اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر 5)

سابقہ اقساط
قسط نمبر 01  | قسط نمبر 02 | قسط نمبر 03  | قسط نمبر 04

ہرقل کا قافلہ کوئی چند ایک افراد کا قافلہ نہیں تھا ،جو قسطنطنیہ جا رہا تھا ،مصر اور شام کی بے اندازہ حسین ترین لڑکیوں کا حرم بھی ساتھ تھا ۔محافظ دستہ بھی تھا اور رہاء میں جو تھوڑی سی فوج موجود تھی ،وہ بھی ساتھ جا رہی تھی۔یہ قافلہ پہاڑیوں کے اندر اندر عام راستے سے ہٹ کر جا رہا تھا ۔یہ ایک احتیاط تھی جو اس لئے کی گئی تھی کہ راستے میں مسلمانوں کا کوئی دستہ دیکھ نہ سکے۔ ہرقل لڑائی سے کترا رہا تھا اس نے ایک حفاظتی تدبیر اور بھی اختیار کی تھی، وہ یہ کہ عام قسم کے مسافروں اور غریب سے لوگوں کے بھیس میں چند آدمی بہت آگے بھیج دیے تھے ان کے ذمّے کام یہ تھا کہ جہاں کہیں دور یا قریب مسلمانوں کا کوئی دستہ نظر آئے تو فوراً پیچھے آکر اطلاع دیں تاکہ راستہ بدل لیا جائے۔راستے میں ایسا ایک خطرہ آہی گیا ،مسلمانوں کے تین چار سوار دستے مرعش سے ایک اور مقام دلوک کی طرف جاتے نظر آئے، اس وقت ہرقل ایک مشہور مقام شمشاط کے قریب پہنچ چکا تھااور اس کا ارادہ وہیں رات گزارنے کا تھا۔ اس کے جاسوس جو بہت آگے جا رہے تھے ان میں سے ایک سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا اور ہرقل کو اطلاع دی کہ مسلمانوں کے سوار دستے شمشاط کی طرف آرہے ہیں ۔ہرقل نے فورا کوچ کا حکم دے دیا اور اپنے قافلے کو قریبی پہاڑیوں کے اندر لے گیا اور سفر نہ صرف جاری رکھا بلکہ رفتار تیز تر کردی۔وہ خوش قسمت تھا کہ اس وقت وہاں سے کھسک گیا اور پہاڑیوں میں روپوش ہو گیا۔ وہ جو سوار دستے دیکھے گئے تھے ان کے سالار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، وہ ان دستوں کے ساتھ دلوک جا رہے تھے کیونکہ اس مقام سے اطلاع ملی تھی کہ رومی فوج کے کچھ نفری اور وہاں کے لوگ باغی ہوتے جارہے ہیں۔ تاریخ کے مطابق خالد بن ولید نے فوراً وہاں پہنچ کر بغاوت کو اٹھنے سے پہلے کچل ڈالا۔ تاریخ اسلام کے اس عظیم سپہ سالار کو معلوم نہ ہوسکا کہ ایک
بڑا ہی موٹا شکار ان کی نظروں سے ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
مشہور مصری تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل نے کئی ایک مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہرقل جب اس پہاڑی خطے سے آگے نکلا تو ایک بلند مقام پر پہنچ کر اس نے پیچھے دیکھا اسے چھوٹی بڑی بستیاں نظر آئیں اور افق تک پھیلا ہوا ملک شام بھی نظر آیا۔ اس نے آہ لی اور کہا ــــــــ آخری سلام اے سرزمین شام ــــــــ اب کوئی رومی بے دھڑک تیری زمین پر قدم رکھنے کی جرات نہیں کر سکے گا ــــــــ الوداع سرزمین شام ! ــــــــ ہرقل کے لیے قسطنطنیہ کا راستہ محفوظ نہیں رہا تھا اس نے شام کی سرحد سے کچھ دور غیر معروف سے ایک مقام بزنطیہ کا رخ کرلیا۔
المقریزی نے ہرقل کی اس وقت کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ ہر قل بزنطیہ میں اس طرح داخل ہوا جیسے اپنے جنازے کے ساتھ اپنی آخری رسوم ادا کرنے آیا ہو۔

شمع بجھنے کو آتی ہے تو کچھ دیر ٹمٹماتی ہے اور پھر آخری بار اس کی لو بڑھتی اور بجھ جاتی ہے۔ ہرقل کی شمع شماد ٹمٹما رہی تھی اور کوئی دم کو بجھنے کو تھی ،اس شمع میں اس کا خون جل رہا تھا ،اس کی رعونت جل رہی تھی، اور اس کا وہ غرور اور تکبر جل رہا تھا جو اسے اپنی جنگی اور ذاتی طاقت پر ہوا تھا ،ملک شام اس کی شہنشاہیت سے نکل گیا تھا لیکن کچھ سرحدی علاقوں پر ابھی مسلمانوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ ہرقل کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں ۔کیا ہرقل نے عبرت حاصل کی تھی؟ ــــــــ تاریخ میں سوال کا جواب نہیں ملتا انسان کی فطرت کا خاصہ ہے کہ ایک بار طاقت کا زعم، رعونت، غرور، اور تکبر دماغ پر قبضہ کرلیں تو پھر انسان ذرا مشکل سے ہی عبرت حاصل کرتا ہے۔تاریخ ہمیں وہ وقت یاد دلاتی ہے جب مسلمانوں نے ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ، خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ، شرجیل بن حسنہ رضی اللہ تعالی عنہ، اور عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ، کی قیادت میں ملک شام پر لشکر کشی کی تھی مجاہدین اسلام نے دمشق فتح کر لیا تھا ۔ہرقل اسوقت انطاکیہ میں تھا۔یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس نے اور اس کے جرنیلوں وغیرہ نے مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی قزاق کہا تھا ، ہرقل نے دمشق کو مسلمانوں سے بچانے کے لئے فوج بھیجی تھی لیکن اس فوجی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی مسلمانوں نے دمشق فتح کر لیا تھا۔اب جب کہ ہرقل شکست خوردگی کے عالم میں بزنطیہ جا پہنچا تھا اور اس کی امیدوں کے چراغ ٹمٹما رہے تھے اس سے کچھ عرصہ پہلے کا یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں نے شام میں پہلی فتح حاصل کی تھی کہ دمشق پر قبضہ کر لیا تھا، ہرقل نے خود انطاکیہ سے نکلنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی اسے یقین تھا کہ عرب کے بدو اس کی اتنی بڑی جنگی قوت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔ہرقل کی بھیجی ہوئی کمک پہنچ گئی تو رومی لشکر کی تعداد کم و بیش پچاس ہزار ہو گئی جس میں گھوڑ سوار دستے زیادہ تھے، یہ فوج دمشق سے کچھ دور بیسان کے مقام پر جمع ہوگئی جہاں وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنا چاہتی تھی۔ہم یہاں ان لڑائیوں کی تفصیل پیش نہیں کریں گے رومیوں کے غرور اور تکبر کا ایک واقعہ سناتے ہیں۔

