اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر14)

ہامون کے ٹھکانے تک پہنچتے شام ہوگئی۔ وہ بڑے جانوروں کی کھالوں کا بنا ہوا خیمہ تھا جو عام قسم کے خیموں سے دو گنا کشادہ تھا۔ خیمے کے باہر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی اس کا رنگ گہرا سانولا تھا، آنکھیں لال سرخ اور دانت زردی مائل تھے، اس کے چہرے پر کراہت اور نحوست کا تاثر تھا جسے چھپایا نہیں جاسکتا تھا ،اس کے سر کے بال شانوں تک آئے ہوئے تھے، اور اس نے سر پر بڑا ہی میلہ اور بد رنگ سا کپڑا باندھ رکھا تھا، دو آدمی اس کے پاؤں میں بیٹھے اس کی ٹانگیں دبا رہے تھے۔ یہ تھا وہ شخص ہامون جو ان بدوؤں کا پیرومرشد بنا ہوا تھا۔
سیلی نوش ، نوشی، اس کا منگیتر، اور بدوّ ملازم اس کے سامنے گئے اور رک گئے۔ بدوّ ملازم نے جھک کر اسے سلام کیا ہامون نے انھیں اس طرح دیکھا جیسے وہ خود نہیں بلکہ یہ چاروں حقیر اور قابل نفرت انسان ہوں۔
اے ہامون!،،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میں تیرے لیے مہمان لایا ہوں یہ کوئی عام لوگ نہیں بلکہ یہ شاہی خاندان کے لوگ ہیں۔ یہ لڑکی شہزادی ہے اور یہ اس کا منگیتر ہے اور یہ فوج میں عہدیدار ہے، اور یہ شخص اس کا ملازم ہے۔
ہامون نے ہاتھ سے اشارہ کیا جو یہ تھا کہ زمین پر بیٹھ جاؤ ،اس کے انداز میں شاہی خاندان کا ذرا سا بھی احترام معلوم نہیں ہوتا تھا ،چاروں زمین پر بیٹھ گئے۔
کوئی بادشاہ ہو یا بھیکاری یہاں آکر سب ایک ہوتے ہیں۔۔۔ ہامون نے جھومتی ہیں آواز نے کہا ۔۔۔ہرقل بادشاہ ہے لیکن رومی بادشاہی کا رس صحراؤں کی ریت نے چوس لیا ہے۔ کہاں ہے ہرقل اس نے اپنی شہزادی کو کیوں بھیجا ہے؟
ہم سے پوچھ ہامون۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ہم یہی معلوم کرنے آئے ہیں کہ رومی بادشاہی کو ریت کے ذروں نے چوس لیا ہے اور باقی جو رہ گئی ہے کیا وہ نیل کے دریا میں ڈوب تو نہ جائے گی؟
ریت کی اندھی جو عرب سے اٹھی ہے وہ نیل تک پہنچ رہی ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ ہرقل بزنطیہ میں بیٹھا حکم چلا رہا ہے، مقوقس اور اطربون اسکندریہ میں بیٹھے اپنی تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں، پھر اس کی آندھی کو کون روکے گا۔
تو روکے گا ہامون ۔۔۔سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ہم تیرے پاس ہی فریاد لے کر آئے ہیں جو بات تو نے کہی ہے کہ سب دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں یہی بات اس شہزادی کے دل میں ہے اور اس کے دل کو جلا رہی ہے یہ اپنی ایک فوج بنانا چاہتی ہے جس میں اس علاقے کے بدوّ شامل ہوں گے ،ذرا غیب کے پردوں کے پیچھے جھانک اور بتا کہ اس میں اس شہزادی کو کامیابی ہوگی یا نہیں ؟،،،یا سلطنت روم کے لیے ان سیاہ پردوں کے پیچھے کیا ہے؟
میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔۔۔ ہامون نے مخمور سی آواز میں کہا ۔۔۔کبھی تو میرا حال ایسا ہوجاتا ہے کہ کچھ جاننا چاہتا ہوں تو کچھ سراغ نہیں ملتا ، زمین بھی چپ اور آسمان بھی چپ رہتا ہے۔ بعض پردے سفید ہوتے ہیں اٹھاؤ تو ان کے پیچھے ساری فضا اور ہر چیز سیاہ کالی ہوتی ہے ،اور بعض پردے سیاہ کالے ہوتے ہیں ہٹاؤ تو ان کے پیچھے سب کے دودھ جیسے سفید اجالے نظر آتے ہیں،،،،، اندر چلو۔
ہامون اٹھا اور خیمے کے اندر چلا گیا۔ سیلی نوش، نوشی، اور اس کا منگیتر بھی اس کے پیچھے خیلے میں چلے گئے اور سب کے بعد بدوّ ملازم بھی جھکا جھکا سا خیمے میں گیا اور اپنے آقاؤں کے پیچھے زمین پر بیٹھ گیا۔ ان چاروں نے خیمے میں نگاہیں دوڑائیں تو انہیں یوں لگا جیسے کسی بڑے ہی پراسرار اور ڈراؤنے ماحول میں آ گئے ہوں، جس کا اس زمین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،تاثر یہ پیدا ہوتا تھا جیسے یہ خیمہ نہ زمین پر ہے نہ آسمان پر بلکہ زمین اور آسمان کے درمیان پھیلے ہوئے خلاء میں معلق ہے اور یہ ان جیسے انسانوں کا ٹھکانہ نہیں۔
یہ ہامون کی دنیا تھی خیمے میں پانچ چھ خشک انسانی کھوپڑیاں لٹک رہی تھیں، خیمے کے کچھ حصے میں ہامون نے زمین پر گدا رکھ کر اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا رکھی تھی دو انسانی کھوپڑیاں اور بازوؤں کی تین چار ہڈیاں وہاں بھی رکھی تھی اور کچھ اور سامان بھی تھا اور سب سے زیادہ خوفناک چیز ایک سیاہ کالا ناگ تھا جو کھلی ہوئی ٹوکری سے باہر نکل رہا تھا۔
ہامون اپنی جگہ بیٹھ گیا ٹوکری سے نکلتا ہوا ناگ اس کی گود میں سے گزرنے لگا لیکن آگے جانے کی بجائے اس نے پھن پھیلا دیا اور اس کی گود میں جھومنے لگا۔
ہامون کے دائیں طرف ایک کالا پردہ لٹک رہا تھا ہامون نے یہ پردہ ایک چھڑی سے دھکیل کر ہٹا دیا اور اس کے پیچھے سے جو چیز برآمد ہوئی وہ دیکھ کر نوشی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی وہ انسانی ہڈیوں کا مکمل ڈھانچہ تھا۔
مت ڈرو شہزادی!،،،،، ہامون نے کہا۔۔۔ کبھی تیرا بھی یہ حسین و جمیل جسم اسی حالت میں لوگوں کے سامنے آئے گا اور دیکھنے والے سوچیں گے کہ یہ کون تھا۔ وہ خود ہی اپنے آپ کو جواب دیں گے کہ یہ کوئ انسان ہی تھا ۔ یہ ڈھانچہ مجھے میرے استاد نے دیا تھا اور میرے استاد کو اس کے استاد نے دیا تھا اور یہ روایت چلی آرہی ہے
کہ یہ کبھی مصر کی ملکہ ہوا کرتی تھی۔ اس کا شغل میلہ یہ تھا کہ ایک تو انسانوں کو قتل کروا کر ان کے تڑپنے کا خون بہنے کا اور آخری سانس نکل جانے کا تماشہ دیکھا کرتی تھی۔ پھر اس کا ایک شغل اور بھی تھا، کسی غلام کو ساری رات اپنے ساتھ رکھتی اور صبح اسے خنجر دے کر کہتی کہ اس سے اپنا پیٹ اس طرح چاک کر لو کہ سب کچھ باہر آ جائے۔ غلام اس حکم کی تعمیل کرتا اور ملکہ کی تفریح طبع کا ذریعہ بنتا تھا۔ آخر یہ اپنے ایک غلام کے ہی ہاتھوں اس انجام کو پہنچی، اس غلام نے ساری رات ملکہ کے ساتھ گزاری لطف اندوز ہوا جب ملکہ نے اسے اپنا خنجر دے کر کہا کہ اپنا پیٹ چاک کر لو تو غلام نے خنجر لیا اور ملکہ کا پیٹ چاک کر دیا اس کے پیٹ سے سب کچھ باہر آگیا اور غلام اسے تڑپتا دیکھ کر قہقہے لگاتا رہا۔ ملکہ تڑپ تڑپ کر مر گئی تو غلام نے اپنا پیٹ چاک کر لیا۔ آج اس ملک کو دیکھ لو ۔۔۔۔اس نے اس ڈھانچے کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا ۔۔۔میں نے بڑی مشکل سے اس کی روح کا سراغ لگایا ہے اور کبھی کبھی اس کی روح کو بلایا کرتا ہوں۔
ہامون کی یہ بات سننے والے تین آدمی اور ایک نوجوان لڑکی تھی ان پر ایسا تاثر چھا گیا جیسے ان کی روحیں ان کے جسموں سے نکل گئی ہوں اور پیچھے گوشت پوست کے اکڑے ہوئے جسم رہ گئے ہوں، ایک تو بات ایسی تھی اور دوسرے ہامون کے سنانے کا انداز ایسا تھا کہ سننے والوں پر بڑا ہی عجیب تاثر پیدا ہوتا تھا۔
ایک بات بتاؤ گے ہامون !،،،،،نوشی نے دل مضبوط کرکے پوچھا۔۔۔ اس ملکہ کی روح کے ساتھ تمہاری کیا باتیں ہوتی ہیں؟
بڑی لمبی باتیں ہوتی ہیں ۔۔۔ہامون نے کہا۔۔۔ ابھی میں تمہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ایک روح کی باتیں تمہیں سناؤ گا ضرور۔۔۔۔ تمہارے کام آئیں گی۔
اگر تم شہزادی ہو تو ملکہ بھی بن سکتی ہو، اس ملکہ کی روح نے مجھے بتایا تھا کہ ملکہ اتنی زیادہ خوبصورت تھی کہ اس کے حکم سے اپنا پیٹ اپنے ہاتھوں چاک کرنے والے فخر محسوس کرتے تھے کہ وہ اس ملکہ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں وہ تم جیسی ہی خوبصورت ہو گی کوئی عورت ملکہ بھی عورت جیسی حسین بھی ہو وہ اپنے آپ کو دیوی سمجھ کر خدا کو بھول جاتی ہے۔ لیکن خدا اپنے کسی بندے کو نہیں بھولتا اور ہر بندے کے. وہ اعمال بھی دیکھتا ہے جو بندہ اپنے آپ سے بھی چھپاتا پھرتا ہے۔
آج کا ہرقل کل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گا۔ لمبی باتیں ہیں بڑی لمبی باتیں تم اپنی بات کرو۔
سیلی نوش نے نوشی کی ساری بات ہامون کو سنائیں اور پھر اسے یاد دلایا کہ وہ بتائے کہ یہ لڑکی کامیاب ہوگی یا نہیں؟،،، اور کامیابی نظر نہ آئے تو کیا کوئی ایسی صورت پیدا کی جاسکتی ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہو۔

اس وقت تک اتنا لمبا کالا ناگ ہامون کے گردن کے گرد ایک چکر لگا چکا تھا اور اس کا منہ دوسرے کاندھے پر تھا۔ ناگ نے ہامون کے اشارے پر منہ اٹھاکر پھن پھیلا دیا جو اتنا ہی چوڑا ہو گیا تھا جتنا چوڑا ہامون کا چہرہ تھا ۔اب تو ہامون اور ہی زیادہ خوفناک نظر آنے لگا تھا ناگ کا باقی حصہ ہامون کی گود میں اکٹھا ہو گیا تھا اور کنڈلی مارنے کے انداز سے حرکت کر رہا تھا۔
ہامون نے ہاتھ لمبا کرکے ایک ڈنڈا اٹھایا جو کم و بیش دو فٹ لمبا اور دو اڑھائی انچ موٹا تھا اس پر مختلف رنگوں کا کپڑا لپیٹا ہوا تھا اور اس کے ایک سرے پر مختلف پرندوں کے رنگ برنگے پَر بندھے ہوئے تھے۔ ہامون نے اوپر دیکھنا شروع کردیا ذرا ہی دیر بعد اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اس نے ڈنڈا اوپر کردیا اور ڈنڈا بھی لرزنے لگا یہ لرزاں یا ریشہ بڑھتا گیا اور وہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگا۔
وہ جب کھڑا ہو گیا تو اس کا جسم اتنی زور سے لزرنے لگا جیسے یہ شخص گر پڑے گا۔ اور شاید زندہ نہ رہ سکے اس کا سر پیچھے ہی پیچھے ہوتا جا رہا تھا اور اس طرح اس کا منہ پوری طرح آسمان کی طرف ہوگیا ناگ اس کی گردن سے لپٹا ہوا تھا۔
