سابقہ اقساط
قسط نمبر 01 | قسط نمبر 02 | قسط نمبر 03
آدھی رات گزر چکی تھی، جب قریب کے ایک درخت پر بیٹھا ہوا ایک پرندہ بڑی زور سے پھڑپھڑایا۔شارینا کی آنکھ کھل گئی، اس کے قریب سوئے ہوئے حدید کے ہلکے ہلکے خراٹے بتا رہے تھے کہ وہ بہت گہری نیند سویا ہوا ہے۔شارینا نے ویسے ہی لیٹے لیٹے دیکھا، جہاں کیلاش نے بستر بچھایا تھا۔ان تینوں کو سویا ہوا ہونا چاہیے تھا لیکن کیلاش بیٹھا ہوا تھا اور ایک سپاہی اس کے دائیں اور دوسرا اس کے بائیں بیٹھا تھا اور کیلاش سرگوشیوں میں ان کے ساتھ کچھ بات کر رہا تھا۔شارینا کو ایک خیال یہ بھی آیا کہ وہ کیلاش کو جاکر دیکھے اور اس سے پوچھے کہ وہ ابھی تک کیوں جاگ رہا ہے، کیا زخم اسے سونے نہیں دے رہا ہے یا وہ درد محسوس کر رہا ہے۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور ذرا سی دیر کیلئے اس کے دل میں رحم کی لہر اٹھی ،زخموں کے معاملے میں وہ کیلاش کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی لیکن اسے خیال آیا کہ کیلاش کے پاس جا بیٹھے اور اس کا دھیان اپنی باتوں کی طرف کر کے اس کے ذہن سے زخموں کا خیال نکال دے، وہ اٹھنے ہی لگی تھی کہ اس کے دماغ میں ایک روشنی سی چمکی اور ایک شک ابھرا۔شک کیلاش کی نیت پہ تھا وہ یہ کہ کیلاش سپاہیوں سے کہہ رہا ہوگا کہ ایسے طریقے سے شارینا کو اٹھا لائیں کہ حدید کو پتہ نہ چل سکے ،مطلب یہ کہ کیلاش اسے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی سازش کررہا ہوگا۔ شارینا کی نیند اڑ گئی، وہ لیٹی رہی اور انہیں دیکھتی رہی ہے۔وہ سرگوشیوں میں کچھ کہہ رہا تھا اور دونوں سپاہی باربار شرینا اور حدید کی طرف دیکھتے تھے۔ شک اور پختہ ہوتا چلا گیا۔آخر دونوں سپاہی اٹھے اور شارینا اور حدید کی طرف آنے کے بجائے دوسری طرف چلے گئے ۔شارینا کچھ حیران ہونے لگی تھی ، یہ دونوں اس طرف کیوں جا رہے ہیں، اس نے یہ دیکھ لیا کہ دونوں کی تلواریں ان کے ہاتھ میں تھی دونوں ساتھ والی چھوٹی سی ٹیکری کے اوٹ میں ہو گئے۔ کیلاش لیٹ گیا ۔شارینا کچھ اور چوکس ہو گئی ۔ اسے کچھ اطمینان ہونے لگا کہ دونوں سپاہی کسی اور مقصد کے لئے اس طرف چلے گئے ہیں۔ لیکن یہ خیال بھی آیا کہ وہ اپنے گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کے لئے گئے ہوں گے۔ آدھی رات کے وقت اس جنگل میں ان کا اور کام ہی کیا ہو سکتا تھا۔اس وقت شارینا ایک پہلو پر لیٹی ادھر دیکھتی رہی تھی، اب اس نے کروٹ بدلنے کی ضرورت محسوس کی اور پیٹھ کے بل ہو گئی۔ اس وقت چاند آگے نکل گیا تھا درختوں کے سائے لمبے ہو گئے تھے۔ شارینا نے محسوس کیا کہ اس پر کوئی سایہ پڑ رہا ہے جو پہلے نہیں تھا ۔یہ دو سائے تھے ،جن میں سے ایک اس کے جسم پر اور دوسرا حدید کے جسم پر آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا ۔شارینا نے اپنا دماغ حاضر رکھا اور فوراً پیچھے نہ دیکھا۔ وہ جان گئی کہ دونوں سپاہی ان کے سروں کی طرف سے دبے پاؤں ان کی طرف آہستہ آہستہ آ رہے ہیں۔وہ دونوں عقل کے کورے معلوم ہوتے تھےکہ انہوں نے چاند کو نظر انداز کر دیا تھا، جو ان کی پیٹھ کی طرف تھا۔ انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ ابھی دور ہی تھے کہ ان کے سائے شارینا اور حدید پر پڑنے لگے تھے۔ شارینا پیٹھ کے بل پڑی رہی اور اس نے کروٹ نہ بدلی۔ آنکھیں بند کر لیں۔ وہ ڈری تو یقینا ہوگی لیکن زیادہ ڈر یہ تھا کہ وہ حدید پر وار نہ کر جائیں۔ اسے اپنا نہیں حدید کا زیادہ خیال تھا ۔شارینا کا دل بڑی تیزی سے دھڑکنے لگا۔حدید اور شارینا کے درمیان دو تین قدموں کا فاصلہ تھا۔ ایک سپاہی ان دونوں کے درمیان آ کھڑا ہوا۔ شارینا کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا اور اپنا چہرہ شارینا کے چہرے کے قریب لے گیا۔ شارینا نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور اب وہ اس طرح آواز پیدا کرکے سانسیں لینے لگی جیسے گہری نیند سوئی ہوئی ہو۔یہ سپاہی اٹھا، شارینا نے کنکھیوں سے دیکھا ۔دو سرا سپاہی حدید کے دوسرے پہلو کی طرف کھڑا تھا۔ شارینا نے دیکھا کہ دونوں نے تلوار ہاتھوں میں لے رکھی تھی۔ رات اتنی خاموش تھی کہ اپنے سانسوں کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ اسے ایک سپاہی کی سرگوشی سنائی دی۔ دیر نہ کر ۔اب تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں تھی دونوں سپاہی حدید کے پہلوؤں کے ساتھ لگے کھڑے تھے اور انکے منہ ایک دوسرے کی طرف تھے ۔یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ حدید کو قتل کرنے آئے تھے۔ کوئی وقت نہیں تھا ۔تلوار حدید کے پاس تھی، جو اس کے پہلو کے ساتھ رکھی تھی۔ شارینا کے پاس کنجر تھا ،جو اس نے اپنے کپڑوں کے نیچے اڑس رکھا تھا۔سپاہی جو شارینا اور حدید کے درمیان کھڑا تھا ، وہ جھکا۔ شارینا نے دیکھا، وہ حدید کی تلوار اٹھا رہا تھا ۔شارینا آہستہ آہستہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے کپڑوں کے اندر لے گئی، دوسرا سپاہی جو حدید کے پہلو کے ساتھ کھڑا تھا وہ شارینا کی اس حرکت کو نہ دیکھ سکا کیوں کہ اس کے سامنے اس کا ساتھی کھڑا تھا ۔جوں ہی یہ سپاہی حدید کی تلوار اٹھانے کے لیے جھکا شارینا بڑی تیزی سے اٹھی، خنجر نکالا اور جھکے ہوئے سپاہی کی پیٹ میں اس جگہ پوری طاقت سے اتار دیا جہاں دل ہوتا ہے ۔اس سپاہی نے سیدھا ہونے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے کہ وہ پیچھے کو دیکھتا ۔شارینا نے ایسا ہی ایک اور بھرپور اس کی پیٹھ پر کیا، حدید کی آنکھ ابھی تک نہیں کھلی تھی۔ سامنے والے سپاہی نے دیکھ لیا تھا کہ اس کے ساتھی کی پیٹھ پر دوبار خنجر اتر گیا ہے۔ وہ اتنی جلدی فیصلہ نہ کر سکا کہ شارینا پر تلوار کا وار کرےیا حدید کو پہلے قتل کر دے ۔شارینا کا دماغ زیادہ تیز تھا ۔جس سپاہی کو اس نے خنجر مارے تھے ۔وہ ذرا سا سیدھا ہوا اور ایک طرف کو گرنے لگا، لیکن گرنے سے پہلے ہی شارینا نے اس کے پیچھے اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور پوری طاقت سے اسے آگے کو دھکیلا، سپاہی سامنے والے سپاہی کے ساتھ ٹکرایا اور حدید کے اوپر گرا۔حدید ہڑبڑا کر اٹھا، زخمی سپاہی کی تلوار گر پڑی تھی۔ شارینا نے وہ تلوار اٹھا لی اور حدید کے اٹھنے سے پہلے آگے کو جست لگائی اور تلوار کا بھرپور وار سپاہی کے گردن پر کیا اور اس کی آدھی گردن کاٹ ڈالی۔ اتنے میں حدید پوری طرح بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔اسے تو کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ شارینا نے جس سپاہی کی گردن کاٹ دی تھی ،وہ ابھی گرا نہیں تھا۔ شارینا نے تلوار برچھی کی طرح ماری اور اس سپاہی کے پیٹ میں اتار دی ۔اور پھر زور سے پیچھے کو کھینچی ، دونوں سپاہی مر گئے ۔حدید نے شارینا سے پوچھا ،یہ کیا ہو گیا ہے ؟ ـــــــــ میرے ساتھ آؤ ،شارینا نے کیلاش کی طرف چلتے ہوئے کہا ـــــــــ اس سے پوچھتے ہیں۔
یہ ساری ورادات جیسے آنکھ جھپکتے ہوگئی ہو۔ شارینا اور حدید کیلاش کی طرف چل پڑے ۔کیلاش لیٹ گیا تھا ،لیکن اب بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے کھڑا تو ہوا ہی نہیں جاتا تھا، بدنیت انسان ـــــــــ شارینا نے کیلاش کے پہلو میں تلوار کی نوک چبھوتے ہوئے کہا ـــــــــ کیا تم مجھے اس طرح اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے ـــــــــ کیلاش منہ کھولے اور آنکھیں پھاڑے شارینا کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ جان گیا تھا کہ شارینا اب وہ لڑکی نہیں جس کے ساتھ اس نے محبت کی تھی بلکہ یہ لڑکی اب اس کے لیے سراپا موت بن گئی تھی۔
سچ بول ، شاید میں تجھے معاف کر دوںـــــــــ حدید نے کہاـــــــــ کیا تو نے مجھے قتل کروانا تھا ہم دونوں کو ، تیرا ارادہ کیا تھا؟ سچی بات بتادے ـــــــــ شارینا نے اب اس کے سینے میں تلوار کی نوک چبھوئی، مجھے بخش دو شارینا ـــــــــ کیلاش نے روتی ہوئی آواز سے کہا ـــــــــ میں نے تم سے محبت کی ہے اور تم کہیں بھی چلی جاؤ گی، میرے دل سے اپنی محبت نہیں نکال سکوں گی۔ میرے اس ساتھی سے بات کر، جس نے تجھ سے کچھ پوچھا ہے ؟ ـــــــــ شارینا نے ایک بار پھر تلوار کی نوک اسکے سینے میں چبھو کر کہا ـــــــــ اس کے سوال کا صحیح جواب دے ـــــــــ ابھی تیرے جسم سے جان نکل جائے گی تو تیرے مردہ دل سے میری محبت بھی غائب ہوجائے گی ،فورا بول تیرا ارادہ کیا تھا؟ ـــــــــ