 دمشق جیسا بڑا شہر دے کر بھی رومی جرنیل مسلمانوں کو صحرائی قزاق اور لوٹیرے سمجھ رہے تھے، اس رومی فوج کا کمانڈر سکار نام کا ایک تجربہ کار جرنیل تھا جس کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔ وہ علاقہ بڑا ہی زرخیز تھا اور پانی کی اتنی افراط کہ کئی ایک چھوٹی بڑی ندیاں بہتی تھیں۔ جرنیل سکار کے حکم سے ندیوں کے کنارے توڑ دیے گئے جس سے تمام علاقوں میں پانی پھیل گیا اس نے یہ اقدام مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی رکاوٹ اور دشواری پیدا کرنے کے لیے کیا تھا۔مجاہدین اسلام نے ہر طرف پھیلتا ہوا پانی دیکھا تو انہوں نے بڑی بلند آواز سے قہقہے لگائے، اور رومیوں کو کچھ طنزیہ کلمے بھی کہے۔ مجاہدین نے ذرا سی بھی گھبراہٹ یا پریشانی کا اظہار نہ کیا اور لڑائی کی تیاریاں کرتے رہے، مسلمانوں کے حوصلے اور عزم کی پختگی اور ان کی یہ بے نیازی دیکھ کر رومی فوج متاثر بھی ہوئی اور مرعوب بھی۔رومی جرنیل سکار نے اس کے باوجود مسلمانوں کو کمزور اور کم تر سمجھا اور ایک ایلچی بھیجا کہ وہ اپنا کوئی نمائندہ بھیجیں جس کے ذریعے صلح اور امن کی بات کی جا سکے ۔سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی کو اپنا ایلچی بناکر رومیوں کے پاس بھیجا۔علامہ شبلی نعمانی طبری اور بلاذری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ معاذ بن جبل گھوڑے پر سوار ہوکر رومیوں کے کیمپ میں گئے تو انہیں سکار کے خیمے تک لے جایا گیا وہ گھوڑے سے اترے اور سکار کے ایک محافظ نے ان کا گھوڑا پکڑ لیا اور کہا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ معاذ بزرگ صحابی تھے ان کی عمر اور رتبے کو دیکھتے ہوئے رومی سپاہی ان کا احترام کر رہے تھے۔معاذ خیمے میں داخل ہونے لگے تو وہیں رک گئے، یہ تھا تو خیمہ لیکن اندر سے یوں لگتا تھا جیسے کسی بادشاہ کا خاص کمرہ ہو، ایسی ایسی قیمتی سجاوٹ کہ یہ میدان جنگ کا خیمہ لگتا ہی نہیں تھا، جس چیز نے معاذ کو حیران اور پریشان کیا وہ خیمے کے اندر بچھا ہوا قالین تھا۔ اس قدر قیمتی اور ایسا عمدہ اور نفیس کہ معاذ اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کررہے تھے۔رومی جرنیل سکار نے انہیں آگے آکر بیٹھنے کو کہا ،وہاں سبھی لوگ اور سکار بھی فرش پر یعنی فرش پر بچھے ہوئے قالینوں پر بیٹھے تھے۔ معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس قالین پر بیٹھنے سے انکار کر دیا ، ان کے درمیان جو باتیں ہو رہی تھیں وہ ایک ترجمان کے ذریعے ہوری تھیں۔ سکار چونکہ اس خطے کی زبان نہیں بولتا تھا نہ سمجھتا تھا۔آپ اس قالین پر بیٹھ سکتے ہیں۔ سکار نے کہا ــــــــ اس پر صرف غلاموں کو پاؤں رکھنے کی اجازت نہیں۔ میں مسلمان ہوکر اس قالین پر نہیں بیٹھوں گا ــــــــ معاذ نے کہا ــــــــ اس قالین سے مجھے غریب رعایا کے خون کی بو آ رہی ہے یہ قالین غریب مزدوروں اور کسانوں کا حق چھین کر تیار کیا گیا ہے ۔قالین خیمے جتنا لمبا چوڑا نہیں تھا، زمین ننگی بھی تھی ، معاذ رضی اللہ عنہ زمین پر یعنی خیمے کی فرش پر بیٹھ گئے۔
ہم آپ کی عزت کرنا چاہتے تھے سکار نے کہا ــــــــ اگر آپ کو اپنی عزت کا خود ہی خیال نہیں تو یہ ایک
مجبوری ہے۔
 علامہ شبلی نعمانی مؤرخوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو غصہ آگیا اور وہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے، یعنی پوری طرح نہ اٹھے،  اپنے اس جرنیل کے دماغ میں میری یہ بات ڈال دو ــــــــ معاذ نے ترجمان سے کہا ــــــــ اسے کہو کہ تم قالین پر بیٹھنے کو عزت سمجھتے ہو تو مجھے اس کی پرواہ نہیں، ہمارے یہاں عزت کا تصور کچھ اور ہے اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو میں ہوں ہی غلام لیکن اپنے اللہ کا۔معاذ رضی اللہ تعالی عنہ پھر بیٹھ گئے لیکن رومی جرنیل اور اس کے ان افسروں کو جو وہاں موجود تھے حیرت زدہ کردیا، آپ کے اس لشکر میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی ہے جرنیل سکار نے پوچھا؟ ــــــــ معاذ، اللہ ہی کافی ہے کہ میں کسی سے بدتر نہیں ہوں۔سب حاضرین محفل خاموش ہو گئے اور ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے، معاذ نے یہ بات ایسے دانشمندانہ اور پراعتماد انداز سے کہی تھی کہ سب متاثر ہوئے لیکن وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے کوئی اثر قبول کیا ہے ۔ان کی نگاہیں ان سب پر گھوم گئے اور کسی نے کوئی اور بات نہ کی، ان سے کہو کوئی بات کریں ــــــــ معاذ نے ترجمان سے کہا ــــــــ اگر انہیں کچھ نہیں کہنا تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ ترجمان نے جب رومی زبان میں اپنے جرنیل کو بتایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے تو وہ بولا۔ہم آپ سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتے ہیں جرنیل سکار نے کہا ــــــــ ملک حبشہ آپ کے قریب ہے، دوسرے ملک بھی ہیں، پھر آپ نے ادھر کا رخ کیوں کیا ہے؟ ــــــــ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا بادشاہ ہے، ہماری فوج کی تعداد آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہے کیا آپ یہ سوچ کر ادھر آئے ہیں کہ ہمیں شکست دے دیں گے؟ ناممکن! ۔ہم یہ درخواست لے کر آئے ہیں جو دراصل اللہ کا پیغام ہے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ــــــــ اسلام قبول کرلیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرکے ہم جیسی عبادت کریں، شراب اور خنزیر کا گوشت چھوڑ دیں، کہ یہ دونوں چیزیں حرام ہیں اور ہر طرح کے حرام کاری اور شاہانہ عیش و عشرت چھوڑ دیں۔
اگر ہم آپ کی یہ درخواست قبول نہ کریں تو؟ ــــــــ سکار نے رعونت بھرے لہجے میں پوچھا۔
تو پھر جزیہ دیں ــــــــ معاذ نے جواب دیا ــــــــ اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر فیصلہ تلوار کرے گی اگر آپ کی تعداد ستاروں کے برابر ہے تو ہمیں اللہ کے اس فرمان پر بھروسہ ہے کہ ایسا اکثر ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے ایک بڑی اور طاقتور جماعت پر فتح یاب ہوئی ہے۔ آپ کو اپنے پر بڑا ناز اور فخر ہے ،لیکن آپ یہ نہیں دیکھ رہے کہ وہ بادشاہ اپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اور آپ سب کی جان مال اور آبرو اس کے اختیار میں ہے، لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ اپنے آپ کو ہم سب سے برتر سمجھتے ہیں وہ بھی کوئی جرم کرے گا تو ایک عام آدمی جیسی سزا پائے گا۔یہ رومی جرنیل دراصل یہ چاہتا تھا کہ مسلمان کسی بھی قسم کی کوئی خیرات وصول کرلیں اور یہاں سے واپس چلے جائیں اس نے ملک شام کا ایک ضلع اور کچھ اتنا ہی حصہ اردن کا پیش کیا اور کہا ــــــــ کہ مسلمان یہ زمین لے لیں اور واپس چلے جائیں ۔معاذ اٹھ کھڑے ہوئے اور مزید بات چیت سے انکار کردیا اور واپس چلے آئے۔یہ رومی جرنیل ابھی تک یہ توقع رکھتا تھا کہ یہ غریب سے مسلمان جن کا اتنے بڑے رتبہ والا آدمی قالین پر بیٹھنے سے جھجھکتا ہے، کچھ لے کر واپس جانے پر رضامند ہو جائیں گے ،اس نے اپنا ایک الچی مجاہدین اسلام کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی ان کی طرف بھیجا جسے یہ پیغام دیا کہ سپہ سالاررومی الچی کو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دیں۔ابو عبیدہ نے اجازت دے دی اور اسی روز سکار کا بھیجا ہوا ایک ایلچی ابوعبیدہ کے پاس آ گیا۔

 طبری اور بلاذری کے حوالوں سے واقعات تاریخ کے دامن میں یوں محفوظ ہے کہ رومی ایلچی کو غالبا یہ توقع تھی کہ اسلامی لشکر کا سپہ سالار تو جاہ وجلال والا آدمی ہوگا اور اس کی کچھ تو شان وشوکت دوسروں سے الگ ہوگئی، ایلچی ابو عبیدہ کے پاس آیا تو اس وقت سپہ سالار زمین پر بیٹھے ایک تیر کو ہاتھ میں لئے دیکھ رہے تھے ،رومی ایلچی نے کسی سے پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ ان آدمیوں نے ابوعبیدہ کی طرف اشارہ کیا ــــــــ تو وہ حیران ہو کر ان کی طرف دیکھتا ہی رہا پھر ان کے قریب آیا۔کیا تمہی اس لشکر کے سپہ سالار اور سردار ہو ؟ ــــــــ ایلچی نے کچھ رعونت کا سا مظاہرہ کیا۔ ہاں میں ہی ہوں ــــــــ ابو عبیدہ نے بڑے آرام سے جواب دیا ــــــــ پھر میری ایک بات سن لو ،رومی ایلچی نے افسرانہ جلال سے کہا ــــــــ ہم تمہاری تمام فوج کو سونے کی دو دو اشرفیاں فی آدمی دیں گے اور تم یہاں سے واپس چلے جاؤ۔ معلوم نہیں اس وقت اشرفیہ تھی یا نہیں اس رومی کا مطلب دراصل یہ تھا کہ سونے کے دو دو ٹکڑے ہر مجاہد کو دیے جائیں گے
اور وہ واپس چلے جائیں۔
 کوئی اور بات کرنی ہے تم نے؟ ــــــــ ابو عبیدہ نے پوچھا ــــــــ نہیں ــــــــ پھر تم چلے جاؤ ابو عبیدہ نے کہا ــــــــ ایلچی بڑا ہی برہم ہو کر چلا گیا۔
 ابو عبیدہ نے اسی وقت ایک پیغام امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی ان کو بھیجا جس میں یہ سارا واقعہ لکھا ،فاصلہ بہت زیادہ تھا تیز رفتار قاصدوں کا انتظام کیا گیا تھا ،چار پانچ دنوں بعد قاصد امیر المومنین کا پیغام لے کر آگیا ۔امیرالمومنین نے لکھا تھا کہ اللہ کی راہ میں ثابت قدم رہو اور اللہ تمہارا یار و مددگار ہے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

