اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر13)

اگلے روز بدوؤں کا مذہبی پیشوا اور چار پانچ سردار اس نشیبی جگہ کے اوپر کھڑے بیتابی سے ہر طرف دیکھ رہے تھے وہ تین شتر سواروں کے منتظر تھے ۔
گزشتہ رات آسمانی حور نے کہا تھا کہ تین آدمی ان کے پاس اونٹوں پر سوار آئیں گے۔ بہت سے بدبو دور دور کھڑے انہیں تین شتر سواروں کی راہ دیکھ رہے تھے۔
آخر تین شترسوار دور سے آتے نظر آئے جن کا رخ ادھر ہی تھا کئی ایک بے تاب سی آوازیں سنائی دیں، وہ آ رہے ہیں۔۔۔۔ تین ہی ہیں ۔۔۔۔وہ آ گئے ۔۔۔وہی ہونگے۔۔۔ بدو ان شہسواروں کو بھی آسمانی مخلوق ہی سمجھ رہے تھے۔
وہ شترسوار مسعود ،حدید، اور فہد تھے۔
وہ دیکھ لئے کہ بدو ان کے انتظار میں کھڑے ہیں انہوں نے اونٹ دوڑا دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے بدوؤں کے پاس پہنچ گئے وہ اونٹوں کو بٹھا کر نہ اترے بلکہ کھڑے اونٹ سے کود آئے۔پیشوا اور بدوؤں کے سردار ان کے استقبال کیلئے تیزی سے آگے بڑھے استقبال پرتپاک تھا۔
ہم تمہارے ہی منتظر تھے۔۔۔ پیشوا نے کہا۔۔۔ ہمیں یقین ہے کہ تم وہی ہو جس کا خدائی پیغام ہمیں گزشتہ رات ایک حور کی زبانی ملا ہے کیا انہوں نے ہی تمہیں ہمارے پاس بھیجا ہے، انہوں نے تمہاری نشانی بتائی تھی کہ تم اونٹوں پر سوار ہو گے۔
ہم نہیں جانتے تمہیں کیسا پیغام ملا ہے۔۔۔ مسعود نے کہا۔۔۔ہمیں ہمارے سپہ سالار نے بھیجا ہے ۔اسے خواب میں خدا کی طرف سے یہ اشارہ ملا تھا کہ اس صحرا میں ایک مخلوق رہتی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، جاؤ اور اس مخلوق کو اپنے ساتھ ملا لو اور اس کے نیک و بد اور نفع نقصان کے ذمہ داری اپنے سر لے لو ،سپہ سالار نے خواب میں تمہاری جو نشانیاں دیکھی تھی وہ ہمیں بتائی اور ہم تمہارے پاس آ گئے ہیں، یہ جگہ بالکل ویسی ہی ہے جیسے سپہ سالار نے خواب میں دیکھی تھی، اور تمہاری صورتیں بھی ویسی ہی ہے۔
ایک بوڑھے سردار نے ان تینوں کو تفصیل سے سنایا کہ گزشتہ رات انہوں نے کیا دیکھا ہے اور کس طرح ان تک خدا کا پیغام پہنچا ہے۔
ہمیں کچھ پتہ نہیں گذشتہ رات تم نے کیا دیکھا ہے ۔۔۔مسعود نے کہا۔۔۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے سپہ سالار کو خدائی پیغام ملا ہے تو وہ تمہیں بھی ملا ہوگا کیوں نا ہم کہیں بیٹھ کر بات کریں۔
فریب ہی مذہبی پیشوا کا خیمہ تھا جو چمڑے سے بنایا گیا تھا اور اتنا کشادہ تھا کہ کئی آدمی اس میں بیٹھ سکتے تھے۔ پیشوا ان تینوں کو اور سرداروں کو اپنے خیمے میں لے گیا اور بٹھایا اس نے ان تین مسلمانوں سے پوچھا کہ ان کا سپہ سالار کہاں ہے۔
مسعود نے انہیں بتایا کہ ان کا سپہ سالار کہاں ہے اور اس کا لشکر عریش کا شہر فتح کر چکا ہے ۔اور اب لشکر آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن ابھی پڑاؤ میں خیمہ زن ہے کیا تم لوگ مسلمان ہو ایک سردار نے پوچھا۔
ہاں!،،،،، مسعود نے جواب دیا ہم مسلمان ہیں پہلے یہ بتاؤ کہ مسلمانوں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔
بدوؤں کے بوڑھے سردار نے جو جواب دیا وہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ مشہور تاریخ نویس ابن عبدالحکم میں لکھا ہے کہ بوڑھے سردار نے کہا ۔۔۔۔حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں نہ جانے کیا طاقت ہے کہ تھوڑی سی تعداد میں وہ بڑے سے بڑے لشکر کو میدان سے بھگا دیتے ہیں اور جس طرف بھی رخ کریں کامیابی انہی کے حصے میں آتی ہے۔
اتنا حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔مسعود نے کہا۔۔۔ یہ خدائی طاقت ہے جو صرف انہیں ہی عطا ہوتی ہے جنکے دلوں میں انسانوں کی محبت ہو اور وہ کمزوروں پر ہاتھ نہ اٹھائیں، اور وہ دوسروں کے مذہب اور عقیدوں میں دخل نہ دیں، اور کسی کمزور اور نادار کو اپنا محتاج اور غلام نہ بنائیں۔
مذہبی پیشوا غالباً خدائی طاقت کی مزید تشریح اور وضاحت چاہتا تھا۔
مسعود ہی زیادہ تر بول رہا تھا کیونکہ وہ تین افراد کی جماعت کا امیر تھا اس کے ساتھی اسلامی اصول کی پابندی کر رہے تھے کہ دو آدمی سفر پر نکلے تو ایک کو امیر تسلیم کیا جائے ۔مسعود اپنے دونوں ساتھیوں فہد ،اور حدید کی نمائندگی کر رہا تھا اس نے عرب کے قحط کا ذکر کیا اور بدوؤں کو بتایا کہ ہزار ہا لوگ بھوکے مرنے پر آ گئے تھے اور کچھ مر بھی گئے تھے لیکن امیر المومنین نے کس طرح انتظامات کئے اور لوگوں کو فاقہ کشی سے بچا لیا ، پھر مسعود نے طاعون کا ذکر کیا اور کہا کہ پچیس ہزار جانیں تلف ہوگئیں اور مسلمانوں کی آدھی فوج طاعون کے نذر ہو گئی۔
تم اس پر غور کرو ۔۔۔مسعود نے یہ ساری تفصیلات سنا کر کہا۔۔۔ اگر طاعون کے دوران ہرقل شام پر حملہ کر دیتا تو وہ مسلمانوں کی بچی ہوئی آدھی فوج کو شکست دے کر شام واپس لے سکتا تھا ،لیکن یہ خدائی طاقت تھی کہ ہرقل کو حملے کی جرات نہ ہوئی ہمارے سپہ سالار نے یہ سوچا ہی نہیں کہ وہ اس خوفناک بیماری سے بچنے کے لئے مدینہ کو بھاگ جائیں وہ اپنی فوج کے ساتھ ہی رہیں اور وہ بھی فوت بھی ہو گئے۔
مسعود دراصل انہیں یہ بات ذہن نشین کرارھا تھا کہ مسلمانوں کے یہاں مساوات ہے اور بنی نوع انسان کی محبت، چونکہ یہ اوصاف خدا کو عزیز ہیں اس لئے خدا نے مسلمانوں کو وہ طاقت دی ہے جسے ہم خدائی طاقت کہتے ہیں ،اسی طاقت سے مسلمانوں نے خود کو شکست دی اور پھر طاعون کی وباء کو شکست دی اور ہمت نہ ہاری اور آج مسلمان مصر میں داخل ہو گئے ہیں اور ایک عریش جیسا شہر لے چکے ہیں۔
ہمیں اتنی سی بات بتا دو ۔۔۔مذہبی پیشوا نے پوچھا ۔۔۔تم ہمارے لیے کیا پیغام لائے ہو اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
تمہارے لیے پیغام بڑا صاف اور فائدے مند ہے۔۔۔ مسعود نے کہا ۔۔۔اپنے تمام قبیلوں کے ان آدمیوں کو جو لڑنے کے قابل ہیں ہمارے سپہ سالار کے پاس بھیج دو اور اس کی سپہ سالاری کو قبول کر لو ہمیں معلوم ہے کہ شہنشاہ ہرقل نے بھی کسی وقت تمہیں یہی بات کہی تھی کہ اپنے قبیلوں کے جوانوں کو رومی فوج میں شامل کر دوں اور تم لوگوں نے انکار کر دیا تھا۔
تم نے ٹھیک سنا تھا۔۔۔ مذہبی پیشوا نے کہا۔۔۔ لیکن تمھاری باتیں سن کر اور اس سے پہلے بھی ہم نے مسلمانوں کے متعلق سنا تھا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تم میں اور ہرقل میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔
ہرقل کا کیا اعتبار جس نے اپنا مذہب ہی اپنی بادشاہی کے ماتحت لے لیا ہے اور اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اس کے بنائے ہوئے مذہب کو جو نہیں مانا اسے اس نے قتل کروا دیا اس نے ہمیں دھمکیاں دے کر فوج میں ہمارے نوجوان کو شامل ہونے کو کہا تھا تم کوئی دھمکی لے کر نہیں آئے اس لئے ہم تمہاری بات سنیں گے اور پھر ہم تمہیں مایوس نہیں جانے دیں گے۔
اختصار کے ساتھ یہ بات بیان کی جائے تو یہ معاملہ یوں آگے بڑھا کہ ان بدوؤں کے ساتھ استدلال کے زور پر بات کی جاتی اور بحث و مباحثہ ہوتا تو یہ بدوّ کبھی قائل نہ ہوتے وہ گزشتہ رات کے اس پیغام سے متاثر تھے جو وہ سمجھتے تھے کہ واقعی خدا کی طرف سے آیا ہے۔
انہوں نے کوئی بحث اور تکرار نہ کی کچھ ضروری باتیں پوچھی اور فیصلہ سنا دیا کہ وہ اپنے جوانوں کو فوری طور پر مسلمان سپہ سالار کی اطاعت میں دے دیں گے۔
مسعود نے انہیں بتایا کہ ان کے جوانوں کو اتنا مال غنیمت ملے گا کہ تمام قبیلے مالامال ہو جائیں گے انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ مسلمانوں کے یہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ فوج میں اونچے اور اعلی عہدے والا مال غنیمت میں سے زیادہ حصہ وصول کرتے ہو اور سپاہیوں کو برائے نام کچھ دے دیا جاتا ہو۔ مسعود نے انھیں یہ بھی کہا کہ انھیں اگر خدا کی طرف سے براہ راست کوئی پیغام مل جائے تو وہ اس کے خلاف ورزی کی جرات نہ کریں ورنہ ان کے مویشی ہلاک ہو جائیں گے اور ان کے بچے پراسرار امراض کا شکار ہو کر مر جائیں گے تاکہ ان کی نسل ختم ہو جائے گی کچھ ضروری امور طے کرکے مسعود فہد اور حدید وہاں سے رخصت ہو آئے۔

یہ تینوں بڑی لمبی مسافت طے کرکے واپس پڑاؤ میں پہنچے اور سپہ سالار عمرو بن عاص کو بڑی مسرت سے یہ خوشخبری سنائی کہ بدو ان کے لشکر میں شامل ہونے کے لیے آرہے ہیں۔
عمرو بن عاص جو پریشانی کے عالم میں تھے یہ خوشخبری سن کر کھل اٹھے اور انہوں نے ان تینوں کو خراج تحسین پیش کیا کہ وہ بہت بڑا کارنامہ کر آئے ہیں۔ لیکن ان جاسوسوں نے جب انہیں یہ بتایا کہ انہوں نے بدوؤں کو کس طرح راضی کیا ہے تو عمرو بن عاص کا کھلا ہوا چہرہ یکلخت سنجیدہ ہو گیا اور ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
جنگ میں دشمن کو دھوکے دیے جاتے ہیں ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ لیکن یہ دھوکے میدان جنگ میں دشمن کی فوج کو دیے جاتے ہیں اسے جنگی چال کہا جاتا ہے لیکن لوگوں کو دھوکا دینا قابل تحسین نہیں ایک تو تم نے مجھے پریشانی سے نجات دلادی ہے اور اس کے ساتھ ہی میرے کندھوں پر ایسابوجھ ڈال دیا ہے جس سے معلوم نہیں میں نجات حاصل کر سکوں گا بھی یا نہیں۔
ہمیں بتائیں قابل احترام سپہ سالار!،،،، حدید نے کہا۔۔۔ ہم آپ کو اس بوجھ سے بھی نجات دلادیں گے اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم پھر بدوؤں کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ ہمارے لشکر میں نہ آئیں، یہ بتائیں کہ ھم نے اگر اسلامی اصول توڑا ہے تو اس کا ازالہ کس طرح ہوگا۔
یہ بات میں اپنے سالاروں اور ان کے ماتحت عہدے داروں کو بتا دوں گا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ان بدوؤں کو اگر دھوکہ دے کر لائے ہو تو ان کے حقوق کا بھی خیال رکھنا پڑے گا ،ان کے مذہب اور دیگر عقیدوں میں ذرا سی بھی دخل اندازی نہ کرنا ،اور انہیں جاھل اور پسماندہ نہ سمجھنا، یہ میں دیکھوں گا کہ مال غنیمت میں سے انہیں پورا پورا حصہ ملے گا، اگر یہ لوگ سرکش ہیں تو ہمیں ان کی سرکشی کا بھی احترام کرنا ہوگا، اس سرکشی کو وہ اپنا قومی وقار سمجھتے ہیں ان کے وقار کا تحفظ کرنا ہوگا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بدوؤں کے متعلق یہ ساری باتیں بتائیں اور حکم جاری کیا کہ ان بدوؤں کو اپنے مجاہدین سے زیادہ احترام دیا جائے ۔ عمرو بن عاص نے یہ بھی کہا کہ اسلام اسی وجہ سے تو ہم پرستی کے خلاف ہے کہ توہم پرست کو بڑی آسانی سے دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ ایک اللہ کا وحدہ لاشریک کا تصور توہم پرستی کو ختم کردیتا ہے ۔ عمرو بن عاص نے یہ بھی کہا کہ ہم ان پسماندہ اور توہم پرست بدوؤں کو اسلام میں لانے کی کوشش کریں گے لیکن ابھی نہیں۔
کوشش کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔۔۔ ایک سالار نے کہا۔۔۔ انہیں جب احترام ملے گا اہمیت ملے گی اور جب یہ ہمارا حسن سلوک دیکھیں گے تو خود ہی اسلام میں آ جائیں گے۔
عمرو بن عاص نے سالاروں کے ساتھ تبادلہ خیالات کرکے طے کر لیا کہ ان بدوؤں کو کس طرح استعمال کیا جائیگا۔

تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ بدوؤں کا لشکر اسی دن سے پہ سالار عمرو بن عاص کے پاس پہنچ گیا تھا یا کتنے عرصے بعد پہونچا تھا۔ بہرحال یہ واقعہ ہے کہ بدوؤں کا لشکر عمروبن عاص کے کے پاس پہنچ گیا تھا ۔
بعض مؤرخوں نے اس کی تعداد دو ہزار اور بعض نے تقریبا تین ہزار لکھی ہے۔
اگر یہ تعداد دس بارہ ہزار بھی ہوتی تو عمروبن عاص جیسے بیدار مغز سپہ سالار خوش نہ ہوتے اسلامی لشکر کے سپہ سالاروں میں یہی بنیادی خوبی تھی کہ وہ ہجوم میں یقین نہیں رکھتے تھے ان کا اصول یہ رہا کہ تعداد تھوڑی ہو لیکن اس میں جذبہ اور تنظیم ہو انہوں نے یہ تجربے کر کے دیکھے تھے ۔ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا اور آج تک تاریخ ان کی کامیابیوں کے داستان سنا رہی ہے۔
ہجوم کی مثالیں بھی اس وقت موجود تھی کسریٰ ایران کے لشکر کی تعداد ہر محاذ پر ایک لاکھ بیس ہزار تھی لیکن صرف چالیس ہزار مجاہدین نے اسلام نے اس لشکر کو ہر محاذ پر شکست دی اور عیسائیت کا نام و نشان نہ رہنے دیا۔ شام میں ہرقل کے لشکر کی تعداد ہر جگہ ایک لاکھ اور اس سے کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن پانچ پانچ دس دس ہزار مجاہدین اسلام نے ان جیسے وسیع و عریض ملک سے بے دخل کرکے مصر کی طرف دھکیل دیا۔ ہرقل کی آدھی سے زیادہ فوج مجاہدین کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ گئی اور رومیوں کی لاشیں مجاہدین کے گھوڑوں کے قدموں تلے روندی گئی تھی۔ عمرو بن عاص بدوؤں کے لشکر کو دیکھ کر یقیناً خوش ہوئے ہوں گے لیکن انہوں نے سب سے پہلے یہ دیکھا کہ ان لوگوں میں صلاحیت کتنی اور ڈسپلن کتنا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ فطرتاً سرکش ہوں اور میدان جنگ میں اپنے کمانڈروں کے ہاتھوں سے نکل کر اپنی ہی لڑائی شروع کر دیں۔
عمرو بن عاص کی سب سے زیادہ ضرورت رسد کی تھی یہ ضرورت انہیں کچھ پریشان کررہی تھی مخبروں اور جاسوسوں نے انہیں بتا دیا تھا کہ ہر گاؤں میں رومی فوج پہنچ گئی ہے اور اس فوج کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ دیھاتی مسلمانوں کو اناج وغیرہ نہ دے سکیں۔ عمرو بن عاص کے لیے فائدے مند نہ تھا کہ وہ اپنے لشکر کی کچھ نفری دیہات میں بھیج دیتے کہ اناج اکٹھا کریں۔ وہاں تو لڑائی کا امکان بھی تھا اور لشکر میں اتنی نفری نہیں تھی کہ جو لڑتی بھی اور اناج بھی لاتی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے صلاح مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ اس مقصد کے لئے بدوؤں کو استعمال کیا جائے۔ بدوؤں کے وہ سردار بھی ساتھ آئے تھے جو ابھی لڑنے کی عمر میں تھے۔ عمرو بن عاص نے بدوؤں کو متعدد جیشوں میں تقسیم کرکے ہر جیش کا ایک کماندر انہیں میں سے مقرر کردیا اور اس کمانڈر پر اپنے لشکر کا ایک عہدے دار لگا دیا۔
عمرو بن عاص نے بدوؤں کے سرداروں کو اپنے پاس بٹھا کر کچھ ہدایت دی اور بتایا کہ پیش قدمی کرتے ہوئے لشکر کے لیے رسد کتنی ضروری ہوتی ہے اگر اناج اور خوراک کی دیگر اشیاء کی کمی ہوجائے تو لشکر لڑنے کے قابل نہیں رہتا اور دشمن اس کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے ۔ایسی اور بھی کچھ باتیں کرکے عمرو بن عاص نے بدوّ سرداروں کو بتایا کہ رسد اکٹھی کرنا ان کا کام ہے۔ رسد میں اناج شامل تھا اور وہ مویشی جو مسلمانوں کے کھانے کے لئے حلال تھے۔
یہ اتفاق کی بات تھی یا شاید یہ کام بدوؤں کی فطرت کے عین مطابق تھا ان کے سرداروں نے یہ ذمہ داری بڑی خوشی سے قبول کرلی اور عمرو بن عاص کو یقین دلایا کہ وہ مجاہدین کے لشکر کو رسد کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔
لیکن ایک بات دماغ میں بٹھا لو۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔اناج اور مویشی لانے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اناج اور مویشی لائے جائیں کوئی اور لوٹ مار نہیں ہوگی اور کسی عورت کی طرف غلط نظر سے دیکھا بھی نہیں جائے گا ،ہم یہ چھوٹے چھوٹے گاؤں نہیں بلکہ بڑے بڑے شہر فتح کرنے نکلے ہیں۔ اصل خزانے ان شہروں سے ملیں گے ۔جن میں سے تمہیں پورا پورا حصہ ملے گا یہ بھی سوچ لو کہ ہر گاؤں میں رومی فوج موجود ہے جو تمہارا مقابلہ کریں گی کسی رومی فوج کو زندہ نہیں چھوڑنا اور گاؤں کے کسی آدمی پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔
ان بدوؤں سے ایک فائدہ یہ بھی ملا کہ وہ ہر گاؤں سے واقف تھے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ زیادہ اناج کون کون سے گاؤں سے مل سکتا ہے۔ جن بدوؤں کے پاس گھوڑے نہیں تھے انہیں گھوڑے دیے گئے اور بعض کو اونٹ دے دیے گئے ان کے تمام جیش دیہاتی علاقوں کی طرف کوچ کر گئے۔

عمرو بن عاص کا رسد والا مسئلہ حل تو نہیں ہوا تھا لیکن اس کا انتظام ہو گیا تھا اور امید بندھ گئی تھی کہ لشکر بھوکا نہیں رہے گا۔ انہوں نے کوچ کا حکم دیا وہ جانتے تھے کہ پیش قدمی میں جتنی تاخیر ہورہی ہے اتنی ہی دشمن کو تیاری کی مہلت مل رہی ہے ۔لیکن وہاں احتیاط لازمی تھی کہ لشکر میں کمزوری اور کمی نہ رہ جائے پیش قدمی کی رفتار ابھی سست ہی رکھیں گئی کیونکہ رسد کی صورتحال ابھی مبہم تھی۔
دن بھر کے سفر کے بعد رات عارضی پڑاؤ کیا گیا فجر کی نماز کے فوراً بعد لشکر پھر کوچ کر گیا صحرا ختم ہوتا جا رہا تھا اور کہیں کہیں سبزہ اور درخت نظر آنے لگے تھے وہ دن بھی گزر گیا اور لشکر ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں صحرا کے آثار ختم ہو گئے تھے اور اس جگہ ہریالی زیادہ تھی تھوڑی ہی دور ایک چشمہ مل گیا جہاں سے مجاہدین نے پانی کے مشکیزہ بھر لیے اور گھوڑوں اور اونٹوں کو بھی پانی پلا دیا گیا اس طرح مشکلات میں آسانی شروع ہوگئی۔
رات آدھی گزر گئی تھی جب سنتریوں نے لشکر کو جگا دیا ہڑبونگ باپا ہو گئی رات کی خاموشی میں ایسی آوازیں سنائی دے رہی تھی جیسے دشمن کی فوج گھوڑے سرپٹ دوڑ آتی حملے کے لئے آرہی ہو مجاہدین بڑی تیزی سے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کو مقابلے کی ترتیب میں کردیا حملے کا خطرہ تو ہر لمحے موجود تھا وہ دشمن کا ملک تھا دشمن کوئی بھی چال چل سکتا تھا۔
گھوڑوں کا یہ طوفان قریب آیا تو کچھ ایسا شور اور ایسے نعرے سنائی دیئے جو رومی فوج کے نہیں ہوسکتے تھے۔ سپہ سالار نے مشعلیں جلانے کا حکم دیا دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار مشعلیں جل اٹھی اور جب آنے والے گھوڑے قریب آئے تو پتہ چلا کہ وہ بدوؤں کے دو جیش ہیں۔
بدوؤں کے تمام جیشوں کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ جب واپس آئیں تو لشکر انہیں کسی اگلے پڑاؤ میں ملے گا۔ چنانچہ یہ دو جیش پچھلے پڑاؤ کی طرف جانے کی بجائے آگے آ گئے تھے۔
ان جیشوں کے کئی ایک بدو ان کے ساتھ نہیں تھے وہ پیچھے رسد کے ساتھ آ رہے تھے جو انہوں نے دیہات کے ایک علاقے سے اکٹھا کر لی تھی ۔وہ بدوّ جب آگے آئے تو مجاہدین اسلام نے مسرت کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ بے شمار گائے تھیں، بھیڑیں اور بکریاں تھیں، اونٹ اور بیل بھی تھے، اناج کی بوری ان پر لدی ہوئی تھیں، کچھ گاڑیاں بھی تھیں جو گائے کھینچتی آ رہی تھیں۔
یہ صرف چار یا پانچ گاؤں تھے جن پر بدوؤں نے شب خون مارا تو رومی فوجی بیدار ہوگئے۔ لیکن انہیں مقابلے کی تیاری کا موقع ہی نہ ملا بدوؤں نے ان سب کو کاٹ کر پھینک دیا اور پھر دیہاتیوں سے کہا کہ وہ خود ہی اناج اور اپنے مویشی باہر ایک جگہ اکٹھا کر دیں۔ اور انہیں کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی دیہاتیوں نے مزاحمت نہیں کی بلکہ انہوں نے اناج اور مویشی بدوؤں کے حوالے کردیئے ۔بدوؤں نے انہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ان کے گھروں کو لوٹا نہیں جائے گا اور کسی عورت پر بری نظر نہیں رکھی جائے گی نہ عورت پر ہاتھ اٹھایا جائے گا۔
ہر جیش کے ساتھ ایک ایک مسلمان کمانڈر تھا سپہ سالار عمرو بن عاص کے حکم کے مطابق ان تمام دیہاتیوں سے جن سے اناج اور مویشی لیے گئے تھے کہا گیا کہ یہ اناج وغیرہ بدوّ اپنے لیے نہیں لے جا رہے بلکہ یہ مسلمانوں کے لشکر کے لئے ہے۔
کمانڈروں نے ان لوگوں پر واضح کردیا کہ مسلمان مصر کو فتح کرنے کے لئے آئے ہیں اور اگر انہوں نے مصر فتح کر لیا تو ان لوگوں کو اس اناج اور ان کے مویشی کا پورا صلہ دیا جائے گا۔ اور اگر انہوں نے رومی فوج کی مدد کی اور مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شامل ہوئے تو پھر انہیں دشمن سمجھ کر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو دشمن مفتوح دشمن کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
فرما اب زیادہ دور نہیں رہ گیا تھا عمرو بن عاص کو رسد کا مسئلہ حل ہو گیا تھا ۔بدوؤں کے دوسرے کے سبھی مویشی اور اناج لاتے رہے اور رسد اس قدر اکٹھا ہوگئی جو کئی ایک عرصہ تک کافی تھی۔ بدو نے ایک اور مسئلہ بھی حل کر دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ قابل اعتماد لوگ ہیں اور ان کی صحیح رہنمائی کی جائے تو وہ ہر اچھی بری صورتحال میں قابل اعتماد رہیں گے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اس پڑاؤ سے کوچ کیا اور ایک پڑاؤ اور کیا عریش سے فرما تک کا فاصلہ صرف ستر میل تھا اس سفر میں اتنی زیادہ پڑاؤ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مجاہدین کے لشکر تو بڑی تیز پیش قدمی کیا کرتے تھے لیکن عمرو بن عاص دانستہ زیادہ پڑاؤ کر رہے تھے۔ اب ان کا آخری پڑاؤ تھا اور یہاں سے سیدھا فرما پہنچنا اور اس تاریخی شہر کو محاصرے میں لینا تھا۔
اس آخری پڑاؤ میں انہوں نے لشکر کی تنظیم نو کی اور سالاروں کو ترتیب وتنظیم اچھی طرح ذہن نشین کرا دی بدوؤں کے تمام جیش واپس آ گئے تھے۔
عمرو بن عاص نے سالاروں سے صلاح مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بدوؤں کی یہ جیش توڑ دیے جائیں اور بدوؤں کو لشکر میں شامل کردیا جائے، مطلب یہ تھا کہ بدوؤں کے الگ دستے نہ بنے کیونکہ وہ بہرحال غیر مسلم تھے اور کسی بھی وقت میں وہ عیسائیوں کے زیر اثر آ سکتے تھے اس خطرے کو اسی طرح ختم کیا جا سکتا تھا کہ بدوؤں کو سارے لشکر میں بکھیر دیا جائے،،،، ایسا ہی کر دیا گیا
ایسی ضرورت کم ہی محسوس ہوتی تھی کہ لڑائی سے پہلے مجاہدین اسلام کو گرمانے اور بھڑکانے کے لئے جوشیلی تقریر کی جائے لیکن کبھی ایسی صورت حال پیدا ہو ہی جاتی تھی کہ مجاہدین کو بتانا ضروری سمجھا جاتا تھا کہ وہ جو جنگی مہم سر کرنے جا رہے ہیں وہ کوئی سہل مہم نہیں اور دشمن زیادہ طاقتور ہے اور مقابلے کے لیے تیار بھی ہے اور نہ جانے اس نے اور کیا کچھ انتظامات کر رکھے ہیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے ضروری سمجھا کہ لشکر کو خبردار کر دیں کہ وہ کس خطرے میں جارہے ہیں انہوں نے تمام لشکر کو جس میں بدوّ بھی شامل تھے ایک جگہ اکٹھا کیا اور اس لشکر سے خطاب کیا تاریخ میں ان کا مکمل خطاب نہیں ملتا مؤرخوں نے کچھ اہم اقتصابات لکھے ہیں۔
ایلفریڈ بٹلر نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص نے اپنے لشکر سے کہا ۔۔۔ہم مصر کو جانے والے اس راستے پر جا رہے ہیں جو ایک قدیم ترین راستہ ہے ہمارے پیغمبر دنیا عرب سے اسی راستے سے مصر آئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت یعقوب علیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام ،حضرت عیسی علیہ السلام، کا پورا خاندان اسی راستے مصر پہنچا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام اسی راستے سے فرعون کے جادوگروں کے منہ پھیر کر اور ان کے دانت کھٹے کر کے مصر سے دنیا عرب کو گئے تھے۔ یہی دریائے نیل تھا جس نے حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو راستہ دے دیا تھا اور جب ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون راعمیس دوم نیل میں اترا تو نیل نے راستہ بند کردیا اور فرعون ڈوب مرا تھا ۔یہ ایک مقدس راستہ ہے یہ ہمارے پیغمبروں کا راستہ ہے یہ نہ سمجھنا کہ ہم کوئی ملک فتح کرنے آئے ہیں یہ ہماری اپنی سرزمین ہے اس ملک میں صرف اللہ کی حکمرانی چلے گی اور یہ حکمرانی تم قائم کرو گے ان شاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔
اس راستے کے تقدس کا اندازہ اس سے کرو کے مصر اور افریقہ سے حج کو جانے والے مسلمان اسی راستے سے جاتے ہیں ۔یہ راستہ مسلمانوں کے لئے ہی نہیں عیسائیوں کے لئے بھی مقدس ہے عیسائی اسی راستے سے بیت المقدس جاتے ہیں اور آتے ہیں یہ حضرت عیسی علیہ سلام کا راستہ ہے لیکن مصر میں ایک بادشاہ نے عیسائیت کا چہرہ مسخ کرڈالا ہے اور اس نے اپنی عیسائیت بنا دی ہے اور یہ عیسائیت لوگوں سے منوانے کے لئے اس نے سچی عیسائیت کے ماننے والے ہزارہا لوگوں کو قتل کیا ہے۔ ہم ان عیسائیوں کو ہرقل کی عیسائیت بربریت اور ظلم و تشدد سے نجات دلانے آئے ہیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے عیسائیت کا ذکر غالباً اس لئے ضروری سمجھا تھا کہ ان کے ساتھ بدوؤں کا جو لشکر تھا بے شک توہم پرست ہی سہی لیکن بنیادی طور پر وہ عیسائی تھے ان کے خون کو گرمانا اور رومیوں کے خلاف بھڑکانا ضروری تھا ۔حقیقت یہ بھی ہے کہ جب عمرو بن عاص امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مصر پر فوج کشی پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو انہوں نے امیرالمومنین سے خاص طور پر عیسائیوں پر ہرقل کے ظلم و تشدد کا اور قتل و غارت کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ عیسائی چونکہ اہل کتاب ہیں اور اہل کتاب پر کوئی بادشاہ یا کوئی قوم ظلم کر رہی ہو اور ان کا کوئی مددگار اور پرسان حال نہ ہو تو مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انھیں درندہ صفت بادشاہ سے نجات دلائیں ۔
عمرو بن عاص بڑے ہی دانشمند سپہ سالار تھے انہیں یہ بھی احساس تھا کہ صحیح عیسائیت کا اسقف اعظم بنیامین اگر میدان جنگ میں عملی طور پر مددگار اور معاون نہ ہوا تو درپردہ ضرور معاونت کرے گا۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے لشکر کو فرما کا محل وقوع بتایا اور یہ بھی کہ یہ قلعہ بند شہر میدان میں نہیں بلکہ ایک چٹانی قسم کی پہاڑی پر آباد ہے اور اس کے اردگرد صرف شہر بنا ہی نہیں بلکہ ایک بڑے خطرے کے علاوہ شہر کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی قلعہ بندیاں ہیں یہ بھی بتایا کہ فرما میں جو رومی فوج ہے اس کی تعداد اپنے لشکر سے تین یا چار گنا زیادہ ہے، یہ بھی بتایا کہ اپنے پاس محاصرہ کرنے کا پورا سامان بھی نہیں ،اس خطرے سے بھی لشکر کو آگاہ کیا کہ رومی محاصرے سے نلکل بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ مشہور مسلمان تاریخ نویسوں مقریزی اور ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ یہ ساری باتیں سنا کر عمرو بن عاص نے لشکر سے یوں خطاب کیا۔
مجاہدین اسلام یہ نہ سوچنا کے ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اور ہمارے پاس سازوسامان کی بھی کمی ہے کیا ہم ہر محاذ پر تھوڑے نہیں رہے۔ کیا تم نے شام میں انہیں رومیوں کے ایک ایک لاکھ لشکر کو اتنی ہی تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے شکستوں پر شکست نہیں دی ۔کیا تم نے انہیں رومیوں کو شام میں کاٹا اور وہاں سے بھگا یا نہیں۔ ان پر ابھی تک تمہاری دہشت طاری ہے ہم ہر محاذ پر صرف اس لئے فتح یاب ہوئے ہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہیں اللہ اب بھی ہمارے ساتھ ہے اللہ کا فرمان ہے کہ جس نے میری اور میرے رسول کی اطاعت کی اور میرے راستے پر جہاد کیا اسے ہم نے تھوڑی تعداد میں بھی اور تمام کمزوریوں کے ہوتے ہوئے بھی دشمن پر غالب کیا ہے دشمن کو خوفزدہ کرو اس سے خوف زدہ ہونا نہیں اگر ہم نے یہ صرف ایک شہر فرما لے لیا تو یوں سمجھیں کہ دشمن پر ایک بار پھر غلبہ پا لیا اور اس کے نتیجے میں مصر اسلامی سلطنت میں آجائے گا۔

