اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر 3)

سابقہ اقساط
قسط نمبر 01 | قسط نمبر 02

سورج کب کا غروب ہو چکا تھا اور رات گہری ہو گئی تھی۔ اس وقت شارینا وہاں سے بہت دور پہنچ گئی تھی اور اس کے سفر کا ایک دن گزر گیا تھا ۔مسلمان قیدی کا نام حدید بن مؤمن خزرج تھا۔ خزرج عرب کا ایک بڑا مشہور قبیلہ تھا۔ پہلے تو ہم یہ دیکھ لیں کہ شارینا اور حدید اس شہرکس طرح سے نکلے۔ قیدخانہ آبادی سے کچھ دور تھا اور آگے ویران اور بیابان علاقہ تھا۔کچھ دور تک شارینا گھوڑے پر سوار رہی اور اس کے کہنے پہ حدید نے گھوڑے کی باگ پکڑے رکھی کہ کوئی اجنبی دیکھ لیتا تو یہی سمجھتا کہ وہ کسی امیر وزیر کی بیٹی ہے اور باگ اس کے نوکر نے پکڑ رکھی ہے۔ حدید نے راستے میں بھی شارینا سے پوچھا کہ وہ جا کہاں رہے ہیں؟ شارینا نے اسے کہا تھا کہ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چلتا چلے۔
 حدید پر کسی قسم کا خوف اور خدشہ طاری نہیں تھا۔ وہ بڑا خوبرو جوان تھا اور اس کے جسم میں طاقت بھی تھی اور پھرتی بھی۔قید خانے سے کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ وہ دونوں دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ سطح مرتفع علاقہ شروع ہوگیا تھا ۔چھوٹے بڑے نصیب تھے اور کہیں کہیں زمین اوپر کو ابھری ہوئی تھی۔ اور اس سے آگے باقاعدہ ٹیکریں آگئیں ،درخت بھی تھے اور جھاڑیاں بھی اور وہاں کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا ،کوئی پگڈنڈی نہیں تھی اور صاف پتہ چلتا تھا کہ ادھر سے مسافر کم ہی گزرتے ہیں۔ذرا اور آگے گئے تو ایک آدمی نظر آیا جس کے ساتھ ایک گھوڑا کھڑا تھا۔ اس آدمی نے گھوڑے کی باگ پکڑ رکھی تھی۔ شارینا نے اس کے قریب جاکر گھوڑا روک لیا وہ کوئی ادھیڑ عمر آدمی تھا ۔شارینا اپنے گھوڑے سے اتر رہی تھی۔ اور وہ گھوڑے کو اور قریب لے آیا، تم اس گھوڑے پر سوار ہو جاؤ؛ شارینا نے حدید سے کہا۔حدید کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ یہ وہی گھوڑا تھا جس کے متعلق شارینا نے قید خانے سے نکل کر کہا تھا کہ آگے چل کر الگ گھوڑا مل جائے گا۔ یہ ادھیڑ عمر آدمی یقیناً شارینہ کا ملازم تھا۔ حدید اس کے گھوڑے پر سوار ہو گیا ۔حدید نے سوار ہوکر شارینا کی طرف دیکھا، شارینا ابھی اپنے گھوڑے پر سوار نہیں ہوئی تھی ۔ ادھیڑ عمر آدمی اس کی تعظیم میں اتنا جھک گیا تھا کہ رکوع کی حالت میں چلا گیا ۔شارینا آخر شہزادی تھی اور یہ شخص اس کا نوکر یا سائیں تھا ۔اس کے علاوہ اس نوکر کو توقع ہو گی کہ شہزادی اس کو انعام دے گی۔شارینا نے اسے انعام یہ دیا ،کہ وہ کہ وہ ابھی رکوع سے اٹھا نہیں تھا کہ اس نے بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور بلند کرکے بڑی زور سے اس آدمی کے پیٹ میں گھونپ دیا ،اس سے پہلے کہ یہ آدمی سیدھا ہوتا ،شارینا نے اس کے پیٹ سے خنجر نکال کر ایسا ہی ایک اور وار اسی مقام پر کیا۔پیٹ کا یہ وہ مقام تھا جہاں دل ہوتا ہے۔ وہ بد قسمت آدمی سیدھا ہی نہ ہو سکا اور ایک پہلو پر زمین پر گر پڑا شارینا اس کے پاس کھڑی دیکھتی رہی ۔موت نے اپنا کام بڑی تیزی سے مکمل کرلیا۔ شارینا نے خون آلود خنجر لاش پر جھک کر اس کے کپڑوں پر صاف کیا اور نیام میں ڈال دیا۔ اس آدمی نے کمر کے ساتھ چمڑے کی بیٹی سے تلوار باندھ رکھی تھی۔ شارینا نے پیٹی کھول کر تلوار اور پیٹی کھینچی اور پھر حدید کو دیکھ کر کہا کہ یہ اپنی کمر سے باندھ لو۔ اب تم نہتے نہیں رہو گے۔ شارینا نے سنجیدگی سے کہا____ میرے پاس تو خنجر ہے ۔
اسے کس گناہ کی سزا دی ہے؟ حدید نے پوچھا ____ یہاں رکنا نہیں ہے شارینا نے کہا ابھی ہم خطرے میں ہیں۔
وہ گھوڑے پر سوار ہوگئی اور لگام کو جھٹکا دیا گھوڑا چل پڑا تو وہ بولی یہ شخص ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتا تھا ۔
یہ میری ماں کی خوشنودی اور انعام حاصل کرنے کے لیے اسے بتا دیتا کہ میں ایک آدمی کے ساتھ فلاں طرف نکل گئی ہوں۔
ماں فوراً ہمارے تعاقب میں گھوڑ سوار بھیج دیتی۔ میرا کسی نے کیا بگاڑ لینا تھالیکن تم قتل کر دئیے جاتے ۔
یہ تو بتا دو تم ہو کون ؟____ حدید نے پوچھا____ تمہیں میرا نام مجھ سے پوچھے بغیر معلوم ہے، اپنا نام ہی بتا دو، یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ مجھے کہاں لے جا رہی ہوں۔

میرا نام شارینا ہے____ شارینہ نے کہا ____ میں شاہ ہرقل کے خاندان کی شہزادی ہوں۔ میری ماں شاہ ہرقل کی بیوی ہے لیکن میں اس کی بیٹی نہیں بلکہ اس سے پہلے روم کا بادشاہ فوکاس ہوا کرتا تھا، میں اس کی بیٹی ہوں۔ پوچھتے ہو میں تمہیں کہاں لے جا رہی ہوں____  تمہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ میں تمہیں نہیں لے جارہی بلکہ تمہارے ساتھ جا رہی ہوں۔ ایک بار پھر سن لو مجھے اپنی فوج میں لے چلو____  لیکن کیوں؟ ____ حدید نے پوچھا____ میرے ساتھ تمھارا تعلق ہی کیا ہے؟ کیا میں ایسا شک نہ کروں کہ تم مجھے کسی ایسے مقصد کے لئے کہیں لے جا رہی ہوں جو میرے لئے ٹھیک ہو ہی نہیں سکتا؟
تم مرد ہو تمہارے پاس تلوار ہے ،شارینا نے مسکراتے ہوئے کہا____ جہاں کہیں خطرہ محسوس کرو گے مجھے وہی قتل کر دینا ۔
اس نے اپنے گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگا کر کہا؛ کچھ دور تک گھوڑوں کو دوڑنے دو ۔
آگے ایسا علاقہ آرہا ہے جہاں گھوڑے ٹھیک طرح دوڑ نہیں سکیں گے، نہ انہیں دوڑانا ہے۔ آگے چل کر بتاؤں گی میں کون ہوں اور پھر تم مجھے بتانا کہ میں پاگل تو نہیں!
زمین کچھ اوپر اٹھتی جا رہی تھی آگے چٹانیں بھی تھی اور گھاس، پودوں، اور درختوں سے لدی ہوئی خوبصورت ٹیکریاں بھی تھیں ۔کچھ آگے جا کر شارینا نے گھوڑا روک لیا اور پیچھے دیکھا حدید نے بھی گھوڑا روک کر پیچھے دیکھا، درختوں کے اوپر سے روہاء کا قلعہ بند شہر نظر آ رہا تھا وہ اس شہر سے دور نکل آئے تھے۔
 دور افق تک دیکھو____ شارینا نے جذباتی لہجے میں کہا____ کتنا خوبصورت علاقہ ہے____ اب یہ علاقہ تمہارا ہے ۔روم کی شہنشاہی سے نکل گیا ہے روم کے بادشاہ اور مجھ جیسی شہزادیاں ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔
 کیا مجھے سمجھنے کی کوشش کرو گے حدید؟ ____ تم مجھے روم کے خاندان کی شہزادی سمجھتے ہو لیکن مجھے شاہ ہرقل کی فتح کی اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی جتنی اس کی پسپائی سے ہو رہی ہے۔ چلو زیادہ رکنا ٹھیک نہیں۔

