اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر15)

جب نوشی بدوؤں کے علاقے میں چلی گئی تھی، اس کا شکست خوردہ جرنیل باپ بلبیس پہنچا اور فرما کی شکست کی خبر سنائی تو وہاں موت کا سکوت طاری ہو گیا ۔ اس کی فوج کے بکھرے ہوئے سپاہی جب ایک ایک دو دو کر کے بلبیس پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کی شجاعت اور بہادری کی ایسی باتیں سنائی کہ بلبیس میں جو فوج تھی اس پر دہشت سی طاری ہو گئی ۔
دو یوروپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رومی فوج میں یہ بات پھیل گئی اور سپاہیوں کی زبان پر چڑھ گئی کے مسلمانوں کی فوج کی تعداد بہت ہی تھوڑی نظر آتی ہے لیکن جب لڑائی شروع ہوتی ہے تو ان کی تعداد کئی گناہ بڑھ جاتی ہے ،اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار اور غیبی طاقت ہے ورنہ انسان اس طرح نہیں لڑ سکتے۔
جاسوسوں نے سپہ سالار عمر بن عاص کو رومی فوج کی یہ کیفیت بھی بتا رکھی تھی، یہ اس جذبہ جہاد کا کرشمہ تھا جس سے مجاہدین سرشار تھے اور انہوں نے اپنا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ جوڑ رکھا تھا۔
فتح اور شکست کے فیصلے میدان جنگ میں ہی ہوا کرتے ہیں اور تاریخ ان فوجوں اور ان کے جرنیلوں کی ہی کہانیاں سناتی ہے جو میدان جنگ میں لڑتے ہیں ،لیکن جنگ کے پس پردہ کچھ اور ڈرامے بھی ہوتے ہیں جو آنے والے نسلوں تک کم ہی پہنچتے ہیں یہ ان لوگوں کی انفرادی کہانیاں ہوتی ہیں جو میدان جنگ سے دور ایسا کردار ادا کرتے ہیں جو فتح یا شکست پر اثرانداز ہوتا ہے، لیکن ایسے کردار تاریخ سے متعارف نہیں ہوتے کبھی کوئی اس دور کا وقائع نگار تاریخی نوعیت کے احوال و کوائف اکٹھے کرتے ہوئے کسی ایسے گمنام کردار سے متعارف ہو گیا تو اس نے پردوں کے پیچھے ایک کہانی تاریخ کے دامن میں پوری تفصیل سے ڈال دی،
ان میں غدار بھی ہوتے ہیں اور نوشی اور عباس بن طلحہ جیسے وہ کردار بھی جو جذبوں سے سرشار ہو کر کسی دنیاوی لالچ کے طلبگار نہیں ہوتے، نوشی ایسی ہی ایک لڑکی تھی جسے قومی جذبے نے دیوانہ بنا ڈالا تھا لیکن وہ آخر انسان تھی اور نوجوان۔
ایسی کہانیاں اگلی نسلوں تک سینہ بسینہ پہنچتی ہے یا کوئی وقائع نگار تفصیل سے ایسے واقعات بیان کر کے نئی روایت آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر جاتا ہے۔
آئیے مدینہ چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں سے ابھی تک سپہ سالار عمرو بن عاص کو کمک کیوں نہیں بھیجی گئی تھی،،،،،، عمرو بن عاص امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جنگی صورتحال سے قاصدوں کے ذریعے آگاہ رکھتے تھے ،اور ہر بدلتی صورت تفصیل سے لکھوا کر بھیجتے تھے ۔تیز رفتار اور بڑی ہی سخت جان قسم کے قاصد تھے جنہیں اس کام کی خصوصی تربیت دی گئی تھی۔
نقشے پر مصر اور مدینہ کا نقشہ دیکھیں بڑا ہی زیادہ فاصلہ ہے ،وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس دور میں گھوڑے کی پیٹھ پر یہ فاصلہ ایک مہینے میں طے ہوتا تھا ، یا اس سے زیادہ دن لگتے تھے لیکن تیز رفتار قاصد چند دنوں میں یہ فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے۔ یہ راستہ ان علاقوں میں سے گزرتا تھا جو مجاہدین اسلام نے سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیے تھے، قاصد خشکی کے راستے سے بحیرہ قلزوم پھر بحر احمر کے کنارے کنارے مدینہ تک آتے جاتے تھے۔ تمام راستے میں چوکیاں بنا دی گئی تھی جن میں نہایت اعلی نسل کے تازہ دم گھوڑے تیار رکھے جاتے تھے۔ قاصد تھکے ہوئے گھوڑوں کو چوکی پر چھوڑتے اور تازہ دم گھوڑے پر سفر جاری رکھتے تھے۔ کہیں کہیں وہ کھانے پینے اور ذرا سا سستانے کے لئے رک جاتے تھے لیکن کیا دن اور کیا رات وہ گھوڑے کی پیٹھ پر مسلسل سفر میں رہتے تھے اس طرح پیغام رسانی کا نظام صحیح معنوں میں برق رفتار بنادیا گیا تھا۔

ہر چند روز کے بعد عمرو بن عاص کا قاصد مدینہ پہنچتا اور تازہ صورتحال کا پیغام امیرالمومنین تک پہنچاتا تھا۔ تاریخ کے مطابق ہر پیغام میں عمرو بن عاص کمک کے لیے لکھتے تھے لیکن انہوں نے ایسی بات کبھی نہیں لکھی تھی کہ انہیں کمک نہ ملی تو وہ پیش قدمی روک دیں گے اور یہ جنگی مہم آگے نہیں بڑھ سکے گی، ان کا ہر پیغام حوصلہ افزا ہوتا تھا جیسے انہیں کسی بھی قسم کی مایوسی نہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس قسم کے حوصلہ افزا پیغامات کو دیکھ کر کمک کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے، ان کی زیادہ تر توجہ مصر پر ہی مرکوز تھی کیونکہ عمرو بن عاص بہت ہی تھوڑی نفری لے کر ایسی صورتحال میں مصر چلے گئے تھے کہ امیرالمؤمنین کے اہم ترین اور بزرگ مشیر اس مہم جوئی کے خلاف تھے۔
خود حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بہت ہی سوچ بچار کے بعد عمرو بن عاص کو مصر پر لشکر کشی کی اجازت دی تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقیناً سوچتے ہونگے کہ مصر میں ناکامی ہوئی تو انہیں مصاحبوں اور مشیروں کے آگے سرمشار ہونا پڑے گا کہ منع کرنے کے باوجود مجاہدین کے لشکر کو یقینی ہلاکت میں ڈال دیا گیا تھا۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مصر پر لشکر کشی کے سب سے بڑے مخالف بزرگ صحابی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ تھے اس مخالفت میں وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراضگی تک بھی پہنچ گئے تھے ،لیکن اب وہی حضرت عمر پر زور دے رہے تھے کہ عمرو بن عاص کو کمک بھیجی جائے پھر کیا وجہ تھی کہ کمک میں تاخیر ہورہی تھی ۔ تاریخ نویسوں نے اس سوال پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہیں اور اس طرح کچھ وجوہات سامنے آگئی ہے۔
یہ خاص طور پر پیش نظر رکھیں کہ اس دور کے مشیر اور دیگر سرکردہ افراد جن سے امیرالمومنین مشورے طلب کیا کرتے تھے ہمارے آج کے سیاسی لیڈروں جیسے نہیں تھے، ان کے یہاں اپنی انا کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، ان کے پیش نظر دین اور ملت کا سودوزیاں رہتا تھا ،ایسا نہیں ہوتا تھا کہ معلوم کرلیتے کے امیرالمومنین کیا چاہتے ہیں اور پھر ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے، ایسا بھی نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین اپنی مخالفت کو برحق ثابت کرنے کے لئے اس کام میں بھی روڑے اٹکاتے جو دین اور سلطنت اسلامیہ کے لیے بہتر ہوتا تھا ،وہ سب اپنے آپ کو سربراہ مملکت کے آگے نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالی کے آگے جواب دہ سمجھتے تھے، پہلے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کمک بھیجنے پر زور دے رہے تھے پھر دوسرے مخالفین نے بھی کہنا شروع کردیا کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو یوں تنہا نہ چھوڑاجائے سب جانتے تھے کہ عمرو بن عاص خالد بن ولید کی طرح خطرہ مول لینے والے سپہ سالار ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پورے لشکر کو جانوں کے خطرے میں ڈال دیں۔
آخر ایک روز امیرالمؤمنین نے فجر کی نماز کے بعد سب کو روک لیا اور کمک کے مسئلہ پر بات شروع کی حضرت عمر بڑے ہی اثر انگیز انداز سے اور دلوں کو موہ لینے والے الفاظ میں بات کیا کرتے تھے ،انہوں نے ایسا نہ کہا کہ آج مخالفین بھی کمک بھیجنے پر زور دے رہے ہیں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اچھی نیتوں کا اجر بہت اچھا دیا کرتا ہے ،پھر انہوں نے کمک کی تاخیر کی وجوہات بیان کی جو مختصراً یوں ہے کہ عراق سے کسریٰ ایران کو بے دخل کر دیا گیا تھا لیکن اس کی حالت اس شیر جیسی تھی جو بری طرح زخمی ہو چکا ہو لیکن ابھی مرا نہ ہو خطرہ تھا کہ زخمی شیر آخری حملہ ضرور کرے گا اس خطرے کے پیش نظر عراق کے محاذ سے کوئی نفری نکالی نہیں جاسکتی تھی۔
ادھر پورے کا پورا ملک شام سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن طاعون کی وباء مجاہدین کے لشکر کا تقریباً تیسرا حصہ چاٹ گئی تھی، اور بہت سے نامور سپہ سالار دنیا سے اٹھ گئے تھے ،اس قدرتی آفت کی پیدا کردہ کمی کو پورا کرنا تھا اس میں مزید کمی نہیں کی جاسکتی تھی۔
پھر حضرت عمر نے ایک وجہ یہ بتائی کہ انھیں یقین ہے کہ عمرو بن عاص عریش کو فتح کر چکے ہیں اور زیادہ سے زیادہ آگے بڑھے تو فرما تک جائیں گے اور وہاں کمک کا انتظار کر کے آگے بڑھیں گے۔
حضرت عمر کو پہلے عمرو بن عاص نے یہ پیغام بھیج دیا تھا کہ بدوؤں کا ایک لشکر ان کے ساتھ آن ملا ہے۔ جس نے رسد کا مسئلہ حل کر دیا ہے اور اب یہ لشکر لڑائی میں بھی شامل ہو گا۔ حضرت عمر کو اس پیغام سے تسلی ہوگئی تھی کہ کمک کی ضرورت پوری ہو گئی ہے اس روز انہوں نے اور سب نے خوشی کا اظہار کیا تھا کہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو تو اللہ کس طرح مدد کرتا ہے ،کسی کو توقع تھی ہی نہیں کہ غیرمسلم بدوؤں کی اتنی زیادہ نفری مجاہدین سے آن ملے گی اور رسد اور کچھ اور ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ پھر فرما کی فتح کی اطلاع بھی آگئی امیرالمومنین نے کہا کہ اسی کمک سے اتنا بڑا شہر فتح کرلیا گیا ہے اور اب عمرو بن عاص مدینہ کی کمک کے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔
مسجد میں جو حضرات موجود تھے ان میں سے بعض نے کچھ مشورے دیے اور اس مسئلہ پر کچھ باتیں ہوئیں آخر سب مطمئن ہوگئے۔

چند ہی دن گزرے تھے کہ فرما سے عمرو بن عاص کا ایک اور پیغام آ گیا، پچھلے پیغام میں انہوں نے صرف فتح کی اطلاع دی تھی، اب انہوں نے تفصیلات لکھ کر بھیجی تھی جس میں یہ بتایا کہ اپنا کتنا جانی نقصان ہوا ہے اور بدو کتنے مارے گئے ہیں، ان تفصیلات میں ایسے شدید زخمیوں کا بھی ذکر تھا جو ہمیشہ کے لئے یا کچھ عرصے کیلئے لڑائی کے قابل نہیں رہے تھے ۔فرما کی فتح نے جانوں کی قربانی خاصی زیادہ لی تھی۔ بدو اس لیے زیادہ مارے گئے تھے کہ انھیں کسی منظم لشکر کے ساتھ رہ کر لڑنے کا تجربہ نہیں تھا۔ عمرو بن عاص نے لکھا کہ اللہ کی طرف سے انہیں کمک مل گئی تھی لیکن اب اپنے لشکر اور بدوؤں کی اس کمک کی تعداد اتنی رہ گئی ہے کہ کمک کی شدید ضرورت ہے۔
عمرو بن عاص نے یہ بھی لکھا کہ وہ اگلی صبح بلبیس کی طرف کوچ کر رہے ہیں ۔
اس اطلاع نے امیرالمومنین کو پریشان کردیا انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اتنے تھوڑے لشکر کے ساتھ بلبیس کو محاصرے میں لینا کس قدر بڑا خطرہ ہے۔ عمرو بن عاص نے اتنی جلدی پیش قدمی کے فیصلے کا جواز بھی لکھا تھا ہم یہ جواز پہلے بیان کرچکے ہیں ، یعنی رومیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے اور انہیں یہ تاثر بھی نہ ملے کہ مسلمان کمزور ہوگئے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس جواز سے بڑی اچھی طرح واقف تھے ، وہ جانتے تھے کہ رومیوں کی چال یہ ہے کہ مسلمان مصر میں اور زیادہ اندر آ جائیں اور پھر انہیں گھیرے میں لے لیا جائے، اور اسکے رسد کمک کے راستے بند کردیئے جائیں، لیکن دشمن کی چالوں سے صرف واقف ہو جانا ہی کافی نہیں ہوتا ۔ ان چالوں کو بے کار کرنے کے لئے کوئی نئی چال سوچنی پڑتی ہے۔
عمرو بن عاص انکی چال اور نیت کو سمجھ کر ہی فرما سے کوچ کر رہے تھے، اور جلدی سے جلدی بلبیس پہنچنا چاہتے تھے، لیکن سوال یہ تھا کہ ان کے ساتھ مجاہدین کی جو تعداد تھی کیا وہ بلبیس کو فتح کرنے کے لئے کافی تھی؟،،،،
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو لشکر تھا اس کی نفری رومیوں کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی تھی، بعض مؤرخوں نے یہ تعداد چار ہزار لکھی ہے بعض نے کچھ کم بعض نے ذرا زیادہ لکھی ہے، ان سب کی بتائی ہوئی تعداد پر غور کیا جائے تو اندازہ یہ ہے کہ بدوؤں کو ملا کر لشکر کی تعداد پانچ ہزار سے چند سو زیادہ تھی۔
لشکروں کو باقاعدہ فوج کی حیثیت حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ہی دی تھی ،باقاعدہ تنخواہ اور مراعات مقرر کی تھی لیکن مصر پر فوج کشی کے وقت تک یہ تبدیلی نہیں لائی گئی تھی۔ لوگ رضاکارانہ طور پر لشکروں میں شامل ہوتے تھے۔ اب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے شدت سے محسوس کیا کہ عمرو بن عاص کیلئے کمک بھیجوانا ہے۔ تو انہوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو اس وقت رائج تھا وہ یہ کہ مسجد میں اعلان کیا گیا کہ مصری کیلئے کم از کم چار ہزار تعداد کا لشکر بھیجنا ہے اور لوگ آگے آئیں ۔
