اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر 6)

سابقہ اقساط
قسط نمبر 01  |قسط نمبر 02 | قسط نمبر 03 | قسط نمبر 04|  قسط نمبر 05

ابو عبیدہ نے اپنے ماتحت سالاروں کو بلایا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک قاصد خالد بن ولید کی طرف دوڑا دیا کہ وہ جس قدر جلدی ہو سکے حمص پہنچ جائیں۔  میرے عزیز رفیقو! ابو عبیدہ نے اپنے سالاروں سے کہا؛ تم سب نے سن لیا ہے کہ اس رومی فوج کے افسر روتاس نے ہرقل کی فوج اور عیسائی قبائلیوں کے متعلق کیا باتیں بتائی ہیں، اور ہرقل کس تذبذب میں پڑا ہوا ہے لیکن اس سے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ ہمارا دشمن اپنے ہاں کی صورتحال اپنے موافق کرکے حملہ کرے گا، ہم یہی سمجھیں گے کہ کسی بھی وقت حمص محاصرے میں آجائے گا۔ اور ہمارے پاس نفری اتنی تھوڑی ہے کہ ہم یہ محاصرہ توڑ نہیں سکیں گے میں نے قبائلیوں میں شامل ہونے کے لیے بڑے ذہین اور اپنے کام میں ماہر مجاہدین کو روانہ کر دیا ہے ۔مدیہ کو بھیجے ہوئے قاصد آدھا راستہ طے کر چکے ہوں گے۔ اپنی دفاعی تیاریاں مکمل رکھو، اور خود بھی دعا کرو اور مجاہدین سے کہو وہ بھی اللہ کے حضور دعا کرتے رہیں کہ کمک جلدی پہنچ جائے اور اگر نہ پہنچ سکے تو اللہ ہماری مدد کرے۔سپہ سالار ابوعبیدہ کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ راتوں کو جیسے سوتے بھی نہ ہو ایسا تو وہ دن اور رات میں دو تین مرتبہ ضرور کرتے کہ قلعے کی دیوار پر جا کھڑے ہوتے اور مدینہ کی طرف دیکھنے لگتے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اتنی جلدی کمک نہیں پہنچ سکتی، دن گزرتے جا رہے تھے اس وقت خالد بن ولید شام کی مفتوحہ شہر قنسرین میں تھے ،حمص کا قاصد ان تک پہنچا اور انہیں بتایا کہ حمص کس طرح خطرے میں آ گیا ہے ۔اور سپہ سالار اس وقت کس تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہیں، خالد بن ولید اسی وقت کمان اپنے نائب سالار کے حوالے کرکے حمص کو روانہ ہو گئے۔ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو اپنے سامنے دیکھا تو انہوں نے دلی سکون محسوس کیا وہ تو اپنے آپ کو تنہا اور کچھ حد تک بے بس سمجھنے لگے تھے، خالد بن ولید بہت ہی تیز رفتاری سے آئے تھے وہ خود بھی آرام کرنے کے قائل نہیں تھے نہ ابوعبیدہ نے کہا کہ ذرا سستالو پھر بات کریں گے۔ابو عبیدہ نے انہیں بتایا کہ حمص کی طرف کتنا بڑا خطرہ بڑھا چلا آرہا ہے اور حمص میں اس لشکر کے مقابلے میں بہت تھوڑی نفری ہے ،ابوعبیدہ نے اس دوران جو اقدام کئے تھے وہ تفصیل سے خالد بن ولید کو بتائی۔میں نے جو سوچا ہے وہ یوں ہے ـــــــ ابو عبیدہ نے کہا ـــــــ انطاکیہ، حماۃ، حلب ،اور قریب کی تمام چھاؤنیوں سے مجاہدین کی آدھی آدھی نفری حمص میں اکٹھی کر لی جائے اور محصور ہو کر لڑا جائے۔محصور ہو کر نہیں ـــــــ خالد بن ولید نے مشورہ دیا ـــــــ ہم قلعے سے باہر دشمن کا مقابلہ کریں گے یہ کوئی نیا دشمن نہیں۔ اسے ہم بڑی دور سے دھکیلتے چلے آ رہے ہیں اور شام کی آخری سرحد تک پہنچا چکے ہیں ۔اسکی چالوں کو اور اس کی فوج کو ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں ہم اس میدان میں بھی اسے شکست دے دیں گے۔

تمام مؤرخوں نے لکھا ہے ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کا یہ مشورہ قبول نہ کیا ،وہاں حمص کے دو تین سالار بھی موجود تھے انہوں نے اپنے سالار ابوعبیدہ کی اس تجویز سے بھی اختلاف کیا کہ دوسری جگہوں سے مجاہدین کی آدھی آدھی نفری یہاں بلا لی جائے اور انہوں نے خالد بن ولید کے مشورے سے بھی اختلاف کیا۔ وجہ یہ بتائی کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ دشمن کو پہلے پتہ چل جائے کہ حمص کو مضبوط کرنے کے لئے دوسری جگہوں سے نفری اکٹھا کر لی گئی ہے تو دشمن ان میں سے کسی اور جگہ پر حملہ کرکے قبضہ کر سکتا ہے اور اس طرح دوسری بڑی چھاؤنیوں پر بھی ہلا بول کر کامیاب ہو سکتا ہے ،ان سالاروں نے کہا کہ کسی شہر اور قبضے کو کمزور نہ کیا جاۓ اور صرف مدینہ کی کمک کا ہی انتظار کیا جائے اگر کمک آنے سے پہلے روم میں پہنچ گئے تو پھر انھیں حالت میں لڑیں گے اور اللہ سے دعا کریں گے کہ ہمارے صبر اور استقامت کا اجر عطا فرمائے۔وہ دین ایمان والے تھے اللہ کے راہ میں باطل کے خلاف وطن سے بے وطن ہوئے اور اپنا اور دشمن کا خون بہا رہے تھے، ان کے دلوں میں ہوس ملک گیری نہیں تھی اور وہ اپنی بادشاہی قائم کرنے کے ارادے سے گھروں سے نہیں نکلے تھے انہوں نے تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیا اور جو نہتے تھے ان کے دل انہوں نے اخلاق سے موہ لئے تھے، جن شہروں کو انہوں نے فتح کیا انہوں نے وہاں کے لوگوں سے جزیہ تو وصول کیا لیکن ہرقل جیسے بادشاہوں نے ان پر جو ظالمانہ محصولات عائد کر رکھے تھے ، وہ اتنے کم کر دیے کہ جس کی جتنی حیثیت اور استطاعت تھی اس سے اسی کے مطابق محصولات وصول کیے جاتے تھے ، وہاں کے غیر مسلم مسلمانوں سے بہت ہی خوش اور مطمئن تھے، اور نظر یوں یوں آتا تھا کہ مشکل کے وقت مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے لیکن اسلام کے سالار ان پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے تھے۔اسلام کے لیے اولین مجاہدین اللہ سے مدد مانگتے تھے ،دعائیں کرتے تھے لیکن صرف دعاؤں پر ہی بھروسہ نہیں کرتے تھے وہ قرآن کے اس فرمان سے بڑی اچھی طرح آگاہ تھے کہ تم عملاً جتنی کوشش کرو گے اللہ تمہیں اتنا ہی دے گا ۔انہوں نے کبھی معجزے کی توقع نہیں رکھی تھی، انہوں نے اپنی جانیں دے کر اسلام کو زندہ رکھا اپنا خون بہا کر شمع رسالت کو بجھنے نہ دیا اور اس طرح اللہ کا پیغام حق دور دور تک پھیلتا چلا گیا۔ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو واپس قنسرین بھیج دیا تھا کہ وہاں کا دفاع ان کے غیر حاضری میں کمزور نہ ہوجائے۔تاریخ میں لکھا ہے کہ جب خالد بن ولید ابو عبیدہ سے رخصت ہوئے تو ان کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے وہ اپنے سالار کو اس مشکل صورتحال میں اکیلا چھوڑنا نہ چاہتے ہوں۔ابن جراح! خالد بن ولید نے ابوعبیدہ سے کہا ـــــــ میری ضرورت پیش آ گئی تو ایسا قاصد بھیجنا جو اڑتا ہوا مجھ تک پہنچے ،اور میں اس سے زیادہ تیز رفتاری سے پہنچوں گا ،خالد بن ولید ابو عبیدہ سے گلے مل،ے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اللہ حافظ کہہ کر روانہ ہو گئے۔

دونوں قاصد مدینہ پہنچ گئے اس وقت وہ اونٹوں پر سوار تھے اور اونٹ دوڑ دوڑتے آ رہے تھے وہ اکیلے نہیں تھے مدینہ کے کئی آدمی اور لڑکے ان کے ساتھ ساتھ دور سے آ رہے تھے ، یہ تو مدینہ کا معمول بنا ہوا تھا کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور کسی نہ کسی وجہ سے محاذ پر نہیں گئے تھے وہ قاصد کے منتظر رہتے تھے بعض تو شہر سے کچھ آگے چلے جاتے اور جب کوئی قاصد آتا تو اس کے ساتھ ساتھ دوڑ پڑتے اور پوچھتے تھے کیا خبر لائے ہو ،قاصد لوگوں کے جذبات کو سمجھتے تھے اور کم از کم الفاظ میں ان کو خبر سنا دیتے تھے۔

