اسرس ایرانی شہری کی رہنمائی میں کچھ دور سے نہر میں اترا، اور ایرانی اسے شہر کے اندر لے گیا جہاں سے ابھرنا تھا وہاں سے دونوں باہر آئے ،ایرانی اس مجاہد کو اپنے گھر لے گیا کپڑے خشک کرا آئے اور پھر اس کا حلیہ غلاموں جیسا بنایا اس کے سر پر کمبل ڈالا اور کہا کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے شہر میں گھومے پھرے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ یہ ایرانی عقل و ہوش والا آدمی لگتا تھا اس نے اسرس سے کہا کہ صرف دو سو آدمی یہ شہر لے سکتے ہیں ،اسرس کا اندازہ بھی یہی تھا۔
رات کے وقت اسرس جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے باہر چلا گیا اور اپنے سپہ سالار ابو موسی کو بتایا کہ وہ کیا دیکھ آیا ہے، اور یہ بھی کہا کہ صرف دو سو بہت ہی دلیر اور پھر تیل مجاہدین دیے جائیں تو وہ اس اتنے بڑے شہر کو فتح کر سکتا ہے۔ سپہ سالار ابوموسیٰ نے دو سو مجاہدین منتخب کیے اور انہیں اس کے حوالے کردیا ۔اسرس نے انہیں اچھی طرح سمجھا دیا کہ شہر میں کس طرح داخل ہونا ہے اور اندر جا کر کیا کرنا ہے۔ اگلی رات مجاہدین کا یہ جیش اسرس کی قیادت میں چل پڑا اور اسرس انہیں اسی راستے سے اندر لے گیا جس راستے سے وہ خود گیا تھا۔
ان دو سو مجاہدین نے دروازے کے اندر جتنے پہرے دار موجود تھے قتل کر ڈالے اور پھر اوپر برجوں میں چلے گئے تھے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چل سکا کہ شہر کے اندر پہرے دار مارے جارہے ہیں، برجوں کے اندر ہی مجاہدین نے بکھر کر بہت سے ایرانی فوجیوں کو مار ڈالا پھر ان مجاہدین نے جو پہرے داروں کو مارنے کے بعد دروازوں پر موجود رہے تھے دروازے کھول دیے، برج پر ایک مجاہد جا چڑھا اور بڑی بلند آواز سے نعرہ تکبیر بلند کیا۔
ابوموسی اسی اشارے کے منتظر تھے انہوں نے شہر پر ہلہ بولنے کا حکم دیا لشکر سیلاب کی طرح دروازوں پر ٹوٹ پڑا اور اندر داخل ہو گیا، ایرانی تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان پر یہ آفت نازل ہو سکتی ہے، وہ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ان کا قتل عام شروع ہوگیا۔
یورپی مورخ بٹلر لکھتا ہے کہ ہرمزان اور اس کے سرداروں نے فوجیوں اور دیگر لوگوں کو یہ بتایا تھا کہ مسلمان جس شہر کو فتح کرتے ہیں وہاں کی لڑکیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کر کے اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔ بٹلر لکھتا ہے کہ ایرانیوں نے جب دیکھا کہ مسلمان شہر میں داخل ہوگئے ہیں تو کئی ایک لوگوں نے اپنی جوان بیٹیوں کو قتل کرکے نہر میں پھینکنا شروع کر دیا ،مجاہدین کو جلدی پتہ چل گیا انہوں نے لڑکیوں کا یہ قتل عام فوراً رکوا دیا۔
اس وقت ہرمزان اپنے محل میں تھا وہ وہاں سے بھاگا اور ایک برج میں جا پہنچا۔
بٹلر لکھ نے لکھا ہے کہ ہرمزان نے اپنے ماتحت جرنیلوں اور مشیروں سے کہا معلوم ہوتا ہے عربوں کو کسی نے نہر والا خفیہ راستہ بتا دیا ہے ،اور یہ ہمارا کوئی اپنا ہی آدمی ہو سکتا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عربوں کا ستارہ عروج پر ہے اور ہمارا ستارہ ڈوب چکا ہے۔
یہ واقعہ تاریخ کے دامن میں ڈالنے والے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ شہریوں میں تو قیامت بپا ہوگی انہیں یہ تو معلوم ہی نہ تھا کہ دروازے کس طرح کھلے ہیں، شہریوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ ہرمزان لوگوں کو یہ یقین دلاتا رہا ہے کہ یہ شہر اور اسکا قلعہ ناقابل تسخیر ہے لیکن خود ہی دروازے کھلوا دیے ہیں،،،،،، شہریوں کا ردعمل یہ تھا کہ انہوں نے ہرمزان اور اپنی فوج کے خلاف باتیں شروع کردیں اور کہا کہ وہ ہرمزان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کریں گے۔
کسی نے اسی ردعمل کے تحت مجاہدین اسلام کو بتا دیا کہ ہرمزان فلاں برج میں موجود ہے۔ مجاہدین وہاں اسے گرفتار کرنے کو گئے تو ہرمزان سامنے کھڑا تھا، اس کے ہاتھ میں کمان اور کندھے کے ساتھ ترکش بندھی ہوئی تھی، اس نے ایک تیر کمان میں ڈال رکھا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اب دن روشن ہوچکا تھا۔ ہرمزان کو للکار کر کہا گیا کہ وہ اپنے آپ کو مجاہدین کے حوالے کر دے۔
میری ترکش میں ایک سو تیر ہیں ۔۔۔۔تاریخ میں اس کے یہ الفاظ آئے ہیں جو اس نے مجاہدین سے کہے تھے۔ جب تک میرے پاس ایک تیر بھی باقی رہے گا تم مجھ تک نہیں پہنچ سکو گے ،یہ بھی سوچ لو کہ میرا کوئی تیر کبھی خطا نہیں گیا، اپنے ایک سو آدمی مجھ سے مروا کر مجھے گرفتار کرو گے تو تمہیں کوئی خوشی تو نہیں ہوگی۔
سپہ سالار ابوموسی کو اطلاع دے دی گئی وہ بھی آ گئے انہوں نے بھی اسے کہا کہ وہ کمان اور ترکش پھینک دے۔
میں جانتا ہوں کہ لڑتے ہوئے پکڑا گیا تو تم مجھے قتل کر دو گے۔۔۔ ہرمزان نے کہا۔۔۔ میرے سامنے ایک راستہ ہے کہ تم لوگوں کے ساتھ صلح کرلوں اور اپنا آپ تمہارے حوالے کردو لیکن میں کچھ اور چاہتا ہوں۔
تم کچھ اور چاہنے کے حق سے محروم ہوچکے ہو ۔۔۔ابو موسی نے کہا۔۔۔ یہ شہر اب ہمارا ہے لیکن یہ دکھانے کیلئے کہ مسلمان کا کردار کیا ہے میں تم سے پوچھتا ہوں کیا چاہتے ہو۔
مجھے اپنے خلیفہ عمر (رضی اللہ عنہ )تک پہنچا دو۔۔۔ ہرمزان نے کہا ۔۔۔وہ میرے ساتھ جو بھی سلوک چاہیں کریں مرنے سے پہلے میں تمہارے خلیفہ سے ملنا چاہتا ہوں۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے احکام کچھ ایسے تھے جن کی خلاف ورزی کی جرات کوئی بڑے سے بڑا سپہ سالار بھی نہیں کر سکتا تھا ،ان میں ایک حکم یہ تھا کہ دشمن کا کوئی آدمی امیرالمومنین سے ملنے کی خواہش کرے تو اس کی خواہش پوری کی جائے۔ ہرمزان تو بہت بڑی شخصیت تھا اور وہ قوت اور اقتدار کا سردار تھا۔
سپہ سالار ابو موسی نے اسے کہا کہ اس کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی جائے ۔
ہرمزان کو غالبا یہ معلوم تھا کہ مسلمان اپنی زبان کے پکے ہوتے ہیں اور وعدہ پورا کرتے ہیں اس نے ابو موسیٰ کی بات سنتے ہی اپنی کمان اور ترکش ابوموسی کے آگے پھینک دی۔ جنگی قائدے اور قانون کے مطابق ابوموسی کے حکم سے ہرمزان کے ہاتھ رسی سے پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ تھا آخر جنگی قیدی تھا۔
ابو موسی نے اپنے لشکر کے دو ذمہ دار افراد انس بن مالک اور اخنف بن قیس رضی اللہ عنھا کو یہ فرض سونپا کہ وہ ہرمزان کو اسی طرح قیدی کی حیثیت سے مدینہ امیرالمومنین کے پاس لے جائیں۔
ہرمزان کی یہ خواہش بھی منظور کرلی گئی کہ وہ اپنی شاہی پوشاک اور دیگر سازوسامان بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔
اس شہر سے جو مال غنیمت حاصل ہوا تھا اس میں سے بیت المال کا حصہ الگ کرکے انس اور اخنف کے حوالے کردیا گیا کہ یہ بھی مدینہ اپنے ساتھ لیتے جائیں، اس طرح ان کے ساتھ اونٹوں کا اچھا خاصا قافلہ تیار ہو گیا اونٹوں پر مال غنیمت اور ہرمزان کا سازوسامان تھا۔
یہ قافلہ جب مدینہ کے قریب پہنچا تو ہرمزان نے قافلہ روکوا لیا، اور اس نے اپنا حلیہ بدلہ اس کی تفصیل تاریخ میں ان الفاظ میں آتی ہے۔
ہرمزان نے زرکار پوشاک زیب بدن کی، موتیوں اور جواہر سے مرصع تاج جو آذین کے لقب سے مشہور تھا سر پر رکھا اور خالص سونے کا عصائے شاہی جس میں موتی اور یاقوت جڑے ہوئے تھے ہاتھ میں لیا کہ حضرت عمر اور اسلامی دارالخلافہ کے باشندے وہ شان و شوکت دیکھیں جو امرائے عجم کا شعار ہے۔
یہ قافلہ جب مدینہ میں داخل ہوا تو لوگ حیرت و استعجاب سے ہرمزان کو دیکھنے لگے اس کی پوشاک اور زیب و زیبائش مدینہ کے لوگوں کے لئے بالکل ہی نئی چیز تھی۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی طرف لے جارہے تھے تو تماشائیوں میں سے کسی نے کہا کہ حضرت عمر اس وقت مسجد میں ہیں، یہ بھی پتہ چلا کہ کوفہ سے کوئی وفد آیا تھا جو امیرالمومنین سے مسجد میں ملاقات کر کے چلا گیا ہے لیکن امیرالمومنین ابھی مسجد میں ہی ہیں۔
انس اور احنف ہرمزان کو مسجد میں لے گئے لیکن مسجد بالکل خالی تھی، تاریخ میں آیا ہے کہ تین چار لڑکوں نے ایک طرف اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ حضرت عمر مسجد کے ایک کونے میں سوئے ہوئے ہیں، ہوا یوں تھا کہ کوفہ کا وفد چلا گیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو چغہ پہن رکھا تھا وہی اتار کرکے مسجد کے ایک کونے میں جا کر سر کے نیچے رکھا اور سو گئے۔
ہرمزان کے جوتے باہر اتروا لیے گئے اور اسے مسجد کے اندر لے گئے دیکھا کہ حضرت عمر بڑی گہری نیند سوئے ہوئے تھے انس اور احنف ہرمزان کو ساتھ لئے الگ بیٹھ گئے تاکہ حضرت عمر کی آنکھ نہ کھلے۔
مشہور تاریخ دان نویس علامہ طبری اور ابن کثیر نے اس ملاقات کی تفصیلات لکھی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ مسجد میں کچھ اور لوگ بھی آنے لگے اور بیٹھتے چلے گئے آخر مسجد میں اتنے لوگ اکٹھا ہوگئے کہ کسی اور کے کھڑے ہونے کی بھی گنجائش نہ رہی، اس طرح خاموشی برقرار نہ رکھی جاسکتی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ کھل گئی۔
چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ہرمزان کے مابین گفتگوی ہونی تھی اس لئے ایک ترجمان موجود تھا یہ ترجمان مشہور صحابی حضرت حجر بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے، ہرمزان کو بتایا گیا تھا کہ وہ جو بات کرنا چاہے حضرت حجر کے ساتھ کرے اور یہ اس کی بات عربی زبان میں امیرالمومنین تک پہنچائیں گے، ابھی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سوئے ہوئے تھے تو ہرمزان کچھ حیران سا ہو رہا تھا کہ ان کا خلیفہ کہا ہے ؟،،،،اور نہ جانے کب آئے۔
تمہارا خلیفہ عمر کہاں ہے؟،،، ہرمزان نے حجرہ بن شعبہ سے پوچھا۔
وہ تمہارے سامنے سوئے ہوئے ہیں۔۔۔ حجر نے فارسی زبان میں جواب دیا۔
ہرمزان کے چہرے پر حیرت کا بڑا گہرا تاثر آ گیا اور اس نے اپنا سر جھکالیا کچھ دیر بعد سر اٹھایا ،حضرت عمر کی طرف دیکھا پھر حجرہ بن شعبہ کی طرف دیکھنے لگا۔
یقین نہیں آتا یہ تمہارا خلیفہ ہے ۔۔۔ہرمزان کہا۔۔۔ میں نے کوئی دربان نہیں دیکھا اور کوئی محافظ پیادہ یا سوار دستا مسجد کے باہر نظر نہیں آیا یہاں تو پورا محافظ دستہ ہونا چاہیے تھا۔
ہمارے خلیفہ کا محافظ اللہ ہے ۔۔۔حجرہ نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔ہمارے یہاں دربان اور محافظ اس طرح نہیں ہوتے کہ خلیفہ جہاں جائیں وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔
اس ایرانی جرنیل ہرمزان نے وہ الفاظ کہے جو آج تک تاریخ کے دامن میں موجود ہے۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔۔ اس شخص کو پیغمبر ہونا چاہیے تھا اور اگر یہ پیغمبر نہیں تو اس کے اعمال و افعال پیغمبروں جیسے ہی ہیں۔
مسجد لوگوں سے بھر گئی تھی جنھیں خاموش نہ رکھا جا سکا اور ہرمزان نے بھی باتیں شروع کردی تھی جن سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھ کھل گئی وہ انس اور احنف کو دیکھ کر بڑی تیزی سے اٹھے، وہ ایران کے محاذ کی پوزیشن معلوم کرنا چاہتے تھے لیکن ایک بادشاہوں جیسا آدمی ان کے ساتھ دیکھ کر حضرت عمر نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا؟
یہ ایرانی فوج کا بہت بڑا سپہ سالار ہے۔۔۔ انس بن مالک نے حضرت عمر کو بتایا۔۔۔ شاہی خاندان کا فرد ہے۔
امیرالمومنین کو بتایا گیا کہ اسے کس طرح پکڑا گیا ہے پھر یہ بتایا کہ یہ امیرالمومنین سے ملنے کی خواہش رکھتا تھا۔
میں جہنم کی آگ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہرمزان کے طمطراق کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو اسلام کے مقابلے میں ذلیل و خوار کیا ہے، حضرت عمر مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہوئے۔ ائے مسلمانوں!،،،،،، اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرو دنیا کی ان دلفریبیوں میں نہ آؤ جس طرح ایران کا یہ شخص آیا ہوا ہے، یاد رکھو دنیا کے جاہ و جلال میں سوائے دھوکے کے کچھ بھی نہیں۔
یا امیرالمومنین!،،،،، احنف بن قیس نے کہا….. اس کی بات سنیں یہ آپ کی ملاقات کا خواہشمند تھا۔
نہیں !،،،،،حضرت عمر نے کہا ،،،،،جب تک اس کے بدن پر اس لباس کا ایک دھاگہ بھی باقی ہے میں اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کروں گا اسے پہلے وہ لباس پہناؤ جو ہم اور تم جیسے لوگ پہنتے ہیں۔
حجرہ نے اسے بتایا کہ امیرالمومنین نے کیا حکم دیا ہے اور اسے فوری طور پر حکم کی تعمیل کرنی پڑے گی، اسے کھڑا کر دیا گیا اور دو آدمیوں نے اس کی شاہانہ پوشاک اتار دی اور صرف زیر جامہ رہنے دیا ۔ایک آدمی دوڑا گیا اور اسے پہنانے کے لئے موٹے اور بڑے ہی معمولی کپڑے کا لباس لے آیا جو ہرمزان کو پہنا دیا گیا۔
ہرمزان!،،،، حضرت عمر نے اسے کہا ۔۔۔۔کیا تجھے حق اور باطل کا فرق معلوم ہوا ہے یا نہیں ،کیا تو نے حکم الہی اپنی آنکھوں نہیں دیکھ لیا اور پھر اس حکم عدولی کا نتیجہ نہیں دیکھا۔
اے عمر !،،،،ہرمزان نے بڑی جرات سے کہا،،،،، جاہلیت کے زمانے میں بھی ہم اور تم ٹکرائے تھے اور ہم تم پر غالب آئے تھے ایسا صرف اس لیے ہوا کہ اللہ نہ تمہاری طرف تھانہ ہماری طرف لیکن اب اللہ تمہارے ساتھ ہو گیا ہے اور تم ہم پر غالب آ گئے ہو۔
حضرت عمر نے اس موقع پر محسوس کیا کہ حجرہ بن شعبہ ترجمانی ٹھیک طرح نہیں کر رہے ،تاریخ میں آیا ہے کہ حجرہ فارسی زبان میں مہارت نہیں رکھتے تھے ،حضرت عمر نے حضرت زید بن ثابت کو بلوایا ، وہ فارسی بڑی اچھی طرح سمجھتے اور روانی سے بولتے تھے۔
تو ایک بات نہیں سمجھ سکا ہے ایرانی سپہ سالار ۔۔۔۔حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔ تم اس جاہلیت کے زمانے میں ہم پر صرف اس لیے غالب آئے تھے کہ تیرے ہاں اتحاد تھا اور ہم پراگندہ خیال اور بکھرے ہوئے لوگ تھے ،اب سوچ کہ تیری قوم کو ہم جو شکست پر شکست دیے چلے جا رہے ہیں اس کا سبب کیا ہے۔
حضرت عمر کے بولنے کے انداز میں غصہ صاف نظر آ رہا تھا جیسے اس شخص سے انہیں شدید نفرت ہو وہ تو ہونی ہی تھی اس شخص کی فوج نے ہزاروں مجاہدین اسلام کو شہید کیا تھا اور اب شکست کھا کر آیا تو بڑی شان سے شاہانہ لباس پہن کر آیا ،ہرمزان تجربے کار اور انسان شناس آدمی تھا وہ حضرت عمر کے مجاز کو دیکھ کر ان کا ارادہ سمجھ گیا۔
آئے عمر!،،،،،ہرمزان نے کہا ۔۔۔ میں جانتا ہوں تم مجھے قتل کر دو گے ۔
موت سے نہ ڈرو۔۔۔۔ حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں میں کیا کروں گا اور اللہ مجھ سے کیا کروائے گا۔
ہرمزان نے پانی مانگا اور کہا کہ وہ پیاس سے مر رہا ہے۔
امیر المومنین کے حکم سے اس کے لیے پانی لایا گیا لیکن پانی لانے والے نے غالبا یہ سوچا کہ امیرالمؤمنین نے اس کی شاہانہ پوشاک اتروا کر موٹے کپڑے کا لباس پہنا دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ذلیل و خوار کرنا ہے، چنانچہ یہ شخص ہرمزان کے لئے ایک گھٹیا سے پیالے میں پانی لایا۔
اے مسلمانوں کے خلیفہ ہرمزان نے کہا۔۔۔ اگر میں پیاس سے مر بھی جاؤں تو بھی اس پیالے میں پانی نہیں پیوں گا۔
حضرت عمر کے حکم سے بڑے ہی اچھے پیالے میں پانی لایا گیا ہرمزان پانی پینے لگا تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔
اے عمر!،،،،،،ہرمزان نے کہا۔۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ میں جوں ہی پانی پی چکا ہوگا مجھے قتل کر دیا جائے گا۔
یہ ڈر دل سے نکال دے حضرت عمر نے کہا جب تک تو پانی نہ پی لے گا تجھے قتل نہیں کیا جائے گا۔
ہرمزان نے حضرت عمر کی یہ بات سن کر پانی پیے بغیر پیالہ ایک طرف رکھ دیا اس کے بعد امیرالمومنین اور ہرمزان میں جو گفتگو ہوئی اس میں ترشی اور سخت کلامی پیدا ہوگئی اس حد تک کہ احنف بن قیس اور انس بن مالک کو دخل اندازی کرنی پڑی۔
میں تجھے قتل کروں گا۔۔۔۔ حضرت عمر نے کہا۔
آئے عمر!،،،،ہرمزان نے کہا۔۔۔۔ تو مجھے قتل نہیں کرسکتا کیونکہ ابھی ابھی تو مجھے زندہ رہنے کا حق دے چکا ہے۔
تو جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ حضرت عمر نے غصیلی آواز میں کہا ۔۔۔میں تجھے جینے کا حق نہیں دے سکتا۔
حضرت عمر کا غیض وغضب دیکھ کر انس بن مالک کو فوراً دخل اندازی کرنی پڑی۔۔۔ انہوں نے حضرت عمر سے کہا ۔۔۔کہ ہرمزان نے دھوکے میں جان کی امان پا چکا ہے۔
تو کیا کہہ رہا ہے انس!،،،،، حضرت عمر نے سٹپٹا کر پوچھا میں ایسے شخص کو کس طرح جان کی امان دے سکتا ہوں جس نے ہمارے اچھے اچھے سالار قتل کر ڈالے ہیں،،،،، میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ شخص کس دھوکے سے مجھ سے جان بخشی کروائی ہے.