 وہ ہرقل جسے رعایا اور اس کے جرنیل بادشاہوں میں سب سے بڑا بادشاہ سمجھتے تھے، اور وہ ہرقل جس کی فوج کی تعداد آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر تھی ،اس حال میں جا پہنچی کہ آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر فوج سپاہی سپاہی ہو کر بکھر گئی تھی، اور آدھی سے زیادہ فوج ہلاک ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہوچکی تھی، اور ملک شام پر مجاہدین کا قبضہ ہوگیا تھا، آسمان کے ستارے ٹوٹ پھوٹ کر زمین کے ذروں میں مل کر خاک ہو گئے تھے۔ ادھر جنگ قادسیہ کے بعد کسریٰ ایران بڑی بری طرح شکست کھا کر بھاگا اور اپنے دارالحکومت مدائن میں بےبہا خزانوں سمیت مسلمانوں کے لئے چھوڑ کر کہیں روپوش ہوگیا تھا، ایران اور عراق مجاہدین اسلام کی جھولی میں آ پڑے اور ادھر شام مسلمانوں کے قدموں میں آ گیا، یہ صورتحال ایسی تھی جو ہرقل کا دل توڑ رہی تھی ،لیکن آدمی بہرحال حوصلے والا تھا، اس نے اطمینان سے اس صورتحال کا اور اپنی جنگی طاقت کا جائزہ لیا تو اس کا حوصلہ پھر سے قائم ہونے لگا، اس کے مشیروں نے بھی اس سے کہا کہ اپنی آدھی فوج مارے جانے سے اور شام ہاتھ نکل جانے سے روم کی شہنشاہی کے لیے اتنا نقصان نہیں ،جتنا سمجھا جاتا ہے، ابھی مصر ان کے پاس تھا اور مصر میں بے شمار فوج تھی، مشیروں نے اس سے کہا کہ وہ مصر سے فوج منگوائے اور تیاری کرکے مسلمانوں پر جوابی حملہ کیا جائے۔ ہرقل کی اس وقت کی ذہنی کیفیت کے متعلق مؤرخوں نے لکھا ہے ، بزنطیہ میں پہنچ کر جب اسے یہ محفوظ پناہ گاہ مل گئی اور کچھ آرام اور سکون بھی مل گیا تو اسے مشیروں کے مشورے بڑے ہی اچھے لگے اس نے اسی وقت قاصد مصر اس پیغام کے ساتھ بھیج دیے کہ کم و بیش چالیس ہزار نفری کی فوج فوراً روانہ کر دی جائے ۔ادھر اس کے پاس ایک مدد اور آگئی جو اس کے لیے بالکل خلاف توقع تھی اس کا حوصلہ پہلے کی طرح مضبوط کر دیا۔ یہ مدد اس طرح آئی کہ ایک روز اسے اطلاع دی گئی کہ عراق اور شام کے مختلف قبائل کے بیس پچیس سردار ان سے ملنے آئے ہیں۔ یہ سب جنگجو قبائل تھے ان سرداروں کے ساتھ بیس پچیس نہایت حسین و جمیل معصوم صورت نو جوان لڑکیاں تھیں، جو ان سرداروں کے اپنے ہی خاندانوں میں سے تھیں۔ ہرقل نے ان سب کو اندر بلا لیا۔ ان سرداروں کے ساتھ ایک معمر سفید ریش بزرگ تھا جو شکل و صورت اور لباس سے دانشمند اور مذہبی پیشوا لگتا تھا۔ ان قبائل کے متعلق تھوڑی سی معلومات بے محل نہیں ہوگی۔ عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں اور کچھ دوسرے علاقوں میں بھی جو جنگ کی لپیٹ میں آ گئے تھے بہت سے قبائل آباد تھے۔ ان میں بڑے قبائل بنی عمر، بنو غسان، بنی تغلب ،بنی آیاد، اور بنی
مزام ،اور بنی عدوان تھے ۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے قبائل تھے یوں کہہ لیں کہ ان علاقوں کی آبادی قبائل کی صورت میں بٹی ہوئی تھی۔ یہ جو قبائلی سردار ہرقل کے پاس گئے تھے یہ سب غیر مسلم تھے کچھ فارس کہ یعنی  عراق اور ایران کے آتش پرست تھے اور باقی سب عیسائی تھے۔
 کیا تم یہ لڑکیاں میرے لیے تحفہ لائے ہو؟ ـــــــ ہرقل نے طنزیہ لہجے میں کہا ـــــــ کیا تم مجھے فاتح سمجھ کر آئے ہو ـــــــ اس وقت میری ضرورت کچھ اور ہے ـــــــ مجھے یہ حسین و جمیل لڑکیاں نہیں چاہیے، اس وقت مجھے ایسے جوانمردوں کی ضرورت ہے ،جو میرے بازو مضبوط کریں اور میں عرب کے ان بدوؤں کو یہاں سے دھکیل کر وہیں پہنچا دو جہاں سے یہ آئے ہیں۔
 ہم آپ کے بازو ہی مضبوط کرنے آئے ہیں ـــــــ بوڑھے سردار نے کہا ـــــــ یہ لڑکیاں ہم تحفے کے طور نہیں لائے ،ہماری اپنی بیٹیاں ہیں ۔انہیں ہم آپ کے پاس صرف یہ دکھانے کے لئے لائے ہیں کہ ہماری عزت اور آبرو جو جنگوں میں محفوظ نہیں رہی، ہم ان معصوم بچیوں اور ان جیسی ہزارہ بچیوں کی آبرو کی حفاظت کرنے کے لئے آپ کے ساتھ بات کرنے آئے ہیں۔ آپ ہماری مدد کریں اور ہم آپ کی مدد کریں گے، آپ کو جن جوان مردوں کی ضرورت ہے وہ ہم آپ کو ہزارہا کی تعداد میں دے دیں گے۔ میری مدد کا تمہیں اب خیال کیوں آیا ہے؟ ـــــــ ہرقل نے پوچھا ـــــــ یہ خیال اس وقت کیوں نہ آیا جب فارس کی فوج مسلمانوں کے آگے بھاگی جا رہی تھی اور ادھر میری فوج بکھر کر پیچھے ہٹ رہی تھی۔
 یہ واقعہ بیان کرنے سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ بیان کیا جا سکے کہ ہرقل کے اقتدار کی شمع آخری بار کس طرح بھڑکی اور جب بج گئی تو وہ شام سے مصر تک کیوں اور کس طرح پہنچا ۔ہم ان طویل تفصیلات کو یوں مختصر کرتے ہیں کہ اس معمر قبائلی سردار نے ہرقل کو بتایا کہ مسلمانوں نے ایرانیوں کے خلاف لشکر کشی کی اور ادھر شام پر بھی انہوں نے حملہ کیا تو ان دونوں جنگوں میں ان قبائلیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ان کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جو فوجوں کے گھوڑے اونٹ اور بیل وغیرہ کھا گئے۔ اس بوڑھے سردار نے یہ بھی بتایا کہ خود اپنے فوجیوں نے ان کی لڑکیاں اٹھا لی یا انہیں خراب کرکے چلے گئے۔ کیا مسلمانوں نے تمہاری لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک نہیں کیا تھا ؟ ـــــــ ہرقل نے پوچھا۔
 نہیں ـــــــ قبائلی سردار نے جواب دیا ـــــــ مسلمان جب کسی بستی یا کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو وہ گھروں کو نہیں لوٹتے ،نہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں وہ بعض لڑکیوں کو لونڈیاں بنا کر لے جاتے ہیں، لیکن ہم ان عربوں کو جانتے ہیں، وہ بغیر شادی کے کسی عورت کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کرتے۔
لیکن شہنشاہ روم! ـــــــ اگر ایک بھی مسلمان ہماری ایک بھی لڑکی کو ساتھ لے جائے اور اسے اپنی بیوی بنا لے تو بھی ہم اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ۔اسی لیے ہم یہ لڑکیاں آپ کے سامنے لائے ہیں کہ یہ پھول مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ جائیں اور اپنا بھی کوئی فوجی انہیں اپنا مال نہ سمجھے۔ اس بزرگ سردار نے ہرقل کو بتایا کہ وہ آتش پرست ہے اور ان عیسائی قبائلی سرداروں کے ساتھ آیا ہے ۔مذہب کوئی بھی ہو عزت ہر کسی کی ایک جیسی ہوتی ہے ۔ بات دراصل یہ تھی جو اس سردار نے ہرقل کو بتائیں کہ مجاہدین اسلام نے ان کی کچھ بڑی بڑی بستیاں اور قصبے تباہ وبرباد کر دیے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے مجاہدین کے خلاف اپنی فوجوں کو بھرپور مدد دی اور مجاہدین کو دھوکے دیے تھے۔
 یہ سب قبائلی سردار ہرقل کو یہ کہنے آئے تھے کہ اب مسلمانوں نے ملک شام بھی فتح کرلیا ہے ،اور وہ کچھ اور بستیاں اجاڑ دیں گے اس لیے وہ ھرقل کو قبائلیوں کی پوری فوج دینا چاہتے ہیں۔
 اے روم کے شہنشاہ ـــــــ اس معمر سردار نے کہا ـــــــ میری عمر دیکھیں، زمانے کے کتنے ہی نشیب و فراز دیکھے ہیں، میں آپ کے چہرے پر مایوسی اور تذبذب دیکھ رہا ہوں  اپنے آپ کو شکست خوردہ نہ سمجھیں، آج شکست ہوئی ہے تو کل فتح بھی ہو سکتی ہے، مصر سے مزید فوج منگوائیں اور ہم آپ کو اپنی فوج دینگے ۔ایک بات شاید آپ کو معلوم نہ ہوں وہ یہ کہ یہ عربی مسلمان سمندر کی طرف سے آنے والی ہر چیز سے بہت ڈرتے ہیں ہم ان میں یہ مشہور کر دیں گے کہ سمندر سے فوج آرہی ہے۔ یہ بوڑھا قبائلی سردار ٹھیک کہہ رہا تھا دو تین اور مستند مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان سمندر میں نہیں اترے تھے، ان کا کوئی بحری بیڑا نہیں تھا، نہ انھیں بحری جنگ کی سوجھ بوجھ تھی، وہ صحرائی لوگ تھے اور نہ جانے کیوں سمندر سے کچھ ڈرتے تھے، اس کے بعد تو مسلمانوں نے سمندری جنگوں میں ایسا نام پیدا کر لیا تھا کہ مسلمانوں کی بحری طاقت ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔ ہرقل نے جب ان قبائلیوں کی یہ پیشکش سنی تو اس نے انہیں پہلی بات یہ بتائی کہ مصر سے اس کی فوج آرہی ہے، اور قبائلی فوراً اس کے پاس مسلح ہوکر پہنچ جائیں۔ یہ سردار جب جانے لگے تو ہرقل نے یا اس کے شاہی خاندان کے کسی اور فرد نے یا کسی مشیر نے یہ مشورہ دیا کہ اتنی خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو سفر پر واپس نہ بھیجا جائے، بلکہ ہرقل کے محل میں ہی رہنے دیا جائے جہاں یہ بالکل محفوظ رہیں گی۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