حدید ـــــــــ شارینا نے کہا ـــــــــ اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، اس نے تمہیں قتل کروانا چاہا تھا، بری طرح ناکام رہا، تمہارا حق ہے کہ اسے ختم کر دو۔ میں تم دونوں سے التجا کرتا ہوں ـــــــــ کیلاش نے بھیکاریوں کے لہجے میں کہا ـــــــــ مجھے قتل کرنے کا گناہ اپنے سر کیوں لیتے ہو ،میں تو مر ہی رہا ہوں، مجھے اٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دو ،زندگی ہوئی تو منزل پر پہنچ جاؤں گا جو مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ یہی ہوگا کہ بھوکا پیاسا گھوڑے کی پیٹھ پر ہی مر جاؤں گا۔ نہ میں گھوڑے سے اتر سکتا ہوں، نہ چل سکتا ہوں اور اتر جاؤں بھی تو کسی کی مدد یا سہارے کے بغیر گھوڑے پر سوار نہیں ہوسکتا۔
حدید! ـــــــــ شارینا نے جھنجلا کر کہا ـــــــــ تم کیا سوچ کیا رہے ہو؟
اسے تو میں قتل کر دوں لیکن یہ تمہیں اپنا دشمن سمجھتا ہے اس لیے تم ہی اسے قتل کرو۔
میری ایک بات شاید تمہیں اچھی نہ لگے شارینا! ـــــــــ حدید نے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے کہا ـــــــــ جو مجھے قتل کرنے آئے تھے، انہیں تم نے قتل کردیا ہے ۔
میرا مذہب اس معذور شخص پر ہاتھ اٹھانے سے منع کرتا ہے، جو اپنے آپ کھڑا بھی نہیں ہو سکتا اور صرف معذوری کی وجہ سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہے، دوسری بات یہ کہ اس تمام تر خطے میں میری اور اس کی فوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں، اسی لئے تمام علاقہ میدان جنگ ہے۔ اگر یہ شخص مجھ سے لڑ رہا ہوتا اور میں اس کا مقابلہ کر رہا ہوتا تو میں قتل ہوجاتا یا اسےچھوڑتا ،لیکن یہاں معاملہ ذاتی ہو گیا ہے، اس نے مجھے تمہاری خاطر قتل کرنا چاہا تھا۔میں کسی اور مقصد کیلئے ایک عقیدہ دل میں بسائے میدان جنگ میں آیا تھا ۔اس مقصد اور اس عقیدے کے سامنے اس جیسے معذور آدمی کا قتل گناہ کبیرہ ہے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اور باقی رات کچھ اور آرام کرلیں صبح یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔
شارینا نے کچھ کہا تو نہیں لیکن اس کاچہرہ بتاتا تھا کہ اسے حدید کا یہ فیصلہ منظور نہیں۔ اس نے حدید کو گھور کر دیکھا ،اسے گھوڑے پر بٹھا دیتے ہیں۔ شارینا نے کہا ـــــــــ تم جاؤ ، اس کے گھوڑے پر زین ڈال کر گھوڑا یہاں لے آؤ۔ کیلاش نے شارینا کا شکریہ ادا کیا اور بھکاریوں کی طرح دعائیں بھی دی۔ گھوڑے کچھ دور ایک درخت کے ساتھ بندھے ہوئے تھے یہ تین گھوڑے کیلاش اور اس کے دونوں سپاہیوں کے تھے۔ حدید جا کر ایک گھوڑے پر زین ڈالنے لگا ۔ اس نے زین اچھی طرح کس کر باندھی اور گھوڑے کو کیلاش کے پاس لے آیا اس نے کیلاش کو دیکھا، وہ اب بیٹھا ہوا نہیں بلکہ ایک پہلو پر لیٹا ہوا تھا۔شفّاف چاندنی میں حدید کو کیلاش کا خون بہتا نظر آیا ،تب اس نے دیکھا کہ اس کا سر جسم سے کچھ الگ پڑا تھا لیکن گردن پوری طرح کٹی نہیں تھی۔ حدید نے شارینا کی طرف دیکھا ـــــــــ کیا اس لئے مجھے یہاں سے چلتا کیا تھا ؟ـــــــــ حدید نے شارینا سے پوچھا۔
اصول اور قاعدے وہاں چلا کرتے ہیں ،جہاں سامنا غیرت والے اور کردار والے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ شارینا نے کہا۔۔۔تم اپنے مذہب کے پابند ہو، مجھ پر کوئی پابندی نہیں، میں نے اس کی گردن کاٹ دی ہے ،میں نے اس کے ساتھ نیکی کی ہے کہ اسے قتل کردیا ہے۔ اگر ہم اس کی بات مان لیتے اور اسے گھوڑے پر بٹھا دے تو یہ بھوک اور پیاس سے آہستہ آہستہ اور اذیت ناک موت مرتا،اس کی سزا یہی ہونی چاہیے تھی ۔پھر اسے مارا کیوں؟ ـــــــــ حدید نے پوچھا؟ ـــــــــ تم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکے حدید! ـــــــــ شارینا نے کہا ـــــــــ اگر ہم اسے یہی زندہ چھوڑ جاتے یا اسے گھوڑے پر بٹھا کر رخصت کر دیتے تو یہ شخص ہمارے لئے بڑا خطرہ بن جاتا اسے لڑائی سے بھاگے ہوئے اپنے جیسے رومی فوجی مل سکتے تھے، یہ پہلا کام یہ کرتا کہ انہیں ہمارے پیچھے ڈال دیتا ۔اسے قتل کر دینا ہی ٹھیک تھا۔ دونوں اس جگہ گئے ،جہاں رومی سپاہیوں کی لاشیں پڑی تھیں انہوں نے وہ کمبل اٹھائے جن پر وہ سوئے تھے ،کچھ پرے جا کر کمبل بچھا کر لیٹے اور سو گئے۔ صبح ابھی دھندلی تھی، جب دونوں جاگ اٹھے اور کچھ کھا پی کر انہوں نے کیلاش اور اس کے سپاہیوں کے گھوڑے بھی اپنے پیچھے باندھ لئے اور چل پڑے۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ادھر رہاء میں ہرقل کے شاہی خاندان کے اتنے زیادہ افراد میں صرف ایک عورت تھی، جو شارینا کے لئے پریشان تھی ،وہ تھی اس کی ماں ۔وہ روتی اور آہیں بھرتی تھی، اسے اتنا یقین ضرور تھا کہ شارینا اغوا نہیں ہوئی اور قتل بھی نہیں ہوئی، وہ اپنی بیٹی کے خیالات اور جذبات کو سمجھتی تھی ۔وہ یہ بھی سمجھ گئی کہ شارینا کو یہ مسلمان قیدی اچھا لگا ہوگا اور اس سے رہا کروا کے اس کے ساتھ چلی گئی ہے۔ لیکن شارینا زندہ بھی تھی تو ماں کو تو نہیں مل سکتی تھی۔ ہرقل شارینا کا اگر باپ نہیں تھا تو اس کی ماں کا خاوند تو تھا لیکن اس نے ایسی بے رخی کا مظاہرہ کیا تھا جیسے شارینا کے ساتھ اس کا کسی بھی قسم کا تعلق نہیں تھا۔ ویسے بھی شارینا کی ماں ہرقل کے کام کی نہیں رہی تھی وہ اپنی نوجوانی اور جوانی ہرقل پر قربان کر چکی تھی۔ اس وقت شارینا ہرقل کے دل یا ذہن میں داخل ہو نہیں سکتی تھی ،کیونکہ ہرقل کے اعصاب اور سوچوں پر شکست غالب آگئی تھی ،اور وہ سوچ سوچ کر تھک گیا تھا کہ شکست کو اسی مرحلے پر کسی طرح روک لے اور پھر شکست کو فتح میں کس طرح تبدیل کرے، کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ شارینا کی ماں جب اس کی گمشدگی کی اطلاع ہرقل کو دینے گئی تھی تو ہرقل نے اسے ٹالنے کے لیے بے رخی کی تھی اس نے کچھ اس طرح کے الفاظ کہے تھے، کہ جانے والوں کا مجھے غم نہیں، میں آنے والوں کا انتظار کررہا ہوں، شارینا کی ماں یہ الفاظ سن کر ہرقل کے کمرے سے نکل گئی تھی۔وہ کون تھے جن کے متعلق ہرقل نے کہا تھا کہ وہ آنے والوں کا انتظار کررہا ہے۔ اس سوال کا جواب تاریخ میں موجود اور محفوظ ہے۔ مؤرخوں نے ہرقل کی اس وقت کی بے تابیاں اور خیالوں کے قلابازیاں قلمبند کر لی تھی، اور کچھ سینہ بسینہ آج کے دور تک پہنچی۔
یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہرقل کی اتنی کثیر فوج ہر میدان میں قلیل تعداد مجاہدین اسلام سے شکست کھاتی پسپا ہوتی چلی جا رہی تھی حتیٰ کہ پورا ملک شام خالی کر گئی۔ اور بحیرہ روم کے کناروں تک جا پہنچی ۔کچھ بڑے قلعہ بند شہر رومیوں کے پاس تھے ان میں قابل ذکر انطاکیہ، حلب، مرعش، بیروت ہیں۔ چند اور مقامات بھی تھے جو ابھی رومیوں کے ہاتھ میں تھے۔ ہرقل نے اپنی فوج ان مقامات پر تقسیم کردی اور حکم یہ دیا کہ اپنی فوج اکٹھی نہیں بلکہ بکھرے ہوئے ٹکڑوں کی صورت میں لڑے گی ۔اس کی یہ چال جیسا کہ پہلے سنایا گیا ہے یہ تھی کہ اس کے مطابق مسلمانوں کا لشکر بھی بٹ جائے گا اور جو پہلے ہی قلیل تعداد میں ہیں اور زیادہ قلیل ہو جائے گا۔ اب وہ خود رہاء میں جا پہنچا تھا اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ساری فوج کو ایک مقام پر اکٹھا کر لے اور پھر مسلمانوں کے لشکر کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں پر حملہ کرے۔ چال تو بڑی اچھی تھی لیکن اپنی فوج کو اکٹھا کرنا اس کے لیے دشوار ہو رہا تھا اس نے ان تمام مقامات پر پیغام بھیج دیا تھا کہ فوج رہاء میں آ کر اکٹھا ہوجائے۔ ابھی تک کوئی قاصد واپس نہیں آیا تھا یہ تھے وہ لوگ جن کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ آنے والوں کے انتظار میں ہے، اس نے چال تو بڑی اچھی سوچی تھی لیکن وہ بھول گیا تھا کہ مجاہدین اسلام کے سپہ سالار اور دیگر سالار بھی کچھ عقل رکھتے ہیں۔ اسے ابھی معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ عرب کے سپہ سالاروں نے اس کی یہ چال پہلے ہی بےکار کردی ہے۔ وہ اس طرح کے ہرقل نے اپنی فوج کو جن مقامات پر بکھیر دیا تھا۔ مجاہدین اسلام کے سپہ سالار نے اپنے لشکر کو اسی کے مطابق تقسیم کر کے ان مقامات کی طرف بھیج دیا تھا۔ ہرقل کی یہ چال یہاں تک تو کامیاب ہوئی کہ مسلمانوں کا لشکر اس کی سوچ کے مطابق بکھر گیا تھا، لیکن اسے ابھی یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ مسلمانوں کے بکھرے ہوئے لشکر نے رومی فوج کو ان مقامات پر روک لیا ہے، جہاں ہرقل نے اس کے ٹکڑے کر کے بھیجا تھا ۔ ہر مقام پر مسلمانوں نے رومی فوج کے راستے مسدود کردیئے۔