اس وقت مجاہدین اسلام بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہے تھے دونوں دشمن باطل کی بڑی ہی زبردست جنگی قوت سمجھے جاتے تھے، اور یہ غلط نہیں تھا کہ ان کے مقابلے میں کوئی آنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا ۔ایک آتش پرست ایرانی، اور دوسرے رومی، ان محاذوں سے کسی بھی وقت کوئی بہت ہی بری خبر آ سکتی تھی۔اور اکثر توقع یہی ہوتی تھی کہ بری خبر آئے گی، لیکن مجاہدین کے ساتھ ضعیف العمر بوڑھوں ، معصوم بچوں، اور معذوروں کی دعائیں تھیں جو محاذوں پر جانے کے قابل نہیں تھے اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعاوں سے ان کی مدد کر رہے تھے۔مدینہ کی گلیوں میں شور بپا ہوگیا، قاصد آئے ہیں، دو قاصد آئے ہیں ،یہ شور و غل امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنی کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ بڑی تیزی سے اٹھے اور قاصدوں کے استقبال کے لیے باہر آگئے، اور اس طرف دوڑ پڑے جدھر سے قاصد آ رہے تھے ۔قاصدوں نے ان کے قریب آ کر اونٹ پر روکے اور اونٹوں کو بٹھا کر اترنے کے بجائے اونٹوں سے کود آئے۔ اچھی خبر لائے ہو؟ حضرت عمر نے پوچھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔ خبر بری بھی نہیں ـــــــ ایک قاصد نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے کہا ـــــــ کہ کمک جلدی پہنچ جائے گی تو خبر اچھی بھی ہو جائے گی۔
 یا امیرالمومنین! دوسرے قاصد نے کہا ـــــــ ہم کہیں سے پسپا نہیں ہوئے ۔چلیے بیٹھ کر پیغام سناتے ہیں ،گھر میں داخل ہو کر حضرت عمر نے قاصدوں کو بٹھایا اور ان کے لیے پانی اور کھانا وغیرہ منگوایا اور پھر کہا کہ اب بتاؤ ایک قاصد بولنے لگا اس نے پوری تفصیل سے بتایا کہ حمص کس خطرے میں آ گیا ہے، اور رومی فوج کے ساتھ الجزیرہ کے غیر مسلم قبائل کا لشکر بھی شامل ہو گیا ہے، خدا کی قسم! ـــــــ امیرالمومنین نے ساری تفصیلات سن کر کہا؛ مجھے میری ذات سے اشارے مل رہے تھے کہ ایسی صورت پیدا ہو ہی جائے گی میں اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کیوں نہ کروں جس نے مجھے اتنی فہم و فراست عطا کی ہے کہ اس کا دفاعی انتظام پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔امیرالمومنین نے جس دفاعی انتظام کی طرف اشارہ کیا تھا تاریخ میں اس کا ذکر ایک دو مؤرخ ہی کرتے ہیں تو ہم ان کے نام لے کر حوالے دیتے ہیں لیکن صرف مسلمان مؤرخین نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم یورپی مؤرخوں نے بھی حضرت عمر کی جنگی فہم و فراست کو خراج تحسین پیش کیا ہے، کہ ہر محاذ کے ہر گوشے تک کمک پہنچانے کے انتظامات انہوں نے تیار رکھے ہوئے تھے، سب سے بڑا انتظام یہ تھا کہ انہوں نے بصرہ اور کوفہ کو اس طرح آباد کیا تھا کہ ان دونوں جگہوں کو بہت بڑی چھاونی بنا دیا اور کسی غیر مسلم کو وہاں آباد نہیں ہونے دیا تھا تاکہ دشمن کو خبر نہ ہونے پائے کہ یہاں کیا کچھ موجود ہے۔اس کے علاوہ سات اور شہر کے جن میں سے ہر شہر میں امیرالمؤمنین چار چار ہزار سوار مجاہدین ہنگامی حالت کے لیے رکھے ہوئے تھے ۔ان کے لئے حکم تھا کے اس طرح ہر وقت کیل کاٹنے سے لیس ہوکر تیار رہیں کہ جو نہی کہیں ہی سے کمک طلب کی جائے تو قریبی شہر سے چار ہزار سوار یا اس سے کم فوراً روانہ ہو جائیں اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر وہاں تک پہنچے جہاں ان کی ضرورت ہو۔ امیرالمومنین نے اسی وقت ایک قاصد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑا دیا اور یہ پیغام دیا کہ قعقاع بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر یہ پیغام ملتے ہی حمص بھیج دو اور وہاں ابوعبیدہ سبھی دشمن میں گھرگئے ہیں اور کمک پہنچنے تک نہ جانے وہاں کیسی صورتحال پیدا ہو جائے۔

اس وقت سعد بن ابی وقاص مدائن میں تھے اور زرتشت کے پجاری وہاں سے بھاگ گئے تھے اور اس طرح کسریٰ ایران کو شکست فاش دے دی گئی تھی اور عراق مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔قعقاع بن عمرو اس وقت کوفہ میں تھے، سعد بن ابی وقاص نے امیرالمومنین کا پیغام ملتے ہی ایک قاصد کوفہ بھیج دیا۔قعقاع پیغام ملتے ہی چار ہزار سوار لے کر یوں کوفہ سے حمص کو نکلے جس طرح اچانک طوفان اور بگولے اٹھا کرتے ہیں۔ ان کے لیے حکم تھا کہ کم سے کم پڑاؤ کرکے تیز سے تیز حمص پہنچنا ہے۔اس وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس ان کے مشیر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور امیرالمومنین جو کچھ بھی سوچتے ان سے مشورہ لیتے تھے۔یہ صورت حال امیرالمؤمنین حضرت عمر کے تدبر اور دور اندیشی کی بڑی سخت آزمائش تھی۔ وہ پسپائی اور شکست کا نام بھی نہیں سننا چاہتے تھے۔ یہ تو جذباتی کیفیت تھی۔ حقیقت یہ انہیں نظر آرہی تھی کہ حمص سے پاؤں کھڑے تو پھر نہ جانے کہاں تک مجاہدین کو پیچھے ہٹنا پڑے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ایران سے فوج نکال کر بھیجی جائے اور کسرا ایران پھر اٹھ کھڑا ہو، اور عراق کے مختلف علاقوں پر پھر قبضہ کرلے۔
میرے بھائیو! امیرالمومنین نے اپنے مشیروں سے کہا ـــــــ خدا کی قسم یہ ساری سازش الجزیرہ کے قبائل کی ہے ان میں اکثریت عیسائیوں کی ہے وہ نہیں چاہتے کہ اسلام اس علاقے کے تک پہنچے انہوں نے ہرقل کو اکسایا اور کم و بیش تیس ہزار کا لشکر اسے دیا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں اور مسلمانوں کو ملک شام سے بے دخل کردیا جائے۔یہاں تک میں جانتا ہوں ہرقل میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ کہیں بھی ہمارے مجاہدین پر جوابی حملہ کرے گا اس کی اس فوج کی تو کمر ہی ٹوٹ چکی ہے جو شام میں لڑی تھی اس کی فوج کی بیشتر نفری ماری گئی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں تو اتنی زخمی ہے اور اگر کچھ نفری جسمانی لحاظ سے صحیح اور سلامت ہے تو اس میں لڑنے والا جذبہ بجھ چکا ہے ۔اسے مصر سے جو فوج ملی ہے اس نے ہرقل کے نیم مردہ ارادوں میں کچھ جان ڈال دی ہوگی اور اس برے وقت میں یہ قبائلی اس کے پاس جا پہنچے اور اتنا بڑا لشکر اسے دے کر اس میں پھر غرور اور تکبر پیدا کردیا ہوگا۔ تم جانتے ہو کہ قبائلیوں کا علاقہ جنگ سے محفوظ رہا ہے ان کے تین بستیوں نے ہمارے مقابلے میں ہمارے دشمن کا ساتھ دیا تھا لیکن دشمن پھر بھی شکست کھا کر پسپا ہوا اور ہم نے ان تینوں بستیوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ ان کی باقی تمام بستیاں محفوظ رہی۔ کیا تم کوئی طریقہ سوچ سکتے ہو کہ ان قبائلیوں کو رومیوں سے الگ کیا جائے۔ ان کی بستیوں پر یلغار کی جائے، ایک مشیر نے کہا ـــــــ انہوں نے ابھی جنگ کا ذائقہ نہیں چکھا سوائے ان تین بستیوں کے ـــــــ ان پر آفت نازل ہوگی تو وہ  تیس ہزار قبائلی جو بزنطیہ  ہرقل کے پاس چلے گئے ہیں، بھاگم بھاگ واپس اپنی بستیوں کو جائیں گے۔ خدا کی قسم ـــــــ امیرالمومنین نے کہا ـــــــ ہماری سوچیں ایک جیسی ہیں اور جب خیالات میں ہم آہنگی ہو تو پھر اس دیوار کو کوئی نہیں توڑ سکتا، ان قبائلیوں کی بستیوں پر حملے ہونگے تو وہ واپس آئیں گے ہی لیکن ہرقل ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ اس صورت میں ابوعبیدہ تھوڑی سی کمک کے ساتھ ہرقل پر چڑھ دوڑے گا اور پھر ہرقل کے لئے یہی راہ نجات رہ جائے گی کہ وہ بحری جہازوں میں فوج کو لاد کر مصر کو روانہ ہوجائے۔ یہ بھی یاد رکھو کہ شام اب ہمارا ملک ہے اس ملک کے جو لوگ ہمارے دشمن کے پاس اس نیت سے گئے ہیں کہ وہ ہم پر جوابی حملہ کرے اور یہ لوگ اس کی مدد کریں گے تو یہ بغاوت ہے یہ لوگ باغی ہیں ،غدار ہیں اور ان کے دماغوں کو ٹھکانے پر لانا ہمارا حق بھی ہے فرض بھی۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