مجاہدین اسلام کے تمام سالار مفتوحہ شہروں اور علاقوں کے انتظامات میں مصروف تھے۔ فتح کے بعد ایسے مسائل اور ایسی افراتفری پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی طرف فوری توجہ بہت ضروری ہو جاتی ہے ۔ابھی یہ خطرہ بھی باقی تھا کہ کہیں بغاوت بھی ہوسکتی ہے رومی فوجی کہیں کہیں چھپے ہوئے بھی تھے، سالار ادھر مصروف تھے اس لئے انہیں پتہ ہی نہ چل سکا کہ ہرقل پھر فوج اکٹھی کررہا ہے اور مصر کی بندرگاہ اسکندریہ سے مزید فوج آرہی ہے۔ اور غیرمسلم قبائل ایک فوج کی صورت میں منظم ہوکر ہرقل تک بزنطیہ میں پہنچ رہے ہیں۔ہرقل ایک بار پھر ذہنی اور جسمانی طور پر بیدار ہو گیا تھا ۔کچھ دنوں بعد مصر سے چلی ہوئی فوج بحری جہازوں کے ذریعے ساحل سے آلگی، ہرقل نے اپنے آدمی وہاں بھیج رکھے تھے وہ فوج کو ایک ایسے مقام تک لے گئے جو ہرقل نے انہیں بتایا تھا۔یہ مقام اس وقت کے ایک مشہور شہر حمص کے قریب تھا قبائلیوں کے جو لشکر آ رہے تھے انھیں بھی ہرقل اسی مقام کی طرف بھیج رہا تھا ۔اس ساری فوج کا کمانڈر ہرقل کا اپنا بیٹا قسطنطین تھا ،تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ بیٹا ایسے جوش اور بھڑکے ہوئے جذبے سے آیا تھا کہ اپنے باپ کی شکست کا انتقام لے گا اور اس شکست کو فتح میں بدلے گا۔مصر سے آئی ہوئی ہرقل کی فوج اور قبائلی لشکر ایسے انداز سے اور ایسی تربیت میں حمص کے ارد گرد اکٹھا ہو گئے کہ حمص جیسا بڑا اور اہم شہر محاصرے میں آگیا لیکن یہ محاصرہ قریب نہیں تھا بلکہ اتنی دور تھا کہ مسلمانوں کو اس کا پتہ ہی نہ چل سکا علاقہ پہاڑی تھا اور کچھ جنگلات بھی تھے جن سے رومیوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ اپنے آپ کو چھپائے
رکھا ۔ابھی قبائلیوں کے اور لشکر نے آنا تھا اس لئے یہ لوگ محاصرہ تنگ نہیں کر رہے تھے۔
مجاہدین اسلام کے سپہ سالار ابوعبیدہ حمص میں ہی تھے اور یہی مجاہدین کا ہیڈ کوارٹر بھی تھا دوسرے سالار دوسرے شہروں میں مصروف تھے۔ ابو عبیدہ نے اپنے جاسوس باہر بھیجنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کیونکہ رومیوں کی طرف سے حملے کا خطرہ ختم ہوگیا تھا، ہرقل کے متعلق معلوم ہوگیا تھا کہ وہ بزنطیہ میں ہے اور وہاں سے بھی نکل جائے گا۔
ایک روز ابوعبیدہ کو کسی طرح معلوم ہوا کہ رومی ایک بار پھر منظم ہوکر حمص کے قریب آرہے ہیں، یا آنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی بلکہ اڑتی اڑتی سنی گئی تھی۔ ابو عبیدہ نے حدید کو بلایا۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حدید جاسوسی اور شب خون مارنے میں خصوصی مہارت اور جرات رکھتا تھا۔حدید جس کا پورا نام حدید بن مؤمن خزرج تھا، حکم ملتے ہی اپنے سالار کے پاس پہنچا سپہ سالار ابوعبیدہ نے اسے کہا کہ وہ ہم سے دور دور جا کر دیکھے کہ رومی فوج کہیں موجود ہے، سپہ سالار نے اسے وہ ساری خبریں سنائیں جو انہوں نے سنی تھی حدید یہ حکم لے کر چلا گیا ، اور ایک عام سا کسان کا بھیس بدل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے مشن پر نکل پڑا۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جب حدید اور شارینا سپہ سالار ابوعبیدہ کے پاس پہنچے تھے تو ان کی ساری بات سن کر سپہ سالار نے شارینا کو عورتوں کے حوالے کر دیا تھا یہ عورتیں سالاروں کی بیویاں، مجاہدین کی بیویاں، اور بہنیں وغیرہ تھی، جو ان کے ساتھ میدان جنگ میں آئی تھی شارینا حدید کی محبت میں گرفتار تھیں ، لیکن جب سے حدید اسے یہاں لایا تھا وہ حدید کو دیکھ بھی نہیں سکی تھی۔ یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ حدید اور شارینا کی شادی کرا دی جائے گی، لیکن جنگ کی صورتحال ابھی اجازت نہیں دے رہی تھی، شارینا حدید کو دیکھنے کو بھی ترس رہی تھی۔حدید جب گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا تو شارینا نے اسے دور سے دیکھ لیا ،وہ عرب کی مسلمان لڑکی ہوتی تو یوں نہ کرتی لیکن وہ آزاد خیال اور شاہی خاندان کی لڑکی تھی ،اور اس کے علاوہ حدید کی محبت میں تڑپتی رہتی تھی ۔وہ حدید کی طرف اٹھ دوڑی اور اسے پکارنے لگی ،حدید نے گھوم کر دیکھا تو گھوڑا روک دیا ۔شارینا دوڑتی اس تک پہنچی اور پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ وہاں ایسی بات نہیں تھی کہ انہیں یوں الگ اکٹھے کھڑے دیکھ کر کوئی اعتراض کرتا ۔وہ اخلاق اور کردار کا زمانہ تھا عورت اور نوجوان لڑکیاں بھی میدان جنگ میں زخمی مجاہدین کو اٹھاتی سہارا دے کر پیچھے لاتیں اور انہیں پانی پلاتیں تھیں، بعض لڑکیاں رات رات بھر ایک زخمی کے پاس بیٹھی ان کی دیکھ بھال کیا کرتیں تھیں، حدید اور شارینا کے متعلق تو سب کو معلوم تھا کہ یہ دونوں کہاں سے اور کیسے آئے ہیں۔حدید نے شارینا سے کہا کہ وہ اپنے کام سے جارہا ہے اور وہ واپس چلی جائے، لیکن شارینا نے گلے شکوے شروع کر دیے کہ وہ اسے ملتا نہیں اور کبھی اس نے آکر اسے دیکھا بھی نہیں، حدید نے اسے بتایا کہ وہ صبح شام مصروف رہتا ہے۔ لیکن اتنی سی بات سے شارینا کی تسلی نہیں ہو رہی تھی، تسلی نہ ہونے کی ایک وجہ تو یہ تھی اس نے شاہی محل میں جنم لیا پلی بڑھی، اور شاہی ماحول میں جوان ہوئی تھی، اور وہ اس کے بالکل الٹ ماحول میں آ گئی تھی۔ دوسری وجہ یہ کہ حدید بن مومن اسے اتنا اچھا لگا تھا کہ دیوانہ وار اسے چاہنے لگی تھی، اور کئی کئی دن اسے حدید نظر نہیں آتا تھا۔اب اسے حدید نظر آگیا تو اس کے پیچھے پڑ گئی کہ وہ اسے بتائے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ حدید ایک خفیہ مشن پر جارہا تھا جو وہ شارینا کو نہیں بتانا چاہتا تھا، لیکن شارینا گھوڑے کے آگے ہو کر لگام پکڑ لی اور بچوں جیسی ضد کرنے لگیں کہ وہ اسے بتائے وہ کہاں جا رہا ہے۔حدید کو بھی آخر اس وقت اس سے محبت تھی وہ اس کی اتنی پیاری ضد سے متاثر ہو گیا اور اسے بتایا کہ وہ اپنے سپہ سالار کے ایک شک کے مطابق کچھ دور دیکھنے جا رہا ہے کہ واقعی رومی فوج کے قریب آگئی ہےیا یہ ایک افواہ تھی جو سپہ سالار کے کانوں تک پہنچ گئی ہے۔ شارینا نے اب یہ ضد شروع کردی کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گی حدید کو یہ منظور نہ تھا نہ ہی مناسب تھا کہ وہ اسے ساتھ لے جاتا، شارینا فہم و فراست رکھنے والی لڑکی تھی اس نے کہا کہ رومی کہیں نظر آ بھی گئے تو اسے کوئی نہیں پہچان سکے گا کیونکہ وہ اب ایسے لباس میں ہے کہ اسے کسی معمولی سے گھرانے کی لڑکی سمجھا جائے گا ،اور کسی نے پوچھ ہی لیا کہ تم دونوں کون ہو تو وہ کہے گی کہ میں اس کی بیوی ہوں۔حدید نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہیں مان رہی تھی حدید گھوڑے سے اترا شارینا کو اپنے بازوؤں میں لے کر بڑے پیار سے سمجھایا کہ وہ واپس چلی جائے اور اس کے فرائض میں مخل نہ ہو، بڑی تگ و دو کے بعد حدید نے شارینا کو راضی کر لیا کہ وہ آپس چلی جائے۔شارینا وہاں سے آہستہ آہستہ نہ چلی بلکہ دوڑ پڑی، حدید نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ چلی گئی ہے ،وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے کو چل پڑا ۔شارینا اس پر بھی پیار اور محبت کے جذبات طاری کر گئی تھی لیکن وہ اسلام کا مجاہد تھا ۔جذبات کے غلبے سے نکل آیا ،اور آگے ہی آگے بڑھتا گیا وہ گھوڑا دوڑا نہیں رہا تھا گھوڑا معمول کی چال چل رہا تھا ۔وہ زیادہ دور نہیں تھا کہ اسے کسی گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اس وقت وہ ایک چٹان کی اوٹ میں تھا کوئی سوار گھوڑاسرپٹ دوڑاتا آ رہا تھا ۔حدید کو خیال آیا کہ سپہ سالار نے ہی کسی سوار کو پیغام دے کر اس کے پیچھے بھیجا ہوگا وہاں کسی دشمن کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
حدید نے گھوڑے کا رخ موڑا اور چٹان کی اوٹ سے نکل کر سامنے آگیا کہ دیکھے کہ یہ کون آ رہا ہے، گھوڑا قریب آ گیا تھا سوار نے سر اور چہرے پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا ۔سوار نے قریب آکر گھوڑا روکا تو حدید نے دیکھا کہ یہ تو شارینا ہے ۔وہ پریشان ہوگیا اور شارینا سے کہا کہ وہ واپس چلی جائے۔ شارینا نے کہا کہ واپس جانے کے لئے نہیں آئی، اور اسے پوری امید ہے کہ وہ حدید کے لیے مددگار ثابت ہوگی، حدید یہ تو دیکھ چکا تھا کہ یہ لڑکی کس قدر دلیر ہے اور کیا کچھ کر سکتی ہے، وہ کوئی عام سی قسم کی لڑکی ہوتی تو صرف محبت کی طلب گار ہوتی تو حدید اسے اپنے ساتھ نہ لے جاتا اس نے سوچ کر یہی بہتر سمجھا کہ شارینا کو ساتھ لے جائے۔اب دونوں پہلو بہ پہلو چل رہے تھے حدید نے یہ دیکھ لیا تھا کہ شارینا نے ایسا لباس پہن رکھا ہے  جس نے سر اور چہرے کو اس طرح چھپا رکھا ہے کہ قریب آکر ہی کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ عورت ہے۔
یہ علاقہ میرے لیے نیا اور ان دیکھا نہیں ہے، شارینا نے کہا ـــــــ میں یہاں اپنے آپ کو اجنبی نہیں سمجھتی ہم نے اس ملک پر حکومت کی ہے اور میں چند مرتبہ یہاں سے سیر سپاٹے کے لئے آئی ہوں آگے ایک ندی آئے گی، یہ جگہ بہت ہی خوبصورت ہے، گھوڑوں کو اس ندی سے پانی پلائیں گے اور کچھ دیر سستا بھی لیں گے۔وہ تو ایک روح پرور سبزہ زار تھا زمین نشیب و فراز والی تھی۔ خوشنما جھاڑیاں اور سبز کھاس سے لدی پھندی ٹیکریاں بھی تھیں، دونوں چلتے گئے اور جب ایک ٹیکری سے گھومنے تو آگے چھوٹی سی ندی آگئی شارینا کے کہنے پر حدید نے گھوڑا روک لیا اور دونوں گھوڑے سے اترے اور گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا، وہ فوراً ندی کے کنارے چلے گئے اور پانی پینے لگے ،شارینا نے اپنے سر سے کپڑا کھولا اور چہرہ بھی ننگا کر دیا ۔وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا ۔یہ خطرہ تو تھا ہی نہیں کہ کوئی رومی ادھر آ نکلے گا ان کے خیال کے مطابق دور دور تک کسی رومی کا نام و نشان اور سراغ نہ تھا۔جہاں وہ اترے تھے اس سے چند ہی قدم دور سے ندی مڑتی تھی اور وہاں ایک ٹیکری بھی تھی، اور اس طرف ندی ٹیکری کے پیچھے ہوجاتی تھی، وہ دونوں بیٹھ گئے لیکن اس وقت ان پر رومانی کیفیت طاری نہیں تھی بلکہ وہ اپنے مشن کی باتیں کر رہے تھے، اور شارینا حدید کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ اس کا ساتھ مردوں کی طرح دے گی اور کہیں بھی اس پر ایسابوجھ یا اس کے کندھے پر ایسی ذمہ داری نہیں ڈالے گی جیسی عام عورتیں اپنے مردوں کے لیے بن جایا کرتی ہیں۔وہ اپنی باتوں میں مگن تھے کہ انہیں کسی اور کی باتوں کی آواز سنائی دینے لگی جو ٹیکری کی اوٹ سے اس کی طرف بڑھتی آرہی تھی ،آواز اور قریب آئی تو دونوں چپ ہو گئے اور شارینہ نے حدید کے کان میں سرگوشی کی کہ یہ تو رومی زبان میں باتیں کرتے آرہے ہیں ـــــــ شارینا نہتی نہیں تھی، وہ تلوار اور ایک خنجر سے مسلح ہو کر آئی تھی، اور حدید تو تھا ہی مسلح، اس کے پاس بھی تلوار تھی اور ایک خنجر۔