انہوں نے گھوڑے موڑے اور اپنے سفر پر چل دئیے لیکن ابھی دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی منزل کہاں ہے ____ اب تم میرے رہنما ہو____ شارینا نے کہا ____ یہ اندازہ کر لو کہ تم کہاں سے پکڑے گئے تھے اور تمہاری فوج کہاں ہوگی ۔اب مجھے اپنی ملکیت سمجھو، قیدی سمجھو یا ہمسفر میری زندگی کا سفر تمہارے ساتھ گزرے گا ۔وہ اب چٹانوں اور اونچی نیچی ٹیکریوں کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے ۔وہاں کوئی سیدھا راستہ نہیں تھا۔ حدید ویسے ہی انداز پر جا رہا تھا۔محل میں لوگ مجھے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ شارینا نے اپنی بات شروع کی۔ بعض مجھے کم عقل کہتے ہیں اور مجھے پاگل کہنے والے بھی کچھ کم نہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں میری باتیں اور میری عادتیں کچھ ایسی ہی ہیں ،میں شہزادی ضرور ہوں لیکن ان شہزادیوں میں سے نہیں جن کی لوگ کہانیاں سنتے سناتے رہتے ہیں۔ شاید میرے خون میں کوئی خرابی ہے۔
 تم اصل بات سناؤ شارینا! ____ حدید نے کہا____ میں تمہیں بتاؤں گا کہ خرابی تمہارے خون میں ہے یا دماغ میں۔
 میری ماں کو تم نے نہیں دیکھا شارینا نے کہا____ بہت ہی خوبصورت عورت ہے، میں اس کی واحد اولاد ہوں۔ وہ نسلاً شاہی خاندان سے نہیں ،عرب کے کسی بہت ہی امیر تاجر خاندان کی لڑکی تھی۔ تم جانتے ہو تاجر تجارت کے معاملے میں ملک ملک پھرتے رہتے ہیں اور قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہیں میری ماں کی عمر سولہ سترہ سال تھی جب ایک بار اس کے باپ نے کہا کہ وہ تجارت کے لیے مصر جا رہا ہے اور سب کو ساتھ لے جائے گا۔ اس طرح وہ اپنے پورے کنبے کو ساتھ لے گیا۔ میری ماں تھی، اس کے چھوٹے دو بھائی تھے اور اس کی ماں تھی اور ایک چچا بھی ساتھ تھا، مجھے یہ باتیں ماں نے سنائی تھیں۔بہت بڑا قافلہ تھا اور اس قافلے میں زیادہ تعداد تاجروں کی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ اس قافلے کے ساتھ دولت بھی بہت جارہی تھی اور مختلف قسم کے تجارتی مال کا تو کچھ شمار نہ تھا۔ صحرائی قزاق ایسے قافلوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ انہیں اس قافلے کی بھی خبر ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد یہ قافلہ ملک شام میں داخل ہوا تو ایک جگہ قزاقوں نے اسے روک لیا قافلے تو اب بھی لٹتے ہیں اور تم جانتے ہوں گے انہیں کس طرح لوٹا جاتا ہے۔ماں بتاتی ہے کہ قزاق کوئی تھوڑے تو نہیں تھے۔ یوں پتہ چلتا تھا جیسے آسمان سے گدھوں کے غولوں اور زمین سے سیکڑوں بھیڑیوں نے حملہ کر دیا ہو ۔میری ماں نوجوان بھی تھی اور خوبصورت اتنی کہ اس پر لگی ہوئی نظر ہٹتی نہیں تھی ایک قزاق نے میری ماں کو اٹھا لیا ۔وہ دن اور آج کا دن میری ماں کو معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کے ماں باپ اور بھائیوں کا کیا انجام ہوا تھا۔ قزاق ماں کو اغوا کر کے لے گئے۔میں تصور میں لا سکتی ہوں کے اس کم سنی میں میری ماں کس قدر قیمتی ہیرے جیسی ہوگی ۔وہ کوئی عام سی لڑکی ہوتی تو کھلی منڈی میں فروخت ہو جاتی لیکن وہ امراء کی بھی نہیں بلکہ بادشاہوں کی پسند کی چیز تھی ۔اس وقت مصر اور شام پر رومیوں کی حکومت تھی اور بادشاہ فوکاس تھا وہ بادشاہوں جیسا بادشاہ تھا شاہانہ عیاشیوں میں ڈوبا ہوا ۔اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا اور لوگ اس کے آگے سجدے کرتے تھے۔قزاقوں نے اس تک رسائی حاصل کرکے میری ماں کی جھلک اسے دکھائی تو وہ جیسے میری ماں پر مر ہی مٹا ہو۔ آخر بادشاہ نے  منہ مانگے دام دے کر میری ماں کو خرید لیا ۔بادشاہ شادی کے جھنجٹ میں پڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کیا کرتے، انہیں جو لڑکی اچھی لگتی ہے، اسے عارضی یا مستقل داشتہ بنا کر اپنے محل میں رکھ لیتے ہیں۔ میری ماں کے حسن اور نوجوانی سے شاہ فوکاس ایسا متاثر ہوا کہ اس نے میری ماں کے ساتھ باقاعدہ شادی کر لی ۔بادشاہوں کی شادیاں بھی برائے نام ہوا کرتی ہیں۔ ماں کو ذرہ بھر خوشی نہ ہوئی کہ وہ اتنی وسیع بادشاہی کے بادشاہ کی ملکہ بن گئی ہے ۔اس کی عمر ہی کیا تھی، اسے باپ اور بھائی یاد آتے تھے اور تنہائی میں رو رو کر اپنی حالت بگاڑ لیا کرتی تھیں۔

اسے دوسرا صدمہ یہ پہنچا کہ وہ مسلمان تھی ۔اس کے ماں باپ نے تھوڑے ہی عرصہ پہلے اسلام قبول کیا تھا ۔اس کا باپ کسی لالچ یا کسی بھی قسم کے دباؤ میں نہیں آیا تھا۔ بلکہ اس مذہب سے وہ دلی طور پر متاثر ہوا اور اس نے اسلام قبول کر لیا ۔اس وقت میری ماں بہت چھوٹی تھی۔ اس نے مجھے سنایا کہ وہ جب اچھا برا سمجھنے کی عمر میں داخل ہوئی تو اسے مذہب کے سبق دیئے جانے لگے اسلام اس کی رگ رگ میں سما گیا ،لیکن اس کی قسمت اتنی بری نکلی کہ قافلے سے اغوا ہوئی اور ایک عیسائی بادشاہ نے اسے اپنی بیوی بنا لیا، بادشاہوں کا تو کوئی مذہب ہوتا ہی نہیں ۔میری ماں کو دکھ یہ ہوا کہ وہ مسلمان بھی نہ رہی اور اس نے عسائیت کو بھی قبول نہ کیا۔
میں پیدا ہوئی اور مجھے شہزادیوں کی طرح پالا پوسا گیا ۔اس میں کوئی شک نہ تھا کہ میں تھی ہی شہزادی ، تین چار سال کی عمر کو میں پہنچی تو یاد آیا کہ میں نے ماں کو چوری چھپے نماز پڑھتے دیکھا تھا لیکن میری عمر پانچ سال کی ہوئی تو میں نے ماں کو شراب پیتے دیکھا اور اس کی نماز ختم ہوگئی تھی ۔شیطانوں کے شاہی ماحول میں رہ کر میری ماں کی فطرت ہی بدل گئی اور وہ بھی شیطان فطرت بن گئی۔ میں تمہیں وہ سازشیں اور سیاست بازیاں نہیں سنا رہی جو بادشاہوں کے محلات کا معمول ہوا کرتی ہے۔ ماں نے مجھے یہ ساری ابلیسی حرکتیں ،اپنی بھی، شاہ فوکاس کی دوسری بیویوں کی بھی تفصیلاً سنائی تھیں۔
تم جانتے ہو کہ ایرانی آتش پرست ہیں اور روم کی ٹکر کی جنگی طاقت ہے۔ میں حیران ہوں کہ تم مسلمانوں نے کس طرح ان ایرانیوں کو عراق سے بے دخل کرکے انہیں گھٹنوں بیٹھا دیا ہے ۔انہوں نے اچانک رومی سلطنت پر حملہ کر دیا اور دیکھتے دیکھتے مصر اور شام پر قابض ہو گئے۔