مشہور ومعروف مؤرخ ابن الحکم نے چند ایک مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر پہلے ہی ایک صحابی پر تھی جن کا نام گرامی زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھا ،جنگ کا بہت تجربہ رکھتے تھے اور قیادت کی مہارت میں خاصے مشہور تھے زبیر بن العوام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
ایک روایت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین کی نظر ان پر تھی لیکن ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب سے عمرو بن عاص مصر میں داخل ہوئے تھے زبیر رضی اللہ عنہ نے چند مرتبہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں مصر عمرو بن عاص کے لشکر میں بھیجا جائے ۔ تاریخ میں یہ ذکر نہیں کہ انھیں کیوں نہ بھیجا گیا ، قرین قیاس یہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انہیں ریزور میں رکھا ہوگا کہ جہاں صورتحال بہت ہی مخصوص ہو جائے زبیر کو وہاں بھیجا جائے بہرحال اب حضرت عمر نے انہیں بلایا۔
ابوعبداللہ ۔۔۔۔امیرالمومنین نے زبیر کو ان کے دوسرے نام سے مخاطب ہوکر پوچھا ۔۔۔کیا تو مصر کی عمارت کا خواہشمند ہے؟
نہیں امیرالمومنین!،،،،، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔۔۔ مجھے عمارت کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ اگر آپ مجھے کسی محاذ پر بھیجنا چاہتے ہیں تو میں جہاد اور مجاہدین کی اعانت کے لیے جاؤں گا ،دل میں کوئی لالچ لے کر نہیں، میں جانتا ہوں آپ مجھے مصر بھیجنا چاہتے ہیں میں سن چکا ہوں کہ مصر کے لیے کمک تیار ہو رہی ہے ،میں جاؤں گا اور جب دیکھوں گا کہ عمرو بن عاص نے مصر فتح کر لیا ہے تو اس کے کسی کام میں دخل نہیں دوں گا اور اسے عمارت کے رتبے پر دیکھ کر روحانی مسرت کا اظہار کروں گا۔
اس وقت کے عربی معاشرے میں زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو جو حیثیت حاصل تھی اس کا مختصر سا ذکر ہو جائے تو بے محل نہ ہوگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد بھائی اور صحابی ہونا ہی ان کی عظمت کی بہت بڑی دلیل تھی۔ لیکن انھیں اس سے زیادہ عظمت عطا ہوئی تھی ،انہوں نے سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا، حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شامل تھے، اور جب مکہ سے مدینہ کو ہجرت ہوئی تو اس میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ،یہ شرف زبیر کو ہی حاصل تھا کہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اور ہر بار جان کی بازی لگا کر لڑے۔
جنگ خندق میں ضرورت محسوس ہوئی کے عیسائیوں کے دو قبیلوں کے متعلق معلوم کیا جائے کہ وہ اہل قریش کا ساتھ دے رہے ہیں یا نہیں اور اگر ان کا ساتھ دے رہے ہیں تو ان کی کتنی نفری ہے اور کب کمک کے طور پر آرہی ہے، یہ بڑا ہی خطرناک کام تھا جس کے لیے زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور دشمن کے اندر جاکر صحیح خبر لے آئے، پھر ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوسی کی ضرورت محسوس کی تو آپ کو رضاکار ڈھونڈنے پڑے یہ بھی بڑا ہی پرخطر کام تھا اس کے لئے بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر دشمن کی بستیوں میں گئے اور صحیح خبریں لے آئے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے زبیر بن العوام میرا حواری ہے۔
اس سے زیادہ عظیم اور مقدس خراج تحسین اور کیا ہوسکتا ہے۔ فتح مکہ کے دن مجاہدین کے لشکر میں تین علم تھے جن میں سے ایک زبیر بن العوّام رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ، اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ، بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ سے خصوصی عقیدت اور محبت رکھتے تھے ،ان میں کچھ ایسے اوصاف تھے کہ کوئی ایک بار ان سے متعارف ہو جاتا تو ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا ،اور جس لشکر کی قیادت انہیں دی جاتی وہ لشکر ان کے اشاروں پر جان قربان کرتا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ زبیر بن العوام کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ مصر کے لیے کمک تیار کریں۔ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ پہلے ہی بے تاب تھے کہ انہیں جہاد کی کوئی ذمہ داری سونپی جائے، انہوں نے اسی روز سے کام کی ابتدا کردی یہ کام ایک یا دو دنوں میں ہونے والا نہیں تھا ،زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے دن رات ایک کر دیا اور لوگوں کو اکٹھا کرنے لگے یہ بتانا ممکن نہیں کہ انہوں نے کمک کتنے دنوں میں اکٹھا کر لیا، البتہ یہ بالکل واضح ہے کہ وہ جو کمک انھوں نے تیار کیا اس کی تعداد چار ہزار تھی۔
یہ کمک حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پیش کی گئ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس چار ہزار نفری کی ایک ایک مجاہد کو دیکھا اور پھر اسے چار حصوں میں تقسیم کیا پھر ہر حصّے کا الگ سالار مقرر کیا، ہر سالار کے ماتحت ایک ایک ہزار مجاہدین تھے، ان میں ایک تھے زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، دوسرے عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ، تیسرے تھے مقداد بن اسود سلمی رضی اللہ عنہ، اور چوتھے تے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ، ان چاروں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری زبیر بن العوام کو دی گئی۔
کمک کی تعداد کے متعلق تاریخ میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے ۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ کمک کی تعداد بارہ ہزار تھی، وہ تاریخ لکھنے والے مؤرخوں نے جن میں بٹلر بھی شامل ہے صحیح بات لکھی ہے اور بتایا ہے کہ یہ غلط فہمیاں کیوں کر پیدا ہوئیں۔
یہ غلط فہمی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اس کمک کے ساتھ جو تحریری پیغام عمرو بن عاص کو بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔
میں تمہارے لئے چار ہزار مجاہدین بھیج رہا ہوں ایک ایک ہزار مجاہدین پر ایک ایک سالار مقرر کر دیا ہے، یہ سالار جنگ لڑنے اور لڑانے کی اتنی مہارت اور اتنا جذبہ رکھتے ہیں کہ یوں سمجھو کہ ایک ایک سالار ایک ایک ہزار مجاہدین کے برابر ہے ،تم یوں سمجھ لو کہ میں تمہیں بارہ ہزار سرفروش مجاہدین بھیج رہا ہوں ،اور مجھے پوری امید ہے کہ بارہ ہزار جاں باز دشمن سے مغلوب نہیں ہوسکتے دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔
اس تحریر سے کچھ تاریخ نویس یہ سمجھ بیٹھے کہ کمک کی تعداد بارہ ہزار تھی ، صحیح تعداد چار ہزار تھی، صحیح طور پر نہیں لکھا جاسکتا کہ یہ کمک کتنے دنوں بعد عمرو بن عاص تک پہنچی، وہ تو تیز رفتار قاصد تھے جو حیران کن رفتار سے اتنا زیادہ فاصلہ چار پانچ دنوں میں طے کر لیا کرتے تھے، یہ پورا لشکر تھا جو اتنی تیز رفتاری سے سفر نہیں کرسکتا تھا ۔
جب یہ کمک نماز فجر کے بعد مدینہ سے روانہ ہوئی تو امیرالمومنین رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، اور تقریباً تمام بزرگ صحابہ اکرام اس کمک کے ساتھ مدینے سے دور تک گئے اور پھر ایک جگہ رک کر مجاہدین کو الوداع کہی، سب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے مدینہ کی منڈیروں پر عورتیں دامن پھیلائے کھڑی مجاہدین کے لیے دعائیں کر رہیں تھیں۔

آخر ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے کمک کا انتظار کیے بغیر لشکر کو بلبیس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیدیا۔ کوچ فجر کی نماز کے بعد ہوا تھا اور یہ فروری 640 عیسوی کا پہلا ہفتہ تھا۔
ایک روز پہلے عمرو بن عاص نے ایک پیغام مدینہ امیرالمومنین کی طرف بھیج دیا تھا جس میں انہوں نے ایک تو بلبیس کی طرف پیش قدمی کی اطلاع لکھی اور دیگر امور کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ کمک کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے،،،، ہم اس پیغام کا ذکر پہلے کر چکے ہیں۔
عمرو بن عاص نے ایک روز پہلے لشکر سے خطاب کیا تھا اس سے پہلے بھی ایک بار انہوں نے لشکر سے خطاب کیا اور بتایا تھا کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے لیے مصر کتنا اہم ہے۔ مصر کو انہوں نے پیغمبروں کی سرزمین کہا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جس راستے پر وہ مصر فتح کرنے جارہے ہیں یہ پیغمبروں کا راستہ ہے ۔اس راستے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ،اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام، جا چکے ہیں اس راستے سے حضرت عیسی علیہ السلام، اور حضرت موسی علیہ السلام بھی گئے تھے۔ اب عمرو بن عاص نے جو لشکر سے خطاب کیا اس میں انہوں نے کہا کہ ہم جس شہر بلبیس کو فتح کرنے جا رہے ہیں وہ فرما سے زیادہ اہم اور قیمتی شہر ہے۔ اور رومی یہ شہر ہم سے بچانے کے لیے بے دریغ جانوں کی قربانیاں دیں گے لیکن اللہ کا حکم ہے کہ ہم یہ شہر ہر قیمت پر فتح کریں۔
انہوں نے لشکر کو جذباتی الفاظ سے بھڑکایا نہیں اور انہیں سبز باغ نہیں دکھائے نہ ایسا تاثر دیا کہ رومی بلبیس کو پلیٹ پر رکھ کر انہیں پیش کر دیں گے، انہوں نے حقیقت بیان کی اور جن دشواریوں کا سامنا تھا وہ من و عن بیان کر دی، انہوں نے بتایا کہ اپنی تعداد بہت تھوڑی ہے اور دشمن کی جنگی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ عریش اور فرما ہمارے لئے صرف اس لئے آسان تھی کہ رومی ہمیں دھوکہ دے کر مصر میں کچھ اور آگے لانا چاہتے تھے، ہم اور آگے آگئے ہیں اور مزید آگے جا رہے ہیں یوں سمجھ لو کہ بلبیس ایک پھندہ ہے جس میں رومی ہمیں پھنسا کر ہمیشہ کے لئے بیکار کر دینا چاہتے ہیں۔
مت بھولو کہ تمہارا براہ راست تعلق اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ ہے، سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ تم اللہ کے حکم سے اللہ کے راستے پر جا رہے ہو یہ ہمارا ایمان ہے، اور ہمارا دشمن ہمیں شکست دے کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان غلط ہے، اور یہ کسی انسان نے خود ہی گھڑ لیا ہے، ہمیں کفار پر ثابت کرنا ہے کہ ہم دین الہی کے پیروکار ہیں۔ اور اپنے ساتھ یہی دین لائے ہیں جو ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ اور اس کے ساتھ اللہ کا یہ حکم کہ یہ دین اللہ کے ہر بندے تک پہنچانا ہمارا فرض ہے ،اس فرض کی ادائیگی کے لئے ہمیں سمندروں کا سینہ چیرنا ہے پہاڑوں کے جگر چاک کرنے ہیں اور دشت و جبل کو اپنے قدموں تلے روندنا ہے۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے لشکر کو تمام حقائق سے آگاہ کیا اور انہیں ٹھوس قسم کی ہدایات دیں، انھوں نے لشکر کو پیش قدمی کے دوران جس طرح تقسیم کیا اور جس ترتیب سے لشکر کو پیش قدمی کرنی تھی وہ سب لشکر کو بتایا اور اچھی طرح ذہن نشین کرایا کہ یہ تقسیم اور یہ ترتیب کیوں کی گئی ہے۔
پیش قدمی کے دوران لشکر کی تقسیم اور ترتیب یہ تھی کہ سب سے آگے ہر اول دستہ تھا اور اس دستے سے بہت آگے چند ایک مجاہدین مقامی کسانوں اور محنت کشوں کے بھیس میں بکھرے ہوئے جارہے تھے ۔
وہ جاسوس تھے اور دیکھ بھال کرتے جا رہے تھے کچھ دستہ ہراول سے دور پیچھے تھے ان کے دائیں اور بائیں خاصے فاصلے پر ایک دستہ جا رہا تھا اور ایک دو دستے عقب میں آرہے تھے ،مطلب یہ کہ لشکر ایک مسلح قافلے کی صورت میں نہیں جا رہا تھا۔
یہ ترتیب یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو اچھی طرح معلوم تھا کہ رومی جرنیل انہیں اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں وہ کسی بھی وقت لشکر پر پیش قدمی کے دوران بہت زیادہ نفری سے دائیں اور بائیں سے یا عقب سے حملہ کر سکتے ہیں۔ جاسوسوں نے سپہ سالار کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ رومی مجاہدین کے لشکر کو پہلے آگے لا کر اور پھر گھیرے میں لے کر مارنا چاہتے ہیں۔