امیرالمومنین کے پاس پورا ریکارڈ تھا کہ کونسا سالار کہاں ہے اور اس کے پاس کتنے دستے ہیں اور اسے ایک محاذ سے فارغ کرکے کی کسی دوسرے محاذ کو بھیجا جاسکتا ہے یا نہیں؟ بلاذری نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس قسم کی تفصیلات اور اعداد و شمار اپنے ذہن میں محفوظ رکھتے تھے، اور کبھی اس قسم کی باتیں کرنے لگتے تھے جیسے انہیں وہ محاذ سامنے نظر آ رہا ہو، اور امیرالمومنین اس کا آنکھوں دیکھا حال سنا رہے ہوں، یہیں سے کچھ ایسی روایت نے جنم لیا جن میں کچھ حقیقی ہے اور کچھ بنائی گئی تھی۔
ان روایات سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دشمن کی شکست اور اپنی فتح کا اس قدر خیال ہوتا تھا کہ ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی اپنے آپ کو محاذ پر تصور کرتے تھے ،ایک اور تاریخ نویس طبری نے لکھا ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سپہ سالار ابوعبیدہ کے پیغام کے مطابق مختلف احکامات دے رہے تھے اور اقدام کر رہے تھے یوں لگتا تھا جیسے وہ مدینہ میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ محاذوں کے قریب کسی ایسی بلندی پر بیٹھے ہوئے ہیں، جہاں سے انہیں تمام محاذ نظر آ رہے ہوں اور اس کے مطابق احکام دے رہے ہوں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عراق کو ایران کے محاذ کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام ایک اور پیغام لکھوایا ۔اس میں انہوں نے یہ حکم دیا کہ سالار سہیل بن عدی اور عبداللہ بن غسان کو چار چار ہزار سوار دے کر الجزیرہ میں ان قبائلی علاقوں میں بھیج دیں جنہوں نے ہرقل کو اپنے تیس ہزار آدمی حمص پر حملہ کرنے کیلئے دیئے ہیں۔ ان دونوں سالاروں کے لئے امیر المومنین نے یہ ذمہ داریاں لکھی کہ سہیل بن عدی کو زقہ بھیجا جائے ،اور عبداللہ بن غسان کو نعین کے علاقے میں روانہ کیا جائے ۔دونوں سالار ان قبائل کے بستیوں پر حملہ کریں۔ اگر وہ مقابلہ کریں تو لڑیں، اگر ہتھیار ڈال دے تو انہیں جنگی قیدی بنا لیں، اور اگر وہ زیادہ مقابلہ کریں اور ہتھیار نہ ڈالیں تو ان کی بستیوں کو تباہ کردیا جائے۔امیرالمومنین نے یہ بھی لکھوایا کہ جب یہ دونوں سالار ان علاقوں سے جو انہیں دیے گئے ہیں باغیوں کو صاف کردیں تو سہل بن عدی حران اور عبداللہ بن غسان رہاء چلے جائیں۔حضرت عمر نے مزید حکم یوں لکھوایا کہ سالار ولید بن عتبہ الجزیرہ کے ان غیر مسلم عربوں کے علاقے میں جاکر حملہ کریں جہاں دو قبیلے بنو ربیعہ اور بنو تنوخ رہتے ہیں۔ہرقل کا اپنا ایک جاسوسی اور مخبری کا نظام تھا جس سے اس کے ذاتی حلقے کے افراد بھی ناواقف تھے ،یہ نظام اتنا خفیہ تھا کہ اس کا اپنا بیٹا قسطنطین بھی اس کے وجود سے آگاہ نہیں تھا۔ دوسرے تیسرے روز ایک مخبر جو فوج کا ہی کوئی عہدیدار ہوتا تھا ۔ہرقل کے پاس جا کر پوری رپورٹ دیتا تھا۔ایسا ہی ایک جاسوس ہرقل کے ہاں گیا، ہرقل کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہوتا اور خواہ وہ سویا ہوا ہی ہوتا اس کا حکم تھا کہ ایسا کوئی آدمی یہ کہے کہ وہ ایک ضروری بات بتانے آیا ہے تو اسے فورا اطلاع دی جائے اگر وہ سویا ہوا ہے تو اسے جگا لیا جائے ۔یہ جاسوس گیا تو ہرقل نے اسے فورا بلا لیا اور اپنے خاص کمرے میں بیٹھا کر دروازہ بند کر لیا۔تم جانتے ہو میں کیا معلوم کرنا چاہتا ہوں ؟ہرقل نے کہا ـــــــ بتاؤ کیا خبر لائے ہو؟ ـــــــ ان قبائلیوں پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ـــــــ جاسوس نے کہا ـــــــ ان میں بدلی سی پائی جاتی ہے، ان کی لڑکی کا واقعہ ادنیٰ سے ادنیٰ قبائل تک پہنچ گیا ہے۔ ان لوگوں کا ایک رد عمل یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قسطنطین کو وہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور اس کا نام آتا ہے تو ان لوگوں کے چہروں پر خفگی اور ناپسندیدگی کے تاثر آجاتے ہیں۔تمہاری اپنی رائے کیا ہے؟ ہرقل نے پوچھا ـــــــ اگر میں حکم دے دوں کہ حمص کی طرف پیش قدمی کرکے حمص کو محاصرے میں لے لیا جائے اور کوشش یہ کی جائے کہ محاصرہ طول نہ پکڑے تو کیا یہ قبائلی دل و جان سے لڑیں گے۔انہوں نے ایک شرط اپنے سامنے رکھ لی ہے ۔جاسوس نے جواب دیا ـــــــ وہ کہتے ہیں کہ رومی فوج لڑے گی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے اور اگر وہ فوج جوش اور جذبے سے نہ لڑیں تو تمام قبائل کے لوگ یہاں سے چلے جائیں گے۔ شہنشاہ معظم! ـــــــ اصل بات یہ ہے کہ آپ اس ملک کی خاطر لڑے ہیں لیکن یہ قبائلی صرف اپنا اپنے بیوی بچوں اور اپنے مال و اموال کا تحفظ چاہتے ہیں۔ان کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا پلہ بھاری ہوا تو ان کے ساتھ یہ لوگ جا ملے یا نہ ملے یہاں سے چلے جائیں گے اور آپ ان کی مدد سے محروم رہ جائیں گے۔اور اپنی فوج کا جذبہ کیسا ہے ؟ہرقل نے پوچھا ـــــــ کیا اپنی فوج میں جوش و خروش اور تازگی نظر آتی ہے؟نہیں شہنشاہ معظم ! ـــــــ جاسوس نے کہا ـــــــ آپ کے دل کو دکھ پہنچا کر مجھے دلی رنج ہو رہا ہے لیکن میرا فرض ہے کہ حقیقت بیان کروں، ہماری فوج میں کوئی تازگی نظر آتی ہے نہ ہی جوش و خروش نظر آتا ہے ،میں نے خود خیموں میں بیٹھ کر باتیں کیں اور ان کی سنی ہے۔ان بدبختوں پر مسلمانوں کا خوف اس طرح طاری ہے جیسے وہ کسی آسیبی اثر ہو ۔انہیں بتایا گیا کہ حمص میں مسلمانوں کی فوج بمشکل چار ہزار ہے اور یہ چار ہزار سپاہی ہماری اتنی بڑی فوج کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی ،جس میں صرف قبائلیوں کی نفری تیس ہزار ہے لیکن ہمارے سپاہیوں میں ذرا سا بھی جوش و خروش پیدا نہیں ہو رہا ،کچھ ایسی آوازیں اٹھنے لگیں ہیں مسلمانوں کا مذہب سچا ہے ایسی باتیں کرنے والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے۔