ہامون نے دوسرے ہاتھ سے ناک اپنی گردن سے الگ کرنا شروع کر دیا اور اسکا جسم پہلے سے زیادہ کانپنے لگا۔ ہامون نے اس قدر زیادہ کانپتے ہوئے ہاتھ سے نہ جانے کس طرح ناگ کو پکڑ لیا اور اسے اپنے پیچھے ایک کالے کپڑے پر رکھ دیا ناگ نے کچھ دیر ادھر ادھر رینگ کر سر اٹھایا اور پھن پھیلا دیا۔
ہٹا دے پردہ!۔۔۔۔۔ ہامون نے منہ اور زیادہ اوپر کرکے بڑی بلند آواز سے کہا ۔۔۔دکھا دے جو کچھ بھی ہے،،،،،، ہٹا دے پردہ۔
اس کے جسم نے اور ہی زیادہ تھرکنا اور لزرنا شروع کردیا اس کے ساتھ وہ اپنا سر بڑی زور زور سے کبھی دائیں کبھی بائیں اور کبھی آگے اور پیچھے مارتا تھا۔ اس نے کچھ اور بھی کہا جو کوئی بھی نہ سمجھ سکا نہ یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ کون سی زبان ہے ، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کوئی غیر مرئی طاقت ہے جس نے اس کے بدن پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور یہ طاقت اس کے جسم کو توڑ پھوڑ کر پھینک دے گی دیکھنے والوں پر خوف طاری ہوا جا رہا تھا۔
خاصی دیر بعد ہامون کا جسم سکون میں آنے لگا تھرکنا کم ہوتا گیا پھر رعشہ سا رہ گیا اور آخر جسم ساکن ہو گیا۔
ہامون کے چہرے اور کچھ حرکت سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ ابھی نارمل حالت میں نہیں آیا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دور کی کوئی چیز دیکھنے کی کوشش کررہا ہے کبھی وہ ڈنڈے کو زور زور سے ہلاتا اور اسے ہوا میں اس طرح مارتا جیسے کسی آدمی یا جانور کو مارا جاتا ہے ۔وہ بڑی تیزی سے پیچھے کو مڑا۔
اس کا ناگ سیاہ کپڑے پر ادھر ادھر رینگ رہا تھا۔
اس نے ڈنڈا سر سے اوپر کیا اور اس طرح اوپر سے نیچے کومارا جیسے وہ ناگ کو مارنا چاہتا ہو، اب ہامون کی پیٹھ ان لوگوں کی طرف تھی اس نے ڈنڈے سے سانپ کو چھیڑا تو سانپ نے پھن پھیلا لیا۔
بتا تو نے کیا دیکھا ہے۔۔۔ ہامون نے ناگ سے پوچھا۔۔۔ جلدی صحیح بول۔
سب کچھ تاریک ہے۔۔۔ یہ آواز ہامون کی نہیں تھی بلکہ کسی چھوٹے سے بچے کی تھی یا کسی بوڑھی عورت کی۔
سیلی نوش ،نوشی، اس کے منگیتر اور بدو ملازم نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
پھر دیکھ !،،،،،ہامون نے ناگ سے کہا۔۔۔ میں نے پردے اٹھا دئیے ہیں جو تو دیکھ سکتا ہے وہ میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ پھر دیکھ۔
ہامون بار بار ڈنڈے کا وہ سرا جس پر پرندوں کے رنگ برنگ پَر بندھے ہوئے تھے ناگ کے فن کے قریب لے جا کر زور زور سے ہلاتا تھا ۔اور اسی زور دار طریقے سے ناگ پھن دائیں بائیں ہلاتا اور کبھی پیچھے لے جاکر ڈنڈے پر جھپٹا تھا۔
تاریکی میں ایک مدھم سے کرن نظر آتی ہے۔۔۔ پھر اسی بچے یا بوڑھی عورت کی آواز سنائی دی جو پہلے بھی سنائی دی تھی۔
ہامون نے دو تین مرتبہ پھر ناگ سے کچھ ایسے ہی سوالات پوچھے اور اسے جواب بچے یا بوڑھی عورت کی زبان سے ملے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ڈنڈا بڑی زور زور سے ہوا میں مارنے لگا وہ اچھلتا بھی تھا اور اس کی حرکتیں پاگلوں جیسی تھی۔
وہ اکڑوں بیٹھ گیا اور اب اس کا منہ ان لوگوں کی طرف تھا اس نے سر جھکا لیا اور خاصی دیر بعد سر اٹھایا اور نوشی کے چہرے پر نظریں گاڑ دی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ پھر اٹھا اور نوشی کے سر سے ایک بال اکھاڑ لیا واپس اپنی جگہ گیا قریب پڑی ایک انسانی کھوپڑی اٹھا کر اپنے سامنے رکھی اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر نوشی کے بال پر پھونک ماری اور بال کھوپڑی کے سر پر رکھ دیا۔
تمہیں دو تین دن یہاں رہنا پڑے گا۔۔۔ ہامون نے انھیں کہا ۔۔۔ہوسکتا ہے ایک دو دن زیادہ رکنا پڑے پورا جواب نہیں مل رہا۔۔۔ مل جائے گا۔ کامیابی صاف طور پر نظر نہیں آ رہی میں کچھ نہ کچھ کر لوں گا تمہارے رہنے کا انتظام موجود ہے میں نے مہمانوں کے لیے خیمے لگا رکھے تھے۔ تمہیں پورا آرام ملے گا اور کھانے پینے کا انتظام بھی موجود ہے ۔شاہی محل والا آرام نہیں ملے گا زمین پر سونا پڑے گا ۔اب جاؤ باہر دو آدمی موجود ہیں انہیں کہو وہ تمہیں مہمان والے خیموں میں لے جائیں گے۔
ہامون کے خیمے میں بڑے دیئے جل رہے تھے جن کی پیلی اور لرزتی روشنی میں ہامون پہلے سے زیادہ ڈراؤنا اور پراسرار نظر آرہا تھا وہ چاروں اٹھے اور خیمے سے نکل گئے۔ باہر جو دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے وہ انھیں ایک طرف لے گئے تقریبا سو قدم دور ایک سرسبز ٹیکری تھی جس کے قریب تین چار خیمے لگے ہوئے تھے۔
ان آدمیوں نے انہیں بتایا کہ یہ مہمانوں کے خیمے ہیں اور ان میں اپنا ٹھکانہ بنا لیں۔ دونوں آدمی یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ وہ انکے لئے کھانا لائیں گے ۔

اگلی صبح ہاموں نے چاروں کو اپنے خیمے میں بلایا اور پھر ویسی ہی حرکتیں کی جیسی اس نے گزشتہ رات کی تھی ۔اس روز تو وہ بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا اور نظر یہ آتا تھا کہ ہوش وحواس میں نہیں آ سکے گا۔ اسی کیفیت میں اس نے اپنے ناگ سے کچھ سوال پوچھے اور اسے اسی بچے یا بوڑھی عورت کی آواز میں جواب ملے۔ ایک بار اس نے غصے کی حالت میں ناگ کی گردن پکڑی اور اسکا منہ اپنے منہ میں ڈال کر زور زور سے جھنجوڑا اور پھر اسے منہ سے نکال لیا۔
دو اڑھائی گھنٹے بعد اس نے ان چاروں سے کہا کہ وہ چلے جائیں اور سورج غروب ہونے کے بعد آئیں۔
وہ شام کے بعد ہامون کے خیمے میں گئے اس شام خیمے میں دو کی بجائے چار دیئے جل رہے تھے۔ ہامون نے انہیں وہیں بٹھایا جہاں پہلے بٹھایا کرتا تھا۔ ہامون خود ان کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔وہی ڈنڈا اس کے قریب پڑا تھا جس پر رنگ برنگ کپڑے لپیٹے ہوئے تھے اور ایک سرے پر پرندوں کے رنگ برنگ پَر بندھے ہوئے تھے۔ اس نے ڈنڈا اٹھایا اور اس کے ساتھ ہی چاروں دیے بجھ گئے۔
ہامون نے کسی اجنبی زبان میں بڑے غصے میں کچھ کہا اور ڈنڈا زمین پر مارا۔ پہلے ایک دیا جلا۔ ہامون نے اسی زبان میں کوئی لفظ بولا تو دوسرا دیا جل اٹھا ۔اسی طرح باقی دو دئیے بھی باری باری جل اٹھے۔ پھر ہامون نے وہی حرکتیں شروع کر دیں لیکن اب اس کا انداز کچھ مختلف تھا۔
اس نے کہا کہ نوشی وہیں بیٹھی رہے اور باقی تینوں باہر نکل جائیں۔ تینوں آدمی خیمے سے نکل گئے اور خیمے کے پردے گر پڑے۔
کوئی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہامون نے تینوں کو پکارا اور اندر بلایا تینوں اندر چلے گئے۔
یہ سارا معاملہ اس لڑکی کا ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ مجھے اشارہ بھی مل گیا ہے اور استاد کی روح نے بھی بتایا ہے کہ ایسی بات ہے ہی نہیں کہ یہ لڑکی جو چاہتی ہے اس میں فوراً کامیاب ہوجائے گی۔ میں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہے۔ میں اپنی ذمہ داری پوری کرو گا۔ لیکن اس لڑکی کو اپنے عمل میں شامل کرنا پڑے گا۔ وہ میں تمہاری موجودگی میں بھی کرسکتا ہوں لیکن نہیں کروں گا ۔کیونکہ تم اس لڑکی کو اس حالت میں دیکھو گے تو کہو گے کہ یہ تو پاگل ہو گئی ہے ۔اور پھر ہو سکتا ہے کہ اس کا منگیتر لڑکی کو گھسیٹ کر باہر لے جائے ۔اگر اس کام میں کسی نے دخل اندازی کی تو اس کا کوئی کچھ نہیں بگڑے گا لیکن یہ ناگ مجھے اور اس لڑکی کو بھی ڈس لے گا اور ہمیں مرنے میں ایک دو لمحے ہی لگیں گے۔
ہمیں تجھ پر اعتماد ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی دخل نہیں دے گا لیکن یہ کام ہونا چاہیے ۔یہ لڑکی اور اس کا یہ منگیتر شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان سے جو انعام مانگو گے تمھیں دے دیں گے۔
مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے۔۔۔ ہامون نے کہا ۔۔۔میری یہ دنیا جو تم خیمے کے اندر دیکھ رہے ہو آباد رہنے دی جائے تو میرے لئے یہی انعام کافی ہے۔
اس رات نوشی کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ نوشی جو پہلے اتنا زیادہ بولتی تھی آج اس پر خاموشی طاری ہے اور وہ گہری سوچ میں چلی جاتی ہے۔ اسے کسی نے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی یہ سب جانتے تھے کہ وہ قومی جذبے کے معاملے میں کتنی حساس ہے۔ اور سلطنت روم کی عظمت کو وہ اپنی ذاتی عزت اور آبرو سمجھتی ہے۔ اور چونکہ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا اس لئے پریشان رہنے لگی ہے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

ایک اور دن گزر گیا اور پھر ایک رات آئی وہ رات آدھی گزر گئی چاند نے زمین پر چاندنی بکھیر رکھی تھی۔ سیلی نوش کی ویسے ہی آنکھ کھلی اور وہ خیمے سے نکلا کیونکہ کچھ گھبراہٹ سے محسوس کر رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ باہر ذرا بیٹھ کر پھر آ کر سو جائے گا۔ وہ باہر نکلا تو اسے یوں نظر آیا جیسے کچھ دور درخت کے ساتھ کوئی بیٹھا ہوا ہے۔
سیلی نوش کی فطرت میں تجسس کچھ زیادہ پایا جاتا تھا اس کا ایک مظاہرہ تو اس نے یہ کیا تھا کہ نوشی کے منگیتر اور ملازم کو اس نے نوشی سے گتھم گتھا دیکھا تو اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اور جب نوشی نے ساری بات واضح کی تو اس کے ساتھ چل پڑا کہ دیکھیں ہامون کیا کرتا ہے۔
اس رات اس نے کسی کو درخت کے تنے کے ساتھ لگ کر بیٹھے دیکھا تو اس کی طرف چل پڑا حالانکہ وہ گہری نیند سے اٹھا تھا اور نیند اس پر غالب آ رہی تھی۔
وہاں جا کر دیکھا تو وہ نوشی تھی جو اکیلی گہری سوچ میں کھوئی ہوئی بیٹھی تھی۔ سیلی نوش کو اپنے پاس دے کر وہ چونکی نہیں بلکہ اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ سیلی نوش اس کے پاس آ گیا ہے۔ اس نے سیلی نوش کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔سیلی نوش نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آ بیٹھی ہے؟