آواز جب سر پر آ پہنچی تو دونوں اٹھ کر کھڑے ہوئے اور ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ٹیکری کے اوٹ سے تین آدمی اچانک سامنے آگئے، حدید کو یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگی کہ یہ تینوں رومی فوجی ہیں۔ حالانکہ وہ فوجی وردی میں نہیں تھے بلکہ حدید کی طرح انہوں نے عام قسم کے لباس پہن رکھے تھے جیسا لباس اس خطے کے عام لوگ پہنا کرتے تھے ،ان میں ایک گورے چٹے رنگ کا جوان سال آدمی تھا جس کی آنکھیں کچھ نیلی اور کچھ سبزی سی تھی اس نے جب شارینا کو دیکھا تو چوک کر ذرا پیچھے ہٹ گیا۔ میں تمہارا نام نہیں جانتی شارینا نے اس گورے چٹے آدمی سے کہا ـــــــ اتنا یاد ہے کہ تم شاہ ہرقل کے محافظ
دستے کے کمانڈر رہ چکے ہو۔
ہاں ـــــــ شہزادی شارینا اس آدمی نے کہا ـــــــ میرا نام روتاس ہے اور میں شاہی محل کے محافظ دستے کا کمانڈر رہ چکا ہوں ۔
پہلے یہ بتائیں کہ آپ یہاں کیسے؟ ـــــــ اس نے حدید کی طرف دیکھ کر پوچھا اور یہ کون ہے؟
یہ مسلمان ہے شارینا نے کہا اور میں اسے اپنے ساتھ لے جا رہی ہوں تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں رہاء سے باہر نکلی تو مسلمانوں نے مجھے اغوا کر لیا تھا اور اپنے ہاں لے گئے تھے، وہاں میرے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں ہوا ،یہ اس لئے نہیں ہوا کہ مجھے کسی سالار کی بیوی بننا تھا، اور مسلمان دشمن کے عورتوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جو ہماری فوج کیا کرتی ہے، بہرحال میں تھیں تو ان کی قیدی لیکن اس آدمی نے مجھ پر رحم کیا اور قید سے آزاد کرا دیا۔ میں تمہیں پوری کہانی نہیں سنا رہی ،تم بھی جوان ہو اور جوانی کے جذبات سے واقف ہو ، یہ میری محبت میں ایسا مبتلا ہوا کہ اپنا مذہب چھوڑنے پر تیار ہو گیا ۔اب موقع ملا ہے اور ہم دونوں وہاں سے فرار ہو آئے ہیں، معلوم نہیں تھا کہ میں اسے کہاں لے جاؤ ں ،اچھا ہوا تم مل گئے، اب تم بتا سکو گے کہ اپنی فوج کہاں ہے، میں اسے وہاں لے جا کر عیسائی بناؤں گی ،اور یہ خواہش اس نے خود ظاہر کی ہے۔ حدید چپ رہا اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ شارینا اس رومی افسر سے کیا کہہ رہی ہے، شارینا ملک کے شام کی زبان بول اور سمجھ سکتی تھی، اس نے اس زبان میں یعنی عربی زبان میں حدید کو بتایا کہ اس نے اس جواں سال رومی کے ساتھ جھوٹ بولا ہے ۔روتاس نے شارینا سے کہا اسے معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ اغوا ہوگئی تھی بہر حال اس نے خوشی کا اظہار کیا کہ شارینا صرف یہ کہ مسلمان کی قید سے فرار ہو کر آ گئی ہے بلکہ ایک مسلمان کو عیسائی کر کے ساتھ لے جا رہی ہے، روتاس کے ساتھ جو دو آدمی تھے وہ رومی فوج کے سپاہی تھے۔
 شارینا نے انہیں وہیں بٹھا لیا اور روتاس سے پوچھا کہ ہرقل کہاں ہے؟ ـــــــ اور اپنی فوج کہاں ہے؟ ـــــــ روتاس شارینا سے اسی لئے بھی متاثر تھا بلکہ مرعوب تھا کہ وہ شہزادی تھی، اس نے شارینا کو بتانا شروع کیا کردیا کہ ہرقل کہاں ہے اور اب اپنی فوج اور قبائلی لشکر یہاں ان پہاڑیوں کے پیچھے اکٹھا ہو گئے ہیں، اور ہمص کو محاصرے میں لے کر یہ شہر فتح کرلیا جائے گا۔ شارینا نے یہ ساری بات حدید کو اس کی زبان میں بتائی اور کچھ اشارہ بھی دے دیا۔ باتیں کرتے کرتے روتاس نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ اس بھیس میں حمص جا رہا ہے کہ وہ یہ اندازہ کر سکے کہ حمص کے اندر مسلمانوں کی فوج کتنی کچھ ہے، اور یہ قلعہ بند شہر کس طرح لیا جاسکتا ہے، اور کیا حمص والوں کو کہیں سے کمک پہنچ سکتی ہے یا نہیں۔شارینا اس طرح اٹھی جیسے بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی ہو اور ٹانگیں سیدھی کرنا چاہتی ہو، باتیں کرتے کرتے وہ ان رومیوں کے پیچھے ہوگئی، جونہی روتاس نے نظریں ہٹائیں شارینا نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور ایک سپاہی کی گردن پر ایسا بھرپور وار کیا کہ اس کی گردن آدھی سے زیادہ کٹ گئی، روتاس نے یہ دیکھا تو کچھ نہ سمجھ سکا ۔اتنی دیر میں شارینا نے تلوار دوسرے سپاہی کے پہلو میں اس طرح اتار دی جس طرح پرچھی ماری جاتی ہے۔ تب روتاس بڑی تیزی سے اٹھا اور اس کا ایک ہاتھ اس کی تلوار کے دستے پر گیا لیکن حدید کی تلوار کی نوک اس کے سینے کے ساتھ لگ چکی تھی اور شارینا نے اسے کہا تھا کہ اسے زندہ رہنے دیا جائے گا اور وہ مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کرے ۔شارینا کی تلوار کی نوک روتاس کے ایک پہلو کے ساتھ لگ گئی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنی تلوار کے دستے سے ہٹا لیا۔ حدید نے شارینا سے وہ کپڑا لے لیا جو اس نے اپنے سر اور چہرے پر لپیٹا تھا۔ اس کپڑے سے حدید نے روتاس کے ہاتھ اس کے پیٹ پیچھے باندھ دیئے اور پھر حدید اور شارینا نے اسے اٹھاکر حدید کے گھوڑے پر بیٹھا دیا۔ حدید اس کے پیچھے بیٹھا اور شارینا اپنے گھوڑے پر سوار ہوئی اور دونوں وہاں سے واپس چل پڑے۔ یہ کوئی عجیب اتفاق نہ تھا کہ شارینا کے ساتھ بالکل ایسا ہی ایک واقعہ پہلے پیش آ چکا تھا اس کی فوج کے ایک افسر نے اسے راستے میں دیکھ لیا تھا اور اس افسر نے حدید کو اس وقت اپنے دو سپاہیوں سے قتل کروانے کی کوشش کی تھی، جب حدید اور شارینا ایک چشمے کے کنارے سوئے ہوئے تھے، اب پھر رومی فوج کا ایک افسر دو سپاہیوں کے ساتھ اسے مل گیا یہ اتفاق اس وجہ سے عجیب نہ تھا کہ اس ماحول میں اور اس صورتحال میں جب رومی فوج وہاں موجود تھی ایسا ہی واقعہ پیش آسکتا تھا کہ کوئی رومی اسکو پہچان لیتا اور اس کے سوا اورہو بھی کیا سکتا تھا۔ روتاس کو حدید اور شارینا حمص لے آئے اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اس وقت ابوعبیدہ کو ایک اور ذریعے سے اتنا پتہ چل چکا تھا کہ کچھ قبائل لشکروں کی صورت میں منظم ہو کر کہیں جا رہے ہیں، لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں اور کیوں جا رہے ہیں ؟سپہ سالار نے اس طرف بھی جاسوس بھیج دیے تھے اور اپنے ان سالاروں کو جو ملک شام میں بکھرے ہوئے تھے پیغام بھیج دیے تھے کہ یہ دیکھیں کہ عیسائی اور آتش پرست قبائل کہاں جارہے ہیں اور ان کی ظاہری اور درپردہ سرگرمیاں کیا ہے؟  یہ ایک قدرتی مدد تھی کہ شارینا حدید کے ساتھ چل پڑی تھی ،حدید بھی کوئی ایسا اناڑی نہ تھا، وہ شارینا کے بغیر ہی کچھ دیکھ آتا اور کوئی خبر لے آتا ،لیکن روتاس کو ساتھ لے آنے سے ہی صورتحال کا علم ہو گیا۔
 روتاس سے کہا گیا کہ وہ ہرقل کے صحیح عزائم اور اس کا منصوبہ پوری طرح بیان کر دے تو اس کی جان بخشی ہو جائے گی، اور اسے جنگ کے بعد غلام بنانے کے بجائے آزاد کر دیا جائے گا ۔جان کسے عزیز نہیں ہوتی، روتاس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ اس کا بادشاہ ہرقل شکست کھا کر بھاگ گیا ہے اور اس کی فوج میں کوئی دم خم نہیں رہا، روتاس نے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہرقل اور تمام قبائل کا سارے کا سارا پلان سنا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ رومی فوج اور قبائلی لشکر حمص کو محاصرے میں لے چکے ہیں اور کچھ قبائلی لشکر پہنچ جائیں گے تو حمص پر بڑا ہی زبردست حملہ ہوگا۔

 طبری، بلاذری، اور جوزی، نے خاص طور پر یہ واقعہ تاریخ کے دامن میں اس طرح ڈالا ہے کہ رومی فوج اور قبائلی لشکروں کی نفری پچاس ہزار سے زیادہ تھی، اور حمص میں جو مجاہدین موجود تھے ان کی تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی، وہ لکھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ابوعبیدہ جیسے سالار کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا ان کے لیے سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ باقی سب سالار خالد بن ولید ،شرجیل بن حسنہ، عمرو بن عاص، رضی اللہ عنھم جیسے تاریخ ساز سالار ان سے بہت دور تھے ہر ایک کی ذمہ داری میں وسیع علاقہ تھا جسے وہ نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔ ابو عبیدہ نے اپنے ماتحت سالاروں کو بلایا جو ان کے ساتھ حمص میں تھے انہیں اس صورتحال سے اور آنے والی آفت سے آگاہ کیا اور پھر تیز رفتار قاصد کو پیغام لکھ کر مدینہ امیرالمومنین کی طرف بھیج دیا اس میں انھوں نے لکھا کہ وہ حمص میں کس خطرے میں گھر گئے
ہیں۔ایک تو انہیں ہدایت اور احکام دیے جائیں اور جس قدر کمک مل سکتی ہے بلاتاخیر بھیج دی جائے۔
 تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ہرقل حمص پر قبضہ کر لے گا اور مسلمانوں کے لئے قدم جما نہ ناممکن نہیں تو بڑا ہی دشوار ضرور ہو جائے گا، اس سوال کا جواب اس وقت کوئی بھی نہیں دے سکتا تھا کہ حمص کو اتنی تیزی سے مدد مل سکے گی یا نہیں؟ جس تیزی سے رومی اور قبائلی لشکر حمص کی طرف بڑھ رہے تھے