عمرو بن عاص روایتی لڑائیاں لڑنے والے سپہ سالار نہیں تھے وہ دشمن کی شاطرانہ چالوں کو سمجھتے تھے اور ایسی ہی چال چلنے کی مہارت رکھتے تھے ،دشمن کی نیت کو اوران چالوں کا توڑ کرنے کو جو ابھی دشمن کے ذہن میں ہوتی تھی۔ عمرو بن عاص نے جاسوسی کا اتنا کارگر نظام قائم کردیا تھا کہ ان کے جاسوس تو جیسے دشمن کے پیٹ میں اتر کر خبر لے آتے تھے۔
یہ مسافت بڑی طویل تھی اور دشوار گذار بھی دشوار گزار اس لئے کہ اس علاقے میں آ کر دریائے نیل کئی ایک شاخوں میں تقسیم ہو جاتا تھا ، بعض نہریں تو زیادہ چوڑی نہیں تھی اور یہ عام نہروں جیسی ہی تھی، لیکن بعض شاخیں دریاؤں جیسی تھی پانی کی افراد کی وجہ سے علاقے میں دلدل تھی اور درختوں کی بہتات تھی اور کچھ علاقہ پہاڑی اور غیر ہموار بھی تھا نیل کی ان شاخوں کو عبور کرنا بھی ایک مسئلہ تھا سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ تو یہ تھا کہ رومی فوج کسی بھی علاقے میں انھیں گھیرے میں لے سکتے تھے۔
تاریخ کے مطابق راستے میں ایک بڑا ھی قدیم قصبہ آیا جس کا نام مجدل ہوا کرتا تھا ۔ اس قصبے میں جاکر دیکھا رومی فوج کا کوئی ایک سپاہی بھی نظر نہ آیا عمرو بن عاص نے اس قصبے کے قریب پڑاؤ کیا اور قصبے کے سرکردہ افراد کو بلا کر پوری تفتیش کی کہ یہاں کبھی رومی فوج کی کچھ نفری رہی ہے یا نہیں، اور رومیوں نے شہر کے لوگوں کو کوئی فوجی اور جنگی نوعیت کی بات بتائی ہے یا نہیں۔
معلوم ہوا کہ اس قصبے میں کبھی فوج نہیں آئی اور کبھی انہیں فوج کی طرف سے کوئی ہدایت یا کوئی حکم دیا بھی نہیں گیا۔
ان سرکردہ افراد نے عمرو بن عاص کو یقین دلایا کہ وہ رومی فوج کے ساتھ تعاون سے انکار کی جرات تو نہیں کر سکتے لیکن تعاون سے گریز ضرور کریں گے۔
عمرو بن عاص نے انہیں کہا کہ قصبے کا کوئی آدمی قصبے سے باہر نہ جائے اور کوئی آدمی بلبیس کی طرف جاتا نظر آیا تو دور سے اسے تیر کا نشانہ بنا لیا جائے گا۔ عمرو بن عاص کا مطلب یہ تھا کہ رومیوں کو قبل از وقت اطلاع نہ پہنچ سکے کہ اسلامی لشکر آ رہا ہے اور اس کا رخ کس طرف ہے۔
عمرو بن عاص نے ان سرکردہ افراد سے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو یقین دلا دیں کہ اب اس شہر کو اور اپنے آپ کو مسلمانوں کی عملداری میں سمجھیں اور انہیں بتائیں کہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی پوری پوری ذمہ داری مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور اس لشکر کا کوئی ایک بھی فرد کسی گھر میں داخل نہیں ہوگا۔
تاریخ میں عمرو بن عاص کے لشکر کی اس پیش قدمی کا پورا راستہ بتایا گیا ہے جو دیکھو تو احساس ہوتا ہے کہ وہ مجاہدین صحیح معنوں میں اللہ کے سرفروش تھے۔ وہ تو اتنی تھوڑی تعداد میں بڑے ہی طاقتور دشمن کے گھر میں داخل ہو چکے تھے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو دشمن کی تلواروں سے کٹتے دیکھا تھا ،لیکن ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے چہرے پر گھبراہٹ یا خوف کا ذرا سا بھی تاثر ہو۔
مجدل سے بہت دور جا کر ایک اور بستی آئی جو ابھی بلبیس شہر سے دور ہے اور اس کا نام قنترہ ہے۔ ہراول سے بہت آگے آنے جانے والے جاسوس بہت پہلے اس بستی تک پہنچ گئے اور ان میں سے ایک واپس آیا اور ہر اول دستے کو بتایا کہ اس شہر جیسی بستی میں رومی فوج کی کچھ تعداد موجود ہے جو اتنی تھوڑی نہیں کے بھاگ جائے گی۔
ہراول دستے کے سالار نے سپہ سالار کو اطلاع بھیجوا دی اور خود اپنے دستے کو ساتھ لے کر بستی کو گھیرے میں لینے کے لئے چلا گیا۔
عمرو بن عاص کو اطلاع پہنچی تو انہوں نے درمیان والے دستوں میں سے ایک دستہ آگے بھیج دیا یہ کوئی قلعہ بند شہر نہیں تھا۔
رومی فوجی شہر سے باہر آگئ مجاہدین ان پر حملہ آور ہوئے اور رومی فوجی کچھ تو کٹ مرے اور باقی بستی کے اندر چلے گئے۔ مجاہدین نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور سب کو ختم کردیا تاریخ میں اسے معمولی سی مزاحمت لکھا گیا ہے۔ لیکن ہم اسے معمولی مزاحمت نہیں کہیں گے کیونکہ عمرو بن عاص نے کمک کے بغیر وہاں تک جا کر بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا ،لشکر کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور وہ یوں سمجھیں کہ ایک شیر کے جبڑوں میں چلے گئے تھے۔ بزرگ صحابہ اکرام اسی لئے امیرالمومنین سے کہتے تھے کہ عمرو بن عاص کو مصر پر لشکر کشی کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ یقینی ہلاکت کا خطرہ بھی مول لے لیا کرتے ہیں۔
عمرو بن عاص اس مقام تک پہنچ گئے تھے بلکہ آگے نکل گئے تھے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہ تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسے سپہ سالار تھے جو خطرہ مول لے لیا کرتے تھے، لیکن ہر پہلو پر غور کرلیتے اور ایک خطرے کے اندر چھپے ہوئے خطروں کو بھانپ اور ناپ تول لیا کرتے تھے ۔ اب وہ جو بلبیس کی طرف جا رہے تھے تو ان کی نظر صرف بلبیس پر یا ان کے ذہن میں بلبیس کا محاصرہ ہی نہیں تھا ،بلکہ انہوں نے اور بھی بہت کچھ سوچ لیا تھا جو اپنے ماتحت سالاروں کو کچھ پہلے بتا دیا تھا ،اور باقی اب بتایا۔
آگے کی بجائے اپنی نظریں پیچھے زیادہ رکھنا عمرو بن عاص نے بلبیس کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے اپنے سالاروں سے کہا تھا رومی اتنے بھی کم عقل نہیں کہ ایک شہر میں محصور ہو کر ہی لڑتے رہیں گے۔ وہ عقب سے یقینا حملہ کریں گے ۔ مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ بلبیس کے اندر کی فوج ہمارا مقابلہ اس طرح نہیں کرے گی جس طرح فرما میں کیا تھا۔
ایسی ہی کچھ اور ہدایات دے کر عمرو بن عاص نے پیش قدمی کا حکم دیدیا اور اسی شام بلبیس تک جاپہنچے، اور رات ہی رات شہر کو محاصرے میں لے لیا ۔ عمرو بن عاص جب شہر کے اردگرد محاصرے کو دیکھ رہے تھے تو وہ ہر سالار عہدے دار اور ہر کمانڈر سے یہ کہتے گئے کہ یہ مت بھولنا کے اب تمہارا مقابلہ روم کے بڑے ہی چالاک اور شاطر جرنیل اطربون سے ہے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

عمرو بن عاص کو جاسوسوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اطربون بلبیس میں موجود نہیں،
وہاں دو جرنیل تھے جن میں ایک نوشی کا باپ تھا جو فرما سے شکست کھا کر بھاگا تھا ،عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ اب اور زیادہ چوکنّے رہیں۔
اس وقت مصر کا فرمانروا مقوقس اور اطربون کسی اور مقام پر تھے جس کا تاریخ میں نام نہیں آیا۔ یورپی مورخ الفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ جب مقوقس اور اطربون کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں نے بلبیس کا محاصرہ کر لیا ہے تو دونوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے اس وقت اتفاق سے وہ اکٹھے بیٹھے اسی پالان پر باتیں کر رہے تھے۔ جو انہوں نے مسلمانوں کو گھیر کر مارنے کے لئے تیار کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دونوں کو توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان اتنی تیزی سے ایسا دشوار گزار اور لمبا راستہ طے کر لیں گے۔
ہم ابھی تیار نہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ ہمیں کوئی ایسی چال چلنی پڑے گی کہ وقت حاصل کریں اور مسلمانوں کو بلبیس کے باہر ہی الجھائے رکھیں۔
ہم بالکل تیار ہیں۔۔۔۔ اطربون نے کہا ۔۔۔ہم اب یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ مسلمان بلبیس پر بھی قابض ہو جائیں میں اب انہیں مزید مہلت دینے کے حق میں نہیں۔
عریش اور فرما کے بعد میں انہیں بلبیس کسی قیمت پر نہیں لینے دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔لیکن ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو اسی نتیجے پر پہنچو گے کہ ہمیں کچھ وقت حاصل کرنا پڑے گا۔
تاریخ کے مطابق ان کے درمیان جتنی بھی گفتگو ہوئی اس میں یہ تاثر بڑا ہی واضح تھا کہ ان میں اختلاف رائے ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی جھکنا نہیں چاہتا مقوقس کی حیثیت اطربون سے اونچی تھی مقوقس مصر کا فرمانروا، اور اطربون ایک جرنیل تھا۔
آخر مقوقس کی مانی گئی اس نے یہ تجویز پیش کی کہ پادریوں کا ایک وفد مسلمانوں کے سپہ سالار کی طرف بھیجا جائے جو یہ مذاکرات کرے کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں اور بتائیں کہ وہ کن شرائط پر مصر سے نکلیں گے۔
اطربون نے کہا کہ وہ اگر یہ شرط پیش کر بیٹھے کہ انہوں نے مصر کا جو علاقہ فتح کر لیا ہے وہ اپنی عملداری میں رکھیں گے، اور اس سے آگے پیش قدمی نہیں کریں گے تو کیا ہم مان لیں گے، اطربون نے یہ بھی کہا کہ مسلمان یہ شرط بھی پیش کرسکتے ھیں کہ بلبیس انہیں دے دیا جائے۔
میں انہیں مصر کی ایک بالشت زمین بھی نہیں دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ میں انہیں ایک چکر میں ڈالنا چاہتا ہوں مجھے پادریوں کا وفد ان کے پاس بھیج لینے دو تم فوج تیار کرو ،اور اطربون ان بدبخت قبطی عیسائیوں کو مت بھولو میں ان کے اسقف اعظم بنیامین کو بھی اپنے جال میں لانے کی سوچ رہا ہوں۔
آخر ان دونوں میں طے یہ پایا تھے پادریوں کا وفد مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس بھیجا جائے اسی وقت چار یا غالباً چھے بزرگ پادریوں کی طرف آدمی دوڑا دیے گئے کہ وہ فوراً مقوقس کے پاس پہنچیں۔
ہرقل کی سرکاری عیسائیت کا اسقف اعظم قیرس تھا ۔اگر پادریوں کا ہی وفد بھیجنا تھا تو اس میں قیرس کی شمولیت لازم تھی لیکن قیرس کو نہ بلایا گیا تاریخ میں ایسے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ ہرقل اور قیرس میں کچھ اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ اس وقت قیرس اسکندریہ میں تھا ہرقل ابھی تک بذنطنیہ میں بیٹھا حکم بھیج رہا تھا جو مقوقس اور اطربون کے لیے محض بے کار اور بے بنیاد تھے۔
مقوقس کے متعلق ہم ایک بات دہرانہ چاہیں گے یہ بات پوری تفصیل سے اس داستان میں پیش کی گئی ہے۔ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقوقس کو قبول اسلام کے لئے ایک پیغام بھیجا تھا جو حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ لے کر گئے تھے، مقوقس نے اس پیغام کا جواب خلاف توقع نہایت احترام سے دیا تھا اس نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو باتیں کی تھیں ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے، اس نے پیشن گوئی کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد مسلمان مصر کے میدان پر قابض ہو جائیں گے۔
یہاں یہ واقعہ دہرانہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مقوقس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو نوخیز لڑکیاں تحفے کے طور پر بھیجی تھی، ان میں سے ایک حضرت ماریہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قبطیوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک روا رکھنا کیونکہ ان کے ساتھ تمہاری رشتہ داری بن گئی ہے۔
محاصرے کا ساتواں آٹھواں روز تھا سپہ سالار عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی کہ مصری پادریوں کا ایک وفد ان سے ملنے آیا ہے۔ عمرو بن عاص نے وفد کو اسی وقت خیمے میں بلوایا اور احترام سے وفد کا استقبال کیا چونکہ یہ وفد مذہبی پیشواؤں کا تھا اس لئے مذہب کے حوالے سے بات کی اور امن و امان اور بنی نوع انسان سے محبت کرنے کے موضوع پر واعظ دے ڈالا۔
عمرو بن عاص نے یہ واعظ تحمل اور بردباری سے سنا اور کہا کہ ان کا اپنا مذہب یہی تعلیم دیتا ہے لیکن وہ بتائیں کہ ان کے آنے کا مقصد کیا ہے۔ پادری نے وہ بات کہی جو مقوقس نے اسے بتائی تھی یعنی یہ کہ مسلمان یہیں سے واپس اپنے ملک میں چلے جائیں اور اگر ان کی کوئی شرط ہے تو وہ بتائیں۔