یا امیرالمومنین!،،،، انس نے کہا۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ جوں ہی میں پانی پی لو گا آپ مجھے قتل کردیں گے آپ نے کہا تھا کہ یہ جب تک پانی نہیں پیلے گا اسے قتل نہیں کیا جائے گا یہ شخص پانی پیئے گا ہی نہیں۔
اے ایران کے فریب کار سپہ سالار!،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہرمزان پر غضبناک نگاہ ڈال کر کہا ۔۔۔۔تو نے مجھے دھوکہ دیا ہے خدا کی قسم میں اس لیے دھوکا کھا گیا ہوں کہ مسلمان ہوں مسلمان اگلے ہوئے الفاظ نگلا نہیں کرتا۔
اے خلیفۃ المسلمین!،،،، ہرمزان مسکرایا اور دایاں ہاتھ حضرت عمر کی طرف بڑھادیا، میں اسلام کو قبول کرتا ہوں میں یہی مقصد کے لئے آیا تھا۔
اس طرح ایران کے ایک بہت بڑے جرنیل نے جو شاہی خاندان کا فرد بھی تھا اسلام قبول کر لیا اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت عمر سے اجازت چاہیں کہ وہ باقی عمر مدینہ میں گزارنا چاہتا ہے۔
حضرت عمر نے اسے اجازت دے دی اور دو ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا ہے۔
دو مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہرمزان نے حضرت عمر سے کہا تھا کہ اس نے یہ دھوکا اس لیے دیا تھا کہ لوگ خصوصا ایرانی یہ نہ کہہ سکے کہ اس نے تلوار اور جان کے ڈر سے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ بھی تاریخ میں آیا ہے کہ حضرت عمر جنگی امور میں ہرمزان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔
تاریخ میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ مدینہ میں کیا کام کر رہا تھا صرف ایک جملہ لکھا ہے کہ اس نے اسلام کی خاطر بہترین خدمت سرانجام دی ۔بہرحال اس کا اپنا انجام بہت برا ہوا۔
ہم چونکہ فتح مصر کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہی ہمارا موضوع ہے، لیکن بات ہرمزان اور حضرت عمر کی چل نکلی تو موزوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا واقعہ بیان کردیا جائے۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو 26 ذوالحج ۔23 ہجری بروز بدھ مسجد میں ایک قاتل نے شہید کردیا تھا ،قاتل کا نام ابولولوفیروز تھا، اور وہ حجرہ بن شعبہ کا نصرانی غلام تھا ،وہ جب پکڑا گیا تو اس نے اسی خنجر سے خود کشی کر لی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ ایرانی تھا اور جنگ نہاوند میں جنگی قیدی بنایا گیا تھا۔
حضرت عمر کے بیٹے یہ معلوم کرتے پھر رہے تھے کہ حضرت عمر کو کیا اس شخص نے کسی ذاتی عناد کی بنا پر شہید کیا ہے، یا اس کے پیچھے کوئی سازش ہے، قاتل کا خنجر اپنے قبضے میں لے لیا گیا تھا یہ عام قسم کے خنجروں جیسا نہیں تھا بلکہ اس کا دستہ درمیان میں تھا اور یہ ایک کے بجائے دو خنجر تھے، ایک پھل ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف۔
تاریخ کی روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر نے یہ خنجر دیکھا تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔
خدا کی قسم میں نے یہ خنجر پہلے دیکھا ہے۔۔۔۔ عبد الرحمن بن ابی بکر نے کہا۔۔۔ اور ذرا چونک کر بولے میں نے ہرمزان کو دو آدمیوں کے ساتھ کھڑے کُھسر پُھسر کرتے دیکھا تھا ،ایک جفینہ ،اور دوسرا یہ مردود قاتل ابولولوفیروز تھا۔ مجھے دیکھ کر یہ تینوں چونک پڑے۔ جب تیزی سے ادھر ادھر چلنے لگے تو یہ خنجر گر پڑا جو ابولولو نے اٹھا لیا اور چلے گئے۔
عبدالرحمن بن ابی بکر کی یہ بات سن کر معمر صحابہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے دی جس سے یہ ثابت ہوا کہ ہرمزان اور جفینہ حضرت عمر کے قتل میں شریک تھے۔
عبد اللہ بن عمر نے جب ان صحابہ اکرام کی باتیں اور ان کی رائے سنی تو انہوں نے تلوار اٹھائی اور غیظ و غضب میں گھر سے نکل گئے ۔پہلے ہرمزان کے گھر پہنچے اور اسے باہر بلا کر کہا کہ میرے ساتھ آؤ میرا گھوڑا دیکھو، ہرمزان ان کے آگے آگے چلا تو عبداللہ بن عمر نے ایک ہی وار سے ہرمزان کا کام تمام کر دیا۔ ہرمزان گرا اور وہیں مرگیا۔
وہاں سے جفینہ کے یہاں پہنچے اور اسے بلا کر قتل کردیا۔ پھر حضرت عمر کے قاتل ابولولو کے یہاں گئے جہاں اس کی ایک چھوٹی بیٹی موجود تھی انہوں نے اس لڑکی کو بھی قتل کر دیا اور پھر وہ ہیجان اور جنون کے عالم میں تلوار لہراتے باہر نکلے اور بڑی بلند آواز سے کہتے گئے کہ میں کسی ایرانی اور غیر مسلم غلام کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ،اگر ان پر قابو نہ پایا جاتا تو وہ اپنے عظیم باپ کے خون کا بدلہ نہ جانے کتنی ہی آدمیوں کو قتل کرکے چکاتے۔
*
بات ہو رہی تھی کہ اس صورتحال میں جو طاعون کی وباء نے پیدا کر دی تھی۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس پریشانی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ رومیوں یا ایرانیوں نے حملہ کردیا تو بہت بڑی مشکل پیدا ہوجائے گی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ مسلمان حملے کی تاب ہی نہ لاسکتے اور شام سے پسپا ہو آتے۔
ابھی حضرت عمر کو یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ کھلے حملے کے بجائے زمین دوز حملہ بھی ہوسکتا ہے اور ہرقل کے ہاں اس منصوبے پر ہی غور کیا جا رہا ہے کہ شام پر عیسائی آبادی مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دے۔
بنیامین کے ہاں کچھ اور عیسائی بھی آکر ٹھہرے ہوئے تھے ان میں بعض بنیامین کے خفیہ گروہ کے آدمی تھے اور ایک دو بن سامر کی طرح بھگوڑے یا مفرور تھے، ان میں دو بن سامر کے بڑے گہرے اور رازدان قسم کے دوست بن گئے تھے، یہ دونوں دوست بن سامر کی طرح مذہب کے معاملے میں جنونی تھے۔ دونوں بن سامر کی ہی طرح رومیوں اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھے۔
بنیامین کے پاس جو دو جاسوس بڑی لمبی رپورٹ لائے تھے ان میں سے ایک بن سامر کے ایک دوست کا گہرا راز دار دوست تھا ۔
اس جاسوس نے اپنے دوستوں کو رازداری سے بتا دیا کہ وہ کیا خبر لائے ہیں۔
تو کیا شام کے عیسائی مسلمانوں کے خلاف بغاوت کریں گے؟ ۔۔۔بن سامر کے دوست نے پوچھا۔
نہیں ۔۔۔۔جاسوس نے جواب دیا۔۔۔ بنیامین بغاوت کے حق میں نہیں وہ کہتا ہے کہ اس سے پہلے شام کے عیسائی بغاوت کر کے بری طرح ناکام ہوچکے ہیں ،ادھر ہرقل کا استف اعظم بھی بغاوت کے حق میں نہیں۔
کیا ہرقل شام پر حملہ نہیں کرے گا؟ ۔۔۔بن سامر کے دوست نے پوچھا۔
نہیں ؟۔۔۔جاسوس نے جواب دیا ہرقل شش و پنج میں پڑا ہوا ہے۔
یہ لوگ مسلمانوں کو سنبھلنے کی مہلت دے رہے ہیں۔۔۔ بن سامر کے دوست نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔حملہ کرنے کا یہی وقت موزوں ہے، یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو مسلمان پھر طاقت پکڑ لیں گے اور مصری فوج کا وہی حال کرکے پسپا کر دیں گے جو انہوں نے پہلے کیا تھا۔
بن سامر اور اس کے یہ دونوں دوست عقل سے کم اور جذبات سے مغلوب ہو کر زیادہ سوچا کرتے تھے۔
بنیامین کی رائے کچھ اور بھی ہے۔۔۔جاسوس دوست نے کہا۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ شام میں بغاوت نہیں ہونی چاہیے تاکہ مسلمان وباء کے اثرات سے نکل کر تیار ہو جائیں اور مصر پر حملہ کرکے کے رومی فوج کو یہاں سے بھگا دیں۔
ایسا نہیں ہوگا !،،،،بن سامر کے دوست نے جذباتی اور غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شام پر بھی مسلمانوں کی حکمرانی ہے اور مصر پر بھی ان کی حکمرانی قائم ہوجائے گی ،نہیں ،،،،نہیں،،،، ہم شام میں بغاوت کرائیں گے۔
تینوں نے اپنا ایک منصوبہ تیار کرنا شروع کر دیا وہ کہتے تھے کہ شام میں بغاوت کرانے کے لئے یہاں سے کچھ آدمی بھیجے جائیں گے، جو وہاں خفیہ طریقے سے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں گے ۔ ان تینوں کا خیال تھا کہ یہ کام وہ بھی تو کرسکتے ہیں۔ تینوں نے ایک دوسرے کو یقین دلایا کہ یہ زمین دوست تخریب کاری وہ کرسکتے ہیں۔ اور عیسائیت کی رو سے یہ ان کا فرض ہے کہ یہ کارروائی کریں۔ ان کی عقل پر مذہبی جنون اور کٹرپن غالب آگیا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ بنیامین کو بتائے بغیر یہاں سے نکل جائیں اور شام جا پہنچیں۔
اینی بن سامر کی بیوی تھی وہ بھی ان دوستوں کی ملاقاتوں میں شریک ہوتی اور ان کی باتیں سنتی رہتی تھی، اینی تو جوان اور بہت ہی حسین لڑکی تھی اور اس میں خاص قسم کا پھرتیلا پن اور زندہ مزاجی تھی۔ بن سامر کے ان دونوں دوستوں کے ساتھ وہ پوری طرح بے تکلف ہو گئی تھی، وہ بن سامر اور ان کے ان دوستوں کی ہم خیال تھی۔
بنیامین کے یہاں گھوڑے موجود رہتے تھے ایک رات ان تینوں نے چار گھوڑے تیار کیے اور چپکے سے وہاں سے چل دئیے۔ بنیامین کے ہاں کوئی پہرے دار یا سنتری پہرے پر ہوتا نہیں تھا کہ انھیں دیکھ لیتا ۔وہ دشوار گزار ریگزار تھا ایک گھوڑے پر عینی سوار تھی ،ریت پر چلتے ہوئے گھوڑوں کی آہٹ تو سنائی ہی نہیں دیتی تھی۔
صبح تک بہت دور پہنچ گئے ،صبح بنیامین نے چاروں کو غیرحاضر دیکھا اور اصطبل کے چار گھوڑے کم دیکھے تو اس نے اتنا ہی کہا کہ خدا انہیں اپنی امان میں رکھے۔
اگر وہ اسکندریہ چلے جاتے تو وہاں سے انہیں بحری جہاز مل جاتا جو انھیں انطاکیہ پہنچا دیتا۔ لیکن احتیاط لازم تھی یہ احتیاط بھی بن عامر کے لئے تھی، کیونکہ وہ فوج کا بھگوڑا اور مفرور قاتل تھا ،اس کی کوشش یہ تھی کہ سفر کے دوران کہیں دیکھا اور پہچانا نہ جائے۔
وہ آبادیوں اور فوجی چوکیوں سے دور دور ویرانے میں چلے جارہے تھے، بن سامر نے داڑھی خاصی بڑھا لی تھی اور ایسا لباس پہن لیا تھا جیسے وہ کوئی راہب یا مذہبی پیشوا ہو۔ بن سامر چونکہ فوج میں عہدیدار رہ چکا تھا اس لئے وہ مصر میں فوج کے ساتھ بہت سے علاقوں میں گھوما پھرا تھا اسے معلوم تھا کہ مصر کے مشرقی ساحل پر بحیرہ احمر اور خلیج سویز پر باقاعدہ بندرگاہیں ہیں، لیکن وہاں اسے دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں فوج کی موجودگی کا خطرہ تھا ۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ بعض جگہوں سے جہاز مل جاتے ہیں جو باقاعدہ بندرگاہوں پر لنگر انداز نہیں ہوتے۔
تین دنوں کی مسافت کے بعد وہ بحرہ احمر کے شمالی ساحل پر جہاں سے خلیج سویز شروع ہوتی ہے ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں چھوٹے بادبانی جہاز مل سکتے تھے۔
وہ گھوڑے بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے جہاز میں گھوڑے لے جائے جاسکتے تھے۔ اس جگہ پہنچے تو انھیں پتہ چلا کہ تین چار دنوں تک ایک جہاز تیار ہوجائے گا۔
چوتھے پانچویں روز جہاز تیار ہو گیا ان تینوں دوستوں کے پاس اتنی رقم موجود تھی جو عرب کے ساحل تک پہنچانے کے لیے کافی تھی۔ جہاز بھی اتنا بڑا تھا کہ گھوڑے بھی اس میں آگئے۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
اگر جہاز کو اس ساحل سے بالکل سیدھے میں عرب کے ساحل تک جانا ہوتا تو یہ فاصلہ ایک سو میل سے کچھ ہی زیادہ بنتا تھا ،لیکن جہاز عرب کے ساحل پر ایک دور کی بندرگاہ تک جا رہا تھا اور یہ فاصلہ ساڑھے تین سو میل بنتا تھا اس طرح منزل تک پہنچنے کے لیے کئی دن درکار تھے۔
جہاز نے لنگر اٹھایا اور بادبان کھول دئے ،کچھ ہی دیر بعد بن سامر نے اپنے دوستوں کو مشورہ دیا کہ جہاز کے مسافروں کے ساتھ ملاقات شروع کردی جائے، اور ان میں اگر عیسائی ہیں تو انہیں اپنے مشن کے لئے تیار کیا جائے ،اس پروگرام کے تحت انہوں نے اسی روز مسافروں سے ملنا شروع کر دیا دو دنوں میں انہیں پتہ چل گیا کہ کتنے مسافر عیسائی اور کتنے مسلمان ہیں۔
بن سامر کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ جہاز انہیں عرب کے کی کسی بندرگاہ پر اتارے گا اور وہاں سے شام کا سفر بڑا ہی لمبا ہوگا، اور یہ سارا علاقہ ریگستانی ہے، اس نے عیسائیت کے نام پر اتنا لمبا سفر اور اس کی اذیتیں ذہنی طور پر قبول کر لی تھیں، اور دوستوں کو بھی بتا دیا تھا کہ سفر کتنا لمبا اور کیسا ہوگا ،ان کے پاس گھوڑے تھے اس لئے وہ کچھ زیادہ پریشان نہ ہوئے۔
انہوں نے عیسائیوں میں چار پانچ سرکردہ سردار قسم کے افراد منتخب کر لئے اور ان کے قریب ہو گئے، اتفاق سے ان میں ایک شام کے کسی عیسائی قبیلے کا سردار تھا ۔تینوں نے ان عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنا شروع کردیا ۔ان مسافروں کے ساتھ بحث و مباحثہ بھی ہوتا تھا اور آخر یہ عیسائی مسافر قائل ہو گئے۔
بن سامر اور اس کے دوست ان عیسائیوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ بھی اپنے طور پر شام جائیں اور عیسائی قبائل کو بغاوت پر آمادہ کریں۔
انہیں ایک اور عیسائی ملا جو ادھڑ عمری کی اوائل عمر میں تھا ۔بن سامر اور اس کے دوستوں نے خاص طور پر محسوس کیا کہ یہ شخص دانشمند لگتا ہے اور جب بولتا ہے تو اس کے انداز میں ایک تاثر ہوتا ہے جو دوسروں کو متاثر کر دیتا ہے۔ ایک روز ان تینوں نے اسے گھیر لیا اور پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے، اس نے شام کے کسی شہر کا نام لیا کہ وہ وہاں کا رہنے والا ہے۔
ان تینوں نے اسے پاس بٹھا کر تبلیغ شروع کردی اور پھر کہا کہ شام میں عیسائی بغاوت کردیں تو کم از کم اس ملک پر عیسائیت کی حکمرانی ہو سکتی ہے، اس عیسائی نے ان کی تائید کی اور پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟،،، اور وہ کیا کرنے آئے ہیں؟ بن سامرنے اسے بتا دیا کہ وہ اسی مشن پر آئے ہیں اور وہ وہاں خفیہ طور پر یہ کام کریں گے،