 شاہ فوکاس اپنے وطن بھاگ گیا____ ہرقل رومی فوج کا جرنیل تھا۔ جرنیل تو چند اور بھی تھے لیکن ہرقل کا نام سب سے زیادہ اونچا اور مشہور تھا کیونکہ جنگی فہم و فراست کے لحاظ سے کوئی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ اس کی شہرت اور عزت کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق شاہی خاندان کے ساتھ تھا۔ وہ برداشت نہ کرسکا کہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دی ہے وہ جانتا تھا کہ شکست کا اصل باعث فوکاس کی عیاش شہنشاہیت ہے۔ اس نے ایرانیوں کو ہمیشہ نظرانداز کیے رکھا تھا اور اپنی سلطنت کی طرف سے بے خبر رہا۔ میری عمر چھ سات سال تھی اس عمر میں بچہ اتنی زیادہ باتیں نہیں سمجھ سکتا جو میرے دماغ میں بیٹھ گئی تھی۔ میرے ساتھ کے بچوں کو پرواہ ہی نہیں تھی کہ دشمن نے ہمیں وسیع و عریض ملک سے بے دخل کردیا ہے۔ لیکن مجھے اس شکست کا اتنا ہی صدمہ ہوا تھا جتنا ہرقل محسوس کر رہا تھا ۔ہرقل میرے ساتھ بہت پیار کرتا تھا ۔اس کا میرے ماں کے ساتھ میل جول تھا۔ پہلے جب کبھی ماں ہرقل سے ملنے جاتی یا وہ ماں سے ملنے آتا تو ماں مجھے اپنے ساتھ رکھتی تھی۔ لیکن کچھ دنوں بعد ماں نے مجھے اپنے اور ہرقل کے درمیان سے ہٹادیا ۔بڑے ہو کر مجھے پتہ چلا تھا کہ میری ماں نے ہرقل کے ساتھ ناجائز دوستی لگا رکھی ہے۔ یہ کوئی عجیب اور انوکھی بات نہیں تھی۔ شاہی محلات میں یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔شاہ فوکاس اپنی کون کون سی بیویوں کا خیال رکھتا۔اب میں تمہیں جو بات سنانے لگی ہوں مجھے بڑے ہوکر معلوم ہوئی تھی ۔بات یہ تھی کہ ہرقل شاہ فوکاس کو اکساتا رہتا تھا کہ ایرانیوں پر جوابی حملہ کیا جائے ،لیکن فوکاس ٹالتا چلا جا رہا تھا ۔ہرقل نے اس بادشاہ کا تختہ الٹنے کا ارادہ کرلیا ۔اس مقصد کے لیے اس نے دوسرے جرنیلوں کو ساتھ ملایا اس وجہ سے بغاوت کے لیے تیار ہوگئے کہ شاہ فوکاس شکست کی ذمہ داری ان جرنیلوں پر ڈال رہا تھا۔ ہرقل نے تمام جرنیلوں کو تیار کرلیا تو پتہ چلا کہ دو تین جرنیل دراصل شاہ فوکاس کے حامی ہیں اور فوج کی خاصی نفری کو انہوں نے شاہ فوکاس کی ذاتی فوج بنا رکھا ہے۔ ان دو جرنیلوں کو خبر مل گئی جو بادشاہ کے حامی تھے۔ انہوں نے فوج کی نفری کو ساتھ لیا ،جو ان کے زیر اثر تھی اور اس نفری سے انہوں نے محل کو محاصرے میں لینے والی نفری پر حملہ کردیا۔ ہرقل کے دستوں نے جم کر مقابلہ کیا۔ ہرقل نے سوچا کہ اس نے بادشاہ کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو خانہ جنگی ہو گی جو روم کو لے ڈوبے گی ۔خانہ جنگی کے بغیر تختہ الٹنے کا ایک ہی ذریعہ تھا کہ شاہ فوکاس کو کسی نہ کسی طریقے سے قتل کردیا جائے۔
 بادشاہ کو قتل کرنا تقریبا ناممکن تھا ۔وہ اپنی عیاشیوں میں ڈوبا رہتا تھا اور اس کے ارد گرد محافظوں کا حصار قائم کر دیا گیا تھا ۔میرا خیال ہے کہ بادشاہ کو پتہ چل گیا تھا اس کا تختہ الٹنے کی سازش ہورہی ہے ۔ہرقل کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ بادشاہ یقینا ہرقل سے ڈرتا تھا۔ میری ماں ہرقل سے ملتی رہتی تھی اور ان کی دوستی پہلے کی طرح چل رہی تھی۔ ہرقل نے میری ماں کے ساتھ کبھی ذکر تک نہ کیا تھا کہ  وہ شاہ فوکاس کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ ایک روز میری ماں نے شک کی بنا پر ہرقل سے پوچھا تو ہرقل نہ مانا۔ میری ماں نے اسے بتایا کہ اس کے اپنے دل میں بادشاہ کے خلاف اتنا زہر بھرا ہوا ہے کہ وہ بادشاہ کو قتل کرنے تک سوچ چکی ہے۔ لیکن اسے کسی کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
 تب ہرقل نے اسے اپنا راز دے دیا اور یہ وعدہ کیا کہ وہ شاہ فوکاس کو کسی نہ کسی طریقے سے قتل کر دے۔ماں تیار ہو گئی۔ قتل کے طریقوں پر غور ہونے لگا آخر یہ طے پایا کہ میری ماں بادشاہ کو زہر پلا دے اور ہرقل کو فورا اطلاع دے دے۔ میری ماں کے لئے یہ طریقہ آسان تھا۔ ہرقل نے ایسے زہر کا انتظام کرکے میری ماں تک پہنچا دیا جو فورا اثر نہیں کرتا تھا بلکہ آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا ہے اور جسم کو اندر ہی اندر سے کھاتا چلا جاتا ہے اور بارہ چودہ دنوں تک آدمی مر جاتا ہے۔ اس زہر کا سراغ لگایا ہی نہیں جا سکتا تھا،بڑے بڑے قابل طبیب بھی اسے کوئی پراسرار بیماری کہہ دیتے ہیں۔
ایک رات میری ماں نے یہ زہر شراب میں ملاکر شاہ فوکاس کو پلا دیا اگلے روز ہرقل کو اطلاع دے دی کہ زہر بادشاہ کے پیٹ میں چلا گیا ہے۔ ہرقل فوج کا کمانڈر انچیف تھا۔
 ساری فوج پر اس کا حکم چلتا تھا اس نے فوج کی کچھ نفری کو الگ کر کے حکم دیا کہ بادشاہ کے محل کو محاصرے میں لے لیا جائے۔ اس کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ہرقل شاہ فوکاس کے سامنے گیا اور اسے کہا کہ وہ فرمان جاری کر دے کہ وہ تخت سے دستبردار ہوگیا ہے اور ہرقل کو اس نے اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔ ہرقل دیکھ رہا تھا کہ بادشاہ کے جسم میں زہر کا اثر شروع ہو گیا تھا ۔وہ اپنے اندر کوئی تکلیف محسوس کرنے لگا تھا۔ ہرقل نے اسے کہا کہ اس کی زندگی چند دن رہ گئی ہے۔ اس نے پس و پیش کی تو اس کی لاش سارے شہر میں گھسیٹی جائے گی اور پھر جنگل میں پھینک دی جائے گی۔ ہرقل نے سوچا یہ تھا کہ بغاوت اس وقت شروع کی جائے جب بادشاہ اندر سے کمزور ہونا شروع ہوجائے۔
 جو فوج ہرقل کے زیر اثر تھی اس کی نفری زیادہ تھی اس نے شاہ پرست دونوں جرنیلوں کو الگ بلایا اور انہیں کہا کہ اسے پتہ چل گیا ہے کہ بادشاہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور آٹھ دس دنوں تک بادشاہ مرجائے گا۔ بہتر یہ ہے کہ دونوں جرنیل اس کے ساتھ مل جائیں اور آپس میں خون خرابہ نہ کریں ۔دونوں جرنیلوں کو بادشاہ پر بھروسہ تھا اور اس کی حمایت کے صلے میں انعام اکرام کی توقع بھی تھی اس لئے ہرقل کی کوئی بات ان پر اثر نہ کرسکی۔ وہ شاید بھول گئے تھے کہ ہرقل کا دماغ بہت ہی تیز ہے۔ اس کا بچھایا ہوا جال کسی کو نظر نہیں آتا اور جو بھی آتا ہے اس کے جال میں پھنس جاتا ہے ۔ہرقل نے ایسی چال چلی کہ دونوں جرنیل اس کے پھندے میں آگئے اور دونوں کو گرفتار کر کے قید خانے میں پھینک دیا۔ ان جرنیلوں کی جو فوج تھی وہ ان دونوں کے بغیر بیکار ہو گئی ۔ویسے ہی ہرقل نے اس نفری کو خبردار کیا کہ ہتھیار نہ ڈالے تو کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے گا ۔فوج کے یہ دو چار دستے کر ہی کیا سکتے تھے۔ جبکہ ان کا کوئی کمانڈر رہا ہی نہیں تھاچنانچہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ تین چار دن اور گزرے کہ بادشاہ فوکاس کی جسمانی اور ذہنی حالت زہر کے اثر کی وجہ سے اتنی خراب ہوگئی کہ وہ بستر سے اٹھنے سے معذور ہو گیا۔ آخر ہرقل نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اس کے حق میں شاہی فرمان جاری کردیے۔ شاہ فوکاس تو صحت اور زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا ۔عیش پرست انسان اس دنیا سے جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے ہرقل سے منت سماجت کی کہ وہ اس کا علاج کرائے۔ وہ کہتا تھا کہ اس کا جسم اندر سے کٹ رہا ہے۔ وہ تو زندہ لاش بن گیا تھا اور طبیب اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ اور یہ پتہ چلتا ہی نہیں تھا کہ یہ کیسی بیماری ہے جو بادشاہ کو اندر ہی اندر کھائے چلی جارہی ہے ۔ہرقل نے اسے کہا کہ وہ اس کا علاج کرائے گا اور وہ ٹھیک بھی ہوجائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ فرمان جاری کر دے۔
 ایک دن اور گزرا تو شاہ فوکاس یوں محسوس کرنے لگا جیسے اس کے جسم کے اندر آگ لگ گئی ہو۔ اسی کیفیت میں ہرقل نے اس سے فرمان لکھوا لیا اور اس فرمان کو لوگوں تک بذریعہ منادی پہنچادیاگیا۔ ہرقل تخت نشین ہو گیا اور بادشاہ کو شاہانہ مراعات دے کر محل میں ہی رہنے دیا ۔وہ جانتا تھا کہ یہ بادشاہ دو چار دنوں کا ہی مہمان ہے۔ ایسے ہی ہوا ایک روز شاہ فوکاس نے آخری ہچکی لی اور ہمیشہ کے لئے دنیا سے اٹھ گیا۔ ہرقل نے روم کا تخت و تاج سنبھال لیا اور فوکاس کے شاہی خاندان کو محل سے نکال دیا۔ ہرقل نے میری ماں کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کردیا ۔اس کے ساتھ شادی کرلی ۔اس شادی سے صرف اتنی تبدیلی آئی کہ ہرقل کی بیویوں کی تعداد میں ایک اور بیوی کا اضافہ ہوگیا۔ یہ شادی بھی ایک بادشاہ کی شادی تھی لیکن میری ماں کو اس شادی پر بڑا فخر تھا۔ ہرقل نے کچھ عرصہ اسے اہمیت دے رکھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ ماں میری شاہ فوکاس کو زہر نہ دیتی تو ہرقل کے لئے اس کا تختہ الٹنا ممکن نہ تھا۔ میرا شعور بیدار ہو چکا تھا اور مجھ پر سب سے زیادہ اثر اپنی ماں کا تھا اس نے اپنے آپ کو ہرقل کی ملکہ عالیہ سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔اور وہ اٹھتے بیٹھتے یہی کہتی تھی کہ ایرانیوں پر جوابی حملہ کرکے مصر اور شام کو دوبارہ سلطنت روم میں شامل کرنا ہے۔ ہرقل کا تو عزم ہی یہی تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے اسی مقصد کے تحت شاہ فوکاس کا تختہ الٹا تھا ۔اس کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ مجھ میں قومی غیرت پیدا ہو گئی اور اس کے ساتھ ایسا جذبہ ابھرا کہ میں یہ خواہش کرنے لگی کہ میں مرد تو بن نہیں سکتی اور میں فوج میں نہیں جا سکتی۔ میں جوان ہو کر اپنے جیسے جوان لڑکیوں کی فوج بناؤں گی اور اسے ایرانیوں کے خلاف لڑاؤں گی۔ اس طرح مجھ میں عسکریت پیدا ہوتی چلی گئی اور یہی میری فطرت بن گئی۔ میں اس وقت لڑکپن کی عمر سے آگے نکل رہی تھی جب ہرقل نے بے پناہ فوج  تیار کر لی تھی۔ اور اس نے ایرانیوں پر حملہ کردیا بہت کشت خون ہوا ۔ہرقل بڑا ہی مضبوط عزم لے کر نکلا تھا ۔اس نے اپنی فوج کو کئی سالَ صرف کرکے خوب تیار کیا تھا۔ آخری ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ پسپا ہوتے ہوتے مصر بھی خالی کر گئے اور شام بھی، دونوں ملک ایک بار پھر سلطنت روم میں شامل کرلیے گئے۔ ہرقل کی نظروں میں میری ماں کی حیثیت ختم ہو چکی تھی۔ ہرقل کو شاید اتنا ہی یاد رہ گیا تھا کہ اس عورت کے ساتھ اس نے شادی کی تھی۔ پسپا ہوتے ایرانیوں کی بہت سی حسین و جمیل اور نوخیز لڑکیاں رومیوں کے ہاتھ لگی تھی۔ ان میں سے کئی ایک کو ہرقل کے حرم میں داخل کر دیا گیا تھا ۔میری ماں کی جوانی ڈھل رہی تھی ۔ہرقل تھا تو بادشاہ لیکن فوکاس جیسا نہیں تھا۔ وہ جرنیل بھی تھا اور جنگی امور اور جنگی چالوں میں اس نے ایسا نام پیدا کر لیا کہ وہ ایک ہیبت ناک طاقت بن گیا۔ میں اپنی ماں کو افسردہ اور اداس دیکھنے لگی شاید یہ اسی کا اثر تھا کہ مجھے یاد آنے لگا جب ماں چوری چھپے نماز پڑھا کرتی تھی۔ ایک تو یہ جذبہ یا احساس تھا اور دوسرا احساس یہ کہ مجھ میں عسکریت پیدا ہوگئی تھی۔ اور میں صرف یہ نہیں جانتی تھی کہ کوئی خوبصورت شہزادہ میرے ساتھ شادی کر لے اور میں کسی کے ملکہ بن جاؤں۔ میں پوری طرح بیان نہیں کر سکتی کہ میرے وجود میں کیسی آگ لگ گئی تھی۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