میری اپنی کوئی ذاتی شرط نہیں۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ہم اپنے مذہب کے اصولوں کے پابند ہیں اس لئے میں وہ شرط پیش کروں گا جو اسلام نے ہمیں بتائی ہے,,,,,,, اسلامی اصول یہ ہے کہ میں آپ کو اور آپ کے حکمرانوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں جتنے بھی لوگ اسلام قبول کرلیں گے ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہے گا، وہ ہماری قوم کے افراد ہوں گے اسلام نے بنی نوع انسان میں مساوات قائم رکھنے کا حکم دیا ہے، اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا اور لوگ رعایا نہیں کہلاتے، آپ کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا ،لیکن ان سے ہم جزیہ وصول کریں گے ان کے ساتھ بھی ہمارا سلوک اور رویہ ویسا ہی ہوگا جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے، اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کے بھی مال و اموال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہوں گے اور ان کی تمام ضروریات ہم پوری کریں گے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ وفد نے یہ شرط قبول نہ کی اور عمرو بن عاص کو قائل کرنے لگے کہ وہ خونریزی یہی روک دیں اور واپس چلے جائیں ، مقوقس کے کہنے کے مطابق پادریوں نے کچھ زروجواہرات کی پیشکش بھی کی لیکن عمرو بن عاص نے کہا کہ اسلام کے جذبہ جہاد میں ہوس ملک گیری نہیں ہوتی نہ ہی شاہی خزانوں کے ہاتھ آنے کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔
عمرو بن عاص جانتے تھے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی بھی قیمت پر وہ مقوقس کی یہ شرط نہیں مان سکتے تھے کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں۔ عمرو بن عاص نے از راہ مذاق پادریوں کے وفد سے کہا کہ ان کے مصریوں کے ساتھ رشتے داری بھی ہے اس لئے مصر پر عربوں کا خاصا حق ہے۔
پادری سمجھ گئے کہ اس مسلمان سپہ سالار کا اشارہ کس طرف ہے۔ اشارہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر گئے تھے تو مصر کے بادشاہ نے انھیں ایک لڑکی پیش کی تھی ابراہیم علیہ السلام نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی اور اس کا نام ہاجرہ رکھا تھا ۔ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تھے پھر اس رشتے کا اشارہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی تھا ذکر ہو چکا ہے کہ مقوقس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو لڑکیوں کا تحفہ بھیجا تھا جن میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بنی۔
ہم یہ رشتے داری نہیں بھول سکتے۔۔۔ وفد کے بڑے پادری نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔لیکن اس قسم کے رشتے داری کو صرف کوئی پیغمبر ہی زندہ کرسکتا ہے۔
کیا ہم ایک دوسرے کا وقت ضائع نہیں کر رہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہماری بات چیت یہاں پر ختم ہوتی ہے کہ ہم کسی بھی شرط پر مصر سے واپس نہیں جائیں گے، مسلمان جانے کے لیے نہیں آئے ایک پیغام لائے ہیں جو انہیں قبول ہے تو ٹھیک ورنہ اس کا فیصلہ میدان جنگ میں ہوگا۔
عمرو بن عاص نے اس سے آگے کوئی اور بات سننے یا کہنے سے انکار کردیا ۔
مقوقس نے اس وفد سے کہا تھا کہ وہ کچھ وقت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ پوری فوج کو تیاری کرکے مسلمانوں کو گھیرا جائے۔
ہمیں کچھ وقت دیں ۔۔۔وفد کے لیڈر نے کہا۔۔۔ میں فرمانروائے مصر کے ساتھ بات کر لوں اور پھر آپ کو جواب دینے آؤں گا۔
یہ بھی سوچ لینا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ مجھے دھوکا نہیں دے سکو گے میں صرف تین دن کی مہلت دیتا ہوں مجھے اسلام کی شرط کے مطابق جواب نہ ملا تو وہ خونریزی ہو گی جسے آپ روکنا چاہتے ہیں۔
تاریخ میں آیا ہے کہ اس گفت و شنید کے بعد پادریوں نے مہلت میں اضافے کی درخواست کی وہ زیادہ دنوں کی مہلت چاہتے تھے لیکن عمرو بن عاص نے تین کے بجائے مہلت پانچ دن کردی ،پادری پھر آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔
پادریوں کا وفد واپس مقوقس سے جا کر ملا اور اسے بتایا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کے ساتھ کیا مذاکرات ہوئے ہیں مقوقس بہت زیادہ دنوں کی مہلت کی توقع رکھتا تھا لیکن پادریوں نے اسے بتایا کہ سپہ سالار پانچ دنوں سے زیادہ مہلت دینے پر راضی نہیں ہوا ،تو مقوقس گہری سوچ میں کھو گیا۔
میرے لیے پانچ دن بہت ہیں۔۔۔۔ اطربون نے بڑی جوشیلی آواز میں کہا۔۔۔ میں ان پانچ دنوں میں اچھی خاصی فوج تیار کر لونگا اور مسلمانوں پر حملہ کروں گا میں ضمانت دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو پسپا کرکے ہی دم لونگا،
بلبیس کے محصور لوگوں کے متعلق ایک اطلاع مقوقس کو پہنچی۔ وہ یہ تھی کہ اندر لوگ بہت پریشان ہیں ان کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتا کر لیا جائے۔
بلبیس میں وہ لوگ بھی تھے جو عریش اور فرما سے بھاگ کر یہاں پہنچے تھے، انہوں نے دیکھا تھا کہ مسلمانوں نے ان کی فوج کو کس طرح کاٹا اور بھگایا تھا ،ایک طرف تو ان لوگوں پر مسلمانوں کی دہشت طاری تھی اور اس کے ساتھ ہی عریش اور فرما سے آئے ہوئے لوگ بلبیس کے لوگوں کو بتاتے تھے کہ اپنی فوج کو لڑنے نہ دیں اور اگر فوج لڑتی ہے تو اس کے ساتھ تعاون نہ کریں، وہ اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ مسلمان شہریوں کے لئے ذرا سی بھی پریشانی پیدا نہیں کرتے بلکہ ان کے جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن شہری اگر اپنی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں اور انھیں جانی نقصان پہنچائیں تو پھر مسلمانوں کی شرائط بڑی سخت ہوتی ہے۔
مقوقس نے دو پادریوں کو یہ کہہ کر بلبیس بھیجا کہ وہ اندر جاکر لوگوں کو بتائیں کہ وہ ڈرے نہیں اور ان کے امن و امان کی ضمانت فرمانروائے مصر اپنے ذمے لیتا ہے ،اور یہ یقین دلانا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مار بھگائے گا ۔ پادری گئے اور سپہ سالار عمرو بن عاص سے ملے اور شہر کے اندر جانے کی اجازت چاہی۔
عمرو بن عاص نے ان سے پوچھا کہ اندر جانے سے ان کا مقصد کیا ہے پادریوں نے یہ جھوٹ بولا کہ وہ لوگوں کو قائل کرنے جارہے ہیں کہ اسلام قبول کرلیں تو وہ عافیت سے رہیں گے۔ عمرو بن عاص نے انہیں اجازت دے دی دونوں پادری شہر کے بڑے دروازے تک گئے اور ان کے لیے دروازہ ذرا سا کھلا دونوں اندر گئے اور دروازہ بند ہو گیا۔
پادریوں کو توقع تھی کہ وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو لوگ اپنی فوج کے شانہ بشانہ شہر کے دفاع میں لڑیں گے لیکن انہوں نے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے یہ بات شروع ہی کی تھی کہ لوگوں نے شوروغل بپا کردیا کہ مسلمانوں کا مقابلہ نہ کیا جائے ۔ بعض آوازیں ایسی بھی آئیں جن میں رومی فوج کے خلاف طنز اور ناپسندیدگی تھی، یہ آوازیں کہتی تھی کہ اپنی فوج نے مسلمانوں کو روکا ہی کہاں ہے؟،،،،،،، یہ فوج پورا ملک شام مسلمانوں کو دے آئی ہے اور اب مسلمانوں نے اس فوج کو لہولہان کر کے اس سے مصر کے دو قلعے لے لیے ہیں۔
پادریوں نے لوگوں کو یہ ذہن نشین کرانے کی بہت کوشش کی کہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی شہر چھوٹا یا بڑا بغیر لڑے دشمن کے حوالے کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی فوج کو لڑنے کا موقع دیں اور اس فوج کی پشت پناہی کریں تاکہ مسلمانوں کو مار بھگایا جائے۔ لیکن لوگوں کا شوروغل روکا نہ جاسکا۔ اور یہ بات طے شدہ سمجھ لی گئی کہ شہر کے لوگ اپنی فوج کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں۔
پادریوں نے واپس جاکر جب مقوقس اور اطربون کو بتایا کہ بلبیس میں شہر کے لوگوں کا ردعمل اور ان کا مطالبہ کیا ہے تو اطربون بھڑک اٹھا اس نے کہا کہ وہ اپنی فوج کو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔مقوقس نے پھر اطربون روکا اور کہا کہ کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی مسلمانوں کو واپس جانے پر آمادہ کر لیا جائے گا ۔اطربون خاموش رہا لیکن اس کی خاموشی بتاتی تھی کہ وہ کچھ اور سوچ رہا ہے۔
اطربون تاریخ کا ایک نامور جرنیل تھا اس نے مقوقس سے حکم لیے بغیر اور اسے بتائے بغیر بارہ ہزار نفری کی فوج تیار کرلی اور ایک روز بلبیس کی طرف کوچ کر گیا ۔مقوقس کو پتہ چلا لیکن اس نے اطربون کو روکنے کی جرات نہ کی بلبیس وہاں سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا۔

ایک صبح فجر کی اذان دی جا چکی تھی اور مجاہدین کا لشکر نماز کی تیاری کررہا تھا کہ ہزاروں دوڑتے گھوڑوں کا طوفان آگیا ، یہ اطربون کی بارہ ہزار گھوڑ سواروں کی فوج تھی جو مجاہدین پر عقب سے حملے کے لئے آ گئی تھی، اطربون نے وقت بڑا اچھا دیکھا تھا اسے معلوم تھا کہ اس وقت مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوگئے ہونگے یا نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے اس نے ٹھیک سوچا تھا کہ مسلمان حملہ روکنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور جتنی دیر میں وہ تیار ہوتے ہیں اتنی دیر میں اس کے بارہ ہزار گھوڑسوار ان پر غالب آجائیں گے اور انہیں ان کے ہی خون میں ڈبو دیں گے۔
اطربون نے مجاہدین کو بے خبری میں آ لینے میں کوئی کسر چھوڑی تو نہیں تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں اور دیگر ذمہ دار افراد کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ عقب سے یا پہلوؤں سے ان پر حملہ ضرور ہوگا اور وہ ہر وقت چوکنّے اور تیار رہیں۔ اطربون کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مجاہدین کو خاص طور پر حکم دیا گیا تھا کہ نماز کے وقت اپنی تلواریں، برچھیاں، کمانیں، اور تیرکش اپنے ساتھ رکھا کریں اور گھوڑے ہر وقت تیار رہیں۔ عمرو بن عاص وہ سپہ سالار تھے جو ایسا لگتا تھا جیسے ہوا میں دشمن کی بو پا لیتے ہیں اور اس بو سے دشمن کے ارادے بھانپ لیتے ہیں۔
بدوؤں کو ملا کر مجاہدین کی تعداد پانچ ہزار سے ذرا ہی زیادہ تھی ،فرما میں مجاہدین کی شہادت کچھ زیادہ ہی ہوئی تھی اور شدید زخمیوں کی بھی کمی نہ تھی جو بلبیس میں لڑنے کے قابل نہیں تھے، اور بدو ناتجربے کاری کی وجہ سے خاصی تعداد میں مارے گئے تھے ،اتنا جانی نقصان کے بعد بدوؤں کا حوصلہ ٹوٹ جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ان کے حوصلے میں پہلے سے زیادہ تازگی اور غضب پیدا ہوگیا ،فرما کے مال غنیمت میں سے ہر بدو کو اتنا حصہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کے خلوص اور فیاضی کے متعلق ان کے دلوں میں ذرا سا بھی شک نہیں رہا تھا۔
عمرو بن عاص نے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ دشمن کی تعداد کتنی ہے اور اس میں سوار کتنے اور پیادہ کتنی ہیں، انہوں نے یہ محسوس کر لیا کہ رومیوں کی یہ ساری فوج گھوڑ سوار ہے اس اچانک حملے کے لئے عمرو بن عاص نے پہلے ہی ہدایات دے رکھی تھی، اور یہ بھی بتا رکھا تھا کہ حملے کی صورت میں لشکر کی ترتیب کیا ہوگی اور کونسے دستے محفوظ ہیں (ریزور) میں ہونگے اب وہ اچانک حملہ آ گیا تھا جو مجاہدین کے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔ ہر کوئی پلک جھپکتے اپنے اپنے ہتھیار سے مسلح ہو گیا اور گھوڑوں کی پیٹھوں پر جا چڑھے اور اس ترتیب میں ہو گئے جو انہیں پہلے ہی بتا دی گئی تھی۔ سالاروں کو اس معاملے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہ آئی۔
عمرو بن عاص نے ایک بندوبست اور بھی کررکھا تھا انہیں یہ توقع تھی کہ عقب سے حملہ ہوا تو ہوسکتا ہے شہر کے اندر سے بھی فوج باہر آجائے اور اس صورت میں مجاہدین کا لشکر گھیرے میں آ جائے اور پھر بڑی مشکل پیدا ہوجائے گی، عمرو بن عاص نے ریزور دستے کو یہ ہدایت پہلی ہی دے دی تھی کہ ایسی صورت پیدا ہو گئی تو آدھی ریزور فورس فوراً شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرے ،عمرو بن عاص کو یہ توقع تھی کہ لشکر کی کچھ ہی تعداد شہر میں چلی گی تو اندر ایسی بد امنی اور افرا تفری پیدا ہوجائے گی کہ رومی لڑنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
اطربون کی بارہ ہزار سوار فوج مجاہدین پر جب آن پڑی تو وہ دیکھ نہ سکا کہ مجاہدین کی خاصی تعداد دائیں اور بائیں کی طرف نکل گئی ہے، ابھی سحر کی تاریکی تھی معرکہ تو بڑا گھمسان کا تھا اور نظر یہی آتا تھا کہ اتنی زیادہ فوج مجاہدین کو کاٹ پھینکے گی لیکن اطربون گھوڑ سواروں پر دائیں اور بائیں پہلو سے بیک وقت حملے ہوگئے اس طرح رومیوں کے حملے کی جو شدت تھی وہ وہیں ختم ہوگئی، اور سواروں کو جان کے لالے پڑ گئے
تعداد کے تناسب کو دیکھا جاتا تو شکست مجاہدین کے حصے میں آتی تھی، لیکن جو جذبہ مجاہدین میں تھا وہ رومیوں میں کم ہی دیکھنے میں آتا تھا ،مجاہدین کو احساس تھا کہ انہیں تعداد کی کمی جذبے اور حوصلے کے استحکام سے پوری کرنی ہے اور پھر یہ اعتقاد کے اللہ ان کے ساتھ ہے۔