اس شخص نے ان سے یہ بھی معلوم کر لیا کہ ہرقل اور مقوقس اوربنیامین اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں ؟
بن سامر نے اسے وہ ساری بات سنا دی جو جاسوس بنیامین کو سنا چکے تھے اور بن سامر کو ایک دوست کے ذریعے یہ ساری رپورٹ ملی تھی، اس نے ان سے اور بھی بہت سی باتیں پوچھ لیں جن میں ایک یہ تھی کہ رومی فوج کس حالت میں ہے اور اس کے جرنیل کیا کرتے ہیں ،بن سامر خود فوجی تھا اور اس نے بنیامین کے ہاں جا کر بھی بہت سی باتیں سنی تھیں اس لئے وہ سب کچھ اس شخص کو بتا دیا۔
ایک رات بن سامر جہاز کے عرشے پر گیا رات چاندنی تھی عرصے پر ٹہلتے ٹہلتے یہی شخص نظر آیا اسے شک ہوا یہ وہ آدمی نہیں ،لیکن وہ بالکل وہی آدمی تھا بن سامر نے سوچا کہ اس کی شکل و صورت سے ملتی جلتی شکل و صورت کے دو آدمی بھی تو ہو سکتے ہیں، لیکن اسے کچھ شک سا ہوا اس نے قریب ہوکر اس شخص کو دیکھا بن سامر کوشک اس لئے ہوا تھا کہ وہ آدمی نماز پڑھ رہا تھا ۔بن سامر
کو اس نے بتایا تھا کہ وہ عیسائی ہے وہ عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا اور دو مسافر اس کے قریب ہی نماز پڑھ رہے تھے ۔
تم تو کہتے تھے کہ مسلمان نہیں ہو۔۔۔بن سامر نے اس سے پوچھا۔۔۔ لیکن تم تو نماز پڑھ رہے ہو۔
میں درویش آدمی ہوں۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔خدا کی عبادت فرض ہے ضروری نہیں کہ ایک ہی طرح سے عبادت کی جائے ،میں مسلمانوں والی نماز نہیں پڑھ رہا میں اس طریقے سے خدا کو یاد کر رہا ہوں۔
بن عامر کی تسلی نہ ہوئی اس نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا اور وہ آدمی اسے ٹالتا رہا آخر بن عامر وہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کے پاس گیا ،اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ شخص عیسائی نہیں مسلمان ہے، اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا اور رائے دی کہ اس قسم کے آدمی جاسوس ہوا کرتے ہیں اور یہ شخص مسلمانوں کا جاسوس ہی معلوم ہوتا ہے۔
اگلے ہی روز انہوں نے مسافروں سے تصدیق کروائی کی یہ شخص مسلمان ہے اور عربی ہے، یہ تو کوئی بتا ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ جاسوس ہے۔
حقیقت یہ تھی کہ یہ آدمی مسلمان تھا اور جاسوسی کے لئے ہی مصر بھیجا گیا تھا، اس نے رات عرشے پر جو دو آدمی اس کے قریب نماز پڑھ رہے تھے وہ اس کے ساتھی تھے۔ تفصیلات لکھنے والے تاریخ نویس نے یہ نہیں بتایا کہ ان تینوں کو کس نے بھیجا تھا۔
بن سامر کو زیادہ غصہ اس لیے آ رہا تھا کہ اس مسلمان نے اس سے بہت سی ایسی باتیں پوچھ لی تھی جو وہ کسی کو بتانا نہیں چاہتا تھا۔ ان باتوں سے ہی بن سامر کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص جاسوس ہی ہوسکتا ہے۔
بن سامر نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ اس مسلمان مسافر نے اسے کس طرح دھوکہ دیا ہے۔ اس کے دوست بھی جذباتی اور جنونی تھے عقل سے تو سوچتے ہی نہیں تھے انہوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ رات کے وقت موقع دیکھ کر اس مسلمان کے ہاتھ پیچھے باندھ کر سمندر میں پھینک دیا جائے۔
بن سامر نے کہا کہ اسے قتل کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو آج رات ہی ہوجائے ،میرے ساتھ اس کی بڑی اچھی بات چیت ہے بن عامر نے کہا میں اسے کہوں گا کہ چلو عرشے پر چل کر کے بیٹھتے ہیں تو وہ فوراً چل پڑے گا اسے وہاں کھڑا کریں گے جہاں کوئی اور دیکھنے والا نہیں ہو گا، یہ کام رات کو کریں گے ہم اسے سمندر میں دھکیل دیں گے کوئی دیکھ بھی نہیں سکے گا اور جہاز آگے ہی آگے چلتا جائے گا۔
بن سامر اسی شام اس مسلمان جاسوس سے ملا اور بڑی بے تکلفی سے دوستانہ محبت کا اظہار کیا اسے کہا کہ آج رات وہ اس کے پاس بہت دیر بیٹھنا چاہتا ہے۔ مسلمان نے اس سے پوچھا کہ کوئی خاص بات ہے یا ویسے ہی اوپر جا بیٹھنے کو جی چاہتا ہے۔
میں نے بہت سوچا ہے۔۔۔ بن سامر نے کہا۔۔۔ میں آخر مان گیا ہوں کہ تم درویش ہو اور خدا کو راضی رکھنے کا تم نے اپنا ہی طریقہ اختیار کر رکھا ہے، تم عالم اور دانشور معلوم ہوتے ہو مجھے اپنا شاگرد سمجھ لو اور آج رات یہ راستہ مجھے بھی سمجھا دو اور دکھاؤ۔ میں دراصل پریشان حال آدمی ہوں شاید خدا مجھ سے بہت ناراض ہے میں تمھیں اپنی زندگی کی داستان سنانا چاہتا ہوں۔
جس وقت کہو گے اوپر چلے چلیں گے ۔۔۔مسلمان نے کہا ۔۔۔کہو گے تو ساری رات تمہارے ساتھ اوپر بیٹھا رہوں گا۔
بن سامر نے اس مسلمان کو وہ وقت بتایا جس وقت مسافر اپنی اپنی جگہوں پر سو جایا کرتے تھے ۔مسلمان نے یہ وقت قبول کر لیا اور کہا کہ وہ اس وقت اوپر آجائے گا ۔بن سامر دوڑا گیا اور اپنے دوستوں کو بتایا کہ آج رات شکار خود ان کے جال میں آ جائے گا۔ اسکے دوست بہت خوش ہوئے اور اس مسلمان کو سمندر میں پھینکنے کے لیے تیار ہوگئے۔
اس رات تک جہاذ تقریباً آدھا سفر طے کر چکا تھا ۔مسلمان جاسوس مقررہ وقت پر عرشے پر چلا گیا فوراً ہی بعد بن سامر اس کے پاس پہنچا، مسافر نیچے سو گئے تھے ، عرشے پر ایک تو بن سامر تھا ،اور دوسرا مسلمان جاسوس، اور دو تین اور آدمی الگ جنگلے کے ساتھ کھڑے چاندنی رات میں سمندر کا نظارہ کر رہے تھے، ایک طرف افق پر بجلی چمک رہی تھی اور صاف پتا چلتا تھا کہ گھٹا اوپر اٹھتی آرہی ہے ،ہوا بالکل ساکن ہو گئی تھی ،اور بادبان جو ہوا سے بھرے رہتے تھے عام کپڑوں کی طرح پھڑپھڑا رہے تھے ،جس کے زیر اثر جہاز کی رفتار نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔
بن سامر مسلمان تک پہنچا اور دونوں جنگلاں پکڑ کر چاندنی میں چمکتے سمندر کو دیکھنے لگے اور پھر انہوں نے بڑی تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی گھٹاؤں کو دیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے گھٹاؤں نے چاند کو اپنے عقب میں لے لیا ۔بن سامر کے دونوں دوست عرشے پر آگئے وہ آہستہ آہستہ بن سامر اور مسلمان کی طرف بڑھ رہے تھے۔
بن سامر نے وقت کا بڑا اچھا انتخاب کیا تھا۔ گھٹاؤں نے اس کے ساتھ یہ تعاون کیا کہ چاند کو چھپا کر رات کو تاریک کر دیا، اب ان تینوں کے لیے مسلمان کو اٹھا کر سمندر میں پھینکنا آسان ہو گیا تھا، اور دیکھنے والا کوئی بھی نہ تھا۔
بن سامر کے دوست قریب پہنچے تو اچانک ہوا چل پڑی سب نے محسوس کیا کہ ہوا معمول سے زیادہ ٹھنڈی ہے اب چند لمحوں میں ہی ان تینوں نے اپنا شکار مار لینا تھا۔
اوبھائیو!،،،،، انہیں کچھ دور سے للکار سنائی دی،،،،، فوراً نیچے چلے جاؤ طوفان آ رہا ہے سمندر میں جا گرو گے جلدی چلو یہاں سے نیچے بھاگو۔
ان سب نے ادھر دیکھا جہاز کے دو تین ملاح دوڑتے آرہے تھے ان میں سے کسی نے وہاں سے چلے جانے کو کہا تھا، وہ وہاں سے ہٹے اور آہستہ آہستہ چل پڑے انہوں نے دیکھا کہ ملاحوں میں بھگدڑ مچ گئی تھی، شاید تمام ملاح اوپر آگئے تھے اور بادبانوں کے رسے کھیچنے لگے تھے۔
فوراً ہی ہوا اور تیز ہو گئی اور اس نے طوفانی رفتار پکڑ لی پھر ایسی موسلادھار بارش شروع ہو گئی کہ اوپر ٹھہرنا محال ہو گیا ،جہاز کاغذ کی ناؤ کی طرح ڈولنے لگا اور پھر اس طرح جیسے کوئی زبردست طاقت جہاز کو اوپر اٹھا اٹھا کر سمندر کی سطح پر پٹخ رہی ہو۔
مسافر جاگ اٹھے وہ تو ایک دوسرے پر گر رہے تھے، مسافر مسلمان جاسوس اور بن سامر کے دوستوں کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کہاں ہیں اور دوسرے کہاں ہیں، سمندر کی طوفانی موجیں اوپر اٹھ اٹھ کر جہاز میں گر رہی تھیں۔
بادبان لپیٹ دیے گئے تھے لیکن جلدی میں اچھی طرح لپیٹ نہ جاسکے اور اتنی تیز طوفانی آندھی میں پھڑپھڑانے لگے اب جہاز بڑے ہی زبردست طوفان کی لپیٹ میں آگیا۔ کسی کو کسی کا خیال نہ رہا ، ماؤں نے بچوں کو سینے سے لگا لیا لیکن جب جہاز اوپر اٹھتا یا دائیں اور بائیں ڈولتا تو ماؤں کے لئے بچوں کو سینے سے چھپائے رکھنا ممکن نہ رہا ، مائیں پکڑتی تھی اور بچے بازوؤں سے گر پڑتے تھے، جہاز کے اندر بھی یوں لگتا تھا جیسے مسافر سمندر میں ہوں ۔جہاز میں پانی بھرتا جا رہا تھا۔
مسافر چیخ چلا رہے تھے ،لیکن طوفان کی چیخیں اور زناٹے اس چیخ و پکار سے کئی گناہ زیادہ بلند اور جگر پاش کے جہاز اپنے جہاز رانوں کی گرفت سے نکل گیا تھا ۔اور اب یہ طوفان باد و باراں کے رحم و کرم پر تھا ۔اس قسم کی آوازیں سنائی دینے لگیں جیسے کسی کا کوئی عزیز سمندر میں جا پڑا ہو۔ مسافر ایک ایک دو دو کر کے سمندر میں ڈوب رہے تھے۔
طوفان نے جہاز کو ساحل کے قریب کردیا جہاز کے اندر اتنا زیادہ پانی آ گیا تھا کہ اب کسی بھی لمحے اسے ڈوب جانا تھا۔
لمحے طوفان کی تیز و تند رفتار کے ساتھ گزرتے جا رہے تھے، اور جہاز ایک طرف سے ڈوبنے لگا۔ اس کے تین چار تخت نکل آئے اور ادھر سے سمندر کی موجیں جہاز میں آئی تو جہاز اس پہلو پر ہوگیا ،مسافر جو ابھی تک اس امید پر جہاز میں ہی رہے کہ طوفان گزر جائے گا سمندر میں کود گئے کچھ ہی وقت بعد جہاز ڈوب گیا۔
صبح طلوع ہوئی تو آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے منڈلا رہے تھے، اور ان میں ایک گونہ معصومیت تھی، سمندر پر سکون تھا جیسے رات کچھ ہوا ہی نہ ہو، اس سمندر نے نہ جانے کتنے مسافروں اور ان بچوں اور بچوں کی ماؤں کو اپنے پیٹ میں ڈال کر ہضم کر لیا تھا۔
ساحل پر کچھ دور دور تک چند آدمی نظر آ رہے تھے ان میں سے کچھ ایسے پڑے تھے جیسے بے ہوش ہوگئے ہوں اور کچھ قدم گھسیٹے جارہے تھے ،یہ وہ خوش قسمت تھے جو تیر کر ساحل پر پہنچ گئے تھے، وہ تیرنا جانتے تھے اور طوفان نے ان پر یہ کرم کیا تھا کہ جہاز کو ساحل کے تھوڑا قریب کردیا تھا ،مگر جہاز جہاں تک گیا تھا وہ بھی سمندر بہت ہی گہرا اور موجیں طوفانی تھی کوئی قسمت والا تیراک ہی نکل سکتا تھا۔
دن کا پچھلا پہر تھا تین آدمی آہستہ آہستہ ساحل سے خاصی دور اکٹھے چلے جارہے تھے، وہ عربی معلوم ہوتے تھے انہیں معلوم تھا کہ آبادی تک پہنچ جائیں گے اس علاقے کی آبادیوں اور بستیوں سے واقف تھے ،انہیں معلوم تھا کہ وہ جدّا اور مدینہ کے درمیانی علاقے میں جا رہے ہیں۔
صاف پتا چلتا تھا کہ یہ تینوں سمندر میں سے نکل کر آئے ہیں اڑھائی تین میل گئے تو انہیں ایک آدمی یوں بیٹھا نظر آیا کہ اس نے سر اپنے گھٹنوں پر رکھا ہوا تھا ،جیسے بیٹھے بیٹھے سو گیا ہو یا کسی تکلیف میں ہو، یہ تینوں اس کے قریب پہنچے تو اس نے سر اٹھایا اس نے ان تینوں کو باری باری دیکھا اور ایک کو پہچان لیا، یہ وہی مسلمان جاسوس تھا جسے بنسامر اور اس کے ساتھی سمندر میں پھینک دینے کے لئے عرشے پر لے گئے تھے لیکن طوفان نے ان کے اردگرد کی تکمیل نہ ہونے دی۔
مسلمان جاسوس نے اسے پہچان لیا وہ بن سامر تھا ،اس مسلمان کے ساتھ وہ جواں سال آدمی تھے جو اس کے ساتھی تھے، اور جاسوسی کے مشن پر اس کے ساتھ گئے تھے۔
تم خوش قسمت ہو۔۔۔۔ بان سامر مسلمان جاسوس نے کہا۔۔۔ اس طوفانی سمندر سے زندہ نکلنا خوش قسمتی نہیں تو اور کیا ہے، تمہارے ساتھ ایک بڑی خوبصورت لڑکی بھی تھی کیا وہ ڈوب گئی؟
نہیں!،،،،، میرے دوست۔۔۔۔ بن سامر نے جواب دیا ۔۔۔وہ میری بیوی تھی سمندر میں تو نہیں ڈوبی اس ریگستان میں ڈوب گئی ہے۔
میں سمجھ گیا بن سامر!،،،،، مسلمان نے کہا۔۔۔ وہ سمندر سے تو نکل آئی تھی اور یہاں آکر مر گئی ہے اور تم نے اسے دفن کردیا ہے، کہاں دفن کیا ہے؟
تم کچھ بھی نہیں سمجھے میرے بھائی۔۔۔۔ بن سامر نے کہا۔۔۔ میں تمہیں کیا بتاؤں مجھ پر کیا گزری ہے۔
بن سامر!،،،، مسلمان نے کہا،،،، اب میں تمہیں اپنے متعلق صحیح بات بتاتا ہوں میں عیسائی نہیں مسلمان ہوں اور میرا نام مسعود بن سہیل مکی ہے۔ تم اب میرے ملک میں ہو، میں اور میرے یہ دوست تمہیں یہاں تنہا چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ مسعود بن سہیل اور اس کے دونوں ساتھی بن سامرکے پاس بیٹھ گئے مسعود نے کہا۔۔۔ اب بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو اور تم پر کیا بیتی ہے؟
بن سامر کو یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ وہ اس شخص کو قتل کرنے جہاز کے عرشے پر لے گئے تھے مسعود کو تو ان کے اس ارادے کا علم ہی نہیں تھا لیکن بن سامر محسوس کرنے لگا کہ ان مسلمانوں سے اسے کسی اچھے سلوک کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ اثرات تھے اس عداوت کے جو اس نے اپنے ذہن میں مسلمانوں کے خلاف بٹھا رکھی تھی، چونکہ مسعود بن سہیل اور اس کے ساتھ ہمدردی اور دلچسپی سے اس کے پاس بیٹھ گئے تھے اور اس کی بات سننا چاہتے تھے اس لئے اس نے انہیں اصل واقعہ سنا دیا۔
اس نے یوں سنایا کہ جب جہاز ڈوبنے لگا تو وہ اور اس کے دونوں ساتھی سمندر میں کود گئے بن سامر کو سب سے زیادہ خیال اینی کا تھا اس نے یہاں تک سوچ لیا تھا کہ اینی ڈوب گئی تو وہ بھی اس کے ساتھ ڈوب مرے گا۔
وہ سمندر میں کود کر اینی کو پکارنے لگا۔ اینی بھی کود گئی تھی لیکن وہ سمندر میں اسے نظر نہیں آرہی تھی وہ ادھر ادھر اینی کو ڈھونڈنے کے لئے تیرنے لگا جلد ہی اسے نظر آگیا کہ اس کے ایک ساتھی نے اینی کو اپنے پیٹھ پر ڈال لیا تھا اور ساحل کی طرف تیر رہا تھا ۔وہاں تو طوفان کی چیخیں اور زناٹے تھے اور بکھرے ہوئے سمندر کی اٹھتی گرتی طوفانی موجیں تھیں بن سامر نے اپنے دوست کی یہ آواز سن لی کہ آئینی کی فکر نہ کرو اسے میں باہر نکال لوں گا۔