میں نہیں جانتی تم کیسے آدمی ہو؟،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ میرے لئے یہ یقین کر لینا مشکل ہے کہ میں تمہیں اعتماد میں لوں یا نہ لوں۔
میرے ماتھے پر کچھ بھی نہیں لکھا۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔۔ اتنا تو سوچ سکتی ہو کہ میں کہیں اور جا رہا تھا اور تمہاری باتیں سنیں تو تمہارے ساتھ یہاں تک آ گیا۔
میرے گھر والے ڈھونڈ رہے ہوں گے کہ میں کہاں غائب ہو گیا ہوں۔ مجھے تم سے کوئی لالچ نہیں کیا یہ کافی نہیں کہ تم مجھے اعتماد میں لو؟
کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا منگیتر تمہارے اعتماد کا آدمی ہے؟
نہیں!،،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ اس سے اعتماد اٹھ گیا ہے اب میں تنہا ہوں میرے پاس گھوڑا ہے خیال آتا ہے یہاں سے بھاگ جاؤ۔
نوشی !،،،،،سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اب تو میں پوچھ کر ہی رہوں گا کہ وہ کیا بات ہے جس نے تمہیں اپنے منگیتر سے بدظن کر دیا ہے۔
پھر ایک وعدہ کرو۔۔۔ نوشی نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ساتھ جو بات بھی کرو گی وہ میرے منگیتر کو نہیں بتاؤ گے اور میرے ملازم کو بھی اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیے۔
سیلی نوش نے اسے یقین دلانے کے لیے کہ وہ اس کی بات کو اپنے دل میں دفن کر دے گا بہت کچھ کہا اور اسے بات کرنے پر آمادہ کر لیا۔
مجھے اس ہامون جادوگر سے بچاؤ ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس نے مجھے اپنے پاس تنہا بیٹھا کر تم تینوں کو باہر نکال دیا تھا اس نے اپنے اوپر کچھ اور ہی کیفیت طاری کرلی کبھی میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر میری آنکھوں میں جھانکتا اور ایک بار یہ اپنا منہ میرے منہ کے اتنے قریب لے آیا کہ اس کی پیشانی میرے پیشانی کے ساتھ لگ گئی اس کے منہ سے مجھے جو بدبو آئی اس سے معلوم نہیں میں بیہوش کیوں نہ ہو گئی ۔اس کی سانسیں اتنی گرم کے میرے چہرے پر جلن محسوس ہونے لگی اچھا ہوا کہ اس نے اپنا منہ جلدی پیچھے کر لیا پھر اس میں کچھ عجیب و غریب حرکتیں کی جو میری سمجھ سے باہر تھی۔
پھر یہ اپنے ناگ کے پاس جا بیٹھا اور میری طرف پیٹھ کر لی اس نے ناگ سے کچھ پوچھنا شروع کردیا مجھے تو یوں پتہ چل رہا تھا جیسے ناگ اسے جواب دے رہا ہے آواز ایسی ہی تھی جو تم نے بھی سنی ہے آخر ناگ نے اسی باریکی اور کانپتی سی آواز میں کہا کہ یہ لڑکی تھوڑی سی قربانی دے دے تو یہ ملکہ بنے گی اور وہ سب کچھ پائے گی جو یہ چاہتی ہے۔
ناگ سے کچھ اور باتیں کر کے اس نے منہ میری طرف کیا اور مجھے اپنے قریب بلایا میں اس کے سامنے بالکل قریب جا بیٹھی اس نے اپنے ہی انداز اور لہجے میں کچھ اور باتیں کی اور آخر بات کو یہاں پر لے آیا کہ میں اس کے ساتھ بالکل برہنہ ہو کر ایک رات گزاروں تو میرا عزم تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے تمہارے اس حسن اور دلکش جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں لیکن اس غیبی طاقت کا جس کے قبضہ میں میں ہوں حکم ہے کہ تم دونوں کے جسم ایک ہو جائیں اور دونوں کی روحیں اوپر جائیں پھر ہر مشکل آسان ہو جائے گی اور ہر ارادہ پورا ہوگا۔
میں جان گیا ہوں۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ شخص جو چاہتا ہے وہ میں سمجھ گیا ہوں تم یہ بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال اور کیا ارادہ ہے؟
تمہیں یاد ہو گا میں پہلے کیا کہتی رہی ہوں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میں یہ کہتی رہی اور اب بھی کہوں گی کہ میں سلطنت روم کی عظمت پر اپنی جان قربان کر دوں گی لیکن سیلی نوش میں عصمت قربان نہیں کر سکتی، میں اپنی آبرو کو اپنے منگیتر کی امانت سمجھتی ہوں میرا مذہب اجازت نہیں دیتا کہ اپنی عصمت کسی کو دے دو خواہ وہ میر امام ملک ہی کیوں نہ ہو اگر گناہ ہی کرنا ہے تو کیا اس بدو اورمنحوس اور مکروہ آدمی کے ساتھ کیا جائے؟
کیا تم نے اپنے منگیتر کو نہیں بتایا۔۔۔ سیلی نوش نے پوچھا۔
بتایا ہے ۔۔۔ نوشی نے جواب دیا۔۔۔ لیکن وہ بے غیرت اور لالچی نکلا اس نے کہا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں کوئی حرج نہیں اس شخص کے ساتھ ایک رات بسر کر لو پھر تم ملکہ ہو گی اور میں بادشاہ ہوں گا ۔
میں نے منگیتر کو بتایا تھا کہ ہامون نے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے ہرقل مصر کا بہت بڑا حصہ دے دے گا جہاں میری بادشاہی ہو گی۔ یہ بات منگیتر کو بتائی تو وہ میرے پیچھے پڑ گیا کہ میں ہامون کی یہ بات پوری کر دوں۔ آج شام جب ہم ہامون کے خیمے سے یہاں آئی تو منگیتر کے ساتھ میری لڑائی ہوگئی ہم دونوں نے اپنا خیمہ الگ رکھا تھا کہ راز و نیاز اور پیار و محبت کی باتیں کیا کریں گے، لیکن وہ بالکل ہی کچھ اور نکلا،،،، تم بتاؤ سیلی نوش میں بھاگ جاؤں یا اپنی جان اپنے ہاتھوں لے لوں! ۔
اپنی جان کیوں لے لو ؟۔۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ دنیا اس منگیتر پر ختم نہیں ہوجاتی ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں جو میں تین چار روز پہلے سے محسوس کر رہا ہوں۔ کسی وقت میں بھی ہامون کی کرامت کو مانتا تھا لیکن اب نہیں۔ میں دیکھتا رہا ہوں کے اس کی نظر صرف تم پر رہتی تھی تم ہو بھی اتنی زیادہ خوبصورت اور اتنی دلکش کہ پروہت اور پیشوا بھی اپنی حیثیت اور اپنا مذہب بھول جائیں۔
یہ شخص ہامون مجھے صرف شعبدہ بازی لگتا ہے۔
وہ جو دیئے اپنے آپ ہی بجھ گئے اور جل اٹھے تھے یہ ایک شعبدہ بازی ہے۔ اب تم نے اس سے سارا پردہ ہی اٹھا دیا ہے تم نے کہا ہے کہ میں تمھیں ہامون سے بچاؤ میں تمہیں بچاؤں گا۔
کیا کرو گے؟،،،، نوشی نے پوچھا۔
یہ مت پوچھو!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ بتا دیتا ہوں کہ تم اپنی جان نہیں لوں گی بلکہ ہامون کی جان لی جائے گی اس کی جان کسی طرح لی جائے گی یہ میں تمہیں بتاؤں گا۔ اور تم نے وہی کرنا ہے جو میں کہوں گا۔
مجھے ابھی بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے۔۔۔ نوشی نے بے تابی سے کہا۔۔۔ تم شاید نہیں سمجھ سکے کہ میں کیسی پریشان کن صورتحال میں پھنس گئی ہوں۔ میں نے تمہیں اپنے منگیتر کی ذہنی حالت نہیں بتائی وہ تو مرنے مارنے پر اترا ہوا ہے کہتا ہے کہ ہامون کی فرمائش پوری کرو۔
کرنا یہ ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ آج رات ہامون کے خیمے میں چلی جانا اس پر یہ ظاہر نہ ہونے دینا کے تم رضامند نہیں ہو۔
مجھے مشکل میں نہ ڈالو سیلی نوش!،،،،، نوشی نے کہا ۔۔۔۔۔وہ فوراً مجھے برہنہ ہو جانے کو کہے گا وہ پہلے ہی مجھے بتا چکا ہے کہ میں اس کے پاس جاؤ گی تو وہ کیا کرے گا۔
وہ کہے بھی تو برہنہ نہ ہونا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ہوسکتا ہے وہ زبردستی تمہارے کپڑے اتارے گا لیکن گھبرانا نہیں تمہارا جسم ننگا نہیں ہوگا۔
ایک طرف تو نوشی اس قدر جرات مند اور جوش و جذبے والی تھی کہ صرف ایک ملازم کو ساتھ لے کر فرما سے چل پڑیں اور دشت و جبل سے گزرتی ان دیکھے اجنبی بدوؤں کے علاقے میں جا پہنچی تھی۔ اور اب اس کا یہ حال کے دل پر خوف طاری تھا اور وہ مدد اور پناہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ سیلی نوش کو اس نے اپنا ہمراز اور ہمدرد تو بنا لیا تھا لیکن اسے پوری طرح یقین نہیں آیا تھا کہ سیلی نوش اس کے حق میں مخلص ہے۔ لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ڈھونڈنے والی بات تھی اس نے یہ خطرہ مول لے لیا کہ ایک ایسے شخص کو اعتماد میں لے لیا جو بدوّ تھا اور ہامون کی جادوگری کو مانتا تھا۔ یہ شخص سیلی نوش اسے دھوکہ دے سکتا تھا اور یہ خطرہ بھی کہ نوشی پر اس کی بھی نیت خراب ہوسکتی تھی۔ مختصر یہ کہ نوشی کا لاپتہ ہو جانا صاف نظر آ رہا تھا۔
نوشی وہاں سے اٹھی اور اپنے خیمے کی طرف چل دی نوشی اور اس کے منگیتر کا خیمہ سیلی نوش کے خیمے کے قریب ہی تھا۔ لیکن نوشی ذرا چکر کاٹ کر اپنے خیمے کی طرف جا رہی تھی سیلی نوش سیدھا اپنے خیمے میں آگیا۔
نوشی نے ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک اس کا منگیتر اس کے سامنے آگیا ۔
اس کی آنکھ کھلی تو نوشی کو غائب پایا اور اس کے پیچھے خیمے سے نکل گیا تھا ۔رات چاندنی تھی اس لئے اس نے نوشی کو سیلی نوشکے ساتھ دیکھ لیا تھا۔
آدھی رات کے وقت اس بدوّ کے پاس کیوں گئی تھی؟،،،، منگیتر نے حکم کے لہجے میں پوچھا۔
نوشی نے اسے صحیح بات بتا دی اور کہا کہ وہ اپنی آبرو قربان نہیں کرے گی۔
یہ بات تم دن کے وقت بھی اس کے ساتھ کر سکتی تھی۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ تم ان بدوؤں کی ملکہ بننا چاہتی ہو اور اس کے لئے یہ بدوّ سیلی نوش تمہیں موزوں آدمی نظر آیا ہے۔
نوشی پہلے ہی پریشان اور تذبذب میں مبتلا تھی۔ منگیتر کی یہ بات سن کر اور اس کا تحکمانہ انداز دیکھ کر جل اٹھی اور اس کے دل سے اس منگیتر کی محبت نکلنے لگی۔
میں جہاں جاؤں گی وہاں شہزادی اور ملکہ ہی ہوں گی ۔۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ شاہ ہرقل کا خاندان میری پہچان ہے اس خاندان کے ساتھ تمھارا تعلق بہت دور کا ہے ۔میں چاہوں تو تمہیں دھتکار بھی سکتی ہوں لیکن یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنا رویہ درست کرلو اور مجھ پر گھٹیا الزام نہ لگاؤ۔