مختصر یہ کہ ہرقل کو اپنی فوج کے متعلق مایوس کون رپورٹ مل رہی تھی اسے کسی کی رائے لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی وہ خود مرد میدان اور تاریخ کا ایک قابل جرنیل تھا۔ جنگی امور کو اور فن حرب و ضرب کو خوب سمجھتا تھا، لڑنا بھی جانتا تھا، اور لڑانا بھی جانتا تھا، وہ اپنی فوج کا اور قبائلی لشکر کا تجزیہ خود کرسکتا تھا ،اس کے پاس اب یہی ایک راستہ تھا کہ وہ فورا حمص پر حملہ کر دیتا۔حمص اس کے قبضے میں آ جاتا تو اس کی فوج میں کچھ جذبہ پیدا ہوسکتا تھا لیکن اپنی فوج کی ذہنی اور جسمانی حالت کو اور عیسائی قبائلیوں کے تذبذب دیکھتا تھا تو وہ اس فیصلے پر پہنچتا تھا کہ ابھی حملہ نہ کیا جائے ۔وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا تھا کہ حمص کو کمک نہیں مل سکے گی اور مسلمانوں کی نفری تھوڑی ہی رہے گی۔ہرقل ایسا بوکھلایا ہوا تھا کہ وہ جان ہی نہ سکا کہ مسلمان کتنی تیزی سے حرکت میں آ رہے ہیں اور کچھ دنوں بعد کیا ہونے والا ہے۔اس کا اپنا جاسوسی کا نظام تھا تو بہت ہی تیز اور وہ لوگوں کے دلوں کی باتیں بھی معلوم کرلیا کرتا تھا لیکن اسے ذرا سابھی شک نہ ہوا کہ عرب کے دس بارہ مسلمان اس کے محاذ پر قبائلی عیسائیوں کے بہروپ میں پہنچے ہوئے ہیں اور وہ بڑی دانشمندی سے قبائلیوں میں بددلی اور رومیوں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں ذہنی تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے والے ان دس بارہ مسلمانوں کا کمانڈر حدید تھا ۔وہ تو اس تخریب کاری کا ماہر تھا، وہ بعض قبائل کے سرداروں تک پہنچ گیا تھا اور ان کے ذہنوں میں بھی اس نے ہرقل رومیوں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے ایمان عزم و عہد کے پکے اور سچے تھے وہ اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف لڑتے ہوئے جان قربان کرنے وطن سے اتنی دور آئے تھے، اللہ ان کے ساتھ نہ ہوتا تو اور کس کے ساتھ ہوتا!  مسلمانوں کے ہاں کوئی محلاتی سازش نہیں تھی، نہ ان میں لڑکیوں پر دست درازی کر کے دل خوش کرنے والے سالار تھے ،نہ ان کے دلوں میں کوئی شک اور شبہ تھا، وہ سب اللہ کے ایک عظیم پیغام کے پیامبر تھے، اور اپنے فرائض کو پوری طرح جانتے تھے، ان میں سالار بھی تھے، نائب اور ماتحت بھی تھے، لیکن سب جانتے تھے کہ اللہ کی نگاہ میں برتر وہ ہے جو ایمان اور کردار میں برتر ہے۔
پچھلے باب میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوعبیدہ کو اتنی نازک اور خطرناک صورتحال سے نکالنے کے لیے کیا کیا اقدامات کئے تھے، اور عراق کے محاذ کے کون کون سے سالار کو شام کے محاذ پر پہنچ کر کون کون سے علاقے میں جانے کا حکم دیا تھا۔ حضرت عمر خود بھی مجاہدین کا ایک لشکر لے کے حمص کو روانہ ہو گئے تھے۔امیرالمومنین نے ایک قاصد کو اس ہدایت کے ساتھ حمص کو بھیج دیا تھا کہ کمک بھی آرہی ہے، اور میں بھی آ رہا ہوں ،اور وہ اتنی تیز جائے جیسے اڑ کر حمص پہنچا ہو، جنگوں میں جرنیل اور سپہ سالار جب کسی محاذ کی طرف کوچ یا پیش قدمی کرتے تھے تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ دشمن کو اس کا علم نہ ہو سکے اور وہ اچانک دشمن پر جا ہلہ بولے لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس جنگی اصول کے بالکل الٹ ایک کاروائی کی وہ یہ کہ چند ایک شتتر سوار اور گھوڑسوار الگ کیے اور انہیں کہا کہ وہ آگے نکل جائیں اور محاذ کے قریب بستیوں میں یہ خبر پھیلاتے  جائیں کہ مدینہ سے بہت بڑی کمک حمص کو جا رہی ہے۔امیرالمومنین نے یہ بھی کہا کہ الجزیرہ میں وہ خاص طور پر یہ خبر پھیلائیں اور یہ بھی کہ عراق سے کچھ سالار دستے لے کر حمص اور بزنطیہ کی طرف جارہے ہیں ۔حضرت عمر اپنے کوچ کی یہ تشہیر اور نمائش اس خیال کے پیش نظر کر رہے تھے کہ انھیں پتہ چل گیا تھا کہ ہرقل میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ اب کہیں بھی مجاہدین کے ساتھ ٹکر لے سکے یا کہیں جوابی حملہ کر سکے۔مدینہ سے روانگی سے کچھ پہلے امیر المومنین نے اپنے مصاحبوں سے کہا تھا کہ ہرقل کی فوج کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اتنا زیادہ نقصان اٹھا چکی ہے کہ اب اس کا لڑنے کا جذبہ مر ہی گیا ہو گا۔امیرالمومنین اپنی اور کمک کی آمد کی زیادہ تشہیر الجزیرہ کے ان عیسائی قبائل میں کرنا چاہتے تھے جنہوں نے ہرقل کو تیس ہزار نفری کا لشکر دیا تھا ۔ اس تشہیر کا مقصد یہ تھا کہ قبائل ڈر جائیں کہ مسلمان انکی بستیوں کو تباہ کر دیں گے اور یہ سوچ کر وہ ہرقل کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔یہ صحیح طور پر بتانا ممکن نہیں کہ امیرالمومنین کا قاصد کتنے دنوں بعد حمص پہنچا تھا، بہرحال وہ بہت ہی تیزی سے سفر کرتا حمص پہنچ گیا اور ابو عبیدہ کو یہ خبر سنائی کہ کمک پہنچ رہی ہے اور امیرالمؤمنین ایک لشکر کے ساتھ خود بھی آرہے ہیں ،قاصد نے انہیں یہ بھی بتایا کہ حمص اور کہاں کہاں سے کمک مل رہی ہے۔ اور یہ بھی کہ قبائلی علاقوں میں بھی سالار اپنے اپنے دستے لے کر پہنچ گئے ہیں۔تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ ابو عبیدہ نے کس طرح سکھ اور چین کا سانس لیا ہوگا۔ وہ تو سپہ سالار تھے وہاں کوئی چھوٹے سے چھوٹا مجاہد بھی جیتی ہوئی بازی ہارنا نہیں چاہتا تھا ،ابو عبیدہ نے مجاہدین کو صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ جان قربان کر دو، ہر مجاہد نے عہد کر لیا تھا ـــــــ فتح ہے یا موت، ـــــــ ان حالت میں امیرالمومنین کا قاصد ابوعبیدہ کو یوں نظر آنے لگا جیسے اللہ نے آسمان سے رحمت کا فرشتہ اتارا ہو۔خالد بن ولید بھی چار ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ حمص پہنچ چکے تھے ،خالد بن ولید خطرہ مول لینے والے سالار تھے انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ باہر نکل کر لڑیں گے لیکن ابو عبیدہ اور دوسرے سالاروں نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا تھا ،اب اطلاع ملی کہ اللہ کی مدد امیرالمومنین کی صورت میں آرہی ہے تو خالد بن ولید بہت ہی خوش ہوئے کہ اب باہر نکل کر لڑنے کا موقع ملے گا۔امیرالمومنین کا یہ قاصد واپس چلا گیا اور ایک ہی دن کے وقفے سے دوسرا قاصد آ گیا، امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس دوسرے قاصد کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ ابو عبیدہ اپنے ذرائع سے رومیوں کے محاذ پر یہ خبر پھیلا دیں کہ عراق سے کمک آگئی ہے ،اور بہت سے دستے الجزیرہ کے قبائلی علاقوں میں پھیل گئے ہیں، امیر المومنین نے خاص طور پر یہ ہدایت بھیجی کہ ان قبائل کا جو لشکر کر ہرقل کے پاس پہنچ گیا ہے اس لشکر پر یہ خطرہ سوار کردیا جائے کہ مسلمانوں کے جو دستے الجزیرہ میں گئے ہیں وہاں کی بستیاں اجاڑ دیں گے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارا علاقہ اب مسلمانوں کے تسلط میں ہے اور اس علاقے کے جو لوگ رومیوں کی مدد کے لئے چلے گئے ہیں وہ غدار ہیں ،اور انہیں اس غداری اور بغاوت کی سزا دی جائے گی جو یہ ہوگی کہ ان کی بستیاں اجاڑ دی جائینگی اور مویشیوں پر مسلمان قبضہ کرلیں گے۔یہ ایک نفسیاتی یلغار تھی جو امیرالمومنین رومیو اور ان کے قبائلی اتحادیوں پر کر رہے تھے، ابو عبیدہ نے تو پہلے ہی دس بارہ مجاہدین قبائلی لشکر میں بددلی پیدا کرنے کے لیے بھیج رکھے تھے ،اب انہیں امیر المومنین کی یہ ہدایت ملی تو انہوں نے ایک اور مجاہد کو یہ ساری ہدایت سمجھا کر رومیوں کے محاذ پر بھیج دیا۔یہ قاصد قبائلی عیسائیوں کے بھیس میں روانہ ہوگیا ،اسے حدید کے پاس پہنچنا تھا اور باقی کام حدید اور اس کے ساتھیوں کو کرنا تھا، رومی فوج اور عیسائی قبائلی پہاڑوں کے اندرونی علاقوں میں اس طرح خیمہ زن تھے کہ حمص ان کے محاصرے میں تھا ، لیکن وہ حمص سے ابھی کئی میل دور تھے اس سارے لشکر کو ہرقل کے حکم پر حمص کی طرف پیش قدمی کرنی تھی اور حمص کو محاصرے میں لے لینا تھا۔ابو عبیدہ کا بھیجا ہوا یہ قاصد وہاں پہنچا تو قبائلی اسے اپنا ہی آدمی سمجھ کر دوڑے آئے اور اسے گھیر لیا وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اپنے علاقے کے حالات کیسے ہیں؟ ان کی باتوں سے قاصد کو اندازہ ہوا کہ انہیں پہلے ہی خبر مل چکی ہے کہ مسلمانوں نے الجزیرہ کی بستیوں پر حملہ کردیا ہے اور وہاں کے حالات ٹھیک نہیں قاصد نے انہیں بتایا کہ حالات بہت برے ہیں اور مسلمان تعزیری کارروائی کے طور پر بستیاں اجاڑ رہے ہیں، مختصر یہ کہ قاصد نے اچھی خاصی دہشت پھیلا دی اور پھر وہ ڈھونڈتا ہوا حدید تک بھی پہنچ گیا حدید بھی قبائلی عیسائی بنا ہوا تھا، قاصد نے اسے بتایا ابوعبیدہ کا پیغام دیا حدید نے اسے بتایا کہ وہ واپس چلا جائے اور سپہ سالار ابوعبیدہ کو تسلی دے کہ جو طریقہ کار انہوں نے بتایا ہے اس پر پہلے ہی عمل ہورہا ہے ،اور اس میں جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ الجزیرہ سے خود عیسائی خبریں لے کر پہنچ گئے ہیں اور اس تمام تر تیس ہزار لشکر کو پتہ چل چکا ہے کہ پیچھے خیریت نہیں۔قاصد واپس آگیا ،اور حدید اور اس کی مختصر سی جماعت نے جلتی پر خوب تیل ڈالا اور قبائلیوں کے لشکر پر دہشت طاری کر دی ۔محاذ پر یہ قبائلی کسی ایک جگہ اکٹھا نہیں تھے وہ تو میلوں لمبائی میں رومی فوج کے ساتھ پھیلے ہوئے تھے ایک افواہ اڑی تھی جو تیز ہوا کی طرح دور دور تک پھیلے ہوئے قبائل تک پہنچ جاتی تھی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا تھا ہر ایک کی زبان پر یہی ایک افواہ ہوتی تھی اس لیے ہر کوئی اسے سچ مانتا تھا۔قبائلی پہلے ہی رومیوں سے بد دل ہو چکے تھے ان کے دلوں میں رومیوں کے متعلق جو شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے انہیں حدید اور اس کی جماعت نے مزید پکا کر دیا تھا اور یہ شکوک یقین کی صورت اختیار کرگئے تھے، اصل میں یہ بات پیدا کردی گئی تھی کہ جو لڑائی لڑتے آئے ہیں وہ رومیوں کے مفادات کی لڑائی ہے اور اس میں ان کے لئے نقصان ہی نقصان ہے اب انہیں یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کا لشکر ان کے علاقوں پر حملہ آور ہو گیا ہے تو قبائلی سرداروں کا ایک وفد ہرقل کے پاس گیا۔یہ خبریں ہرقل تک بھی پہنچ چکی تھیں قبائلی سرداروں نے اسے بتایا کہ وہ اس کی لڑائی لڑنے آگئے ہیں لیکن ان کے اپنے علاقوں پر مسلمانوں نے یلغار کردی ہے۔

