وہ پیدا ہوا تو عجیب تھا، نہ بچہ نہ بچی، جنس تیسری، ماں حیران، باپ پریشان، باپ شکوہ کناں مالک سے؛ ربا یہ کیا دے دیا، ماں سجدہ ریز؛ الحمد اللہ مالک، تو نے جیسا دیا، جو بھی دیا، تیرا شکریہ، اٹھا کے سینے لگایا، ماں کا دودھ بچے یا بچیاں ہی نہیں پیتے تیسری جنس بھی پیتی ہے، جوں جوں بڑا ہوتا گیا، رولا بڑھتا گیا، باپ کہتا بھلی لوک؛ یہ مجھے دے میں اسے چھوڑ آتا ہوں اس کی برادری کے پاس، ماں گلے سے لگا لیتی، میں اس کی ماں تم باپ تو اس کی برادری اور کون سی؟ زور ڈالتا تو وہ منتوں پر اتر آتی؛ کیا میرے سرتاج، اتنا دیا ہوا خدا کا، کھانے دو اسے بھی، اونچ نیچ سمجھانے لگ جاتا، مگر صاحب کون جیتا آج تک مامتا سے؟ رولا معاشرہ بناتا ہے۔
باپ باہر جاتا، اشارے ہونے لگتے، وہ دیکھ، اس کے گھر کھسرا پیدا ہوا ہے، اوئے وہ دیکھ کھسرے کا باپ آرہا ہےسرگوشیاں مگر ایسی کہ جس کے بارے میں کی جا رہی ہیں وہ سن لے، برادری والے شور کرتے، بھائی بے عزتی ہو رہی ہماری؛ اسے کیوں نہیں چھوڑتے کسی گرو کے پاس ؟لوگ کہتے ہیں ہمیں وہ دیکھو ان کے چچاذاد کے گھر کھسرا ہے، ماموں ذادکے گھر کھسرا ہےوہ پکا ارادہ کر لیتا مگر بیوی نہ مانتی سو ناکام رہتا ۔پانچ سال گزر گئے، اللہ نے مزید اولاد دی، اک بچہ اک بچی، باپ کی آنکھوں کے وہ تارے، کھسرے کو قریب بھٹکنے نہ دیتا، جا ماں کے پاس، بھائی بہن حیران ہوتے پر ان کو سمجھ کہاں تھی ابھی، وہ ماں کا لاڈلا، باقی دونوں کو وقت کم ملتا، اسے ذیادہ، باپ شکوہ کرتا تو کہتی باپ کا پیار بھی تو دینا ہے اسے تبھی تجھے ذیادہ لگتا۔
پانچ سال بعد شوہر نے پکا ارادہ کر لیا، اب کی بار کوئی بات نہیں مانوں گا چھوڑ کے آوں گا کہیں، بیوی کو کہا تو اک نظر ڈال کے سمجھ گیا، اب کی بار زمانہ جیتنے والا، پر صاحب بات وہی کون جیتا مامتا سے؟ ہاں میں سر ہلایا اور اس کا سامان باندھنے لگی، شوہر کچھ دیر بعد آیا تو دو بیگ تیار، اتنا سامان اس کا؟ نہیں میرا بھی ہے، کیوں؟ تو کہاں جا رہی ہے؟ جہاں یہ جائے گا، تم گھر سے نکالو، دروازہ بند کرو، پھر میں جانوں یہ جانے اور اس کا وہ خدا جس نے اس سانس دی زندگی دی وہ خدا جو فضول کوئی چیز پیدا نہیں کرتا، وہ خدا جو پتھر میں بھی غذا دیتا کیڑے کو، یہ انسان ہے ہاتھ پاوں سلامت، میں بھی تو ہوں کر لیں گئے گزارہ، بس تم گھر سے نکالو بلکہ ہٹو میں خود چلی جاتی ہوں، شوہر تھا، زندگی بیتی تھی بیت رہی تھی جانتا تھا کب ہتھے سے ایسی اکھڑتی ہے کہ ہاتھ ہی نہیں آتی، آج اکھڑ گئی تھی وہی کرنا تھا اسے جو کہہ رہی تھی اور ایسا وہ چاہتا نہیں تھا، مامتا سے کوئی نہیں جیت سکتا صاحب، پھر ذکر نہ ہوا۔