بن سامر مطمئن ہوگیا اور ساحل تک پہنچنے کے لئے سمندر سے لڑنے جھگڑنے لگا ۔
وہ فوجی ہونے کی وجہ سے بڑا اچھا تیراک تھا اور اس کے ساتھی بھی تیراکی میں مہارت رکھتے تھے۔
ساحل سے کچھ دور ہی تھے سمندر کی موجیں ان تینوں کی بہت مدد کی وہ اس طرح کے موجیں ساحل کی طرف جا رہی تھی اور ساحل سے ٹکرا کر واپس آتی تھی اس طرح ان موجوں نے انھیں ساحل پر لے جا کر پھینک دیا۔ لیکن ان کی جسمانی حالت اس قدر بری ہو چکی تھی جیسے وہ اپنے پاؤں پر کھڑے بھی نہیں ہوسکیں گے۔ جوان آدمی تھے کچھ وقت بعد ان کے جسم نارمل حالت میں آنے لگے اور وہ اس منزل کی طرف چلنے کے قابل ہو گئے جن کا انہیں ابھی پتا ہی نہ تھا۔ ایک دو مسافر انہی کی طرح سمندر سے نکل آئے تھے انہوں نے بن سامر کو بتایا کہ یہ عرب کا ساحل ہے اور شام بہت دور ہے۔
وہ چل پڑے اور رات آ گئی انہوں نے خاصا فاصلہ طے کر لیا تھا ،لیکن دور دور تک آبادی کے کوئی آثار نہیں تھے رات کو وہ ایک جگہ لیٹ گئے اینی بن سامر کی بیوی تھی اس لیے یہ دونوں اپنے ساتھیوں سے زرا الگ ہٹ کر اکٹھے لیٹے ۔ تھکن نے ان کے جسم توڑ دیے تھے لیٹتے ہی سو گئے آدھی رات سے کچھ پہلے بن سامر کو کچھ شور اور کچھ ہلچل سنائی دی، تو وہ جاگ اٹھا رات چاندنی تھی اس نے بڑی اچھی طرح کچھ دور تک نظر آتا تھا، اس نے دیکھا کہ اینی اس کے پہلو سے غائب ہے اور ذرا ہی پرے اس کے دونوں ساتھی اینی کے ساتھ دست درازی کر رہے تھے ۔دست درازی بھی ایسی کے اس کے جس دوست نے اینی کو اپنی پیٹھ پر ڈال کر طوفانی سمندر سے نکالا تھا اس نے اینی کو نیچے گرا رکھا تھا اور اسے برہنہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کا دوسرا دوست اینی کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔
بن سامر دوڑتا ہوا وہاں تک پہنچا پہلے ایک دوست کے منہ پر گھونسا مار کر پرے گرایا پھر دوسرے کو بڑی زور سے لات ماری اور اینی کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اس کا تو دماغ ماؤف ہو گیا تھا کہ یہ اس کے دوست ہیں جو اس کی عزت پر مجرمانہ حملہ کر رہے ہیں ،یہ تو مذہبی جنونی تھی آخر انہیں ہو کیا گیا ہے۔
دور کھڑے رہو بن سامر!،،،،، اس کے ایک دوست نے کہا۔۔۔ اسے میں سمندر سے نکال کر لایا تھا اور اس دوست نے میری مدد کی تھی اس لڑکی پر ہمارا اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا ہے۔
تم تو اسے سمندر میں ڈوب مرنے کے لئے چھوڑ آئے تھے۔۔۔ دوسرے دوست نے کہا ۔۔۔اب تمہارا اس پر کوئی حق نہیں۔
بن سامر نے اینی کو اپنے پیچھے کر لیا اور ان دونوں سے کہا کہ وہ تو مذہب پرست آدمی ہیں، یہ حرکت شیطانوں والی ہے اس نے انہیں یاد دلایا کہ وہ کس مقصد کی خاطر یہاں آئے ہیں، اس کے دوستوں پر اس کی کوئی بات اثر نہیں کر رہی تھی وہ دھمکیوں پر اتر آئے تھے۔ آخر ایک دوست نے کہا کہ وہ اینی کو صرف آج رات کے لئے ان کے حوالے کر دے۔ بن سامر کو یہ صورت قبول نہیں تھی اور ہونی بھی نہیں چاہئے تھی یہ آخری اس کی بیوی تھی۔
تم دونوں پر شیطان غالب آ گیا ہے۔۔۔۔ بن سامر نے کہا۔۔۔ میں شیطان کا دماغ درست کرنے کا طریقہ جانتا ہوں۔
بن سامر ان کی طرف بڑھا تو وہ دونوں اس پر ٹوٹ پڑے تینوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا ورنہ وہ لہو لہان ہو جاتے ،اور ان میں سے کوئی بھی ہو سکتا تھا، دونوں دوست بن سامر پر ٹوٹ پڑے اور اس پر گھونسوں اور لاتوں کی بوچھاڑ کردی۔
بن سامر نے دونوں کا مقابلہ کیا ،لیکن وہ بھی اسی جیسے جواں سال اور طاقت ور تھے۔ اینی کمسن لڑکی تھی وہ بن سامر کی مدد نہیں کر سکتی تھی وہ الگ کھڑی دیکھتی رہی ان دونوں میں سے کسی کے پاس ہتھیار ہوتا تو وہ بن سامر کو قتل ہی کر دیتے۔
انہوں نے بن سامر پر قابو پا لیا اور اسے اس قدر زودکوب کیا کہ وہ بے ہوش ہوگیا ،بے ہوشی کی حالت میں بھی اس کے پہلو میں ٹھنڈ مارتے رہے تاکہ یہ اٹھنے کے قابل نہ رہے۔
بن سامر ہوش میں آیا تو اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی ہڈیاں کئی جگہوں سے ٹوٹ گئی ہیں، سر چکرا رہا تھا وہ اٹھا تو پاؤں پر کھڑا رہنا محال نظر آیا ،سورج طلوع ہو چکا تھا اس نے ہر طرف دیکھا اس کے سامنے ریگستان پھیلا ہوا تھا اور اینی کا نام و نشان نہ تھا، وہ جان گیا کہ اس کے دوست اس کی بیوی کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں، وہ وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ کیا کرے اور کدھر جائے اس نے چلنے کی کوشش کی تو چند قدم چل کر ہی بیٹھ گیا، اسے آرام کی ضرورت تھی اس نے گھٹنوں پر سر رکھ کر اس تلخ حقیقت کو ذہنی طور پر قبول کرنے کی کوشش شروع کر دی کہ اس کے دوست اسے دھوکہ دے گئے ہیں اور اب عینی اسے نہیں مل سکے گی۔
اسے مسعود بن سہیل مکی اور اس کے ساتھیوں نے ان تلخ سوچوں سے بیدار کیا۔
مسعود بھائی!،،،، بن سامر نے کہا ۔۔۔مجھے تم سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ میری مدد کرو گے ،تم نے کہا تھا کہ میں تمہارے ملک میں ہوں اور تم مجھے اکیلا نہیں چھوڑوں گے، کیا میں یہ سمجھوں کہ تم میری ہر طرح مدد کرو گے؟،،، نہیں کرو گے،،،، تم جانتے ہو میں عیسائی ہوں،،، تم آخر میری مدد کیوں کرو گے؟
میں مسلمان ہوں بن سامر!،،،، مسعود بن سہیل نے کہا۔۔۔ میں اسلام کے احکام کا پابند ہوں، تمہارا مذہب جو کچھ بھی ہے تم ایک انسان ہوں اور مصیبت میں گرفتار ہو، اسلام مجھ پر فرض عائد کرتا ہے کہ میں تمھاری مدد کروں، یہ بھی ذہن میں رکھو کہ اسلام کا یہ بھی حکم ہے کہ جو تمہاری زبان سے نکل گیا ہے وہ بھی عملاً پورا کرو، میں اور میرے یہ دوست تمہاری مدد کریں گے ۔ دراصل تمہاری بیوی اس قدر خوبصورت اور دلکش ہے کہ اس کا جسم حاصل کرنے کے لئے کوئی پارسا بھی پارسائی سے دستبردار ہو سکتا ہے۔
بن سامر اٹھا، اس کے دوست بھی اٹھ کھڑے ہوئے انہوں نے پہلے وہاں زمین دیکھی وہاں لڑائی کے نشانات صاف نظر آ رہے تھے۔ مسعود نے ایک طرف دیکھا اور اکیلا ہی اس طرف چل پڑا بن سامر کے دونوں دوستوں اور اینی کے نقوش پا صاف نظر آ رہے تھے۔ مسعود تجربے کار جاسوس تھا اس نے دیکھا کہ بعض جگہوں پر قدموں کے نشان ایسے ہیں جیسے اینی کو زبردستی یا گھسیٹ کر ساتھ لے جا رہے ہوں۔
کچھ دور جاکر مسعود واپس آیا اور اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ کیا دیکھ آیا ہے، صحرا میں نقوش پا کو چھپایا نہیں جاسکتا، اور یہ تعقب کرنے والوں کی بڑی ہی واضح اور قابل اعتماد رہنمائی کیا کرتے ہیں۔
وہ دور نہیں گئے ہونگے۔۔۔ مسعود کے ایک ساتھی نے کہا ۔۔۔دور جاسکیں گے بھی نہیں۔ یہ بتاؤ بن سامر!،،، کیا انکے پاس پینے کو پانی ہے؟
نہیں!،،، بن سامر نے جواب دیا۔۔۔ ان کے پاس پانی کہاں سے آ سکتا تھا ہم تو سمندر سے نکل کر آئے تھے۔
اٹھو اور چلنے کی کوشش کرو۔۔۔ مسعود نے بن سامر سے کہا ۔۔۔ہماری منزل کہیں اور ہے لیکن ہم پہلے کوشش کریں گے کہ تمہاری بیوی تمہیں واپس مل جائے۔
بن سامر اٹھا اور ان کے ساتھ چل پڑا اس سے ٹھیک طرح چلا نہیں جا رہا تھا مسعود اور اس کے ایک ساتھی نے بن سامر کے دائیں اور بائیں ہوکر اس کے جسم کا کچھ بوجھ اپنے بازوں پر لے لیا اور اس طرح وہ کچھ دور تک چلتا گیا ،سورج اوپر آیا تو اس کی تپش نے اس کے جسم میں جان ڈال دی اور وہ بغیر سہارے کے چلنے لگا ،وہ پرانا فوجی تھا اس کا جسم مشقت برداشت کرسکتا تھا، اس نے دو چار مرتبہ زخمی حالت میں بھی پیدل سفر کیا تھا بہرحال وہ ان تینوں مسلمانوں کے ساتھ چلتا گیا۔
بن سامر کے دوستوں کے اور اینی کے نقوش پا بڑے صاف تھے انہیں دیکھتے ہوئے چلتے گئے اور خاصی دور تک جاپہنچے، وہاں سے زمین کچھ سخت ہوگئی اور آگے کا علاقہ ایسا جو کہیں نشیب میں چلا جاتا تھا اور کہیں اوپر ہوا جاتا تھا، اور اوپر ٹیلے تھے جو اس طرح ایک دوسرے سے الگ الگ تھے کے بھول بھلیاں سی بن گئی تھی، وہاں کوئی باقاعدہ راستہ تو تھا ہی نہیں وہ بن سامر کے دوستوں کے نقوش پا پر جا رہے تھے انہیں دیکھتے دیکھتے کافی دور نکل گئے۔
انہیں پیاس محسوس ہونے لگی لیکن انہوں نے قوت برداشت سے کام لیا باتیں کرتے کرتے وہ چلتے گئے اور نقوش پا کی رہنمائی میں چھوٹے بڑے ٹیلوں کی بھول بھلیوں میں سے گزر گئے۔
آگے ایک وسیع نشیب آگیا جس کے چاروں طرف کنارے اونچی دیواروں جیسے تھے، اس میں بھی چھوٹے بڑے ٹیلے تھے سامنے گھاٹی نظر آرہی تھی لیکن وہ بھی دیوار جیسی ہی تھی یہ چاروں چلتے گئے اور جب اس کے سامنے والے کنارے پر پہنچے تو ایک دوسرے کو سہارا دیتے اوپر چلے گیے، سب سے پہلے مسعود کا ایک ساتھی آگے آگے اوپر پہنچا تھا۔
اللہ نے کرم کر دیا ہے۔۔۔ اس ساتھی نے بلند آواز سے کہا ۔۔۔اوپر آؤ اور دیکھو جنت ہماری منتظر ہے۔
سب اوپر گئے تو انہیں بھی کھجور کے درختوں کے جھنڈ نظر آئے جو کم و بیش دو میل دور تھے وہ یقیناً نخلستان تھا انہوں نے تھکن کے باوجود رفتار تیز کردی سورج مغرب کی طرف چلا گیا تھا۔
نخلستان نے ان کے جسموں میں تازگی پیدا کردی ،قریب پہنچے تو دیکھا کہ نخلستان کے اردگرد اونچا بند سا بنا ہوا تھا ۔قدرتی بند تھا جو خاصی دور تک چلا گیا تھا۔ اور نیم دائرے یا دائرے کی شکل میں تھا ۔عرب کے لوگ نخلستانوں سے اور ان کے قدرتی شکل و صورت سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جب بند کے قریب پہنچے تو نسوانی چیخیں سنائی دی،
وہ سب دوڑ کر بند پر چڑھنے لگے تو بند پر اینی نمودار ہوئی اور نیچے اترنے لگی لیکن پیچھے سے دو آدمیوں نے اوپر آ کر اس کے بازو پکڑ لئے یہ دونوں بن سامر کے دوست تھے۔
یہی ہیں۔۔۔ بن سامر نے کہا۔
مسعود بن سہیل مکی اور اس کے دونوں ساتھی دوڑ کر بند پر جا چڑھے اور اینی کو اپنے بازوؤں سے پکڑ کر اپنی طرف کر لیا ۔
وہ دونوں بڑے غصے سے بولے کہ یہ لڑکی ان کی اپنی ہے اور اسے ان سے کوئی نہیں چھوڑا سکتا ۔
بن سامر ابھی بند چڑھ رہا تھا اس نے کہا کہ یہ اس کی بیوی ہے۔
مسعود اور اس کے ساتھیوں نے خنجر نکال لئے ۔
بن سامر کے دوست خالی ہاتھ تھے ان تینوں مسلمانوں نے ان دونوں سے کہا کہ وہ یہیں بیٹھ جائیں اور اگر ذرا سی بھی حرکت کی تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ وہ بیٹھ گئے مسعود نے اینی کو سامنے کھڑا کردیا۔
اے لڑکی!،،،، مسعود نے اینی سے کہا ۔۔۔ہمیں بتا انھوں نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟
اینی نے انہیں بتایا کہ گزشتہ رات یہ دونوں اسے گھسیٹ کر پرے لے گئے اور دست درازی کی تھی پھر ان کی وہ حرکت سنائی جو وہ بن سامر سے سن چکے تھے۔ آخر میں اس نے بتایا کہ یہاں لاکر یہ دونوں اس کی آبرو ریزی کرتے رہے ہیں۔
مسعود بن سہیل نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا ایک نے کہا کہ اس جرم کی سزا موت سے کم نہیں ہو سکتی۔
یہ دونوں ساتھیوں نے منت سماجت شروع کردی لیکن تینوں مسلمانوں نے پہلے ایک کو پکڑ کر زمین پر پیٹ کے بل گرایا اور پھر اس کی ٹانگیں اور بازو جکڑ لئے ۔ مسعود نے اپنا خنجر اینی کو دیے کر کہا کہ اس کے دل کے مقام پر پوری طاقت سے خنجر مارے پھر اس کا پیٹ چاک کر دے۔
اینی اس قدر غصے میں تھی کہ اس نے خنجر لے کر اس آدمی کو اس طرح خنجر مارے جس طرح مسعود نے بتایا تھا۔ پھر انہوں نے دوسرے آدمی کو گرایا اسے بھی اینی کے ہاتھوں سے قتل کروایا ۔اینی تو غصے میں جیسے پاگل ہو گئی تھی وہ اپنا کام کر چکی تھی لیکن اس نے ان دونوں کو باری باری بڑی تیزی سے سینوں اور پیٹ میں خنجر مارنا شروع کردیے پھر ان کی آنکھوں میں خنجر مارے اگر اسے پکڑ نہ لیتے تو وہ خنجر مارتی ہی چلی جاتی، وہ بن سامر کے ساتھ لپٹ گئی اور بہت روئی۔
اس کام سے فارغ ہو کر انہوں نے دیکھا وہاں تو پانی ہی پانی تھا وہ سب دوڑتے بند سے اترے اور پانی پینے لگے وہاں کھجور کے بہت سے درخت تھے اوپر دیکھا تو درختوں کو پھل لگا ہوا تھا کچھ کھجوریں گہرا بادامی رنگ اختیار گئی تھیں، زیادہ تر ابھی کچی تھیں۔ مسعود اور اس کے دونوں ساتھی ایک ایک درخت پر چڑھ گئے اور کھجوروں کے گُچھے توڑ توڑ کر نیچے پھینکنے لگے پھر وہ نیچے اترے کھجوروں سے ریت صاف کرنے کے لئے کچھ دیر پانی میں ڈالی، اور پھر کھانے لگے، کچھ کچی کھجوریں بھی کھا گئے بھوک نے انہیں بے حال رکھا تھا۔
سورج غروب ہو چلا تھا انہوں نے رات وہیں گزارنے کا فیصلہ کر لیا، بھوک پیاس اور اتنا زیادہ چلنے سے ان کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے تھے، سورج غروب ھو گیا تو مسعود بن سہیل کے ایک ساتھی نے اذان دی پھر مسعود کی امامت میں دونوں ساتھیوں نے نمازمغرب ادا کی۔ بن سامر اور اینی انہیں دیکھتے رہے ،عشاء کے وقت پھر ان میں سے ایک نے اذان دی اور مسعود نے باجماعت نماز پڑھائی ،اور اس کے بعد یہ تینوں اکٹھے ہی لیٹ گئے۔
بن سامر اور اینی بھی ان کے قریب لیٹے تو مسعود نے بن سامر سے کہا کہ وہ میاں بیوی ہیں اس لئے وہ ان سے دور جا کر سوئیں، وہ دونوں اٹھ کر ان سے کچھ دور چلے گئے۔
اینی اس قدر ڈری ہوئی تھی کہ اسے نیند نہیں آ رہی تھی کچھ ایسی ہی کیفیت بن سامر پر بھی طاری تھی۔
کیا ان تینوں پر تمہیں اعتماد ہے؟،،، اینی نے بن سامر سے پوچھا۔
میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔۔۔بن سامر نے جواب دیا ۔۔۔مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میرے پاس اس وقت کوئی ہتھیار نہیں تھا جب میں سمندر میں کودا تھا۔ میں نہتہ ہوں اگر ایسا وقت آن پڑا تو ان سے خنجر چھیننے کی کوشش کروں گا۔