شارینا کا دماغ اس آگ کو سمجھنے سے قاصر تھا جو اس کے وجود میں بھڑک اٹھی تھی۔ حدید اس کی یہ روداد سنتا چلا جا رہا تھا۔ گھوڑے درمیانی رفتار سے چل رہے تھے۔ سورج اپنا سفر پورا کر رہا تھا اور افق کے قریب جا پہنچا تھا۔ ہری بھری ٹیکریاں ایک دوسرے سے دور ہٹتی جارہی تھیں۔حدید نے اپنے ذہن میں انطاکیہ کی سمت رکھی ہوئی تھی۔ہر چالیس پچاس قدموں پر ٹیکریاں گھوڑوں کا رخ موڑ دیتی تھیں لیکن حدید اپنے ذہن سے صحیح سمت کو نکلنے نہیں دے رہا تھا۔شارینا روانی سے بولتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی آواز میں جلترنگ جیسے ساز کا ترنم بھی تھا اور جذبات کا سوز بھی، لیکن جب وہ اس آگ کا تجربہ کرنے لگی جو اس کے وجود میں بھڑکی تھی تو اس کی زبان رکنے لگی ۔اس نے اپنا سارا ماضی بیان کر دیا تھا ، لیکن اس کی سوچوں میں جو انقلاب آیا تھا ،اسے وہ صحیح طور پر بیان کرنے سے قاصر ہوئی جا رہی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ انقلاب اللہ کا ایک عظیم انعام ہے جو خوش بختوں کو ہی ملا کرتا ہے۔ شارینا بڑی حسین اور نوجوان شہزادی تھی لیکن اس نے اپنے وجود کو اور اپنے کردار کو اور اپنی سوچوں کو شہنشاہیت سے پاک رکھا تھا ، شہنشاہیت کا مقصد ہوتا ہے عیش و عشرت اللہ کے بندوں کو حشرات الارض سمجھنا اور فرعونیت۔ شارینا نے نہ عشق و محبت کا کھیل کھیلا، نہ اپنے حسن و جوانی کو دانہ و دام کی طرح استعمال کیا۔ وہ ان جذبوں اور احساسات میں الجھتی چلی گئی جو اس کی سوچیں بیدار کرتی چلی جا رہی تھیں۔شارینا حدید کو اپنی خوش بختی کی جو داستان سنا رہی تھی، وہ دراصل اس پورے خطے کی داستان تھی ،وہ خطہ جسے آج عراق اور شام کہاں جاتا ہے۔ باطل کی بڑی بے رحم گرفت میں آیا ہوا تھا ۔عراق پر آتش پرست ایرانی اور شام اور مصر رومیوں کے قبضے میں تھے۔
 پہلے متعدد بار بیان ہوچکا ہے کہ اس وقت یہ دو ہی جنگی اور شاہی طاقتیں تھیں ایرانی تو آگ کی پوجا کرتے تھے، اور رومی جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا تھا اب عیسائیت کے پیروکار تھے، اور بیت المقدس کو انہوں نے دنیا بھر کے عیسائیوں کے لئے ایک کعبہ جیسا مقدس مقام بنا دیا تھا۔ مسجد اقصی کو وہ اپنی عبادت گاہ سمجھتے تھے۔ شارینا نے حدید کو ٹھیک سنایا تھا کہ ایرانیوں نے رومیوں سے شام اور مصر چھین لیے تھے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

 تاریخ کے مطابق یہ 614 عیسوی کا واقعہ ہے اس وقت روم کا بادشاہ فوکاس تھا وہ اپنی شاہانہ عیش پرستی میں ڈوبا ہوا تھا ۔اس نے اتنی بڑی شکست کو ہضم کر لیا، فوکاس صرف عیش و عشرت میں ہی نہ پڑا رہا بلکہ اس نے اپنے رعایا پر ظلم و تشدد شروع کردیا۔وہ اب لڑنے کی اور ایرانیوں سے مصر وشام فتح کرنے کی بات کرتا ہی نہیں تھا نہ سنتا تھا۔اس نے جب دیکھا کہ رعایا بھی احتجاج کررہی ہے اور رعایا میں سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں ہیں کہ ایرانیوں پر جوابی حملہ نہ کیا گیا تو وہ ان کے وطن روم پر بھی حملہ کر کے رومیوں کو غلام بنا لیں گے ، شاہ فوکاس نے لوگوں کے منہ بند کرنے کے لئے اپنی فوج استعمال کی اور فوج نے لوگوں پر بے پناہ ظلم و ستم ڈھائے۔شارینا نے ہرقل کی بغاوت کی بات بھی صحیح سنائی تھی اس بغاوت کی تفصیلات تاریخ میں آج بھی موجود ہے ہرقل، شارینا کی ماں کے ہاتھوں فوکاس کو زہر پلا کر بغاوت کی اور کامیاب ہو گیا۔ وہ خود روم کے تخت پر بیٹھا اور 625 عیسوی میں اس نے مصر و شام پر ایسی یلغار کی کہ ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا اور ان دونوں ملکوں کو سلطنت روم میں شامل کرلیا۔اس کے بعد ایرانیوں نے رومیوں سے ٹکر لینے کی جرات نہ کی۔ ایران اور روم جنہیں تاریخ اسلام میں قیصر روم اور کسر ایران کہا گیا ہے یہ طاقت آپس میں ٹکراتی رہتی اور لوگ پستے رہتے اور ان کا خون بہتا ہی رہتا تھا۔اس وقت کے وقائع نگار اس قسم کی تحریریں چھوڑ گئے ہیں کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ان دو طاقتوں میں سے کسی ایک کو بھی کوئی اور طاقت اٹھ کر کمزور کر سکے گی لیکن ایک تیسری طاقت ابھرتی چلی آ رہی تھی ۔یہ صرف ایک جنگی طاقت نہیں تھی بلکہ ایک نظریہ تھا ، ابتدا میں ایرانیوں اور رومیوں کے محلات میں اس کی خبریں پہنچی تو ان دونوں قوموں نے کہا کہ یہ صحرائے عرب کے لٹیرے بدو ہیں انہوں نے مذاق اڑا کر ان خبروں کو نظرانداز کردیا۔یہ تیسری طاقت افق سے اس طرح اٹھی جس طرح طوفان باد باراں کی کالی گھٹائیں بجلیوں سے لدی ہوئی اٹھا کرتی ہیں یا وہ صحرائی طوفان اٹھتا ہے جو ٹیلوں اور ٹھیکریوں کو اپنے ساتھ اڑا لے جاتا ہے، یہ تیسری طاقت ہتھیاروں سے کم اور ایک ایسے جذبے سے زیادہ لیس تھی جو اللہ نے وحی کے ذریعہ ان پر اتارا تھا یہ ایک ایسا لشکر تھا جس کی نفری بہت ہی تھوڑی تھی لیکن اسے اللہ نے ایسی قوت عطا کی تھی جسے ایمان کی قوت کہا جاتا ہے۔عرب کے ریگزاروں میں سے یہ جو لشکر اٹھا تھا اس کے سپہ سالاروں کے دلوں میں ملک گیری کی ہوس نہیں تھی بلکہ وہ اللہ کا یہ پیغام لے کر نکلے تھے کہ روئے زمین پر حکمرانی صرف اللہ تبارک وتعالی کی ہے اور اللہ کا کوئی بندہ کسی بندے کو اپنا غلام نہیں بنا سکتا، اللہ نے اپنا یہ پیغام اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اتارا تھا ،اللہ کے یہ پراسرار بندے باطل کو نیست و نابود کرنے کے لئے انسانوں کو آزاد کرنے کرانے کے لئے، بنی نوع انسان کو بدی سے بچانے کے لئے ، اور اللہ کے بندوں میں حقوق العباد کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے نکلے تھے۔یہ تیسری طاقت ایسی ابھری کہ تیز و تند طوفانوں کی طرح باطل کی قوتوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا اور بہا لے گئی ،اور ان بادشاہوں پر جو اپنے آپ کو ناقابل تسخیر قوت سمجھتے تھے یہ لشکر آسمانی بجلی بن کر گرے، پھر زمین و آسمان نے دیکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگی طاقتوں میں مٹھی بھر مجاہدین کے آگے ٹھہرنے کی تاب نہ رہی تھی، انہی مجاہدین کو ایرانیوں اور رومیوں نے عرب کے بدو کہا اور ہنس کر نظر انداز کر دیا تھا۔عراق اور شام کے نصیب جاگے اور اللہ کا پیغام ان خطوں میں پہنچ گیا۔ اور اب ہرقل بھاگا بھاگا پھر رہا تھا اور اسے کہیں ایسی پناہ نہیں مل رہی تھی جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ۔یہ 634 اور 635 عیسوی کا دور تھا۔