ان مقامات میں سب سے بڑا مقام انطالیہ تھا،ہرقل کو اپنے اس قلعہ بند شہر پر بڑا ہی ناز تھا ، ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس کا محل وقوع ہی ایسا تھا کہ اس کے مزید دفاع کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی ۔پھر بھی اس شہر کے چاروں طرف چوڑی اور انتہائی مضبوط اور بلند دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں، تاریخ میں لکھا ہے کہ ان دیواروں کی بلندی دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی تھی۔ وہ پہاڑی علاقہ تھا اور شہر ایسی جگہ آباد کیا گیا تھا کہ چاروں طرف پہاڑ تھے ۔یوں لگتا تھا جیسے اس شہر کو پہاڑوں نے آغوش میں لے رکھا ہے۔ شہر تک پہنچنے کے لئے اس پہاڑی علاقے کی بھول بھلیوں سے گزرنا پڑتا تھا مختصر یہ کہ انطاکیہ شام کا انتہا درجے کا مستحکم اور ناقابل تسخیر شہر تھا ،یہی وجہ تھی کہ ہرقل کے جو فوجی دستے مجاہدین اسلام کے نعروں اور تلواروں سے بچ نکلتے تھے وہ انطاکیہ کا رخ کرلیتے تھے، جس کے متعلق انہیں پورا یقین تھا کہ اسے مسلمان کسی طور پر فتح نہیں کر سکیں گے۔ اس طرح انطاکیہ میں اس تعداد سے کہیں زیادہ فوج اکٹھا ہوگئی تھی جو عام حالات میں وہاں رکھی جاتی۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے ،ان کے دست راست خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ تھے ۔ہم داستان تو کچھ اور سنا رہے ہیں لیکن تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے تو بے محل نہ ہوگا کہ ان کا تھوڑا سا ذکر ہو جائے۔قیصر روم کی فوجوں کے قدم ملک کے شام سے خالد بن ولید نے اکھاڑے تھے، اور یہ تاریخ اسلام کا ایک درخشندہ باب ہے، ابوعبیدہ خالد بن ولید کے ماتحت تھے لیکن رومی فوجوں کے قدم اکھڑ گئے اور ان کی فوج شہر خالی کرتی پیچھے ہی پیچھے ہٹنے لگی تو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنا کر خالد بن ولید کو ان کے ماتحت کر دیا۔ آج ہم احتساب، احتساب ،کے نعرے سنتے ہیں تو دھیان خلفائے راشدین کے دور کی طرف چلا جاتا ہے۔ جب احتساب کے اعلان نہیں کئے جاتے تھے، نہ احتساب کے بیان دیئے جاتے تھے ، اس وقت کسی بڑے حاکم کا احتساب ہو چکتا اور اسے سزا دی جاتی تو قوم کو پتہ چلتا تھا اور سب اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مزید چوکس ہو جاتے تھے، اور نظم و نسق اور سزا و جزاء کی بڑی واضح مثال خالد بن ولید کی ہے ۔مختصراً، یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ خالد بن ولید نے ایک شاعر کو دس ہزار درہم انعام دے دیا تھا ،اس کی اطلاع امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو مل گئی، انہوں نے اسی وقت قاصد بھیجا کہ خالد بن ولید کو باقاعدہ گرفتار کرکے مدینہ لایا جائے۔ وہ خالد بن ولید ہی تھے جن کی عسکری فہم و فراست اور بے مثال شجاعت کی بدولت آدھا ملک شام مجاہدین کے قبضے میں آ گیا تھا۔ اور رومی فوج یا کسی نہ کسی مقام پر جم کر لڑنے کے لیے یکجا اور منظم ہو رہی تھیں۔ جنگ ایسے عروج پر جا پہنچی تھی جہاں ذرا سی بھی کوتاہی یا کم فہمی سے پانسہ پلٹ سکتا تھا۔ جنگی امور کے غیر مسلم مبصر لکھتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں خالد بن ولید جیسے قابل جرنیل کو ذرا سی غلطی پر پیچھے بلا لینا بہت بڑی جنگی لغزش تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ قوم میں ڈسپلن قائم رکھنا چاہتے تھے، انہوں نے یہ خطرہ مول لے لیا کہ خالد بن ولید کو سپہ سالاری سے معزول کرکے مدینہ بلا لیا اور ان کی جگہ ابو عبیدہ کو سپہ سالار بنا دیا ۔ان کا موقف یہ تھا کہ آج ایک سپہ سالار نے خلاف دین حرکت کی ہے تو کل یہ بدعت نیچے کے درجوں تک آ جائے گی اور اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کی پھیلتی ہوئی سلطنت سکڑنے لگے گی۔ امیر المومنین نے خالد بن ولید سے کہا کہ تم وہ وقت بھول گئے ہو ،جب ہم لوگ بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کھاتے تھے اور آج تم نے ایک شاعر کو دس ہزار درہم انعام دے دیا ہے۔ اور انعام اس وجہ سے دیا ہے کہ اس نے تمہاری مدح میں شعر کہے ہیں۔ خالد بن ولید نے اپنی صفائی میں کہا کہ انہوں نے یہ رقم اپنی ذاتی جیب سے دی ہے۔ حضرت عمر نے کہا ـــــــــکہ تم نے اگر اپنی جیب سے یہ رقم دی ہے تو یہ اسراف یعنی بے فضول خرچی ہے اور اگر تم نے یہ رقم مال غنیمت میں سے دی ہے تو یہ بد دیانتی ہے ۔خالد بن ولید کے کردار کی عظمت دیکھئے کہ وہ اس قدر طاقت حاصل کرچکے تھے کہ واپس شام جاکر اپنے مفتوحہ علاقوں میں خودمختاری کا اعلان کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا سوچا ہی نہیں اور امیر المومنین نے انہیں معزولی کی جو سزا سنائی تھی وہ سرتسلیم خم کرکے قبول کرلی۔ امیرالمومنین کے حکم سے خالد بن ولید اپنے محاذ پر واپس چلے گئے مگر اب وہ اپنے لشکر کے سپہ سالار نہیں تھے بلکہ ابو عبیدہ کے صوابدید پر چھوڑ دیے گئے تھے کہ وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں۔ غیر ملکی تاریخ نویسوں اور مبصروں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات کا اصل باعث یہی تھا کہ ان میں ڈسپلن تھا، اور دیانتداری تھی، وہ خدا کے نام پر لڑتے تھے، اور خدا کے دکھائے ہوئے راستے پر ہی چلتے تھے، سزا و جزا اور عدل و انصاف کے معاملے میں کسی کا درجہ نہیں دیکھا جاتا تھا۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
انطاکیہ میں رومی فوج کی تعداد بے انداز ہو گئی تھی۔ اور شہر کا دفاع بھی غیرمعمولی طور پر مستحکم تھا ۔ادھر مجاہدین اسلام کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور جو تھی وہ بھی مسلسل پیش قدمی اور لڑائیوں کی وجہ سے تھکی ماندی تھی۔ان احوال و کوائف میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید اور دوسرے سالاروں سے مشورہ کرکے فیصلہ کر لیا کہ انطاکیہ کو محاصرے میں لے لیں گے ۔اور رومیوں کی اس فوج سے ہتھیار ڈلوالیں گے۔بظاہر یہ ممکن نہیں تھا لیکن ابو عبیدہ نے اپنے لشکر کو اکٹھا کرکے کہا کہ اس زہریلے ناگ کو اگر ہم نے سستانے کی ذرا سی بھی مہلت دے دی تو یہ تازہ دم ہوکر ایسا جوابی حملہ کرے گا کہ اپنی پسپائی
کو پیش قدمی میں بدل ڈالے گا۔
اسلام کے پاسبانو! ـــــــــ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر سے کہا ـــــــــ یہ نبیوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے۔ اس سرزمین پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوئی ہیں اور ہوتی رہے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اللہ کے اس پاک خطے سے ناپاک لوگوں کو بے دخل کر دیں، اُدھر تمہارے بھائیوں نے آتش پرستوں کا صفایا کردیا ہے ۔اِدھر ہم نے ابھی اپنا فرض پورا نہیں کیا ۔اپنے آپ سے پوچھو کیا اللہ کی بادشاہی اچھی ہے یا گنہگار انسانوں کے خاندان کی بادشاہی؟ ۔ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہم اللہ کی بادشاہی چاہتے ہیں۔ یہی ایک ذریعہ ہے جو انسان کو انسان کے غلامی سے نجات دلاسکتا ہے ۔یہ مت سوچو کہ یہ رومی عیسائی ہیں اس لئے یہ اہل کتاب ہیں ان لوگوں کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کے بالکل الٹ چلتے ہیں ۔ روم کا ایک شاہی خاندان ہے جو اللہ کے اس خطے کو اپنی بادشاہی میں شامل کیے ہوئے ہے۔
یہ اللہ کے دین کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ تم انہیں یہاں تک شکست پر شکست دیتے چلے آ رہے ہیں ،مگر اب وہ ایسی پناہ میں پہنچ گئے ہیں، جو بظاہر ناقابل تسخیر ہے ۔میں تمہیں اتنی خطرناک جنگی مہم میں جانے کا حکم نہیں دے سکتا، کیونکہ یہ مہم خون اور جانوں کے نذرانے مانگتی ہے ،آج تم یوں سمجھ لو اللہ تمہیں براہ راست حکم دے رہا ہے کہ ان پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دو، جنہوں نے دین الہی کے دشمنوں کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے۔