عمرو بن عاص دیکھتے رہے کہ ابھی شہر کے دروازے کھلیں گے اور اندر کی فوج باہر آئے گی یا ہوسکتا ہے اطربون کی فوج اندر جانا چاہیے لیکن کوئی دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔
عمرو بن عاص اور دیگر سالاروں نے صورتحال کو اپنے قابو میں کر لیا اور قدم جمالیے۔ مجاہدین کے نعروں میں ایسا جوش و خروش تھا جو رومی سواروں پر بری طرح اثر انداز ہو رہا تھا دن آدھا بھی نہیں گزرا تھا کہ رومی پیچھے ہٹنے لگے عمرو بن عاص نے فوراً اپنے ماتحت سالاروں کو پیغام بھیجا کہ پیچھے ہٹتے ہوئے رومیوں کے تعاقب میں نہ جائیں ،کچھ دیر بعد اطربون کی یہ فوج لاشوں کی اچھی خاصی تعداد اور زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور مجاہدین کو پھر ترتیب میں کر لیا گیا۔

اور باقی دن لاش اٹھانے میں گزر گیا اور جو شدید زخمی تھے انھیں بھی اٹھا کر لے آئے اور لشکر کے ساتھ جو خواتین تھیں انہوں نے زخمیوں کی دیکھ بھال شروع کر دی۔
عمرو بن عاص نے اپنے جاسوس یہ دیکھنے کے لئے بھیج دیئے کہ اطربون کی فوج کہاں ہے ۔میدان جنگ میں صاف نظر آ رہا تھا کہ رومیوں کی اموات خاصی زیادہ ہوئی ہے۔
شام کے بعد جاسوسوں نے بتایا کہ تین چار میل دور اطربون کی فوج نے پڑاؤ کر لیا ہے اور خیمے بھی لگا لیے ہیں۔
عمرو بن عاص نے اسی رات کے لیے ایک اور بندوبست کر لیا جو یہ تھا کہ شب خون مارنے والے جانبازو کا ایک دستہ تیار کیا جس کی نفری چالیس اور پچاس کے درمیان تھی۔
آدھی رات کے بعد دن بھر کے تھکے ہوئے رونی سوار خیموں میں بڑی گہری نیند سو رہے تھے کہ ان پر آگ برسنے لگی یہ ایک طرح کی مشعلیں تھیں جو شب خون مارنے والے مجاہدین دوڑتے گھوڑوں سے رومیوں کے خیموں پر پھینک رہے تھے، یہ صرف چالیس پچاس جانبازوں کا شب خون تھا،، رومی اپنے گھوڑوں کو خشک گھاس کھلایا کرتے تھے جو وہ ساتھ لائے تھے ،کسی جانباز نے ایک مشعل گھاس کے درمیان پھینک دی اور خشک گھاس جل اٹھی یہ آگ بڑی تیزی سے پھیلنے لگی
گھوڑوں نے قیامت کا شور و غل برپا کردیا، اور وہ رسیاں تھوڑا تھوڑا کر بھاگنے لگے۔ ادھر خیمے تو چند ایک ہی جلے تھے، لیکن سارے لشکر میں ادھم بپاہوگیا ،مشعلے کوئی زیادہ نہیں پھینکی گئی تھی چند ایک ہی تھی لیکن رات کو خیموں اور خشک گھاس کے اٹھتے شعلوں نے بڑا ہی دہشت ناک منظر بنا دیا تھا ۔جانبازوں نے رومیوں کو نیند سے جاگ کر خیموں سے نکلتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھا تو سرپٹ گھوڑے دوڑاتے دو دو تین تین رومیوں کو پرچھیوں اور تلواروں سے گھائل کرتے دوڑتے ہی چلے گئے، اور اس طرح رومیوں کا خاصا نقصان کر کے واپس آ گئے۔
عمرو بن عاص نے جانبازوں کا ایک پورا دستہ تیار کررکھا تھا جسے آگ پھیلانے اور شب خون مارنے کی خاص طور پر ٹریننگ دی گئی تھی۔
اگلے روز اطربون حملہ کرنے کے قابل نہ رہا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس شب خون میں رومیوں کا جانی نقصان کوئی ایسا زادہ تو نہ تھا کہ وہ اگلے روز حملے کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ اطربون کی ساری فوج پر مسلمانوں کی ایسی داشت نظر آتی تھی جسے اطربون نے خاص طور پر محسوس کیا اور اس روز حملہ ملتوی کردیا۔
عمرو بن عاص نے بلبیس کے محاصرے کو برقرار رکھا اور نظر رکھی کہ کوئی دروازہ کھلے گا اور فوج باہر آئے گی لیکن ایسا نہ ہوا ۔ عمرو بن عاص نے شہر پر حملے کی ذرا سی بھی کاروائی نہ کی ۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ لڑائیاں اطربون کی سوار فوج کے ساتھ جاری رہے گی۔ اور اس کے بعد شہر کی فوج باہر آئے گی یا کوئی اور صورت حال پیدا ہو گی۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بلبیس کی یہ لڑائی پورا ایک مہینہ جاری رہی۔ اس کا انداز ایسا ہی رہا جیسے پہلے روز تھا۔ اطربون اپنے سواروں سے حملہ آور ہوتا تھا اور مسلمان نہایت اچھی ترتیب میں آکر اس لشکر کا مقابلہ کرتے اور پہلوؤں سے اس پر حملہ آور ہو کر اسکا اچھا خاصا جانی نقصان کر دیتے۔
عمرو بن عاص نے دو دو چار چار راتوں کے وقفے سے رومیوں کے کیمپ پر شبخون کا سلسلہ جاری رکھا ،رومی رات کو پہرہ تو بہت کھڑا کرتے تھے لیکن شب خون مارنے والے جاں باز پھر بھی اپنا کام کر آتے تھے ، اس طرح رومیوں کو خاصا نقصان پہنچتا رہا اور ان کی تعداد کم ہوتی چلی گئی ۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ رومی سواروں کے حوصلے مجروح ہوگئے اور ان میں جوش و خروش بہت ہی کم رہ گیا۔

مدینہ میں کمک تیار ہو کر بمشکل چلی ہی تھی یہ کمک بلبیس کی لڑائی تک نہیں پہنچ سکتی تھی اسے پہنچتے ایک مہینہ بھی لگ سکتا تھا ۔عمرو بن عاص نے اللہ کی آس پر لڑائی جاری رکھی، رومیوں کا جانی نقصان تو بہت ہوا تھا لیکن مجاہدین کا اور بدوؤں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہ تھا ،بدوؤں کا حوصلہ قائم تھا اور مجاہدین کے جوش و خروش اور ایمان کی قوت میں ذرا سی بھی کمزوری نہ آئی تھی، ان کی کیفیت یہ تھی کہ جسم تو جیسے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے لیکن روح تروتازہ تھی، اور وہ روحانی قوت سے لڑ رہے تھے۔
اطربون کو یہ سہولت حاصل تھی کہ اسے کمک مل سکتی تھی لیکن اس سوال کا جواب کسی مؤرخ نے نہیں دیا کہ اس نے کمک کیوں نہ مانگوائی، اور مقوقس نے کمک کیوں نہ بھیجی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بلبیس شہر کے اندر فوج موجود تھی جو ابھی تک لڑائی میں شامل نہیں ہوئی تھی اور وہ تازہ دم تھی۔
مؤرخوں نے بلبیس کی اس لڑائی کو بہت ہی خونریز لڑائی لکھا ہے ۔ مجاہدین کا لشکر شہیدوں اور زخمیوں کی وجہ سے بڑی تیزی سے خطرناک حد تک کم ہوتا جارہا تھا، لیکن عمرو بن عاص یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ مہینے کے آخر میں رومی سواروں کا جو حملہ آیا اس میں جوش وخروش بھی کم تھا اور تعداد بھی کم تھی اور اطربون اپنی فوج کے سب سے آگے تھا۔
شب خون مارنے والے مجاہدین نے اطربون کا پرچم دیکھ لیا وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اپنے گھوڑسوار محافظوں کے حصار میں تھا ۔
تاریخ میں ان جانباز مجاہدین کے نام نہیں ملتے جنہوں نے اللہ کا نام لے کر عزم کر لیا کہ آج اطربون کو گرا لیں گے، اگر وہ بچ نکلا تو اس کا پرچم تو ضرور ہی گرا آئیں گے۔
وہ چاروں اطربون کے گھوڑسوار محافظوں کے حصار تک جا پہنچے اور بڑی ہی بے جگری سے محافظوں سے لڑے اور ان میں سے تین مجاہدین شہید ہوگئے، لیکن چوتھے مجاہد نے زخمی ہو کر بھی اطربون کو جا لیا اور ایک ہی وار میں اسے گھوڑے سے گرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ خود بھی گھوڑے سے گرا اور شہید ہو گیا۔
ادھر بلبیس شہر کے دو تین دروازے کھل گئے اور اندر والی رومی فوج باہر آنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی باہر والی رومی فوج میں ایک آواز جو بڑی ہی بلند تھی ساری فوج میں گونج گئی ، اطربون مارا گیا ہے۔۔۔ اطربون کا پرچم گر پڑا ہے۔۔۔۔
رومی فوج شاید اسی آواز کے انتظار میں تھی۔ رومیوں کے قدم اکھڑ گئے اور انہوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا ۔ یہ آواز بلبیس سے باہر آنے والی فوج نے بھی سن لی۔
مجاہدین کے حوصلے تو اس طرح اور بلند ہوگئے۔ جیسے آگ مزید بھڑک اٹھی ہوں انہوں نے اللہ کے اور فتح کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔
عمرو بن عاص نے ریزور دستے کو پہلے ہی حکم دے رکھا تھا کہ جونہی شہر کے دروازے کھلے یہ دستہ دروازوں پر ٹوٹ پڑے اور اندر چلا جائے، اس دستے نے اس حکم پر عمل کیا اور مجاہدین کی خاصی نفری لڑتی لڑتی شہر میں داخل ہوگئی۔
ادھر رومی سوار سرپٹ بھاگ اٹھے ۔ یہ حالت دیکھ کر بلبیس کی جو فوج باہر آئی تھی وہ بھی شہر کے اندر آنے کی بجائے بڑی بری تتربتر ہو کر گھوڑ سواروں کے پیچھے دوڑتی چلی گئی۔
مجاہدین کا لشکر شہر میں داخل ہو گیا شہر کے اندر تاریخ کے مطابق تین ہزار اچھے بھلے رومی فوجیوں نے مجاہدین کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور قید قبول کرلی، باہر اطربون کی لاش اٹھانے والا بھی کوئی نہ تھا۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اطربون کوئی عام سی قسم کا جرنیل نہ تھا اس کی جنگی فہم و فراست اور دشمن کو دھوکا دینے کی صلاحیت میدان جنگ میں مکاری اور چال بازی کو تاریخ آج بھی یاد کرتی ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی اطربون کی پُرخطر خوبیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔
جب فلسطین میں رومی اور مسلمان برسرپیکار تھے تو اس وقت بیت المقدس کو مسلمانوں سے بچائے رکھنے کی ذمہ داری اطربون کے سپرد تھی ، ہرقل کہا کرتا تھا کہ اطربون ہے تو فلسطین بھی اپنا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے عمرو بن عاص کو بھیجا تھا ،امیر المؤمنین اس سپہ سالار کی خوبیوں اور صلاحیت سے آگاہ تھے اور انھیں توقع تھی کہ اطربون کا مقابلہ صرف عمرو بن عاص کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے جب عمرو بن عاص کو اطربون کے مقابلے کے لئے بھیجا تھا تو یہ تاریخی الفاظ کہے تھے ۔ میں نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا تھا کہ عمرو بن عاص نے بیت المقدس فتح کرلیا اور اطربون بھاگ گیا تھا۔
اب روم کا وہ اطربون عمرو بن عاص کے جانبازوں کے ہاتھوں مارا گیا اور بلبیس کی فتح نے عرب کے اطربون کے قدم چومے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

سلطنت روم کا بادشاہ ہرقل جو اپنے دور میں طاقت اور دہشت کا ایک نام تھا بذنطیہ میں بیٹھا تھا (آج کا استنبول) مصر سے بہت دور تھا درمیان میں وسیع وعریض بحیرہ روم حائل تھا اور خاصا فاصلہ خشکی کا بھی تھا ۔اس مخدوش صورتحال میں جو مسلمانوں نے اس کے لیے مصر میں پیدا کر دی تھی اسے مصر میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ بزنطیہ میں بیٹھا مقوقس کے نام حکم بھیج رہا تھا۔
ابھی اسے یہ اطلاع نہیں ملی تھی کہ عمرو بن عاص کے لشکر نے بلبیس کا مضبوط قلعہ بھی فتح کرلیا ہے، اور روم کا نامور جرنیل اطربون مارا گیا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی یہ اطلاع پہنچی تھی کہ مسلمان نے فرما فتح کرلیا ہے ،اس اطلاع نے اسے آگ بگولا کردیا تھا اس نے مقوقس اور اطربون کے نام ایک پیغام لکھا تھا اور اسی وقت قاصد کو روانہ کردیا تھا۔
اگر تم فیصلہ کرچکے ہو کہ مصر مسلمانوں کو دے ہی دینا ہے تو فوراً دے دو، ہرقل نے پیغام میں لکھا، اپنی فوج کو کیوں مرواتے ہو تم نے شکست قبول ہی کر لی ہے تو یہ خون خرابہ بند کردو، شاید تمہیں معلوم ہو کہ تمہارے درمیان میرے اپنے جاسوس موجود ہیں جو مجھے ہر خبر اور ہر اطلاع بھیج رہے ہیں۔ تم نے مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس پادریوں کا وقت بھیج کر کوئی اچھا اقدام نہیں کیا۔ تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اب تم اپنی کمزوری کا اظہار کر رہے ہو، تمہیں یہ دیکھنا چاہئے تھا کہ مسلمان تعداد میں کتنے تھوڑے ہیں اور وہ اپنے وطن سے بہت دور ہیں جہاں سے انہیں رسد اور کمک بروقت نہیں پہنچ سکتی۔ دوسری طرف تم یہ سوچ کے بیٹھے ہو کے مسلمان اور آگے آجائیں اور تم انہیں گھیر کر ختم کردو، لیکن مسلمان قلعے فتح کرتے بڑھتے چلے آ رہے ہیں، اور انہوں نے مصر کے بدوؤں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے یہ تمہاری نااہلی ہے,,,,,,,,, میں جانتا ہوں تم قبطی عیسائی ہو اور پیرس کو اسقف اعظم نہیں مانتے، میں تمہارے اس اعتقاد کو قبول کرلیتا ہوں لیکن یہ قبول نہیں کروں گا کہ تم سلطنت روم کی عظمت کو بھول جاؤ اور اپنی ہی سلطنت سے بے وفائی کرو۔ اطربون اور تھیوڈور جیسے جرنیل تمہارے ساتھ ہیں، تمہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے لیکن تمہارا ان سے اختلاف ہے۔ اطربون لڑنا چاہتا ہے ، اور تم مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کرنے کے خواہشمند ہو۔ مجھے قیرس کی وفاداری پر بھی شک ہے میں نے اسے اسقف اعظم بنایا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھے دھوکہ دے رہا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا رویّہ اور اپنی سوچیں تبدیل کر لو ، اگر مجھے تمہاری طرف سے اطمینان نہ ہوا تو میں مصرآ جاؤں گا۔ پھر میں تمہیں یہ حق بھی نہیں دوں گا کہ اپنی صفائی میں کچھ کہو، اطربون کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرو اور اسے مسلمانوں کے مقابلے میں جانے دو اب میں کسی اچھی خبر کا انتظار کروں گا۔