شارینا اور حدید کے گھوڑے اپنی چال سے چلے جا رہے تھے ۔دوپہر کے وقت انہوں نے ایک جگہ بیٹھ کر کچھ آرام کیا اور گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ کچھ کھا پی لیں، شارینا اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے آئی تھی۔ دونوں نے کھانا کھا لیا اور پھر چل پڑے۔ شارینا کی داستان ابھی ختم نہیں ہوئی تھی ،وہ حدید کو گزرے دنوں کی باتیں اور وہ حادثات اور واقعات سنا رہی تھی جن کی وہ عینی شاہد تھی۔ اتنی سی عمر میں ہی اس نے زمانے کے کئی تغیر اور نشیب و فراز دیکھ لیے تھے۔ ان کے جو اثرات شارینا پر مرتب ہوئے تھے وہ بھی حدید کو سناتی چلی جا رہی تھی۔
 جانتے ہو حدید ،ہرقل کی شکست کا اصل باعث کیا ہے؟ ــــــ شارینا نے کہا ــــــ اس نے جب شاہ فوکاس کا تختہ الٹا اور خود اس کا جانشین بن گیا تو لوگ بہت خوش ہوئے تھے۔لوگ شاہ فوکاس کے ظلم و تشدد سے بہت ہی تنگ آگئے تھے، اور کچھ لوگ تو اپنے وطن سے ہمیشہ کے لئے چلے گئے تھے۔لوگوں کو ایک تو یہ خوشی ہوئی کہ اب ہرقل ایرانیوں کو شکست دے گا اور روم کا وقار بحال ہو جائے گا ۔ رومیوں نے کبھی کسی سے شکست نہیں کھائی تھی اس لیے وہ ہرقل کوہی دل و جان سے چاہتے تھے  کہ ان کا یہ طاقتور اور انتہائی قابل جرنیل ان کی قومی ابرو سے شکست کا داغ دھو ڈالے گا اور رومی قوم کے سر پھر اونچے ہو جائیں گے۔لوگوں کو دوسری خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ شاہ فوکاس نے اپنی عیش و عشرت اور شاہانہ بد مستی کے اخراجات عوام کا خون چوس کر پورے کرنے شروع کر دیے تھے ،لوگ روزبروز غریب ہوتے چلے جارہے تھے اور شاہ فوکاس محصولات میں اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا ،لوگ روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترسنے لگے اور ان کے دلوں میں شاہ فوکاس کی نفرت بیٹھ گئی، اگر روم کی فوج بغاوت میں ہرقل کا ساتھ نہ دیتے تو تمام لوگ اس کی مدد کو پہنچ جاتے اور اس بغاوت کو ہر قیمت پر کامیاب کرتے۔بغاوت کے دوران کہیں کہیں شاہ پرست فوجی دستوں نے لوگوں پر مظالم توڑے تھے لیکن فوج کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ لوگ مسلح ہوکر ان فوجی دستوں کے خلاف میدان میں نکل آئے تھے۔ خونریز لڑائیاں بھی لڑی گئی تھی ، جن میں غیر فوجی لوگ خاصی تعداد میں مارے گئے تھے اور شاہ پرست فوج کا بھی جانی نقصان کچھ کم نہ تھا آخرکار یہ دستے لوگوں کے غیض و غضب کے آگے نہ ٹھہر سکے اور بچے کھچے سپاہی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ میں ہرقل کی شکست کی وجہ بتانے لگی تھی،لوگوں نے ہرقل کی تخت نشینی پر جشن منائے تھے ، ہرقل نے بھی لوگوں کو مراعات دے کر انہیں غربت سے نجات دلائی تھی اور لوگ رضاکارانہ طور پر اس کی فوج میں شامل ہو گئے تھے، تم جانتے ہو کہ فوجی تنخواہ کی خاطر لڑا کرتے ہیں انہیں مال غنیمت کا لالچ ہوتا ہے ۔ان کے اندر کوئی جذبہ تو ہوتا نہیں نتیجہ یہ کہ دشمن کا ذرا سا بھی دباؤ برداشت نہیں کرتے اور فوج کی فوج بھاگ اٹھتی ہے لیکن جب ہرقل نے ایرانیوں پر حملہ کیا تو اس کی فوج جانوں کی بازی لگا کر لڑی ان کے دل میں اب تنخواہ اور مال غنیمت کا لالچ نہیں تھا بلکہ قومی جذبہ تھا اور یہ لوگ اپنے قومی ساکھ بحال کرنے کے لیے خون اور جان کے نذرانے دینے پر آمادہ تھے، اور انہوں نے یہ نذرانے دیے اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو ایرانیوں کو شکست دینا بڑا ہی محال تھا ہرقل نے شام بھی فتح کرلیا اور مصر بھی رومیوں نے فتح کے جشن ایسے انداز سے منائے جیسے خوشی نے انہیں پاگل کر ڈالا ہو۔ہرقل نے مصر اور شام کے شہری انتظامات صحیح کر کے رواں کردیا اور فوج میں جو کمی واقع ہو گئی تھی وہ پوری کی اور دونوں ملکوں کے حالات نارمل ہوگئے ۔ہرقل نے جب دیکھا کہ اب اس کی بادشاہی کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تو اس نے لوگوں پر ٹیکس لگانے شروع کر دیے۔ ایرانیوں کے خلاف جنگ اسے بہت مہنگی پڑی تھی ۔خزانہ خالی ہو گیا تھا، شاہی خاندان نے عیاشیاں بھی کرنی ہوتی ہیں، ہرقل نے شاہی اخراجات پورے کرنے کے لئے اور خالی خزانے کو بھرنے کے لئے اسی طرح لوگوں کا خون نچھوڑنا شروع کردیا جس طرح شاہ فوکاس کیا کرتا تھا۔ان ٹیکسوں کے نفاذ سے پہلے شام اور مصر کے لوگ بھی ہرقل کو پسند کرنے لگے تھے ۔لیکن ہرقل نے ان سے نظر پھیر لی اور ان پر ایسابوجھ ڈال دیا کہ وہ ایک بار پھر نیم فاقہ کشی کی حالت کو پہنچ گئے۔ہرقل نے اپنے مذہب عیسائیت کی طرف توجہ دی ۔اس وقت عیسائیت چند ایک فرقوں میں بٹ گئی تھی، اگر ان فرقوں کا وجود ہی ہوتا اور ہر فرقہ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت وغیرہ کررہا ہوتا تو ہرقل اس فرقہ بندی کی طرف توجہ ہی نہ دیتا لیکن اس نے دیکھا کہ یہ فرقے ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور ہر لڑائی میں کچھ آدمی مارے جاتے اور کچھ ایسے زخمی ہوتے کہ ٹانگ یا بازو یا دونوں سے معذور ہیں ہوجاتے تھے۔ یہ ایسی صورت حال تھی جو خانہ جنگی کی صورت اختیار کرسکتی تھی ہرقل نے ہر فرقے کے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ بات کی تو اس نے دیکھا کہ ہر مذہبی پیشوا اپنے اپنے محاذ پر ڈٹا ہوا ہے اور وہ اپنے ہی فرقے کو صحیح العقیدہ سمجھتا ہے۔ہرقل نے فیصلہ کیا کہ وہ اس فرقہ بندی کو ختم کرکے دم لے گا ۔اس نے ایک سرکاری عیسائی مذہب تشکیل دے ڈالا اور حکم نامہ جاری کیا کہ تمام فرقوں کے عیسائی اس فرقے میں آ جائیں اور کوئی دوسرا فرقہ موجود نہ رہے ، ہرقل نے فرقہ بندی کو جرم قرار دے دیا، تم جانتے ہو کہ لوگ اپنے مذہبی عقیدے سے دست بردار نہیں ہواکرتے ،لوگوں نے ہرقل کا حکم تو سن لیا لیکن اپنے اپنے فرقے کے وفادار رہے اور ہرقل کا سرکاری مذہب قبول نہ کیا ، ہرقل نے لوگوں کا یہ ردعمل اور رویہ دیکھا تو اس نے فوج کو پوری اجازت دے دی کہ وہ لوگوں کو سرکاری مذہب کی طرف لائیں اور جو کوئی مزاحمت کرتا ہے اسے قتل کردیں چاہے قید خانے میں ڈال دیں۔ فوج نے من مانی شروع کردی گھر والوں کو خوف میں مبتلا کر کے عورتوں کی بے حرمتی کرتے اور ظاہریہ کرتے کہ یہ گھر یا یہ خاندان فرقہ بندی سے دستبردار نہیں ہو رہا۔ایک طرف لوگ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پڑے کراہ رہے تھے اور دوسری طرف ان پر زبردستی ایسا مذہب چھوڑ دیا گیا جسے وہ صحیح اور قابل عیسائیت نہیں سمجھتے تھے، وہ لوگ بادشاہ کا تو کچھ بگاڑ نہ سکتے تھے لیکن ہوا یہ کہ ان کے دلوں میں ہرقل کی نفرت پیدا ہو گئی اور انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک غلط قیصر روم کے خاطر قربانیاں دی تھیں۔ لوگوں کا ردعمل اس وقت سامنے آیا ۔جب تم لوگوں نے شام پر حملہ کیا میں جانتی ہوں کہ ہمارے محل میں مسلمان کا نام آتا تھا تو سب ہنس پڑتے اور مذاق کے لہجے میں کہتے تھے کہ یہ عرب کے بدو حملہ کرنے آ رہے ہیں، وہ یہی کہتے تھے کہ یہ لوگ صرف لوٹ مار کرنا ہی جانتے ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ ہرقل کی فوج مسلمانوں کی پہلی ضرب ہی نہ سہ سکی۔ یہ تو میں نے کبھی بھی نہیں مانا تھا کہ مسلمان اتنی بڑی طاقت ہو سکتے ہیں کہ ہماری فوج کو شکست دے دیں گے، لیکن ادھر ایرانیوں کو انہوں نے بھگا دیا اور ادھر ہرقل کے پاؤں اکھاڑ دیے۔ میں باہر نکل جایا کرتی تھی اور لوگوں سے پوچھتی تھی کہ مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور وہ اتنی بڑی طاقت کس طرح بن گئے ہیں؟ آہستہ آہستہ مجھے مسلمانوں کے متعلق معلوم ہوتا گیا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ہر کوئی کہتا تھا کہ مسلمان صرف خدا کی حکمرانی کو مانتے ہیں اور وہ بنی نوع انسان کے خیر خواہ ہیں، میں اپنے دو تین فوجی افسروں سے بھی ملی تھی جو محاذوں سے بھاگ کر پیچھے آئے تھے ،انہوں نے بتایا کہ مسلمان جب کسی شہر یا کسی بستی کو فتح کر لیتے ہیں تو وہ لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار نہیں کرتے اور کسی عورت کو خواہ وہ کیسی ہی حسین کیوں نہ ہو ہاتھ لگانا تو دور کی بات ہے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، پھر ان میں خوبی یہ دیکھی کہ وہ مفتوح لوگوں پر واجبی سا جزیہ عائد کر دیتے ہیں ،اور تمام لوگوں کی عزت اور جان و مال کے ضامن بن جاتے ہیں، یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ہرقل کی نفرت بیٹھی ہوئی تھی انہوں نے مسلمانوں کا سلوک اور رویہ دیکھا تو لوگوں نے بازو پھیلا کر ان کا خیرمقدم کیا۔