ہرقل بڑا ہی ہوشیار اور چالاک آدمی تھا، عیار ایسا کہ کہ کسی کو شک نہیں ہوتا تھا کہ یہ شخص عیاری کررہا ہے ،اس نے قبائلی سرداروں کے وفد کی پوری بات بڑی دلچسپی اور ہمدردی سے سنی۔میرے عزیز بھائیو ! ـــــــ ہرقل نے کہا ـــــــ مجھے سب سے پہلے تمہارے گھروں کا اور بیوی بچوں کے تحفظ کا خیال ہے، اگر مسلمان تمہارے علاقوں میں آگئے ہیں تو کوئی قیامت نہیں آگئی، میں اب حمص پر حملے کو مزید ملتوی نہیں کروں گا ، ہم نے حمص مسلمانوں سے لے لیا تو پھر ہم اس کی کمر توڑ دیں گے اور پھر تم دیکھنا کہ تمہارے علاقوں میں مسلمانوں کی جو فوج پھیل گئی ہے ،وہ سب بھاگی بھاگی اس طرف آ جائے گی، میرا ساتھ دو اور پھر دیکھنا کہ ہم ان مسلمانوں کو کس انجام تک پہنچائیں گے۔
ہم اور انتظار نہیں کرسکتے وفد کے ایک سردار نے کہا ـــــــ حمص فتح ہونے تک مسلمان ہماری بستیوں کا صفایا کر چکے ہوں گے ،اگر آپ ہمارا تعاون اور اتحاد چاہتے ہیں تو پہلے اپنی فوج کو ہمارے ساتھ ہمارے علاقوں میں بھیجیں ہم مسلمانوں کو وہاں سے بھگا دیں گے اور پھر حمص پر حملہ کریں گے یا جہاں آپ چاہیں گے ہم آپ کے ساتھ ہونگے۔ہرقل اتنا کچا آدمی نہیں تھا کہ وہ ان قبائلیوں کی باتوں میں آ جاتا وہ تو انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہا تھا قبائلیوں کی پریشانی بلا وجہ نہیں تھی، پہلے ایک موقع پر مسلمانوں نے ان کی تین بستیاں اس جرم کی سزا کے طور پر تباہ کر دی تھی کہ انھوں نے اس وقت بھی مسلمانوں کے خلاف رومیوں کا ساتھ دیا تھا ،ان قبائلیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ ہرقل تو حمص پر حملے کو ملتوی کرتا چلا جا رہا رہا ہے لیکن مسلمان عزم کے اتنے پکے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کا نام لے کر تکبیر کے نعرے لگاتے حملے کر دیتے ہیں اور اپنی کوئی کاروائی التوا میں نہیں ڈالتے۔ہرقل چاہتا تھا کہ قبائلی اس کے ساتھ رہیں اور وہ حمص پر حملہ کرے، لیکن قبائلی چاہتے تھے کہ ہرقل انہیں اپنی فوج دے دے اور وہ مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے نکالیں، ہرقل نے زبان سے یہ داؤٰ آزمایا، بڑے پیار اور بظاہر دلی ہمدردی سے بھی انھیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن قبائلی سردار جو پہلے ہی رومیوں سے بد دل ہو گئے تھے ان کی باتوں میں نہ آئے اور یہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے۔

میری ایک بات سن لو ـــــــ ہرقل نے بگڑے ہوئے لہجے میں کہا ـــــــ جسے تم اپنا علاقہ کہہ رہے ہو وہ تمہارا اپنا نہیں ،وہ علاقہ اس کا ہے جس نے یہ ملک فتح کیا ہے ،پہلے تم میرے زیر تسلط تھے ،اب اس علاقے پر مسلمان قابض ہو گئے ہیں، لہذا تم آزاد نہیں ہو اگر تم لوگوں میں ہمت اور غیرت ہے تو مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دو ،وہ نئے نئے آئے ہیں اور ابھی یہاں کا نظام انہوں نے نہیں سنبھالا اس بدنظمی سے فائدہ اٹھاؤ اور باغی ہو جاؤ۔سردار وہاں سے آ گئے، وہ ہرقل سے ملنے بزنطیہ گئے تھے ،جو حمص سے خاصا دور تھا۔ واپس محاذ تک پہنچتے پورا دن اور آدھی رات گزر گئی تھی، وہ محاذ پر پہنچے تو انہیں اطلاع ملی کہ قبائلیوں کے بیشتر نفری یہاں سے رخصت ہو چکی ہے اور سب اپنے اپنے علاقے کی طرف چلے گئے ہیں ان سرداروں نے بھی بوریا بسترسمیٹا اور روانہ ہوگئے انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ساتھ لے گئے ہیں۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ ایک صبح ابو عبیدہ اذان کی آواز پر جاگے ، وہ نماز کے لیے اٹھے تھے کہ دربان نے انہیں اطلاع دی کہ حدید ببن مومن خزرج اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا ہے۔ ابو عبیدہ کو جیسے اپنے کانوں پر شک ہوا ہو ۔انہیں توقع نہیں تھی کہ حدید اپنی جماعت کے ساتھ اچانک واپس آجائے گا ،انہیں کچھ پریشانی سی ہوئی کہ رومیوں کو ان کی اصلیت معلوم ہو گئی ہو گی اور دو چار آدمی پکڑے گئے ہونگے اور باقی بھاگ آئے ہیں، ابو عبیدہ انہیں بلانے کے بجائے دوڑے باہر نکلے، دیکھا حدید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کی جماعت کے تمام فرد موجود تھے اور سب کے چہروں پر بشاشت تھی۔تم سب کیوں آئے ہو؟ ـــــــ ابوعبیدہ نے پوچھا ـــــــ اس لیے کہ تیس ہزار قبائلیوں کا لشکر چلا گیا ہے ـــــــ حدید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ـــــــ کہاں؟ ـــــــ جہاں سے وہ آئے تھے ـــــــ حدید نے جواب دیا ـــــــ کچھ ہماری کامیابی نے ان لوگوں میں بدلی پھیلا دی تھی اور باقی کام ان اطلاعات اور خبروں نے کر دیا ،جو ان لوگوں کو اپنے علاقوں سے پہنچی تھی کہ مسلمان آگئے ہیں ،ہم نے افواہیں پھیلائیں، جلتی پر تیل ڈالا اور آخر قبائلی رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے، حدید اور اس کے ساتھیوں نے تفصیلات سنائی کہ قبائلی کس طرح ہرقل سے بدظن ہوئے تھے ،اور آخر وہ کس طرح ہرقل کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے ۔ابو عبیدہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا اور بلند آواز سے کہا کہ یہ سب اس اللہ تبارک و تعالی کی رحمت و برکت ہے، جس کے نام پر ہم یہاں آئے تھے اور جس کے نام پر ہم نے اپنی جان کی قربانی کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ ابو عبیدہ اور یہ سب لوگ نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے، اس زمانے میں سپہ سالار امامت کے فرائض سرانجام دیا کرتا تھا ،ابو عبیدہ نے نماز کی امامت کی اور نماز سے فارغ ہوئے تو ابوعبیدہ اٹھے اور سب سے کہا کہ کوئی آدمی ابھی جائے نہیں۔ آج کی صبح ہمارے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری لے کر طلوع ہوئی ہے ،ابو عبیدہ نے بڑی بلند آواز میں کہا ـــــــ اور ہزارہا مجاہدین جو وہاں موجود تھے ،سناٹے میں آگئے ،ابو عبیدہ نے اعلان کیا تیس ہزار عیسائی قبائل کا لشکر رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے علاقوں میں چلا گیا ہے یہ اللہ کی غیبی مدد ہے، اللہ نے قرآن کی سورۃ الزمر میں فرمایا ہے کہ جنہوں نے شیطان سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف رجوع کیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں فرمایا ہے کہ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنادیں، جو میری بات سنتے ہیں اور نیک راستے پر چلتے ہیں اور اللہ انہی کو صحیح راستہ دکھاتا ہے اور یہی ہیں جو عقل و ہوش والے ہیں،  اللہ کے یہ بندے تم ہو جنہیں اللہ نے آج خوشخبری بھیجی ہے کہ الجزیرہ کے قبائلیوں کا وہ تیس ہزار کا لشکر جو ہمارے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن گیا تھا ،چھوڑ کر ان سے بدظن ہوکر چلا گیا ہے اور پیچھے روم کی تھوڑی سی فوج رہ گئی ہے ،یہ فوج تم سے پہلے ہی خوفزدہ ہے اور اس فوج میں اتنا سا دم خم بھی نہیں کہ تمہارے سامنے ایک دن بھی ٹھہر سکے۔ نعرہ تکبیرـــــــ کسی نے پورا زور لگا کر یہ نعرہ بلند کیا اور حمص کے زمین و آسمان اللہ اکبر کے گونجدار اور گرج دار دھماکے سے لرز اٹھے۔ یہ نعرہ بلند کرنے والے خالد بن ولید تھے، جو ابوعبیدہ کی مدد کے لئے قنسرین سے آکر حمص میں مقیم تھے ،انہوں نے شہر سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا تھا ،جو سپہ سالار ابوعبیدہ نے نہیں مانا تھا، اب انھیں شہر سے باہر جا کر کھلے میدان میں رومیوں سے آمنے سامنے کے معرکے کا موقع مل گیا تھا،  مجاہدین اسلام ابوعبیدہ بڑی پرجوش آواز میں کہہ رہے تھے، ان شاء اللہ یہ معرکہ شام کا آخری معرکہ ہوگا ،جس طرح عراق کی سرزمین زرتشت کے پجاریوں سے پاک ہو گئی ہے، اسی طرح شام سے رومی ہمیشہ کے لئے چلے جائیں گے، اور یہ زمین بھی پاک ہوجائے گی، مجھے یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن ایک بار پھر یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں ہم نے یہ ملک اس لیے فتح نہیں کیا کہ یہاں حکمرانی کریں گے یا یہاں کے بادشاہ بن بیٹھیں گے، بلکہ ہمارا مقصد اور ایمان یہ ہے کہ یہاں اللہ کی حکمرانی قائم کریں گے، یہ بھی سن لو کہ ملک کے فتح کرنے پر ہی ہمارا کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اصل کام اسکے بعد شروع ہوتا ہے،  یہ کام ہے لوگوں کے دلوں پر فتح حاصل کرنا اور ان کے دلوں سے غلامی کا احساس مٹا کر انہیں وہ تقریم و تعظیم دینا جو اللہ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے، لیکن ابھی اپنے آپ کو فاتح نہ سمجھ لینا کیونکہ دشمن ابھی یہاں موجود ہے جب تک دشمن اپنے خون میں ڈوب نہ جائے اور اپنے گھوڑوں کی اڑائی ہوئی گرد میں گم نہ ہو جائے اپنے آپ کو فاتح نہ سمجھنا۔ اللہ نے معجزہ دکھا کر ہمارے دشمن کو تیس ہزار کے لشکر سے محروم کر دیا ہے ہمیں یقین ملا ہے کہ اس کی ذات باری ہمارے ساتھ ہے ۔امیرالمومنین بھی کمک لے کر آرہے ہیں اور قعقاع بن عمرو ہماری مدد کے لئے چار ہزار گھوڑسوار لے کر پہنچنے ہی والے ہیں۔ اب فورا حملے کی تیاری کرو ضروری ہدایت اور دیگر باتیں تمہیں سالار بتا دیں گے۔ مجاہدین کے اس لشکر کی جذباتی اور جسمانی کیفیت ایسی ہوگی جیسے ان میں نئی روح پھونک دی گئی ہو وہ ہمت اور حوصلہ ہارنے والے نہیں تھے انہوں نے ہر میدان قلیل تعداد سے فتح کیا تھا اور کئی گناہ زیادہ طاقتور دشمن کو تہہ تیغ کیا تھا لیکن یہاں ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ پریشانی کے آثار سپہ سالار کے چہرے پر بھی نظر آنے لگے تھے وہ محاصرے میں آکر لڑنے کے لئے تیار تھے لیکن اب اپنے سپہ سالار سے یہ خوشخبری سنی تو وہ بند کلیوں کی طرح کھل اٹھے ابوعبیدہ اور خالد بن ولید نے حملے کا پلان تیار کر لیا اور اپنے لشکر کو فوری تیاری کا حکم دے دیا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