عمرو بن عاص نے عریش پر قبضہ کرتے ہی دو جاسوسوں کو بنیامین کے ساتھ بات کرنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ پچھلے ایک باب میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ بنیامین آبادیوں سے دور ایک دشوار گزار صحرائی علاقے میں چھپا ہوا تھا اور وہیں اس نے گرجا تعمیر کر لیا تھا۔ پہلے دو جاسوس اس کے ساتھ بات چیت کر آئے تھے یہ اس وقت کی بات ہے جب مصر پر فوج کشی کی صرف باتیں ہورہی تھیں اور امیرالمومنین نے ابھی عمرو بن عاص کو مصر پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اب عمرو بن عاص نے ضروری سمجھا کہ بنیامین کے ساتھ آخری اور حتمی بات ہوجائے۔
وہ دونوں جاسوس بنیامین سے مل کر واپس آگئے تھے عمرو بن عاص نے بنیامین کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ رومی فوج میں مصر کے قبطی عیسائی ہیں وہ لڑے نہیں اور اپنی فوج کو دھوکا دیں، دوسری بات یہ کہ دوسرے قبطی عیسائی فوج کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہیں ہوسکے تو ہرقل کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں۔
بنیامین دوراندیش آدمی تھا اور غیرمعمولی ذہانت کا حامل بھی تھا اس نے ان دو مجاہدین کو زبانی پیغام دیا اس نے کہا تھا کہ وہ لوگوں کو بغاوت پر بالکل نہیں اکسائے گا اس نے وجہ یہ بتائی کہ ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ فتح ہرقل کی ہوگی یا عمرو بن عاص کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان شکست کھاجائیں اور ادھر عیسائیوں نے بغاوت کر رکھی ہو تو ہرقل کسی ایک بھی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔اور ان کے بچوں تک کو قتل کروا دے گا۔
بنیامین نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگوں کو اکسانے کی ضرورت ہی نہیں لوگ اس ظلم و تشدد کو اور درندگی کو کبھی نہیں بھولیں گے جو ہرقل کے حکم سے ان کے ساتھ ہوئی تھی وہ اپنے بیٹوں کو فوج میں نہیں جانے دیں گے اور اگر ہرقل نے جبری طور پر قبطی عیسائیوں کے بیٹوں کو فوج میں بھرتی کرنے کا حکم دیا تو تمام جوان سال قبطی گھروں سے نکل کر صحراؤں میں جا چھپیں گے۔
بنیامین نے یہ بھی کہا تھا کہ جو قبطی عیسائی فوج میں ہیں انھیں ابھی کچھ کہنا غیر ضروری ہے وہ رومیوں کے خلاف اس قدر جلا بیٹھے ہیں کہ وہ جان قربان کردینے والی لڑائی لڑیں گے ہی نہیں بات مختصر کی جائے تو بنیامین نے جو جواب بھیجا تھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ قبطیوں کا رویہ مسلمانوں کے حق میں نہ ہو ہرقل اور اس کی فوج کے بالکل ہی خلاف ہو گا اور اسے خاصا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس جواب سے سپہ سالار عمرو بن عاص مطمئن ہوگئے۔
دو یوروپی مؤرخوں نے تاریخ کے چھوٹے چھوٹے واقعات ذرا تفصیل سے لکھے ہیں۔ انھوں نے اسکندریہ کی ایک میٹنگ کا ذکر کیا ہے جس میں ایک مقوقس تھا، دوسرا جرنیل اطربون اور تیسرا سرکاری عیسائیت کا استف اعظم قیرس تھا۔ مقوقس نے کہا کہ اس نے فرما کا دفاع اتنا مضبوط کردیا ہے اور ایسے احکام بھیج دیے ہیں کہ مسلمان اسے فتح نہیں کر سکیں گے لیکن مقوقس قبطی عیسائیوں کے متعلق پریشان تھا۔
اسقف اعظم !،،،،،مقوقس نے حیرت سے پوچھا۔۔۔ کیا آپ عیسائیوں میں وہ جذبہ پیدا کرسکتے ہیں جو مسلمانوں میں ہے۔
نہیں!،،، قیرس نے دو ٹوک جواب دیا ۔۔۔کیا تم نہیں جانتے کہ قبطی عیسائی مجھے ہرقل کا قصائی کہتے ہیں میرے ہاتھوں ان عیسائیوں کا جو خون بہایا گیا ہے وہ خون مجھے عیسائی بخش تو نہیں دیں گے قاتل کو مقتول کے لواحقین سے رحم کی توقع رکھنی ہی نہیں چاہیے میں ان لوگوں کا سامنا کرنے کے بھی قابل نہیں۔
ان تینوں کے درمیان کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوتا رہا مقوقس اور اطربون، قیرس کو بار بار کہتے تھے کہ وہ مختلف شہروں میں جائے اور لوگوں کو گرجوں میں بلا کر مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے لیکن قیرس مان نہیں رہا تھا ۔وہ کہتا تھا کہ اسے لوگوں نے نہیں بلکہ شہنشاہ ہرقل نے اسقفٰ اعظم بنایا ہے ۔اس نے یہ بھی کہا کہ لوگ اسے سرکاری جلاد کی حیثیت سے پہچانتے ہیں مگر اسے مذہبی پیشوا نہیں سمجھتے۔
آخر یہ طے پایا کہ مقوقس اگلے روز لوگوں کو اور فوج کو بھی گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کرکے خطاب کرے اگر یہ خطاب لوگوں نے قبول کر لیا تو مقوقس بڑے بڑے شہروں میں جا کر خطاب کرے گا۔
میں خطاب کی ضرورت تو نہیں سمجھتا تھا۔۔۔ اطربون نے کہا ۔۔۔میں نے فوج کو جس طرح تیار کیا ہے اس سے امید ہے کہ فوج ٹھیک طرح لڑے گی لیکن میں مسلمانوں کو بھی جانتا ہوں کہ وہ کس بے جگری سے لڑتے ہیں۔ ہماری فوج کا جانی نقصان زیادہ ہوگا شام میں ہمیں اس کا تجربہ ہو چکا ہے نفری کی کمی پوری کرنے کے لئے ہمیں مزید جوانوں کی ضرورت ہوگی اس کا ایک طریقہ ہے کہ بڑا ہی جوشیلا اور جذباتی خطاب کرکے لوگوں کو فوج میں آنے پر اکسایا جائے

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

اسکندریہ شہر اور اردگرد کے دیہاتی علاقے میں جہاں جہاں تک سوار ہرکارے پہنچ سکتے تھے یہ اعلان کروایا گیا کہ کل فلاں وقت فرمانروائے مصر مقوقس خطاب کرے گا اور کچھ ضروری نہایت باتیں بھی بتائے گا،،،،،،، دیہات کے لوگ جوق درجوق پہنچنےلگے مقوقس کا خطاب کوئی معمولی بات نہیں تھی اس سے پہلے اس نے ایسا کبھی نہیں کیا تھا دیہات کے لوگوں کو ابھی تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ مسلمانوں کا لشکر مصر میں داخل ہوچکا ہے اور اس نے شہر عریش لے بھی لیا ہے اور بڑی ہی شدید جنگ تیزی سے بڑھی آ رہی ہے۔
شاہی حکم کی تعمیل بڑی ہی تیزی سے ہوجایا کرتی تھی گھوڑ دوڑ کے میدانوں میں ایک چبوترا بنا دیا گیا اور مقررہ وقت سے پہلے فوج وہاں آ گئی اور لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوتا جا رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنے وسیع و عریض میدان میں کھڑا ہونے کی جگہ بھی نہ رہی۔
مقوقس شاہی بگھی میں شاہانہ انداز سے اس میدان میں آیا اور چبوترے پر جا کھڑا ہوا۔ محافظ دستے کے گھوڑسوار اس کے آگے دائیں بائیں اور پیچھے ایک ترتیب سے کھڑے ہوگئے اس وقت ضرورت یہ تھی اور حالات کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ مقوقس شاہانہ طور طریقہ اختیار نہ کرتا اور مسلمانوں کی طرح ایک عام آدمی کی حیثیت سے آتا اور چبوترے پر کھڑا ہو کر یہ تاثر دیتا کہ وہ انہیں میں سے ہے۔ لیکن شہنشاہیت کا نشہ ایسا تھا جو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں اترتا تھا ۔ مقوقس نے فوج پر اور پھر دور دور تک پھیلے ہوئے ہجوم پر نگاہ ڈالی تو شہنشاہیت کا نشہ اور بھی تیز ہو گیا ہوگا ۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شہنشاہ تو ہرقل ہی تھا لیکن مقوقس کو اس نے مصر کا باج گزار فرمانروا بنا رکھا تھا۔ مقوقس لوگوں پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ ھرقل سے کم حیثیت والا ہے۔
بہادر رومیو ،اور غیرت مند مصریوں!،،،،، مقوقس نے پھیپڑوں کا پورا زور لگا کر کہا۔۔۔ مسلمان اب تمہارے گھر میں آن پہنچے ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں آئے ہیں کہ تمہیں یہاں بھی شکست دے لیں گے انہوں نے شہر عریش پر قبضہ کر لیا ہے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ انہوں نے یہ شہر لڑکر نہیں لیا بلکہ ہم نے وہاں سے اپنی فوج پہلے ہی نکال لی تھی۔ تاکہ مسلمان یہ شہر لے لیں، یہ ہم نے سوچ سمجھ کر چال چلی ہے کہ مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر آگے آئیں اور ہم انہیں پھندے میں پھنسالیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی واپس نہ جا سکے ،وہ اب شہر فرما کے قریب پہنچ گئے ہیں موت انہیں بڑی تیزی سے ہمارے پھندے میں لا رہی ہے۔
اس کے بعد اس نے اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف خوب زھر اگلا اور عیسائی فوج کو دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوج کہا پھر یہ کہا کہ دنیا میں صرف ایک مذہب کی حکمرانی ہوگی اور وہ مذہب عیسائیت ہوگا۔
لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہوگا کہ تم عیسائیت کا تحفظ کرو مقوقس نے کہا۔۔۔ آج ملک اور مذہب قربانی مانگ رہے ہیں اگر تم نے شام کی طرح مصر بھی مسلمانوں کو دے دیا تو عیسائیت کا خاتمہ ہوجائے گا اور یہاں مسلمانوں کی حکمرانی ہوگی۔ وہ بزدل اور بے وقار تھے جو شام جیسا بڑا ملک مسلمانوں کے ناپاک قدموں میں پھینک کر بھاگ آئے۔ مصری اتنے بزدل نہیں ہوسکتے میں جانتا ہوں تمہاری تلواریں مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہیں مسلمان آرہے ہیں اپنی تلواروں کی پیاس بجھا لو شام کی شکست کا انتقام دل کھول کر لو۔
مقوقس کی تقریر جو شیلی ہوتی چلی گئی اور پھر اس نے جذباتی رنگ اختیار کر لیا لیکن مقوقس نے یہ دیکھا کہ تقریر سننے والے جوش و خروش کا ذرا سا بھی اظہار نہیں کر رہے تھے ،ایسی تقریر اور ایسے خطاب کے دوران لوگ نعرے لگایا کرتے تھے لیکن وہاں سننے والے ہجوم پر خاموشی طاری تھی۔
مقوقس نے آخر میں یہ کہا کہ شام میں ہمارا شہنشاہ ہرقل اس غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور انہیں بڑی آسانی سے شکشت دی جا سکے گی۔ لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا مقوقس نے اس کی وجوہات بیان کیں اور اس فوج کے خلاف باتیں کیں جس نے شام میں شکست کھائی تھی اور کہا کہ وہ نئی فوج تیار کرنا چاہتا ہے جس کے لئے جذبے والے اور مضبوط دل والے جوانوں کی ضرورت ہے اس نے اور زیادہ جوشیلی اشتعال انگیز اور جذباتی باتیں کر کے جوانوں کو اکسانے کی کوشش کی کے وہ فوراً فوج میں شامل ہو جائیں۔
مقوقس غالباً انسانی فطرت کا یہ پہلو نظر انداز کر رہا تھا کہ انسانوں پر جبراً حکومت کی جا سکتی ہے ۔لیکن ان سے جبراً کوئی قربانی نہیں لی جاسکتی، مقوقس نے دیکھا کہ اس کی اس اشتعال انگیز دعوت کے جواب میں بھی ہجوم خاموش رہا جرنیل اطربون بھی وہیں تھا۔اس نے مقوقس کو اشارہ کیا کہ وہ تقریر روک دے، مقوقس نے یہ اشارہ سمجھتے ہوئے بھی اپنی زبان کا جادو جاری رکھا اور ایک بار پھر عیسائیت کا نام لیا۔
صرف ایک بات بتا دیں۔۔۔۔ ہجوم میں سے ایک بڑی ہی بلند آواز اٹھی۔۔۔ آپ کونسی عیسائیت کی بات کر رہے ہیں شاہ ہرقل اور قیرس کی عیسائیت کی، یا اسقف اعظم بنیامین کی عیسائیت کی۔
مقوقس پر خاموشی طاری ہو گئی جیسے وہ اس سوال پر بوکھلا گیا ہو وہ آخر شاہی خاندان کا فرد تھا اسے غصہ آ گیا لیکن غصے کا اظہار نہیں کیا، اطربون نے اسے کہا کہ قبطیوں کا رویہ خطرناک معلوم ہوتا ہے۔
دیکھو یہ آدمی کون ہے۔۔۔ مقوقس نے حکم کے لہجے میں کہا ۔۔۔اس کے اس سوال سے میری کم تمہاری اور شاہ ہرقل کی زیادہ توہین ہوئی ہے اس شخص کو گرفتار کر کے سزا دی جائے۔
نہیں!،،،،، اطربون نے کہا۔۔۔۔ چاہتا میں بھی یہی ہوں کہ اس شخص کو عبرتناک سزا دی جائے لیکن صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنا رویہ نرم رکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سخت رویہ اختیار کریں تو قبطی سرکش اور باغی ہو جائیں۔
مقوقس اور اطربون وہاں سے غصے اور شرمندگی کے عالم میں چلے گئے، مقوقس نے فوری طور پر دو کام کیے ایک یہ کہ ایک قاصد ہرقل کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ مسلمان فرما کے قریب پہنچنے والے ہیں اور قبطی عیسائیوں کا رویہ مخالفانہ لگتا ہے، مقوقس نے ہرقل سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے بتایا جائے کہ کیا کرے۔
مقوقس نے دوسرا کام یہ کیا کہ بڑی ہی تیزی سے ان فوجی دستوں کو فرما روانہ کردیا جن میں رومی عیسائی اکثریت میں تھے اور قبطی عیسائی بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان دستوں کو حکم دیا گیا کہ انتہائی تیزی سے فرما پہنچے اور وہاں جو دستے موجود ہیں ان میں قبطی دستے بھی ہیں ان سب کو واپس اسکندریہ بھیج دیا جائے۔ مقوقس کو یہ خطرہ صاف نظر آنے لگا تھا کہ فرما میں قبطی عیسائیوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو وہ اتنا اہم اور قلعہ بند شہر مسلمانوں کو دے دیں گے۔
ہرقل بزنطیہ میں تھا بزنطیہ بہت دور تھا قاصد کو جانے اور آنے میں کئی دن درکار تھے ادھر سپہ سالار عمرو بن عاص کا لشکر فرما کے قریب پہنچ گیا تھا۔