 لیکن شاریناـــــــــ حدید نے کہا تمہاری فوج کی شکست کی وجہ صرف یہ نہیں کہ یہاں کے لوگ ہرقل سے نفرت کرتے تھے اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کی محبت پیدا ہوگئی تھی۔ تم نے شاید سنا نہیں کہ مسلمان کس بہادری بے خوفی اور بے جگری سے لڑتے ہیں۔ ہر محاذ پر اور ہر لڑائی میں ہماری تعداد دشمن کی فوج سے چار گناہ کم ہوتی ہے۔ سنا ہے شارینا نے کہاــــــــ مسلمان مجھے اپنے کردار اور اخلاق کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ لڑنے کے جذبے کی بدولت اچھے لگتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ آ گئی ہوں حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس شخص ہرقل سے اتنی نفرت ہوگئی ہے کہ میں اب وہاں دل پر جبر کر کے وقت گزار رہی تھی مجھے پوری امید ہے کہ تم مجھے دھوکا نہیں دو گے۔
 دھوکا دینا ہمارے ہاں گناہ ہے ۔حدید نے کہا ــــــ ایک عورت کو دھوکہ دینا تو ہمارے ہاں گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے ۔میں تمہیں اتنی سی بات بتا دیتا ہوں کہ میں تم سے محبت کر سکتا ہوں لیکن اپنے فرائض اس محبت پر قربان نہیں کروں گا۔ میں تمہیں پہلے بتا چکی ہوں کہ مجھے صرف شہزادی نہ سمجھ لینا ــــــ شارینا نے کہا ــــــ میں تمہیں بتا نہیں سکتی کہ تمہیں دیکھ کر اچانک میرے دل میں تمہاری محبت کس طرح پیدا ہوگئ۔ی لیکن میں تمہارے ساتھ محبت کا جذباتی کھیل کھیلنے نہیں آئی، یہ تمہیں بتا دیتی ہوں کہ تم میرے دل میں اتر گئے ہو، لیکن تمہاری جس خوبی نے مجھے تمہارا گرویدہ بنایا ہے، وہ یہ تھی کہ تم نے ہرقل کے سامنے پوری جرات کے ساتھ بات کی اور بالکل صحیح بات کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ تم ہرقل کے قیدی ہو اور ہرقل تمہیں قتل کروا سکتا تھا تم نے وہی بات کی تھی جو تمہیں کرنی چاہیے تھی کوئی شخص ہرقل کے منہ پر ایسی بات نہیں کر سکتا ۔میں نے مسلمانوں کے کردار کے متعلق جو کچھ سنا تھا وہ تم نے سچ ثابت کردکھایا۔ شارینا کا حدید پر فریفتہ ہو جانا عجیب بات نہیں تھی، حدید خوبرو اور قدآور جوان تھا۔ اس کی تراشی ہوئی داڑھی اس کے چہرے کی رونق کو دوبالا کرتی تھی اس کے چہرے پر جلال تھا ، ایسا جلال انہی لوگوں کے چہرے پر ہوا کرتا ہے جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔

 اب وہ ایسے علاقے میں چلے جا رہے تھے جہاں ایک اور خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ وہ خطرہ یہ تھا کہ روم کی فوج کے شکست خوردہ سپاہی ایسی بری طرح پسپا ہوئے تھے کہ کئی ایک جنگلوں میں جا چھپے تھے۔ یہ سب فرداً فرداً یا دو دو چار چار کی ٹولیوں میں بکھرے ہوئے کسی ایسے شہر کی طرف جارہے تھے جو ابھی تک رومی فوج کے قبضے میں تھا ۔حدید اور شارینا نے دور سے ایسے تین فوجی دیکھے تھے لیکن وہ فوجی انہیں نہیں دیکھ سکے تھے فاصلہ خاصا زیادہ تھا۔ سورج افق پر پہنچ گیا تھا اور اب ان دونوں کو کہیں رک کر رات بسر کرنی تھی ،کچھ اور آگے گئے تو حدید نے گھوڑا روک لیا اور شارینا کے کندھے پر ہاتھ رکھا شارینا نے بھی گھوڑا روک لیا ۔حدید نے کان کھڑے کر لیے تھے ۔اس نے شارینا سے کہا کہ اسے گھوڑے کی ہنہنانے کی آواز سنائی دی ہے اور شاید کوئی آدمی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ جس طرف سے یہ آوازیں آئیں تھیں ،حدید اور شارینا نے اس طرف دیکھا اس طرح چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں تھیں جو اتنی اونچی نہیں تھی کہ کسی آدمی کو پوری طرح اپنے پیچھے چھپا سکتی۔ ہری گھاس اونچی تھی اور جنگلی پودے وغیرہ بھی تھے تقریبا تین سو قدم دور حدید اور شارینا کو تین آدمیوں کے کندھے اور سر نظر آئے وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور گھوڑوں کے کان نظر آ رہے تھے۔ سورج ابھی غروب ہو رہا تھا ابھی اتنی روشنی موجود تھی کہ اتنی دور سے آدمی دیکھے اور پہچانے جا سکتے تھے، حدیداور شارینا نے بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے ایک طرف کو موڑ لیے اور قریبی ٹیکری کے پیچھے چلے گئے تاکہ وہ تین آدمی انہیں نہ دیکھ سکے ۔انہیں توقع یہی تھی کہ ان سواروں نے انھیں نہیں دیکھا وہ ایک بلند ٹیکری کے اوٹ میں ہو گئے تھے اور گھوڑوں کی رفتار ذرا تیز کر لی تھی ۔ان تینوں سواروں کا رخ مشرق کی طرف تھا اور حدید شارینا مشرق کی طرف جارہے تھے یعنی ان کی سمتیں ایک دوسرے سے الٹ تھی ابھی وہ ایک میل بھی دور نہیں گئے ہونگے کہ انہیں ایک بڑی ہی خوبصورت جگہ نظر آئی۔ وہاں شفاف پانی کا چشمہ تھا اور یہ پانی چند گز لمبے چوڑے تالاب کی صورت میں اکٹھا ہو گیا تھا اور ایک طرف سے بہ رہا تھا ،ارد گرد ذرا اونچی ٹھیکریاں تھیں جن پر خوشنما درخت اور ہری بھری جھاڑیاں تھیں ٹیکریاں اور پانی کے درمیان کشادہ جگہ تھی جہاں سر سبز گھاس تھی اور یہ جگہ رات گزارنے کے لئے نہایت موزوں تھی۔ وہ گھوڑے سے اترے۔ حدید نے دونوں گھوڑوں کو گھاس کھانے کے لئے چھوڑ دیا اور خود ایک طرف بیٹھ گئے اور شارینا نے کھانے کا سامان نکالا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

سورج کب کا غروب ہو چکا تھا، لیکن چاند نے رات کو تاریک نہ ہونے دیا ،ہرے بھرے جنگل کی چاندنی اتنی شفاف تھی کہ سورج کے غروب ہونے کا احساس خاصہ کم رہ گیا تھا، حدید اور شارینا سونے کی تیاری کرنے لگے،
اب بے فکر ہو جاؤ حدید ـــــــــ شارینا نے کہا ـــــــــ اب ہمارے پیچھے کوئی نہیں آئے گا آرام اور اطمینان سے سو جاؤ۔
 میرے پاس تلوار ہے میں بے فکر ہوں، حدید نے کہا ـــــــــ کوئی آ بھی گیا تو پورا مقابلہ کرونگا۔
وہ تین سوار جو ہم نے دیکھے تھے ہماری فوج کے تھے ـــــــــ شارینا نے کہا ـــــــــ اچھا ہوا، انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا تھا اتنی دور سے میں پہچان تو نہیں سکی۔ شک ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک کو میں جانتی پہچانتی ہوں ،وہ اگلے گھوڑے پر سوار تھا اور اس کا سر جھکا ہوا تھا  وہ جو کوئی بھی تھے دور نکل گئے ہونگے ۔حدید نے کہا ـــــــــ صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی میدان جنگ سے بھاگ آئے ہیں اور کسی شہر کو جارہے ہیں ۔وہ لیٹنے ہی لگے تھے کہ انہیں دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔دونوں نے چونک کر اس طرف دیکھا ،وہاں ایک رومی سپاہی کھڑا تھا ۔
کیا تم دوڑتے آئے تھے؟ ـــــــــ شارینا نے اس سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟
بھوکا ہوں رومی سپاہی نے بھکاریوں کی طرح کہا ـــــــــ مسلمانوں نے ہماری فوج کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ باقی جو لوگ بچ گئے وہ ایسے پسپا ہوئے کہ بکھر کر ادھر ادھر بھاگ نکلے۔ مسلمان بڑی ظالم قوم ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ عرب کے بدو ہیں، جو صرف لوٹ مار کرنا جانتے ہیں، ان سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں لیکن وہ تھوڑے سے مسلمان جب ہمارے مقابلے میں آئے تو ہمیں شک ہونے لگا کہ یہ انسان نہیں جنات ہیں ۔ہماری اتنی بڑی فوج کو انہوں نے خون میں نہلادیا۔ میں آگے جا رہا تھا، آپ کو دیکھا تو آپ کے پاس چلا آیا کچھ کھانے کو دے دیں ورنہ بھوک سے مر جاؤں گا۔
 میدان جنگ سے بھاگنے والے بزدلوں کو بھوکا ہی مرنا چاہیے۔ شارینا نہ نے کہا ـــــــــ وہیں بیٹھ جاؤ میں کھانے کو تمہیں کچھ دیتی ہوں۔
حدید نے کھانے کی ایک دو چیزیں نکالی اور اٹھ کر اس رومی سپاہی کو دے دیں ۔ وہ وہیں بیٹھ گیا تھا ۔وہ بے تابی اور بے صبری سے کھانے لگا ،یہی مت بیٹھے رہو۔ شارینا نے کہا ـــــــــ یہاں سے چلے جاؤ اور کہیں جاکر کھاناکھاؤ۔