خاموشی ہو گئی، تین سال تک، اک بیٹی اور آ گئی، پر ماں کا لاڈلا وہ کھسرا ہی رہا، وہ نویں سال میں تھا جب ماں چلی گئی، کچھ بھی نہ تھا، رات سوئی، سویرے اٹھ نہ سکی، روشنیوں بھرا گھر ویران ہو گیا مگر اس کی تو دنیا ہی ویران ہو گئی، ابھی قبر کی مٹی خشک ہی نہ ہوئی کہ باپ نے گھر سے نکال دیا، جا کہیں چلا جا اب تیرا اس گھر میں کچھ نہیں، خاموشی سے نکلا، ماں کی قبر پر گیا، دل بھر کر رویا، بہت رویا، من ہلکا ہوا تو شہر کی جانب روانہ ہو گیا، قدم قدم پر ستم کرنے والی دنیا میں گم ہو گیا، باپ نے شکر ادا کیا کہ جان چھوٹی مگر ابھی گہرا گھاو باقی، گھر سے نکالے جانے کے بعد وہ درخت سے گرے پتے جیسا تھا، ہوا جدھر چاہے اڑا کے لے جائے، ایسا ہی ہوا، اک جگہ سے دوسری جگہ، یہاں، وہاں، کبھی کسی ورکشاب میں چھوٹےکی نوکری ملی تو کہیں ہوٹل کا بیرا بنا-
بے پناہ حسن اور خدوخال میں نسوانی پن اس کے لیے عذاب ٹھہرا، انسان نما بھیڑیے اس پر چھپٹتے، وہ بھاگ پڑتا، اسی بھاگ دوڑ میں شہر کی مشہور معروف شخصیت “حاجی ہوٹلاں والے” کے ہوٹل پہ جا پہنچا، حاجی ہوٹلوں کا مالک تھا، شہر میں کئ ہوٹل، مارکیٹیں، پلازے، ٹرانسپورٹر بھی تھا، دلیر اور اصولی آدمی، صاف شفاف، کھرا پن، اصول تھا اس، بابا ہوٹل بنا ہوا ہے، آپ کے لیے، کرسیاں لگی ہوئیں دریاں چارپایاں بچھی ہوئیں، یہاں بیٹھو، کھاو پیو، جب تک جی چاہے، یہاں رہو، کوئی اٹھانے والا نہیں مگر دنگا روڈ پر، نشہ ہوٹل سے باہر، یہاں ایسا کچھ کرو گئے تو پچھتاو گئے۔
یہاں اس کے قدم جم گئے، شناخت ظاہر ہو گئ، درندوں نے پیش قدمی کی، مگر یہاں حاجی تھا، کہتا؛ لاڈے، تو جیسا بھی ہے، جو بھی ہے، جب تک حاجی کے پاس ہے کوئی مائی کا لعل تجھے کچھ نہیں کہہ سکتا، ہوا بھی ایسا، دو چار نے پیش قدمی کی، حاجی آڑے آیا خوب بے عزت کیا، دوسرے خود ڈر گئے، حاجی کے پاس گزرے وقت کو وہ بہترین وقت قرار دیتا ہے، حاجی اس کا استاد تھا، زمانے کے سرد گرم سمجھانے والا
کھسروں کے گرو ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان جیسے ہوتے ہیں ان کی برادری کے، جہاں ملیں پھر ساتھ لے جانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، اسے بھی کئی گرو لینے آئے پر حاجی نے بھگا دیے، گرو جی، میرے جیتے جی تو ایسا سوچو بھی مت، بعد میں جو چاہے کر لینا، وہ بچا رہا، دو سال تک وہ برتن دھوتا رہا، چائے پلاتا رہا، کھانا کھلاتا رہا، دو سال بعد ہوٹل کے ساتھ پان سگریٹ کا کوکھا پہلے مالک نے بیچا تو حاجی نے خرید کے اسے وہاں بٹھا دیا؛ لے لاڈے؛ یہ تیری دکان، کما اور کھا، سترہ سال تک وہ اسی کھوکھے میں رہا، گرو آتے رہے وہ نہ نہ کرتا رہا، کیسے چھوڑتا اپنے محسن کو ؟