دونوں کی جزباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ایک دوسرے کی غلط فہمیاں دور کرکے صلح جوئی کی بات کریں۔ نوشی کے الفاظ سن کر اور اس کا انداز دیکھ کر منگیتر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اس قسم کی دھمکی دیدی کے وہ سیلی نوش کو قتل کر دے گا ۔ وہ کہتا تھا کہ یہ بدوّ ان کی رعایا ہیں ۔
نوشی خودسر اور باغی فطرت کی شہزادی تھی ،اس نے منگیتر کی دھمکی کو چیلنج سمجھ لیا اور کہا کہ وہ سیلی نوش کو قتل نہیں کرے گا البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ سیلی نوش کے ہاتھوں قتل ہو جائے۔
نوشی نے منگیتر کو اس سے آگے بولنے کا موقع ہی نہ دیا اور وہاں سے تیز قدم چل پڑی۔ اپنے خیمے تک پہنچی تو سیلی نوش باہر کھڑا تھا اس نے نوشی سے پوچھا کہ وہ اتنی دیر بعد کیوں آئی ہے؟
نوشی نے اسے بتا دیا کہ وہ کیوں دیر سے آئی ہے اور منگیتر کے ساتھ اس کی جو باتیں ہوئی تھی سنادی۔
تم دو بڑے وزنی پتھروں کے درمیان آگئی ہو نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا کل رات ہامون کے خیمے میں چلی جانا باقی کام میرا ہے۔
نوشی ابھی سیلی نوش کے ساتھ باتیں کر رہی تھی کہ اس کا منگیتر آگیا اور نوشی کو حکم دیا کہ وہ اپنے خیمے میں آئے وہ شاید بھول گیا تھا کہ نوشی کس قدر سرکش اور خود سر لڑکی ہے۔
میں تمہارے حکم کی پابند نہیں ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔اپنی ذات کے متعلق فیصلے خود کرنے کی عقل اور ہمت رکھتی ہوں میں اس خیمے میں نہیں جاؤں گی میں سیلی نوش کے خیمے میں جا رہی ہوں۔
نہیں نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میں یہ صورتحال قبول نہیں کروں گا پھر سیلی نوش نے نوشی کے منگیتر سے کہا ۔۔۔غلط فہمی میں نہ پڑو شہزادے یہ دیکھو تم کہاں ہو اور یہاں کیوں آئے ہو اپنے مقصد کو سامنے رکھو یہ وقت ذاتی اور جذباتی باتوں کا نہیں۔
تو خاموش رہ بدوّ۔۔۔۔ منگیتر نے شاہی رعب سے کہا ۔۔۔اسے اپنے پاس رکھ لے پھر اس کا نتیجہ دیکھ لینا۔
آ جاؤ نوشی!،،،،،،، سیلی نوش نے نوشی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔ اس لڑکے کا دماغ چل گیا ہے تم ہوش میں ہو میرے خیمے میں آجاؤ ورنہ تم دونوں باقی رات لڑتے جھگڑتے گزار دو گے۔
نوشی سیلی نوش کے ساتھ اس کے خیمے میں چلی گئی۔ اس کا منگیتر جلتا بھڑکتا اپنے خیمے میں گیا اور بستر پر جا بیٹھا، وہ سیلی نوش کو اپنا دشمن سمجھنے لگا تھا۔
میں اب اس شخص کو اپنا منگیتر نہیں سمجھوں گی ۔۔۔۔خیمے میں نوشی سے سیلی نوش سے کہہ رہی تھی ۔۔۔میں سلطنت روم کی عظمت کو بحال کرنا چاہتی ہوں اور مسلمانوں کو شکست دے کر ان کا نام و نشان مٹا دینا میری زندگی کا مقصد ہے۔ لیکن یہ جسے میں منگیتر بنا بیٹھی تھی صرف میرے ہو حسن اور نوجوانی اور اس جسم کے ساتھ دلچسپی رکھتا ہے۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں کہ میں کتنی خوبصورت اور دلکش ہوں ،اپنے اس جسم کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔
اگلا روز اس طرح گزرا کے کچھ وقت ہامون کے خیمے میں گئے اور اس کا وہی پاگل پن تھرکنا، تڑپنا، اور ناگ کے ساتھ باتیں کرنا دیکھا ۔ سیلی نوش نوشی اور اس کے منگیتر میں صلح صفائی کرنے کی بہت کوشش کی لیکن منگیتر پہلے سے زیادہ بھڑکا اور بھپرا ہوا تھا۔ نوشی نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ رات ہامون کے خیمے میں جائے گی یہ سن کر اس کا منگیتر کچھ ٹھنڈا ہو گیا۔

رات گہری ہوئی تو نوشی ہامون کے خیمے کی طرف چل پڑی، ہامون نے سب کو بتایا تھا کہ صرف نوشی اس کے پاس آئے گی اور باقی سب لوگ اپنے اپنے خیموں میں رہیں گے۔
نوشی ہامون کے خیمے میں پہنچی تو اس نے نوشی کو اپنے سامنے بیٹھا لیا سامنے بھی ایسا بیٹھایا کہ دونوں کے گھٹنے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ ہامون نے نوشی کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اپنے چہرے کے قریب کیا نوشی نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش تو نہ کی لیکن نفرت کی ایک لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی۔
صاف پتا چلتا تھا کہ ہامون بری طرح نشے میں ہے، اس نے کھڑے ہو کر وہ ڈنڈا جو اس نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا اٹھایا اور ناچنے کھودنے لگا پھر اس نے نوشی کو کھڑا ہونے کو کہا نوشی اٹھ کھڑی ہوئی۔
تمام کپڑے اتار دو۔۔۔ ہامون نے نوشی سے کہا۔۔۔ اس طرح برہنہ ہو جاؤ جس طرح تم پیدا ہوئی تھی یہ جسم کچھ بھی نہیں مجھے تمہاری روح چاہیے اپنی روح مجھے دے دو۔۔۔۔ اتار دو یہ کپڑے۔
نہیں!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ اگر تمہیں صرف روح چاہیے تو یہ جسم کو ننگا کیے بغیر لے سکتے ہو میں کپڑے نہیں اتارونگی۔
ہامون نے نوشی پر اپنا طلسم طاری کرنے کے لئے ایک اوٹ پٹانگ سی حرکتیں کی اور کچھ شعبدہ بھی آزمایا لیکن نوشی نے کپڑے اتارنے سے صاف انکار کردیا۔
ہامون نے پہلے کی طرح ڈنڈا ہاتھ میں لے کر ناچنا کودنا اور عجیب عجیب حرکتیں کرنا شروع کردیا ۔نوشی کھڑی دیکھتی رہی۔ ناچتے کودتے ہوئے ہامون نوشی کے قریب گیا اور گریبان سے اس کی قمیض پر ہاتھ رکھا اور اتنی زور کا جھٹکا دیا کہ قمیض گریبان سے دامن تک پھٹ گئی ،نوشی نے مزاحمت کی اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ہامون آخر مرد تھا اس نے نوشی کے کپڑے نوچنے شروع کردیئے جیسے کوئی درندہ اپنے شکار کو چیر پھاڑ کر رہا ہوں۔
نوشی ابھی نیم برہنہ ہی ہوئی تھی کہ ہامون کے پاؤں زمین سے اوپر اٹھے اور دوسرے لمحے وہ فرش پر پیٹ کے بل گرا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سر پر سیلی نوش کھڑا تھا۔
سیلی نوش نے بڑی تیزی سے خیمے میں داخل ہوکر ہامون کو دبوچا اوپر اٹھایا اور زمین پر بڑی زور سے پٹخ دیا۔
سیلی نوش نے ہامون کو اتنی زور سے پٹخا تھا کہ وہ فوراً اٹھ نہ سکا۔ سیلی نوش نے اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ پر رکھ کر دبایا اور بجلی کی سرعت سے نیام سے تلوار نکالی اور اس کی نوک ہامون کی شہ رگ پر رکھ کر ذرا سا دباؤ ڈالا ۔ ہامون نے پہلے تو سیلی نوش کو ڈرایا کہ وہ اپنے جنون بھوتوں کو بلا کر اس کی بوٹی بوٹی باہر پھینک دے گا۔ لیکن سیلی نوش پر کچھ اثر نہ ہوا۔
وہی آکر تمہیں مجھ سے چھوڑ آئیں گے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔اور اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ پر اور زیادہ دبایا اور تلوار کی نوک اس کے شہ رگ میں چبھو دی ہامون تڑپ رہا تھا۔
اب دیکھ کون کسے قتل کرتا ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تیرے زندہ رہنے کی ایک ہی صورت ہے اپنی اصلیت بتا دے اور اپنی زبان سے کہہ دے کہ یہ سب شعبدہ بازی اور فریب کاری ہے۔
ہامون نے پھر بھی سیلی نوش کو ڈرانے کے لئے کچھ باتیں کیں جو بڑی خوفناک دھمکیاں تھیں لیکن سیلی نوش اس کا کوئی اثر قبول کر ہی نہیں رہا تھا۔
اپنی غیبی طاقت استعمال کر۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔تیرے ہاتھ میں کوئی طاقت ہوتی تو تو اب تک مجھ پر جوابی وار کر چکا ہوتا تو اس لڑکی کی عزت کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔۔۔ فوراً بول۔
سیلی نوش نے تلوار کی نوک اتنی سی اور دبادیں کے ہامون کی شہ رگ سے ذرا سا خون پھوٹ آیا۔
تلوار ہٹالے۔۔۔ ہامون نے کہا ۔۔۔ایک وعدہ کرکے کسی اور کو نہیں بتائے گا اس لڑکی سے بھی کہہ دے کہ زبان بند رکھے۔
سیلی نوش نے تلوار کی نوک اس کے شہ رگ سے اٹھا لی لیکن وہاں سے تلوار ہٹائی نہیں اپنا ایک پاؤں اس کے پیٹ پر ہی رکھا ذرا سا دباؤ کم کردیا پھر سیلی نوش نے اسے یقین دلایا کہ اس کا راز کسی کو معلوم نہیں ہوگا۔ اور یہ لڑکی تو یہاں سے چلی ہی جائے گی یہ بھی سوچ لے کے یہ شاہی خاندان کی لڑکی ہے اگر تو نے جھوٹ بولا تو یہ تجھے بہت ہی بری موت مروائے گی لیکن اس سے پہلے میری تلوار تیرے شہ رگکاٹ چکی ہو گی۔
تو ٹھیک سمجھا ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ میں صرف جادو کے کرتب دکھا سکتا ہوں اور یہ صرف شعبدہ بازی ہے میں جو اچھل کود اور دوسری حرکتیں کرتا ہوں ان کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ مجھ سے متاثر بھی ہو اور خوف زدہ بھی، مجھے کیا ملتا ہے قبیلوں کے سردار بھی یہاں آکر میرے قدموں بیٹھتے ہیں مجھے عیش و عشرت کا سامان مہیا کرتے ہیں، جب بھی میں ایک لڑکی کی فرمائش کرتا ہوں تو کوئی نہ کوئی سردار چن کر ایک خوبصورت لڑکی میرے پاس بھیج دیتا ہے۔
تو ناگ سے سوال پوچھتا تھا۔۔۔ سیلی نوش نے پوچھا۔۔۔ کیا ناگ جواب دیتا تھا یا وہ باریک اور کانپتی ہوئی آواز کس کی تھی؟
وہ میری ہی بدلی ہوئی آواز تھی۔۔۔ ہامون نے جواب دیا۔۔۔۔ یہ کوئی دیکھتا ہی نہیں کہ اس وقت میری پیٹ خیمے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف ہوتی ہے اور منہ ناگ کی طرف کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ باریک اور کانپتی ہیں آواز میری ہوتی ہے۔
اور وہ جو دیے بجھ کر اپنے آپ ہی جل اٹھے تھے؟
یہ میری شعبدہ بازی ہے۔۔۔ ہامون نے جواب دیا۔۔۔ میں ایسے کئی اور کرتب دکھا سکتا ہوں۔ میں خوبصورت لڑکیوں کا شکاری ہوں یہ لڑکی ایسی ہے کہ میں سب کچھ بھول گیا اور اس لڑکی کو حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ،تم نہ آجاتے تو میرا ارادہ پورا ہوجاتا۔