ابو عبیدہ نے اپنے اس تاریخی خطاب میں اور بھی بہت کچھ کہا تھا۔مجاہدین اسلام کو ایسے جذباتی خطاب کی ضرورت کم ہی محسوس ہوا کرتی تھی۔وہ ایمان کے پکے اور شمع رسالت کے صحیح معنوں میں پروانے تھے ۔ان کے دلوں میں کوئی شک نہیں تھا۔مجاہدین اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کے منتظر رہتے تھے۔ اور جانیں قربان کر دیا کرتے تھے ۔اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نہیں تھے، آپ دنیا سے اٹھ گئے تھے، لیکن ان پر آپ کی غیر حاضری کا یہ اثر ہوا کہ وہ پہلے سے زیادہ دین دار ہو گئے اور اسلامی تعلیمات کی پابندی پہلے سے زیادہ تندہی سے کرنے لگے تھے۔انطاکیہ پر حملے سے پہلے ابوعبیدہ اور خالد بن ولید نے ضروری سمجھا کہ مجاہدین کو بتا دیا جائے کہ اب ہم جو قلعہ سر کرنے جا رہے ہیں ،وہ ان قلعوں جیسا نہیں جو اب تک ہم سر کرتے آئے ہیں اب ہم پہاڑوں سے ٹکرانے جارہے ہیں۔یہ وجہ تھی کہ مجاہدین اسلام کو یاد دلانا پڑا کہ اللہ کے حکم سے اللہ کی خوشنودی کے لیے لڑ رہے ہیں، اور اب اللہ ان سے اور زیادہ قربانی مانگ رہا ہے ، مجاہدین زندگی اور موت کا معرکہ لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔اسی روز یا اس سے اگلے روز ابوعبیدہ اپنے خیمے میں بیٹھے سالاروں کے ساتھ صلاح مشورے کر رہے تھے اور انطاکیہ کو محاصرے میں لینے کی اسکیم تیار ہو رہی تھی کہ انہیں اطلاع دی گئی کہ اپنا ایک عہدے دار حدید بن مومن خزرج ، رومی فوج کی قید سے فرار ہو کر آیا ہے اور اس کے ساتھ ایک رومی لڑکی ہے۔دربان نے یہ بھی بتایا کہ یہ دونوں رہاء سے آئے ہیں ۔
ابو عبیدہ نے دونوں کو فوراً اندر بلا لیا۔حدید شارینا کے ساتھ خیمے میں داخل ہوا اور تمام سالاروں سے مصافحہ کیا۔
میری داستان سفر خاصی لمبی ہے ،حدید نے کہا ـــــــــ آپ کے پاس جب اتنی فرصت ہو گی مجھے بلا لیں، ابھی کچھ ضروری باتیں آپ کو بتانی ہیں، یہ سن لیں ۔سپہ سالار ابوعبیدہ ہی نہیں تمام سالار جو وہاں موجود تھے، حدید کو بڑی اچھی طرح جانتے تھے، حدید چھاپے اور شب خون مارنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔اس کام کیلئے دلیری اور جسمانی پھرتی کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے لیکن حاضر دماغی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔یہ سب خوبیاں حدید میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دشمن کے ٹھکانوں پر کسی نہ کسی طرح پہنچ کر وہاں سے جنگی نوعیت کی خبریں لے آنا حدید کا دوسرا کمال تھا۔ان اوصاف کے بدولت حدید تمام سالاروں میں مقبول تھا۔وہ قید ہونے والا مجاہد نہیں تھا لیکن شب خون ایسی غیرمعمولی دلیری سے مارتا تھا کہ دشمن کے پیٹ میں اتر جاتا تھا ۔ایسے ہی ایک مہم میں وہ پکڑا گیا تھا رومی افسروں نے جب اس کے ساتھ باتیں کیں تو انہوں نے محسوس کیا کہ یہ تو بڑا قیمتی آدمی ہے، اسے ہرقل تک پہنچایا گیا اور ہرقل اسے رہاء اپنے ساتھ لے گیا تھا کہ اسے کام کی باتیں معلوم کرے گا۔ہرقل تو بڑا ہی ظالم قصائی تھا لیکن حدید اور اس جیسے تین اور مسلمان قیدیوں پر اس نے ذرا سا بھی تشدد نہ کیا۔رکھا تو انہیں قید خانے میں ہی لیکن مہمانوں کی طرح، انہیں ہر طرح کی سہولت دی اور کھانا ویسا ہی دیا جاتا رہا جیسا مہمانوں کو دیا جاتا تھا ۔ یہ لڑکی کون ہے؟ ـــــــــ ابو عبیدہ نے پوچھا اور یہ تمہارے ساتھ کیوں آئی ہے؟ ـــــــــحدید نے تفصیلاً سنایا کہ ہرقل نے اسے کس طرح اپنے دربار میں بلایا کیا پوچھا اور اس نے یعنی حدید نے کیا کہا تھا اور پھر اس لڑکی نے اسے کس طرح رہا کروایا تھا۔شارینا کو بجا طور پر شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا وہ ایک تو شاہی خاندان کی لڑکی تھی اور دوسرے بہت ہی خوبصورت تھی اور اس کا دوسرا حصہ یہ سامنے آیا کہ وہ بے حد دلیر اور عقل مند لڑکی تھی ۔عین ممکن تھا کہ یہ تخریب کاری کے لئے آئی ہو۔
شارینا نے اپنے انہی خیالات جذبات اور احساسات کا اظہار کیا جو راستے میں حدید سے کر چکی تھی اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ شاہی خاندان کی لڑکی ہی نہیں اسے ایک قافلے سے اغوا کیا گیا تھا۔
ٹھہرو ذرا ـــــــــ سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا ـــــــــ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو ـــــــــ کیا ہرقل رہاء میں ہے؟ ـــــــــ ابو عبیدہ ان دونوں کی باتیں ایسے انہماک سے سن رہے تھے کہ انہوں نے پہلے توجہ ہی نہ دی کہ ہرقل رہاء میں ہے، انہیں اچانک خیال آیا تو شارینا کو ٹوک کر چپ کرادیا اور ہرقل متعلق پوچھا، حدید نے انہیں واضح الفاظ میں بتایا کہ ہرقل وہیں ہے۔ابو عبیدہ اور دوسرے سالار بھی یہ سن کر حیران ہوئے کہ ہرقل کو انطاکیہ میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ دور رہاء میں بیٹھا ہے۔یہ سن کر سالاروں کو خوشی ہوئی کہ ہرقل انطاکیہ میں نہیں۔تقریبا تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ ہرقل کو اپنی فوج کے ساتھ رہنا چاہیے تھا اور اس وقت اس کی فوج کا بیشتر حصہ انطاکیہ میں جمع ہو گیا تھا ،انطاکیہ ہی ایک مستحکم مقام تھا جہاں وہ مسلمانوں کا مقابلہ ایسے کارگر طریقے سے کر سکتا تھا کہ مسلمان انطاکیہ کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر ختم نہ ہوتے تو اتنے کمزور ضرور ہو جاتے کہ مایوس ہوکر پسپائی کا راستہ اختیار کرتے ،پھر ہرقل ان کے تعاقب میں جاکر انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کردیتا ۔مؤرخوں اور جنگی مبصروں نے لکھا ہے کہ ہرقل طاقتور بادشاہ اور بڑا ہی منجھا ہوا اور بڑا ہی تجربہ کار جرنیل تھا۔وہ جدھر کا رخ کر لیتا، ادھر فتح اس کے قدم چومتی تھی اور وہ ہر لڑائی میں فتح کی ہی توقع رکھتا تھا لیکن اہل اسلام نے اسے اتنی شکست دی کہ وہ ذہنی طور پر ماؤف سا ہو گیا ،انتہائی دشوار حالت میں مناسب اور موزوں فیصلہ کرلینا اس کا خصوصی کمال تھا لیکن اب اسے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کرے سوائے اس کے کہ وہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو رہاء میں اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ابوعبیدہ خالد بن ولید اور دوسرے سالاروں کے لیے یہ خبر حوصلہ افزا تھی کہ ہرقل انطاکیہ میں نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انطاکیہ میں جو جرنیل تھے وہ اوسط درجہ عسکری قابلیت کے مالک تھے۔ ابو عبیدہ اور خالد بن ولید بڑے ہی دور اندیش سالار تھے اور ان کی نگاہیں بہت دور تک اور بڑی گہرائی تک دیکھ سکتی تھی ۔ابو عبیدہ نے حدید سے پوچھا کہ ہرقل کی ذہنی اور جذباتی حالت کیسی ہے۔یہ مجھ سے پوچھیں ـــــــــ شارینا نے کہا ـــــــــ جس شخص نے اپنے ساتھ ایک شاہی نجومی اور ایک شاہی جوتشی رکھا ہوا ہے اور اپنے فیصلے ان کے زائچوں کے مطابق کرتا ہے اس کی ذہنی اور جذباتی حالت کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ،شارینا نے تفصیل سے سنایا کہ ہرقل نے کس طرح اپنے نجومی کو اپنے ہاتھوں قتل کردیا ہے، اور جوتشی نے اسے کھری کھری باتیں کہیں تو سب حیران رہ گئے کہ ہرقل نے اس کی جان نہ لی،پھر اس نے حدید کو بلا کر پوچھا کہ اسے اس کی خامیاں اور مسلمانوں کی خوبیاں بتائے۔شارینا نے یہ ساری باتیں سناکر کہا ـــــــــ ذہنی لحاظ سے ہرقل کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں ۔اور وہ شکست کو قبول کر چکا ہے اور اب بے بسی کی حالت میں
ہاتھ پاؤں مار رہا ہے شاید وہ کسی معجزے کی توقع رکھتا ہے۔