مگر اک دن محسن خود چلا گیا، دشمن دار تھا، اسی کی نظر ہو گیا، وہ دوسری بار جی بھر رویا، یتیم سا محسوس کیا خود کو، سائے سے یکدم گہری چلچلاتی دھوپ میں آپڑا، حاجی کیا مرا، اس پر تو نشتروں کی بوچھاڑ ہو گئ، کون روکتا، گرووں نے پھر حلہ بولا؛ کہا، لاڈے ادھر کیا رکھا، قسمیں تو ہیرا ہے ہیرا، ساتھ چل، تجھے تیری قیمت بتائیں، وہ نہ جاتا مگر نشتر دن رات چپھتے، کوئی ٹھکانا تو کرنا تھا، سو کھوکھا چھوڑا، گرو کے آستانے پہ آبیٹھا، وہ واقعی ہیرا تھا، گرو نے تراشا تو اسے خبر ہوئی، اک سال میں ہی ڈانس میں طاق کر دیا، سٹیج پر جاتا تو سماں باندھ دیتا، ایسا ناچتا وجد میں کہ نظر نہ ٹکتی تماش بینوں کی، ہاتھ نہ رکتے ویل کراتے ہوئے، یہ نئ زندگی تھی اس کی، دو تین سال یہاں بیتے، یہاں سب تیسری جنس تھے، سو بٹوارہ نہیں تھا۔
اس کی وجہ سے گرو کا گروپ سارے شہر میں مشہور ہو گیا، نام تھا ، ہے جی کوئی لاڈا نام کا کھسرا، گرو، اسے لاڈلی کہتا۔
اس دن وہ فارغ تھا، کچھ دن پہلے گرو نے اسے اک پلاٹ لے کر دیا تھا، اس نے سوچا ادھر چکر لگا لے ویسے بھی ان دنوں دھندا ذرا ٹھنڈا ہے تو کیوں نہ اس کی چاردیوای ہی بنوا لے، یہی سوچ کر گرو سے اجازت چاہی تو اس نے کارڈ جھولی میں پھینک دیا، لاڈلی یہ آج رات کے پرو گرام کا کارڈ ہے، نام پتا لکھا ہے، آج کدھر نہ جا، بڑا پروگرام ہے آرام کر، اس نے کارڈ پر نظر ڈالی بلانے والے کا نام پڑا
“ملک تاج خان”
نام پڑھتے ہی اک سنسی اس کے پورے بدن میں دوڑتی چلی گئ کارڈ گر گیا، پروگرام اس نے بہت کیے تھے، معروف ڈانسر تھا، روز کا معمول تھا، پروگرام بڑا ہو یا چھوٹا، اسے غرض نہیں تھی-
مگر یہ ملک تاج کا پروگرام ؟ ۔۔۔؟
عجیب حالت ہو گئی اس کی، وہ ناچنا چاہتا تھا اور نہیں ناچنا چاہتا تھا، اس نے گرو سے پوچھا؛ گرو، یہ پروگرام کس نے دیا ہے؟ ؛اے لو، لاڈلی ملک تاج پرانا شوقین ہے، اس نے خود دیا پروگرام اور کس نے دینا تھا، پھر گرو یادیں تازی کرنے لگ گیا؛ ہائے ہائے لاڈلی کیا وقت تھا مجھ پر، بلکل تیری طرح سماں باندھ دیتی تھی میں اور یہ ملک تاج ۔ہائے ہائے کیا شوقین تھا، وہ سنتا رہا، حیران ہوتا رہا
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
پروگرام اک بڑی حویلی میں تھا، دو حصے تھے پروگرام کے، اک میں عام عوام تھی، گرو کے مطابق دس بیس روپے والے شوقین، دوسرا حصہ معززین کے لیے تھا، جہاں نوٹوں کی بارش ہوا کرتی تھی، گرو کو حکم ملا تھا کہ خاص پیس بچا کے رکھنا، گرو نے اسے اور اس کے ساتھ اک اور ڈانسر کو روک لیا مگر لاڈے نے انکار کردیا؛ گرو، آج خاص پروگرام میں بس میں ناچوں گا، کوئی دوسرا نہیں، ایسے ہوتا نہیں تھا مگر نہ جانے اس کے لہجے میں کیا بات تھی، گرو انکار نہ کر سکا ۔