تو غلط سمجھا ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی نے مجھے کل بتا دیا تھا کہ تو کیا چاہتا ہے یہ لڑکی اپنی آبرو دینے پر کسی قیمت پر رضامند نہیں تھی اور اس نے مجھے کہا کہ میں اسے تجھ سے بچا لوں، اسے آج میں نے بھیجا اور خیمے کے پاس کھڑا رہا اور پردے سے اندر دیکھتا رہا اور عین موقع پر تجھے پکڑ لیا۔
میں حیران ہوں تم نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔۔ اس کی عزت کا خیال تو اس کے منگیتر کو ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے تم سے الگ ہو کر اور میرے پاس آکر کہا تھا کہ اس لڑکی کو ایک چھوڑو دو راتیں اپنے پاس رکھو اپنا یہ وعدہ پورا کرو کہ تم اسے ملکہ اور مجھے بادشاہ بنا دو گے ،اور شہنشاہ ہرقل ہمیں مصر کا کچھ حصہ دے دے گا جہاں ہماری بادشاہی ہو گی۔
سیلی نوش نے لڑکی کی طرف اور لڑکی نے سیلی نوش کی طرف دیکھا۔
میں تجھے جینے کا حق نہیں دے سکتا۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔تو سیدھے اور بے سمجھ لوگوں کے ساتھ فریب کاری کر رہا ہے اور ان کی بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
یہ کہہ کر سیلی نوش نے تلوار کی نوک ہامون کی شہ رگ پر رکھ کر اتنا دباؤ ڈالا کہ تلوار ہامون کی گردن میں سے گزر کر زمین میں چلی گئی، سیلی نوش نے تلوار نکالی اور ایک بار پھر شہ رگ میں اتار کر تلوار اپنی طرف کھینچی اور گردن میں لمبا کاٹ دے دیا، اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ سے ہٹایا اور پیچھے ہٹا، ہامون ذبح کئے ہوئے بکرے کی طرح تڑپنے لگا اور اس کی گردن سے خون کا فوارہ پھوٹ آیا۔
چلو نوشی! ۔۔۔۔سیلی نوش نے تلوار نیام میں ڈال کر کہا۔۔۔ اسے تڑپ تڑپ کر مرنے دو۔
سیلی نوش اور نوشی خیمے سے نکل آئے۔

میں منگیتر کے پاس نہیں جانا چاہتی۔ باہر آکر نوشی نے کہا۔۔۔ تم بتاؤ میں کیا کروں یہ تو تم جانتے ہو میں اس طرف کیوں آئی تھی یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہو گیا، تم تو میرے ساتھ رہ نہیں سکتے ملازم میری کوئی مدد نہیں کرسکتا، منگیتر کو میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسے میرے عزم اور میرے جذبے کا کوئی احساس نہیں ،اسے میرے حسن اور جسم کے ساتھ دلچسپی ہے یہ مجھے گمراہ اور خراب کرسکتا ہے میرا ساتھ نہیں دے سکتا۔
میری بات مانو! ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ جو عزم لے کر آئی تھی اس میں تم کامیاب نہیں ہو سکو گی وہ بدوّ جو مسلمان کے ساتھ جاملے ہیں وہ کچھ اور قسم کے لوگ ہیں ،یہ ان سے مختلف ہیں ان سے دور ہی رہو تو اچھا ہے تم واپس چلی جاؤ۔
کیا تم میرے ساتھ چل سکتے ہو؟ ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ میں اتنا ڈر گئی ہوں کہ اکیلے جاتے خوف آتا ہے تم چلو میں تمہیں اتنا انعام دلاؤں گی کہ حیران رہ جاؤ گے۔
میں نے تمہیں اس شیطان سے کسی لالچ میں آکر نہیں بچایا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ میرا ذاتی اخلاق ہے اور اسے میں اپنا فرض سمجھتا تھا ،تمہیں تمہارے باپ تک پہنچانے جاؤں گا تو بھی اپنا فرض سمجھ کر جاؤں گا۔
تو پھر ابھی چلے چلتے ہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میرے منگیتر کو بھی پتہ نہ چلے اور میرے ملازم کو بھی، میں ذرا ادھر جا کر رک جاتی ہو تم اپنا اور میرا گھوڑا لے آؤ۔۔۔ سیلی نوش واپس ہامون کے خیمے میں گیا ہامون بے حس و حرکت پڑا تھا اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان آنکھوں سے زندگی کی چمک ختم ہو چکی تھی، سیلی نوش نے اسے حقارت سے دیکھا اور خیمے سے نکل آیا ۔
اس نے نوشی سے کہا کہ وہ کچھ دور جاکر اس کا انتظار کرے اور خود اپنے خیمے میں چلا گیا۔
سیلی نوش اور بدوّ ملازم ایک ہی خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے گھوڑے خیموں سے کچھ دور بندھے رہتے تھے، اور ان کی ذینیں خیموں میں رکھی ہوئی تھیں۔ سیلی نوش نے اپنے خیمے میں جا کر ملازم کو دیکھا وہ گہری نیند سویا ہوا تھا ۔سیلی نوش نے اپنی اور ملازم کی زین اٹھائی دو زینوں کا وزن زیادہ تھا ، لیکن سیلی نوش نے یہ وزن اٹھا لیا اور دبے پاؤں خیمے سے نکل گیا گھوڑوں تک پہنچا اپنے اور ایک اور گھوڑے پر زین کسی اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور دوسرے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور اس جگہ جا پہنچا جہاں نوشی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔
نوشی گھوڑے پرسوار ہوئی اور دونوں چل پڑے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

کوئی بات کرو سیلی نوش!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ چپ نہ رہو تمہاری خاموشی مجھے ڈرا رہی ہے۔
میں تو تمہیں بہت ہی دلیر اور نڈر لڑکی سمجھا تھا نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تمہیں جس کا ڈر تھا اسے تمہارے سامنے قتل کر آیا ہوں اس سے تم بچ کر نکل آئی ہو، اپنے منگیتر کا تمہیں ڈر نہیں ہونا چاہیے وہ تمہارا منگیتر ہے دشمن نہیں ،جتنی دیر میں اسے پتا چل آتا ہے کہ تم لاپتہ ہو ہم بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، اسے یہ تو معلوم ہی نہیں ہوسکے گا کہ ہم کس طرف نکل گئے ہیں ،ہوسکتا ہے اسے یہ شک ہو کہ میں تمھیں زبردستی یا ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا ہوں، اگر ایسا ہوا تو وہ بدوؤں کے خیموں اور جھنوپڑوں میں ہمیں ڈھونڈتا پھرے گا۔
پہلے تو وہ ہامون جادوگر کے خیمے میں جائے گا ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔خون میں ڈوبی ہوئی اس کی لاش دیکھے گا تو اسے شک نہیں یقین ہوجائے گا کہ تم ہامون کو قتل کرکے مجھے اپنے ساتھ لے گئے ہو۔
وہ ہمارے پیچھے نہیں آئے گا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ویسے بھی اس سے نہ ڈرو، باقی رہا میں مجھ سے تمہارا ڈرنا بجا ہے ،میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے تمہارے دل سے اپنا ڈر نکال سکوں۔
یہ ڈر اس وقت تمہارے دل سے نکلے گا جب میں تمہیں تمہارے ماں باپ تک پہنچادوں گا۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا سیلی نوش !،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ اب پھر کہتی ہوں کہ مجھے میرے ماں باپ کے پاس پہنچا دو گے تو بے بہا انعام دلاؤں گی ، ایک کام اور کرنا میرے ماں باپ کو یہ سارا واقعہ سنا نا میں نے سنایا تو شاید یقین نہ کریں، اس منگیتر کے متعلق بھی بتانا کہ یہ کس نیت کا آدمی ہے اور اس نے اپنی نیت کا اظہار کس طرح کیا تھا۔
یہ تو بتاؤں گا ہی نوشی !،،،،،، سیلی نوش نے کہا ۔۔۔۔لیکن بار بار انعام کا نام نہ لو مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے میں نے اپنا انعام وصول کر لیا ہے اور،،،،،،
کیا کہا ؟،،،،،،نوشی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔کیا تمہارا یہ مطلب تو نہیں کہ تم نے مجھے انعام کے طور پر وصول کر لیا ہے؟،،،، کیا تم مجھے میرے باپ باپ کے پاس نہیں لے جا رہے؟
بیوقوف لڑکی!،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میری پوری بات تو سن لو میں بدّو نہیں ہوں نوشی،،،،، اور میں عیسائی بھی نہیں۔
پھر کیا ہو؟
مسلمان!،،،،،، سیلی نوش نے جواب دیا ۔۔۔۔ میں مصری نہیں عربی ہوں اور میرا نام سیلی نوش نہیں عباس بن طلحہ ہے۔ تمہارے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے میں جب تمہیں تمہارے ٹھکانے پر پہنچا دوں گا تو بتانا کے مسلمان کیسے ہوتے ہیں، اور ان کا کردار کیا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میں ہی ایک اچھا مسلمان ہوں میری جگہ کوئی اور مسلمان ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا جو میں نے کیا ہے، یہ میرے مذہب کا حکم ہے، جسے ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھتے ہیں۔
نوشی کی حیرت زدگی کا یہ عالم کہ اس نے گھوڑا روک لیا اور عباس بن طلحہ کو یوں دیکھنے لگی جیسے وہ کسی اور ہی جہان کی مخلوق ہو۔
عباس کچھ آگے نکل گیا تھا اس نے دیکھا کہ نوشی اس کے ساتھ نہیں تو اس نے گھوم کر دیکھا نوشی گھوڑا روک کر اسے دیکھ رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر حیرت زدگی اور تذبذب کا تاثر تھا۔
اب اس کو غالباً یہ توقع تھی کہ نوشی فوراً یقین کرلے گی کے وہ مسلمان ہے، اور مسلمانوں کے متعلق اس کی رائے بدل جائے گی، اور بے اختیار کہہ اٹھے گی کہ مسلمان تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں۔
روک کیوں گئی نوشی؟،،،،،، عباس نے گھوڑا اس کی طرف موڑ کر کہا۔۔۔ اس میں حیران ہونے کی تو کوئی بات ہی نہیں کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان بہت ہی اچھے لوگ ہوا کرتے ہیں
نوشی کا ردعمل کچھ اور ہی تھا اس نے اپنے گھوڑے کی لگام اس طرح کھینچ رکھی تھی کہ گوڑا آہستہ آہستہ الٹے قدم چل رہا تھا اور نوشی اس طرح دائیں بائیں دیکھ رہی تھی جیسے بھاگ جانا چاہتی ہو۔ عباس اس سے ابھی کچھ دور ہی تھا کہ نوشی نے گھوڑا ایک طرف موڑ لیا۔
اب تو کوئی شک ہی نہیں رہ گیا تھا کہ نوشی بھاگ نکلنے کا ارادہ کر چکی ہے ۔