بازنطیہ میں ہرقل کے یہاں تو ماتم والی فضا بن گئی تھی وہ عیسائی قبیلوں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوا تھا اس کا اپنا جو جاسوسی نظام تھا، اس سے اپنی فوج کے متعلق بڑی مایوس کن رپورٹ مل رہی تھیں ،قبائلیوں کے چلے جانے سے ہرقل اتنا مایوس نہیں ہوا تھا ،جتنی مایوسی اس کی فوج پر طاری ہو گئی تھی، مایوسی تو طاری ہونی ہی تھی فوج کی یہ نفری جو اس وقت بزنطیہ میں تھی یہ ہرقل کی بچی کھچی فوج تھی ان فوجیوں نے اپنے ہزارہا ساتھیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں کٹتے دیکھتا تھا انہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان کے اپنے گھوڑ سوار اپنے پیادہ سپاہیوں کو گھوڑوں تلے کچل کر پسپا ہوئے تھے۔تین مؤرخوں کے مطابق اس وقت تک شام کی جنگ میں ہرقل کے تقریبا نوے ہزار فوجی مارے جاچکے تھے اور زخمیوں کا کوئی شمار ہی نہ تھا۔ صحیح سلامت گھوڑے جو مسلمانوں کے ہاتھ آئے تھے ان کی تعداد ہزاروں تھی، ہرقل اپنے بیٹے قسطنطین کے ساتھ وہاں گیا، جہاں اس کی فوج خیمہ زن تھی اور جس نے حمص کو محاصرے میں لینا تھا ،یہ فوج دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اسے ایک جگہ اکٹھا کیا گیا اور ہرقل نے اپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے بڑی جوشیلی تقریر کی لیکن اس نے دیکھا کہ اس کے فوجی یوں چپ چاپ اور بے حس و حرکت سن رہے ہیں جیسے ان کے جسم بے جان ہو چکے ہوں ۔یہ فوج تو ہرقل کو اپنے قریب دیکھ کر نعرے لگایا کرتی تھی لیکن اب اس فوج کا یہ عالم تھا کہ جس قدر جوش و خروش سے بات کرتا تھا اسکی فوج اتنی ہی مردہ ہوتی چلی جا رہی تھی، کسی نے رسمی طور پر بھی نعرہ نہ لگایا، ہرقل بغیر لڑے پسپا نہیں ہونا چاہتا تھا اس نے اپنی اس فوج میں جان ڈالنے کے لیے ایک اور حربہ آزمایا۔تم ارض روم کے شیر ہو، ہرقل نے بازو ہوا میں لہرا کر کہا ـــــــ تم روم کی عزت اور ان کے محافظ ہو، تم نے اس ملک پر حکومت کی ہے، مرد میدان اپنی ملکیت اور اپنی بادشاہی آسانی سے دشمن کے حوالے نہیں کیا کرتے، اگر تم اس میدان میں جم گئے تو یہ ملک شام پھر تمہارا ہوگا، میرے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ مسلمان حمص سے باہر آکر ہم سے لڑیں گے، میں یہی چاہتا تھا کہ وہ قلعہ بند شہر کے دیواروں سے باہر آجائیں اور پھر مجھے پورا یقین ہے کہ تم انہیں بھاگنے نہیں دو گے، کاٹ کر پھینک دو گے ،میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم میں سے ہر سپاہی کو خالص سونے کا ایک ایک ٹکڑا دوں گا تم میں سے جو زیادہ بہادری سے لڑیں گے، انہیں الگ انعام دیا جائے گا ،جو اسے مالا مال کردے گا یہ بھی سن لو کہ جو بزدلی دکھائے گا اور بھاگے گا اسے زندہ جلا دیا جائے گا ،میں انعام دینے میں ایسی فیاضی کرونگا کہ تم حیران رہ جاؤ گے۔اب عقل کی اس اندھی فوج میں کچھ حرکت نظر آنے لگی اور سپاہیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ،جیسے ہرقل کو خراج تحسین پیش کر رہے ہوں، یہ فوج تنخواہ دار تھی ہر سپاہی کے پیش نظر دو چیزیں رہتی تھی ایک تنخواہ اور دوسرا مال غنیمت۔اس فوج کو مال غنیمت کہاں سے ملتا، یہ تو ہر میدان سے بھاگی ہوئی فوج تھی، جان بچانا ہی ان کے لیے بہت بڑی غنیمت تھی۔ہرقل کی تقریر میں جوش بڑھتا ہی جا رہا تھا اس نے دیکھا کہ سپاہیوں میں کچھ ہلچل پیدا ہوگئی ہے تو اس نے کہا کہ حمص سونے اور چاندی کے خزانوں کا شہر ہے۔اس شہر کو فتح کر لو اور یہ خزانے تمہارے ہونگے ۔مال غنیمت اتنا زیادہ اور اتنا قیمتی ہے کہ دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے۔ اس شہر میں انتہائی حسین لڑکیاں اتنی زیادہ تعداد میں ہے کہ ہر سپاہی کے حصے میں ایک لڑکی آ جائے گی اور جو سپاہی کسی بھی لڑکی کو ساتھ لے کے آئے گا وہ اسی کی ملکیت رہے گی۔اب تو صاف نظر آنے لگا کہ اس رومی فوج میں زندگی لوٹ آئی تھی، ہرقل نے فوج کو بتایا کہ حمص میں مسلمانوں کی فوج بہت ہی کم ہے، جو ایک دن بھی مقابلہ نہیں کرسکے گی۔دو تین جرنیل فوج کے پیچھے گھوڑوں پر سوار تھے، ان جرنیلوں میں ایک انتھویس تھا جس کے پہلو میں ایک اور گھوڑ سوار تھا۔وہ یوکلس تھا۔ ہرقل نے یوکلیس کی ماں سے کہا تھا کہ وہ یوکلس کو جرنیل بنا رہا ہے لیکن اسے عملی تجربے کی ضرورت ہے۔یوکلس کی ماں تو خوش ہو گئی تھی اور یو کلس بھی خوش تھا ،لیکن ماں بیٹے جان نہ سکے کہ ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین نے یہ انتظام یوکلس کو مروانے کے لیے کیا تھا، تو اس نے یوکلس کو بہت دن پہلے جرنیل آنتھونیس کے حوالے کرکے کہا تھا کہ اسے میدان جنگ میں قیادت کے عملی سبق دینے ہیں۔یوکلس کو اس طرح مروانے کی سازش سے جرنیل انتھونیس کو بے خبر رکھا گیا تھا۔ اسے ہرقل نے کہا تھا کہ یہ اس کو لڑائی کے دوران اپنے ساتھ ہی نہ رکھے بلکہ اسے کچھ دیر کے لیے الگ کرکے لڑائی میں سپاہیوں کی طرح شامل ہونے دے، یوکلس کو قتل کرنے کا کام دو عہدے داروں کو سونپا گیا تھا ،انہیں بتایا تھا کہ وہ اس پر نظر رکھیں اور وہ جب گھمسان کی لڑائی میں ذرا الگ ہوجائے تو اسے قتل کر دیں اور پھر مشہور کیا جائے گا کہ یوکلس لڑتے ہوئے مارا گیا ہے ،ان عہدے داروں سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ قتل انتھونیس کے سامنے نہ ہو۔یوکلیس کو پہلی بار جنگ میں آنے کا موقع ملا تھا، وہ ماہر تیغ زن اور برچھی باز تھا ، بازو تو اس کا ایک ہی تھا لیکن اسی ہاتھ سے وہ تیغ زنی اور برچھی بازی کے ایسے کمالات دیکھاتا تھا کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے تھے، وہ بہت ہی خوش تھا کہ اسے لڑنے کا موقع دیا گیا ہے۔ہرقل کا لیکچر ختم ہوگیا تھا اور فوج ابھی وہیں کھڑی تھی ہرقل گھوڑے پر سوار اپنی فوج کا معائنہ کرنے کو چلا اس کے ساتھ قسطنطین گھوڑے پر سوار تھا۔اب تو اس یوکلس کو زندہ رہنے کا حق ملنا ہی نہیں چاہیے ـــــــ قسطنطین نے ہرقل سے کہا ـــــــ کیا آپ نے اس کے جرم کی سنگینی کا ابھی تک اندازہ نہیں کیا ؟ ان قبائلیوں کو یہاں سے بھگانے میں یوکلس کا بھی اچھا خاصہ ہاتھ ہے ، انہیں میرے خلاف اتنا زیادہ بھڑکا دیا تھا کہ مجھے یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ لڑائی کے دوران یہ قبائلی میرا حکم مانیں گے ہی نہیں۔میں نے اب فیصلہ بدل تو نہیں دیا؟ ـــــــ ہرقل نے کہا ـــــــ میں اسے زندہ رہنے کے حق سے محروم کرچکا ہوں ،تم اب یہ سوچو کہ مسلمانوں نے حملہ کردیا تو تم اس فوج کو کس طرح لڑاؤ گے۔قسطنطین نے باپ کو یقین دلایا کہ وہ اس فوج کو بڑے کارگر طریقے سے لڑائے گا اور اپنی جان بھی لڑا دے گا، یہ دونوں باتیں کرتے کرتے یو کلس اور انتھونیس تک جا پہنچے اور گھوڑے روک لیے ،ہرقل نے یوکلس کی پیٹھ تھپکی اور بڑے پیار سے اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس لڑائی کے بعد تم جرنیل ہوگے۔

امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو عراق پیغام بھیجا تھا کہ قعقاع بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر فورا حمص روانہ کر دیا جائے اور وہ کم سے کم پڑاؤ کر کے وہاں پہنچیں، قعقاع پہلے ایران کی فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے اور انہیں شکست دینے میں بہت شہرت حاصل کی تھی ان کی تیز رفتاری تو خاص طور پر مشہور تھی اب وہ بھی حمص کو اسی تیز رفتاری سے جارہے تھے لیکن فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ ابھی منزل تک نہیں پہنچے تھے۔حمص میں ابو عبیدہ کو پیغام مل گیا تھا کہ قعقاع ان کے پاس چار ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ پہنچ رہے ہیں ،لیکن ابو عبیدہ نے ان کا انتظار نہ کیا کیونکہ انہوں نے خالد بن ولید سے مشورہ کرکے فیصلہ کیا تھا کہ رومیوں کی اس فوج پر فورا حملہ کردیا جائے۔ ان دونوں سواروں نے یہ سوچا تھا کہ یہ فوج اور ہرقل خود بھی صدمے کی حالت میں ہونگے کہ وہ تیس ہزار قبائلی لشکر سے محروم ہوگئے ہیں ، دوسری سوچ یہ آئی تھی کہ اس فوج کو اتنی مہلت نہ دی جائے کہ بزنطیہ جا کر قلعہ بند ہو جائے محاصرے کی جنگ لمبی ہو سکتی تھی۔
سالار اس علاقے سے واقف نہیں تھی جس میں ہرقل کی فوج موجود تھی سپہ سالار ابوعبیدہ نے حدید کو بلایا حدید تو اس علاقے میں رہ کر آیا تھا اس لئے وہاں کے خدوخال سے ہی نہیں بلکہ چپے چپے سے واقف تھا اس نے سپہ سالار کو وہاں کی زمین نہایت اچھی طرح سمجھا دی۔وہ علاقہ میدانی نہیں پہاڑی اور جنگلاتی تھا، حملے اور لڑائی کا پلان اس کے مطابق بنایا گیا ۔اسی روز پیش قدمی کا حکم دیدیا گیا حدید اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ ہراول دستے کے ساتھ گائیڈ کے طور پر گیا، ادھر ہرقل اور قسطنطین ابھی فیصلہ نہیں کر سکے تھے کہ فوج کو یہیں رہنے دیں یا بزنطیہ بلا کر قلعہ بند ہو جائیں، یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ انھیں ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ مسلمان پیش قدمی کریں گے یا حمص میں ہی اس انتظار میں رہیں گے کہ رومی فوج حملہ کرے ۔تاریخ سے اتنا پتا چلتا ہے کہ ہرقل بری طرح بوکھلایا ہوا تھا اور تذبذب کے عالم میں تھا اپنی فوج کو بہرحال اس نے ہر وقت تیار رہنے کا حکم دے دیا تھا۔ابوعبیدہ چاہتے تو یہ تھے کہ اچانک رومیوں پر جا پڑیں لیکن ایسی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ رومیوں کو بے خبری میں جا لے گے کیونکہ ہرقل کے مخبر اور جاسوس حمص میں بھی موجود تھے اور انکا باہر کے علاقے میں بھی موجود ہونا یقینی تھا۔ ابو عبیدہ نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ایک حصے کو سیدھا جانا تھا اور دو حصوں کو دائیں اور بائیں دور دور نکل کر جانا تھا اور دشمن کو یہ تاثر دینا تھا کہ حملہ آور فوج یہی ہے جو سامنے سے آ رہی ہے۔ابو عبیدہ اس درمیان والے حصے کے ساتھ تھے اس حصے کی پیش قدمی کی رفتار کم رکھی گئی تاکہ دائیں اور بائیں والے حصے اپنے اپنے مقام تک پہنچ جائیں اور پھر سامنے سے حملہ کیا جائے ان پہلوؤں والے دستوں کو دور کا چکر کاٹ کر جانا تھا۔فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ پیش قدمی میں دن ہی گزرجاتا فجر کی نماز کے بعد چلا ہوا لشکر اس وقت لڑائی کے مقام پر پہنچ گیا جب سورج سر پر آ رہا تھا۔جوں ہی ابو عبیدہ کے دستے پہاڑوں سے نکل کر اس کشادہ میدان میں پہنچے جہاں رومی فوج تھی تو انہوں نے دشمن کو لڑائی کی ترتیب میں تیار پایا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ہرقل کو پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی، ہرقل خود میدان جنگ میں نہیں تھا، کمان اس کے بیٹے قسطنطین کے ہاتھ میں تھی، مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر اس نے بڑے ہی پرجوش لہجے میں اپنی فوج کو للکارا اور کہا کہ وہ دیکھو تمہارا دشمن کتنی تھوڑی تعداد میں ھے اور تم اسے آسانی سے کاٹ دو گے اس کے ساتھ ہی قسطنطین نے اپنی فوج کو دائیں بائیں اور زیادہ پھیلا دیا۔