شارینا کا انداز اور لہجہ شہزادیوں والا تھا ۔حدید نے شارینا سے کہا کہ وہ اس طرح رعونت سے بات نہ کرے اور بیچارے کو اطمینان سے کھانا کھانے دے۔ رومی سپاہی وہیں بیٹھا کھانا کھاتا رہا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔رات کی خاموشی میں ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگیں۔ جو قریب ہی قریب آتی جارہی تھی ۔حدید کا ہاتھ فوراً تلوار کے دستے پر چلا گیا۔ جوں جوں رات گزرتی جا رہی تھی۔ چاندنی اور زیادہ شفاف ہوتی چلی جا رہی تھی ۔جس طرف سے گھوڑے کی ٹاپ آگے بڑھ رہے تھے۔ اس طرف دو چھوٹی ٹھیکریوں کے سرے آپس میں ملتے تھے لیکن ان کے درمیان راستہ تھا ایک رومی سپاہی اس راستے پر نمودار ہوا اس نے ایک گھوڑے کی باگ پکڑی ہوئی تھی اور گھوڑے پر ایک آدمی سوار تھا۔ انہیں دیکھ کر وہ رومی سپاہی جو شارینا کا دیا ہوا کھانا کھا رہا تھا ۔ اٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑ سوار کی طرف چل پڑا ۔وہ تو جھکا جھکا مریل سا آدمی تھا اور لگتا تھا جیسے وہ واقعی بھوک سے مرا جا رہا ہے لیکن وہ جب اٹھ کر سوار کی طرف گیا تو اس کی چال میں تیزی بھی تھی اور مستعدی بھی حدید تلوار ہاتھ میں لیے اٹھ کھڑا ہوا لیکن اس نے آگے ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔شارینا بھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ دونوں رومی سپاہیوں نے مل کر گھوڑ سوار کو گھوڑے سے اٹھایا اور اسے اٹھائے اٹھائے وہاں تک لے آئے، جہاں حدید اور شارینا نے سونے کے لیے کمبل بچھا ئے تھے ۔سپاہیوں نے سوار کو ایک کمبل پر بٹھادیا ۔
میں یقیناً خواب نہیں دیکھ رہا شارینا ـــــــــ سوار نے کہا ـــــــــ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں یہ حقیقت ہے۔  حیران اس لئے ہو رہا ہوں کہ ہماری ملاقات کہاں آ کر ہوئی ہے تم نے مجھے نہیں دیکھا تھا، میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا۔
ہاں کیلاش ـــــــــ شارینا نے کہا ـــــــــ تمہیں اس سے زیادہ حیران ہونا چاہئے جتنا ہو رہے ہو۔ میں نے ایسی توقع خواہش دل میں رکھی ہی نہیں تھی کہ تم مجھے راستے میں مل جاؤ گے ـــــــــ کیا تم زخمی ہو ؟
ہاں شارینا! ـــــــــ اس نے جواب دیا ـــــــــ دونوں ٹانگیں بری طرح زخمی ہیں۔
شاید ایک ٹانگ کی ہڈی بھی مجروح ہو گئی ہے تم یہاں کیسے آ پہنچی ہو اور یہ کون ہے؟
تم یقین نہیں کرو گے، شارینا نے کہا ـــــــــ میں کہوں کہ میں تمہاری تلاش میں نکلی ہوں اور تمہارے پیچھے ٹھوکریں کھاتی ہوں تو تم نہیں مانو گے۔
میں نہیں مانوں گا ـــــــــ اس زخمی نے کہا ـــــــــ اگر تمہارے ساتھ تین چار یا ایک دو ہی سہی ،رومی سپاہی ہوتے تو میں مان لیتا لیکن تمہارا یہ ساتھی رومی نہیں، یہ عربی معلوم ہوتا ہے اور یہ تمہارا محافظ لگتا ہی نہیں میں تمہارے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ مجھ سے تو پاؤں پر کھڑا نہیں ہوا جا رہا ،تم سچ بولو گے تو میں تمہارا راستہ نہیں روکوں گا، نہ مجھ میں ہمت ہے بہتر ہے سچ بول دو۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

یہ زخمی خوبرو اور جواں سال آدمی تھا۔ رومی فوج میں افسر عہدے پر تھا اور شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا نام کیلاش تھا۔ وہ ایک چھاپہ مار گروہ کا کمانڈر تھا ۔بہت ہی دلیر اور اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے ہر وقت تیار، اس کے شب خون ہرقل کی فوج میں بہت ہی مشہور تھے ،وہ چیتے کی طرح اپنے شکار پر جھپٹتا تھا اور بیشتر اس کے کہ اس کا شکار ذرا سنبھلے وہ اپنا کام کر کے غائب ہوچکا ہوتا تھا ۔شارینا کو یہ خوب رو چھاپا مار لڑکپن سے ہی اچھا لگتا تھا اور اس نے کیلاش کو اپنا آئیڈیل بنا لیا تھا کیونکہ وہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔اس لیے شارینا سے ملنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔شارینا نوجوانی میں داخل ہوئی تو لڑکپن کی پسندیدگی والہانہ محبت میں بدل گئی۔ کیلاش اسے ویسی ہی محبت سمجھتا تھا جیسے اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ہو جایا کرتی ہے لیکن شارینا کا یہ جذباتی معاملہ اس کی فطرت کا پابند تھا۔ اس نے حدید کو اپنے متعلق سنایا تھا کہ اس کی فطرت میں عسکری جذبہ غالب حیثیت رکھتا ہے ،اس نے اپنی فطرت کا جو نقشہ حدید کو دکھایا تھا وہ کیلاش کو بھی دکھایا لیکن کیلاش اس محبت کو صرف جذباتی رنگ دیتا تھا اور اس کی تان اس پر ٹوٹی تھی کہ وہ شارینا کے ساتھ شادی کر ے گا۔ شارینا نے اسے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جس روز وہ مسلمانوں کے کسی لشکر کو شکست دے کر آئے گا ،اس روز وہ اس کے ساتھ شادی کر ے گی۔کیلاش کی بہادری اور بے جگری کو تو وہ بڑی اچھی طرح جانتی تھی اور یہی وہ وصف تھا جس نے اسے کیلاش کی محبت میں گرفتار کر لیا تھا لیکن اس محبت کا کیلاش پر یہ اثر ہوا کہ اس نے جنگ پر جانے سے گریز شروع کر دیا اور کسی نہ کسی بہانے پیچھے ہی رہنے کی کوشش کی ۔شارینا کو اس کی یہ عادت اچھی نہ لگی۔ وہ تو اسے کہا کرتی تھی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو اور میں بھی مردوں کی طرح لڑوں گی کیلاش کو شارینا کی یہ باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔وہ کہا کرتا تھا کہ وہ ایک خوشبودار پھول ہے جسے وہ پھول کی صورت میں دیکھنا اور سونگھنا چاہتا ہے ۔اور اسکی خواہش یہ ہے کہ جب وہ میدان جنگ واپس آئے تو شارینا اسے اپنے بازوؤں میں لے کر اپنے ساتھ لگا لیاکرے ۔شارینا پر اس کا اثر یہ ہوا کہ اس نے کیلاش کی جو تصویر اپنے ذہن میں بنائی تھی اسے کیلاش نے بدنما اور داغدار کر دیا ۔شارینا نے اسے یہ تو نہ کہا کہ وہ جس کیلاش سے محبت کرتی تھی ،وہ کیلاش محض ایک تصور تھا اور شارینا تصور پرست لڑکی نہیں بننا چاہتی۔ پھر یوں ہوا کہ خالد بن ولید، ابو عبیدہ ،شرجیل بن حسنہ، رضی اللہ عنھم اور دوسرے نامور سالاروں کے قیادت میں مجاہدین اسلام کا لشکر قیصر روم کے خلاف طوفان کی طرح بڑھا تو کیلاش کو حکم ملا کہ وہ اپنا چھاپا مار گروہ لے کر آگے چلا جائے اور مسلمانوں کے خیمہ گاہوں پر شب خون مارے۔یہ جنگ طول پکڑتی جارہی تھی اور ہر محاذ پر فتح مسلمانوں کی ہوتی تھیں اور قیصر روم کی فوج پیچھے ہی پیچھے ہٹتی آرہی تھی۔ شارینا کے خیالوں میں وہ انقلاب آنے لگا تھا، جو وہ بڑی تفصیل سے حدید کو سنا چکی تھی۔ کیلاش اس کے دل سے اتر گیا تھا۔اس رات کیلاش بستیوں اور چھوٹی بڑی آبادیوں سے دور ایک جنگل میں شارینا کے راستے میں آ گیا اور ایسی حالت میں آیا کہ اس کی دونوں ٹانگیں بہت ہی بری طرح زخمی تھی، اور ان زخموں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھی، چلنے پھرنے سے معذور تھا اسے توقع تھی کہ شارینا کے دل میں اس کی محبت اگر پہلے سے بڑھی نہیں تو کم بھی نہیں ہوئی ہوگی۔ لیکن وہ شارینا کو اس جنگل میں ایک مسلمان کے ساتھ دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اس کا چہرہ دل سے اٹھنے والے قہر اور عتاب سے سرخ ہو گیا تھا۔
مجھے زیادہ حیرت اور پریشانی میں نہ رکھو شارینا! ـــــــــ کیلاش نے کہا ـــــــــ اب بتا دو کہ یہ کون ہے اور تم اس کے ساتھ کہاں جا رہی ہو؟ اگر یہ تمہیں زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہا ہوتا تو تم ہم کو دیکھ کر خوش ہوتی اور دوڑ کر ہماری پناہ میں آ جاتی۔
یہ مجھے نہیں لے جارہا کیلاش! ـــــــــ شارینا نے بڑی پختہ آواز میں کہا ـــــــــ میں اسے لے جا رہی ہوں اور تمہاری دنیا سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو رہی ہوں، مجھے بھول جاؤ کیلاش ہمارے راستے جدا ہوگئے ہیں۔
تمہیں لڑکیاں پاگل کہا کرتی ہیں ـــــــــ کیلاش نے کہا ـــــــــ وہ ٹھیک ہی کہتی ہیں تمہیں یہاں دیکھ کر بھی مجھے یقین نہیں آتا کہ تم ایک مسلمان کے ساتھ بھاگی جا رہی ہو، تم نے شاہی خاندان کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔
کیا تمہارے شاہی خاندان کی کوئی عزت رہے گئی ہے؟ ـــــــــ حدید نے مسکراتے ہوئے پوچھا اور اسے بولنے کی مہلت دیئے بغیر کہا ـــــــــ دوسروں کی عزت کے ساتھ کھیلنے والوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے ،جس انجام کو تمہارا شاہی خاندان پہنچ گیا ہے ۔ان بادشاہوں کی بیویاں گن لو ـــــــــ شارینا بول پڑی ـــــــــ ان کی داشتائیں گن لو۔ نہیں گن سکو گے۔ شاہی خاندان کے آدمی جہاں کہیں کوئی خوبصورت لڑکی دیکھتے ہیں، حکم دے دیتے ہیں کہ اسے محل میں پہنچا دو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔ ماں باپ اور بھائی بہنوں سے کم سن لڑکیاں چھین جھپٹ کر اپنے ساتھ لے آتے ہیں، جو علاقے فتح کرتے ہیں، وہاں ان کی فوج لڑکیوں پر ٹوٹ پڑتی ہے، میری ماں کو قافلے سے اغوا کیا گیا اور روم کے بادشاہ فوکاس کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔ بادشاہ کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ ان ان کے والدین کی فریاد سنے ،جن کی بیٹیاں اغوا ہو جاتی ہیں اور ان بیٹیوں کو ڈھونڈ نکالنے کا حکم دے، لیکن یہاں بادشاہ قزاقوں سے بدتر ہے یہی وہ وجوہات ہیں جنہوں نے میرے دل میں اس شاہی خاندان کی نفرت پیدا کی ہے۔