اب اس نے اپنے گھوڑے کو چھیڑا اور تیزی سے گھوڑا نوشی کے گھوڑے کے آگے کر دیا۔ نوشی کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا اس نے باگ کو زور سے ایک طرف جھٹکا دے کر گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی۔
میرے راستے سے ہٹ جا عرب کے بدوّ!،،،،،، نوشی نے دانت پیس کر کہا ۔۔۔میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گی۔
ہوش میں آؤ نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ ہاں کیا سمجھ بیٹھی ہو تم؟
دور رہ فریب کار!،،،،،، نوشیی نے تلوار نیام سے نکال لی اور للکار کر بولی تیرا خیال ہوگا کہ یہ شاہی خاندان کی شہزادی ہے اور شوق یہ تلوار اٹھائے پھرتی ہے، تلوار نکالو پہلے مجھے قتل کروں پھر میری لاش کے ساتھ کھیلتے رہنا لیکن مجھے آسانی سے قتل نہیں کر سکو گے۔
میں تمہیں دھوکا نہیں دے رہا نوشی!،،،
میں تیرے دھوکے میں آؤں گی ہی نہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔ میں مان ہی نہیں سکتی کہ مسلمان اعتماد کے قابل ہوتے ہیں؟،،،، تو مسلمان بھی نہیں عیسائی بھی نہیں تو اگر عربی ہی ہے تو صحرائی قزاق ہوگا ، تلوار نکال تجھے افسوس نہ رہے کہ میں نے تجھے مقابلے کا موقع نہیں دیا تھا۔
تمہارے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں نوشی!،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر اپنی راہ الگ لگ سکتا ہوں ،میں اپنے ایک فرض کو نظرانداز کر رہا ہوں لیکن میں ایک مسلمان ہوکر ایک نوجوان لڑکی کو اس بیان میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، ہو سکتا ہے کوئی قزاق آ نکلے وہ تمہیں میری طرح نیک نیتی اور احترام سے اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔
نوشی اتنی بھپری ہوئی تھی کہ اب اس کا اثر قبول کر ہی نہیں رہی تھی، اور اسے تلوار لہرا لہرا کر للکار رہی تھی۔
عباس نے آخر تلوار نکالی اور اس کے گھوڑے کے قدموں میں پھینک دی۔
پھر کمر بند سے خنجر نکالا اور وہ بھی پھینک دیا، پھر کچھ ایسی باتیں کی کہ نوشی کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا۔
میرے دو سوالوں کا جواب دونوں۔۔۔ نوشی نے پوچھا۔۔۔ تم یہاں کیا کرنے آئے تھے؟
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تم نے کونسا انعام وصول کر لیا ہے؟
میں جاسوس ہوں ۔۔۔عباس نے جواب دیا ۔۔۔میں بہت آگے جاسوسی کے لئے گیا تھا اب واپس اپنے لشکر میں جا رہا تھا، انعام یہ وصول کیا ہے کہ تم سے اور تمہارے منگیتر سے مجھے بڑی قیمتی معلومات ملی ہے ،یہ تو میں پہلے ہی جانتا تھا کہ تمہاری فوج کیوں پیچھے ہٹتی جارہی ہے، اب تم نے اس کی تصدیق کردی ہے ،جو مجھے معلوم ہوا تھا اور تم سے اور تمہارے منگیتر سے دو تین نئی باتیں معلوم ہو گئی ہیں۔ اسے میں اپنے لئے اور اپنے لشکر کے لئے بہت بڑا انعام سمجھتا ہوں ۔ ایک مسلمان کے لئے یہ بھی بہت بڑا انعام ہے کہ اس ہامون جادوگر کو قتل کردیا ہے۔ اسلام اس توہم پرستی اور پیشنگوئیوں کو نہیں مانتا ۔آنے والے وقت کے راز صرف اللہ جانتا ہے۔ اور وہی ہے جو بگڑے کام سنوارتا ہے ۔ہامون نے سیدھے سادے اور پسماندہ لوگوں کو محض فریب کاری سے اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا ۔ تمہارے ساتھ مجھے اس کے سوا کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ایک شیطان تمہیں دھوکہ دے کر بے آبرو کرنا چاہتا تھا، اور مسلمان کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا کہ تمھیں اس سے بچاؤں۔
تم مجھے میرے باپ تک پہنچانے چلے ہو ۔۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔کیا تم میرے باپ کو یہ بتانا چاہوں گے کہ تم اصل میں کون ہو، اور کیا ہو؟،،،،،،، میرا خیال ہے تم ایسا نہیں کرو گے، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری اصلیت اپنے باپ سے چھپائے رکھوں گی، کیا یہ انعام نہیں ہوگا؟،،، میرا باپ تمہیں گرفتار کر لے گا قتل بھی کروا سکتا ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔
میں تمہارے باپ تک پہنچوں گا ہی نہیں نوشی!،،،، عباس نے کہا ۔۔۔مجھے کوئی لالچ اور کوئی ترغیب نہ دو نہ مجھے ڈرانے کی کوشش کرو ،تمہیں بلبیس شہر کے باہر چھوڑ کر گھوڑے کو ایڑ لگا دوں گا اور جب تک تم اپنے باپ تک پہنچوں گی میں بڑی دور نکل گیا ہوں گا،،،، میں تمہیں پھر کہتا ہوں ہوش میں آؤ تمہارے وہم نے ہمارے درمیان ایسی صورت پیدا کر دی ہے جیسے تم مجھ سے آزاد ہونا چاہتی ہو،اور میں تمہیں ورغلا کر اغوا کرنا چاہتا ہوں ،تو یہ میرا راستہ ہے اور وہ تمہارا راستہ ہے۔
روم کے شاہی خاندان کی اس لڑکی پر اب ایسی خاموشی طاری ہو گئی جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو، یا وہم سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ہو۔
گھوڑے سے اترو!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میری تلوار اور خنجر اٹھاؤ اور اپنے پاس رکھو اور میرے ساتھ چل پڑو۔
نوشی عباس کے چہرے پر نظریں جمائے کچھ دیر دیکھتی رہی پھر گھوڑے سے اتری عباس کی تلوار اور اس کا خنجر اٹھایا اور یہ دونوں ہتھیار کسی کو پیش کرنے کے انداز سے ہاتھوں پر رکھے اب اس کے پاس گئی اور دونوں ہتھیار اس کی طرف کر دیے ۔عباس نے اسے کہا کہ وہ تلوار اور خنجر اپنے پاس رکھے لیکن نوشی نے کچھ کہنے کے بجائے سر ہلایا کہ وہ اپنے پاس نہیں رکھے گی۔ عباس نے ہتھیار لے لیے اور نوشی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئی اس نے عباس کو سر سے اشارہ کیا کہ چلو دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو بلبیس کی طرف چل پڑے۔

تمہارے شاہی خاندان میں شارینا نام کی ایک لڑکی ہوا کرتی تھی۔۔۔ عباس نے پوچھا۔۔۔ تم اسے جانتی ہوگی؟
جانتی ہوں !،،،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ وہ ھرقل کی بیٹی تھی وہ تو کچھ عرصہ ہوا ایسی غائب ہوئی کہ اس کا کچھ بھی پتہ نہ چلا تم اسے کس طرح جانتے ہو؟
اس طرح کہ وہ ہمارے پاس ہے۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔ہم میں سے کسی نے اسے اغوا نہیں کیا تھا وہ اپنی مرضی سے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے ایک دوست کے ساتھ آ گئی تھی، اور اب اس کی بیوی ہے میرا یہ دوست میری طرح جاسوس ہے، وہ جاسوسی کے لیے گیا تھا شارینا سے ملاقات ہوئی اور دلی محبت نے دونوں کو ایک کر دیا۔
میں اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھی ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ تو میری گہری دوستی تھی بڑی اچھی لڑکی تھی کیا وہ تمہارے یہاں خوش رہتی ہے؟
میں تمہیں بتاؤں گا تو تم مانو گی نہیں۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔۔ خود جاکر دیکھو تو یہ تمہیں یقین آئے گا کہ وہ کتنی خوش ہے وہ واقعی بہت اچھی خاتون ہیں، میں اتنا ہی کہوں گا کہ وہ تو بھول ہی گئی ہے کہ روم کے بادشاہ کی بیٹی ہے ، ہمارے ہاں فضاء ہی کچھ ایسی ہے، اور ماحول ایسا جس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں محبت اور خلوص ہے۔
کچھ دیر تک شارینا کی باتیں ہوتی رہیں ،اور نوشی بڑی دلچسپی سے پوچھتی رہی کہ مسلمانوں کے ہاں عورت کے لئے معاشرتی اور دیگر حالات کیسے ہیں؟ عباس اسے بتاتا گیا۔
معلوم نہیں دل میں یہ بات کیوں آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کچھ دیر خاموش رہے کر کہا ۔۔۔کچھ ایسی خواہش ابھر رہی ہے کہ تمہارے ساتھ ہی چلی چلو ،کچھ ایسا لگتا ہے جیسے تم سے جدا ہو کر مجھے دلی افسوس ہوگا ،اس بدبخت منگیتر نے میرا دل مسل ڈالا ہے ،اور میں کچھ اور ہی سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں، یہ بات بھی دل میں کھٹکنے لگی ہے کہ میرے شاہی خاندان میں عزت و غیرت اور حمیت ختم ہوتی جارہی ہے شاہی خاندان میں بدکاری ایک جائز رواج کی طرح چلتی ہے۔ مجھے تم نے دیکھ لیا اور اب تمہارے مقابلے میں تلوار نکال لی تھی۔
میں نے تمہارے متعلق ایسی کوئی بات سوچی ہی نہیں۔۔۔ عباس نے کہا۔۔۔ اور میں ایسی بات سوچوں گا بھی نہیں تم جو سوچنا چاہتی ہوں سوچتی رہو میں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کروں گا۔
ایک سوچ اور آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ تمہارے ساتھ تو چلے چلو لیکن معلوم نہیں تمہارا خاندان کیسا ہے؟،،،، میرا مطلب یہ ہے کہ,,,,,,,,,,, میں تمہارا مطلب جان گیا ہوں عباس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ تم یہ معلوم کرنا چاہتی ہو کہ میں تم بھی تمہاری طرح شاہی خاندان کا فرد ہوں، یا میرے خاندان کی حیثیت کیا ہے ؟،،،،اگر میں کہہ دوں کہ میں بہت ہی امیر کبیر خاندان کا فرد ہوں تو تم میرے ساتھ چل پڑوں گی ورنہ نہیں۔
نوشی ہنس پڑی اس کی ہنسی کا مطلب یہی ہوسکتا تھا کہ عباس بن طلحہ ٹھیک سمجھا۔
تم سن کر شاید حیران ہوگی نوشی۔۔۔ عباس نے کہا ۔۔۔اسلام میں کوئی شاہی خاندان نہیں ہوتا ہم جنہیں اپنا حکمران بناتے ہیں وہ بھی شاہی خاندان کے نہیں ہوتے ،ہم سب ایک ہیں اور سب کے حقوق اور سب کی حیثیت مساوی ہے ،اگر ہمارے خلیفہ ہمارے لشکر میں آ جائیں تو تم مانو گی ہی نہیں کہ یہ شخص ایک فاتح قوم کا سب سے بڑا سردار ہے، تم کہو گی کہ یہ تو بالکل عام سا آدمی ہے، اسلام میں بادشاہ اور رعایا کا کوئی تصور نہیں، بنی نوع انسان کی محبت اور ہمدردی ہمارا ایمان ہے، میں نے تمہیں اس لئے اس شیطان سے نہیں بچایا کہ تم بڑی خوبصورت اور شاہی خاندان کی لڑکی ہو، بلکہ اس لئے کہ تم مجبور اور بے سہارا لڑکی ہو، اور جذبات میں آکر غلط اور پرخطر راستے پر چل نکلی تھی۔