سو نہ جانا بن سامر!،،،، اینی نے بڑے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔
بن سامر پر نیند کا غلبہ ہوا جا رہا تھا لیکن وہ اس کوشش میں تھا کہ وہ نیند پر غالب آجائے اسے احساس تھا کہ اینی نوعمر بھی ہے اور بے حد حسین بھی اگر اس کے اپنے ہم مذہب بھائی نے اینی کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا تو یہ تو مسلمان ہیں ان پر بھروسہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔
وہ دونوں اپنے آپ پر جبر کرکے جاگتے رہے تینوں مسلمان گہری نیند سوئے رہے ،رات آدھی گزر گئی ہوگی کہ نیند نے بن سامر اور اینی کو دبوچ لیا اور وہ گہری نیند سو گئے۔
اچانک ایسی آوازیں بلند ہوئیں جیسے چند آدمی آپس میں لڑ رہے ہوں اور چیخ چلا رہی رہے ہوں۔ بن سامر اور ایینی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے سب سے پہلے انہوں نے مسعود بن سہیل اور اس کے ساتھیوں کو دیکھا وہ اتنی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ جاگے ہی نہیں۔ بن سامر کی خوف زدہ نظریں نخلستان کے بند پر گئی تو چاندنی میں اسے صحرائی لومڑیاں نظر آئیں جو اس کے دوستوں کی لاشوں پر لڑ پڑی تھیں اور ان لاشوں کو کھا رہی تھیں دونوں پھر لیٹ گئے اور سو گئے۔
اب انھیں اذان کی آواز سنائی دی اور وہ جاگ اٹھے انہوں نے دیکھا کہ مسعود کا ایک ساتھی بند پر کھڑا اذان دے رہا ہے اور اس کے ساتھی پانی کے قریب بیٹھے وضو کر رہے تھے۔
سو جاؤ اینی!،،،، بن سامرنے کہا یہ تینوں نماز پڑھیں گے۔
دونوں لیٹ گئے اور پھر گہری نیند میں چلے گئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مسعود نے بن سامر کو جگایا اور کہا کہ چلنے کا وقت ہو گیا ہے اور اگر وہ ان کے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو آجائے۔
میں اکیلا تو کہیں نہیں جاؤں گا۔۔۔ بن سامر نے کہا ۔۔۔تمہاری منزل تک تمہارا ساتھ دوں گا پھر آگے جاؤں گا۔
تمہیں کہاں جانا ہے ؟،،،مسعود نے پوچھا۔
بن سامر نے فوری جواب نہ دیا اینی کی طرف دیکھا پھر سر جھکا لیا اور پھر مسعود کی طرف دیکھا یوں لگتا تھا جیسے اسے مسعود کے سوال کا صحیح جواب معلوم ہی نہیں۔ مسعود نے اپنا سوال دہرایا تو بن سامر نے سر جھکا لیا۔
کیا تمہیں اپنی منزل کا کچھ پتہ نہیں؟،،، مسعود کے ایک ساتھی نے پوچھا.
نہیں !،،،،،بن سامر نے جواب دیا۔۔۔ منزل کا پتہ نہیں اور اپنے مقصد کے متعلق کوئی شک نہیں۔
ہم تمہیں مجبور نہیں کرتے۔۔۔ مسعود نے کہا۔۔۔ اگر چاہو تو اپنا مقصد ہی بتا دو معلوم ہوتا ہے تم اس علاقے سے واقف نہیں اگر تمہیں ہمارے ساتھ کی ضرورت ہے تو ہم تمہیں اپنے ساتھ رکھیں گے اگر نہیں تو ہم تمہیں یہی سے الوداع کہہ دے گے۔
میں تمہارے سلوک سے اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ چاہتا ہوں اپنا مقصد تمہارے سامنے رکھ دوں ،میں بڑا ہی پکا عیسائی ہو عیسائیت اور کسی کی عیسائی کے خلاف میں ذرا سی بھی بات برداشت نہیں کرسکتا، لیکن میرے ان دو دوستوں نے میرے عقیدے کو متزلزل کر ڈالا ہے، یہ دونوں بھی بڑے پکے عیسائی تھے۔ ہمارے دلوں میں دو قوموں کی نفرت بھری ہوئی تھی ایک رومی دوسرے مسلمان ،میں قبطی عیسائی ہوں اور ہمارا پیشوا بنیامین ہے۔
تم شاید بھول گئے ہو ۔۔۔مسعود نے کہا۔۔۔ جہاز میں تم مجھے عیسائی سمجھ کر اپنا یہ مقصد بتا چکے ہو، مجھے یاد آگیا کہ تم شام جا رہے تھے لیکن طوفان نے تمہیں منزل سے بہت دور یہاں لا پھینکا ہے تم شام کے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے جا رہے تھے۔
ہاں!،،،،،، بن سامر نے کہا ۔۔۔۔میں اسی مقصد کے لئے جا رہا تھا لیکن اب نہیں جاؤں گا۔
کیوں!،،،،، مسعود نے پوچھا ۔۔۔اب کیوں نہیں جاؤگے اگر تمہیں یہ خطرہ نظر آ رہا ہے کہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے تو میں تمھیں اس خطرے سے آزاد کرتا ہوں اپنی بیوی کو ساتھ لو اور چلے جاؤ ،ہم مدینہ جارہے تھے کہ طوفان نے جہاز کو ہماری بندرگاہ تک نہ پہنچنے دیا اور یہاں لے آیا، ہمارے ساتھ مدینہ چلو اور وہاں سے میں تمہیں شام کے راستے پر ڈال دوں گا پہلے دیکھوں گا کہ تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے یا نہیں۔
وہاں سے مدینہ بہت دور تھا مسعود اور اس کے ساتھی جاسوس تھے اور انھیں ایسی تربیت دی گئی تھی کہ رات کو ستاروں اور دن کو سورج دیکھ کر اپنی منزل کی سمت معلوم کرلیتے تھے اس کے علاوہ وہ صحرا کے بھیدی تھے۔
بن سامر پر دراصل بددلی چھا گئی تھی جس سے اس کے ارادے اور مذہب کے ولولے بھی متاثر ہوئے تھے، مسعود اور اس کے ساتھی غالباً اس کی یہ جذباتی کیفیت سمجھ گئے تھے ۔اس لئے انہوں نے اس کا ان کے ساتھ چلنے پر اعتراض نہ کیا ۔ اپنا ٹھکانہ تو بتا ہی چکا تھا ۔مسعود نے اسے اپنے ساتھ لے لیا
سفر کی اگلی رات آئی تو یہ بھی آسمان تلے بسر کرنی پڑی۔
بن سامر اینی کے ساتھ ان تینوں سے الگ لیٹ کر سویا ، وہ رات بھی دونوں نے ڈرتے ڈرتے گزاری انہیں شاید ابھی یقین نہیں آیا تھا کہ کوئی اتنے اونچے کردار کا شخص بھی ہوسکتا ہے جو ایسی خوبصورت اور دلنشین لڑکی کو نظرانداز کردے۔ بن سامرکی مجبوری تو یہی تھی کہ وہ تنہا تھا اور اس کے ہمسفر تین آدمی تھے اس کا خوف بجا تھا لیکن وہ رات بھی خیریت سے گزر گئی۔
اس کے بعد جو رات آئی وہ ایک آبادی کے قریب گزری وہاں سے انہیں کھانے پینے کا سامان مل گیا جس سے ان کا باقی سفر آسان ہو گیا۔
اس کے بعد دو اور راتیں آئیں اور وہ بھی کھلے آسمان تلے گزری۔ بن سامر کے دل سے اب خوف نکل گیا تھا وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ تینوں اینی کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں رکھتے وہ ہر نماز باجماعت پڑھتے اور مسعود بن سہیل مکی امامت کرتا تھا۔
مسعود کو زیادہ دلچسپی بن سامر کے ساتھ تھی مسعود اسے کریدتا رہتا اور اس کے سینے میں چھپی ہوئی باتیں نکلوانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ بن سامر اب مصر مصر کے قبطی عیسائیوں اور رومی فوج کے متعلق اس طرح باتیں کرنے لگا تھا جیسے وہ مسلمان ہو اور چاہتا ہو کہ مصر پر مسلمان فوج کشی کریں، اس نے مسعود کو ایک روز صاف الفاظ میں بتایا کہ رومی فوج میں اب وہ تاب و طاقت نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی، شام کی طویل جنگ اور شکستوں اور پسپائیوں نے اس فوج کا دم خم توڑ دیا تھا۔ بن سامر نے یہ بھی بتایا کہ اس سے مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ یہ فوج فوراً ہتھیار ڈال دے گی اس کے جرنیل اس فوج کو ایک بار پھر پہلے والی رومی فوج بنا رہے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی خوبیاں اور اپنی فوج کی خامیاں دیکھ لی تھیں۔
آخر وہ مدینہ پہنچ گئے بن سامر کے دل میں اب کوئی ایسی بات نہیں رہ گئی تھی جو اس نے ان مجاہدین سے چھپائی ہو ،مدینہ پہنچے تو مسعود نے اس سے پوچھا کہ اب وہ کہاں جائے گا؟
کہیں بھی نہیں !،،،،،،بن سامر نے جواب دیا میں اپنی منزل پر پہنچ گیا ہوں میں یہاں اس ارادے سے آیا ھوں کے مجھے اور اینی کو اسلام میں داخل کرلیں۔
پھر سوچ لو۔۔۔۔ مسعود نے کہا۔۔۔۔ تم پر کوئی جبر نہیں اگر تم قبول اسلام نہیں کرو گے تو بھی میں تمہیں اس ٹھکانے تک پہنچادوں گا جہاں تم جاننا چاہو گے۔
مسعود بھائی!،،،،،، بن سامر نے کہا۔۔۔۔ دراصل میں تم تینوں کے کردار سے متاثر ہوا ہوں ،میں نے سنا تھا کہ عرب کے لوگ جاہلیت میں پڑے ہوئے تھے اسلام نے آکر عربوں کو ذلت اور پستیوں سے نکال کر انسانیت کے اونچے مقام تک پہنچایا جو میں نے دیکھ لیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اینی اکیلی تمھارے ساتھ ہوتی تو بھی تم اس کے ساتھ وہ سلوک نہ کرتے جو میرے ہم مذہب دوستوں نے کیا ہے۔
مسعود اور اس کے دونوں ساتھی بن سامر اور اینی کو اپنے سالار کے پاس لے گئے اور اسے ان دونوں کے متعلق ساری باتیں اور پھر بن سامر کی خواہش بتائی۔ اس دور میں سالار امامت کے فرائض بھی سرانجام دیا کرتے تھے، سالار نے بن سامر اور اینی کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا اور اسے مسعود کے ہی حوالے کردیا کہ وہ اسے اسلام سے واقفیت کرا دے۔
بن سامر نے مصر اور رومی فوج اور قبطی عیسائیوں کے رویے اور ارادوں کی جو باتیں سنائی تھی وہ مسعود نے اس سالار کو سنائی ، یہ بڑی قیمتی باتیں تھیں جو ظاہر ہے امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ تک پہنچائی گئی ہونگی۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاسوسی کا بڑا ہی عقلمند اور قابل اعتماد نظام موجود تھا ۔ایسا کہنا غلط ہو گا کہ بن سامر اتفاق سے اپنے جاسوسوں کو نہ ملتا وہ اپنے عیسائی دوستوں سے بد دل نہ ہوتا تو اس کے سینے سے کوئی راز نہ ہی نکلتا اور حضرت عمر کو پتا ہی نہ چل سکتا تھا کہ مصر کے حالات کیا ہیں اور ہرقل کے ارادے کیا۔ مسعود اور اس کے دونوں ساتھی مصر میں جاسوسی کے لیے تو گئے تھے، اس سے پہلے بھی جاسوسوں کو وہاں بھیجا گیا تھا اور سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے طور پر مصر جاسوس بھیجے تھے۔ کیونکہ مصر کی فتح ان کے دل و دماغ پر ہروقت غالب رہتی تھی اور انہیں پوری امید تھی کہ ایک نہ ایک دن امیرالمومنین انہیں مصر پر فوج کشی کی اجازت دے ہی دیں گے۔
طاعون کی وباء ختم ہوچکی تھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ وباء مجاہدین کے لشکر کے ایک خاص حصے کو کھا گئی تھی۔ لشکر کی نفری پوری کی جا رہی تھی لیکن عمرو بن عاص بے تاب ہوئے جا رہے تھے ، وقت بڑی تیزی سے گزرتا جا رہا تھا امیرالمومنین کے ساتھ انہوں نے کہا تھا ، پہلے تفصیلی گفتگو کی تھی اور ان پر واضح کیا تھا کہ مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنا کیوں ضروری ہے۔ وباء ختم ہو گئی تو عمرو بن عاص نے حضرت عمر کی طرف پیغام بھیجا جس میں اجازت چاہی کہ وہ مصر کی طرف پیش قدمی کریں؟
انہوں نے حضرت عمر کو لکھا کہ مصر سے جو اطلاع مل رہی ہیں ان سے یہ خطرہ نظر آ رہا ہے کہ ہم نے مزید وقت ضائع کیا تو ہرقل شام پر فوج کشی کر دے گا یا تازہ اطلاعات کے مطابق شام کے عیسائی قبائل کو بغاوت پر اکسایا جائے گا اگر بغاوت ہو گئی اور مجاہدین کے لشکر بغاوت ختم کرنے میں مصروف ہوگئے تو ہرقل یقیناً حملہ کرے گا اور اس کا انجام شکست ہی ہو سکتا ہے۔
تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عمر مصر پر حملے کے حق میں تھے، لیکن وہ اپنے مصاحبوں اور صحابہ کرام سے صلح مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ صحابہ اور دوسرے مصاحبین میں کچھ تو اس کے حق میں سے اور زیادہ تر اس کے خلاف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مصر پر فوج کشی ملتوی ہوتی رہی اور قحط نے پھر وباء نے آن لیا۔
اب عمرو بن عاص نے پھر یہی مسئلہ چھیڑ دیا تو حضرت عمر نے پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے اس پر غور کیا انہیں بھی مصر کے تازہ حالات ہرقل کے ارادے اور قبطی عیسائیوں کے رویے کی مکمل اور تفصیلی اطلاعات مل چکی تھیں۔ عمرو بن عاص نے جو دلیل پیش کی اور جس خطرے کا اظہار کیا تھا یہ پہلے ہی حضرت عمر کو پریشان کیے ہوئے تھا ۔آخر انہوں نے عمرو بن عاص کو جواب دیا پیغام لے جانے والے قاصد کا نام شریک بن عبداللہ تھا اس وقت عمرو بن عاص کے سریان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے قاصید آ پہنچا اور پیغام دیا اس میں حضرت عمر نے لکھا تھا کہ طاعون نے ہمارے لشکروں کی تعداد کم کر دی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں سے کہو کہ وہ تمھارے لشکر میں شامل ہو جائیں اور مصر کی طرف پیش قدمی کریں،،،،،، اس دور میں لشکر اسی طرح رضاکارانہ طور پر تیار کیے جاتے تھے۔ حضرت عمر نے آگے چل کر لشکریوں کو باقاعدہ فوجی بنا دیا اور ان کی تنخواہیں مقرر کر دی تھی۔
عمرو بن عاص اسی حکم کے منتظر تھے انہوں نے محاصرہ معاویہ بن ابی سفیان کے سپرد کیا اور بیت المقدس جاپہنچے۔ وہاں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے تھے اس لیے انہوں نے جلدی جلدی میں لشکر اکٹھا کر لیا اور کچھ نفری پہلے لشکر سے لے لی اور کوچ کر گئے۔
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص کے ساتھ جو لشکر تھا اس کی تعداد ساڑھے تین ہزار تھی اور بعض نے تعداد چار ہزار لکھی ہے۔ اس لشکر میں گھوڑسوار دستے زیادہ تھے۔
لشکر کی تیاری سے پہلے ہی عمرو بن عاص نے حضرت عمر کے قاصد کو جوابی پیغام دے دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ وہ فلسطین اور شام سے کمک نہیں لینا چاہتے تاکہ یہ علاقے کمزور نہ ہو جائیں ۔ ان کے لیے کمک مدینہ سے بھیجی جائے جو انھیں مصر کے راستے میں ملے انہیں پوری امید تھی کہ مدینہ سے انہیں اچھی خاصی کمک مل جائے گی۔
وہ جانتے تھے کہ جو لشکر وہ ساتھ لے جا رہے ہیں یہ دیار غیر میں جاکر لڑنے کے لئے کافی نہیں۔