اس زمانے کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ لڑائی شروع ہونے سے پہلے دونوں طرفوں سے ایک دوسرے کو للکارا جاتا تھا کہ ہمارے ایک بہادر کے مقابلے میں اپنا کوئی بہادر نکالو اس طرح دونوں طرفوں سے ایک ایک آدمی دونوں فوجوں کے درمیان جا کر مقابلہ کرتے تھے، جو ایک کے مارے جانے تک جاری رہتا تھا، عموما خالد بن ولید ایسے کئی مقابلے لڑ چکے تھے اور ان انفرادی مقابلوں میں انہوں نے رومیوں کے کئی جرنیل ہلاک کیے تھے، لیکن اس لڑائی میں ایسا کوئی مقابلہ نہ ہوا ابو عبیدہ نے آمنے سامنے کے حملے کا حکم دے دیا اور مجاہدین نعرہ تکبیر کی گرج کے ساتھ پورے جوش و خروش سے دشمن کی طرف بڑھے چند منٹوں میں ہی دونوں فوجیں گتھم گتھا ہوگئیں۔رومیوں کا جرنیل انتھونیس یو کلس کے ساتھ ایک پہلو پر تھا ،وہ اس طرح یوکلس کو ہر بات بتا رہا تھا جس طرح استاد اپنے شاگرد کو سبق دیا کرتا ہے ،کیونکہ وہ جرنیل تھا اس لئے سپاہیوں کی طرح لڑ نہیں رہا تھا بلکہ لڑا رہا تھا اسکے اور یوکلس کے ہاتھ میں تلوار تھی، اور گھمسان کی لڑائی ان تک پہنچ رہی تھی، یوکلس آگے بڑھ کر لڑنا چاہتا تھا لیکن انتھونیس نے اسے آگے نہیں جانے دے رہا تھا وہ یوکلس کو پینترے اور لڑائی کے داؤ پیچ بتا رہا تھا۔رومی فوج جم کر لڑ رہی تھی وہ تو بدل اور کم حوصلہ فوج تھی کیوں کہ اس پر مسلمانوں کی دہشت پہلے ہی طاری تھی توقع نہیں تھی کہ رومی فوج اس طرح لڑے گی لیکن وہ شاید اس خیال سے جم گئے تھے کہ مسلمانوں کی تعداد خاصی تھوڑی تھی ،قسطنطین اس کو بڑی اچھی طرح کنٹرول کررہا تھا اور فوج کو دائیں بائیں طرف لانے کی کوشش میں بھی تھا کہ پہلوؤں سے مسلمانوں پر حملہ کیا جائے۔اس کے مطابق ابو عبیدہ مجاہدین کو بھی پھیلاتے جارہے تھے اس طرح گھمسان کی لڑائی وہاں تک جا پہنچی جہاں انتھونیس یوکلس  تھے انتھونیس لڑائی میں الجھ گیا اور اس کی توجہ یوکلس سے ہٹ گئی وہ دیکھ نہ سکا کہ یوکلس جوانی کے جوش میں بھول گیا تھا کہ وہ جرنیل تو نہیں لیکن جرنیلی حیثیت کا آدمی ہے ۔وہ تیغ زنی کے جوہر آزمانا چاہتا تھا وہ ایک ہی ہاتھ سے لڑ رہا تھا اور گھوڑے کی لگام اپنے منہ میں لے رکھی تھی یہی اس کا کمال تھا کہ وہ گھوڑے کو بھی اپنے قابو میں رکھے ہوئے تھا اور لڑ رہا تھا۔انتھونیس نے دائیں بائیں دیکھا اسے یوکلس اپنے ساتھ نظر نہ آیا وہ پریشان ہو گیا پریشان بھی اتنا کہ وہ لڑائی کو بھول گیا اور یوکلس کو ڈھونڈنے لگا ، یوکلس جلد ہی اسے نظر آگیا اور انتھونیس نے گھوڑا اس کی طرف دوڑا دیا۔انتھونیس نے دیکھا کہ دو مسلمان گھوڑ سوار دو تین رومی گھوڑ سواروں کے تعاقب میں گھوڑے دوڑاتے یوکلس کے قریب سے گزر گئے تھے یوکلس نے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے ڈال دیا ۔انتھونیس فوراں اس تک پہنچ کر اسے روکنا اور اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا اس نے دیکھا کہ دو رومی گھوڑسوار یوکلس کے پیچھے جا رہے تھے۔انتھونیس نے یہ عجیب منظر بھی دیکھاکہ قسطنطین اس طرف آ گیا تھا اور اس نے ایک جگہ گھوڑا روک لیا تھا وہ اس فوج کا کمانڈر تھا اور اسے اس وقت فوج کے پیچھے یا درمیان میں ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ ایک سوار علمبردار تھا اور صرف دو محافظ تھے، وہ یوکلس کو مسلمان سواروں کے پیچھے جاتا دیکھ رہا تھا۔ایک رومی سوار یوکلس کے قریب ہو گیا اور تلوار اس طرح بلند کی جیسے یوکلس کو مارنا چاہتا ہوں انتھونیس یوکلس کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا اس نے جب دیکھا کہ اپنا ہی ایک سوار یوکلس کو تلوار مارنے لگا ہے تو انتھونیس نے گھوڑا اور تیز کرکے تلوار اس طرح رومی سوار کے پیٹ میں اتار دی جس طرح پرچھی ماری جاتی ہے۔ایک اور رومی سوار یوکلس کے گھوڑے کے دوسرے پہلو پر تھا لیکن ذرا آگے تھا انتھونیس  نے دیکھا کہ وہ اپنا گھوڑا یوکلس کے گھوڑے کے ساتھ کر کے اسے روکنے کی کوشش میں تھا صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ یوکلس کو مارنا چاہتا ہے۔انتھونیس نے اپنا گھوڑا اس کی طرف کر لیا اور رومی سوار اسے دیکھ نہ سکا کیونکہ اس کی توجہ یوکلس پر تھی ،انتھونیس نے اس کے دائیں کندھے پر تلوار کا ایسا زوردار وار کیا کہ اس کا بازو جسم سے الگ کر دیا اس کی تلوار اسی ہاتھ میں تھی ،انتھونیس نے یوکلس کو اپنے ساتھ لیا اور ایک طرف لے گیا۔انتھونیس نے پروا ہی نہیں کی کہ قسطنطین اس کی یہ کارروائی دیکھی یا نہیں۔ یہ کوئی معمولی جرم نہیں تھا کہ اس نے لڑائی کے دوران اپنی ہی دو سپاہیوں کو مار دیا تھا۔ قسطنطین نے انتھونیس کی یہ ساری کاروائی دیکھی اور منہ پھیر کر وہاں سے چلا گیا۔آپ نے اپنی ہی آدمیوں کو کیوں کاٹ پھینکا ہے ۔یوکلس نے انتھونیس سے پوچھا ـــــــ اگر میں انہیں دیکھ نہ لیتا تو یہ تمہیں کاٹ پھینکتے، انتھونیس نے کہا ـــــــ اب مجھ سے الگ نہ ہونا ـــــــ کیا آپ مجھے بتائیں گے نہیں یہ معاملہ کیا ہے ؟ـــــــ یوکلس نے پوچھا میں تو لڑنے آیا تھا، اپنے باپ اور بھائی کو میں دکھانا چاہتا تھا کہ میں دیکھنے میں ادھورا ہوں، اپنے فرائض کی ادائیگی میں ادھورا نہیں ہوں ،شاید یہی دیکھنے کے لیے شاہ ہرقل نے مجھے آپ کے ساتھ بھیجا تھا۔نہیں میرے بیٹے! ـــــــ انتھونیس نے کہا ـــــــ تمہارے باپ اور بھائی نے تمہیں یہاں قتل کروانے کے لئے بھیجا تھا اور قتل ان دو آدمیوں نے کرنا تھا، جو تم تک پہنچ گئے تھے اور ایک کی تلوار تمہاری گردن کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تھا اور دوسرا سوار اپنا گھوڑا تمہارے گھوڑے کی گردن سے لگا کر تمہیں روک رہا تھا ،میں نہ دیکھ لیتا تو تمہاری ماں کو یہ خبر سنائی جاتی کہ تمہارا بیٹا بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا ہے ،تم نے دیکھا نہیں کہ اس وقت قسطنطین اس طرف آ گیا تھا اتنی زیادہ خونریز لڑائی میں قسطنطین کو کہیں اور ہونا چاہیے تھا وہ ادھر آیا تو تم پر حملہ ہوا۔ تمھارے یہ دونوں قاتل کوئی معمولی سپاہی نہیں بلکہ دو چار سو سپاہیوں کی کمان کرنے والے عہدے دار تھے۔یوکلس یقیناً حیران نہیں ہوا ہوگا کہ باپ اور بھائی نے اسے قتل کرانے کی سازش کی تھی ۔شاہی خاندانوں میں خون کے رشتے کوئی مانے نہیں رکھتے اور جہاں تخت و تاج کی جانشینی کا مسئلہ پیدا ہوجائے وہاں بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔مجھے بتائیں میں کیا کروں ـــــــ یوکلس نے پوچھا ـــــــ یہاں سے نکل جاؤں یا یہیں رہوں۔میرے ساتھ رہو ـــــــ انتھونیس نے کہا ـــــــ اب تو مجھے بھی یہاں سے بھاگنا پڑے گا۔ میں نے کمان کرنے والے دو عہدیداروں کو قتل کردیا ہے۔یہ کوئی نہیں سنے گا کہ قتل کی وجہ کیا تھی ۔میرے لئے اب سزائے موت ہے۔ پھر آئیں یہاں سے نکل چلیں ـــــــ یوکلس نے کہا ـــــــ تم یوں کرو ،انتھونیس نے کہا ـــــــ یہ جو ٹیکری ہے، اس کے پیچھے چلے جاؤ اور اس طرح بزنطیہ پہنچو کہ یہاں سے نکلتے تمہیں کوئی دیکھ نہ لے، سیدھے اپنی ماں کے پاس پہنچنا اور اسے بتا دینا ،یہاں کیا ہوا ہے اور میں نے تمہیں کیا بتایا ہے۔ اور آپ؟ ـــــــابھی کچھ فیصلہ نہیں کیا ـــــــ انتھونیس نے کہا ـــــــ تم جاؤ۔یو کلس ساتھ ہی ایک ٹیکری کے پیچھے چلا گیا اور وہاں سے اس نے بزنطیہ کا رخ کر کے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔وہاں ایک گھوڑ سوار کے نکل بھاگنے کا کسی کو پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ فلاں بھاگ نکلا ہے، وہاں تو سیکڑوں گھوڑے بھاگتے دوڑتے میدان جنگ سے نکل گئے تھے ،بعض بغیر سواروں کے تھے ان کے سوار زخمی ہو کر گھوڑوں سے گر پڑے تھے ،کچھ سوار زخمی ہو کر گرے تو ان کے ایک ایک پاوں رکابوں میں پھنس گئے تھے، اور گھوڑے ان کی لہولہان لاشیں گھسیٹتے پھر رہے تھے بعض گھوڑے زخمی تھے اور وہ اندھا دھن دوڑتے پھر رہے تھے اور بعض گھوڑے اپنے سواروں کو پیٹھ پر اٹھائے دوڑے جا رہے تھے ان کا رخ انطاکیہ کی طرف تھا جہاں سے آگے بحر روم کی بندرگاہ تھی اس بندرگاہ پر وہ بحری جہاز کھڑے تھے جو مصر سے ہرقل کے لیے کمک لائے تھے۔مؤرخوں کے مطابق دو تین گھنٹوں تک رومی جم کر لڑتے رہے ہرقل نے انہیں سونے کے ٹکڑوں، انعام اور حمص کے مال غنیمت کی لالچ دے دی تھی ان میں اتنی طاقت تھی کہ رومیوں کے قدم جم گئے تھے۔

ابو عبیدہ نے دیکھا کہ رومی کچھ زیادہ ہی جوش اور جذبے میں ہیں تو انہوں نے خالد بن ولید کو اشارہ کیا مجاہدین کے لشکر کے کچھ دستے دائیں کو اور کچھ بائیں کو چلے گئے تھے۔
 یہ خالد بن ولید کے زیر کمان تھے انہوں نے ان دستوں کو ایسی خوبی سے پہاڑیوں کے پیچھے چھپا دیا تھا کہ رومی ان سے بے خبر رہے ،پیش قدمی کے دوران انہیں دور سے ہی پہاڑیوں کے اندر بھیج دیا گیا تھا کہ خالد بن ولید کی ایک خصوصی چال ہوتی تھی جس سے انہوں نے اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو کئی میدانوں میں بہت بڑی شکست دی تھی۔ یہاں بھی انہوں نے رومیوں کو یہی دھوکا دیاابو عبیدہ نے اشارہ کیا تو خالد بن ولید نے دائیں بائیں قاصدوں کو یہ پیغام دے کر دوڑا دیا کہ ٹوٹ پڑو۔پہلوؤں کے ان دستوں کے کمانڈر بے تابی سے اس حکم کے منتظر تھے وہ بیچ و تاب کھا رہے تھے کہ ان کے بھائی لڑ رہے ہیں اپنا اور دشمن کا خون بہا رہے ہیں اور وہ پہاڑیوں کے اندر آرام سے چھپے بیٹھے ہیں آخر انہیں حملے کا حکم ملا دشمن کے دونوں پہلوؤں سے پہاڑیوں کے اندر سے گھوڑے سرپٹ دوڑتے، اس طرح نکلے جس طرح سیلاب بند توڑ کر غراتا، ٹھاٹھیں مارتا باہر آتا ہے ، اور جو کچھ بھی سامنے آتا ہے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔کچھ گھوڑ سوار رومیوں کے عقب میں چلے گئے قسطنطین کے لیے دو ہی راستے رہ گئے تھے اپنی فوج کو کٹواتا ،یا بھاگ نکلتا، اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا اپنی فوج کو مجاہدین کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ مرنے اور ان کو گھوڑوں تلے روندے جانے کے لیے چھوڑ کر بھاگ نکلا رومی سپاہی کٹ کٹ کر گرنے لگیں میدان جنگ کے اردگرد پہاڑیوں کی ٹیکریاں اور چٹانیں تھیں رومی جو لڑائی سے نکل سکیں وہ پہاڑیوں کے اندر چلے گئے اور بچ نکلے۔تمام مؤرخ متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ بھاگنے والے رومیوں کا رخ انطاکیہ کی طرف تھا وہ یہی فوج تھی جو قسطنطین کے ساتھ مصر سے ہرقل کی مدد کے لئے آئی تھی یہ رومی فوج اس توقع پر انطاکیہ کی طرف بھاگ رہے تھے کہ جن بحری جہازوں پر وہ آئے تھے وہ بھی وہیں ہوں گے اور انہیں واپس مصر لے جائیں گے، حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ قسطنطین بھی بزنطیہ جانے کے بجائے انطاکیہ کی طرف بھاگا ،ظاہر ہے اس کا ارادہ بھی مصر چلے جانے کا تھا ہرقل کی شکست مکمل ہوچکی تھی ملک شام پر اس کا ایک انچ زمین پر بھی تسلط نہیں رہا تھا۔

جاری ہےــــــــ

اپنا تبصرہ بھیجیں