تو کیا مسلمانوں کے متعلق جو کچھ سنتی رہی ہوں وہ غلط ہے؟،،،،،، نوشی نے کہا ۔۔۔میں نے سنا ہے کہ مسلمان لوٹیرے اور وحشی لوگ ہیں۔
مجھ سے نہ پوچھو ۔۔۔عباس نے کہا ۔۔۔ہم نے مصر کے دو بڑے شہر عریش اور فرما فتح کئے ہیں، اس کے درمیان اور اردگرد بے شمار گاؤں ہیں وہاں جاکر عیسائیوں سے پوچھنا کہ مسلمانوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے، تمہیں اپنے سوال کا جواب مل جائے گا,,,,,,,,,, میں شاہی خاندان کا ہی فرد ہوں اور تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو بھی میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا ، کیونکہ تم میرے ہاتھ میں ایک امانت ہو,,,,,,,, اپنے ماں باپ کی امانت,,,,,,, میرے مذہب کا حکم ہے کہ امانت ان تک پہنچاؤ جن کی ملکیت ہے۔

ٹھہرو!،،،،،، عباس نے گھوڑے کی باگ کھینچ کر کہا۔۔۔ گھوڑے کی ٹاپ سن رہی ہو۔
نوشی نے بھی اپنے گھوڑے کی باگ کھینچی اور کان کھڑے کیے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ بڑی ہی دور کی آواز کی طرح سنائی دے رہے تھے ،وہ گھوڑسوار کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ان دونوں کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ نوشی کے منگیتر کو جب پتہ چلے گا کہ نوشی اور سیلی نوش غائب ہیں تو وہ ان کے تعاقب میں ضرور آئے گا، یہ گھوڑسوار نوشی کا منگیتر ہوسکتا تھا ،اور وہ کوئی بدو بھی ہو سکتا تھا ،کسی نے دیکھ لیا ہوگا کہ ہامون مرا پڑا ہے اور سیلی نوش نوشی کے ساتھ لاپتہ ہے ،قتل کا شک بلکہ یقین انہیں پر ہوسکتا تھا۔ لہذا کوئی بدو ان کے تعاقب میں آرہا ہوگا۔
گھوڑے کے ٹاپ اب واضح ہوگئے تھے اور لگتا تھا جیسے گھوڑا انہی کی طرف آرہا ہے۔ اور دونوں مڑ مڑ کر دیکھتے چلتے ہی گئے۔
گھوڑا خاصی تیز دوڑتا آ رہا تھا ان دونوں کی رفتار معمولی تھی پورا چاند اوپر آگیا تھا اور جنگل کی چاندنی پہلے سے زیادہ شفاف ہو گئی تھی ۔اب جو انہوں نے پیچھے دیکھا تو انھیں گھوڑا نظر آنے لگا وہ رک گئے ۔ وہ گھوڑسوار کوئی عام مسافر ہوتا تو معمول کی چال چلتا لیکن وہ سرپٹ گھوڑا دوڑاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے بالکل قریب آ گیا۔
نوشی!،،،،، گھوڑسوار نے للکار کر کہا۔۔۔ اتنی آسانی سے نہیں جا سکوں گی ، تلوار نکال لے او بدو پھر نہ کہنا کہ میں نے تجھے مقابلے کی مہلت نہ دی تھی۔
وہ نوشی کا منگیتر ہی تھا۔ وہ تلوار لہراتا رہا تھا ۔ اس نے گھوڑا روکا اور عباس کو للکار کر گھوڑا عباس اور نوشی کے اردگرد آہستہ آہستہ دوڑانے لگا۔
میں تجھے موقع دیتا ہوں اے رومی !،،،،،عباس بن طلحہ نے کہا۔۔۔ میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ نہیں لے جا رہا اسے اس کے ماں باپ کے پاس لے جا رہا ہوں۔
جھوٹے بدو!،،،،، منگیتر نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تو اسے کہاں لے جا رہا ہے۔
نوشی نے عباس سے کہا کہ وہ تلوار نکال لے اور اس کے ساتھ کوئی بات نہ کرے۔
نوشی نے اپنی تلوار نکال لی منگیتر نے کچھ ایسے ناروا باتیں کہہ دی کے عباس کو تلوار نکال نی ہی پڑی ۔ ورنہ عباس کی کوشش یہ تھی کہ لڑنے تک نوبت نہ آئے، مگر منگیتر غصے سے باؤلا ہوا جا رہا تھا اور بڑھ بڑھ کر تلوار عباس کے آگے لہراتا تھا۔
آخر عباس اور نوشی کے منگیتر میں تیغ زنی شروع ہوگئی دونوں اپنے گھوڑوں کو گھما پھرا کر اور پینترے بدل بدل کر ایک دوسرے پر وار کر رہے تھے۔وار روک بھی رہے تھے، دونوں ماہر تیغ زن تھے۔ تلوار ٹکراتی اور جسموں سے دور رہتی تھی۔
نوشی بھی تلوار لہرا کر منگیتر پر حملہ آور ہوئی لیکن عباس نے اسے ڈانٹ کر پیچھے کر دیا اور کہا کہ ایک کے مقابلے میں دو تلواروں کا آنا بزدلی ہے،،،،،،، ان کی لڑائی تیز اور تیز تر ہوتی چلی گئی نوشی اس قدر غصے میں بپھری ہوئی تھی کہ وہ اس لڑائی سے الگ رہ نہ سکی باربار درمیان میں آتی تھی لیکن دو مردوں کی لڑائی میں اس کی دخل اندازی کامیاب نہیں ہوتی تھی۔
عباس بار بار اسے پیچھے رہنے کو کہتا تھا۔
آنے دے آگے اسے ۔۔۔۔منگیتر نے غضب ناک آواز میں کہا۔۔۔ اسے میری ہی تلوار سے مرنا ہے تم دونوں زندہ نہیں جاسکوگے۔
تم پیچھے ہٹ جاؤ عباس!،،،، نوشی نے کہا۔۔ یہ میرے ہاتھوں مرنا چاہتا ہے۔
پیچھے رہ نوشی !،،،،،عباس نے گرج کر کہا۔۔۔ میں اسے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔
منگیتر گھوڑا ایک طرف لے گیا اور ان دونوں کے اردگرد دوڑانے لگا۔
کیا نام لیا ہے اس کا؟،،،، منگیتر نے پوچھا
عباس بن طلحہ۔۔۔ عباس نے کہا۔۔۔ میرا نام سیلی نوش نہیں، میں مسلمان ہوں۔
ہاہا ۔۔۔۔منگیتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔
اب منگیتر قہر اور غضب سے عباس پر حملہ آور ہوا لیکن عباس کی تلوار منگیتر کے پہلو میں اتر گئی عباس نے تلوار کھینچ کر اس کی گردن پر ایسا وار کیا کہ آدھی گردن کاٹ دی منگیتر گھوڑے سے ایک طرف گر پڑا۔
چلو نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں نے اسے زندہ رہنے کا بہت موقع دیا تھا لیکن اسے اسی انجام کو پہنچنا تھا۔
نوشی کی طرف سے عباس کو کوئی جواب نہ ملا جیسے نوشی وہاں تھی ہی نہیں۔
عباس نے ادھر دیکھا جدھر نوشی کو ہونا چاہیے تھا لیکن ادھر نوشی کا گھوڑا کھڑا تھا اور نوشی گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں تھی۔
عباس کو نوشی زمین پر گری نظر آئی، عباس کود کر گھوڑے سے اترا اور نوشی تک پہنچا نوشی کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے۔
عباس نوشی کے پاس بیٹھ گیا اور پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟،،،،، نوشی درد سے کراہتی اتنا ہی کہہ سکی کہ بدبخت مرتے مرتے تلوار میرے سینے میں اتار گیا ہے، یہ نوشی کے آخری الفاظ تھے اور اس کا سر ایک طرف ڈھک گیا۔
عباس کو پتا ہی نہیں چل سکا تھا کہ نوشی کو اس کے منگیتر نے کس وقت اور کس طرح تلوار ماری تھی اس لیے عباس بار بار نوشی سے کہتا تھا کہ وہ دور رہے نوشی کسی وقت اتنی قریب آگئی تھی کہ اس کا منگیتر اس پر وار کر گیا۔
عباس بن طلحہ نے دونوں کی لاشیں وہیں چھوڑی، ان کے گھوڑوں کی باگیں اپنے گھوڑوں کے پیچھے باندھی اور چل پڑا وہ اتنی اچھی نسل کے گھوڑے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اسے ذرا سا بھی افسوس نہ ہوا کہ اتنی خوبصورت لڑکی ماری گئی ہے، اسے اطمینان ہوا کہ اللہ نے اسے اس فرض سے سے جو اس نے خود ہی اپنے لئے پیدا کرلیا تھا جلد ہی سبکدوش کر دیا ہے اور اس نے امانت میں خیانت نہیں کی۔

اسی رات کی بات ہے کہ سیلی نوش اور نوشی ،بدوّ کے جادوگر ہامون کو قتل کرکے بدو ملازم اور منگیتر کو سوتا چھوڑ کر وہاں سے چل پڑے تھے ،وہ مطمئن تھے کہ منگیتر اور ملازم کو پتہ نہیں چلا کہ یہ دونوں یہاں سے چلے گئے ہیں دونوں کچھ دور نکل آئے تھے۔
منگیتر کو موت اس طرف لے آئی تھی ورنہ نوشی اور عباس کو خیمے سے غائب پا کر وہ ان کی تلاش میں کسی اور طرف چل پڑا تھا۔ پھر وہ اس طرف کیوں آگیا؟،،،،، اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ منگیتر کو عباس کے ہاتھوں ہی قتل ہونا تھا اور اصل جواب بھی مل گیا وہ اس طرح کہ جب عباس نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں وہیں چھوڑ کر اور ان کے گھوڑے ساتھ لے کر ذرا ہی دور گیا تھا کہ اسے اسی طرف سے جس طرف سے منگیتر آیا تھا دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دینے لگے، عباس نے یوں نہ کیا کہ ادھر ادھر ہو کر یا کہیں چھپ کر دیکھتا کہ اب کون آرہا ہے ،اس نے گھوڑا وہیں روک لیا اور آنے والے گھوڑسوار کا انتظار کرنے لگا۔
گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز قریب تر آتے گئ، کچھ ہی دیر بعد شفّاف چاندنی میں اسے گھوڑا اور گھوڑسوار کا ہیولہ نظر آنے لگا وہ کوئی اکیلا آدمی تھا صاف نظر آتا تھا کے اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں ہے۔
عباس نے اپنا ایک ہاتھ تلوار کے دستے پر رکھ لیا وہ کوئی بدوّ ہی ہوسکتا تھا۔
وہ گھوڑسوار اس جگہ رک گیا جہاں نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں پڑی تھیں۔
وہ گھوڑے سے اترا اور دونوں لاشوں کے پاس بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگا چاندنی تو بڑی صاف تھی لیکن اتنی دور سے چہرہ نہیں پہچانا جاتا تھا ۔ عباس کو یوں لگا جیسے وہ نوشی کا بدو ملازم ہے۔ عباس اس کی طرف چل پڑا وہ بدو ملازم ہی تھا۔ جو عباس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ عباس گھوڑے سے اترا اور اس کے پاس چلا گیا اس ملازم سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے کہ وہ ملازم تھا اور دوسرے اس لیے کہ وہ بدو تھا۔
یہ کیا ہوا ہے؟،،،، بدوّ ملازم نے ڈھیلی سی آواز سے پوچھا۔
اس بدقسمت کو موت ادھر لے آئی تھی۔۔۔ عباس نے کہا ۔۔۔۔اور تمہاری یہ شہزادی اسی منگیتر کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے یہ شخص میری تلوار سے مارا گیا ہے کیا تم انکے پیچھے آئے ہو۔
میں شہزادی کے پیچھے آیا تھا۔۔۔ ملازم نے جواب دیا ۔۔۔بڑی اچھی شہزادی تھی مجھے ملازم سمجھتی ہی نہیں تھی اس کے آنسو نکل آئے۔