مجاہدین اسلام کے لشکر کو ہدف تک پہنچنے میں کچھ دن اور لگ گئے اس دوران اسکندریہ سے مقوقس کی بھیجی رومی فوج کے دستے فرما پہنچ گیا اور قبطی عیسائیوں کے دستے وہاں سے نکال دیے گئے اس طرح فرما کا دفاع مزید مستحکم ہو گیا تھا۔
مجاہدین نے فرما کو محاصرے میں لے تو لیا لیکن شہر پہاڑی پر ہونے کی وجہ سے شہر کے اردگرد جگہ بہت تنگ تھی اس کا مسلمانوں کو یہ نقصان ہو رہا تھا کہ شہر کی دیواروں اور پہلو سے جو تیر آتے تھے وہ مسلمانوں کو زد میں آسانی سے لے لیتے تھے یہ پہاڑی بجائے خود اس شہر کا ایک قدرتی دفاعی انتظام تھا۔
مجاہدین نے اپنی روایتی شجاعت اور بے جگری کا یہ مظاہرہ کئی بار کیا کہ دوڑ کر دروازوں تک پہنچے اور دروازے توڑنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ دروازے بہت مضبوط تھے اور اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آتی تھیں۔ کئی مجاہدین دروازوں پر شہید اور شدید زخمی ہوگئے۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس لشکر کے پاس محاصرے کا پورا سامان نہیں تھا منجیقیں نہیں تھیں کمند پھینکنے والے رسے نہیں تھے، اور رسوں والی سیڑھیاں بھی نہیں تھیں، قلعہ سر کرنے میں تو مسلمان خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ کمند پھینک کر بھی دیواروں پر چڑھ جایا کرتے اور جان قربان کر دیا کرتے تھے لیکن ان کے پاس ایسا کوئی سامان تھا ہی نہیں۔
مقوقس نے پہلے ہی اپنے دفاعی دستوں کو حکم دے رکھا تھا کہ مسلمانوں کی نفری تھوڑی ہے اور اسے بھگانے اور مارنے کا یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ ایک ایک دو دو دستے باہر بھیج کر ان پر حملہ کریں اور واپس قلعے میں آجایا کریں۔
ایک دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ محاصرہ ایک مہینے رہا بعض نے محاصرے کی مدت دو مہینے لکھی ہے ۔محاصرے کا صحیح عرصہ کہیں بھی نہیں لکھا قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ محاصرہ زیادہ لمبا نہیں ہوا تھا کیونکہ قلعے کی فوج نے باہر نکل نکل کر مسلمانوں پر حملے شروع کردیئے تھے مسلمانوں کی مجبوری یہ تھی کہ پہاڑی کے اوپر ان کے لیے لڑنے کی جگہ اتنی تھوڑی تھی کہ سالار کوئی پینترہ نہیں بدل سکتے تھے نہ کوئی چال چلنے کی پوزیشن میں تھے ان پر جب اندر سے حملہ آتا تھا تو وہ پیچھے ہٹتے اور پہاڑی کی ڈھلان ہی قدم جمانے نہیں دیتی تھی وہ مجبوراً پہاڑی سے اتراتے تھے رومی فوج نیچے نہیں آتے تھے وہ اوپر سے ہی واپس بڑی تیزی سے قلعے کے اندر چلے جاتے اور دروازے بند ہو جاتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کو اس قسم کی لڑائیاں لڑنے کا خاص تجربہ تھا انہوں نے اس تجربے کے مطابق ایک پلان بنا لیا اور اپنے لشکر کا کچھ حصہ اس پلان میں شامل کیا اور اس حصے کے سالار کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ اب اندر سے حملہ آئے تو اسے کیا کرنا ہے۔
ایک روز قلعے کے ایک طرف کے دو دروازے کھلے اور رومی فوج روکے ہوئے سیلاب کی طرح بڑی ہی تیزی اور شدت سے باہر نکلی اور اس طرف کے مجاہدین پر ہلہ بول دیا ۔
جس سالار کو عمرو بن عاص نے اپنا پلان دیا تھا وہ شہر کے ایک پہلو میں تھا۔
اس نے بڑی تیزی سے حرکت کی اور اپنے دستے ساتھ لے کر دیوار کے ساتھ ساتھ آیا تھا تاکہ دروازوں پر قبضہ کر لیا جائے لیکن رومی زیادہ تیز نکلے انہوں نے دیکھ لیا اور فوراً واپس ہوئے لیکن مسلمانوں نے پھر بھی انہیں روک لیا اب جو رومی فوج حملے کیلئے نکلی تھی اس کی تعداد پہلے حملوں سے خاصی زیادہ تھی۔
اب چونکہ مسلمان پہاڑی سے اترنے کے بجائے دیوار کے ساتھ تھے اس لیے انہوں نے جم کر مقابلہ کیا لیکن ان کی تعداد رومیوں کی نسبت بہت ہی کم تھی بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا بہت سے مجاہدین شہید ہو گئے رومی بھی بے شمار مارے گئے لیکن تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ مجاہدین پر غالب آگئے اور دروازوں میں داخل ہو کر اندر چلے گئے اور دروازے بند ہو گئے۔
مجاہدین کے لشکر کی نفری اور کم ہو گئی شہر کا دفاعی انتظام ایسا مستحکم تھا کہ شہر کے باہر جو درخت تھے وہ سب کاٹ دیے گئے تھے تاکہ محاصرہ کرنے والے درختوں پر چڑھ کر دیوار پر تیر اندازی نہ کرسکیں۔ عمرو بن عاص اور ان کے سالاروں کے لئے وہ صورتحال پیدا ہوگئی تھی جس میں بڑے بڑے نامور جرنیل بھی مایوس ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن سپہ سالار عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا کہ مایوسی جیسا گناہ نہ کرنا ان شاءاللہ فتح ہماری ہوگی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم یہیں ہار گئے تو ایوان خلافت میں ہماری کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی،،،، عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو ایک اور پلان دیا اور کہا کہ اس پلان میں یہ امکان موجود ہے کہ ہمارا آدھا لشکریہی ختم ہوجائے لیکن فتح یقینی ہوگی۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ عجیب بات ہے کہ اتنے اہم شہر کے دفاعی دستوں کی کمانڈ لینے کے لیے نہ مقوقس فرما آیا نہ اطربون، تاریخ میں اس جرنیل کا نام نہیں ملتا جو اس شہر کا کمانڈر تھا وہ جو کوئی بھی تھا مقوقس کے احکام کے مطابق چل رہا تھا یہ احکام اور پلان اسے محاصرے سے پہلے ہی ذہن نشین کرا دیے گئے تھے۔
اس پلان کے مطابق اس نے زیادہ دستوں سے حملہ کروایا تھا۔ اب پلان کے فیصلہ کن حصے پر حملہ کرنا تھا ۔رومی جرنیل نے آدھی سے زیادہ فوج حملے کے لئے مختلف دروازوں سے باہر نکال دیں یہ دستے پہلے کامیابیوں سے بہت خوش تھے اور انہیں اب بھی کامیابی یقینی نظر آ رہی تھی ،ان کی نفری بھی اب بہت زیادہ تھی اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی دلیر ہو گئے تھے۔
اس کثیر نفری نے محاصرے پر حملہ کیا تو عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو جو پلان دیا تھا اس کے مطابق مجاہدین لڑنے کے بجائے پہاڑی سے اس طرح اترنے لگے جیسے ڈر کر بھاگ نکلے ہوں، رومی پہلی کامیابیوں کے نشے سے سرشار ان کے پیچھے آئے عمرو بن عاص نے اس مقصد کے لئے کچھ دستے ریزرو میں رکھے تھے۔
جو ایرونی پہاڑی کے ڈھلان پر آئے مجاہدین کے ریزرو دستے تیزی سے حرکت کر کے ان کے عقب یعنی شہر کی دیوار اور رومیوں کے درمیان پہنچ گئے اور رومیوں پر ہلہ بول دیا۔ ایک دستہ یا غالباً کچھ نفری کھلے دروازوں میں سے قلعے کے اندر چلی گئی اس طرف کے رومی پھندے میں آگئے پہاڑی سے اتر جانے والے مجاہدین پھر پہاڑی چڑھنے لگے۔ اور انہوں نے رومیوں کو جو کاٹنا شروع کیا تو ان کے زخمی اور ان کی لاشیں لڑھکتی ہوئی نیچے ہی نیچے جانے لگی۔
یہ چال شہر کے صرف ایک طرف ہی چلی گئی بلکہ ایک اور پہلو پر یہی صورتحال پیدا ہوئی تو مجاہدین نے وہاں بھی رومیوں کے عقب میں جاکر ان پر ہلہ بولا اور کچھ مجاہدین قلعے کے اندر چلے گئے۔
رومی اس صورتحال کے لیے بالکل ہی تیار نہ تھے وہ تو پہلی کامیابیوں کو ذہن میں رکھے ہوئے اب بھی کامیابی کی ہی توقع لیے ہوئے تھے ۔ اندر گئے ہوئے مجاہدین کو لڑائی تو لڑنی پڑی لیکن انہوں نے باقی دروازے بھی کھول دیے رومیوں کی زیادہ تر نفری شہر سے باہر مجاہدین کی تلواروں سے کٹ رہی تھی۔
جانی نقصان تو مجاہدین کا بھی ہو رہا تھا لیکن ہر مجاہد اس لڑائی کو اپنی ذاتی لڑائی سمجھ کر لڑ رہا تھا مرنے والوں میں زیادہ تعداد قبطیوں کی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایسی جنگ کبھی نہیں لڑی تھی پھر بھی انہوں نے رومیوں کو بہت ہی جانی نقصان پہنچایا۔
شہر اس حالت میں فتح ہو گیا کہ شہر کے اندر اور باہر اس قدر خون تھا جیسے خون کا مینہ برس گیا ہو ، چھوٹی چھوٹی قلعہ بندیاں برجیاں اور برج اتنے زیادہ تھے کہ بھول بھلیاں سی بنی ہوئی تھی اور شک تھا کہ رومی جرنیل اور ماتحت افسران کہیں چھپے ہوئے ہیں ،سپہ سالار عمرو بن عاص نے شہریوں کو حکم دیا کے تمام قلعہ بندیاں گرا دیں۔ کچھ مجاہدین کو ان کے ساتھ لگا دیا۔ شک صحیح نکلا رومی جرنیل ایک برج کے کونے میں دبکا بیٹھا مل گیا اسے گرفتار کر لیا گیا۔
فرما کی فتح مکمل ہوگئی اور مال غنیمت اکٹھا کیے جانے لگا ۔
تاریخ نویس بٹلر اور دو اور یورپی تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ تاریخ ہمیشہ حیران رہے گی کہ اتنے تھوڑے مسلمانوں نے اتنا مضبوط قلعہ آخر کس طرح فتح کر لیا تھا۔

فرما کی فتح کو غیر مسلم مؤرخوں نے حیرت انگیز کہا ہے۔ لیکن اہل دین ایمان کے لئے اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں تھی تاریخ اسلام ایسی معجزہ نما فتوحات سے بھری پڑی ہے ۔سالاروں کے دلوں میں ایسا کوئی لالچ نہیں تھا کہ رومی جرنیلوں کے محلات میں سے زر و جواہرات کے خزانے ملیں گے اور دیگر مال غنیمت کا بھی کوئی شمار نہیں ہوگا۔ نہ ہی مجاہدین کے دلوں میں کوئی ایسی خواہش تھی ۔وہ اللہ کے نام پر اس فوج کشی کو جہاد فی سبیل اللہ جان کر گئے تھے۔ ان کے عزائم ذاتی نہیں دینی اور ملی تھی۔
اس سے بڑھ کر اور معجزہ کیا ہوسکتا ہے کہ ایران اور روم جیسی بڑی جنگی طاقتوں کو جنھیں تاریخ نے ناقابل تسخیر کہا ہے کچل اور مسل کر الگ پھینک دیا گیا تھا اور وہاں آج بھی اسلام کا پرچم بڑے فخر اور شان و شوکت سے لہراتا ہے۔
چونکہ فرما کی فتح غیرمسلم مؤرّخوں کے لئے حیرت ناک تھی اس لیے انہوں نے اس کے کچھ اسباب گڑھ لیے اور تاریخ کے دامن میں ڈال دیے تھے۔ مثلاً ایک یہ کہ اتنے تھوڑے سے مسلمان اتنی بڑی اور طاقتور فوج سے فرما کر قلعہ بند شہر نہیں لے سکتے تھے ۔وہ اس لئے فاتحہ کہلائے کہ بنیامین کے حکم سے قبطی عیسائی جو رومی فوج میں تھے لڑے ہیں نہیں تھے اور ان میں سے کچھ اپنی ہی فوج کے دشمن ہو گئے اور قتل و غارت کی ۔ دوسرا جواز یہ پیش کیا گیا کہ ہرقل کی سرکاری عیسائیت کا اسقف اعظم قیرس در پردہ ہرقل کے خلاف ہو گیا تھا اور اس نے بھی مسلمان سپہ سالار کے ساتھ ساز باز کرلی تھی ۔ پھر یہ کہ تمام مصری بدوّ مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے۔
غیرمسلم مؤرّخوں کی لکھی ہوئی تاریخ آگے چل کر پڑھی جائیں تو یہ خود اپنی ہی من گھڑت باتوں کی تردید کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنی سی بات درست ہے کہ بنیامین نے قبطی عیسائیوں کو یہ ہدایت پہنچا دی تھی کہ وہ جانوں کی بازی لگا کر نہ لڑیں لیکن رومیوں کو یہ پتہ نہ چلنے دیں کہ وہ دل وجان سے اس لڑائی میں شامل نہیں ۔ تاریخ میں یہ اعداد و شمار بھی ملتے ہیں کہ رومی فوج میں قبطی عیسائیوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی جو اگر باغی ہو بھی جاتی تو اس سے رومیوں کو جنگی لحاظ سے کوئی نقصان نہ ہوتا۔
باقی رہی بات ہرقل کے اسقف اعظم قیرس کی تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ قیرس کا سپہ سالار عمروبن عاص کے ساتھ کوئی رابطہ ہوا ہی نہیں تھا نہ ہی عمرو بن عاص کو یہ توقع تھی کہ وہ قیرس اپنا ہمنوا اور مددگار بنا سکیں گے۔ قیرس اور ہرقل کے درمیان کوئی اور اختلاف ہو سکتا تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جہاں تک مصر کے دفاع کا تعلق تھا ہرقل اور قیرس ایک محاذ پر متحد اور متفق تھے۔
یہ صحیح ہے کہ بدوّ مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے اور انھیں جس دانشمندی سے استعمال کیا گیا تھا وہ پچھلے باب میں بیان ہوچکا ہے ۔لیکن جہاں تک لڑائی کا تعلق تھا بدوؤں کو ٹھیک طرح لڑایا نہیں جاسکتا تھا۔ کیونکہ وہ جنگجو ہی سہی، ایک منظم لشکر اور منظم فوج میں جاکر لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ بدؤوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا تھا۔