تاریخ یہ داستان اس طرح سناتی ہے کہ ہرقل کا یہ پیغام اس وقت مقوقس کے ہاتھ میں پہنچا جب اس کے سامنے اطربون کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ یہ لاش کچھ ہی دیر پہلے اس کے پاس پہنچی تھی اس وقت مقوقس بابلیون میں تھا جو بلبیس سے آگے ایک بڑا ہی مضبوط اور رومیوں کے دعوے کے مطابق ناقابل تسخیر قلعہ تھا،،،،، اس دور میں یہ رواج تھا کہ کوئی جرنیل لڑائی میں مارا جاتا تو سربراہ سلطنت حکم دیتا تھا کہ اس جرنیل کی لاش لائی جائے۔ جرنیل کی لاش کا میدان جنگ میں پڑا رہنا پوری سلطنت کی توہین سمجھا جاتا تھا۔ مقوقس نے اپنی شکست خوردہ فوج کو ایسا حکم نہیں دیا تھا کہ اطربون کی لاش کو اٹھا کر لے آئے ۔شکست کھا کر بھاگنے والے فوجیوں کے تو ہوش ہی ٹھکانے نہیں تھے کہ وہ اپنی جرنیل کی لاش اٹھا لاتے۔ انکے تو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔پھر اس رومی جرنیل کی لاش مقوقس کے پاس کس طرح پہنچ گئی؟
یہ مسلمانوں کی طنز کا ایک انداز تھا۔ مسلمانوں نے رومیوں کا مذاق اڑایا تھا،،،، بلبیس سے رومی فوج جس طرح بوکھلا کر اور تتربتر ہو کر بھاگی تھی اس حالت میں کسی کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے کہ وہ یہ بھی دیکھتے کہ روم کے اتنے نامور جرنیل کی لاش کہاں پڑی ہے۔ اور کیا وہ واقعی مارا گیا ہے، یا یہ شور و غل مسلمانوں نے دھوکا دینے کے لئے بپا کردیا تھا کہ اطربون کا پرچم گر پڑا ہے۔ اور وہ مارا گیا ہے۔
لڑائی ختم ہونے کے فوراً بعد میدان جنگ کی کیفیت اور نفسا نفسی کے عالم جیسی ہوجاتی تھی، گھوڑوں کی اڑائی ہوئی گرد میں کچھ دور تک نظر کام نہیں کرتی تھی، بھاگنے والے لاشوں اور بے ہوش زخمیوں سے ٹھوکریں کھاتے اور گرتے تھے ۔زمین خون سے اس طرح لال ہو جاتی تھی جیسے خون کا مینہ برسا ہو ، زخمیوں کا کراہنا جگر پاش ہوتا تھا۔ دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہو جاتی تھی۔ شہریوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا الگ ہوتی تھی، وہ بھاگ بھی رہے ہوتے اور ان عزیزوں کو بھی ڈھونڈتے پھرتے تھے جو لڑائی میں شامل تھے۔
اطربون کی لاش اس طرح ملی کے مجاہدین کی بیویاں بہنیں یا بیٹیاں جو لشکر کے ساتھ تھیں رومی فوج کی پسپائی کے فوراً بعد میدان جنگ میں دوڑتی ہوئی پھیل گئیں زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لا نا انہیں مرہم پٹی کی جگہ تک پہنچانے اور پانی پلانے کی ذمہ داری ان خواتین نے اپنے سر لے رکھی تھی ۔
یہ مسلمانودستوردستار بھی تھا ان خواتین میں شارینا بھی تھی جو اپنے خاوند حدید کے ساتھ تھی ۔اور اینی بھی تھی جو فہد بن سامر کی بیوی تھی۔ پہلے تفصیلی ذکر آچکا ہے کہ حدید اور فہد بن سامر تجربے کار جاسوس تھے اور آج کے کمانڈو آپریشن کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔
شارینا اپنے زخمیوں کو رومیوں کی لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈتی پھر رہی تھی اسے ایک رومی کی لاش کا چہرہ شناسا معلوم ہوا لباس سے وہ کوئی سپاہی نہیں بلکہ اونچے رتبے والا جرنیل لگتا تھا۔ لاش کا چہرہ خون اور مٹی سے لتھڑا ہوا تھا شارینا کو اصل اس کے ساتھ یہ دلچسپی تھی کہ وہ ھرقل کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس لئے رومی فوج کے جرنیلوں سے واقف تھی اس نے لاش کے کپڑوں سے ہی لاش کے چہرے سے خون اور مٹی ہٹائی تو چونک کر پیچھے ہٹ گئی جیسے اسے یقین نہ آیا ہو کہ یہ رومی بھی مارا جا سکتا ہے،،،،، وہ رومی جرنیل اطربون کی لاش تھی۔
اطر بون کو شاعرینا ہی اچھی طرح جانتی اور پہچانتی تھی۔ اطربون ایسا جابر جرنیل تھا کہ ہرقل جیسا جابر اور ظالم بادشاہ بھی اس کے آگے جھکا جھکا رہتا تھا ۔اطربون عیش و عشرت کا بھی دلادہ تھا اور اپنا حق سمجھتا تھا کہ کوئی خوبصورت اور جوان عورت خواہ وہ شاہی خاندان کی ہی کیوں نہ ہوتی اسے ایک دو راتوں کے لئے اپنے ہاں لے جائے۔
شاعرینا کی ماں بڑی حسین عورت ہوا کرتی تھی۔ شارینا اس وقت تیرا چودہ برس کی کمسن لڑکی تھی جب اطربون اس کی ماں کو بھی اپنے گھر لے جایا کرتا تھا ۔ حالانکہ شارینا کی ماں ہرقل کی بیویوں میں سے ایک تھی لیکن یہ عورت اطربون کی دوستی سے بہت خوش تھی ۔شارینا کو اچھی طرح یاد تھا کہ اطربون کی نظر اس پر بھی تھی لیکن کم سنی کی وجہ سے اطربون سے بچی رہی تھی ،طربون نے کی بار اس کے گھر آکر اسے اپنی گود میں بٹھایا تھا اور شارینا اچھی طرح سمجھتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ بچی سمجھ کر پیار نہیں کرتا بلکہ یہ بڑی بری نیت سے اس پر ڈورے ڈال رہا ہے۔
اب اسی اطربون کی لاش خاک و خون میں لتھڑی پڑی تھی اور کوئی اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا ۔اس کے اپنے سپاہی بھاگتے ہوئے اس کی لاش کو روند گئے تھے۔ شارینا اٹھ کھڑی ہوئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی اسے اینی نظر آئی جو ایک زخمی مجاہد کا سر اپنی گود میں رکھے اسے پانی پلا رہی تھی۔ پانی پلا کر اٹھی تو اسنے شارینا کی طرف دیکھا جو اس سے کوئی زیادہ دور نہیں تھی۔
اینی دوڑتی ہوئی شارینا کے پاس گئی اور اسے بتایا کہ وہ زخمی اٹھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا اینی نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس زخمی مجاہد کو پانی پلا چکی ہے اور اس نے دیکھ لیا ہے کہ زخم ایسا ہے کہ وہ زندہ رہے گا لیکن اسے جلدی
پیچھے پہنچانا ہے۔ شارینا کو اس کام کا بہت تجربہ ہو چکا تھا وہ اطربون کی لاش سے ہٹنا نہیں چاہتی تھی اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ تو دو تین مجاہدین لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتے پھرتے نظر آئے۔
شارینا دوڑتی ان تک گئی اور انھیں وہ زخمی مجاہد دکھایا اور کہا کہ اسے اٹھا کر پیچھے لے جائیں ۔مجاہدین زخمی کی طرف گئے اور شارینا واپس اطربون کی لاش پر چلی گئی۔
شاعرینا!،،،،،، اینی نے اطربون کی لاش کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ یہ رومی فوج کا بڑا جرنیل لگتا ہے میں نے اسے دو بار دیکھا تھا ہمارے گاؤں کے قریب سے گزرا تھا اور دوسری بار گاؤں میں کچھ دیر کے لئے رکابھی اور گاؤں والوں کو ڈرا دھمکا بھی رہا تھا یہ چلا گیا تو سب کہتے تھے کہ بڑا زبردست جرنیل ہے اور اس کا نام اطربون ہے۔
یہ وہی ہے۔۔۔۔ شارینا نے کہا ۔۔۔تم دوڑ کر جاؤ حدید اور فہد کو بلا لاؤ مسعود کہی نظر آجائے تو اسے بھی ساتھ لے آنا۔
یہ مسعود سہیل مکی تھا ،جو جاسوسی اور دیگر زمین دوز کارروائیوں میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اینی تو اس مجاہد کو اپنا پیر و مرشد مانتی تھی، وہ دوڑتی گئی اور اسے حدید مل گیا اینی نے اسے بتایا کہ رومی جرنیل اطربون کی لاش ایک جگہ پڑی ہے اور شارینا اسے، فہد ،اور مسعود کو بلا رہی ہے۔
حدید نے اپنا کام چھوڑا اور فہد اور مسعود کو دوڑ دوڑ کر ڈھونڈا اور پھر تینوں شاعرینا تک پہنچے ،شاعرینا نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دیکھو روم کا وہ جرنیل جسے لوگ ہرقل سے بھی اونچا سمجھتے تھے اور جو یہ عزم لے کر آیا تھا کہ مسلمانوں کو مصر سے بھگائے گا۔
ان تینوں جاسوس مجاہدین کے لئے یہ کوئی نئی خبر نہیں تھی کہ اطربون مارا گیا ہے یہ تو وہ پہلے ہی سن چکے تھے اور رومی فوج کی پسپائی کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کے جرنیل کا پرچم گرپڑا اور جرنیل بھی گر کر مر گیا تھا۔
کیا ہمیں یہ لاش دکھانے کو بلایا ہے ۔۔۔حدید نے شارینا سے پوچھا۔
میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ یہ کیسا رہے گا کہ ہم یہ لاش مقوقس کو تحفے کے طور پر بھیج دیں۔
حدید نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور تینوں کے ہونٹوں پر تبسم آ گیا جیسے انہیں یہ تجویز اچھی لگی ہو سوال یہ تھا کہ لاش مقوقس کے پاس کس طرح بھیجی جائے تینوں نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کیا اور ایک ترکیب سامنے آگئی۔
اس شکست میں بے شمار رومی فوجی کٹ مرے تھے بہت سے بھاگ نکلے تھے اور تین ہزار رومی فوجیوں نے قلعے کے اندر ہتھیار ڈال دیے اور جنگی قیدی بن گئے تھے ۔
حدید وغیرہ جب ان کی لاش پر کھڑے تھے اس وقت ہتھیار ڈالنے کا سلسلہ جاری تھا کچھ رومی جو قلعےے میں رہ گئے تھے بھاگ نکلنے کی کوشش میں ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے۔ حدید، فہد ، اور مسعود ایسے دو رومیوں کو پکڑ لانے کے لئے ادھر ادھر بکھر گئے انہیں کسی سپاہی کی نہیں بلکہ کسی عہدیدار کی تلاش تھی یعنی جو شخص ذمہ دار ہو،،،،،،،،، انہیں زیادہ تگ و دود نہ کرنی پڑی وہ جس طرح کے دو فوجی چاہتے تھے ویسے ہی مل گئے ایک اچھے رتبے والا عہدے دار تھا جو زخمی تھا لیکن ایسا زخمی نہیں کہ چلنے پھرنے یا گھوڑ سواری سے معذور ہوتا زخم معمولی تھی، دوسرا فوجی کم رتبہ والا تھا اور جسمانی لحاظ سے بالکل ٹھیک تھا مجاہدین اسے پکڑ کر رہے تھے وہ بھاگنے کی کوشش میں کہیں چھپا ہوا تھا۔ حدید اور اس کے ساتھیوں نے ان مجاہدین سے یہ رومی لے لیا اور کہا کہ وہ اسے قلعے میں لے جائیں گے اور چونکہ وہ تینوں جاسوس ہیں اس لئے اس سے کچھ باتیں معلوم کریں گے۔
تم دونوں ہماری بات غور سے سن لو ۔۔۔۔مسعود بن سہیل مکی نے ان رومیوں سے کہا۔۔۔۔ یہ دیکھو تمہارے سپہ سالار اطربون کی لاش ہے ہم تمہیں تین گھوڑے دیں گے دو تمہارے لیے اور ایک پر یہ لاس ڈال کر لے جانے کے لئے،،،،،،، ہم تمہیں قید سے آزاد کرتے ہیں تمہیں یہ کام کرنا ہے کہ یہ لاش مصر کے فرمانروا کو دینی ہے۔ میں تمہارے زخموں کی مرہم پٹی کروا کے بھیجوں گا۔ مقوقس کو ہمارا یہ پیغام دینا کہ جنہیں تم عرب کے بدو کہا کرتے ہو انہوں نے یہ لاش تحفے کے طور پر بھیجی ہے اور کہا ہے کہ اسے دیکھو اور عبرت حاصل کرو ۔مقوقس کو یہ بھی کہنا کہ اپنے فوجی افسروں کو بتائے کہ اس نے اطربون کو روکا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں نہ جائے لیکن اطربوں نے اس کی نہ سنی اور بڑے جوش و خروش سے بلبیس چلا گیا تھا۔ ہمارے مقابلے میں جو آئے گا وہ اسی انجام کو پہنچے گا مقوقس کو یہ بھی کہنا کہ ہرقل کو ضرور بتائیے کہ اطربون کی لاش مسلمانوں نے تحفے اور عبرت کے طور پر بھیجی ہے۔
یہ بھی سن لو۔۔۔۔ حدید نے کہا ۔۔۔ہم صرف اس کام کے لیے تمہیں قید سے آزاد کر رہے ہیں اگر تمہیں قید میں رکھیں گے تو تم غلام بنا لئے جاؤ گے اور تمہاری باقی عمر دن رات محنت اور مشقت کرتے گزرے گی اور ذلت میں پڑے رہو گے، یہ لاش سیدھی مقوقس تک لے جاؤ اور اسے ہمارے پیغام کا ایک ایک لفظ پہنچاؤ ہم تم دونوں کو اچھی طرح یاد رکھیں گے، ہم نے جس طرح یہ قلعے فتح کرلیے ہیں اسی طرح اگلے قلعے بھی فتح کر لیں گے، اور ہمیں پتہ چل گیا کہ تم نے لاش مقوقس تک نہیں پہنچائی تھی اور ہمارا پیغام نہیں دیا تھا تو تمھیں ایسی موت ماریں گے کہ دیکھنے والے کانپنے لگیں گے۔
تم لوگ شاید نہیں سمجھے ۔۔۔رومی عہدے دار نے کہا۔۔۔ یہ تو ہمارے ساتھ بہت بڑی نیکی ہے کہ تم ہمیں آزاد کرکے واپس بھیج رہے ہو لیکن یہ ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ ہم اپنے ایک جرنیل کی لاش ساتھ لے جارہے ہیں۔ ہم تمھارا پیغام فرمانروا مقوقس تک لفظ بلفظ پہنچائیں گے اور لاش اس کے حوالے کر کے اس سے داد و تحسین حاصل کریں گے ہو سکتا ہے وہ کوئی انعام بھی دے دے۔۔۔
ان تینوں مجاہدین نے رومی عہدیدار کی مرہم پٹی کروا دی اور دونوں رومیوں کو ایک ایک گھوڑا دیا تیسرا گھوڑا لاش کے لئے دیا جس پر دونوں نے اطربون کی لاش ڈال لی لاش کا سر ایک طرف اور ٹانگیں دوسری طرف تھی۔ وہاں گھوڑوں کی کوئی کمی نہیں تھی مرے ہوئے رومیوں کے گھوڑے ادھر ادھر کھڑے تھے اور جو گھوڑے زخمی تھے ابھی تک بھاگ دوڑ رہے تھے،،،،،،، دونوں رومی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور روانہ ہو گئے تینوں جاسوس مجاہدین کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے تاکہ کوئی انہیں پکڑ نہ لے۔
ایک روایت یہ ہے کہ اطربون کی لاش سپہ سالار عمرو بن عاص کی اجازت لے کر بھیجی گئی تھی۔