کیلاش بھائی! ـــــــــ حدید نے کہا ـــــــــ آج تمہاری ایک لڑکی جارہی ہے اور تم کہتے ہو کہ شاہی خاندان کی بےعزتی ہو گئی ہے میں اس لڑکی کو زبردستی نہیں لے جارہا ۔یہ میری یا کسی اور کی داشتہ نہیں بنے گی ،نہ اسے تفریح طبع کا ذریعہ بنایا جائے گا ،اگر میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہو ں تو سپہ سالار کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکوں گا۔ ایسا بھی نہیں ہوگا کہ یہ سپہ سالار کو اچھی لگے تو وہ اس پر قبضہ کر لے گا۔اسے ہمارے یہاں اتنی ہی عزت ملے گی اور اتنا ہی وقار ملے گا جتنا ہمارے خلیفہ کے گھر کی مستورات کو اور سپہ سالاروں کی بہو بیٹیوں کو ملتا ہے ،عزت اور وقار دیکھنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ چلو، وہاں تمہارا علاج ہوگا اور تم نے اگر اسلام قبول کر لیا تو تمہاری عسکری قابلیت کے مطابق تمہیں عہدہ ملے گا۔
 تم خوش قسمت ہو کہ میں زخمی ہوں ـــــــــ کیلاش نے کہا ـــــــــ میں زخمی نہ ہوتا تو تمہیں اس سے زیادہ بولنے کی مہلت نہ دیتا جتنا تم بول چکے ہو، حدید کی مسکراہٹ کچھ اور زیادہ کھل اٹھی اور اس نے کچھ بھی نہ کہا ۔کیلاش کے ساتھ جو دو سپاہی تھے ،وہ اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور شاید کیلاش کے حکم کے منتظر تھے۔ وہ اس گفتگو میں دخل نہیں دے رہے تھے ،کیلاش ایک تو افسر تھا اور دوسرے شاہی خاندان کا آدمی تھا ۔یہی وجہ تھی کہ اس کے دونوں سپاہیوں کو بولنے کی جرات نہیں ہورہی تھی۔ کیلاش یہاں تک اس طرح پہنچا تھا کہ جب وہ اور اس کے دونوں سپاہی حدید اور شارینا کو دور گھوڑے پر سوار نظر آئے تھے تو ان دونوں نے ان تینوں کو دیکھ لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ کیلاش اور اس کے سپاہیوں نے انہیں نہیں دیکھا لیکن انہوں نے دیکھ لیا تھا۔ کیلاش کو کچھ شک ہوا تھا کہ یہ شارینا ہے یا جو کوئی بھی ہے، اس کی شکل و صورت شارینا سے ملتی جلتی ہے ،اگر یہ شارینا نہیں تھی تو آخر ایک خوبصورت لڑکی تھی اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا جبکہ کیلاش کے ساتھ دو سپاہی تھے، اس نے لڑکی کو پکڑنے کے لئے اپنے گھوڑے کا رخ ادھر کو کر لیا تھا۔ حدید اور شارینا ایک بڑی لمبی ٹیکری کی اوٹ میں اپنے سفر کو جارہے تھے ۔کیلاش کے گھوڑ سوار سپاہی انہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ کیلاش نے انہیں روک کر کہا کہ گھوڑوں سے اترے ،گھوڑے پیچھے رہنے دیں اور پاپیادہ دبے پاؤں انہیں تلاش کریں۔ کیلاش کہیں پیچھے رک گیا تھا، حدید اور شارینا نے چشمہ دیکھا اور وہ جگہ انہیں اچھی لگی اور وہیں رک گئے۔ رات تاریک ہو چکی تھی اور پورا چاند ابھر آیا تھا آخر وہ دونوں سپاہیوں کو نظر آ گئے، دونوں اکٹھے آگے آئے تھے ،ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کیلاش کو اطلاع دینے جا رہا ہے۔ وہاں سے دوڑ پڑا اور یہ تھی وہ قدموں کی آہٹ جو حدید اور شارینا نے سنی تھی اور ادھر دیکھا تو ایک سپاہی کھڑا تھا۔ شارینا نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ دوڑتا آیا ہے،سپاہی نے یہ فریب کاری کی کہ وہ بھوکا بھکاری بن گیا اور روٹی کی بھیک مانگنے لگا ۔شارینا نے اس پر کچھ غصہ جاڑا تھا لیکن اسے واقعی بھوکا اور مجبور دیکھ کر کھانے کو کچھ دے دیا تھا۔ اتنے میں اس کا ساتھی کیلاش تک پہنچ گیا اور وہ کیلاش کو اور اپنے ساتھی کے گھوڑوں کو ساتھ لے آیا۔ کیلاش نے جب شارینا کو قریب سے دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ تو تھی ہی شارینا اور اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شاہی خاندان کی ایک لڑکی جنگل میں ایک اجنبی کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ کیلاش نے شارینا کے ساتھ اور بھی بہت سی باتیں کیں ،لیکن شارینا پر کچھ اثر نہ ہوا اس نے مسلمان پر لعن طعن کی اور اسلام کی بھی توہین کر ڈالی۔ شارینا کو یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی کہ یہ مسلمان ڈاکو اور لٹیرے ہیں اور ان کا نہ کوئی خدا ہے نہ مذہب! میں خوش قسمت نہیں کہ تم زخمی ہو ۔حدید نے کہا ـــــــــ تم خوش قسمت ہو کہ معذور ہو اور پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے ہم زخمی پر عورت پر بچے اور بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے، تم نے میری بےعزتی کی ہے، میرے مذہب کی توہین کی ہے لیکن میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا، یہ اس اسلام کا حکم ہے جسے تم اچھا نہیں سمجھ رہے بلکہ کہتے ہو کہ یہ تو کوئی مذہب ہی نہیں۔
 شارینا! ـــــــــ کیلاش نے کہا ـــــــــ اگر تم برا نہ جانو تو میں اپنے ان سپاہیوں کے ساتھ رات یہیں گزار لوں۔
 میں برا کیوں جانو گی؟ ـــــــــ شارینا نے کہا جہاں جی چاہتا ہے وہاں لیٹ جاؤ۔
 اور ہمارے پاس کھانے کا سامان ہے ـــــــــ حدید نے کیلاش سے کہا ـــــــــ لے لو اور کھا لو ،کوئی اور ضرورت یا تکلیف ہو تو مجھے بتانا۔
مجھے کچھ نہیں چاہیے، کیلاش نے کہا ـــــــــ اور شارینا سے مخاطب ہوا ؛شارینا تم مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو رہی ہو، میری صرف یہ بات مان لو کہ تھوڑی سی دیر کے لیے الگ میرے پاس بیٹھنا ـــــــــ بیٹھ جاؤں گی، شارینا نے کہا ـــــــــ لیکن ایک بات میری بھی مان لو،مجھ سے دور جا کر لیٹنا۔
کیلاش نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ یہاں سے تھوڑی دور ٹیکری کے قریب میرا بستر بچھا دیں ۔
سپاہی دوڑے گئے، گھوڑوں سے سفری بستر کھول لائے اور کچھ دور زمین پر بچھا دیا۔ دونوں نے کیلاش کو اٹھایا اور بستر پرلیٹا دیا، کیلاش کے کہنے پر سپاہیوں نے اپنے سونے کا انتظام اس سے کچھ دور کیا۔
 شارینا کیلاش کے بستر پر جا بیٹھی اور اس سے پوچھا کہ وہ اور کیا بات کہنا چاہتا ہے؟ کیلاش اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ چلی چلے۔
 شارینا اسے اپنا فیصلہ سناچکی تھی کہ وہ واپس جانے کے لئے نہیں جارہی ،کیلاش منت سماجت پر اتر آیا اور پھر اسے مسلمانوں سے ڈرایا لیکن شارینا پر کچھ اثر نہ ہوا ۔
آخر شارینا اس سے مایوس چھوڑ کر واپس حدید کے پاس جا پہنچی اور اس کے ساتھ بچھے ہوئے کمبل پر لیٹ گئی ،وہ دن بھر کے تھکے ہوئے تھے بڑی جلدی سو گئے۔

جاری ہےــــــــ

اپنا تبصرہ بھیجیں