یہ بھی صحیح ہے کہ رومی فوج میں زیادہ تعداد ان فوجیوں کی تھی جو شام سے شکست کھا کر بھاگے اور زخمی بھی ہوئے تھے ان پر مسلمانوں کی جو دہشت طاری تھی وہ ابھی تک موجود تھی۔ مقوقس نے نئی فوج تیار کی تھی لیکن پرانے فوجیوں نے نئے فوج کے ذہن میں یہ حقیقت ڈال دی تھی کہ مسلمان کس طرح بے جگری سے لڑتے ہیں، جانیں قربان کردیتے ہیں پیچھے نہیں ہٹتے۔
پرانے فوجیوں نے نئے فوجیوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ مسلمانوں کے لشکر کا ہر فرد لڑائی کو ذاتی لڑائی سمجھ کر لڑتا ہے۔
اس دہشت کے علاوہ رومی فوج مسلمانوں کے حسن سلوک سے بھی متاثر تھی خصوصاً غیر فوجی عیسائی تو مسلمانوں کے کردار اور اس نے سلوک سے بہت ہی متاثر تھے، وہ کہتے تھے کہ مسلمان ظالموں کی طرح لڑتے ہیں لیکن فتح کے بعد مفتوحہ لوگوں کے لئے رحمت کے فرشتے بن جاتے ہیں ۔ان کا یہ کہنا غیرمسلم مؤرّخوں کی لکھی ہوئی تاریخ میں بھی ملتا ہے کہ مسلمان صرف جسموں کو ہی فتح نہیں کرتے تھے بلکہ دلوں کو فتح کر لیتے اور مفتوحہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ وجہ یہ کہ وہ نہ تو اور عورتوں اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھاتے تھے نہ لوٹ مار کرتے نہ یہ کہ عورتوں پر ٹوٹ پڑتے۔
یہ کہنا صحیح نہیں کہ رومیوں میں قومی جذبہ اور وقار نہیں تھا سب کچھ تھا لیکن انہیں مارا تو شہنشاہیت نے مارا ۔ یہاں ایک رومی لڑکی کا واقعہ سامنے آتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رومیوں میں قومی جذبہ اور وقار کس قدر زیادہ موجود تھا۔ اس لڑکی کا نام نوشیبا تھا اور وہ اس جرنیل کی بیٹی تھی جو فرما کی دفاعی رومی فوج کا کمانڈر تھا۔
تاریخ میں اس جرنیل کا نام نہیں ملتا اس جرنیل کی اس بیٹی نے تاریخ کا وہ باب لکھ ڈالا تھا جو صرف اس تاریخ نویسوں کے یہاں ملتا ہے جنہوں نے کچھ پس منظر کے واقعات تفصیل سے لکھے ہیں۔
اس جرنیل کا تعلق ہرقل کے شاہی خاندان کے ساتھ تھا نوشیبا کی عمر اس وقت بائیس تیئس سال تھی اور ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔ فوج کا ہی ایک جوان سال رومی عہدیدار تھا جس کے ساتھ نوشیبا کی منگنی ہو چکی تھی ۔یہ عہدیدار بھی شاہی خاندان کا فرد تھا یہ سب لوگ نوشیبا کو نوشی کہتے تھے۔
ہم اس داستان کو کچھ دن پیچھے اس وقت پر لے جا رہے ہیں جب مسلمان فرما کے قلعے میں داخل ہورہے تھے ۔ قلعے کے باہر بھی اور اب قلعہ کے اندر بھی خونریز جنگ لڑی جا رہی تھی ۔ یہ فرما کا فیصلہ کن معرکہ تھا۔ نوشی کا جرنیل باپ اس وقت دیوار پر کھڑا یہ خونریز معرکہ دیکھ رہا تھا اور وہ یقیناً محسوس کر رہا ہو گا کہ مسلمان فرما فتح کر چکے ہیں اور اس کی فوج ہاری ہوئی لڑائی لڑ رہی ہے ۔ لڑائی کی صورتحال یہ تھی کہ رومی قلعہ کے دفاع کے لئے نہیں بلکہ اپنی اپنی جان کے دفاع کے لیے لڑ رہے تھے وہ بری طرح کٹ رہے تھے۔
جرنیل نے دیوار سے پہلے تو باہر دیکھا پھر اندر کی طرف دیکھنے لگا اس کا ایک ماتحت اس کے پاس آ کھڑا ہوا اور جرنیل سے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ مسلمانوں کو اندر آنے دیا جائے اور اپنی فوج باہر رہے اور پھر مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں ختم کر دیا جائے۔ وہ کہتا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور ان پر قابو پانا ایسا مشکل نہیں جسے ہم ناممکن کہیں۔
میں شام سے آیا ہوں ۔۔۔رومی جرنیل نے ہاری ہوئی سی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ میں نے ان مسلمانوں کو لڑتے دیکھا ہے اور لڑا بھی ہوں۔
تم انہیں کم تعداد والے کہہ رہے ہو یہی کم تعداد ان کی اصل طاقت ہے کیا تم اس صورتحال میں اپنی فوج کو اپنے حکم کا پابند کر سکتے ہو کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے فوجی جان بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن بھاگنے کے راستے بھی دیکھ رہے ہیں۔ بدوّ غداری کر گئے ہیں۔
تو پھر ہمارے لئے کیا حکم ہے۔۔۔ ماتحت عہدے دار نے پوچھا۔
میری طرف سے تمہیں اجازت ہے۔۔۔ جرنیل نے کہا۔۔۔ لڑنا چاہتے ہو تو لڑو بھاگنا ہے تو بھاگ جاؤ۔
مجھے ایسا بزدل بھی تو نہ سمجھیں۔۔۔ ماتحت نے کہا۔۔۔ آپ نے کہہ دیا کہ بھاگنا ہے تو بھاگو تو کیا میں بھاگ اٹھوں گا آخر دم تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔
اس ماتحت نے شہر کے اندر کا منظر دیکھا تو وہیں کھڑے کھڑے اپنے قریبی سپاہیوں کو للکار کر کہا کہ مسلمان اندر آگئے ہیں اور یہیں سے منہ اندر کی طرف کر لو اور مسلمانوں کو تیروں کا نشانہ بناؤ۔۔۔۔ جس رومی سپاہی نے بھی یہ حکم سنا وہ گھوم کر شہر کے اندر مسلمانوں پر تیر برسانے لگا۔
شہر میں بھگدڑ مچ گئی تھی لوگ گھروں سے نکل نکل کر بھاگ رہے تھے اور فوجی لڑ رہے تھے اور کچھ شہریوں میں مل کر بھاگ رہے تھے ۔مسلمان اعلان کر رہے تھے کہ کوئی شہری گھر چھوڑ کر نہ بھاگے گھروں میں رہوں کوئی مسلمان کسی گھر میں داخل نہیں ہو گا نہ لوٹ مار ہوگی نہ کسی عورت پر ہاتھ اٹھایا جائے گا۔
یہ بدبخت مسلمان ہمارے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔۔۔ ماتحت جرنیل نے کہا۔۔۔ یہ جانتے ہیں کہ بھاگنے والے لوگ سونا چاندی اور رقم اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں ان کی نظر انہیں چیزوں پر ہے۔
دھوکا نہیں دے رہے ۔۔۔جرنیل نے کہا۔۔۔ یہی ان مسلمانوں میں خوبی ہے مفتوحہ شہر میں کسی گھر میں داخل نہیں ہوتے کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتے یہی خوبی ہماری فوج میں بھی ہوتی تو نہ یہ شام سے بھاگتے نہ آج اتنا مضبوط قلعہ بند شہر ان کے حوالے کر دیتے۔ ہمارے فوجی تو اپنے ہی لوگوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ مار شروع کردیتے ہیں۔
اتنے میں مجاہدین دیوار پر آ گئے اور ان تیر اندازوں پر ٹوٹ پڑے جو نیچے شہر کے اندر مجاہدین پر تیر چلا رہے تھے۔ جرنیل ایک طرف کو بھاگ اٹھا اس کا لباس اس کی بڑے واضح پہچان تھی کہ یہ شخص جرنیل ہے اسے توقع نہیں تھی کہ وہ زندہ دیوار سے اتر جائے گا۔ اور اگر زندہ اتر بھی گیا تو مسلمانوں کے قیدی کی حیثیت سے اترے گا۔ لیکن دیوار پر جو اس کے سپاہیوں میں ہڑبونگ اور افراتفری پیدا ہو گئی تھی اس سے اس نے یہ فائدہ اٹھایا کہ جھکا جھکا چلتا دیوار سے اتر ہی گیا۔
نیچے بھی وہی خونریزی کا اور بھاگ دوڑ کا عالم تھا ۔ جرنیل کو اپنا آپ بچانا مشکل نظر آ رہا تھا لیکن اس کی خوش قسمتی یہ تھی کہ قریب ہی ایک گلی تھی جس میں وہ چلا گیا اور پہلے ہی مکان کے دروازے پر ہاتھ رکھا۔ دروازہ اندر سے بند تھا اس نے بڑی زور سے دستک دی لیکن دروازہ نہ کھلا گھر والوں کو یہ خوف آیا ہوگا کہ یہ مسلمان ہے جو اندر آکر ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو فاتحین مفتوحہ لوگوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔
جرنیل نے اپنا نام لے کر کہا دروازہ فوراً کھولو۔
دروازہ ذرا سا کھلا جس میں سے جرنیل کی کو ایک آنکھ نظر آئی، جرنیل نے دروازے کو زور سے دھکیلا اور اندر چلا گیا وہ ایک آدمی تھا جس نے ایک کواڑ ذرا سا کھول کر باہر جھانکا تھا ۔ دروازہ فوراً بند ہوگیا اس آدمی نے اپنے جرنیل کو پہچان لیا اور پوچھا کہ لڑائی کی صورتحال کیا ہے؟
جرنیل نے صورتحال بتانے کی بجائے ہانپتے کانپتے لہجے میں کہا کہ اسے فوراً اپنے کپڑے دے دے۔ وہ آدمی جرنیل کے اس اندازے سے ہی سمجھ گیا ہوگا کہ لڑائی کی صورتحال کیا ہے صورت حال اچھی ہوتی تو یہ جرنیل اس طرح گھبراہٹ اور خوفزدگی کے حالت میں ایک عام گھر میں نہ جا گھستا پھر بھی وہ آدمی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
سنا نہیں تم نے!،،،،، جرنیل نے حکم اور رعب کے لہجے میں کہا ۔۔۔مجھے اپنے کپڑے اور چغہ دے دو مجھے پہچانتے نہیں تم؟ میں تمہارا جرنیل ہوں۔
پہچانتا ہوں۔۔۔ اس آدمی نے طنزیہ سے لہجے میں کہا۔۔۔ لیکن ایک غریب آدمی کے کپڑے پہن کر آپ کو کون پہچانے گا۔
وہ آخر جرنیل تھا اور شاہی خاندان کا فرد تھا اور جلدی میں بھی تھا اس لئے اس نے اس شخص کی طنزیہ کلامی کا جواب زبان سے دینے کی بجائے تلوار نکالی اور اپنا حکم دہرایا۔ کمرے سے ایک عورت نکل آئی شاید اس شخص کی بیوی تھی اسے کہنے لگی کہ یہ جو مانگتا ہے اسے فوراً دے دو۔
جرنیل نے اس شخص کے دیئے ہوئے کپڑے اپنے پہنے ہوئے لباس پر ہی چڑھالئے۔
ایک غریبانہ سا چغہ بھی پہنا جو اس کے کندھوں سے ٹخنوں تک لمبا تھا ۔ میلی اور خستہ حالت ایک چادر تھی جو اس نے اپنے سر پر لپیٹ لی اور کچھ لٹکا لی اب وہ جرنیل نہیں بلکہ ایک غریب آدمی تھا باہر نکلتے ہوئے وہ صحن سے گزرا تو ایک ٹیڑھی میڑھی لاٹھی سی پڑی نظر آئی اس نے لاٹھی اٹھا لی اور ذرا سا کبڑا ہو کر اور لاٹھی ٹیک کر چلنے لگا دروازے کے قریب پہنچ کر رکا اور مڑ کر دیکھا۔
اتنا مت ڈرو!،،،،، اس نے گھر کے اس آدمی اور اس کی بیوی سے کہا۔۔۔ دروازہ کھلا رہا تو بھی کوئی خطرہ نہیں مسلمان گھروں میں داخل نہیں ہوتے اور وہ لوٹ مار نہیں کرتے۔
تم جاؤ اس شخص نے کہا۔۔۔ اب ہم جانیں مسلمان جانیں۔ میں تمہاری جرنیلی سے نہیں تمہاری تلوار سے ڈر گیا تھا۔ اگر تمہیں ہماری بیٹیوں کا خیال نہیں تو اپنی ہی بیٹی کا خیال کیا ہوتا اور لڑتے ہوئے مر جاتے ۔۔۔۔جاؤ اب تمہیں کوئی نہیں پہچان سکے گا۔
اگر اسے بھاگنے کی جلدی نہ ہوتی تو وہ غریب سے ایک آدمی کی یہ گستاخی معاف نہ کرتا اور اس کا سر اس کے بدن سے جدا کر دیتا لیکن اس نے اس آدمی کو قہر اور غضب کی نگاہوں سے دیکھا اور باہر نکل گیا۔