سپہ سالار ابوعبیدہ کے لیے ہرقل کی اس ذہنی حالت کی اطلاع بڑی قیمتی اور کارآمد تھی ۔حدید اور شارینا کا اس وقت وہاں پہنچ جانا جب سپہ سالار انطاکیہ پر حملہ حملے کا پلان بنا رھے رہے تھے۔ بظاہر اتفاقیہ بات تھی لیکن درحقیقت یہ اللہ کی مدد تھی کہ اس نے ان دونوں کو نہات ہی موزوں وقت پر ابو عبیدہ کے پاس بھیج دیا تھا۔ابو عبیدہ نے شارینا کو یہ پتہ نہ چلنے دیا کہ انہیں اس پر کچھ شک ہے اس کے ساتھ ابوعبیدہ بڑی شفقت سے پیش آیے اور اسے بتایا کہ سالاروں کی اور کچھ مجاہدین کی بیویاں اور بہنیں و غیرہ لشکر کے ساتھ ہیں، اسے ان عورتوں کے ساتھ رہنا پڑے گا ۔اسے یہ بھی بتایا کہ اس کی عزت کا اور ہر ضرورت کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا، شارینا کو مستورات کے خیموں میں بھیج دیا گیا اور حدید کو ابو عبیدہ نے اپنے ساتھ ہی رکھا ان اطلاعات کے مطابق سپہ سالار ابوعبیدہ نے انطاکیہ پر حملے کے منصوبے پر نظرثانی شروع کردی اس وقت وہ انطاکیہ کے قریب ہی کہیں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔سپہ سالار نے سالاروں کو بتایا کہ کل صبح انطاکیہ کی طرف پیش قدمی ہوگی۔
شب و روز گزرتے چلے جارہے تھے اور ہرقل کی بے چینی بڑھتی چلی جارہی تھی اسے جن کا انتظار تھا کہ وہ آئیں گے، ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا ۔وہ غصے سے باولا ہوا جا رہا تھا۔
سات آٹھ دن اور گزر گئے ہونگے کہ اسے اطلاع دی گئی کہ انطاکیہ سے اس کا ایک جرنیل راستین آیا ہے۔ہرقل اچھل کر اٹھا۔ یہ کہنے کے بجائے کہ اسے فوراً اندر بھیجو وہ خود دوڑتا باہر نکل گیا ،اس کے سامنے اس کا ایک جرنیل جس کا نام راستین تھا کھڑا تھا لیکن اس کی حالت ایسی ہو رہی تھی جیسے وہ کھڑا ہونے کے قابل نہیں ۔ہرقل کو دیکھ کر اس نے رومی انداز سے سلام کیا لیکن بڑی مشکل سے اس نے اپنا بازو اوپر اٹھائے۔اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا جیسے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ بچا ہو، کیا تم زخمی ہو راستین ـــــــــ ہرقل اس تک پہنچ کر دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھے اور پوچھا ـــــــــنہیں قیصر روم ـــــــــ راستین نے تھکی ماندی آواز میں جواب دیا ـــــــــ جسم پر کوئی زخم نہیں ،دل بری طرح زخمی ہے۔ہرقل نے دربان کو حکم دیا کہ راستین کو سہارا دے اور اندر لے جا کر بٹھا دے۔ وہاں محافظ دستے کی کچھ آدمی بھی موجود تھے۔ سب دوڑے آئے اور راستین کو سہارا دینے لگے لیکن اس نے ان کے ہاتھ جھٹک ڈالے اور ہرقل کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔وہ یوں چل رہا تھا جیسے اس کے ٹخنوں کے ساتھ وزن بندھا ہوا ہو وہ سر جھکائے قدم گھسیٹا کمرے میں گیا اور گرنے کے انداز سے بیٹھ گیا۔ ہرقل نے سب سے پہلے شراب پیش کی اور پھر دربان کو بلا کر کہا کہ کھانے کے لئے کچھ لے آئے ہرقل اسے چپ چاپ دیکھ رہا تھا، جیسے اس سے کچھ پوچھنے سے ڈر رہا ہو، یہ تو اس نے محسوس کر لیا تھا کہ راستین کوئی اچھی خبر نہیں لایا۔
قیصر روم ـــــــــ راستین نے شراب کے چند گھونٹ پی کر کہا ـــــــــ انطاکیہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ہرقل کا ردعمل یہ تھا کہ وہ منہ کھولے کچھ دیر راستین کے منہ کو دیکھتا رہا پیشتر اس کے کہ آپ اس شکست کے ذمہ داری مجھ پر یا میرے ساتھی جرنیلوں پر عائد کریں میری پوری بات سن لیں۔ راستین نے کہا ـــــــــ میں ان مسلمانوں کی بہادری کا قائل ہو گیا ہوں ان کی تعداد ہماری نسبت بہت ہی تھوڑی تھی اور ہماری فوج اتنی زیادہ تھیں کہ میں صحیح گنتی نہیں بتا سکتا کیونکہ ہر طرف سے ہماری فوج بھاگ بھاگ کر انطاکیہ آرہے تھے میں مان نہیں سکتا کہ مسلمانوں کو معلوم نہ تھا کہ انطاکیہ میں اتنی زیادہ فوج ہے اور انطاکیہ کی دیوار دفاعی لحاظ سے اس قدر مضبوط شہر ہے کہ اسے کوئی بیرونی حملہ آور سر نہیں کرسکتا مسلمانوں کو تمام احوال و کوائف معلوم تھے پھر بھی وہ حملے کے لئے آ رہے تھے۔کیا تم لوگوں نے میرے حکم پر عمل نہیں کیا تھا۔ ہرقل نے غصیلی آواز میں کہا ـــــــــ میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ مسلمان انطاکیہ کی طرف پیش قدمی کریں تو انہیں انطاکیہ تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے اور فوج کو باہر نکال کر ان پر حملہ کر دیا جائے اور پھر
پہاڑوں اور چٹانوں سے پورا فائدہ اٹھایا جائے۔
ہاں قیصرروم ـــــــــ راستین نے کہا ـــــــــ ہم نے آپ کے حکم پر ہی عمل کیا تھا جوں ہی ہمیں اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر انطاکیہ کی طرف آ رہا ہے تو ہم نے فوراً اپنی فوج کو تیار کیا اور اسے باہر لے آئے آپ کو معلوم ہے کہ پہاڑوں کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے ہم نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کرکے اس میدان میں کھڑا کردیا ۔ انطاکیہ کی طرف جانے کے لئے اسی میدان سے گزر کر جاتے ہیں اس کے اردگرد اونچی نیچی پہاڑیاں ہیں، مسلمان جب ہمارے سامنے اس میدان میں آئے تو ہم بہت خوش ہوئے کہ ان کی تعداد اس سے بہت ہی تھوڑی تھی جو ہم سمجھ رہے تھے میرے ساتھی جرنیلوں نے کہا کہ عربی مسلمان جاہل لوگ ہیں انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ انطاکیہ میں ہم نے کتنی فوج اکٹھا کر رکھی ہے۔ میں ذاتی طور پر انہیں جاہل نہیں سمجھتا تھا لیکن یہ خوشی ہوئی کہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر ہمارے سامنے آگئے ہیں ۔انہیں اسی میدان میں کچل دینا مشکل کام نہیں تھا۔ہم نے یہ چال چلی کہ درمیان والے دو دستوں کو حملے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اپنے دونوں پہلوؤں کے دستوں کو پیغام بھیجا کہ وہ دائیں اور بائیں سے مسلمانوں کے پیچھے چلے جائیں اور انہیں گھیرے میں لے لیں لیکن مسلمان ہمارے دستوں کا حملہ برداشت نہ کر سکے اور وہ لڑتے لڑتے پیچھے ہی پیچھے ہٹتے گئے ہم نے ان پر دباؤ اور زیادہ کر دیا اور ان کا پیچھا نہ چھوڑا ،پہاڑوں کے اندر چلے گئے اور ہمارے دستے ان کے سر پر سوار رہے مسلمان دراصل بھاگنے کی کوشش میں تھے۔جب ہمارے زیادہ سے زیادہ دستے پہاڑوں کے اندر چلے گئے تو ہم سمجھے کہ مسلمانوں نے ہمیں ایک جال میں پھانس لیا ہے، جس سے ہم آسانی سے نکل نہیں سکیں گے۔ انہوں نے چال یہ چلی تھی کہ تھوڑی تھوڑی نفری کے تین چار دستے ہمارے سامنے کیے اور پسپائی کا تاثر دیتے ہوئے وہ پیچھے ہٹے اور ہم نے زیادہ سے زیادہ فوج ان کے پیچھے پہاڑیوں میں بھیج دی اور نعرے لگوائے کہ ایک بھی مسلمان یہاں سے زندہ واپس نہ جائے۔ مسلمانوں نے پہاڑیوں کے ڈھلانوں پر اور گھنے درختوں پر تیر انداز اور پرچھیاں پھینکنے والے آدمی چڑھارکھے تھے۔ہمارے آگے پسپا ہونے والے دستے تو ادھر ادھر ہو گئے لیکن ہم پر تیروں اور پرچھیوں کا جو مینہ برس پڑا اس نے ہماری فوج میں سے کسی خوش قسمت کو ہی باہر نکلنے دیا ہوگا۔ہمارے کسی جرنیل نے گھبرا کر یہ احمقانہ کام کیا کہ باقی ماندہ فوج کو بھی مسلمانوں کے پیچھے پہاڑیوں کے اندر بھیج دیا ،ہم بڑی مشکل سے ان پہاڑیوں میں سے نکلے ہماری تنظیم اور ترتیب تباہ ہوچکی تھی اور سپاہی اپنے اپنے طور پر وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ہم یہ لڑائی ہار چکے تھے لیکن ہم انطاکیہ ان مسلمانوں کو کسی قیمت پر ہی نہیں دینا چاہتے تھے ۔ہم جتنے سپاہی اکٹھا کر سکے وہ کئے ۔تعداد تو بہت ہی تھوڑی رہ گئی تھی، جانی نقصان بے پناہ ہوا اور شدید زخمیوں کی تعداد اور بھی زیادہ تھی بہرحال ہم جتنے صحیح اور سلامت سپاہی اکٹھا کر سکے انہیں لے کر انطاکیہ کی طرف چل پڑے ۔جب ہم قلعے کے دروازے پر پہنچے تو تمام دروازے اندر سے بند تھے ۔ بہت شور شرابہ کیا کہ دروازے کھول دو لیکن دیواروں کے اوپر سے ہم پر تیروں کی بوچھاڑ آنے لگی تب پتہ چلا کہ مسلمان شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور دروازہ انہوں نے بند کئے ہیں۔