عمرو بن عاص نے کوچ میں جلدبازی اس لئے کی تھی کہ انہیں یہ خبر مل گئی تھی کہ مدینہ میں اور ایوان خلافت میں جو حضرات مصر پر فوج کشی کے خلاف تھے وہ پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں ۔اور حضرت عمر کا گھیراؤ کرکے انھیں قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ اپنا حکم واپس لے لیں۔ان میں سرفہرست حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے وہ کوئی معمولی حیثیت اور عام سی عقل و دانش کے فرد نہیں تھے، ان کا ایک مقام تھا جسے حضرت عمر بڑے ہی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے عمرو بن عاص کو یہ خدشہ نظر آیا کہ ایسا نہ ہو کہ امیرالمومنین ان سے متاثر ہو کر مصر پر فوج کشی ملتوی کردیں۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ عمرو بن عاص کو مدینہ کی یہ خبر کس نے دی تھی غالب خیال یہ ہے کہ یہ خبر دینے والا حضرت عمر کا قاصد شریک بن عبداللہ ہے ،مدینہ سے وہی آیا تھا اور اسے بہتر معلوم تھا کہ ایوان میں کیا ہو رہا ہے۔
معروف مؤرخ ابن عبد الحکم چند ایک مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کے عمرو بن عاص کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا انہیں جو خبر ملی تھی وہ صحیح تھی حضرت عثمان بن عفان کو پتہ چلا تو وہ دوڑے دوڑے حضرت عمر کے ہاں پہنچے اور ان سے تصدیق کرائی کی انہوں نے واقعی یہ حکم عمر بن عاص کو دے دیا ہے۔
خدا کی قسم امیرالمومنین !،،،،،تو ایسی غلطی کرنے والا آدمی تو نہ تھا،،،، حضرت عثمان نے کہا ،،،،،تیرا حکم غلط ہے اور جسے تو نے حکم بھیجا ہے وہ آدمی بھی ٹھیک نہیں۔ حضرت عمر نے چونک کر حضرت عثمان کو ایسی نظروں سے دیکھا جن میں حیرت تھی اور یہ سوال بھی کہ عمرو بن عاص جیسے سپہ سالار کو کہہ رہے ہیں کہ ٹھیک آدمی نہیں۔
خدا کی قسم عمر !،،،،،حضرت عثمان نے کہا،،،، عمرو بن عاص سے میری کوئی عداوت نہیں وہ نڈر اور بے دھڑک خطرہ مول لینے والا سالار ہے ،خالد بن ولید کی طرح وہ اپنے آپ کو اور پورے لشکر کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ یہ تو ایک وجہ ہے کہ اسے اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عمرو دولت مند خاندان کا فرد ہے اس میں اقتدار کی طلب موجود ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ مصر کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں کیا گیا اور وہ جو لشکر لے کر گیا ہے وہ کافی نہیں ،اس لشکر میں وہ مجاہدین بھی ہیں جنہوں نے فتح پر فتح حاصل کر کے رومیوں کو شام سے بےدخل کیا ہے اب تو نے اور عمرو بن عاص نے ان فاتحین کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔
حضرت عمر ایسی شش وپنج میں پڑ گئے جو ان کی فطرت کے مطابق نہیں تھی وہ تو بڑے ہی صاف ذہن سے فیصلہ کیا کرتے تھے لیکن انھیں یہ سوچ پریشان کرنے لگی کہ حضرت عثمان جیسی شخصیت کی رائے نہ مانیں تو یہ ناراض ہو جائیں گے ۔حضرت عثمان کے علاوہ انھیں کی حیثیت کے چند حضرات اور بھی تھے جو مصر پر فوج کشی کو ایک خطرہ سمجھ رہے تھے ۔
حضرت عمر پریشان ہو گئے ایسی صورتحال پہلی بار پیدا ہوئی تھی کہ ان کی شدید مخالفت ہوئی اور انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ انہوں نے ان تمام حضرات سے آخری بار صلح مشورہ کیے بغیر یہ حکم بھیج دیا تھا۔
حضرت عمر نے بڑی گہری غوروخوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ عمرو بن عاص کو واپس بلا لیا جائے ۔انہوں نے تاریخ کے مطابق پیغام میں یہ الفاظ لکھے۔ اگر تجھے میرا یہ خط مصر کی سرحد پار کرنے سے پہلے مل جائے تو وہیں سے واپس بیت المقدس چلے آؤ ۔اور اگر تم مصر کی سرحد میں داخل ہو چکے ہوں تو پیشقدمی جاری رکھو میں تمہارے لئے کمک بھیج دوں گا۔
حضرت عمر نے یہ پیغام اپنے قاصد شریک بن عبداللہ کو دیا اور کہا کہ وہ کم سے کم رکے اور جس قدر تیز جاسکتاہے جائے اور پیغام عمرو بن عاص تک پہنچا دے۔
جس وقت قاصد عمرو بن عاص تک پہنچا وہ رفح کے مقام پر تھے، انہوں نے پیش قدمی بڑی سست رفتار سے کی تھی اور وہ سمندر کے کنارے کنارے جا رہے تھے اس سست رفتاری کی وجہ یہ تھی کہ عمرو بن عاص مدینہ کی کمک کے منتظر تھے، جو انہیں یقین تھا کہ آجائے گی کمک کے آ جانے کے بعد وہ پیشقدمی کی رفتار تیز کرنا چاہتے تھے۔
یہاں تاریخ میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جب قاصد عمرو بن عاص تک پہنچا اور اس نے بتایا کہ امیرالمومنین کا پیغام لایا ہے تو عمرو بن عاص نے پیغام تو لے لیا پڑھا نہیں اس کی بجائے وہ چلتے گئے اور قاصد سے مدینہ کی باتیں اور خبریں پوچھتے رہے آخر وہ رفح سے بہت آگے نکل گئے اور ایک گاؤں آیا عمر بن عاص نے گاؤں والے سے پوچھا کہ یہ کس ملک کا گاؤں ہے انہوں نے بتایا کہ مصر کا گاؤں ہے۔ عمرو بن عاص نے اب پیغام کھول کر پڑھا اپنے ماتحت سالاروں کو بلا کر یہ پیغام سنایا اور کہا کہ امیرالمومنین نے یہ حکم دیا ہے کہ مصر میں داخل ہو چکے ہوں تو پیشقدمی جاری رکھو تم سب دیکھ رہے ہو کہ ہم مصر میں داخل ہوچکے ہیں ،لہذا پیشقدمی جاری رہے گی۔
انہوں نے قاصد کو پیغام کا جواب لکھ کر دیا کہ ان کا لشکر مصر کی سرحد سے آگے نکل گیا ہے اس لئے کمک فوراً بھیجی جائے انہوں نے قاصد کو ہی گواہ بنا لیا کہ لشکر مصر کی سرحد میں داخل ہو چکا تھا۔
عمرو بن عاص نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ کمک کی بجائے قاصد آیا ہے تو وہ سمجھ گئے کہ یہ واپسی کا حکم آیا ہے انہیں حضرت عمررضی اللہ عنی کی فطرت اور ان کے احکام کا اندازہ تھا۔ کسی طرح انہوں نے محسوس کرلیا کہ حضرت عمر ایسے نہیں کہ ایک حکم دے کر اس کی منسوخی کا حکم بھی بھیج دیں ،انہوں نے ضرور لکھا ہوگا کہ مصر میں داخل ہوگئے ہو تو پھر پیچھے نہ آنا آگے ہی بڑھنا عمرو بن عاص کا یہ قیاس صحیح نکلا۔
اس سے آگے ان کے سامنے مصر کا ایک مشہور مقام عریش تھا یہ درمیانہ درجے کا شہر تھا۔ عمرو بن عاص نے اس شہر کو محاصرے میں لینا چاہا لیکن وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں رومی فوج کا ایک سپاہی بھی نہیں مجاہدین نے شہر میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کر لیا۔
اس سے آگے ستر میل دور مصر کا اتنا ہی بڑا ایک اور شہر فرما تھا ،عمرو بن عاص بہت ہی خوش تھے کہ انہوں نے رومیوں کو بے خبری میں ان لیا ہے اور وہ اگلا شہر بھی اسی طرح فتح کرلیں گے ،انہوں نے ایسی پریشانی کا اظہار کیا ہی نہیں کہ کمک ابھی نہیں پہنچی لیکن یہ عمرو بن عاص کی خوش فہمی تھی ۔ ان کا لشکر جونہی مصر کی سرحد میں داخل ہوا تھا مصر میں مقوقس اور جنریل اطربون کو اطلاع مل گئی تھی۔
مصر کے حکمران مقوقس نے یہ بہتر سمجھا کے مسلمانوں کے لشکر کو اور آگے آنے دیا جائے اس نے اطربون سے مشورہ کیا کہ عریش سے فرما تک ستر میل لمبا چوڑا صحرا ہے مسلمانوں کو صحرا میں شکست نہیں دی جاسکتی انہیں آگے آنے دیا جائے۔
اطربون نے مقوقس کا مشورہ قبول کر لیا اور بڑی تیزی سے یہ کارروائی کی کہ عریش سے اپنی تمام فوج نکال کر ستر میل پیچھے فرما کے شہر میں اکٹھا کر لی اور اس شہر کا دفاع اور زیادہ مستحکم کرنا شروع کردیا۔
عمرو بن عاص اس خوش فہمی میں ناکافی لشکر کے ساتھ بڑھے چلے جارہے تھے کہ اگلے شہر میں بھی مزاحمت نہیں ملے گی۔ اور وہ امیر المومنین کے مخالفین کو غلط ثابت کر دیں گے مگر انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ رومیوں نے ان کے لیے پھندا تیار کر رکھا ہے۔
عمرو بن عاص کا لشکر مصر کے شہر فرما کی طرف بڑھا جا رہا تھا انہوں نے مصر کا ایک شہر عریش بغیر مزاحمت کے لے لیا تھا وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تو تھے کہ اگلا شہر فرما بھی اسی طرح آسانی سے لے لیں گے۔ لیکن وہ بہت ہی محتاط ہو کر پیش قدمی کر رہے تھے ۔احتیاط تو لازمی شرط تھی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے ساتھ لشکر تھا ہی کیا تین ساڑھے تین ہزار نفری ان کے ساتھ تھی۔ پیش قدمی کی رفتار ذرا کم اس امید پر رکھی کہ مدینہ سے کمک پہنچ جائے۔ پھر ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عمرو بن عاص جیسے ہوش مند اور تجربہ کار سالار یہ عنصر تو نظرانداز کر ہی نہیں سکتے تھے کہ رومی فوج مقابلے میں آئے گی ہی نہیں۔
وہ سب صحرائی علاقہ تھا مجاہدین اسلام کا لشکر اونٹوں کی طرح بڑے آرام سے اور اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اس کے نیچے ہموار اور بڑی پکی زمین ہو ۔
رومی حکمران مقوقس نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ صحرا میں مسلمانوں کو شکست دینا کوئی آسان کام نہیں۔ پہلا پڑاؤ کیا گیا مدینہ سے کمک تو نہ آئی حلب سے حدید بن مومن خزرج اپنی بیوی شارینا کے ساتھ پہنچا اور سپہ سالار عمرو بن عاص سے ملا۔
اگلے روز مدینہ سے ایک اور تجربے کا جاسوس مسعود بن سہیل مکی پہنچ گیا اس کے ساتھ فہد بن سامر تھا اور اس کی بیوی اینی بھی اس کے ساتھ تھی۔ پچھلے باب میں بیان ہوچکا ہے کہ بن سامر اور اینی نے اسلام قبول کیا تھا تو بن سامر کا نام فہد بن سامر رکھا گیا تھا ،لیکن اینی نے اپنا نام اینی ہی پسند کیا تھا۔
مسعود بن سہیل مکی کو مدینہ سے امیر المومنین نے بھیجا تھا وہ مصر سے اچھی طرح واقف تھا اور جاسوسی کے لئے وہاں کچھ عرصہ گزار آیا تھا ،فہد بن سامر مدینہ میں ہی تھا اور وہ رضاکارانہ مسعود کے ساتھ چلا گیا تھا اسے کسی سے حکم لینے کی ضرورت نہیں تھی اینی پیچھے اکیلی نہیں رہ سکتی تھی اس لیے وہ بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔ فہد بن سامر کو قبول اسلام کے بعد مدینہ میں رکھا گیا اور اس کا کچھ وظیفہ مقرر کردیا گیا تھا لیکن ابھی اسے کوئی کام نہیں دیا جارہا تھا کیونکہ ابھی دیکھنا تھا کہ وہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں ،وہ فراغت سے بہت ہی پریشان تھا اور اس نے کئی بار کہا تھا کہ وہ رومیوں کے خلاف میدان جنگ میں جانا چاہتا ہے اور اگر اسے جاسوسی اور تخریب کاری کا کام دیا جائے تو وہ کامیابی سے کرسکتا ہے۔ مصر سے تو وہ بہت ہی اچھی طرح واقف تھا اور جس علاقے میں سپہ سالار عمرو بن عاص جا رہے تھے اس سے تو وہ پوری طرح واقف تھا ۔اس نے مسعود کو جاتے دیکھا اور کسی کو بتائے بغیر اینی کو ساتھ لیا اور مسعود کے ساتھ چل پڑا وہاں گھوڑوں کی اور دیگر سازوسامان کی کمی نہیں تھی اس نے دو گھوڑے لے لیے اور اس طرح مسعود، فہد ،اور اینی مدینہ سے رخصت ہوگئے ۔انھوں نے کم سے کم پڑاؤ کیا اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس جا پہنچے۔
کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ مسعود اور فہد مدینہ سے عمرو بن عاص کے پاس گئے تھے تو کیا وہ کوئی ایسی خبر یا اطلاع لے کر گئے تھے یا نہیں کہ مدینہ سے کمک آرہی ہے یا نہیں ۔
تاریخ کی تحریروں سے اور قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ فرما تک پہنچنے تک مدینہ سے کمک نہیں آئی تھی اور اگر نہیں آئی تھی تو اس کی کوئی وجہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص ایک امیر تاجر خاندان کے فرد تھے قبول اسلام سے پہلے وہ اکثر تجارت کے سلسلے میں مصر جاتے رہتے تھے اور یہ واقعہ تو پہلے بیان ہوچکا ہے کہ انھوں نے ایک یہودی کی جان بچائی تھی اور وہ عمرو بن عاص کو مصر کے دارالحکومت اسکندریہ لے گیا تھا، اسکندریہ کی شان و شوکت جاہ و جلال اور شاہانہ رونقیں دیکھ کر عمرو بن عاص ایسے متاثر ہوئے تھے کہ مصر ان کے ذہن میں نقش ہو کے رہ گیا تھا ۔
وہ مصر سے اور خصوصا شمالی مصر سے سے تو کلی واقفیت رکھتے تھے۔ مصر کے لوگوں کو بھی وہ جانتے تھے پھر انہوں نے اسلام قبول کیا اور شام اور فلسطین میں فن حرب و ضرب اور سپہ سالاری کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور پھر امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو قائل کرنے لگے کہ مصر ہر قیمت پر سلطنت اسلامیہ میں شامل ہونا چاہیے اور مصر پر فوج کشی کی قیادت انھیں دی جائے۔ آخر انھیں اجازت مل گئی۔ وہ مصر سے واقف تھے لیکن پھر بھی انہیں جاسوسوں کی ضرورت تھی مصر پر فوج کشی سے پہلے وہ اپنے طور پر مصر جاسوس بھیجتے رہتے تھے۔ اور انہوں نے قبطی عیسائیوں کے اسقف اعظم بنیامین کے ساتھ بھی اپنے جاسوسوں کے ذریعے رابطہ قائم کر لیا تھا۔
اب مسعود اور حدید جیسے جاسوس جو بڑے ہی دلیر چھاپہ اور تخریب کار بھی تھے ان تک پہنچ گئے تو انہیں جاسوسی کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوتا نظر آنے لگا۔
عمرو بن عاص ان دونوں کی ذہانت اور کارکردگی سے پوری طرح آشنا تھے۔
فہد بن سامر ان کے لئے بالکل ہی نیا آدمی تھا مسعود نے انھیں فہد کے متعلق بتایا اور فہد نے اپنے جذبات کا اظہار کیا تو عمرو بن عاص مطمئن ہوگئے ۔
وہ دعویٰ کرتا تھا کہ جتنی کامیابی جاسوسی اور تخریب کاری وہ کرسکتا ہے اتنا کوئی عربی جاسوس نہیں کرسکتا
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے ماتحت سالاروں کو پاس بٹھا کر ان تینوں جاسوسوں کو صورتحال تفصیل سے بتائی انہوں نے کہا۔۔۔ کہ فرما تک ان کے جاسوس ہو آئے ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ فرما میں رومی فوج کی تعداد ہمارے لشکر سے دگنی ہے عمرو بن عاص نے مزید وضاحت یا تصدیق کے لئے مسعود بن سہیل مکی کو فرما بھیج دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ دو جاسوس بنیامین کے پاس بھی چلے گئے ہیں اور بنیامین سے یہ بات کریں گے کہ قبطی عیسائی مسلمانوں کے خلاف نہ لڑیں اور درپردہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کریں۔
