سوچ کا روتاس پھر الجھن میں مبتلا ہوجاتا کہ ان قبائلیوں نے اسے قبول نہ کیا اور پناہ نہ دی تو پھر وہ کیا کرے گا۔

ایک بار تو اس نے فیصلہ کر ہی لیا تھا کہ وہ اپنی فوج میں چلا جائے اس نے گھوڑا روک لیا تھا، لیکن گھوڑے کا رخ موڑا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے ہرقل اس کے سامنے کھڑا ہو اور اس سے پوچھ رہا ہوں کہ تم کہاں جا چکے تھے۔۔۔ روتاس یہ تو سمجھ ہی سکتا تھا کہ ہرقل شکست کے بعد کس مجازی کیفیت میں ہوگا، وہ تو ذرا سی بات پر بھی حکم دیتا ہو گا کہ اس شخص کو جلاّد کے حوالے کردو۔ یہ دانستہ لڑائی سے بھاگا تھا ، روتاس اسی عمر میں جلاد کے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے گھوڑے کا رخ ادھر ہی کر دیا جدھر وہ جا رہا تھا۔

دن کا پچھلا پہر تھا جب اسے ایک بڑی خوبصورت اور سرسبز جگہ نظر آئی وہاں چھوٹا سا ایک چشمہ بھی تھا درخت اتنے گھنے اور قریب قریب تھے کہ ان کی ٹھنڈی چھاؤں کو دیکھ کر سو جانے کو جی چاہتا تھا ، روتاس کی تو کوئی منزل ہی نہیں تھی اتنی روح افزا جگہ دیکھ کر وہ گھوڑے سے اترا اور گھاس پر لیٹ گیا فوراً ہی وہ گہری نیند سو گیا آنکھ کھلی تو رات گہری ہوچکی تھی اور چاند افق سے اوپر اٹھتا آرہا تھا ، روتاس نے سوچا کہ وہ بہت سو چکا ہے اور رات خاصی ٹھنڈی ہے۔ وہ چل ہی پڑے تو اچھا ہے کہ وہ دور نکل جانا چاہتا تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اس منزل کو چل پڑا جس کو وہ جانتا ہی نہیں تھا کہ ہے بھی یا نہیں۔ اور اگر ہے تو کہاں ہے وہ چلتا گیا اور چاند اوپر اٹھتا آیا۔انتھونیس اور لیزا یوکلس کو اس جگہ لے گئے جہاں انہوں نے سونے کے لئے کمبل بچھا ئے تھے، یوکلس مطمئن ہو گیا تھا ، ماں نے اس کے ساتھ اپنا پیار کیا کہ وہ اپنے آپ کو چھوٹا سا بچہ سمجھنے لگا، تینوں لیٹ گئے۔

انہیں ایک گھوڑے کے قدموں کی ہلکی ہلکی دھمک سنائی دینے لگی وہ چوکس ہو گئے قدموں کی آہٹ بلند ہونے لگی اور اب کسی کے گانے کی آواز سنائی دی، گانا رومی زبان کا تھا لیزا سرگوشی میں بولی کہ کوئی تعاقب میں آرہا ہے، انتھونیس نے کہا ۔۔۔کہ یہ ایک ہی گھوڑا معلوم ہوتا ہے ، تعاقب ہوتا تو کئی ایک گھوڑے ہوتے ، یہ کوئی مسافر لگتا ہے یا ہو سکتا ہے لڑائی سے بھاگا ہوا ہو۔تم یہیں بیٹھی رہو لیزا! ۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ میں اور یوکلس چھپ جائیں گے اور دیکھیں گے یہ کون ہے خطرے والا معاملہ ہوا تو ہم دونوں پیچھے سے حملہ کریں گے۔انتھونیس اور یوکلس بڑی تیزی سے وہاں سے چلے گئے اور ایک پرانے درخت کے تنے کے پیچھے چھپ گئے، انہوں نے گھوڑے ٹیکری کے دوسری طرف باندھے تھے، آنے والا سوار کسی اور طرف سے آ رہا تھا وہ اس جگہ کے قریب سے گزرا تو اس کی نظر لیزا پر پڑی جو  پیٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی،  اس نے گھوڑا روک لیا اور گھوڑے سے اترا گھوڑے کو وہیں چھوڑا اور آہستہ آہستہ لیزا کی طرف گیا، ابھی اسے یہ پتا نہیں چلا تھا کہ یہ عورت ہے، یہ پہلا انسان تھا جو اسے اس سفر میں نظر آیا، قریب گیا تو اسے پتہ چلا کہ یہ عورت ہے کھڑے کھڑے ذرا اس پر جھکا تو لیزا اٹھ بیٹھی اور پھر کھڑی ہو گئی۔