ایک عربی مؤرخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ لاش ایک یا دو نائب سالاروں کی تجویز کے مطابق بھیجی گئی تھی اور سپہ سالار کو بتایا ہی نہیں گیا تھا۔
زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ لاش ان تین جاسوسوں نے بھجوا دی تھی اور سپہ سالار کو بتایا ہی نہیں گیا تھا اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ عمرو بن عاص ایک عظیم سپہ سالار تھے ان کی عظمت کو دیکھتے ہوئے تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے عظیم انسان نے اس طرح کی حرکت کی ہوگی۔
ایسی حرکت کوئی گناہ تو نہیں تھی لیکن اتنی بڑی شخصیت کے لئے یہ بڑی چھوٹی سی حرکت تھی بہر حال اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اطربون کی لاش مقوقس کو بابلیون بھیجی گئی تھی۔

مقوقس کی جزباتی حالت کا اندازہ اس کے سوا کون کرسکتا تھا جسے ایک اطلاع تو یہ ملی کہ مسلمانوں نے بلبیس کا قلعہ بھی سر کرلیا ہے اور رومی فوج بڑی بری حالت میں ہزاروں سپاہی مروا کر اور قید میں دے کر پسپا ہو گی ہے۔ دوسری یہ کہ اطربون جس سے وہ اپنا دایاں بازو سمجھتا تھا مارا گیا ہے۔ مقوقس کی حکمران شخصیت پر سب سے بڑی ضرب تو اس پیغام نے لگائی جو مسلمان نے اسے بھیجا تھا اس پیغام میں بڑی ہی توہین آمیز طنز تھی جسے مقوقس نے ایک چیلنج سمجھ لیا لیکن فوری طور پر وہ کچھ بھی نہ سوچ سکا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ہرقل کا قاصد بزنطیہ سے آن پہنچا اور اس نے مقوقس کو ہرقل کا تحریری پیغام دیا ایک تو یہ پیغام ہی ایسا تھا کہ مقوقس برہم ہو گیا دوسری یہ کہ اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی جس میں ایسی کوئی بھی بات جلتی پر تیل کا کام کر سکتی تھی یہ کام ہرقل کے پیغام نے کر دیا اور مقوقس ہرقل کے خلاف مشتعل ہوگیا۔
اطربون کی موت مقوقس کے لئے کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا اسے معلوم تھا کہ اطربون کی موت نے رومی فوج کے حوصلے اور زیادہ پست اور مسلمانوں کے لشکر کے حوصلے اور زیادہ مستحکم اور تروتازہ کر دیے ہونگے۔
تاریخ میں یہ تو واضح نہیں کہ اس وقت قیرس کہاں تھا ؟،،،،،یہ پتہ ملتا ہے کہ مقوقس نے اسے اطلاع بھجوائیں اور وہ فوراً پہنچ گیا۔ مقوقس نے اسے ہرقل کا پیغام پڑھنے کو دیا۔ قیرس جو پیغام پڑھتا جا رہا تھا اس کی جذباتی کیفیت ویسی ہی ہوتی جارہی تھی جیسی مقوقس کی ہوچکی تھی۔ پیغام میں ہرقل نے قیرس کی وفاداری پر شک کا اظہار کیا تھا اس سے تو قیرس جل اٹھا۔
بعض غیر مسلم تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ مصر میں مسلمانوں کی فتح کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہرقل اور قیرس میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور قیرس نے درپردہ مسلمانوں کی مدد کی تھی۔
یہ بالکل بے بنیاد بات ہے ہرقل کا پیغام پڑھ کر مقوقس اور قیرس کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ ان تاریخ نویسوں کی تحریر کی تردید کرتی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ہرقل اور قیرس میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ قیرس نے ہرقل کو مسلمانوں سے شکست دلوانے کے لئے درپردہ ہتھکنڈے شروع کر دیے ہو۔ لیکن اس نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے اپنا ایک الگ محاذ کھولنے کی کوشش شروع کردی تھی۔
ہمارا بادشاہ ہرقل بزنطیہ میں بیٹھا باتیں بنا رہا ہے ۔۔۔۔مقوقس نے حیرت سے کہا ۔۔۔باتیں بھی یوں بنا رہا ہے جیسے اس نے کبھی مسلمانوں کو شکست فاش دی ہو اور مسلمان اس کے نام سے بھی دبکتے ہوں ۔مسلمانوں کی تعداد اس وقت بھی تھوڑی تھی جب انہوں مکل شام سے اسے دھکلنا اور لولہان کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور آخر اسے شام سے نکال ہی باہر کیا۔ آج مجھے سبق دے رہا ہے کہ ہمت نہ ہارو۔
میں جانتا ہوں حقیقت کیا ہے ۔۔۔قیرس نے کہا۔۔۔ ہرقل صرف اس وجہ سے مصر میں نہیں آتا کہ وہ مسلمانوں سے ڈرتا ہے اس نے ملک شام میں ہر محاذ پر مسلمانوں سے شکست کھائی ہے اس کے دل و دماغ پر شکست نقش ہو کر رہ گئی ہے۔ اسے مصر ہاتھ سے جاتا نظر آ رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ شکشت کی سیاہی کسی اور کے منہ پر ملی جائے۔ اگر آج مسلمان پسپائی اختیار کرلیں تو ہرقل دوڑتا ہوا یہاں آ پہنچے گا اور فتح کا سہرا اپنے سر باندھ لے گا ۔اس نے عیسائیت کا چہرہ مسخ کیا اور مجھے اختیارات دے دیے کہ میں اس کی عیسائیت کو لوگوں میں رائج کرو اور جو نہیں مانتا اسے قتل کروا دوں اور اس کا خاندان ہی اجاڑ کر رکھ دوں میں نے یہ حکم مانا اور اپنی رعایا کا خون خرابہ کیا۔
میں نے بارہا اس سے کہا تھا کہ اپنی رعایا کو اپنا دشمن نہ بناؤ لیکن ہرقل بادشاہ ہے وہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ جسے چاہے اسے زندگی اور جسے چاہے موت دے دے۔
جن لوگوں پر مظالم توڑے گئے اور جنہوں نے ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کی وہ آج اپنی ہی فوج کے ساتھ تعاون کرنے سے انکاری ہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔۔ مجھے شک ہے کہ قبطی عیسائی درپردہ مسلمانوں کی مدد کر رہے ہونگے اسقف اعظم!،،،،،، کوئی ایسا طریقہ سوچیں کہ قبطیوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے اپنے دل میں رومی فوج کی عداوت رکھ لینا کوئی بات نہیں لیکن اپنے ملک کے دشمن کی پشت پناہی کرنا بڑا ہی خطرناک اور شرمناک کام ہے اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں کہ قبطیوں کو کس طرح اپنے ساتھ ملایا جائے ہمیں مسلمانوں کو مصر سے نکالنا ہے یا ایک ایک مسلمان کو مصر میں ہی قتل کر دینا ہے ۔ انہوں نے اطربون کی لاش کے ساتھ جو پیغام بھیجا ہے وہ میری برداشت سے باہر ہے انہوں نے میری غیرت کو للکارا ہے میں ان سے عبرت کا انتقام لونگا۔
میں خود یہی چاہتا ہوں۔۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ لیکن بنیامین کو ساتھ لئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے قبطی صرف بنیامین کا حکم مانتے ہیں وہ خود تو قوس کے صحرا میں روپوش ہے لیکن اس نے ایسا نظام بنا رکھا ہے کہ اس کا حکم دور دراز علاقوں کے ہر قبطی عیسائی کے گھر میں پہنچ جاتا ہے وہ سامنے آئے تو میں اس سے معافی مانگ لوں گا اور اسی کو اسقف اعظم بنا رہنے دوں گا اور خود اس رتبے سے دست بردار ہو جاؤں گا۔
میں جانتا ہوں وہ کہاں ہے۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ میں کسی بھی روز اسے گرفتار کروا سکتا تھا لیکن اس لیے خاموش رہا کہ ذاتی طور پر مجھے اس کے ساتھ دلچسپی ہے اور دوسری وجہ یہ کہ قبطیوں کے باغی ہو جانے کا خطرہ تھا۔
مقوقس اور قیرس اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کرتے رہے اور انھوں نے اطربون کے بعد دوسرے بڑے نامور جرنیل تھیوڈور کو بھی بلا لیا اور یہ مسئلہ اس کے سامنے رکھا اور اسے کہا کہ وہ اپنی رائے دے وہ بھی ان کا ہم خیال نکلا اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہرقل کو سلطنت کی بادشاہی سے معزول کردیا جائے۔
معزول نہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔۔۔ مقوقس نے مشتعل لہجے میں کہا ۔۔۔معزول کرنے کی صورت میں خدشہ یہ ہے کہ فوج دو حصوں میں بٹ جائے گی اور خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو جائے گا ایسا ہوا تو مسلمان بڑے آرام سے پورے مصر پر قابض ہو جائیں گے سلطنت روم کی بقا اسی میں ہے کہ ہرقل کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔
مقوقس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہرقل کو قتل کروا دیا جائے اور پھر قبطی عیسائیوں کو ساتھ ملایا جائے اور پھر مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دی جاسکتی ہے بات آخر وہی پر جا رکی کے بنیامین کو ساتھ ملانا ضروری ہے۔
مقوقس نے اسی وقت اپنے ایک خاص آدمی کو بلایا اور اسے کچھ ہدایات دی اور کہا ۔۔۔کہ وہ قوس کے صحرا میں چلا جائے جہاں قبطیوں نے اپنا ایک مرکز بنا رکھا ہے یہ آدمی اپنے آپ کو قبطی عیسائی ظاہر کرے اور بنیامین تک پہنچے، بنیامین اسے مل جائے تو اپنا آپ اس پر بے نقاب کر دے اور کہے کہ مقوقس اور قیرس اس سے ملنا چاہتے ہیں اور دونوں ہرقل کی بنائی ہوئی عیسائیت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔
ہوسکتا ہے بنیامین کسی شک میں پڑ جائے اور بات نہ مانے۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔اسے یقین دلانا اور قائل کرنا ہے کہ وہ بے خوف و خطر آ جائے اور اگر وہ گرفتاری کا خطرہ محسوس کررہا ہے تو قیرس اس کے پاس آ جائے گا اور قیرس اکیلا ہوگا۔ اس کے ساتھ فوج نہیں ہوگی۔
اس طرح ضروری ہدایات لے کر یہ آدمی اس جگہ کو روانہ ہو گیا جہاں بنیامین روپوشی کی حالت میں رہتا تھا۔
مصر کے فرمانروا، مصر کے اسقف اعظم، اور رومی فوج کے ایک نامور جرنیل کے دلوں میں روم کے بادشاہ ہرقل کی مخالفت پیدا ہو چکی تھی جو اتنی شدید تھی کہ عداوت تک پہنچ رہی تھی، ان تینوں کی برہمی کیوجہ بڑی صاف تھی یہ وہی ہرقل تھا جو کم تعداد مسلمانوں سے شکست پر شکست کھا کر شام کا پورا ملک انہیں دے آیا تھا ،اور اب بذنطیہ سے یوں حکم بھیج رہا تھا جیسے یہ تینوں بزدل ہوں اور حوصلہ ہار بیٹھے ہوں، اسقف اعظم اور جرنیل تھیوڈور نے مقوقس سے کہا کہ وہ بھی ہرقل کے نام پیغام لکھے جس میں ایک اطلاع بلبیس کی شکست اور اطربون کی موت کی ہو گی اور اس کے بعد اس پیغام کا ایسا جواب دے جیسے اینٹ کے جواب میں پتھر پھینکا جاتا ہے۔
مقوقس تو اور ہی زیادہ مشتعل اور برہم تھا اس نے اسی وقت اپنے ہاتھ سے پیغام لکھنا شروع کردیا قیرس اور تھیوڈوراسے مشورے دیتے رہے اور اس طرح تینوں نے مل کر جو پیغام لکھا وہ کچھ یوں تھا۔
ہاں شہنشاہ روم ہرقل کے نام جس کی سلامتی اور فتح کیلئے ہم سب لوگ دعا گو رہتے ہیں۔ آپ کا پیغام اس وقت ملا جس وقت میں بابلیون میں اطربون کی لاش کے پاس کھڑا تھا ۔مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو صدمہ پہنچا رہا ہوں لیکن یہ بری خبر آپ سے چھپائی تو نہیں جاسکتی ۔ اطربوں نے مسلمانوں کے لشکر پر اس وقت حملہ کیا تھا جب مسلمانوں نے بلبیس کو محاصرے میں لے رکھا تھا پورا ایک مہینہ لڑائی جاری رہی اور آخر اطربون مارا گیا۔ اور اپنی فوج میں بھگدڑ مچ گئی مسلمانوں نے ہماری فوج کو بہت جانی نقصان پہنچایا ہے اور بہت سے فوجیوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اطربون کی لاش ہماری اپنی فوج کے آدمی اپنے طور پر نہیں لائے بلکہ ہوا یوں ہے کہ لاش مسلمانوں نے بڑے ہی توہین آمیز پیغام کے ساتھ بھیجی ہے میں آپ کے پیغام کا جواب اس حالت میں دے رہا ہوں کے ساتھ والے کمرے میں اطربون کی لاش پڑی ہوئی ہے،،،،،، آپ کے پیغام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مجھے بڑا ہی کمزور اور بزدل آدمی سمجھتے ہیں۔ میں نے مسلمانوں کے ساتھ جو صلح کرنی چاہی تھی وہ کسی کمزوری کے تحت نہیں چاہی تھی بلکہ اپنے احوال و کوائف دیکھے کر یہ قدم اٹھایا تھا ۔آپ نے لکھا ہے کہ میں فوج کو نہ مرواؤں اور مصر مسلمانوں کو دے دوں۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ اپنی فوج کو خون خرابے سے بچا لوں اور مسلمان فرما سے ہی واپس چلے جائیں میں نے اطربون کو حملے سے روکا تھا بہت کچھ سوچ کر روکا تھا لیکن اطربوں نے میرا حکم نہ مانا اور مجھے بتائے بغیر فوج لے کر بلبیس چلا گیا اور پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا مسلمانوں نے اطربون کی فوج کا جم کر مقابلہ کیا اور پھر اطربون کی فوج کی خیمہ گاہ پر ہر دوسری تیسری رات ایسے شب خون مارے کہ ہماری فوج کا ایک نقصان تو جانی ہوا ۔اور دوسرا نقصان ذہنی تھا وہ یہ کہ ہماری فوج پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی شکست کی وجہ یہی تھی،،،،،، آپ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تھوڑی ہے اور میں اتنی زیادہ فوج ہوتے ہوئے بھی انہیں شکست نہیں دے سکتا۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہی تھوڑی تعداد کے مسلمان ہے جنہوں نے آپ کو اور آپ کی فوج کو شام کے ملک سے نکال باہر پھینکا تھا ۔ شام سے ہماری جو بچی کھچی فوج مصر آئی تھی اس پر مسلمانوں کی بے خوفی بےجگری آسیب کی طرح سوار ہو گئی تھی۔ ان شکست خوردہ فوجیوں نے مصر آ کر ساری فوج کو یہ تاثر دیا کہ مسلمان انسان نہیں جنات ہیں جن کے مقابلے میں کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ اس طرح ہماری فوج کا جذبہ مجروح ہوا اور ہماری فوج کی شکست کا باعث یہی ہے میں یہ کہنے کی گستاخی کروں گا کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں بلکہ آپ پر عائد ہوتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ بحیرہ روم کے اس پار جا کر سب کچھ بھول گئے ہیں ۔آپ جانتے ہیں کہ مسلمان کس طرح جانوں کی بازی لگا کر لڑتے ہیں یہ جذبہ ہماری فوج میں پیدا ہو ہی نہیں سکا،،،،،،
میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ اسقف اعظم قیرس کے ہاتھوں آپ کی عیسائیت کو نہ ماننے والوں پر جو ظلم و تشدد کروایا تھا آج مجھے اس کی سزا مل رہی ہے۔ مصر میں قبطی عیسائیوں کی آبادی لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ لیکن وہ ہماری فوج میں شامل ہوتے ہیں نہیں۔ اسقف اعظم قیرس بھی اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔ آپ نے ان کی وفاداری پر جس شک کا اظہار کیا ہے وہ صحیح نہیں۔ وہ اس رعایا سے تعاون کسطرح حاصل کرسکتے ہیں جس رعایا کے لیے وہ جلاد بنا دیئے گئے تھے۔ آپ نے لکھا ہے کہ مصر کے بدو ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں سے جا ملے ہیں۔ غور کریں کہ وہ ہمارے ساتھ کیوں نہ ملے اور حملہ آوروں کے ساتھ کیوں چلے گئے۔ ان تک ہم نے بھی رسائی حاصل کی تھی لیکن انھوں نے ہمیں انکار دیا اور وہ کہتے تھے کہ ہم لوگ آزاد ہیں اور کسی کے حکم سے ہم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے مقابلے میں انہوں نے مسلمانوں کو پسند کیا اور ایک لشکر کی صورت میں مسلمانوں کے لشکر میں چلے گئے،،،،،، میں آپ کو یہ اطمینان دلاتا ہوں کہ قبطی عیسائیوں کو ساتھ ملانے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے میں نے بنیامین کی طرف اپنا ایک ایلچی بھیج دیا ہے۔ اور اسے اپنے ہاں بلوایا ہے۔ اسقف اعظم قیرس نے اپنے رویے میں لچک پیدا کر لی ہے۔ اگر بنیامین آگیا تو میں قیرس اور بنیامین کے اختلافات ختم کرا دوں گا۔ اور پھر بنیامین کوقائل کروں گا کہ وہ قبطی عیسائیوں کا ایک لشکر تیار کرکے رومی فوج کے ساتھ آ جائے تاکہ عرب کے ان مسلمانوں کو مصر سے نکالا جائے ۔اگر آپ کو میری یہ الفاظ مطمئن نہ کر سکے تو ہمارے پاس آجائیں اور لڑائی کی نگرانی خود کریں میں آپ کو یہ یقین بھی دلاتا ہوں کہ ہم میں سے کسی نے بھی ہمت نہیں ہاری اور ہمارے حوصلے مضبوط ہیں۔
مقوقس نے یہ پیغام سربمہر کر کے ایک قاصد کو دیا اور ہدایت یہ دی کہ جس قدر جلدی ہو سکے وہ بزنطیہ پہنچے اور یہ پیغام ہرقل کے ہاتھ میں دے دے۔

ہم پھر واپس بلبیس چلتے ہیں جہاں شہر کے اندر اور باہر لاشیں بکھری ہوئی تھی اور شدید زخمی بے ہوش پڑے تھے۔ اور جو ہوش میں تھے وہ اپنے آپ کو گھسیٹ رہے تھے کہ عافیت کے کسی مقام تک پہنچ جائیں ۔ مسلمان خواتین زخمیوں کو پانی پلا پلا کر اٹھا رہی تھیں زمین کا وسیع وعریض خطہ خون سے سیراب ہوا جا رہا تھا۔
یہی سے اطربون کی لاش اٹھائی گئی تھی۔ اس کی لاش مقوقس کو بھجوا کر شارینا اور اینی اپنے کام میں مصروف ہو گئی تھیں۔ حدید، فہد، اور مسعود وہاں سے چلے گئے تھے ۔بہت سے مسلمان خواتین زخمیوں کو اٹھا رہی تھی اور انہیں مرہم پٹی کے لیے لے جا رہی تھیں۔ ان کے ساتھ مجاہدین بھی تھے جو ان زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لے جارہے تھے جو بے ہوش تھے یا کھڑے ہونے کے قابل نہیں تھے۔
کسی بھی خاتون کے چہرے پر ایسا نقاب نہیں تھا کہ وہ پہچانی نہ جا سکے لیکن ایک خاتون نے اپنا چہرہ اس طرح نقاب میں چھپا رکھا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھی۔ وہ زخمیوں اور لاشوں کو دیکھتی چلی جا رہی تھی اور اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہے وہاں مجاہدین بھی اور ان کے خواتین بھی اتنی مصروف تھیں کہ انھیں ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں تھی زخمیوں کو اٹھانے کی جلدی اس لئے تھی کہ کوئی زخمی خون زیادہ بہہ جانے سے شہید نہ ہوجائے۔
شارینا اور اینی مل کر ایک زخمی کو اٹھا رہی تھی زخمی مجاہد اٹھا اور دونوں لڑکیاں اسے سہارا دے کر لے جانے لگی تو زخمی نے انہیں روک دیا اور کہا کہ وہ خود اپنے سہارے پیچھے چلا جائے گا ۔شارینا نے دیکھا کہ اس زخمی سے اچھی طرح چلا نہیں جا رہا تھا۔ شاعرینا نے اسے کہا۔۔۔ کہ وہ اپنے آپ پر جبر نہ کرے اور اس کا سہارا لے لے اینی بھی زخمی کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی اور اپنا ایک بازو زخمی کے کمر میں ڈال دیا۔
نہ میری بہنو!،،،،، مجاہد نے شارینا اور اینی سے الگ ہوکر اور مسکرا کر کہا۔۔۔ ہمیں سہاروں کا عادی نہ بنائیں ہم سہاروں کے بل پر چلنے پھرنے لگے تو پھر مصر کون فتح کرےگا تم جاؤ اور بے ہوش پڑے ہوئے زخمیوں کو اٹھاؤ مجھے اللہ کا سہارا بہت ہے۔
زخمی چلا گیا شارینا اور اینی دوسرے زخمیوں کو ڈھونڈنے چل پڑی زخمیوں کی قربناک آوازوں اور زخمی گھوڑوں کے بھاگنے دوڑنے کے دھماکوں اور میدان جنگ کی دیگر آوازوں اور آہٹوں میں شارینا کو یوں لگا جیسے اسے کسی عورت نے پکارا ہو ۔شاعرینا نے روک کر دائیں بائیں دیکھا اسے ایک خاتون نظر آئی جس نے چہرہ نقاب میں ڈھانپ رکھا تھا اور صرف آنکھیں ننگی تھیں۔
شارینا!،،،، اس لڑکی نے قریب آکر کہا۔۔۔ تمہیں پہچاننے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی کیا تم شارینا نہیں ہو؟
ہاں میں شارینا نہ ہی ہوں۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ چہرے سے نقاب تو ہٹاؤ کہ میں بھی دیکھ سکو تم کون ہو؟ تم نے میری زبان میں بات کی ہے کیا تم مسلمان نہیں ہو؟
نہیں!،،،، اس لڑکی نے کہا۔۔۔ میں اربیلا ہوں ہم دونوں ایک دوسرے کو بھول نہیں سکتے۔
او ہو۔۔۔۔ اربیلا۔۔۔ شارینا نے اربیلا کو اپنے بازوؤں میں لے کر بڑی تیزی سے کہا ۔۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کس کے ساتھ آئی ہو؟ جلدی بولو تمہارا یہاں اکیلے پھرتے رہنا ٹھیک نہیں۔
وہ بدکار اطربون مجھے ساتھ لے آیا تھا۔۔۔ اربیلا نے کہا ۔۔۔سنا ہے وہ مارا گیا ہے اس خبر سے میں بہت ہی خوش ہوں یہاں ایک فوجی افسر روباش کو ڈھونڈتی پھر رہی ہوں یہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ اطربون کی کی لاش نظر آئے تو مجھے یقین ہوجائے گا کہ میں آزاد ہو گئی ہوں اس کی لاش کے منہ پر تھوکوں گی۔
اربیلا نے شارینا کو بتایا کہ اسے اطربون اپنے ساتھ داشتہ بنا کر لایا تھا وہ ایک جواں سال فوجی افسر روباش کو دل وجان سے چاہتی تھی اور روباش اس پر فدا ہوا جاتا تھا ۔اس کی شادی ہو سکتی تھی اور ہو بھی جاتی۔ لیکن اطربون کی نظر پڑ گئی اور اس نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اربیلا کو داشتہ بنا لیا اور اس کے ماں باپ کو کچھ نقد معاوضہ دیا اور ساتھ ہی برے نتائج کی دھمکیاں دے کر ان پر دہشت بھی طاری کردی اربیلا کے ماں باپ پہلے ہی دہشت زدہ رہتے تھے کیونکہ وہ ھرقل کی بنائی ہوئی عیسائیت کو نہیں مانتے تھے اور وہ قبطی عیسائی تھے۔ انہوں نے قبطیی عیسائیوں کو قتل ہوتے یا زیر اعتاب آتے دیکھا تھا دل پر پتھر رکھ کر چپ ہو رہے۔
یہ پانچ چھ مہینے پہلے کی بات تھی اربیلا اطربون کی قید میں بہت روئی تھی تھی مگر اطربون نے اس پر تشدد کرکے اپنے قبضے میں ہی رکھا پھر بھی اربیلا دو تین مرتبہ اپنے محبوب اور روباش سے ملی ایک بار اطربون کو پتہ چل گیا تو اس نے اربیلا کو مارا پیٹا اور روباش کے خلاف بھی کارروائی کی ۔ روباش چونکہ فوجی افسر تھا اور اس کا کوئی دور کا تعلق شاہی خاندان سے بھی بنتا تھا اس لیے اس کے خلاف کوئی سنگین یا شدید کارروائی نہ کر سکا۔ لیکن اسے معاف کرنے پر بھی راضی نہ ہوا اس وقت روباش اسکندریہ میں تھا ۔ اطربون اس کو اسکندریہ سے بلا کر ان فوجی دستوں میں شامل کردیا جو فرما اور بلبیس کے قلعوں میں تھے یہ اس توقع پر کیا کہ روباش لڑائی میں مارا جائے گا۔اب اطربون بارہ ہزار فوج لے کر مسلمانوں پر حملہ کرنے آیا تو اربیلا کو بھی ساتھ لے آیا اربیلا کے علاوہ ایک اور لڑکی بھی اسکے ساتھ تھی۔ مسلمان تو اپنی بیویوں بہنوں یا بیٹیوں کو ساتھ رکھتے تھے لیکن رومی فوج کے افسر داشتاؤں کو محاذ پر لے جاتے تھے۔ اطربون عورت کا دلادہ تھا اربیلہ کو کسی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ روباش بلبیس کے قلعے میں ہے ۔اربیلا نے شارینا کو بتایا کہ اطربون کی دوسری داشتہ اس کا ساتھ دیتی تو شاید دونوں مل کر اطربون کو زہر پیلا دیتیں یا کسی طرح اسے قتل کر دیتیں۔ لیکن دوسری داشتہ بہت خوش تھی کہ وہ اتنے بڑے جرنیل کی داشتہ ہے۔ اربیلا یہی کر سکتی تھی کہ اطربون کے مارے جانے کی دعائیں کرتی جو وہ کرتی ہی رہتی تھی آخر اس کے کانوں میں بلبیس کے آخری معرکے کے دوران یہ آواز پڑی کہ اطربون مارا گیا ہے ۔رومی فوج کی خیمہ گاہہیں بلبیس کے میدان جنگ سے دو تین میل دور تھے وہاں جو رومی ملازمین وغیرہ تھے وہ سب وہیں سے بھاگ گئے۔ اطربون کی دوسری داشتہ بھی ان کے ساتھ چلی گئی۔ اربیلا اطربون کے خیمے میں ہی رہی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی خوش قسمت ہو گئی ہے کہ اطربون مارا گیا ہے۔
بہت دیر بعد وہ خیمے سے نکلی تو اس نے دیکھا کہ وہ اتنی بڑی خیمہ گاہ میں اکیلی ہے وہاں کوئی گھوڑا بھی نہیں تھا کہ وہ اس پر سوار ہو کر بھاگ جاتی اس نے بھاگ جانے کا پکا ارادہ کیا بھی نہیں تھا۔ اطربون کی موت سے بےخبر بلبیس کی طرف چل پڑی وہ روباش کی تلاش میں جا رہی تھی وہ لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتی پھر رہی تھی کہ اسے شارینا نظر آگئی ۔شارینا جب اپنی ماں کے ساتھ ہرقل کے محل میں رہتی تھی اس وقت اربیلا شارینا کے پاس آتی اور کچھ دیر دونوں لڑکیاں ہنستی کھیلتی رہتی تھیں۔
اندازہ کرو شارینا!،،،، اربیلا نے کہا ۔۔۔میری محبت دیکھو میں نے روباش کی تلاش میں یہ بھی نہ سوچا کہ مسلمانوں نے مجھے پکڑ لیا تو میرے ساتھ کیسا برا سلوک ہوگا۔
نہیں اربیلا!،،، شارینا نے کہا۔۔۔۔ خطرہ صرف یہ تھا کہ تم پکڑی جاتی لیکن مسلمانوں کے ہاں ایسا کوئی خطرہ نہیں جو تم ذہن میں لئے پھرتی ہو۔ مسلمان دشمن کی جن عورتوں کو قیدی بناتے ہیں انہیں پیچھے بھیج دیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان خواہ وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو کسی عورت کو داشتہ نہیں بنا سکتا۔ اسے باقاعدہ نکاح کے بعد بیوی بنا سکتا ہے۔ اور قیدی عورتوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔ تم پکڑی جاتی تو تمہیں نقصان صرف یہ ہوتا کہ روباش کو نہیں ڈھونڈ سکتی تھی،،،،،، میں سوچتی ہوں تم روباش کو کہاں کہاں ڈھونڈتی پھرو گی۔
کیا تم میری کوئی مدد نہیں کرسکوں گی شارینا!،،،،،، اربیلا نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔یہ تو میں نے تم سے پوچھا ہی نہیں کہ تم یہاں کس حیثیت میں ہو؟،،،،، اور کیا تم میری کچھ مدد کر بھی سکتی ہو یا نہیں۔
میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ میں نے یہاں پہنچتے ہی اسلام قبول کر لیا تھا اور جس کے ساتھ آئی تھی اس کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ میں تم پر شرط عائد نہیں کر رہی مشورہ دے رہی ہوں کہ تمہارے ساتھ روباش کو تلاش کرو گی۔
اگر وہ زندہ مل گیا تو تم دونوں اسلام قبول کرلینا اور تمہاری شادی ہو جائے گی۔
شارینا نے اربیلا کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں اور رومیوں میں کیا فرق ہے سب سے بڑی بات یہ کہ مسلمانوں کے یہاں کوئی خاندان شاہی خاندان نہیں ہوتا ۔ خلیفہ اور سپہ سالار بھی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور اعلی نسل نہیں سمجھتے،،،،،، اربیلا نے یہ باتیں سنی تو کہا۔۔۔ کہ یہ شرط ہے یا مشورہ، روباش مل جائے تو دونوں اسلام قبول کرلیں گے۔
شارینا اینی کو وہیں چھوڑ کر اربیلا کو ساتھ لئے قلعے کے اندر چلی گئی وہ سب سے پہلے ان رومی فوجیوں کو دیکھنا چاہتی تھی جو ہتھیار ڈال رہے تھے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

جاری ہے………….

اپنا تبصرہ بھیجیں