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

حمص  ہی نہیں وہاں تو پورے کا پورا ملک شام ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگا تھا، رومی فوج کے پکڑے ہوئے افسر روتاس نے بتایا تھا کہ اس وقت تک رومی فوج اور غیرمسلم قبائل کے لشکر کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور ان کے قبائل کے آدمی ابھی تک اس لشکر میں شامل ہونے کے لیے آ رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ جیسی مضبوط اعصاب والی شخصیت کے چہرے پر تشویش کا تاثر آگیا تھا تشویش تو ہونی ہی تھی ان کے پاس تھا ہی کیا، مجاہدین کی کل تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی۔ جس وقت سپہ سالار ابوعبیدہ روتاس سے سن رہے تھے کہ ہرقل کا پلان کیا ہے اس وقت انھوں نے شارینا کو باہر بھیج دیا تھا ۔شارینا نے اپنا کام کر دیا تھا اور یہ اس کا بہت بڑا کارنامہ تھا لیکن جنگی امور اور مسائل میں جن کا تعلق صرف مردوں یعنی سالاروں کی سطح کے مردوں کے ساتھ تھا ایک عورت کی موجودگی ضروری بھی نہیں تھی اور مناسب بھی نہیں۔ابو عبیدہ نے روتاس کی ساری بات سن کر دو تین محافظوں کو بلایا اور کہا کہ روتاس کو قید خانے میں بند کر دیا جائے، تو اس نے احتجاج کے لہجے میں کہا کہ اس نے ہر راز بتا دیا اور میرے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ مجھے آزاد کر دیا جائے گا تو پھر قید خانے میں
کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
ہم دل سے تمہاری قدر کرتے ہیں ـــــــ ابو عبیدہ نے کہا ـــــــ ہم تمہیں جنگی قیدی سمجھ کر قید خانے میں نہیں ڈال رہے، جونہی جنگ ختم ہو گی ہم تمہیں پوری عزت اور احترام سے آزاد اور رخصت کریں گے۔ ابو عبیدہ نے محافظوں کو اشارہ کیا ،محافظ روتاس کو اپنے ساتھ لے کر باہر نکل آئے۔ حدید بھی ان کے ساتھ آگیا اور شارینا کے پاس رک گیا ،اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟ شارینا نے روتاس کے متعلق پوچھا ـــــــ قید خانے میں، قید خانے میں کیوں ـــــــ شارینا نے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر بولی ـــــــ انہیں روک لو حدید! ـــــــ سپہ سالار کے حکم میں دخل اندازی نہ کرو ـــــــ شارینا حدید نے کہا ـــــــ تمہاری عقل ان تک نہیں پہنچ سکتی۔
میں سپہ سالار سے ملنا چاہتی ہوں شارینا نے کہا ـــــــ تم بھی ساتھ آؤ۔ مجھ میں سپہ سالار جیسی عقل تو نہیں ہو گی لیکن میری عقل میں ایک بات آ گئی ہے ۔
حدید کی کوئی اور بات سنے بغیر شارینا اندر چلی گئی ۔حدید بھی اس کے پیچھے چلا گیا کہ نہ جانے کیسی باتیں کہہ گزرے جو سپہ سالار کو اچھی نہ لگے۔
سالار محترم ـــــــ شارینا نے اندر جاتے ہی کہا ـــــــ میں آپ کے فیصلوں اور احکام میں دخل اندازی نہیں کر رہی صرف یہ پوچھنے کی معافی چاہتی ہوں کہ اس رومی افسر کو آپ قید خانے میں کیوں قید کر رہے ہیں ؟اسے تو آپ نے آزادی کا وعدہ دیا تھا۔
میری عزیز بچی ـــــــ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ـــــــ اگر یہ کارنامہ تمہارا نہ ہوتا تو میں تمہیں اس سوال کا جواب نہ دیتا ۔میں تمہارے جذبے کی دلی طور پر تعریف کرتا ہوں لیکن تم ابھی کم عمر ہو اس لئے نہیں سمجھ سکتی کہ جذبے کی لگام عقل کے ہاتھ میں نہ ہو تو جذبہ نقصان بھی لے دے جایا کرتا ہے۔ تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ مجھ سے پوچھو کہ میں اسے قید خانے میں کیوں بند کر رہا ہوں۔ اگر اسے ابھی آزاد کردیا تو یہ سیدھا ہرقل کے پاس پہنچے گا اور اسے بتائے گا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ چڑھ گیا تھا اور اس نے یہ راز اگل دیا ہے۔ اس کی اس اطلاع پر ہرقل فوراً اپنا حملے اور محاصرے کا منصوبہ تبدیل کردے گا، ہوسکتا ہے وہ ہم سب کو نظر انداز کر دے اور کسی اور شہر کو جاکر محاصرے میں لے لے، جو ہمارے قبضے میں آ چکا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ  اس نے ہمیں غلط خبر دی ہو یہ اطلاع مجھے پہلے ہی ملی ہیں کہ ہم سے دور پہاڑی علاقے میں ہرقل کی فوج اور قبائل کا لشکر اس طرح اکٹھا ہوگیا ہے کہ حمص محاصرے میں ہے، بے شک فاصلہ زیادہ ہے لیکن اس فوج اور لشکر نے اسی حالت میں پیش قدمی کی تو حمص بالکل ہی محاصرے میں آجائے گا، اور ہمیں قلعہ بند ہو کر لڑنا پڑے گا، اور ہمارا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ کمک ہم تک نہیں پہنچ سکے گی ،میں اپنے وعدے پر قائم ہوں یہ محاصرہ توڑ دینے اور رومی فوج کو پسپا کرنے کے فوراً بعد روتاس کو آزاد کر دیا جائے گا۔
میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں محترم سپہ سالار ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ آپ کے سامنے میری حیثیت کچھ بھی نہیں ،پھر بھی آپ نے میری بات تحمل سے سنی ہے اور جواب دیا ہے ،رومیوں کے ہاں کوئی چھوٹا آدمی اپنے سالار کے سامنے اونچی سانس بھی نہیں لے سکتا ۔میں ہرقل سے ایسی بات کرنے کی جرات ہی نہیں حالانکہ وہ میرا باپ ہے باپ سے پہلے وہ اپنے آپ کو بادشاہ اور پھر افواج کا سالار سمجھتا ہے۔
شارینا بیٹی ـــــــ ابو عبیدہ نے کہا میں اس وقت مصروف بھی ہو اور کچھ پریشان بھی ،اگر تمہیں کوئی خاص بات کہنی ہے تو وہ کہو اپنی تعریف سننے کا ہمارے ہاں رواج بھی نہیں اور میرے پاس وقت بھی نہیں تم مجھے خراج تحسین پیش نہ کرو خراج تحسین کی حقدار تم خود ہو جس نے بہت بڑا کارنامہ کیا ہے۔
میں خاص بات ہی کرنا چاہتی ہوں ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ اس رومی افسر روتاس کو قید خانے میں رکھنے کے بجائے کسی بڑے اچھے کمرے میں رکھیں، باہر پہرہ کھڑا کروا دیں تاکہ اسے احساس نہ ہو کہ یہ قیدی ہے۔ پھر مجھے اجازت دیں کہ میں اس سے ملتی رہوں، مجھے امید ہے کہ اس کے سینے سے کچھ اور کام کی باتیں نکلوا سکوں گی۔ سپہ سالار ابوعبیدہ نے حدید کی طرف دیکھا اور دو تین سالاروں کی طرف دیکھا جو وہاں موجود تھے ابو عبیدہ کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم تھا۔
خدا کی قسم، اس لڑکی نے عقل و دانش کی بات کی ہے ـــــــ سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا ـــــــ اور کیا تم سب نے محسوس نہیں کیا کہ میں کتنا پریشان ہوں اور میرا ذہن کہاں الٹ گیا ہے، میرا دماغ حاضر ہوتا تو یہ بات میں خود سوچ لیتا، شارینا روتاس کو قید خانے کے بجائے نہایت اچھے رہائشی کمرے میں رکھا جائے گا اور اسے یہ احساس دلایا جائے گا کہ وہ قیدی نہیں ہمارا مہمان ہے۔اور اس خوش اخلاقی کا میں اس پر ایسا تاثر پیدا کر دوں گی کہ یہ اسلام قبول کرلے گا۔ شارینا نے کہا ـــــــ لیکن میرا اولین مقصد یہ ہو گا کہ اس سے کچھ اور راز حاصل کر لوں حدید میرے ساتھ ہوگا لیکن میں روتاس سے اکیلے ملا کروں گی۔ابو عبیدہ نے اسی وقت دربان کو بلا کر حکم دیا کہ اس رومی کو قید خانے میں نہ لے جایا جائے ،اسے مہمان کے طور پر کہیں اور رکھا جائے گا۔ سپہ سالار نے اس کے مطابق حکم دے دیا کہ انتظام مکمل کیا جائے اور اس کے کمرے کے سامنے ہر وقت دن رات پہرہ کھڑا رہے۔