تو کیا انطاکیہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے ـــــــــ ہرقل نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا ـــــــــ اور راستین کے جواب کا انتظار کیے بغیر بولا ـــــــــ یہی تو ایک مضبوط قلعہ ہمارے پاس رہ گیا تھا۔ یہ تمہاری نالائقی کا نتیجہ ہے ،تم سب بزدل ہو گئے ہو، میرے دو ساتھی جرنیل مارے گئے ہیں اور تیسرا شدید زخمی ہوگیا ہے راستین نے کہا ـــــــــ میں جانتا تھا آپ شکست کا الزام ہمارے ہی منہ پر تھوپیں گے۔ میں نے پہلے ہی عرض کی ہے کہ میری پوری بات سن لیں ،میں بھی جانتا ہوں کہ آپ کا قہر اور عذاب مجھ پر کس طرح گرے گا لیکن میں شکست کی جو وجوہات ہیں، وہ ضرور بتاؤں گا، آپ کے حکم سے ہم نے شہر سے باہر آکر مسلمانوں کو روکا ۔آپ کہتے تھے کہ مسلمان انطاکیہ کا محاصرہ نہ کرسکیں۔ کیونکہ محاصرہ ہوگیا تو انطاکیہ کی ساری فوج اندر ہی بند ہوجائے گی اور نہ جانے محاصرے میں کتنا عرصہ گزر جائے۔آپ نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں، اتنے مضبوط قلعے سے باہر آ کر لڑنا ہماری حماقت تھی اور اس کی ہمیں بڑی سخت سزا ملی ہے ـــــــــ قیصر روم! ۔۔۔ایک اور پہلو بھی ہے جسے ہم ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے ،اس کا تعلق شہری لوگوں کے ساتھ ہے ۔آپ نے ان پر اس قدر زیادہ ٹیکس اور دیگر محصولات عائد کردئے تھے، جو لوگوں کی برداشت سے باہر ہو گئے تھے، پھر آپ نے مذہب میں بھی دخل اندازی کی ،اتنا بڑا ملک ہماری سلطنت میں سے نکل گیا ہے، میں جانتا ہوں کہ آپ کو اس کا کتنا زیادہ صدمہ ہوگا۔ میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ کو ان وجوہات سے آگاہ اور خبردار کردوں جنہوں نے آج یہ روز بد دکھایا ہے ۔ایک تو یہ ٹیکس وغیرہ تھے ،جن سے لوگوں میں یہ بات پھیلی کہ بادشاہ اور اس کے جرنیل اور سارے کا سارا شاہی خاندان لوگوں کو بھوکا رکھ کر اپنی عیاشی کے اخراجات پورے کر رہا ہے، یہاں کے مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی دولت روم جا رہی ہے، اس کے ساتھ ہی میں نے خود دیکھا ہے کہ روم کے جو شہری یہاں بسلسلہ کاروبار یا سرکاری عمال بن کر آئے ہیں وہ اپنے آپ کو یہاں کے لوگوں کے بادشاہ سمجھتے ہیں۔میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں ـــــــــ ہرقل نے جھنجلا کر کہا ـــــــــ تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تمہیں شہریوں سے کوئی تعاون نہیں ملا، نہ کوئی مدد ملی ہے ، بات جلدی کرو، لمبی لمبی باتوں کا وقت نہیں، ہمیں سوچنا ہے ،اب کیا ہوگا اور ہم کیا کریں ـــــــــ صرف یہ بات نہیں کہ شہریوں سے ہمیں مدد نہ ملی ـــــــــ راستین نے کہا ـــــــــ شہری ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اگر ہم محاصرے میں لڑتے تو یہ شہری باغی ہو کر شہر کے دروازے کھول دیتے ۔میں تو شہر کے باہر ہی تھا،اندر جانے کا موقع نہ ملا تو ادھر کا رخ کرلیا ۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ انطاکیہ کے لوگوں نے مسلمانوں کا استقبال پرتپاک سے کیا ہوگا، حالانکہ ان میں مسلمان کوئی بھی نہیں ،سب ہمارے ہم مذہب ہیں۔مجھے صرف ایک اور موقع مل جانے دو ـــــــــ ہرقل نے کہا ـــــــــ یہ لوگ ٹیکسوں کی اور شاہی خاندان کی عیاشیوں کی باتیں کرتے ہیں میں ان کی رگوں سے خون بھی نچوڑ لوں گا۔
شہنشاہ روم ـــــــــ راستین نے کہا ـــــــــ اگر آپ آج میری رگوں میں سے بھی خون نچوڑ لیں اور مجھے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا کر باہر پھینک دیں تو بھی میں وہ بات کہنے سے گریز نہیں کروں گا ،جو کوئی آدمی اپنے بادشاہ کے منہ پر کہنے کی جرات نہیں کیا کرتا ۔بادشاہوں کے حضور ان کی تعریفیں کی جاتی ہیں تاکہ وہ خوش رہیں اور انعام و اکرام سے نوازتے رہیں، مجھ سے آپ خوش نہ ہوں، ناراض ہو جائیں لیکن میں آپ کا ایک جرنیل ہوں آپ نے مجھے بڑی اونچی حیثیت بھی دی ہےاور اجرت بھی دل کھول کر دی ہے ۔میرا فرض ہے سلطنت روم کی حفاظت اور پھیلاؤ لیکن میں شکست کھا کر آ گیا ہوں ۔میں اس میں اپنی ذاتی بے عزتی سمجھتا ہوں۔ مجھے آپ کی عظمت بھی عزیز ہے ۔میں نمک حرامی کروں گا اگر میں حقیقت پر پردہ ڈال کر آپ کو خوبصورت تصورات میں الجھادوں۔
کیا تم اصل بات فورا نہیں کرسکتے؟ ـــــــــ ہرقل نے قہر بھری آواز میں کہا ـــــــــ اصل بات سن لیں ـــــــــ راستن نے کہا ـــــــــ دشمن کو اس لئے برا نہ کہو کہ وہ دشمن ہے دشمن نے ہم پر فتح حاصل کی ہے اور اس کی پیش قدمی اور ہماری پسپائی جاری ہے، دیکھو اور غور کرو کہ دشمن میں وہ کون سی طاقت ہے اور ہم اس طاقت سے محروم کیوں ہو گئے ہیں ـــــــــ ہم لوگوں کی رگوں سے خون نچوڑ لینے کے ارادے باندھ دیتے ہیں، مگر ہمارا دشمن اپنے ساتھ ایک نظریہ اور ایک عقیدہ لایا ہے جو لوگوں کی رگوں میں خون ڈالتا ہے ، چھوڑتا نہیں ، ہمارے دشمن کا عقیدہ انسان کو انسانیت کا مقام دینا ہے۔
تو کیا ہم بھی اسلام قبول کر لیں؟ ـــــــــ ہرقل نے طنز بھرے لہجے میں کہا ـــــــــ کیا تم اسلام کو عیسائیت سے افضل سمجھتے ہو؟ ــــــــ سلطنت روم کے بادشاہ! ـــــــــ راستین نے کہا ـــــــــ یہاں سوال یہ نہیں کہ افضل اسلام ہے یا عیسائیت ،اصل سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جو انسانیت کو پوری تکریم اور تعظیم دیتا ہے۔ اس وقت صرف مسلمان ہے جو انسان کو وہ انسان سمجھتے ہیں، جو خدا نے پیدا کیا تھا۔ عملا یوں ہوا کہ شام کے ایک شہر سے لوگ اگلے شہر پہنچتے ہیں تو وہاں کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی اطاعت فوراً قبول کر لینا کیونکہ وہ انسان کو انسانیت کے پورے حقوق دیتے ہیں اور وہ رومیوں جیسے بادشاہ نہیں ،لوگ یہ بھی مشہور کرتے ہیں اور یہ ہے بھی صحیح کے مسلمان فوج جس بستی اور شہر کو فتح کرتی ہیں وہاں لوٹ مار نہیں کرتی نہ وہ کسی عورت پر ہاتھ اٹھاتی ہے۔قیصر روم ـــــــــ مسلمانوں نے ہر اس بستی میں لوگوں کے ساتھ ایسا ہی باعزت سلوک کیا اور لوگوں نے انہیں دل و جان سے قبول کیا، ہم جہاں جاتے ہیں سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کے گھروں سے دولت اور خوبصورت لڑکیاں سمیٹتے ہیں اور کچھ شاہی محل میں پہنچاتے اور کچھ اپنی ملکیت میں رکھ لیتے ہیں ۔انطاکیہ میں میرے مخبر مجھے بتاتے رہتے تھے کہ یہاں کے لوگ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ پسند کرتے ہیں بلکہ ان کے انتظار میں ہیں۔ ہماری شکست کی اصل وجہ یہ ہے۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ہرقل نے اپنے ایک ہارے ہوئے محاذ سے بھاگے ہوئے جرنیل کی پوری بات سن تو لی لیکن اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار نہ کیا، اس پر خاموشی سی طاری ہو گئی تھی لیکن اس کے چہرے کے تاثرات، اور اٹھنا، کمرے میں ٹہلنا، پھر بیٹھ جانا ،اور پھر اٹھ کر ٹہلنے لگنا ،ایسی علامت تھی جو اس بے چینی اور بے قراری کا پتہ دیتی تھی، جو اس کے اندر بپا تھی اس سے توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ اسلامی اصولوں کی عظمت اور افادیت پر غور کرے گا اور اپنا رویہ بدلنے کی کوشش کرے گا۔چوں کہ یہ داستان فتح مصر کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے ہم انطاکیہ کی فتح کا مزید ذکر نہیں کریں گے۔ البتہ اتنی سی بات ضروری معلوم ہوتی ہے کہ انطاکیہ کی فتح اسلام کے نظریے اور دین کے اصولوں کی فتح تھی۔ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے شہریوں پر جزیہ عائد کردیا اور باقی تمام ٹیکس اور محصولات ختم کردیئے شہر میں بعض لوگ کٹر عیسائی تھے انہوں نے روم کی بادشاہی کو تو قبول کیا ہی نہیں تھا ،انہوں نے درپردہ لوگوں کو اکسانا شروع کردیا کہ وہ مسلمان فاتحین کو جزیہ نہ دیں اور خود مختار ہو جائیں ،کچھ لوگ ان کی باتوں میں آ گئے اور جزیہ دینے سے انکار کردیا ابوعبیدہ کے حکم سے ایسے لوگوں کو شہر بدر کر دیا گیا۔مسلمان فاتحین کے سامنے صرف یہ کام نہیں تھا کہ وہ مفتوحہ شہروں کا نظم و نسق درست کرنے بیٹھ جاتے ۔سالاروں کے سامنے اصل کام یہ تھا کہ پسپا ہوتی ہوئی رومی فوج کو کہیں بھی اکٹھا نہ ہونے دیا جائے ۔جاسوسوں نے اطلاع دی کہ انطاکیہ سے بھاگی ہوئی رومی فوج حلب کے مقام پر اکٹھا ہو رہی ہے۔ ابو عبیدہ نے کچھ لشکر اپنے ساتھ لیا اور روانہ ہوگئے، خالد بن ولید کو انھوں نے ایک اور سمت بھیج دیا جہاں رومی فوج تازہ دم ہونے کے لیے رک گئی تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ابوعبیدہ حلب پہنچے تو انطاکیہ سے ایک قاصد یہ پیغام لے کر ان تک پہنچا کہ انطاکیہ کے لوگوں نے نافرمانی شروع کردی ہے اور صورت بغاوت والی پیدا ہوتی جارہی ہے ۔