تم دیکھ رہے ہو ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ میرے ساتھ لشکر کتنا تھوڑا ہے محاصرے کے لیے میرے پاس سامان بھی پورا نہیں پھر بھی میں اتنا ہی لشکر لے کر اتنی دور آ گیا ہوں اور کمک ابھی پہنچی نہیں میں نے اپنے لئے یہ مشکل پیدا کر لی ہے کہ خود ہی امیر المومنین سے فوج کشی کی اجازت مانگی تھی اور انہیں قائل کر لیا تھا میں ہر قیمت پر کامیاب ہونا چاہتا ہوں۔
ہمیں کامیاب ہونا ہے۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔۔۔اگر ہم ناکام رہے تو صرف ہمیں شرمندگی کا سامنا نہیں ہوگا ،بلکہ امیرالمومنین اپنے ان مصاحبوں کے سامنے شرمسار ہوں گے جو ابھی تک انھیں روک رہے ہیں کہ مصر پر ابھی فوج کشی نہ کریں ورنہ نقصان اٹھائیں گے۔
مصر کی فتح اور شکست میرے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا۔۔۔ اگر میں ناکام ہوگیا تو پھر میں زندہ مدینہ میں داخل نہیں ہوگا زندہ وہاں چلاگیا تو مصر پر حملے کے مخالفین کا سامنا نہیں کرسکوں گا جن میں بزرگ صحابی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں وہ کہیں گے کہ ہم نے تمھیں روکا نہیں تھا کہ ایسا نہ کرو!،،،،،،،، تم سب دیکھ رہے ہو کہ ہم اتنی دور نکل آئے ہیں کہ ہمارے پاس رسد کا کوئی انتظام نہیں میں اللہ کے نام پر آیا ہوں اور اس یقین کے ساتھ آیا ہوں کہ اللہ مدد کرے گا۔ شرط یہ ہے کہ ارادہ مضبوط اور نیک ہو ہمارے لئے کوئی نہ کوئی راستہ کھل جائے گا۔
کیا آپ نے کوئی راستہ سوچا ہے۔۔۔ فہد بن سامر نے پوچھا۔
ہاں سوچا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔اور یہ راستہ تم اور حدید کھول سکتے ہو سب سے پہلے ہمیں رسد چاہیے اناج اور مویشی یہ ہم اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ لشکر میں سے کچھ نفری اس علاقے میں بھیجی جائے جہاں اناج کے ذخیرے موجود ہیں یہ نفری ٹولیوں میں بٹ کر ہر اس گاؤں پر حملہ کرے جہاں اناج اور مویشی موجود ہیں صرف اناج اور مویشی لائے جائیں لیکن اس طرح میرے لشکر کی نفری کم ہوجائے گی۔
پھر دعا کریں کمک آ جائے۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔۔۔کہ انتظار کر لیا جائے۔
میں انتظار نہ کرو تو بہتر ہے۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا ۔۔۔اب جب کہ ہمارے دشمن کو پتہ چل چکا ہے کہ ہم اس کے ملک میں داخل ہو کر ایک شہر لے بھی چکے ہیں تو وہ کیل کانٹے سے لیس ہوکر ہمارے مقابلے میں آئے گا۔ ہمارا انتظار دشمن کو تیاری کا بہت وقت دے دے گا میں ایک اور ذریعہ پیدا کرسکتا ہوں۔
معروف یوروپی تاریخ نویس بٹلر نے یہ ذریعہ تفصیل سے لکھا ہے اور مسلمان تاریخ دانوں نے بھی اسے اچھی طرح واضح کیا ہے۔
ذریعہ یہ تھا کہ جہاں یہ صحرا ختم ہونا شروع ہوتا تھا وہاں سے سبزہ زار کا آغاز ہوتا تھا اس درمیانی علاقے میں آبادیوں سے دور دور بدو قبائل رہتے تھے جو کسی حد تک خانہ بدوش تھے وہ ظاہری طور پر عیسائی تھے لیکن عیسائیت میں انہوں نے کچھ اپنے عقائد اور توہمات شامل کر رکھے تھے۔ ان کی اپنی ایک معاشرت تھی اور ان کے متعلق کوئی شک و شبہ نہ تھا کہ وہ خونخوار قسم کے جنگجو تھے اور فن نے حرب و ضرب کو بھی سمجھتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے یوں سوچا تھا کہ یہ بدو قبائل ہاتھ میں آ جائیں تو انھیں ساتھ ملا کر اناج اور مویشیوں کی فراہمی کا کام ان کے سپرد کیا جائے تو وہ خوش اسلوبی سے کر لیں گے ۔
مویشیوں سے مراد بھیڑ بکری گائے اور اونٹ تھا انہیں ذبح کر کے لشکر کو کھلانا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے جوں ہی ان بدو قبائل کا ذکر کیا فہد بن سامر چونک پڑا اور ایک ہاتھ اٹھا کر سپہ سالار کو چپ کرا دیا لگتا تھا کہ اسے کوئی بات یاد آ گئی ہے۔
سپہ سالار!،،،،، فہد بن سامر نے کہا۔۔۔۔ آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ ارادہ نیک ہو اور اس میں خوشنودی اللہ کی ہو تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے میں رومی فوج میں ان علاقوں میں رہا ہو اور ان لوگوں کے رسم و رواج اور مذہبی عقائد سے واقف ہوں پانچ دنوں بعد چاند کی تیسری تاریخ ہوگی اس موسم میں سال میں ایک بار چاند کی تیسری تاریخ کی رات یہ لوگ ایک تقریب منایا کرتے ہیں میں اور حدید اس رات وہاں جائیں گے۔
مقوقس مقوقس اور رومیوں کا مشہور و معروف جرنیل اطربون اسکندریہ میں تھا انہیں ان کے جاسوس روزبروز کی اطلاع پہنچا رہے تھے۔ جاسوس نے انہیں بتا دیا تھا کہ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے اور کمک کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔
مقوقس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لشکر کو تھوڑی سی لڑائی میں ہی ختم کر دے گا اور یہ لشکر لڑائی سے پہلے ہی بھوک سے مر جائے گا، اور کہے گا کہ کھانے کے لیے کچھ دے دو۔
اس کے جاسوسوں نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ رسد بہت کم ہے جو فرما پہنچنے تک پوری نہیں ہوگی، مقوقس نے یہ اطلاع ملتے ہی ان دیہاتی علاقوں میں جہاں سے کھانے کے لئے اناج اور مویشیوں کی فراہمی ہوتی تھی اپنی فوج اس حکم کے ساتھ بھیج دی تھی کہ ہر گاؤں میں فوج موجود رہے اور مسلمان اگر اناج کی لوٹ مار کرکے لے آئے تو انھیں وہیں ختم کر دیں اس طرح مقوقس اور اطربون نے مسلمانوں کو بھوکا مارنے کا پورا پورا انتظام کر لیا تھا۔
مقوقس نے ایک حکم تو پہلے ہی دے دیا تھا جس کے تحت عریش سے ساری رومی فوج نکل آئی تھی اور فرما چلی گئی تھی ،مقوقس نے یہ اہتمام اس خیال سے کیا تھا کہ مسلمان اور آگے چلے آئے اور راستہ اتنا لمبا ہو جائے کہ ان تک کمک اور رسد بروقت پہنچ ہی نہ سکے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کے لیے بڑی ہی خطرناک اور روح کش صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ انہوں نے مدینہ کو ایک قاصد اس پیغام کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ کمک جس قدر جلدی ہو سکے بھیج دی جائے اور وہ کمک کا انتظار نہیں کریں گے۔
مسعود بن سہیل مکی شتر بانوں کے بھیس میں فرما چلا گیا تھا اور واپس بھی آگیا تھا وہ اونٹ پر گیا تھا صحرائی علاقے میں اونٹ کی رفتار بہت ہی تیز تھی وہ سپہ سالار کے لیے یہ خبر لایا کہ مقوقس اور اطربون خود فرما میں نہیں آئیں گے اور انہوں نے اپنی فوج کو یہ حکم بھیجا ہے کہ محاصرے میں نہیں رہنا ہے بلکہ بار بار باہر نکل کر مسلمانوں پر حملے کرنا تاکہ ان کا جانی نقصان ہوتا رہے۔ مقوقس نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا جو بھی جانی نقصان ہو گا اسے وہ پورا نہیں کر سکیں گے۔
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فرما شہر کے متعلق کچھ بات ہوجائے، فرما مصر کا ایک مشہور شہر تھا فرعونوں کے زمانے میں اس کا نام پلوز تھا زمانے گزرتے گئے اور مصر قبطیوں کے زیر تسلط آ گیا تو پلوز کا نام پرمون رکھ دیا گیا پھر آگے چل کر کسی دور میں اس کا نام فرما رکھ دیا گیا۔
جس علاقے میں فرما واقعہ تھا وہاں دریائے نیل جاکر ساتھ شاخوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ ایک شاخ کا نام جسے اس وقت نہر کہا جاتا تھا پلوزی تھا۔ اسی لئے اس شہر کا نام پلوز رکھا گیا تھا۔ اسی طرح ہر شاخ کا ایک نام تھا ان شاخوں کی تشریح ضروری معلوم نہیں ہوتی ضروری بات ذہن میں رکھنے والی یہ ہے کہ یہ تمام علاقہ سرسبز اور زرخیز تھا اور یہ بحیرہ روم کے تقریبا کنارے پر تھا ۔آج بھی یہ علاقہ سرسبزوشاداب ہے اور وہاں پھلوں کے بھی انداز باغات ہیں اور اسی وجہ سے یہ علاقہ اس وقت بھی گنجان آباد تھا اور آسودہ حال بھی تھا لوگوں کے مکانوں کے اردگرد باغیچے بنے ہوئے تھے جو لوگوں کو مختلف پھل دیتے تھے اور یہاں کے انگور تو بہت ہی مشہور تھے چونکہ یہاں انگور افراط سے ہوتے تھے اس لئے یہاں شراب بھی بنتی تھی۔
فرما کا شہر ایک پہاڑی پر آباد کیا گیا تھا اور اس کی حفاظت اور دفاع کا انتظام صرف یہ نہیں تھا کہ ایک طرف قلعہ اور سارے شہر کے ارد گرد ایک مضبوط دیوار ہوتی۔ دیوار تو تھی لیکن شہر کو متعدد قلعہ بندیوں سے محفوظ کیا گیا تھا اس طرح اس شہر کی تسخیر تقریباً ناممکن بنادی گئی تھی۔
ایک تو قلعہ بندیاں زیادہ تھی اور دوسری یہ پہاڑی پر آباد تھا یہ محاصرہ کرنے والوں کے لئے بڑی زبردست مشکل پیدا کردی گئی تھی۔
مصری بدو اپنے علاقے میں دور دور تک پھیلے ہوئے تھے، فرما سے دور اور عام راستوں سے ہٹ کر ایک ٹیلہ تھا جو ریگستانی بھی تھا اور اس میں کہیں کہیں سبزہ بھی تھا وہاں صحرا ختم ہونے لگتا تھا اور سرسبزو شاداب علاقہ شروع ہوتا تھا ،اس علاقے میں ایک جگہ ایسی تھی جو وسیع نشیب تھا اس کے اردگرد جو کنارے تھے وہ اونچے بند کی شکل میں تھے برسات کے دنوں میں اس نشیبی جگہ پانی جمع ہو جاتا تھا اور دو تین مہینوں بعد پانی خشک ہو جاتا اور پیچھے ہری بھری گھاس چھوڑ جاتا تھا، اس میں چندایک درخت بھی تھے اور کہیں کہیں زمین ذرا سی ابھری ہوئی اور اونچے نیچے ٹیلے بھی تھے لیکن بہت کم،
اس جگہ کو بدو نے بہت خوبصورت بنا رکھا تھا اور اسے وہ اپنا ایک طرح کا مقدس نشیب سمجھتے تھے یہ ساری باتیں فہد بن سامر سے معلوم ہوئی تھی اس کے قریب ہی کہیں بدووں کے مذہبی پیشوا اور ایک دو سردار رہتے تھے۔
رات کا وقت تھا اور چاند کی تیسری تاریخ تھی کم و بیش تین ہزار بدو دائرے میں اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور درمیان میں بہت سی جگہ خالی چھوڑی ہوئی تھی اس خالی جگہ کے وسط میں ایک قوی ہیکل بیل ایک کھونٹا گاڑھ کر رسے سے باندھا ہوا تھا ۔اس کے خمیدہ سینگ مختلف رنگوں سے سجائے گئے تھے، اس پر سبز رنگ کا کپڑا ڈالا گیا تھا جس میں چمک سی تھی ۔ ہوا سے یہ کپڑا ہلتا تھا تو مشعلوں کے شعلوں کی روشنی میں اس کپڑے پر چمک کی لہریں اٹھتی اور کھلتی نظر آتی تھی، بیل کے کھروں پر کوئی چمکدار چیز ملی گئی تھی بیل کے گلے میں صحرائی پھولوں کے ہار پڑے ہوئے تھے۔
بیس بائیس جوان اور جواں سال لڑکیاں جو ایک ہی جیسے لباس میں ملبوس تھے بیل کے ارد گرد دائرے میں رقص کر رہی تھیں، وہ ملبوس تو تھیں لیکن پوری طرح مستور نہیں تھیں۔ ڈھول ، دف دو شہنائیاں بج رہی تھیں، لڑکیوں کا یہ رقص اچھل کود جیسا نہیں تھا اور غیر منظم بھی نہیں تھا ہر ادا اور ہر حرکت ایک ہی جیسی تھی کوئی لڑکی دوسری سے الگ تھلگ ذرا سی بھی حرکت نہیں کرتی تھی۔
یوں لگتا تھا جیسے یہ لڑکیاں ایک زنجیر سے بندھی ہے اور زنجیر کسی غیر مرئی قوت کے ہاتھ میں ہے، نہ رقص بے ہنگم تھا ،نہ سازوں کا غل غپاڑا تھا، ساز ایک خوابناک سی دھن الاپ رہے تھے ،اور رقص وجد آفریں تھا ،صحرا کی خنک رات مخمور ہوئی جا رہی تھی ، تین ہزار بدوؤں پر سکوت طاری تھا جیسے وہ محو خواب ہوں۔
بیل کے اردگرد چند ایک چکر پورے کرکے ایک لڑکی رقص کی اداؤں کے ساتھ بل کھاتی لہراتی دائرے سے نکل کر بیل کے سامنے چلی گئی اور بیل کا منہ چوم کر پھر لڑکیوں کے دائرے میں چلی گئی اس کے پیچھے آنے والی لڑکی نے بھی ایسا ہی کیا اور تمام لڑکیوں نے ایسے ہی بیل کا منہ چوما ۔ دائرہ ایک قطار بن گیا اور لڑکیاں ایک دوسرے کے پیچھے وہاں سے چلی گئیں۔
جو جگہ رقص کے لیے خالی چھوڑی گئی تھی اس کے اردگرد پانچ بڑی مشعلیں جل رہی تھیں، تیسری کا چاند واپس افق تک میں چلا گیا تھا اور رات تاریک ہو گئی تھی۔
آخری لڑکی تاریکی میں گم ہو گئی تو سازوں کے سور تال تیز قدم ہو گئی اور شہنائیوں کی دھن اس تیز تھاپ کے مطابق بدل گئی یہ فوجی اور جنگی سی دہن تھی جو خون کو گرماتی تھی ایک طرف سے ایک ہی جیسے لباس میں ملبوس کم و بیش بیس بدو تاریکی سے ایک قطار میں مشعلوں کی روشنی میں آئے اور لڑکیوں کی طرح بیل کے ارد گرد دائرے میں رقص کرنے لگے وہ دائرے میں ناچتے اور چلے جاتے تھے ۔ ان میں سے کسی ایک کی کوئی ذرا سی بھی جنبش دوسروں سے مختلف نہیں تھی۔
یہ مردانہ ناچ تھا جسے جنگی کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ ناچنے والوں کے ایک ہاتھ میں برہنہ تلوار اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال تھی انکے ہاتھوں میں تلواریں چرخینوں کی طرح اتنی تیز گھوم رہی تھی کہ ایک تلوار کئی کئی تلواریں لگتی تھی۔ ڈھول کی تھاپ تیز ہوتی گئی اور ناچ میں جوش و خروش بڑھتا گیا۔ تماشائیوں کا ہجوم سر تال پر قوالوں کی طرح تالیاں بجا رہا تھا ۔اس ناچ نے ایسا تاثر پیدا کر دیا کہ دیکھنے والوں کے جسم بیٹھے بیٹھے تھرکنے لگے تھے۔
خون کو گرما دینے والا یہ ناچ محض دکھاوے کا جنگی نہیں تھا یہ لوگ تھے ہی جنگجو ،اور یہ ناچ ان کے جنگی کلچر کی ترجمانی کرتا تھا ۔ یہ بدو قبائل سرکشی کی حد تک آزاد خیال تھے ہرقل نے کسی وقت انہیں اپنی فوج میں لینا چاہا تھا لیکن ان کے سرداروں نے صاف انکار کر دیا تھا ۔ البتہ سرداروں نے ہرقل سے یہ وعدہ کیا تھا کہ انہوں نے کبھی محسوس کیا کہ اس کی فوج کو بدوؤں کی مدد کی ضرورت ہے تو بدو پہنچ جائیں گے۔ لیکن وہ مصر سے باہر جاکر نہیں لڑیں گے۔
ناچنے والے ان بدوؤں میں دو کی تلوار دوسری تلواروں سے مختلف تھیں، ان دونوں کی تلوار چوڑی اور وزنی تھیں یہ دونوں بدو ناچتے ناچتے دائرے سے نکل آئے ایک بیل کی گردن کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف کھڑا ہو گیا ،باقی بدّو محو رقص رہے ادھر سے ناچنے والی دو لڑکیاں دوڑی آئیں دونوں نے پیتل کا ایک خاصا بڑا تھال اٹھا رکھا تھا۔