ابو عبیدہ، خالد بن ولید، سعد بن ابی وقاص، اور عمر بن عاص، رضی اللہ عنھم کے پائے کے سپہ سالار تھے۔ خالد بن ولید کی معزولی کے بعد امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لشکر کی کمان ابو عبیدہ کو ہی دی تھی، انہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ جو مشورہ شارینا نے دیا تھا یہ خود ہی ان کے ذہن میں آ جانا چاہیے تھا لیکن نہ آیا وجہ یہ تھی کہ انہیں حمص ہاتھ سے جاتا نطر آ رہا تھا۔ اس پریشانی نے ان کے ہوش و حواس کو بھی مجروح کر دیا تھا کہ کمک پہلے پہنچتی ہے یا ہرقل کا لشکر۔ یہ ان کے بس میں تھا ہی نہیں کہ کمک رومی لشکر سے پہلے پہنچ جائے۔ وہ کچھ اور سوچنے کے قابل رہے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے ایک کے بجائے اکٹھے دو قاصد امر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑا دیے تھے۔انہوں نے قاصدوں کو بڑی سختی سے ہدایت دی تھی کہ وہ سوئیں گے تو گھوڑوں کی پیٹ پر سوئیں گے اور کھائیں گے بھی تو چلتے گھوڑوں پر کھائیں گے، ایک ہدایت یہ بھی دی کہ دو قاصد اس لیے بھیج رہے ہیں کہ راستے میں ایک کو کچھ ہوجائے اور وہ اتنا بیمار ہوجائے کہ موت نظر آنے لگے تو دوسرا قاصد اس کے لئے رکے نہیں اکیلا ہی چلا جائے۔ ابو عبیدہ کے الفاظ یہ تھے کہ اڑ کر مدینہ پہنچو۔اس دور کے قاصد ایسے نہیں تھے کہ پیغام لے کر چلتے تو اپنی مرضی کی رفتار سے جاتے اور خوش ہوتے کہ چلو میدان جنگ سے تو کچھ دنوں کی چھٹیاں ملی وہ قاصد بھی مجاہد تھے۔ ان کا بھی جذبہ تھا اور اپنے اس فرض پر جان قربان کر دینا ان کا ایمان تھا ، پیغام رسانی کا انتظام بڑا اچھا تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں قائم کر دی گئیں تھیں جہاں تازہ دم اور نہایت تندرست گھوڑے موجود رہتے تھے ،قاصد ہرچوکی پر تھکا ہوا گھوڑا چھوڑتے اور تازہ دم گھوڑا لے کر آگے چلے جاتے تھے، جب صحرا شروع ہو جاتا تھا تو صحرائی چوکیوں میں اونٹ بھی رکھے جاتے تھے کیونکہ ریگستان میں اونٹ گھوڑے سے زیادہ تیز دوڑتا ہے اور پانی کی حاجت محسوس نہیں کرتا۔یہ قاصدوں کے صوابدید پر ہوتا تھا کہ انہیں گھوڑے کے بجائے اونٹ پر آگے جانا چاہیے۔ یہ بھی پیش نظر رکھیں کہ حمص سے مدینہ کم و بیش بارہ سو کلومیٹر دور اور راستہ زیادہ تر صحرائی تھا۔سپہ سالار ابوعبیدہ نے حمص میں اپنا ہیڈکوارٹر جس مکان میں بنایا تھا اور ساتھ ہی رہائش رکھی تھی وہ کوئی معمولی اور عام سا مکان نہیں تھا ،یہ علاقہ بلکہ پورا شام کبھی ایرانیوں اور کبھی رومیوں کے قبضے میں رہا ہے۔ دو بادشاہ تھے اس لیے انہوں نے ہر جگہ اپنے لئے محل تعمیر کرا رکھے تھے۔ رومی فوج کے اس افسر کو جس کا نام روتاس تھا اس محل کے ہی ایک کونے والے کمرے میں رکھا گیا ۔اس کمرے کے اندرونی زیب و زیبائش، پلنگ،  اور دیگر فرنیچر وغیرہ شاہانہ تھا۔ کمرے کے باہر ایک پہرے دار کھڑا کردیا گیا تھا، اور روتاس کو کھانا بھی اچھا دیا جانے لگا ،اگر وہ قید خانے میں قید کیا جاتا تو اسے بڑی گندی کوٹھری میں رکھا جاتا اور نہایت گھٹیا کھانا دیا جاتا۔اگلے روز شارینا اس کے کمرے میں گئی، اس نے کمرے کی ہر ایک چیز دیکھی پھر پلنگ اور بستر کو
اچھی طرح دیکھا جیسے کمرے کا معائنہ کر رہی ہو۔
اپنے آپ کو قیدی نہ سمجھنا ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ تم یہاں مہمان ہو کوئی تکلیف تو نہیں؟ میرا خیال ہے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں؟ کیا تم خدا کا شکر ادا نہیں کرو گے کہ تمہیں قید خانے میں نہیں بھیجا گیا۔تمہارے سپہ سالار نے مجھے آزاد کر دینے کا وعدہ کیا تھا ـــــــ روتاس نے کہا ـــــــ پہرہ کھڑا کردینے کا مطلب ہے کہ میں قیدی ہوں۔
تم فوج کے افسر ہو شارینا نے کہا ـــــــ اگر تمہارے پاس تمہارے دشمن کا کوئی آدمی تمہاری ہی طرح تمہارے پاس لایا جائے اور وہ ایسے ہی راز اگل دے جیسے تم نے اگلے ہیں تو کیا تم اسے فوراً آزاد کر دو گے کہ وہ اپنی فوج میں جا کر بتائے کہ وہ راز اگل آیا ہے اور اپنی جنگی منصوبے تبدیل کر دو۔
روتاس نے سرجھکا لیا، جیسے اسے شارینا کاجواب ٹھیک لگا ہو، میں تمھارے پاس آتی رہوں گی۔ شارینا نے کہا ـــــــ ہم دونوں رومی ہیں ،یہ ایسا رشتہ ہے جسے میں نظرانداز نہیں کر سکتی۔لیکن اب تو تم مسلمان ہو، روتاس نے کہا ـــــــ تم نے عملاً ثابت کردیا ہے کہ مجھے اپنا دشمن سمجھتی ہو کیا یہ بتانا پسند کرو گے کہ تم یہاں پہنچی کیسے تھی؟ اور پھر تم ایک مسلمان کے ساتھ کہا جا رہی تھی کہ میں تمہارے سامنے آگیا۔
تمہاری حیرت کو میں سمجھتی ہوں ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ تم سوچتے ہو گے کہ میں شہنشاہ ہرقل کی بیٹی ایک معمولی سے عرب مسلمان کے ساتھ کیوں چلی آئی۔ یہ شخص جو میرے ساتھ تھا۔ اس کا نام حدید بن مومن خزرج ہے ،اپنی فوج میں اس کا عہدہ معمولی سا ہے۔ ہمارا جنگی قیدی تھا۔ مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے اسے رہا کیا اور اس کے ساتھ آ گئی
شارینا نے روتاس کو حدید اور اپنے فرار کا واقعہ سنایا لیکن ایسے لہجے اور انداز سے سنایا جیسے اسے اپنا یہ اقدام پوری طرح اچھا نہ لگا ہو ، روتاس نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں خوش ہے یا کوئی کمی محسوس کر رہی ہے؟ میں یہاں اسلام قبول کرنے نہیں آئی تھی ـــــــ شارینا نے جھوٹ بولا، مجھے اپنے باپ کے خلاف بھی کوئی شکایت نہیں تھی،شاید میں پیار کی تشنگی محسوس کرتی تھی اور میری عمر ایسی ہے کہ عقل پر جذبات غالب آ جاتی ہے ،معلوم نہیں یہ شخص حدید مجھے کیوں اتنا اچھا لگتا ہے جیسے اس کے ہاتھ میں کوئی طلسم ہے جو مجھ پر بڑے ہی خوبصورت آسیب کی طرح طاری ہوجاتا ہے مجھے اسلام سے نہیں، حدید سے محبت ہے میں تمہارے دو سپاہیوں کو مار کر تمہیں زندہ یہاں لے نہ آتی تو تم حدید کو مار ڈالتے۔تمہیں یہاں حدید کو خوش کرنے کے لئے لائی تھی ،حدید کے سپہ سالار اس پر بہت خوش ہیں، سچ پوچھو تو یہ لوگ مجھے اچھے نہیں لگے، میں تو شہزادی تھی اور کہاں اس جنگل میں خیمےمیں پڑی رہتی ہوں اور زمین پر سوتی ہوں یہ لوگ بہت ہی سادہ بلکہ پسماندہ ہیں آج تمہیں یہاں دیکھ کر اور تمہارے پاس بیٹھ کر مجھے دلی تسکین محسوس ہورہی ہے یہ خیال رکھنا کہ مجھے اپنا دشمن نہ سمجھنا۔میں تمہارے لئے جو کچھ بھی کر سکتی تھی کر دیا ہے ۔تمہیں قید خانے میں نہیں جانے دیا اور یہ کمرہ تمہیں دلوایا ہے۔اگر مسلمانوں کو شکست ہوگئی اور یہ یہاں سے بھاگ نکلے تو پھر تم کیا کرو گی روتاس نے پوچھا۔ میں تم سے امید رکھوں گی کہ میرے راز کو دل میں دفن کر دو گے ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ میں اس کوشش میں ہوں کہ حدید کو اپنے ساتھ لے جاؤں اور اسے اسلام سے نکال کر اپنے مذہب میں لے لوں، اگر مسلمان یہاں سے پسپا ہوئے تو پھر میں حدید کو ساتھ لے کر واپس آ جاؤں گی۔

اگلے روز شارینا پھر روتاس کے کمرے میں گئی وہ تو جیسے شارینا ہی کے انتظار میں تھا ،پہلے روز شارینا نے اس پر ایسا تاثر چھوڑ آئی تھی کہ وہ اگلی ملاقات کا انتظار بڑی بے تابی سے کرنے لگا ،وہ کوئی بوڑھا آدمی نہیں تھا، شارینا کی باتوں سے زیادہ تو وہ اس لڑکی کے حسن و جوانی سے متاثر ہوا تھا ۔وہ شارینا کا مشکور بھی تھا کہ اس نے اسے قید خانے کی کال کوٹھری سے بچا کر اس امیرانہ کمرے میں رکھا تھا  اب شارینا اس کے کمرے میں گئی تو پہلے سے زیادہ دلچسپی سے اس سے پوچھا کہ اسے کوئی تکلیف یا بے
آرامی تو نہیں ہوئی؟
نہیں ـــــــ روتاس نے کہا ـــــــ تم نے اگر میرے پاس آنا چھوڑ دیا تو مجھے بہت تکلیف ہو گی، میں رومی فوج کے حملے کا انتظار کر رہی ہوں ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ معلوم نہیں ہرقل کس انتظار میں ہے، یہ تو بڑا ہی موزوں وقت ہے کہ حمص کو محاصرے میں لے لیا جائے،شہر کے اندر فوج بہت ہی تھوڑی ہے ،یہ لوگ زیادہ دن مقابلہ نہیں کر سکیں گے ـــــــ ہو جائے گا ـــــــ روتاس نے بے پروائی سے کہا ـــــــ یہ بادشاہوں کے اور جرنیلوں کے معاملات ہیں ـــــــ تم جو تھوڑا سا وقت میرے ساتھ گزارنے آئی ہو اسے میں خاک و خون کی باتیں کرکے بے مزا نہیں کرنا چاہتا، ہرقل جب مناسب سمجھے گا فوج کو پیش قدمی کرنے کا حکم دے دے گا کوئی اور بات کرو۔
شارینا نے محسوس کرلیا کہ روتاس اسے کوئی اور جنگی معاملے کی بات بتانے سے گریز کر رہا ہے ، اس کا اندازہ ایک تو ٹالنے والا تھا اور دوسرا یہ کہ وہ شارینا جیسی حسین و جمیل لڑکی کے ساتھ شگفتہ اور رومانی باتیں کرنا چاہتا تھا ، شارینا نے اس کے ساتھ ایسی ہی ہلکی پھلکی باتیں شروع کر دیں ، میری ایک ضرورت پوری نہیں ہورہی ہے ـــــــ روتاس نے کہا ـــــــ میں شراب کے نشے سے ٹوٹا ہوا ہوں ـــــــ تم جانتی ہو کہ ہم لوگ پانی کی طرح شراب پیتے ہیں لیکن یہاں ایک قطرہ دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔
تم شاید نہیں جانتے ـــــــ شارینا کہا ـــــــ مسلمان شراب نہیں پیتے، یہی نہیں کہ یہ شراب نہیں پیتے بلکہ اسے گناہ سمجھتے ہیں اور شراب پینے والے کو سزا دیتے ہیں۔
شارینا بڑی ذہین اور فہم و فراست والی لڑکی تھی۔ روتاس نے شراب کا نام لیا تو شارینا کو یاد آیا کہ اس کی قوم تو اتنی شرابی ہے کہ پانی نہ ملے تو نہ سہی شراب ضرور مل جائے۔ شارینا نے سوچا کہ یہ روتاس کی ایسی کمزوری ہے جسے ہاتھ میں لے لیا جائے تو اس کے اندر سے سارے راز نکالے جاسکتے ہیں ، یہی سوچ کر شارینا نے شراب ہی کی بات چلنے دی اور ایسی باتیں شروع کر دی کہ روتاس شراب کی طلب پہلے سے زیادہ محسوس کرنے لگا۔ اب تو صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ بری طرح نشے سے ٹوٹا ہوا ہے، کچھ کرو شارینا ـــــــ روتاس نے کہا ـــــــ اس شہر میں عیسائی بھی رہتے ہونگے اور وہ شراب تو ضرور ہی پیتے ہونگے کسی طرح کسی عیسائی یا کسی بھی غیر مسلم کے گھر سے شراب لا دو۔
لا تو دوں ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ لیکن میں پکڑی گئی تو مجھے یہ لوگ سزا دیں گے میں اپنے آپ کو اس خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔
اب تو روتاس نے شارینا کی منت سماجت شروع کر دی، آخر شارینا نے کہاکہ وہ پوری کوشش کر ےگی اور اسے شراب لا دے گی لیکن ہر روز نہیں لا سکے گی اگر لاسکی بھی تو اسے نہیں دے گی کیونکہ پہرے دار ہر وقت دروازے کے باہر موجود رہتا ہے، اس نے شراب کی بو سونگھ لی تو سیدھا اندر آئے گا اور دونوں کو شراب خوری کے جرم میں سپہ سالار کے آگے کھڑا کر دے گا پھر سپہ سالار کوڑوں کی سزا دے گا جو شاید ہی کوئی برداشت کر سکتا ہو۔کچھ وقت روتاس کے ساتھ گزار کر شارینا وہاں سے نکلی اور حدید سے ملی، حدید سے کہا کہ وہ کسی طرح شراب کا انتظام کردیے، حدید یہ سمجھا کہ شارینا ایک رومی کو خوش کرنا چاہتی ہے ،حدید نے اسے بتایا کہ شراب خوری جرم ہے اور اس کی کیا سزا ہے۔
یہ میں یہاں کی عورتوں سے سن چکی ہوں ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ روتاس سے میں نے ابھی کچھ پوچھنا ہے لیکن وہ ٹال مٹول کررہا ہے اور مجھے شک ہے کہ وہ اور کچھ نہیں بتانا چاہتا۔ آج اس نے شراب مانگی ہے اور وہ بری طرح سے ٹوٹا ہوا ہے، میں چاہتی ہوں کہ اسے تھوڑی سی یا جتنی بھی مل جائے پلا کر اسے کچھ اور باتیں معلوم کروں۔