رومی فوج کا یہ جرنیل لاٹھی ٹیکتا ذرا جھکا ہوا آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا شہر کی گلیوں میں اسے اپنی فوج کے سپاہی بھاگتے دوڑتے جان بچاتے نظر آ رہے تھے۔ مسلمان بھی ان کے قریب سے گزرے اور اس نے ان کی خون آلود تلواریں دیکھیں چار پانچ مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ گلی کا موڑ مڑ رہا تھا کہ گھروں سے بھاگنے والے آدمی اس سے ٹکرائے اور بھاگ گئے۔
اسے تین مسلمان نظر آئے جو بڑی ہی بلند آواز سے اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ لوگ گھروں کے اندر رہیں بھاگے نہیں کسی گھر میں کوئی لوٹ مار کے لیے داخل نہیں ہوگا۔ ایک مسلمان کہتا پھر رہا تھا کہ باہر نہ نکلنا بڑی زبردست لڑائی ہو رہی ہے گھوڑوں تلے آکر مارے جاؤ گے ۔پھر بھی شہریوں میں افراتفری بپا تھی اور کچھ لوگوں نے دروازہ اندر سے بند کر لیے تھے۔
جرنیل بہت جلدی میں تھا لیکن ڈر سے تیز نہیں چلتا تھا کہ پہچانا جائے گا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسے بوڑھا اور کمزور یا بیمار سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔ اس کا گھر شہر سے الگ تھلگ تھا ۔وہ گھر نہیں ایک محل تھا وہاں تک پہنچنے میں خاصا وقت گزر گیا۔ اسے یہ خطرہ نظر آ رہا تھا کہ اس کے گھر والے بروقت نکل نا گئے تو پکڑے جائیں گے۔ زیادہ خیال بیٹی کا تھا جو نوجوان اور غیرشادی شدہ تھی وہ بہت ہی زیادہ خوبصورت بھی تھی۔
وہ گھر کے قریب پہنچا تو اسے ایسے آثار نظر آنے لگے جیسے محل کے مکین بھاگ گئے ہوں۔ مسلمان گھوڑسوار محل کے احاطے میں داخل ہو رہے تھے کچھ محل کے اندر چلے گئے تھے وہ احاطے کے باہر والے گیٹ پر جا روکا اور اس محل کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا جس میں وہ شاہی خاندان کا جرنیل تھا لیکن اب اس محل کے درودیوار جیسے اس کے دشمن ہو گئے تھے۔
ایک مسلمان محل میں سے نکلا اور بلند آواز سے کہا کہ سب بھاگ گئے ہیں محل بالکل خالی ہے۔
جرنیل وہیں کھڑا رہا اسے یہ اطمینان ہو گیا کہ اس کے گھر کے تمام افراد نکل گئے ہیں۔
وہ وہیں کھڑا اپنے محل کو دیکھتا رہا تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ اس کے سینے پر کیسے سانپ اور کیسے کیسے زہریلے ناگ لَوٹے ہوں گے۔
وہ اس شہر کا حاکم اور جرنیل نہیں بلکہ بادشاہ تھا یہاں کے لوگوں کی قسمت اس اکیلے شخص کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کا روزی رساں بنا ہوا تھا۔
اس محل میں اس نے جو عیش و عشرت کی تھی وہ بھی اسے یاد آئی ہوگی۔
محل کے سامنے بڑا ہی خوب صورت باغ تھا اس باغ میں اور اس محل میں اس نے معصوم نوجوانیاں اور ان کی عصمتیں پامال کی تھی۔ آج اسے اپنی بیٹی کا غم کھا رہا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ یہاں سے نکل گئی تھی یا کسی فاتح کے ہاتھ چڑھ گئی ہے۔
سپہ سالار آرہے ہیں اسے اپنے پیچھے ایک آواز سنائی دی۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا لشکر مجاہدین کے فاتح سپہ سالار عمرو بن عاص آ رہے تھے۔ ان کے پیچھے چند ایک گھوڑسوار محافظ تھے اس رومی جرنیل نے ایک بار پھر محل کی طرف دیکھا یہاں تو اس کے محافظوں کا ایک دستہ چاک و چوبند اور ہر دم تیار موجود رہا کرتا تھا لیکن اب ان کا نام و نشان نہ تھا۔
اس نے وہاں سے کھسک جانے کی یا بھاگ نکلنے کی سوچ ہی نہیں عمروبن عاص اسکے قریب پہنچ چکے تھے ۔ جرنیل نے اپنا آپ چھپائے رکھنے کے لئے یوں کیا کہ عمرو بن عاص کا گھوڑا اس کے قریب آیا تو اس نے جھک کر اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا سپہ سالار اور ان کے محافظ ان کے قریب سے گزر گئے اور محل میں جا داخل ہوئے۔
یہاں کھڑے کیا سوچ رہے ہو ۔۔۔رومی جرنیل کے کانوں میں ہلکی سی آواز پڑی۔
اس نے چونک کر ادھر دیکھا ایک بوڑھی عورت اس کے پاس کھڑی تھی ۔ وہ اس بڑھیا کو نہیں جانتا تھا ۔اس کے کسی ملازم کی ماں تھی جس نے اسے غریبانہ بہروپ میں بھی پہچان لیا تھا۔ اس نے جرنیل کو بتایا کہ اس کے گھر کے تمام افراد اسی وقت نکل گئے تھے جس وقت انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ مسلمان کھلےدروازوں سے شہر میں داخل ہو رہے ہیں ۔ شہر کے دو دروازے خاص طور پر چھوٹے بنوائے گئے تھے اور یہ بہت ہی مضبوط تھے ان دونوں دروازوں کی چابیاں شاہی محافظ دستے کے کمانڈر کے پاس رہتی تھی ۔ یہ دروازے فوج کے اندر یا باہر آنے جانے کے لیے استعمال نہیں ہوتے تھے۔ یہ کبھی بھی نہیں کھولے تھے یہ دروازے شاہی خاندان کے لئے مخصوص تھے لیکن انہیں بند اور مقفل ہی رکھا جاتا تھا۔ ان کا استعمال یہی تھا جو اب کیا گیا یعنی یہ شاہی خاندان کے فرار کے لیے مخصوص تھا ۔
بڑھیا نے جرنیل کو بتایا کہ جب مسلمان شہر میں داخل ہو رہے تھے اس وقت ان دونوں میں سے ایک دروازہ کھولا گیا اور تمام افراد اس سے نکل گئے اس طرف کوئی لڑائی نہیں تھی۔
اور میری بیٹی؟
وہ بھی ساتھ ہی گئی ہے۔۔۔ بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔ آپ کی بیٹی کا منگیتر آگیا تھا وہی سب کو اپنے ساتھ لے گیا ہے آپ بھی چلے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پہچانے جائیں پھر مسلمان آپ کو گرفتار کرلیں گے۔
وہ اپنے ساتھ گھوڑوں پر کچھ سامان لے گئے ہیں؟
کچھ بھی نہیں ۔۔۔بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔ اتنی مہلت ہی نہیں تھی کہ قیمتی چیزیں اکٹھی کر سکتے۔
جرنیل نے اب جو محل کی طرف دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے ایک تیر اس کے دل میں اتر گیا ہو اسے معلوم تھا کہ اس محل میں زروجواہرات کا کتنا خزانہ موجود تھا۔
آپ بہت مغموم نظر آتے ہیں۔۔۔ بڑھیا نے کہا۔۔۔ آپ کی جان سلامت ہے خاندان کا ہر فرد زندہ نکل گیا ہے آپ بھی چلے جائیں اور تیار ہو کر واپس آئیں اس شہر پر حملہ کریں اور یہ شہر آپ کا ہی ہوگا۔
جرنیل کے ہونٹوں پر اداس سی مسکراہٹ آ گئی۔ اسے بڑھیا کی یہ بات اچھی لگی لیکن وہ جانتا تھا کہ مسلمانوں سے وہ شہر واپس لینا عموماً ممکن نہیں ہوتا جو وہ فتح کرلیتے ہیں،،،،،،، وہ وہاں سے ہٹا اور محل پر الوداعی نگاہ ڈالتا چلا گیا ۔اسے معلوم تھا کہ اس کا خاندان کہاں گیا ہے ۔ کم و بیش تیس میل دور ایک اور بڑا شہر تھا جس کا اس دور میں نام بلبیس ہوا کرتا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے خاندان کے افراد کس راستے سے گئے ہونگے ۔وہ اس چھوٹے سے دروازے سے نکلا جو شاہی خاندان کے فرار کے لیے مخصوص تھا اس طرف سے کوئی حملہ آور نہیں آ سکتا تھا کیونکہ دیوار کے ساتھ ہی پہاڑی کی ڈھلان تھی جس پر بڑا ہی تنگ راستہ تھا یہ راستہ اتنا ہی تھا کہ ایک آدمی یا ایک گھوڑا اس راستے سے چڑھ یا اتر سکتا تھا۔ اس طرف کوئی لڑائی نہیں تھی بالکل خاموشی تھی وہ نیچے چلا گیا زخمی وہ ہو کر گرنے والے رومی گھوڑ سواروں کے گھوڑے بھاگتے دوڑتے دور دور تک پھیل گئے تھے۔ جرنیل نے دیکھا کہ تین چار گھوڑے اس پہاڑی سے نیچے چلے گئے تھے جس پہاڑی پر فرما کا شہر آباد تھا ۔اس نے ایک گھوڑا پکڑا اس پر سوار ہوا اور ایڑ لگا دی۔
یہ تمام علاقہ سرسبز تھا اور جنگل کہیں کہیں گھنا بھی تھا اور چھوٹی بڑی پہاڑیاں بھی تھی وہاں جاکر انسان اور گھوڑے گم ہو جاتے تھے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

اس رومی جرنیل نے خاصی دور جا کر گھوڑا روکا اور جو غریبانہ کپڑے اس نے اپنے جنگی لباس پر پہنے تھے وہ اتار کر پھینک دئیے اور آگے کو چل پڑا ۔ اب اسے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ اگر علاقہ میدانی ہوتا تو وہ بہت دور نکل گیا ہوتا لیکن پہاڑی علاقے میں اسے دائیں بائیں بہت مڑنا پڑتا تھا اس لئے وقت زیادہ گزر رہا تھا اور فاصلہ کم نہ ہو رہا تھا اتنے میں سورج غروب ہو گیا۔
پیچھے فرما میں اس کے محل سے تمام مال غنیمت برآمد کرکے اکٹھا کر لیا گیا تھا وہ تو زر و جواہرات کا ایک خزانہ تھا دیگر ساز و سامان اور کپڑے وغیرہ بھی بیش قیمت تھے۔ مجاہدین نے بھاگ دوڑ کر شہریوں میں امن و امان قائم کر دیا بدوؤں پر خاص طور پر نظر رکھی گئی تھی کہ وہ کسی شہری کے گھر میں داخل نہ ہوں ،انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ کونسی اشیاء ہوتی ہے جیسے مال غنیمت میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ اشیاء کہاں کہاں ہوتی ہیں ۔
رومی جرنیل سورج غروب ہونے کے بعد بھی روکا نہیں اس نے گھوڑے کی رفتار خاصی تیز رکھی تھی اور اسے امید تھی کہ اپنے خاندان کو راستے میں ہی جا لے گا،،،،،، اور اس نے انہیں راستے میں ہی جا لیا۔ وہ جگہ بڑی خوبصورت اور خوش نما تھی جہاں اس کا خاندان کچھ دیر کے لئے رک گیا تھا۔ وہ سب لوگ گھوڑے پر گئے تھے وہ جگہ فرما سے دس گیارہ میل دور تھی۔ گھوڑوں کے ہنہنانے سے ان لوگوں کی نشاندہی ہوئی تھی۔ جرنیل اپنے خاندان سے جا ملا اور اس نے سب سے پہلے اپنی نوجوان بیٹی کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟
وہ اسے نظر نہیں آ رہی تھی۔
پاگل ہو گئی ہے۔۔۔ جرنیل کی بیوی نے کہا۔۔۔ پاگل پن میں کہیں غائب ہو گئی ہے۔
جرنیل تو پہلے سُن ہو کر رہ گیا ۔اور خاندان کے ہر فرد پر سناٹا طاری ہو گیا ۔
یک لخت جرنیل نے گرج کر کہا کہ اسے صحیح بات بتائی جائے پھر اس نے اپنی بیٹی کے منگیتر کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہے۔ جرنیل کی بڑھیا نے بتایا تھا کہ نوشی کا منگیتر آگیا تھا اور وہ سب کو ساتھ لے گیا ہے۔
نوشی کے متعلق یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ اپنے شاہی وقار کے متعلق بہت ہی جذباتی اور حساس تھی۔ جرنیل کی یہی ایک بیٹی جوان ہوئی تھی دو بیٹے اس سے ابھی چھوٹے تھے ۔ جرنیل نے اپنی اس بیٹی نوشی کو جنگی تربیت دینے کے لئے ایک استاد مقرر کر رکھا تھا جس نے اس لڑکی کو شہسوار بنا دیا تھا پھر اسے تیغ زنی، برچھی بازی، اور تیراندازی کی ایسی تربیت دی تھی کہ وہ تجربے کار فوجی کی طرح دشمن کے مقابلے میں اتر سکتی تھی۔ نوشی تھی تو نوجوان اور بڑی ہی خوبصورت لڑکی لیکن اس نے اپنے آپ میں مردانہ صفات پیدا کر لی تھی۔ اور اس کی فطرت جنگجو مردوں جیسی ہوگئی تھی۔ اپنے آپ سے اکثر کہا کرتی تھی کہ وہ اپنی زندگی میں ملک شام کو رومی سلطنت میں شامل کر لی گئی۔
اس کا جو استاد تھا اس نے نوشی کے دل میں مسلمانوں کے خلاف ایسی نفرت بھر دی تھی کہ وہ مسلمانوں کا نام سنتے ہی اس نفرت کا اظہار کرنے لگتی تھی۔ اس کے اس جرنیل باپ کے دوغلے پن کا یہ حال تھا کہ ایک طرف تو مسلمانوں کے اخلاق کی تعریف کیا کرتا تھا لیکن اپنی اولاد کے دلوں میں مسلمانوں کا تاثر کچھ ایسا پیدا کردیا تھا جیسے اس سے زیادہ کوئی اور حقیر اور قابل نفرت قوم ہو ہی نہیں سکتی۔ مسلمانوں نے رومیوں سے شام چھین کر انھیں مصر کی طرف بھاگا دیا تو نوشی کی جزباتی حالت ایسی ہو گئی جیسے وہ ہر اس مسلمان کو قتل کر دے گی جو اس کے سامنے آئے گا اب مسلمانوں نے اسے پورے خاندان سمیت فرما سے بھی بھاگ جانے پر مجبور کردیا اور وہ اپنا محل اور زر جواہرات کا انبار وہیں چھوڑ کر بھاگ نکلی۔
جرنیل کو بتایا گیا کہ فرما سے نکلتے ہی نوشی بگڑ گئی تھی کہتی تھی کہ یہ تھوڑے سے مسلمان کبھی فرما فتح نہیں کر سکتے تھے یہ کامیابی انھیں صرف اس لیے حاصل ہوئی ہے کہ بدو ان کے ساتھ مل گئے تھے۔ یہ بات اسے فرما پر حملے سے پہلے ہی معلوم ہو گئی تھی۔ لیکن اس نے اس طرف دھیان نہیں دیا تھا اب اس کے منگیتر نے بتایا کہ بدوّ مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوتے تو ان مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ واپس نہ جا سکتا تھا۔
نوشی کی ماں نے جرنیل کو جو بات سنائی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ محل کا ایک ادھیڑ عمر ملازم مصری بدو تھا اور عیسائی تھا۔
نوشی کو یہ بدوّ اتنا اچھا لگتا تھا کہ اسے اس نے اپنا خاص معتمد ملازم بنا لیا تھا ،اس بدوّ ملازم کا ایک جوان بیٹا بدوؤں کے لشکر میں چلا گیا تھا جو مسلمانوں سے جا ملا تھا۔ اس بیٹے نے اپنے باپ کو تفصیل سے بتایا تھا کہ بدوّ کس طرح مسلمانوں کے پاس گئے تھے اس نے بتایا تھا کہ آسمان سے فرشتے اترے تھے اور انہوں نے خدا کا پیغام دیا تھا۔
بیٹے کا تو یہ حال کے وہ مسلمانوں سے جا ملا لیکن باپ کٹر عیسائی تھا اور مسلمانوں کا ویسا ہی دشمن جیسی نوشی تھی۔
یہ ایک ہم خیالی بھی تھی جس کی وجہ سے یہ ملازم نوشی کو اچھا لگتا تھا۔
اب مسلمانوں نے فرما بھی فتح کرلیا تو اس ملازم نے نوشی کو بتایا کہ بدوّ اپنی قوم اور مذہب سے غداری نہ کرتے تو مسلمان اتنا مضبوط قلعہ بند شہر کبھی فتح نہ کرسکتے۔ نوشی تو جل اٹھی اور اس ملازم نے جلتی پر تیل چھڑکا۔
یہ خاندان جب فرما سے نکلا تو نوشی نے اس بدوّ ملازم سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے اس ملازم کو بھی نوشی سے کچھ ایسا پیار ہوگیا تھا کہ وہ ساتھ چل پڑا اور اب نوشی کے ساتھ وہ بھی لاپتہ ہو گیا تھا۔
رومی جرنیل نے جب اپنی بیوی کی زبانی یہ بات سنی تو اس نے فوراً کہا کہ یہ بدوّ بھی غداری کر گیا ہے، جرنیل کا مطلب یہ تھا کہ وہ نوشی کو ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا ہے اور مسلمانوں کے پاس جاکر لڑکی سالار کے حوالے کردے گا اور اس کے عوض مال غنیمت وصول کر لے گا۔
جرنیل کا یہ شک محذ ایک وہم تھا اصل بات جو بعد میں معلوم ہوئی وہ یوں تھی کہ لڑکی نے فرما سے نکلتے ہی کہنا شروع کردیا تھا کہ وہ ان بدوؤں کے ہاں جائے گی جو ابھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں ملے اور ان کے سرداروں سے کہے گی کہ وہ کسی طرح غدار بدوؤں کو واپس لائیں، یہ مہم کوئی آسان مہم نہیں تھیں نوشی شاید اپنے آپ کو شاہی خاندان کی لڑکی اور بدوؤں کو اپنی رعایا سمجھ کر حکم چلانا چاہتی تھی، لیکن بعد میں یہ راز کھلا کہ اس بدوّ ملازم نے اس سے کہا تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ ایک ایسے بدوّ کے پاس لے جائے گا جس کے ہاتھ میں غیبی طاقت ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے ،وہ شخص کوئی جادو چلانے کا علم رکھتا تھا اور لوگ اس سے غیب کا اور آنے والے وقت کا حال پوچھنے جاتے تھے اور وہ پراسرار بیماریوں کا علاج بھی کرتا تھا۔
بدوّ ملازم نے نوشی کو یقین دلایا تھا کہ یہ شخص جسے سب جادوگر کہتے ہیں اگر حکم دے دے یا بدوؤں کو ڈرا دے تو کوئی اور بدوّ مسلمانوں کے لشکر میں شامل نہیں ہوگا اور جو شامل ہو چکے ہیں وہ واپس آ جائیں گے۔
نوشی کی ماں نے جرنیل کو بتایا کہ نوشی کی جزباتی حالت بہت ہی بری ہو گئی تھی اور وہ فرما سے کچھ دور آ کر گھوڑا روک لیتی اور کہتی کی وہ جا رہی ہے اسے زبردستی آگے لے جاتے تھے وہ علاقہ ایسا تھا کہ چٹانوں اور ٹیکریوں کی وجہ سے ہر چند قدم بعد دائیں یا بائیں مڑنا پڑتا تھا اور جگہ اتنی تنگ تھی کہ گھوڑے ایک دوسرے کے پیچھے قطار کی صورت میں ہی چلائے جا سکتے تھے نوشی کی کوشش یہ تھی کہ وہ سب سے آخر میں رہے۔
خاصی دور آ کر ایسی جگہ آگئی کہ پیچھے والے کو اپنے آگے جانے والے گھوڑے کی بھی خبر نہیں رہتی تھی یہ قافلہ اصل راستے سے ہٹ کر دشوار گزار راستے سے جا رہا تھا تاکہ مسلمان تعاقب میں آئیں تو انھیں کچھ نہ ملے۔
ایک جگہ ذرا کشادہ آئی تو دیکھا نوشی اس قافلے کے ساتھ نہیں تھی اور بدوّ ملازم بھی نہیں تھا۔
نوشی کے منگیتر نے کہا کہ وہ اس کے پیچھے جا رہا ہے اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا انتظار نہ کیا جائے ، سب چلتے چلیں کیونکہ ہوسکتا ہے نوشی اسے نہ ملے، اور وہ اسے ڈھونڈ کر ساتھ لے ہی آئے گا ۔ اس طرح جرنیل کا خاندان بلبیس کی طرف بڑھتا گیا اور منگیتر نوشی کے پیچھے چلا گیا۔
جرنیل غصے سے اٹھ کھڑا ہوا کہنے لگا کے وہ بھی اس کے پیچھے جاتا ہے لیکن بیوی نے اسے پکڑ کر بٹھا لیا اور کہا کہ اتنا وقت گزر چکا ہے اب اس کے پیچھے جانا محض حماقت ہے۔
مجھے اس کے پیچھے نہیں جانا چاہیے ۔۔۔جرنیل نے کہا۔۔۔ مجھے فوراً بلبیس پہنچنا ہے ورنہ وہاں فوج میں یہ مشہور ہو جائے گا کہ میں شکست کھا کر کہیں اور فرار ہو گیا ہوں۔ اپنی بیٹی کے متعلق یہ پریشانی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ چڑھ جائے گی اور کوئی عربی بدوّ اسے اپنی بیوی یا داشتہ بنالے گا ۔ یہ ڈر بھی ہے کہ یہ مصری بدوّ ہی لڑکی کو اپنے قبضے میں رکھ لے گا۔
میں غلط نہیں کہہ رہی۔۔۔ جرنیل کی بیوی نے کہا۔۔۔ لڑکی پاگل ہو چکی ہے ۔ وہ آ بھی گئی تو اسکا دماغ ٹھکانے نہیں آئے گا۔ میں اسے بتاتی رہتی تھی کہ عقل پر جذبات کو غالب کرنے والے تباہی کی طرف ہی جایا کرتے ہیں، لیکن میں نے دیکھا کہ لڑکی جذبات کے رنگ میں سوچتی تھی اور عقل استعمال نہیں کرتی تھی، ہم نے بھی کبھی خیال نہ کیا کہ اس کا یہ ملازم بھی اور استاد بھی اسے بڑی گھٹیا اور جذباتی کہانیاں سناتے رہتے تھے، اور ہم یہ سمجھتے رہے کہ لڑکی میں قومی وقار اور جنگی جذبہ ہے جو سلطنت روم کو مضبوط بنائے گا۔