 سوار کا دل یک لخت ایک خوف کی گرفت میں آ گیا اس نے اس عورت کو پہچان لیا تھا ہرقل کی بیویاں اور داشتائیں ہر طرف گھومتی پھرتی رہتی تھی اس لئے ہر کوئی انہیں جانتا پہچانتا تھا ایسی اور ہر عورت خواہ وہ ہرقل کی بیوی تھی یا داشتہ ملکہ کہلاتی تھی۔آپ؟ ۔۔۔ملکہ لیزا سوار نے حیرت زدگی کے لہجے میں پوچھا۔۔۔ آپ یہاں کیا شاہ ہرقل بھی یہی کہیں قریب ہی ہیں؟ تم کون ہو؟ ۔۔۔لیزا نے ایسے رعب سے پوچھا جیسے وہ واقعی ملکہ ہو ۔۔۔کہاں سے آئے ہو؟ ۔۔۔کہاں جا رہے ہو؟ سوار کے لیے یہ بات حیرت ناک تھی کہ شاہ ہرقل کی بیوی اس جنگل میں اکیلی پڑی تھی، اسے یقین ہونے لگا کہ یہ بد روح ہے یا جنات جیسی مخلوق میں سے ہے ،اور اس نے ملکہ لیزا کا روپ دھار رکھا ہے اس کا خوف اور زیادہ بڑھ گیا۔ نہیں!.. نہیں!.. اس نے حکلاتی ہوئی زبان سے کہا۔۔۔ آپ زندہ انسان نہیں ہوسکتی آپ کو شاہ ہرقل کے ساتھ ارض روم میں ہونا چاہیے تھا، آپ کسی کی روح ہیں مجھے معاف کر دینا ،میں آپ کے آرام میں مخل ہوا ہوں۔ وہ وہاں سے الٹے قدم چلنے لگا خوف کے مارے لیزا کی طرف پیٹھ نہیں کر رہا تھا۔ ٹھہرو!.. لیزا نے اپنی آواز بدل کر بڑے دھیرے سے کہا۔۔۔ میرے قریب آؤ۔۔۔ اپنا نام بتاؤ۔۔۔ تم روم کے فوج کے آدمی ہو؟ میرا نام روتاس ہے۔۔۔ سوار نے لیزا کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ میں رومی فوج کا افسر ہوں مسلمانوں نے مجھے قید کرلیا تھا، میں فرار ہوا آیا ہوں، کیا میں جا سکتا ہوں؟  انتھونیس اور یوکلس درختوں کے پیچھے سے ہٹے اور دبے پاؤں روتاس کی طرف بڑھنے لگے ،اس طرف روتاس کی پیٹھ تھی، دونوں کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں وہ روتاس کے بالکل قریب پہنچ گئے تو روتاس نے محسوس کیا کہ اس کے پیچھے کوئی ہے اس نے گھوم کر دیکھا اور بدک کر ایک طرف ہو گیا اس نے یقیناً اپنے جرنیل انتھونیس اور ہرقل کے بیٹے یوکلس کو پہچان لیا تھا۔ میں یہ سب کیا دیکھ رہا ہوں روتاس نے حیرت زدگی کی حالت میں پوچھا۔۔۔ آپ سب یہاں کیا کر رہے ہیں؟  روتاس!… انتھونیس نے تلوار کی نوک اس کے دل کے مقام پر رکھ کر کہا ۔۔۔کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نہیں جانتا کہ تم ہرقل کی جاسوسی کے محکمے کے افسر ہو ،کیا تم اس سے انکار کر سکو گے کہ تم ہمارے پیچھے آئے ہو؟  آپ کیسے جرنیل ہیں روتاس نے کہا ۔۔۔آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ میں تین چار مہینوں سے فوج سے غیر حاضر ہوں میں ہرقل کی طرف سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی قید سے فرار ہو کر آیا ہوں۔ اس نے یوں جھوٹ بولا کہ وہ جاسوسی کے لئے حمص تک چلا گیا تھا اس کے ساتھ اس کے محکمے کے دو تجربے کار آدمی تھے لیکن پکڑا گیا اس کے دونوں آدمی مارے گئے اور وہ اب موقع دیکھ کر فرار ہو آیا ہے۔پھر اس طرف کیا لینے آئے ہو ؟۔۔۔یوکلس نے پوچھا ۔۔۔اور کہا ہرقل اور اس کی فوج اس طرف تو نہیں آئی؟  اس کا چہرہ اور اس کا لباس دیکھو لیزا نے کہا۔۔۔ اگر یہ تین چار مہینے دشمن کی قید میں رہا ہوتا تو اس کا چہرہ اتنا تروتازہ اور صحت مند نہ ہوتا ،اور اس کے کپڑے پھٹے پرانے اور غلیظ ہوتے ، ہمیں یہ دھوکہ دے رہا ہے۔ آپ یقین کریں روتاس نے کہا۔۔۔ مسلمان قیدیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے مجھے مہمان رکھا تھا ۔انتھونیس نے اپنی تلوار کی نوک اس کے دل سے ہٹالی اور بائیں ہاتھ سے اس کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑا پھر اس کے کمربند کو دیکھا جس کے ساتھ تلوار لٹک رہی تھی۔ مسلمانوں نے اسے باعزت طور پر رہا کرتے ہوئے تلوار بھی اسے دے دی تھی انتھونیس نے اس کے کمربند کے چاروں طرف ہاتھ پھیرا کہ اس کے پاس خنجر بھی ہوگا خنجر تو نہیں تھا کوئی اور چیز اس کے ہاتھ کو لگی تو اس نے یہ چیز کھینچ لی چاندنی میں اس کی چمکتی ہوئی چیز کو دیکھا تو اس نے یہ چیز لیزا کی طرف بڑھائی۔ یہ صلیب اس کے جھوٹ کو ثابت کرتی ہے انتھونیس نے کہا۔۔۔ مجھےیہ بھی معلوم ہے کہ یہ کس کی ہے۔سپہ سالار ابوعبیدہ تک یہ صلیب مال غنیمت میں پہنچی تھی، یہ کسی رومی افسر کے پاس تھی جو مارا گیا تھا ہر وقت اس کے پاس رہتی تھی۔ اب سوچو انتھونیس نے کہا۔۔۔ اگر یہ شخص مسلمانوں کے قید میں رہا ہوتا تو کیا وہ اتنا وزنی سونا اس کے پاس رہنے دیتے انتھونیس نے روتاس سے کہا۔۔۔ تم سچ کیوں نہیں بولتے؟ ۔۔۔ انتھونیس نے اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس کے کمر بند سے تلوار کھینچ لی اور ایک بار پھر کہا کہ وہ سچ بولے ورنہ اس کی لاش یہی پڑی رہ جائے گی اور اسے جنگل کے درندے کھائیں گے۔ میں پناہ ڈھونڈتا پھر رہا ہوں روتاس سچ بولنے پر آگیا۔۔۔ میں جانتا ہوں ہرقل پسپا ہوکر کس طرف گیا ہے ادھر نہیں جاؤں گا مگر یہ بھی معلوم نہیں کہ میں جاؤں گا کہاں؟… میں جاسوسی کے لئے گیا تھا لیکن اپنے سینے میں جو راز تتے وہ مسلمانوں نے نکلوا لیے، روتاس نے بالکل صحیح اور سچ سارا واقعہ سنا دیا کہ وہ کس طرح پکڑا گیا اور مسلمانوں کی قید میں جا پہنچا تھا ۔ میں ہرقل کی ایک بیٹی کے دھوکے میں آ گیا تھا روتاس نے کہا۔۔۔ آپ شارینا کو بھولے نہیں ہونگے وہ وہاں موجود تھی اور اس نے مجھے قید خانے سے بچا کر ایک نہایت اچھے کمرے میں رکھوایا تھا اس نے میرے ساتھ ایسی پیار و محبت کی باتیں کی اور کہا۔۔۔ کہ وہ واپس جانا چاہتی ہے ، میں اس کے دھوکے میں آ گیا اور اپنی فوج کی کمزوریاں وغیرہ اسے بتا دیں مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں نے میری بتائی ہوئی باتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے یہ صلیب اسی کا انعام ہے جو ان کے سپہ سالار نے مجھے دیا ہے۔ انتھونیس اور لیزا نے اس کی باتوں کو سچ مان لیا پھر بھی انتھونیس نے اسے کہا کہ جہاں کہیں اس نے دھوکا دیا اسے وہاں قتل کر دیا جائے گا۔ روتاس نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں؟ انتھونیس نے اسے صاف الفاظ میں بتا دیا۔  مجھے آپ ایک وفادار ساتھی پائیں گے روتاس نے کہا۔۔۔ میں تو بھٹکا ہوا مسافر تھا آپ نے مجھے منزل دکھا دی ہے ،ان قبائلی سرداروں کو میں آپ سے بھی زیادہ بہتر جانتا ہوں ۔ رات بہت تھوڑی رہ گئی تھی وہ ذرا سا سوئے اور پو پھٹنے سے پہلے ہی وہاں سے روانہ ہو گئے۔

جاری ہےــــــــ

اپنا تبصرہ بھیجیں