پروگرام شروع ہو گیا وہ پردے کے پیچھے بیٹھا دیکھتا رہا، خوب ہاو کار مچی ہوئی تھی مگر اس کی نظریں دولہے پر ٹکی تھیں، پلک چھپکائے دیکھ رہا تھا، گرو سے یہ انہماک چھپ نہ سکا، پوچھ بیٹھا؛ لاڈلی، سچ بول کیا مسلہ ہے آج تجھے، میں دیکھ رہی ہوں تو ہنسنا چاہتی ہے اور رو پڑتی ہے، رونا چاہتی ہے تو ہنس پڑتی ہے، تو خوش بھی بہت ہے اور غمگین بھی بہت ہے، بول مسلہ کیا ہے؟ دو آنسو آنکھوں سے نکلے ، میک ذدہ رخساروں پر لکیر ڈالتے کہیں گر گئے اور وہ روتے ہوئے ہنسنے لگا، گرو بس آج دیکھو پھر، نہ کوئی ایسا پروگرام دیکھا ہو گا نہ آئندہ دیکھو گئے، گیارہ بچے کے بعد دوسرا راونڈ شروع ہو گیا، یہ اک بڑے ہال میں تھا، گاو تکیے لگے ہوئے اور محدود تعداد میں کرسیاں بھی، تعداد بھی محدود تھی مگر جو تھے سب ٹن تھے، بوتلیں کھلی پڑیں تھیں، گلاس کھنک رہے تھے، چرس بھرے سگریٹوں کا دھواں جالے بناتا، غائب ہو رہا تھا، سب کے سب معززین شہر تھے، بڑی عزتوں والے تھے، رات کا اندھیرا جن کے کرتوت چھپا لیتا ہے-
اس کی نظر تمتمائے چہرے والے ملک تاج پر ٹک گئی، وہ بھی پئیے ہوئے تھا، ساز جھڑ گئے، وہ گھنگھرو پہنے میدان میں اتر گیا، نغمے کے بول بلند ہوئے؛ مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی، چھن چھن چھن چھنا، اک بجلی سی کوندی اس کے رگ و پے میں، پاوں تھے ٹکتے ہی نہیں تھے، ساز کیا کہہ رہے ہیں، آواز کیا کہہ رہی ہے کچھ پتا نہیں وہ بے خود تھا، گرو سمیت سب کے سب پرانے شوقین حیرت ذدہ، ایسا ڈانس کہیں نہیں دیکھا تھا، گرو کو اس کی آنکھوں میں نمی نظر آئی، ساتھ والے سے بولا؛ ہائے ہائے رنگیلی، مجھے تو لاڈلی کی آنکھوں میں لہو کے اتھرو نظر آ رہے ہیں مولا خیر کرے پر آج خیر نہیں ہے، وہ ناچتا رہا، نوٹ نچھاور ہوتے رہے، بہکے بہکے شرابی آگے بڑھتے، لپٹنے کی کوشش کرتے، لپٹ نہ سکتے، دور جا گرتے مگر ملک تاج جب بھی قریب گیا وہ خود سمٹ کے بانہوں میں آگیا، اس کے تمتمائے چہرے پر فخر وغرور کی لالی ابھری دیکھو، جو کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا، میرے پاس خود چلا آتا ہے، تین گھنٹے گزر گئے، وہ نہیں تھکا پر دیکھنے والے لڑھک گئے، مدہوش ہو گئے، بے ترتیب ہو گئے، پروگرام رک گیا، ملک تاج اور کچھ اور ہوش میں تھے، رواج ہے کے ایسے موقعے پر جو میزبان ہوتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں نوٹوں کے ہار گلے میں ڈالتے ہیں، کچھ نقد دیتے ہیں اور تب ڈانس پارٹی رخصت ہوتی ہے، وہی ہوا ملک تاج نے سب کے گلوں میں ہار ڈالے۔
وہ آخر میں تھا، نگاہیں متلاشی کسی کی، خلاف معمول نوٹوں کا تھیلا اس نے نوٹ لینے والے سے لے لیا تھا، اب اس کے ہاتھ میں تھا، آخرکار وہ ملک تاج کے روبرو پہنچا، نگاہیں ملیں، اک شیطانیت سی لپکی ملک کی آنکھوں میں، ہاتھ بہکے رخساروں پر لگے اور ہار پہنا دیا، ختم۔
نہیں نہیں کہاں ختم، لاڈے نے ہاتھ پکڑ لیا، پہچانا ملک جی؟