بدوّ ملازم دیانتدار تھا یا بددیانت یہ ایک الگ بات ہے اسے یہ معلوم تھا کہ بدؤوں کا علاقہ کونسا ہے جس کے پاس وہ نوشی کو لے جارہا ہے ۔ وہ کہاں رہتا ہے۔ یہ بدوّ نہایت اچھا رہنما تھا کیونکہ وہ خود بدوّ تھا اور اپنے علاقے سے پوری طرح واقف تھا۔
بدوؤں کا علاقہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا ایک تو وہ علاقہ تھا جہاں کے بدو مسلمانوں کے ساتھ جاملے تھے۔ اور ایک علاقہ فرما سے ذرا آگے اور الگ ہٹ کر تھا جو زیادہ سرسبز اور شاداب تھا یہاں بھی بد دور رہتے تھے۔
اس سرسبز و شاداب علاقے کے بدوّ صحرائی بدوؤں سے یعنی ان بدوؤں سے جو مسلمانوں کے پاس چلے گئے تھے کچھ مختلف تھے۔ تھے تو یہ بھی توہم پرست لیکن ان کے عقائد دوسروں سے مختلف تھے یہ بھی عیسائی تھے۔ لیکن انھیں ایک اور ہی فرقے کے عیسائی کہا جاسکتا ہے۔
اصل خطرے والی بات یہ تھی کہ بدوّ ملازم کوئی دانشمند اور دوراندیش آدمی نہیں تھا وہ نوشی کی وفاداری کی وجہ سے اس کا ساتھ دے رہا تھا ۔اسے مسلمانوں کے خلاف کہانیاں سنا سکتا تھا لیکن کوئی دانشمندانہ مشورہ دینے کے قابل نہیں تھا۔ نوشی پر تو جذبات ہی غالب تھے ۔اور وہ اگر پوری طرح پاگل نہیں ہو گئی تھی تو نیم پاگل ضرور ہو گئی تھی ۔عمر بھی تو جوانی کی تھی جب جذبات ہی ذہن پر غالب آتے ہیں۔
سورج اوپر آگیا تو نوشی اپنے ملازم کی رہنمائی میں بدوؤں کے علاقے میں داخل ہو گئی۔
انہیں اپنے پیچھے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی دونوں نے پیچھے دیکھا ایک گھوڑسوار ان کی طرف گھوڑا دوڑاتا آ رہا تھا۔ وہاں جنگل تو گھنا تھا لیکن کوئی ایسی ٹیکریاں، چٹان، یا کوئی اوٹ نہیں تھی کہ وہ چھپ جاتے اس سوار نے انہیں دیکھ بھی لیا تھا اس لئے وہ چلتے گئے اور نوشی نے ملازم سے کہا کہ یہ جو کوئی بھی ہے اسے نہیں بتانا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور اگر خطرہ ہوا تو اس سوار کو دونوں مل کر قتل کردیں گے ان دونوں کے پاس تلواریں بھی تھی اور خنجر بھی۔
گھوڑ سوار قریب آ گیا نوشی کو اس کی پکار سنائی دی۔
نوشی!،،،، گھوڑ سوار نے پکارا۔۔۔ رک جاؤ میں تمہارے پیچھے آیا ہوں۔
نوشی نے گھوڑا روک لیا اور پیچھے دیکھا اس کا منگیتر آ رہا تھا۔
کہاں جا رہی ہو نوشی؟،،،، منگیتر نے پوچھا۔
ہرقل کی غیرت کو جگانے کے لئے۔۔۔ نوشی نے جواب دیا ۔۔۔اگر اسکی غیرت نہ جاگی تو روم کے وقار کو ہمیشہ کے لئے دفن کر آؤں گی۔
منگیتر جس کے نام کا کچھ علم نہیں ۔نوشی کی اتنی سی بات سے سمجھ گیا کہ یہ لڑکی دماغی طور پر ٹھیک نہیں رہی اس نے اپنا گھوڑا نوشی کے گھوڑے کے آگے کر کے اس گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور بولا کے میرے ساتھ واپس چلو۔
میرے راستے کی رکاوٹ نہ بنو۔۔۔ نوشی نے تلوار نکال کر کہا۔۔۔ میں تم سے بھی توقع رکھتی ہوں کہ میرا ساتھ دو گے، ساتھ کے بجائے تم رکاوٹ بن رہے ہو میں تمہیں مسلمانوں سے بدتر دشمن سمجھو گی،،،،، میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔
میں تمہیں اپنی محبت کا واسطہ دیتا ہوں۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ تم پر زبردستی نہیں کروں گا میں بھی رومی ہوں مر نہیں گیا،،،،،،
میرے دل میں تمہارے سوا اور کوئی نہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ لیکن میں اس دل سے سلطنت روم کی محبت نہیں نکال سکتی میری پہلی محبت روم ہے اس کے بعد تم ہو ،اگر تم میرا ساتھ دیتے ہو تو میرے ساتھ آؤ اگر نہیں تو تم میرے ہاتھ سے مارے جاؤ گے۔
مجھے آخر مرنا ہی ہے۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ لیکن میں روم کی ان پر کسی مسلمان کے ہاتھوں مرنا زیادہ پسند کروں گا ۔میں جانتا ہوں تم بدوؤں کے سردار سے ملنے جا رہی ہو۔ لیکن یہ کام ایک عورت کا نہیں یہ جرنیلوں کی سطح کا معاملہ ہے یہ بدوّ تمہیں کمسن لڑکی سمجھ کر ٹال دیں گے۔
کون سے مردوں کی بات کر رہے ہو۔۔۔ روشی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔ ہرقل کی، مقوقس کی، اس اطربون کی جو اپنے آپ کو دنیا کا سب سے زیادہ بہادر اور دانشمند جرنیل سمجھتا ہے ۔کہاں ہیں وہ سب ۔ سب اپنی اپنی جگہوں پر آرام سے بیٹھے عیش و عشرت میں پڑے ہیں اور میرے باپ کو آگے کر رکھا ہے۔ میرے باپ نے مقوقس اور اطربون کو اطلاع بھیج دی تھی کہ تین چار ہزار بدوّ مسلمانوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور یہ بدوّ دیہات میں جاکر اناج اکٹھا کرکے مسلمانوں کو دے رہے ہیں ۔لیکن کسی نے نہ سوچا کہ اسکا کوئی تدارک کیا جائے اب یہ کام میں کروں گی۔
سلطنت روم فرما پر ختم نہیں ہو جاتی نوشی! ۔۔۔۔منگیتر نے کہا۔۔۔ یہ آخری قلعہ ہے جو مسلمانوں نے فتح کر لیا ہے اس سے آگے ان کے لئے موت کے سوا کچھ بھی نہیں ہمارے جاسوس انہیں بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو کوئی کمک نہیں مل رہی فرما میں ان کا جانی نقصان اچھا خاصا ہوا ہے اور بدوّ زیادہ مارے گئے ہیں۔ ان کی طاقت کم ہوتی جا رہی ہے ان کی کمک کے لیے راستہ اور لمبا ہو گیا ہے ۔ہم نے انتظام کرلیا ہے کہ ان کی کماک کو اسی راستے میں ہی روک کر ختم نہ کیا جاسکا تو اسے اتنا کمزور ضرور کردیں گے کہ بیکار ہوکر رہ جائے گی۔
تم اگر جرنیل ہوتے تو شاید میں تمہاری یہ بات مان لیتی۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ تم چھوٹے سے عہدے دار ہو سنی سنائی باتیں کرتے ہو لیکن بالائی سطح پر مجھے کوئی ایسی سرگرمی نظر نہیں آرہی میں ان مصری بدوؤں کو مسلمانوں سے الگ کرنا چاہتی ہوں۔ نہ ہوئے تو ابھی ہزاروں بدوّ موجود ہیں جو نہ ہمارے ساتھ ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے ساتھ، میں انہیں اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہوں ان کی ایک الگ فوج تیار کروں گی اور پھر میں مسلمانوں کا راستہ روکو گی، یہ میرا عزم ہے اور اس پر میں تمہاری محبت کو بڑی آسانی سے قربان کر سکتی ہوں۔
اس دور کی تاریخ کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس رومی لڑکی کا یہ عزم عجیب نہیں لگتا اس دور میں کئی ایسے جنگی واقعات ملتے ہیں جن میں فوج کی قیادت کسی عورت نے کی، اور بڑے بڑے لشکروں کے منہ موڑ دیئے تھے۔ رومیوں میں فوجی جذبہ موجود تھا اور وہ بلاشک و شبہ جنگجو بھی تھے ان میں سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ ان کی قیادت پر شہنشاہیت غالب تھی۔ جس نے اپنی فوج کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ وہ بادشاہ اور جرنیلوں کی غلام ہیں یا یہ کہ تنخواہ دار ملازم ہیں۔ اس فوج میں جہاد نام کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا تھا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ یہ فوج لڑتی ہیں نہیں تھی۔ رومی تو فطرتاً اور جنگجو تھے اور ان کے پیچھے شجاعت اور جنگجو ہی کی بڑی لمبی تاریخ تھی۔
یہاں بات عورت کی ہورہی ہے عورت نے متعدد جنگوں کی قیادت کی ہے اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
یہ دیکھتے ہوئے نوشی کی بات عجیب نہیں لگتی لیکن اس میں کمزوری یہ تھی کہ یہ نوجوانی کی عمر میں تھی اور اس کی سوچوں پر جذباتیت غالب تھی۔ دوسری کمزوری یہ کہ وہ غیر معمولی طور پر خوبصورت اور بڑی ہی دلکش لڑکی تھی ۔اور بدوؤں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ اس کے جذبے سے متاثر ہونگے یا اس کے حسن سے،،،،، حسن سے متاثر ہونے میں بہت بڑا خطرہ چھپا ہوا تھا۔

منگیتر نے دیکھ لیا کہ نوشی کو زبردستی پیچھے نہیں لے جایا جاسکتا اور وہ کوئی استدلال قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہی۔ منگیتر اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا وہ اپنے آپ کو آمادہ کر ہی نہیں سکتا تھا کہ اتنی حسین اور نوجوان لڑکی کو بدوؤں کے پاس جانے دے اس نے اس ادھیڑ عمر بدوّ ملازم سے پوچھا کہ وہ اسے کہاں لے جا رہا ہے؟،،،، جو ملازم نوشی کے ساتھ جا رہا تھا۔
مجھ پر کوئی الزام نہیں آنا چاہیے۔۔۔ ملازم نے ڈرے سہمے ہوئے غلامانہ لہجے میں کہا۔۔۔ شہزادی کے ساتھ آپ نے خود بات کر کے دیکھ لیا ہے۔ انہوں نے آپ کی بات ماننے کی بجائے تلوار نکال لی ہے خود ہی سوچیں کہ میں ان کے ساتھ آنے سے کس طرح انکار کرسکتا تھا۔
منگیتر نے ملازم کو ڈانٹ کر کہا کہ وہ اس کے سوال کا جواب دے کہ وہ نوشی کو کہاں لے جا رہا ہے؟
ہامون کے پاس ۔۔۔ملازم نے جواب دیا۔
کون ہے ہامون؟،،،، منگیتر نے پوچھا۔
اسے سب جادوگر کہتے ہیں۔۔۔ ملازم بدوّ نے جواب دیا ۔۔۔وہ جادوگر ہے یا نہیں میں یہ جانتا ہو کہ اس کے پاس غیب کا کوئی علم ہے جس سے وہ ہر اس سوال کا جواب دے دیتاہے جس کا جواب کہیں سے بھی نہیں مل سکتا۔ خواہ یہ سوال آنے والے وقت کے متعلق ہی ہو اس کی اس غیبی طاقت کی وجہ سے تمام بدوّ اس کی ہر بات مانتے ہیں ۔ ہمارے صرف مذہبی پیشوا ہیں جو ہامون کو اچھا نہیں سمجھتے۔ کچھ سردار ایسے ہیں جو ہامون کی بات مانتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو مذہبی پیشواؤں کا ساتھ دیتے ہیں۔ میں انہیں ہامون کے پاس لے جا رہا ہوں یہ اچھا ہے کہ آپ بھی آ گئے ہیں آپ ساتھ چلیں اور خود ہامون کے ساتھ بات کریں۔
ہامون کیا کرے گا ؟،،،منگیتر نے پوچھا۔
میں یہ بات شہزادی کو پہلے ہی بتا چکا ہوں۔۔۔ ملازم نے جواب دیا ۔۔۔سب سے پہلے تو وہ دیکھے گا کہ شہزادی کا مطلب پورا ہو سکتا ہے یا نہیں اگر یہ بات بننے والی نہ ہوئی تو وہ صاف بتا دے گا کہ شہزادی یہیں سے واپس چلی جائے۔
مجھے امید ہے وہ بات بنا دے گا۔۔۔ نوشی نے کہا ۔۔۔اور اگر اس کے پاس واقعی جادو ہے تو وہ میرا مطلب پورا کر دے گا۔
منگیتر نے اس ادھیڑ عمر بدوّ ملازم سے کچھ اور سوال و جواب کئے تو اسے ملازم کی باتیں کچھ کچّی کچّی سی لگی اور محسوس کیا کہ یہ شخص توہم پرست ہے، اور نوشی کو اس جادو گر کے پاس نہیں جانا چاہیے، ہو سکتا ہے وہ کوئ شعبدہ باز ہو بدوؤں میں کچھ ایسے آدمی موجود تھے جو دراصل شعبدہ باز تھے اور لوگ انہیں خدا کے ایلچی سمجھتے تھے ۔
منگیتر نے نوشی کو ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنے قومی جذبے کو یوں رسوا نہ کرے اور واپس چلی جائے نوشی اس کے ہاتھ آ ہی نہیں رہی تھی۔
منگیتر نے ایک بار پھر نوشی کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور اسے پیچھے کو موڑنے لگا۔ نوشی گھوڑے سے کود گئی اور تلوار لہرا کر منگیتر کو للکارا کے وہ گھوڑے سے اتر آئے۔
منگیتر گھوڑے سے تو اتر آیا لیکن تلوار نہ نکالی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ تلوار نکال کر نوشی کے مقابلے میں آ جاتا وہ نوشی کے قریب گیا تو نوشی نے تلوار دائیں بائیں ھوا میں بڑی زور سے مار کر اس کی نوک منگیتر کے سینے پر رکھ دی۔
تلوار نکالو۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ مجھ سے دور رہو۔
یہ تلوار میرے سینے میں اتار دو۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ پھر جہاں جی چاہے چلی جانا جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔
بدوّ ملازم ان کے درمیان آگیا۔ نوشی اسے ڈانٹنے اور دھمکانے لگی کہ وہ درمیان سے ہٹ جائے لیکن وہ ہٹ نہیں رہا تھا وہ دیکھ رہا تھا کہ نوشی پر ایسی کیفیت طاری ہے کہ اپنے منگیتر کے سینے میں تلوار اتار ہی دے گی ۔نوشی منگیتر کو مقابلے کے لیے للکار رہی تھی لیکن منگیتر تلوار نیام سے نکال ہی نہیں رہا تھا۔ ملازم نے ایک طرف ہو کر نوشی کی تلوار والے ہاتھ کی کلائی پکڑ لی وہ کلائی چھوڑ آنے لگی تو منگیتر کو اس پر قابو پانے کا موقع مل گیا اس نے پیچھے ہوکر نوشی کی کمر میں بازو ڈالے اور اسے جکڑ لیا نوشی آزاد ہونے کو تڑپنے لگی۔
چھوڑ دو اسے۔۔۔ ایک آواز گرجی۔
تینوں بے حس و حرکت ہو گئے اور جہاں تھے وہیں رہے پھر آہستہ آہستہ سیدھے ہوکر اس طرف دیکھنے لگے جدھر سے آواز آئی تھی۔