روتاس نے ٹھیک کہا تھا کہ حمص میں عیسائی بھی آباد ہیں، بت پرست بھی ہیں اور شاید ایک دو گھر آتش پرستوں کے بھی ہوں، ان لوگوں کے یہاں شراب ہو گی۔ ایک اور بات یاد آ گئی ـــــــ حدید نے کہا ـــــــ روتاس سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ حمص میں ہرقل کے جاسوس موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہیں تو بتائیے کہ وہ کون ہے، میں شراب کا بندوبست کر لونگا۔حدید کے لیے یہ کام مشکل نہیں تھا اس نے دو تین غیر مسلم گھروں سے کچھ شراب اکٹھا کر لی اور چھوٹے مشکیزے میں ڈال کر مشکیزا شارینا کے حوالے کر دیا اس کے ساتھ ہی حدیدنے شارینا کو بتایا کہ وہ سپہ سالار سے اجازت لے لے گا کہ روتاس سے مزید راز اگلوانے کے لیے اسے شراب پلانا ضروری ہے ،اس کی اجازت دے دی جائے، حدید نے سپہ سالار سے یہ اجازت بھی لے لی اور طے یہ پایا کہ روتاس کو نہ بتایا جائے کہ شراب نوشی کی اجازت لے لی گئی ہے بلکہ اسے اس تاثر میں رکھا جائے کہ اسے چوری چھپے شراب پلائی جارہی ہے پہرے داروں کو بھی کہہ دیا گیا کہ انہیں کمرے سے شراب کی بو آئے تو اسے نظرانداز کردیں۔
اگلے روز شارینا شراب کا یہ چھوٹا سا مشکیزہ ایک چادر میں لپیٹ کر  روتاس کے پاس گئی اور اسے بتایا کہ اس نے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے اور اب وہ بچ بچا کر پی لیں۔روتاس نے شارینا سے مشکیزہ اس طرح لیا جیسے اس سے چھینا ہو، شارینا نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔ روتاس نے شراب گلاس میں ڈال کر پینی شروع کردی اور شارینا سے کہا کہ وہ بھی لے، لیکن اس لڑکی نے انکار کردیا۔شراب اپنے سامنے دیکھ کر میں بڑی مشکل سے اپنے آپ پر جبر کر رہی ہوں ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ لیکن میں مجبور ہوں اگر ایک گھونٹ بھی پی کر حدید کے پاس گئی یا کسی کے پاس سے بھی گزری ،وہ مجھے پکڑ لے گا اور پھر یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ یہ لڑکی کون ہے اور کس کی بیٹی ہے اور یہ کتنی اہم ہے وہ مجھے سپہ سالار کے یہاں پیش کر دیں گے اور سپہ سالار ایسی سزا دے گا جو میں برداشت نہیں کر سکوں گی۔اس دوران روتاس پیتا ہی چلا گیا اور اب اس نے جو باتیں کیں اس میں ہلکی ہلکی لڑکھڑاہٹ تھی وہ نارمل حالت میں رہا ہی نہیں تھا۔میں واپس جانا چاہتی ہوں شارینا نے کہا ؛یہاں کی پابندیاں دیکھو کہ شراب بھی نہیں پینے دیتے ۔معلوم نہیں شاہ ہرقل کب حملہ کرے گا، حمص سے مسلمان بھاگے تو میں یہاں ہی رہو گی تم مجھے بتاتے کیوں نہیں کہ حملے میں اتنی تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟ میں تو سوچتی ہوں کہ مجھے موقع ملے تو میں ہرقل کے پاس پہنچ جاؤں اور اسے کہو کہ یہی وقت ہے حملے کا ، اگر ادھر ادھر سے کمک آ گئی تو پھر رومیوں کے لئے حمص فتح کرنا ممکن نہیں رہے گا۔اس کی کچھ وجوہات ہیں روتاس نے کہا ـــــــ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاہ ہرقل بہت ہی محتاط ہوگیا ہے ،وہ خود کتنا ہی جرات اور ہمت والا کیوں نہ ہو، لڑنا تو فوج نے ہے ساری فوج پر مسلمانوں کی دہشت طاری ہو گئی ہے۔
وہ تو ہونی ہی تھی ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ مسلمانوں نے ہرمیدان میں ہماری فوج کو بہت بری شکست دی ہے اور پورے کا پورا ملک فتح کرلیا ہے ادھر ایرانیوں کو اسی طرح مسلمان شکست دیتے دیتے ان کے ملک سے ہی باہر لے گئے ہیں، وہ خبریں بھی ہماری فوج تک پہنچتی رہتی ہیں۔
حیرت اور دہشت کی وجہ اور ہے ـــــــ روتاس نے کہا ـــــــ حیرت اس پر کہ مسلمانوں کی تعداد ہمارے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی ہے اور دہشت اس وجہ سے کہ اتنی تھوڑی تعداد میں انہوں نے اتنی بڑی اور طاقتور فوج کو شکست دے دی ہے۔ ہماری فوج میں مسلمانوں کے متعلق عجیب و غریب اور پر اسرار کہانیاں مشہور ہوگئی ہیں۔ ہمارے سپاہی یقین کی حد تک کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے قبضے میں جنات ہیں۔ ہماری فوج نے تو ایرانیوں جیسی طاقتور فوج کو بھی شکست دی ہے۔ شاہ ہرقل زخمی شیر کی طرح آخری حملہ تو ضرور کرے گا ،اور اس نے فوج اور قبائل کا لشکر آگے بھیج بھی دیا ہے لیکن اب وہ قدم اٹھانے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔ جزیرہ کے ان قبائل کا لشکر تو تازہ دم ہے ـــــــ شارینا نے کہا ـــــــ کیا یہ مدد شاہ ہرقل کے لئے کافی نہیں؟ ـــــــ کافی تو ہے ـــــــ روتاس نے جواب دیا ـــــــ لیکن ان قبائل کے متعلق شاہ ہرقل اور زیادہ محتاط ہے یہ تو میں بھی کہتا ہوں کہ ان قبائلیوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔شاہ ہرقل نے اپنے جرنیلوں اور ان سے چھوٹے افسروں سے کہہ دیا ہے کہ یہ قبائل اپنے گھروں اپنے بیوی بچوں اور اپنے جان و مال کی حفاظت کے خاطر اکٹھا ہوئے ہیں ،ان میں کوئی قومی جذبہ نہیں نہ ان کی اپنی کوئی بادشاہی نہیں ہے جس کی خاطر یہ لڑنا چاہیں گے۔ان قبائل کے سرداروں نے صاف کہا ہے کہ مسلمان ان کے گھر تباہ کر دیں گے اور ان کی لڑکیوں کو اٹھا لے جائیں گے،یہ لوگ صرف تحفظ چاہتے ہیں جو اگر انہیں مسلمانوں کی طرف سے مل گیا تو رومیوں کے خلاف ہو جائیں گے۔ پھر ان لوگوں میں ایک خامی اور بھی ہے یہ فرداً فرداً لڑاکے اور شہسوار ہوسکتے ہیں اور ہیں بھی، لیکن فوج کی تنظیم اور ترتیب میں لڑنا کوئی اور ہی بات ہے پہلے تو انہیں یہ سیکھنا ہے کہ فوج کی ترتیب میں کس طرح لڑا جاتا ہے اگر انہیں اسی طرح میدان میں لے آئے تو یہ فوج کی طرح نہیں بلکہ ایک ہجوم کی طرح لڑیں گے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قبائلی دیکھیں گے کہ رومی فوج لڑتی ہے یا بھاگتی ہے،  اگر ہماری فوج جم کر نہ لڑی تو سب سے پہلے یہ قبائلی بھاگیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ مسلمانوں سے جا ملیں، اگر آج انہیں معلوم ہو جائے کہ رومیوں کی نسبت مسلمان ان کے ہمدرد ہیں تو یہ رومیوں سے منہ موڑ جائیں گے۔ روتاس کبھی ہرقل کے محافظ دستے کا کمانڈر ہوا کرتا تھا اور اب وہ جاسوسی کے نظام کا کمانڈر تھا اور اپنے دو آدمیوں کے ساتھ حمص کی طرف دیکھنے آ رہا تھا کہ مسلمانوں کا دفاعی انتظام کیسا ہے، اور کیا قلعے کے باہر بھی کوئی فوج ہے، جاسوسی کے شعبے میں ہونے کی وجہ سے وہ ہرقل کی سطح کی باتیں بھی جانتا تھا لیکن وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکا کہ شارینا اس کے سینے سے راز اگلوا رہی ہے، اس کامیابی میں شارینا کی ذہانت تو کام کر رہی تھی لیکن اصل کام شراب نے دکھایا تھا۔روتاس پیتا اور بہکتا چلا گیا اور جب اس کا دماغ بالکل ہی ماؤف ہو گیا تو شارینا وہاں سے آ گئی اور حدید کو بتایا کہ اس نے کیا کچھ معلوم کیا ہے ،حدید شارینا کو سپہ سالار ابوعبیدہ کے پاس لے گیا اور شارینا نے وہی باتیں پھر دہرا دی۔ ابو عبیدہ نے اسی وقت جاسوسی کے نظام کے سربراہ کو بلایا اور اسے بتایا کہ رومیوں کے ہاں کیا ہو رہا ہے اور اس صورتحال سے ہم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
 وہ میں بتاتا ہوں ـــــــ سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا ـــــــ انتہائی عقلمند آدمی بھی جو اپنے آپ کو وہاں مختلف عیسائی قبیلوں کے فرد ظاہر کریں اور بتائیں کہ وہ قبائل کے لشکر میں شامل ہونے آئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے۔ فوری طور پر دس بارہ مجاہدین منتخب کرکے تیار کئے گئے انہیں دشمن کے علاقے میں جانے کا اور وہاں کے لوگوں میں گھل مل جانے کا تجربہ خاصا تھا اور انھیں ٹریننگ بھی ایسی ہی دی گئی تھی، ان میں سرفہرست حدید تھا، ان کا کام یہ تھا کہ رومی فوج کے ساتھ جو غیر مسلم قبائل جا ملے ہیں ان میں شامل ہو جائیں اور انہیں رومیوں کے خلاف گمراہ کریں۔

جاری ہےــــــــ

اپنا تبصرہ بھیجیں