ابو عبیدہ نے ایک نائب سالار عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ بغاوت پر قابو پائے لیکن یہ احتیاط کریں کہ کسی پر بلا وجہ اور غیر ضروری تشدد اور زیادتی نہ ہو۔اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہ نے ایک پیغام مدینہ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بھیجا، جس میں انہوں نے ایک تو انطاکیہ کی فتح کی خوشخبری سنائیں اور ساتھ یہ اطلاع دی کہ انطاکیہ کے لوگوں نے جزیہ کے معاملے میں بغاوت کردی ہے۔امیرالمومنین نے یہ پیغام ملتے ہی جواب بھیجا، جس میں انھوں نے لکھا کہ لوگوں کو ہر وہ سہولت دو ،جو ان کا حق ہے، اگر کچھ لوگوں کے وظیفے مقرر کیے ہیں تو وہ انہیں بروقت ادا کیے جائیں، انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شہر میں مجاہدین کے دو تین دستے موجود رہیں اور وہ نظم ونسق برقرار رکھیں، تا کہ لوگوں کو یہ تاثر نہ ملے کہ مسلمانوں کے پاس اتنی فوج ہے ہی نہیں کہ وہ مفتوحہ آبادیوں کو اپنے قابو میں رکھ سکیں۔تدبر اور ہوش مندی سے اس بغاوت پر قابو پالیا گیا ،بغاوت تو کچھ اور علاقوں میں بھی ہوئی تھی ان سب پر قابو پالیا گیا تھا۔ ہم یہاں تفصیلات میں نہیں جا رہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہرقل کس انجام کو پہنچا اور اسے اس انجام تک کس طرح پہنچایا گیا۔ پھر ہم یہ بیان کر رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ہرقل کی اس چال کو اس طرح بے کار کیا کہ اس نے اپنی فوج کو مختلف مقامات پر تقسیم کردیا تھا ۔ اسے توقع تھی کہ مسلمان بھی اس کے مطابق تقسیم ہو جائیں گے لیکن اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کو اللہ کی مدد اور رہنمائی حاصل تھی۔ ورنہ اتنی قلیل تعداد کو اتنے زیادہ حصوں میں بانٹ دینا مسلمانوں کے لئے بڑا ہی تباہ کن اقدام ہوتا۔ہرقل کا جرنیل راستین اسے انطاکیہ کی صحیح صورت حال بتا کر اور شکست کی وجوہات واضح کرکے پھر محاذ پر چلا گیا تھا۔ہرقل اب دوسرے مقامات سے آنے والے قاصدوں کا انتظار کرنے لگا، لیکن کہیں سے کوئی قاصد نہیں آ رہا تھا ۔اس کی زندگی اب سراپا انتظار بن کے رہ گئی تھی، یہ تمام مقامات سرحدی تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روم کی فوج تمام تر شام سے نکل گئی ہے اور اب سرحد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے ۔معروف تاریخ دان الفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ ہرقل مایوسیوں میں ڈوب گیا تھا ،اور اپنے مشیروں اور مصائبو ں کے ساتھ جو باتیں کرتا تھا، ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے اس حقیقت کو قبول کرلیا تھا کہ اس کی شہنشاہی کا ستارہ جو شام پر چمکتا ہی رہتا تھا ،ٹوٹ کر شام کے افق میں ہی کہیں گم ہو گیا ہے۔آخر ایک روز حلب سے اس کی فوج کا ایک افسر آیا، جو کچھ زخمی بھی تھا، اس نے ہرقل کو ایسی ہی کہانی سنائی جیسی راستین انطاکیہ کی سنا چکا تھا۔ اس نے سنایا کہ اب بچی کچھی فوج ادھر ادھر سے حلب آ رہی تھی کہ مسلمانوں کا مختصر سا لشکر آن پہنچا ، رومیوں پر مسلمانوں کی ایسی دہشت طاری تھی کہ وہ جم کر لڑ ہی نہ سکے۔ وہاں کے لوگوں کا رویہ کیا تھا؟ ـــــــــ ہرقل نے پوچھا ـــــــــ ہمارے حق میں اچھا نہیں تھا اس افسر نے جواب دیا ـــــــــ مجھے شک ہے کہ بعض لوگوں نے مسلمانوں کی کسی نہ کسی طرح مدد بھی کی تھی ۔ہمارے خلاف وہ مخبری تو ضرور ہی کرتے رہے۔کیا اس کی کوئی وجہ بتا سکتے ہو؟ ـــــــــ ہرقل نے پوچھا ـــــــــراستین جرنیل تھا اس لیے اس نے ہرقل کو بڑے صاف الفاظ میں جرات کے ساتھ وجہ بتا دی تھی، لیکن یہ رومی معمولی سا افسر تھا اس لیے اس نے سچ بولنے کی جرات نہیں کی، ہرقل نے پھر اپنا سوال دہرایا تو افسر بے چین سا ہو گیا اور ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔ ہرقل نے اسے کہا کہ وہ ڈرے جھجکے بغیر وجہ بتا دیے تاکہ آئندہ ایسی وجہ پیدا نہ ہونے دی جائے۔
شہنشاہ معظم! ـــــــــ افسر آخر بولا ـــــــــ ہماری شکست کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میدان جنگ میں لڑنے، زخمی ہونے اور اپنی جان قربان کرنے والا افسر اتنی جرات نہیں رکھتا کہ اپنےشہنشاہ کے آگے سچ بول سکے ،آپ نے مجھے سچ بولنے کا حکم دیا ہے میں چند الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں ،ہمیں بادشاہ کی نہیں بندے کی حکمرانی چاہیے ،ہم نے سنا ہے مسلمان ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس میں کسی کی بادشاہی کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی بلکہ وہ خود کسی بندے کو حکمران بنا لیتے ہیں اور رعایا کا پیٹ کاٹتے نہیں بلکہ پیٹ بھرتے ہیں۔ ہرقل نے سر جھکالیا جیسے وہ بات کی تہ تک پہنچ گیا ہو، ہرقل سر جھکا لینے والا بادشاہ نہیں تھا۔ اب جو اس کا سر جھکتا تھا اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے شکست تسلیم کرلی ہے۔ایک دو دن ہی اور گزرے تھے کہ ایک اورمقام مرعش سے ایک رومی قاصد آ گیا۔ ہرقل نے اپنی فوج کا کچھ حصہ اس قلعہ بند اور بڑے مضبوط مقام پر بھیج دیا تھا۔ قاصد نے بتایا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر آیا اور مرعش کو محاصرے میں لینے لگا، لیکن وہاں کے جرنیل نے فوج کو حکم دیا کہ یہ بہت ہی کم تعداد لشکر ہے، اسے محاصرہ نہ کرنے دیا جائے ،بلکہ باہر نکل کر اسے گھیرے میں لے کر ختم کیا جائے، اس حکم کے تحت فوج باہر نکلی تو مسلمانوں نے ایسی چال چلی کہ وہ لڑتے لڑتے پیچھے بھی ہٹنے لگے اور دائیں بائیں پھیلنے بھی لگے پھر یوں ہوا کہ اس لشکر کو گھیرے میں لینے کے بجائے لشکر نے اپنے دونوں پہلو پھیلا کر رومی فوج کو گھیرے میں لے لیا اور جو مسلمان رومی فوج کے عقب میں چلے گئے تھے وہ قلعے میں داخل ہوگئے۔ قاصد نے بتایا کہ رومی فوج پیچھے ہٹنے لگی تو قلعے کے دیواروں سے اس پر تیر اور برچھیاں برسنے لگی، نفسا نفسی کا عالم طاری ہوا کہ رومی نہ باہر لڑنے کے قابل رہے نہ قلعے میں داخل ہو سکے جانی نقصان بےانداز ہوا ،اور زخمیوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی، اور وہی زندہ رہے جو اس معرکے سے نکل گئے تھے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے مرعش پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور رومی فوج کی جو نفری وہاں موجود تھی اسے تباہ وبرباد کردیا۔اس کے بعد رہاء میں ہرقل کو یہ اطلاع ملی کہ بیروت پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔اور اس تمام سرحدی علاقے سے مسلمانوں نے رومی فوج کو بے دخل کردیا ہے۔ اس سرحدی علاقے میں شام کے دفاع کیلئے کئی ایک قلعے بنائے گئے تھے ان سب پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔یہ تھے یزید بن ابی سفیان، جو اس وقت دمشق میں تھے سپہ سالار ابوعبیدہ کا حکم پہنچا تو وہ دمشق سے نکلے اور بیروت جاپہنچے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے یہ کارنامے معجزوں سے کم نہ تھے بیروت اور اس کے ملحقہ علاقوں پر قبضہ ہوجانے کا مطلب یہ تھا کہ سمندر کی طرف سے رومیوں کو کوئی مدد اور کوئی کمک نہیں مل سکتی تھی ۔اس وقت مصر پر رومیوں کی ہی حکومت تھی ہرقل مصر سے کمک مانگوا سکتا تھا لیکن مسلمانوں نے راستے مسدود کردیئے تھے۔ہرقل تو بڑا کایاں اور منجھا ہوا جرنیل تھا، لیکن اس نے مسلمانوں کے لشکر کو بکھیرنے کے لئے جو چال چلی تھی اس سے مسلمان سالاروں نے فائدہ اٹھا لیا اور اس کی فوج کو خون میں نہلا کر بچ جانے والے رومیوں کو تتربتر کردیا ۔ ہرقل اللہ کے اس قانون سے واقف نہیں تھا کہ اللہ جسے چاہتا ہے اسے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ذلت میں پھینک دیتا ہے، لیکن اللہ کسی کو بلاوجہ عزت اور کسی کو ویسے ہی ذلت نہیں دے دیا کرتا، اس کی کچھ شرائط بھی اللہ نے مقرر کی ہے اللہ انہیں ہی چاہتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہتے ہیں اور اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ہرقل نے اپنے مشیروں اور مصاحبوں کو بلایا اور انہیں صورتحال بتا کر کہا کہ وہ مشورہ دیں کہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو کہاں یکجا کیا جائے، اور کیا فوج یکجا ہو جائے تو یہ لڑنے کے قابل ہوگی؟ ایک مشیر فوراً بول اٹھا اس نے سب سے پہلے ہرقل کی مداح سرائی کی پھر مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور پھر اس قسم کے الفاظ کہے کہ روم کی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔اٹھو ـــــــــ ہرقل نے اس مشیر سے کہا ـــــــــ باہر نکل جاؤ پھر مجھے کہیں نظر نہ آنا۔ ہرقل دوسرے مشیروں سے مخاطب ہوا مجھے صحیح مشورہ چاہیے صورتحال تم سب کے سامنے ہے۔