گرو تن کر کھڑا ہو گیا، جس داستان نے آج منکشف ہونا ہے اس کا وقت آن پہنچا، نہیں لاڈلی، پہلی بار دیکھا تجھے پر گرویدہ ہو گیا ہوں، اس نے ہار اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا؛ پر ملک جی میں نے تو پہلی بار نہیں دیکھا، آہستہ آہستہ قریب ہو گیا بانہوں میں سمٹ گیا، مدت سے ترسا ان بانہوں میں آنے کے لیے، اتنا قریب ہونے کے لیے، ہائے ہائے لاڈلی ۔آج تو نے دل جیت لیا، ہاتھ جانب جیب بڑھے کچھ نچھاور کرنے کو مگر لاڈلی نے پکڑ لیے؛ نہیں ملک جی اب بس، اب اور کچھ نہیں لینا، اب میں نچھاور کرنا ہے اور نچھاور ہونا ہے، خاموشی، بس اک گرو جانتا تھا کچھ ہونے والا ہے، پر کیا؟ یہ اسے بھی معلوم نہیں تھا، لاڈلی نے ہار اتارا، ملک کے گلے میں ڈال دیا، آنکھیں ڈالیں آنکھوں میں، آج تک کھسرے لیتے ہیں؛ ویل، ودھائی ہار، پر میں آج دے کر جا رہا ہوں ملک جی، نوٹوں کا تھیلا کھولا، نوٹ پکڑے، ملک پر پھینک دیے، مجھے پہچانو ملک جی، میں وہ بدنصیب ہوں جس کا باپ اس پر عاشق ہے، یہ لو ملک جی، یہ اک کھسرے کی ویل اپنے باپ پر، دل دھک سے رہ گئے، گہرا ہوتا نشہ گہرہ اترتا گیا، بند ہوتی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں، گروکو جھٹکا لگا، ساتھی تھرا کر رہ گئے، جاگتے سوتے شوقین جاگ گئے، یہ کیا کہہ رہے ہو؟
نوٹوں کو پرے دھکیلتا ملک چیخ پڑا، پر کہاں، کہاں تک جائے، وہ نوٹ پھینکتا آتا تھا روتا جاتا تھا، کہتا جاتا تھا؛ ویل، افلاق احمد کی، ملک تاج پر، اک آدھے بیٹے کی ویل، اک آدھی بیٹی کی ویل، ویل، بھائی کی شادی پہ، باپ پر ویل، ملک تاج میں افلاق احمد، آنسہ کا بیٹا، یہ دیکھ، ادھر آنکھ کھول، یہ میں یہ، یہ تو اور یہ میری جنت، میری ماں، یہ روشنا، تیری بیٹی، آنسہ کی بیٹی، میری بہن، پر کہاں، رشتے چلتے ہیں پگ سے، وہ تو تھا، دھتکار دیا، اب کون بھائی کون بہن، وہ بلک بلک کے رو دیا، خود کیا رویا، نشئوں تک کو رلا دیا، گرو رو پڑا، ساتھی رو پڑے، ملک تاج، آنسو تھے اس کی آنکھوں میں، ملک تاج بلک پڑا، دھرتی زمین، ذرا جگہ تو دے مجھ پر الٹ تو پڑ، مجھےچھپا تو سہی، مگر صاحب، ایسے موقعوں پر دھرتی جگہ نہیں دیا کرتی پیروں سے پکڑ کے یوں دھڑام سے گرا دیتی ہے جیسے وہ گر گیا تھا دھرتی پر اپنی نظروں سے، لاڈا ۔نوٹ پھینکتا جاتا، روتا جاتا، لاکھوں ملے آج تیرے گھر پر اک نوٹ نہیں لے کر جانا، یہ لے یہ بھی ویل، اتنا ہی کھاتا میں جتنے تو نے آج اک رات میں نچھاور کیے مجھ پر، اک کمرے میں رہ لیتا مگر مگر….. گرو آگے بڑھا، ساتھی آگے بڑھے، سنبھال لاڈے، وہ بلکتا نوٹ پھینکتا رہا، تڑپتا رہا؛ گرو، میرا گرو ہے تو الٹ دے جو آج ملا، چل الٹ، مجھے لے چل یہاں سے، گرو اس کا گرو تھا ۔
میں آپ وہ کوئی نہیں پہنچ سکتا اس درد تک جو افلاق احمد عرف لاڈے عرف لاڈلی کو تھا، گرو پہنچ سکتا تھا سو پہنچا، الٹ دیا نوٹوں کا تھیلا ملک تاج پر، جو اب نوٹوں میں چھپا سسک رہا تھا، اللہ جانے کس بات پر…….