وہ ایک گھوڑ سوار تھا کالی داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی عمر میں تیس سال کے لگ بھگ اور وہ تنومند دراز قد آدمی تھا۔ اس کا لباس ایسا تھا جیسا بدوؤں کے سردار اور سرکردہ افراد پہنا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ دیکھنے والے پر اثر انداز ہوتے تھے۔
اس کی شخصیت نوشی اور اس کے منگیتر پر کچھ ایسی اثر انداز ہوئی کے نوشی نے تلوار نیچے کر لی اور اسے کچھ حیرت سے دیکھنے لگی ۔اس کے منگیتر پر بھی ایسا ہی اثر ہوا تھا وہ بھی چپ چاپ اس شخص کو دیکھنے لگا۔ صاف پتا چلتا تھا کہ ان دونوں پر اس شخص کا رعب طاری ہو گیا ہے۔ بدوّ بیچارا تو تھا ہی ملازم اس لئے وہ الگ ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
گھوڑ سوار ان کے قریب آیا اور ان کے اردگرد خاموشی سے گھوما اور انہیں دیکھتا رہا آخر اس نے گھوڑا روکا اور نوشی سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟
نوشی جیسے اچانک بیدار ہو گئی ہو اس نے فخریہ لہجے میں اسے بتایا کہ وہ ایک جرنیل کی بیٹی ہے اور اس کا تعلق ہرقل کے شاہی خاندان سے ہے.
یہ میرا منگیتر ہے ۔۔۔نوشی نے جواب دیا ۔۔۔یہ فوج میں عہدیدار ہے اور یہ ہمارا ملازم ہے۔
مجھے تمہارے معاملات میں دخل دینے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ اس شخص نے گھوڑا روک کر کہا۔۔۔۔ لیکن میں نے کچھ اور دیکھا تھا میں اس لئے دخل دے رہا ہوں کے تم لوگ میرے علاقے میں ہو اور میرا فرض ہے کہ جو کوئی مصیبت میں ہو اس کی مدد کروں،،،،، اے لڑکی!،،،،،،،، تم شاہی خاندان کی لڑکی ہو یا کسی غریب آدمی کی بیٹی مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تم پر یہ دونوں زبردستی کر رہے تھے کیا تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے؟
ہوسکتا ہے تم میری کچھ مدد کرسکوں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔۔ یہ دونوں مجھ پر ویسی زبردستی نہیں کر رہے تھے جو تم سمجھ رہے ہو یہ مجھے واپس اپنے ماں باپ کے پاس لے جانا چاہتے ہیں یہ میرے دشمن نہیں۔
پہلے میری بات کا جواب دو نوشی کے منگیتر نے اس آدمی سے پوچھا تم کون ہو؟،،،،،، میں تمہیں اس قابل سمجھتا ہوں کہ تمہاری عزت کروں میں تمہارے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں کہ تم اس لڑکی کی مدد کے لیے رک گئے ہو۔
کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم بیٹھ کر اور آرام سے بات کریں۔۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔۔ یہ تینوں اور وہ آدمی اپنے گھوڑے کھلے چھوڑ کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔
میرا نام سیلی نوش ہے۔۔۔ اس اجنبی نے کہا۔۔۔ میں اصل مصری بدوّ ہوں۔ اور عیسائیت میرا مذہب ہے۔ میں اپنے قبیلے کا سردار تو نہیں ہوں لیکن تمام قبیلوں کے سردار میری عزت اس طرح کرتے ہیں جیسے میں سب کا سردار ہوں۔
تم کس کے وفادار ہو۔۔۔ نوشی نے پوچھا ۔۔۔اپنے بدوؤں کے ،یا شاہ روم کے۔
شاہ روم کو میں اپنا بادشاہ سمجھتا ہوں۔۔۔ سیلی نوش نے جواب دیا ۔۔۔یہ نہ سمجھنا کہ تم نے کہا ہے کہ تم شاہی خاندان کی لڑکی ہو تو میں نے تمہارے ڈر سے اپنی وفاداری بتائی ہے میں شاہ روم ہرقل کا وفادار ہو اور اس کی عیسائیت کو مانتا ہوں۔
میں نہیں مانتی۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔ تم شاہ روم کے وفادار ہوتے تو تمہارے قبیلے کے تمام جوان آدمی شاہ روم کی فوج میں ہوتے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں نے عریش کے بعد فرما پر بھی قبضہ کر لیا ہے؟،،، میں تمہیں یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ فرما کی فوج کی کمان میرے باپ کے ہاتھ میں تھی یہ بھی سن لو کہ میں اپنے باپ اور اپنے اس منگیتر کو بزدل اور بھگوڑا سمجھتی ہوں۔
میں نے اپنی وفاداری کی بات کی ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ بدوؤں کے قبائل کی اپنی اپنی سوچ ہے بہت عرصہ پہلے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ فوج میں شامل ہو جائیں لیکن بدؤوں نے انکار کردیا وہ آزاد لوگ ہیں کسی کا حکم نہیں مانتے انہیں تم اپنے راستے پر چلانا چا ہو گی تو اس طریقے سے بات کروں گی جو ان کے دلوں کو اچھی لگے گی، اگر انہیں اپنی رعایا سمجھ کر مویشیوں کی طرح ہانکنا چاہو گی تو وہ تمہارے پیچھے نہیں چلیں گے۔
کیا تمہیں معلوم ہے نوشی نے پوچھا کہ ساڑھے تین چار ہزار بدوّ مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو گئے ہیں,,,,,,
مجھے معلوم ہے سیلی نوش نے نوشی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔ کوئی ایسا آدمی بات کرو جو مسلمانوں کی طرح بات کرنا جانتے ہوں اور ان کا رویہ مسلمانوں جیسا ہو,,,,,,,, پہلے یہ بتاؤ تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟ اور یہ بتاؤ کہ تمہارا یہ منگیتر بات کیوں نہیں کرتا؟
یہ بھی بات کرے گا۔۔۔ نوشی نے اپنے منگیتر کے متعلق کہا ۔۔۔پہلے مجھ سے سن لو کے میں کیا چاہتی ہوں,,,,,,,, میں بدوؤں کی ایک فوج بنانا چاہتی ہوں میرا یہ ملازم مجھے اپنے ساتھ لایا ہے یہ انہیں بدوؤں کے ایک قبیلے کا فرد ہے ۔ یہ مجھے ایک جادوگر ہامون کے پاس لے جارہا ہے اور کہتا ہے کہ بدوّ اسے مانتے ہیں ۔کیا اس مسئلے میں میری کچھ مدد کر سکتے ہو؟
میں ہامون کو جانتا ہوں ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ کہو گی تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا میں اس لئے تمہارے ساتھ چلوں گا کہ میری وفاداری رومیوں سے ہے۔
نوشی ن نے سیلی نوش کے ساتھ وہ ساری باتیں کی جو وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ اور پھر منگیتر کے ساتھ اور بدو ملازم کے ساتھ بھی کر چکی تھی۔ اس نے بتایا کہ
وہ کس طرح اس ملازم کو ساتھ لے کر اپنے خاندان سے نظر بچا کر الگ ہوئی اور چھپتی چھپاتی اس طرف آ گئی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ منگیتر کس طرح اس کے پیچھے آیا اور یہاں آکر اسے آن لیا۔
یہ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ یہ بیچارہ تو میرا ملازم ہے اس لئے میرا ساتھ دے رہا ہے لیکن منگیتر مجھے واپس لے جانے آیا تھا میں سلطنت روم کی ان پر اپنی محبت ہی نہیں اپنی جان بھی قربان کردوں گی۔ تم سوچو ملک شام ہم سے چھن گیا ہے اور مسلمان مصر کا دوسرا بڑا شہر بھی ہم سے لے چکے ہیں۔ ہم جب تک قومی جذبے کی شدت سے پاگل نہیں ہو جائیں گے ان مسلمانوں کو جو دراصل عرب کے بدو ہیں پیچھے نہیں دھکیل سکیں گے ان سے ہمیں ملک شام بھی لینا ہے۔
آفرین!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔۔ تمہارے اس جذبے کی قدر صرف میں کرسکتا ہوں مجھے امید ہے کہ بددوؤں کی ایک فوج تیار ہوجائے گی لیکن پہلے ہامون کے ساتھ بات کرنی ہو گی۔
میں پہلے زبردستی والی بات صاف کر دو۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میرے قومی جذبے کی شدت کا یہ عالم ہے کہ میں نے تلوار نکالی تھی اور تم نہ آجاتے تو میں منگیتر کو قتل کر دیتی یا اس کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ان دونوں نے مجھ سے تلوار چھیننے کے لئے مجھے جکڑ لیا تھا اور تم آگئے۔
دیکھ شہزادی!،،،،،، سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ان کا تم پر یہ جبر غلط نہیں تھا جس کام کےلیئے تم آۓ ہو یہ تم جیسی ایک لڑکی کے بس کی بات نہیں تمہاری عمر اور تمہارا حسن ایسا ہے کہ ہمارے کسی مذہبی پیشوا کی نیت بھی خراب ہوسکتی ہے قبیلوں کے سردار آسمان سے اترے ہوئے فرشتے نہیں,,,,,,,, اب تمہارا منگیتر بھی آگیا ہے اور میں بھی آگیا ہوں میں جا تو کہیں اور رہا تھا لیکن مجھ میں بھی وہ جذبہ ہے جو تمہیں پاگل کیے ہوئے ہے میں تمہارا ساتھ دوں گا۔
کام دو ہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ ایک یہ کہ ان بدوؤں کو رومی فوج میں لانا ہے۔ اور دوسرا کام یہ کہ جو بدو مسلمانوں کے پاس چلے گئے ہیں انہیں مسلمانوں کے خلاف بدظن کرکے واپس لانا ہے۔
یہ دوسرا کام آسان نہیں سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اس کے لیے ہمیں اپنے کچھ آدمی وہاں بھیجنے پڑے گے جو یہ ظاہر کرینگے کہ وہ مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں۔ اور وہ مسلمانوں کے کردار سے بہت ہی متاثر ہیں پھر یہ آدمی درپردہ ایسے حالات پیدا کرلیں گے جو بدوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کریں گے۔
اس کے بعد سیلی نوش نے ایسی دانشمندانہ باتیں کی کہ نوشی اور اس کا منگیتر اس سے پوری طرح متاثر ہوگئے اور منگیتر نے نوشی کو واپس لے جانے کا ارادہ ترک کردیا اور سیلی نوش کے ساتھ جانے پر تیار ہو گیا۔
تم فوج میں عہدیدار ہو اور شاہی خاندان کے فرد بھی ہو۔۔۔۔ سیلی نوش نے نوشی کے منگیتر سے کہا۔۔۔ تم وہ باتیں بھی جانتے ہوں گے جو فوج کے بعض بڑے افسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتی میں تم سے کچھ معلوم کرنا چاہتا ہوں میں حیران ہوں کے عریش کے بعد مسلمانوں نے فرما جیسا شہر بھی فتح کرلیا ہے جس کے متعلق اب تک یہی سنا جا رہا تھا کہ اس شہر کو کوئی طاقت فتح نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پہاڑی پر آباد کیا گیا ہے۔ اور اس کی ایک نہیں کئی قلعہ بندیاں ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی ہے اور اگر تین ساڑھے تین ہزار بدوّ ان سے جا ملے ہیں ۔ پھر بھی رومی فوج کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ مسلمانوں کی یہ تھوڑی سی فوج رومی فوج کے سائے میں گم ہو جاتی ہے۔
اس شکست کی ایک وجہ ہے۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔مقوقس اور اطربون نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کو اور آگے آنے دیا جائے اس سے یہ حملہ آور اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ مصر کو فتح کر لینا کوئی مشکل کام نہیں،،،،، نوشیی کے منگیتر نے وہ تمام وجوہات تفصیل سے بیان کیں جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے اس نے ایک بات یہ بھی بتائیں کہ رومی فوج کو ایک ذمہ داری یہ بھی سونپی گئی ہے کہ وہ قبطی عیسائیوں پر نظر رکھیں کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ بغاوت کر دیں گے۔ اس طرح رومی فوج سارے ملک میں بکھر گئی ہے جو ایک کمزوری ہے۔
اس سے آگے بلبیس ایک اور بڑا شہر ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔کیا اس شہر کا دفاع بھی کمزور رکھا جائے گا تاکہ مسلمان اور آگے آجائیں؟
شاید نہیں!،،،،، منگیتر نے جواب دیا۔۔۔ جہاں تک میں جانتا ہوں بلبیس مسلمانوں کے لئے ایک پھندہ ہو گا جس میں وہ آکر نہیں نکل نہیں سکیں گے۔ وہاں مقوقس یا اطربون فوج کی قیادت سنبھالے گا،،،،،،،، مسلمانوں کو پیچھے سے کمک نہیں مل رہی وجہ معلوم نہیں۔ ہم مدینہ تک اپنے جاسوس بھیج رہے ہیں جو وہاں کی کمزوریاں بھی بتائیں گے۔
نوشی کا منگیتر سیلی نوش سے اس قدر متاثر ہو گیا تھا کہ اس نے کچھ گہرے راز کی فوجی باتیں بھی اسے بتا دیں۔ سیلی نوش کا اندازہ ایسا تھا جیسے وہ جنگی اور سیاسی امور کو بڑی اچھی طرح سمجھتا ہے۔
بہت سی باتیں کہہ سن کر سیلی نوش نے انھیں کہا۔۔۔۔ کہ چلو اب ہامون کے پاس چلتے ہیں اب انہیں بدوّ ملازم کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن ہامون کا ٹھکانہ صحیح طور پر اسے ہی معلوم تھا

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

جاری ہے……….

اپنا تبصرہ بھیجیں