مشیروں اور مصائبوں پر خاموشی طاری ہوگئی جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ تھے، یا مر ہی گئے تھے، ہرقل انہیں دیکھتا رہا سب کو غالبا توقع تھی کہ ہرقل گرج کر بولے گا اور حکم دے گا کہ اسے صحیح مشورہ دیا جائے ان میں سے کوئی بھی سچ بات کہنے کی جرات نہیں رکھتا تھا ،غالبا ہرقل نے محسوس کرلیا کہ یہ لوگ کسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہیں اسے شاید یہ احساس بھی ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کو مدح سرائی اور خوشامد کا عادی اس نے خود بنایا ہے۔ اس کے سامنے بڑی ہی تلخ اور اذیت ناک حقیقت آ گئی تھی جو اسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ سچ کا سامنا کریں۔ ہم اب کہیں بھی نہیں لڑسکتے ـــــــــ ہرقل نے خود ہی فیصلہ سنا کر مشیروں کو ذہنی اذیت سے نکالا ـــــــــ ایک ہی صورت رہ گئی ہے، وہ یہ کہ ہم شام سے نکل جائیں اور مصر جا کر فوج کو منظم اور تیار کریں اور پھر شام پر حملہ آور ہوں۔ ہم پہلے اس تجربے سے گزر چکے ہیں ـــــــــ ایک بوڑھے مشیر نے کہا ـــــــــ ایرانیوں نے ہم سے صرف شام ہی نہیں ،مصر بھی چھین لیا تھا آپ اس وقت بادشاہ نہیں تھے، خود مختار نہیں تھے لیکن آپ نے بادشاہ کو بے اختیار کر کے سلطنت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے فوج کو تیار کیا، اور جب مصر اور شام پر حملہ کیا تو ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر دونوں ملکوں سے نکال دیا تھا۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ملک شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے، مصر تو ہمارے پاس ہے فیصلہ بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں سے نکل چلیں۔اس کے بعد تمام مشیر باری باری بولنے لگے اور سب نے اسی فیصلے کی تائید کی کہ شام سے نکل جانا چاہیے اگر ہم اس توقع پر فوج کو لڑاتے رہے کہ مسلمانوں کو ایک زوردار حملے سے پسپا کر دیں گے تو حاصل کچھ بھی نہ ہوگا سوائے اس کے کہ جو فوج بچ گئی ہے وہ بھی کٹ جائے گی۔ ہرقل نے حکم جاری کر دیا کہ وہ قسطنطنیہ جانا چاہتا ہے ،اور جتنی جلدی ہوسکے روانگی کی تیاری شروع کر دی جائے، اس وقت قسطنطنیہ بھی رومیوں کی سلطنت کا ایک بڑا شہر تھا، اور جنگ سے محفوظ ۔ہرقل کو اب وہی پناہ گاہ نظر آئی تھی اس کے کوچ کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی۔ ہرقل تو اس دور کی سب سے بڑی اور ہیبت ناک جنگی طاقت کا سب سے بڑا جرنیل اور بادشاہ تھا۔ اس کے غرور اور تکبر نے اور انسانوں پر اس کے ظلم و تشدد نے اسے یہ روز عبرت دکھایا۔ جب اس کی ہیبت ناک جنگی طاقت ڈرے سہمے ہوئے سپاہیوں کی صورت میں بکھر گئی تھی، اس کے نامور جرنیل مارے گئے تھے، ہر طرف اور ہر جگہ اس کے فوجیوں کی گلتی سڑتی ہوئی لاشیں بکھری ہوئی تھیں، اور زخمی فوجی اپنے آپ کو گھسیٹتے تھے، اس فوج کا سب سے بڑا جرنیل اور بادشاہ مجسم حسرت و یاس بنے اس منزل کو روانہ ہو رہا تھا جسے وہ سب سے زیادہ محفوظ پناہ سمجھتا تھا لیکن یقین نہیں تھا کہ اس منزل تک خیریت سے پہنچ بھی سکے گا یا نہیں؟
تاریخ میں صرف وہ واقعات ملتے ہیں جو عینی شاہدوں کے حوالے سے کبھی قلمبند کئے گئے تھے، ان واقعات میں انسان چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے ایک دوسرے کا خون بہاتے اور روئے زمین پر اچھی بری حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔کسی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ فلاں صورتحال میں فلاں کے دل میں کیا تھا اور اس کے اندر کا کیسے طوفان بپا ہو رہے تھے ،کسی نے لکھا بھی تو یہ قیاس آرائی تھی یا قافیہ شناسی ۔ہرقل کے متعلق متعدد مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ مایوسی اور نامرادی میں ڈوب گیا تھا، اور اس قدر بے چین اور بے قرار رہنے لگا تھا کہ اس کے لیے کوئی معمولی سا فیصلہ کرنا بھی دشوار ہو گیا تھا ۔وہ فتوحات کا عادی ہو گیا تھا اور اس وہم میں مبتلا کے کوئی اسے شکست دے ہی نہیں سکتا اس خوش فہمی نے اسے رعایا کے لئے فرعون بنا دیا تھا۔ ہم تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی تھی ۔اسے اپنا ایک بڑا ھی نامور جرنیل تذارق یاد آیا ہوگا ۔یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا واقعہ ہے۔ مجاہدین اسلام کے دو عظیم سالاروں مثنیٰ بن حارثہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھا، کی قیادت میں زرتشت کے پجاری ایرانیوں کے خلاف ایران میں برسر پیکار تھے ،آتش پرست ایرانی پسپا ہوتے چلے جارہے تھے، شام سلطنت روم میں شامل تھا اور حکومت ہرقل کی تھی۔ اس وقت تک ہرقل مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی لٹیرے کہا کرتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ وہ شام کی سرحدوں سے باہر رہیں ورنہ نیست و نابود کر دیے جائیں گے اپنا ایک بڑا زبردست کثیر تعداد لشکر یرموک کے مقام پر بھیج دیا، اور مسلمانوں کو للکارا اس لشکر کا جرنیل تاریخ کا ایک مشہور جنگجو تذارق تھا۔ ہرقل کو توقع تھی کہ وہ ایک ہی معرکے میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کردے گا۔ لیکن اس معرکے کا انجام یوں ہوا کہ تذارق مارا گیا ،اس کا تقریبا آدھا لشکر کٹ مرا، اور جو تعداد بچ گئی وہ بندہ بندہ ہوکر بکھری اور دہشت زدگی کے عالم میں واپس پہنچی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ تذارق کے بعد ہرقل کو خود آگے بڑھنا چاہیے تھا تاکہ مسلمانوں پر اس کا دبدبہ قائم ہوجاتا لیکن وہ اس لیے باہر ہی نہ نکلا کہ اسے بھی شکست ہوگی اور اس کا وقار یرموک کی زمین میں ہی دفن ہو جائے گا ۔اب جبکہ وہ شکست خوردگی کی حالت میں قسطنطنیہ جا رہا تھا اسے یرموک کا معرکہ یاد آیا ہوگا اور وہ پچھتایا بھی ہوگا کہ اس نے عبرت حاصل نہ کی اور مسلمانوں کو کمزور ہی سمجھتا رہا۔ پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط یاد آیا ہوگا، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی ،اس واقعے کا مختصر سا پس منظر یوں ہے کہ جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے، ایرانیوں نے رومیوں سے شام اور مصر چھین لیے تھے اس وقت روم کا بادشاہ فوکاس تھا۔ ایرانیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی (فرضی) قبر سے صلیب اعظم اٹھا کر لے گئے تھے۔ ہرقل نے شاہ فوکاس کا تختہ الٹا خود شاہ روم ،یا قیصر روم بنا، اور ایرانیوں کو شکست دے کر ان سے صلیبب اعظم واپس لے لی تھی، وہ صلیب اعظم واپس حضرت عیسی علیہ السلام کی مفروضہ قبر پر رکھنے بیت المقدس جارہا تھا ۔رسول اکرم صلی اللہ وسلم نے اس کے نام ایک خط بھیجا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ خط ایک صحابی احیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ لے جارہے تھے۔ہرقل انہیں بیت المقدس کے راستے میں ملا۔انہوں نے وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کو دے دیا اور جواب کا
انتظار کرنے لگے۔
آج جب شکست خوردہ ہرقل مسلمانوں کے قہر و عتاب سے بھاگا ہوا شام کی سرحد سے نکل رہا تھا، اسے یقینا مسلمانوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط یاد آیا ہوگا، اور یہ بھی اس نے کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا تھا، وحیہ بن خلیفہ کلبی پر پھبتیاں کسی تھیں۔ اور پھر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ جملے کہے تھے، اور خط آپ کے ان صحابی کے منہ پر دے مارا تھا اور بڑی بے ہودگی سے انہیں رخصت کیا تھا۔ عین ممکن ہے اب ہرقل دل ہی دل میں پچھتایا ہوگا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہو جاتا تو آج وہ بھی فاتحین میں شامل ہوتا، اور اس ذلت و رسوائی تک نہ پہنچتا ۔تاریخ میں ہرقل کی اس وقت کی کیفیت اتنی سی ہی لکھی ملتی ہے ،کہ اس کا چہرہ مرجھایا ہوا ،سر جھکا ہوا ،اور کندھے سکڑے ہوئے تھے۔اس کے دل کو اس خیال نے بھلایا ہوگا کہ ابھی پورے کے پورے مصر اس کے قبضے میں ہے اور وہاں جاکر فوج کو تیار کرے گا اور پھر شام پر حملہ کر کے مسلمانوں سے انتقام لے گا۔
جاری ہےــــــــ