بدو ملازم نے عباس بن طلحہ کو بتایا کہ منگیتر کس طرح اس طرف آگیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ جب عباس اپنے خیمے سے زینیں لےکر نکل رہا تھا تو اس ملازم کی آنکھ کھل گئی تھی وہ چونکہ چھوٹی حیثیت کا آدمی تھا اس لئے عباس سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کی کہ وہ زینیں کہا لے جا رہا ہے۔ لیکن یوں کیا کہ جب عباس نکل گیا تو ملازم نے اٹھ کر اسے دیکھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟
ملازم نے عباس کو گھوڑوں پر زین کستے دیکھا پھر عباس اور نوشی کو گھوڑوں پر سوار ہوتے دیکھا ،اور پھر یہ دیکھا کہ وہ کس طرف گئے ہیں اس نے یہ جرات بھی نہ کی کہ نوشی کے منگیتر کو بتاتا کہ عباس اور نوشی کہیں چلے گئے ہیں وہ اپنے خیمے میں جا کر بیٹھ گیا۔
خاصا وقت گزر گیا تو بدو ملازم نے نوشی کے منگیتر کو دیکھا کہ وہ خیمے سے نکل کر چند قدم آگے جا روکا تھا اور ہامون کے خیمے کی طرف دیکھ رہا تھا ذرا دیر وہاں رک کر منگیتر ہامون کے خیمے کی طرف چلا گیا، اس وقت ملازم اپنے خیمے سے باہر آیا اور منگیتر کو دیکھنے لگا اس وقت بھی اس نے یہ ہمت نہ کی کے منگیتر کو بتا دے کہ وہ دونوں کہاں چلے گئے ہیں؟
کچھ وقت بعد منگیتر دوڑتا ہوا اپنے خیمے کی طرف آیا اس وقت ملازم آگے ہوا اور پوچھا کہ وہ کیوں دوڑا رہا ہے ؟،،،،منگیتر نے اسے بتایا کہ ہامون مرا پڑا ہے اور وہ بدو (عباس )اور نوشی کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔
تم ضرور جانتے ہو گے کہ بدو کہاں رہتے ہیں؟،،،، نوشی کے منگیتر نے ملازم سے کہا۔۔۔ وہ بدو ہامون کو قتل کرکے نوشی کو اپنے ساتھ لے گیا ہے وہ یقیناً اسے اپنے گھر لے گیا ہے تم آؤ اور میرے ساتھ چلو اور مجھے بتاؤ کہ یہ بدوّ کہاں کہاں رہتے ہیں ،ان کے سردار سے مجھے ملاؤ۔
ملازم ابھی اسے کچھ بتا ہی نہیں سکا تھا کہ منگیتر دوڑتا اپنے خیمے میں گیا اور زین اٹھا لایا اس نے ملازم سے کہا کہ فوراً اپنی زین اٹھا لایا اور گھوڑا تیار کرے۔
ملازم نے اسے بتایا کہ سیلی نوش اور نوشی اس طرف نہیں گئے جدھر بدو رہتے ہیں ۔وہ فرما یا بلبیس کی طرف گئے ہیں۔
یہ بدوّ سیلی نوش نہ فرما جائے گا نہ بلبیس نوشی کے منگیتر نے بھپری آواز میں کہا ۔۔۔تم یہ بتاؤ کیا اس طرف بھی بدوؤں کے کوئی قبیلے رہتے ہیں؟
بہت دور جا کر راستہ دائیں کو مڑتا ہے۔۔۔ ملازم نے جواب دیا۔۔۔ یہ راستہ خاصہ آگے جا کر پھر دائیں کو مڑتا ہے اور کچھ اور آگے جا کر ایک علاقہ آتا ہے جس میں بدووں کے دو قبیلے رہتے ہیں۔
کیا تم سیلی نوش کو جانتے ہو ؟،،،،منگیتر نے پوچھا۔۔۔ وہ کون سے قبیلے کا سردار ہے۔
نہیں!،،،، ملازم نے جواب دیا۔۔۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا مجھے کچھ ایسا شک بھی ہوتا ہے کہ یہ شخص بدو ہے ہی نہیں۔
مجھے بھی یہی شک ہے۔۔۔ منگیتر
نے کہا۔۔۔ وہ لڑکی کو لے اڑا ہے تم بھی میرے ساتھ چلو۔
ملازم نے غلامانہ سے انداز سے بات کرتے ہوئے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اس نے کہا کہ وہ گھوڑا اتنی تیز نہیں توڑا سکتا اور اگر کہیں لڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ لڑ بھی نہیں سکے گا،،،،،،،، نوشی کا منگیتر اس قدر غصے اور ایسی جلدی میں تھا کہ ملازم کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کیا اور گھوڑا دوڑ دیا۔
ملازم نے عباس کو بتایا کہ نوشی کا منگیتر تو چل پڑا لیکن وہ خود وہاں زیادہ دیر رک نہ سکا اس نے سوچا کہ اب اپنے ہی گھر چلا جائے اور واپس بلبیس نہ جائے وہ شاہی محل کی سیاست سے تنگ آ گیا تھا یہ سوچ کر وہ اپنے قبیلے کی طرف چلنے لگا تو اسے نوشی کا خیال آگیا اس نے سوچا کہ ایسا نہ ہو نوشی واپس بلبیس چلی جائے تو پھر وہ اپنے دو چار فوجی اس کے قبیلے میں بھیج کر اسے گرفتار کروا کے بلا لے گی۔
اصل بات یہ تھی کہ بدو ملازم کوئی فیصلہ کر بھی نہ سکا اور بلبیس کی طرف چل پڑا۔
اس نے راستے میں نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں دیکھی تو وہ وہیں رک گیا۔ عباس نے اسے سنایا کہ یہ دونوں کس طرح مرے ہیں پھر اسے کہا کہ وہ بلبیس جائے تو نو شی کے ماں باپ کو بتائے کہ کیا واقعہ ہوا تھا۔ لیکن ملازم نے کہا کہ اب تو وہ اپنے قبیلے میں ہی جائے گا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ وہ بلبیس گیا تو نوشی کا جرنیل باپ غصے میں اسے ہی قتل کر دے گا۔
یہ مسئلہ عباس بن طلحہ کا نہیں تھا ۔نوشی کے والدین کو اطلاع ملتی نہ ملتی۔بدوّ ملازم وہاں جاتا یا اپنے قبیلے میں چلا جاتا۔ عباس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ عباس فرما کی طرف چل پڑا۔

عباس بن طلحہ ڈیڑھ یا دو دنوں کی مسافت کے بعد فرما پہنچا اور سیدھا سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس گیا۔ عباس عمرو بن عاص کے جاسوسی کے اس نظام کا ایک بڑا ہی قابل اور دانشمند فرد تھا جو انہوں نے سارے مصر میں ایک جال کی طرح پھیلا دیا تھا۔ عباس ایک مہینے اور کچھ دن بعد جاسوسی کا مشن پورا کرکے واپس آیا تھا کوئی نئی خبر لائے ہو؟،،، عمرو بن عاص نے عباس سے پوچھا۔۔۔
عباس نے اپنی جاسوسی کی پوری رپورٹ سپہ سالار کو پیش کی اور آخر میں نوشی اور ہامون کا واقعہ سنایا کوئی ایک بھی بات چھپائی نہیں اور ذرا ذرا سی تفصیل سنا ڈالی۔ سپہ سالار نے عباس کو ہلکی سی سرزنش کی کہ وہ خواہ مخواہ دوسروں کے مسائل میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ لڑکی کے منگیتر کی بجائے وہ منگیتر کے ہاتھوں قتل ہو جاتا۔
میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا سپہ سالار!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں نے جب لڑکی کی زبانی سنا کے وہ ان بدوؤں کو رومی فوج میں شامل کرنے کے لئے آئی ہے، اور اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ بدوؤں کا جو لشکر مسلمانوں سے جا ملا ہے اسے ورغلا کر مسلمانوں سے ہٹایا جائے تو میں نے اپنا فرض سمجھا کہ اپنی شناخت بدل کر ان کے ساتھ ھو لوں۔ یہ دیکھنا بہت ہی ضروری تھا کہ یہ لوگ کیا کاروائی کرتے ہیں اور انھیں کچھ کامیابی حاصل ہوتی ہے یا نہیں ہمارے لیے یہ معاملہ بڑا ہی اہم اور نازک تھا،،،،،،،
اس ہامون جادوگر کو میں نے ایک تو اس وجہ سے قتل کیا کہ وہ ایک ایسی لڑکی کی آبروریزی کرنا چاہتا تھا جو اس کے لیے رضامند نہیں تھی، اور اس سے نفرت کرتی تھی، اسے قتل کرنے کا دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھے پتہ چلا کہ بدووں کے سرداروں پر اس کا ایسا اثر ہے کہ وہ اس کے اشاروں پر چلتے ہیں میں نے سوچا کہ ایسا نہ ہوجائے کہ یہ شخص اس لڑکی کو حاصل کرنے کی خاطر سرداروں سے کہہ دے کہ وہ اپنا ایک لشکر تیار کرکے رومی فوجی کو دے دیں، میں نے ہامون کو قتل کرکے یہ خطرہ ہی ختم کردیا۔ پھر شاہی خاندان کی یہ لڑکی بھی ماری گئی اور اس کا منگیتر بھی اب ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ اس علاقے کے بدو رومیوں سے جا ملیں گے اور ہمارے پاس آئے ہوئے بدوّ ہمارا ساتھ چھوڑ جائیں گے،،،،،،
یہ بھی دیکھیں سپہ سالار!،،،، ان دونوں سے کتنی اہم معلومات مل گئی ہے بعض معلومات کی تصدیق ہو گئی ہے اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ مقوقس اور اطربون آپس میں متفق نہیں کہ وہ مصر کا دفاع کس طرح کریں۔ مقوقس محتاط رویہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اور اطربون لڑنے کے حق میں ہے۔ اس رومی لڑکی نے مجھے بتایا تھا کہ ہرقل نے ان دونوں کو پورے اختیارات دے دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ قبطی عیسائیوں پر نظر رکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بغاوت کردیں اس صورت میں مصر کو مسلمانوں سے بچانا ممکن نہیں رہے گا،،،،،
لڑکی شاہی خاندان کی تھی اس لیے میں نے اس کی ہر بات قابل اعتماد سمجھی، وہ ہرقل کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی اور کہتی تھی کہ وہ ہمت ہار بیٹھا ہے، شام کی شکست نے اس کی کمر توڑ دی ہے، اس لئے مصر سے دور رہنا چاہتا ہے کہ ایک اور شکست کا داغ اس کے ماتھے پر نہ لگے۔
یہ بدوّ ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔انہیں ہم نے فرما کا مال غنیمت اسی حساب سے دیا ہے جس حساب سے ہم نے اپنے لشکر میں تقسیم کیا ہے وہ بہت ہی خوش ہیں۔
آخری فیصلہ تو آپ کو ہی کرنا ہے
سپہ سالار!،،،، عباس بن طلحہ نے مشورہ دیا۔۔۔ میں جو کچھ دیکھ آیا ہوں اس کے پیش نظر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کو کمک کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور فوراً پیش قدمی کرکے بلبیس پہنچنا چاہیے رومیوں کو سنبھلنے اور دم لینے کا موقعہ نہ دیں انہیں سوچنے کی مہلت نہ دیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی وہ غیر معمولی طور پر دانشمند اور جرات مند تھے ان میں خالد بن ولید والی صفات پائی جاتی تھی ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا تھا کہ عمرو بن عاص کو مصر پر حملے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ خالد بن ولید کی طرح بے خطر اور بےدھڑک ایسے خطروں میں کود جاتے ہیں ،جہاں مجاہدین کے پورے لشکر کی ہلاکت صاف نظر آنے لگتی ہے۔
تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار عمروبن عاص کمک کے انتظار میں وقت ضائع کرنے کے حق میں نہیں تھے انہوں نے پہلے ہی لشکر کو تیاری کی حالت میں رکھا ہوا تھا اور اپنے ماتحت سالاروں اور کمانڈروں سے کہہ دیا تھا کہ وہ دشمن کے تعاقب میں رھیں اور اسے دم نہ لینے دیں۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

جاری ہے……….

اپنا تبصرہ بھیجیں