چوڑی تلوار والے بدو نے تلوار بلند کی اور پوری طاقت سے تلوار بیل کی گردن پر سر کے قریب ماری اور آدھی گردن کاٹ دی اس کے فوراً بعد دوسری طرف کھڑے بدو نے بیل کی آدھی کٹی گردن پر بڑی ہی زور دار تلوار مار کر سر صاف الگ کر دیا دو لڑکیوں نے تھال ادھر ادھر سے پکڑ رکھا تھا بیل کا سر اس پر گرا۔
بیل ایک پہلو کو گر رہا تھا ناچنے والے دو آدمی دوڑے آئے انہوں نے مٹی کی ایک چوڑی پرات اٹھا رکھی تھی اس کے کنارے بالشت بھر اونچے تھے بیل گرا انہوں نے یہ پرات بیل کی کٹی ہوئی گردن کے نیچے رکھ دی اور گردن کو مضبوطی سے پکڑ لیا کیوں کہ بیل تڑپ رہا تھا وہ اس کوشش میں تھے کہ خون کا ایک بھی قطرہ ضائع نہ ہو۔ ناچتے ہوئے بدوؤں کا ناچ بند ہو گیا اور سب نے تڑپتے ہوئے بیل کو قابو میں لے لیا۔
بیل کا خون ایک تبرک تھا جسے انہوں نے پانی سے بھرے ہوئے مٹکوں میں ملانا اور بدوؤں نے بچوں، بوڑھوں ،مریضوں اور عورتوں کو پلانے کے لیے پیالے بھر بھر کر اپنے ساتھ لے جانا تھا ،ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس خون ملے پانی سے لاعلاج امراض کے مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں، اور دودھ دینے والے مویشیوں کو ایک ایک گھونٹ پلا دو تو زیادہ دودھ دینے لگتے ہیں اور مویشی ان چمگادڑوں سے محفوظ رہتے ہیں جو راتوں کو ان کا خون پیتے اور انہیں مار ڈالتے ہیں، یہ پانی گھر میں رکھا ہوا ہو تو گھر میں بدروح نہیں آتی اور گھر والے ناری مخلوق سے بچے رہتے ہیں۔
جس وقت بیل گردن کٹ جانے سے گرنے لگا تھا تو تمام بدوّ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ہاتھ آسمان کی طرف کر کے فلک شگاف نعرے لگائے تھے، بیل گرا اور اس کا خون چوڑے برتن میں گرنے لگا تو ان کا مذہبی پیشوا اٹھا اور بیل کی طرف چلا لوگ خاموش ہو گئے۔
مقدس بیل کا خون مبارک ہو ۔۔۔۔کچھ دور سے کسی کی آواز آئی۔۔۔۔ تمہاری قربانی قبول ہو گئی ہے ۔خدا کی آواز سنو جو سورج کو گرمی اور چاند ستاروں کو روشنی دیتا ہے۔
مذہبی پیشوا جہاں تھا وہیں رک گیا اور اس طرف دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی۔
اس کے پاس بدوؤں کے جو تین چار سردار بیٹھے ہوئے تھے وہ اب اس کے پیچھے کھڑے تھے ۔وہ بھی ادھر دیکھنے لگے بدوؤں کا یہ سارا اجتماع بھی ادھر ہی دیکھ رہا تھا جدھر سے یہ آواز آئی تھی۔ ادھر اس نشیبی جگہ کا کنارہ قریب ہی تھا لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اس لیے زمین میں گڑھے ہوئے لمبے ڈنڈوں والی مشعلوں کی روشنی اس کنارے تک نہیں پہنچتی تھی ۔ مذہبی پیشوا نے اس طرح کھڑے لوگوں کو بیٹھ جانے یا آگے سے ہٹ جانے کو کہا۔
لوگ روشنی کے آگے سے ہٹے تو ڈھالانی کنارے پر ایک آدمی کھڑا نظر آنے لگا جس کا چہرہ ٹھیک طرح پہچانا نہیں جاتا تھا کیونکہ وہاں تک مشعلوں کی روشنی مدھم ہو جاتی تھی وہ ایک سفید ھیولا سا لگتا تھا ۔دو ڈنڈے بھی دکھائی دے رہے تھے ایک اس کے دائیں اور بائیں طرف کنارے میں گڑھا ہوا تھا۔ دونوں کے اوپر والے سروں پر اتنے کپڑے لپیٹے ہوئے تھے کہ ان کی چوڑائی ایک ایک بالشت ہو گئی تھی یہ مشعلیں تھی جو ابھی جلائی نہیں گئی تھی۔
اس آدمی کے سر پر پگڑی تھی اور اس پر رومال ڈالا ہوا تھا جو اس کے شانوں پر بھی پھیلا ہوا تھا شانے سے چغہ شروع ہوتا تھا جو اس کے ٹخنوں تک چلا گیا تھا۔ سر پر پڑا رومال بھی سفید اور چغہ بھی آسمان پر چمکتے ستاروں جیسا سفید تھا اس نے دونوں بازو آگے اور ذرا دائیں اور بائیں پھیلا رکھے تھے۔
کوئی قریب جا کے دیکھتا تو اسے پتا چلتا کہ وہ انہی جیسا اللہ کا بندہ تھا اس کی داڑھی کالی گھنی اور لمبی تھی۔ وہاں کسی میں، ان کے مذہبی پیشوا میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ قریب جا کر دیکھتا یہ ہے کون، یہ توہم پرست لوگ تھے۔ ذہنوں میں وسعت نہیں تھی۔ سوچوں میں گہرائی نہیں تھی۔ زمین کی جو چیز عجوبہ اور ان کی سمجھ سے بالا ہوتی وہ ان کی نگاہ میں عالم بالا کی مخلوق میں سے ہوتی تھی۔ یہ آدمی ان کے لیے کوئی روحانی یا آسمانی چیز تھی اسے وہ بد روح یا جن بھوت نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ اس کا لباس سفید براق تھا۔ ان کے عقیدے کے مطابق انسانوں کو نقصان پہچانے والی چیزیں سیاہ لباس میں ملبوس یا بے لباس ہوتی ہیں۔ سب دور کھڑے دیکھتے رہے اور سناٹا ایسا جیسے وہاں کوئی ذی روح تھا ہی نہیں۔
مت ڈرو!،،،،،، کنارے پر کھڑے آدمی نے بلند آواز سے کہا۔۔۔۔ تم جیسا انسان ہوں خدا نے بھیجا ہے خدا کا پیغام لایا ہوں تمہارے لئے روشنی لایا ہوں۔
پہلے اس کے دائیں طرف والی مشعل اپنے آپ ہی جل اٹھی پھر بائیں طرف والی مشعل جلی۔ یہ مشعل اس آدمی نے نہیں چلائی تھی نہ انہیں کوئی اور آدمی جلاتا نظر آیا تھا ۔
یہ سفید پوش سیاہ ریش کھڑا رہا تھا۔ مشعلیں جلانے کے لیے کوئی اور آدمی اوپر نہیں آیا تھا بلاشک و شبہ مشعل اپنے آپ جلی تھی یہ ایسا مظاہرہ تھا کہ بدوؤں کے منہ حیرت سے کھل گئے ان کے سرداروں اور مذہبی پیشوا پر بھی کچھ ایسا ہی اثر ہوا۔
خدا کا پیغام خدا کے بھیجے ہوئے ایلچی سے سنو۔۔۔۔ چغے میں ملبوس آدمی نے کہا۔۔۔ وہ اس قدر آہستہ آہستہ کنارے سے نشیب کی طرف اترنے لگا جیسے اس کا پاؤں اٹھ نہ رہا ہو اور وہ نیچے کو سرک رہا ہو اس کے دائیں اور بائیں جلتی مشعلوں کے شعلوں کا رقص اس آدمی کو اور ہی زیادہ پراسرار بنا رہا تھا۔ وہ نہایت ہی آہستہ آہستہ نیچے کو سرکنے لگا اور جہاں وہ کھڑا تھا وہاں ایک نوجوان لڑکی کا سراپا ابھرنے لگا یوں لگتا تھا جیسے لڑکی اس آدمی کے وجود میں سے ابھر رہی ہو۔
یہ لڑکی اس زمین کی مخلوق معلوم ہوتی ہی نہیں تھی۔ چہرہ ایسا حسین اور ایسا معصوم جو ان بدؤوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ چہرہ کا رنگ سفیدی اور لطیف سی صورت کی آمیزش تھا ۔کھلے ہوئے ریشمی بال شانو اور سینے پر بکھرے ہوئے اور بازو ننگے تھے۔ گردن لمبوتری اور جسم ایک ہی کپڑے میں مستور تھا۔
تمہاری قربانی قبول ہو گئی ہے ۔۔۔لڑکی نے بازو پھیلا کر کہا۔۔۔ خبردار رہو خون کا طوفان آ رہا ہے تمھارے دودھ والے جانوروں کو اڑا اور بہا لے جائے گا ،تم سے بہت سے اڑ جائیں گے۔ خدا تمہیں بچا لے گا لیکن خدا کے حکم کی تعمیل کرنا۔ کل تمہارے پاس تین آدمی آئیں گے ان کی نشانی یہ ہوگی کہ اونٹوں پر آئیں گے خدا نے انہیں اشارہ دے دیا ہے وہ جو کہیں اسے خدا کا پیغام سمجھنا ورنہ بیل کا خون ضائع جائے گا ۔
اور تمہاری تباہی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ تم تک خدا کا پیغام پہنچ گیا ہے میں آسمان کو واپس خدا کے پاس جا رہی ہوں۔
چغے والا آدمی جو لڑکی کی آگے ڈھلان پر کھڑا تھا آہستہ آہستہ الٹے قدم اوپر جانے لگا لڑکی اس کے پیچھے یا اس کے وجود میں گم ہوتی گئی اور آدمی کنارے پر دو مشعلوں کے درمیان جا رکا۔
یہ مشعل ساری رات یہاں جلتی رہے گی۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ یہ خدا کی روشنی ہے کل صبح یہ اکھاڑ کر اپنے پاس رکھ لینا یہ صرف قربانی کی رات جلایا کرنا ہم جا رہے ہیں۔ صبح تک ادھر کوئی نہ آئے کوئی آیا تو اس پر آسمانی بجلی گرے گی۔
وہ پیچھے ہٹا اور الٹے قدم پچھلی ڈھلان اس طرح اتر گیا جیسے غائب ہو گیا ہو۔ مشعل یوں ہی چلتی رہی بدوؤں کے ہجوم پر سناٹا طاری رہا۔
مت ڈرو !،،،،،،،مذہبی پیشوا نے سکوت توڑا،،،، یہ خدائی اشارہ ھے خوش قسمت ہے وہ قوم جسے ایسے مقدس اشارے ملتے ہیں۔ جشن مناؤ کل جو آدمی آئیں گے ان سے خدا کی کچھ اور باتیں معلوم ہوگی۔
یہ سب کیا تھا، کیا اس میں کچھ حقیقت بھی تھی، کچھ بھی نہیں یہ عربوں کی ذہانت اور دماغی صلاحیت کا کمال تھا ۔
یہ حقیقت متعصب ذہن کے یورپی مبصرین اور مفکرین نے بھی تسلیم کی اور اس کی مثالیں پیش کی ہیں کہ عرب کے لوگوں کو اللہ تعالی نے ایسی تخلیقی صلاحیتیں عطا کی ہیں جو دنیا کے کسی دوسرے خطے کے لوگوں کے حصے میں نہیں آئی۔
فہد بن سامرنے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا تھا کہ کچھ دنوں بعد مصری بدّو اپنی ایک تقریب منعقد کریں گے جو وہ اس ماہ ہر سال چاند کی تیسری رات منعقد کیا کرتے ہیں ۔
نئے چاند کے طلوع کو ابھی کچھ دن باقی تھے۔ فہد سامر، مسعود بن سہیل مکی ،اور حدید بن مومن خزرج نے سر جوڑے۔ اور اس مسئلے پر غور کرنے لگے کہ ان بدوؤں کو باتوں سے قائل کرنا کہ ہمارے ساتھ ہو جائیں ممکن نہیں پھر کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
مسعود اور حدید عرب کے بدوؤں کو تو جانتے تھے لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ مصری بدو بہت ہی مختلف ہیں ۔اور ان کی خصلت کچھ اپنی سی ہے۔ یہ انہیں فہد نے بتایا تھا۔ ہرقل نے انھیں قتل عام کی اور پھر مصر سے نکال دینے کی بھی دھمکیاں دی تھی کہ وہ رومی فوج میں شامل ہو جائے تو کسی بھی دھمکی سے نہیں ڈرتے تھے ،پھر ہرقل نے انہیں طرح طرح کے لالچ دیے تھے لیکن بدوّ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ہرقل جیسا جابر اور فرعون ذہنیت کا بادشاہ چپ ہو گیا تھا جانتا تھا کہ فوج سے انہیں تہہ تیغ کرنے کی کوشش کی تو یہ صحرا میں فوج کے لئے مصیبت کھڑی کردی گے۔
اب عمرو بن عاص کو ان بدوؤں کی ضرورت محسوس ہوئی تو فہد بن سامر نے انہیں بتایا کہ یہ لوگ باتوں سے بھی نہیں مانیں گے اور لاتوں سے بھی نہیں۔ کوئی اور ہی ڈھنگ سوچنا پڑے گا۔
فہد ان بدوؤں کے معاشرت ان کے مذھب اور عقیدوں سے واقف تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ بنیادی طور پر یہ توہم پرست ہیں اور ان میں صرف یہی ایک کمزوری ہے جسے استعمال کیا سکتا ہے۔
فہد مصری تھا مسعود اور حدید ریگزار عرب کے پیداوار تھے، انہوں نے ایک ناٹک سوچ لیا یوں تو شارینا بھی حسین تھی لیکن جو تازگی اور معصومیت اینی میں تھی وہ شارینا کے چہرے پر نہیں تھی ۔
اینی کی عمر ابھی سترہ سال ہوئی تھی۔ چنانچہ آسمان سے خدا کا پیغام لانے والی حور کا کام اینی کو دیا گیا۔
مسعود اور حدید جاسوس تھے اس لیے انہوں نے مختلف لباس اور بہروپ اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے ۔انہوں نے اس ناٹک کے لیے ایک ایسا تیر انداز منتخب کر لیا جس کا تیر کبھی خطا نہیں گیا تھا ، کمان کو پورا کھینچ کرتیر چھوڑا جائے تو نشانے پر لگ ہی جاتا ہے لیکن کمان کو تھوڑا سا کھینچ کر قریب کے نشانے پر پھینکا جائے تو مشکل سے ہی نشانے پر لگتا ہے ۔یہ کام کوئی بڑا ہی ماہر تیر انداز کر سکتا تھا۔
ایسا ایک تیر انداز مل گیا چونکہ یہ ناٹک چاند کی تیسری رات کھیلنا تھا اور تیسری رات کو چار پانچ ہی دن رہ گئے تھے اس لئے انہوں نے بڑی تیزی سے ریہرسل کرلی اور اگلے روز فہد کی رہنمائی میں یہ پارٹی روانہ ہو گئی۔ چونکہ یہ علاقہ صحرائی تھا اس لئے گھوڑوں کی بجائے وہ اونٹوں پر گئے دو دنوں کی مسافت تھی فہد انہیں ایسے علاقے میں لے گیا جو دشوار گزار تھا ادھر سے کوئی نہیں گزرتا تھا۔ اور چھپنے کے لئے وہ جگہ اچھی تھی اور اس نشیبی جگہ کے قریب بھی تھی جہاں بدوؤں کا اجتماع تھا۔
چاند کی تیسری رات کو سب اس جگہ پہنچ گئے جہاں بدو تقریب کے لئے اکٹھا ہو چکے تھے ۔انہیں وہاں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ دیکھنے والے تقریب میں مگن ہوگئے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ وہ جگہ نشیبی تھی اور اس کے کنارے اونچے تھے چھپنے والی جگہ سے تقریب والی جگہ تک وہ پیدل گئے تھے۔ اگر وہ اونٹوں پر جاتے تو اونٹ خاموشی توڑ سکتے تھے۔ تیسری کا چاند اوپر آکر واپس چلا گیا تھا اس لئے رات تاریک ہوگئی تھی۔
پہلے مسعود بن سہیل مکی دونوں مشعلیں اٹھائے اس طرح کنارے کے اوپر گیا کے کھڑا ہونے کے بجائے صرف سر اوپر کر کے بدوؤں کے اجتماع کو دیکھا اسے اطمینان ہوگیا کہ کوئی بھی اس طرف نہیں دیکھ رہا تھا یہ وہ وقت تھا جب لڑکیوں کا رقص شروع ہوا تھا مسعود نے دونوں مشعلوں کے ڈنڈے بڑے آرام سے کنارے پر گاڑ دیے۔
مشعلوں کے کپڑے تیل میں بھگو لئے گئے تھے ۔مسعود سفید چغے میں ملبوس تھا اس کے سر پر پگڑی اور پگڑی کے اوپر سفید رومال تھا۔ فہد نے اسے بتایا تھا کہ وہ اس وقت مشعلوں کے درمیان کھڑا ہو کر بولے گا جب بیل کی گردن کٹ چکی ہوگی۔
فہد نے کبھی یہ تقریب دیکھی تھی اس لیے وہ صحیح رہنمائی کررہا تھا۔
سب نے باری باری اوپر آکر بدوؤں کا تماشہ دیکھا ان کے ساتھ اینی بھی تھی اور تیر انداز بھی ۔
اینی اس حلیے میں تھی جو پہلے بیان ہوچکا ہے۔ لڑکیوں کے رقص کے بعد مردوں کا ناچ شروع ہوا اور جب دو بدوّ بیل کی گردن کاٹنے کے لیے اس کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے تو اس وقت فہد نے مسعود سے کہا کہ وہ دونوں مشعلوں کے درمیان کھڑے ہوجائے۔
اور وہ الفاظ کہے جو پہلے طے ہو چکے تھے اور اس کی مشق بھی کی گئی تھی۔
مسعود جب کنارے پر کھڑا ہو گیا تو اینی اس کی پیٹھ کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی۔
وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتی تھی مسعود نے اپنا رول بڑی کامیابی سے پورا کیا اور مشعلیں اپنے آپ جل اٹھیں۔
مشعلیں دراصل تیر انداز نے جلائی تھیں۔
وہ اس طرح کہ اس کے پاس فلیتے والے تیر تھے کنارے کے اوٹ میں اس نے دو تیروں کو باری باری آگ لگائی اور کمان کو کھینچا اور تھوڑی سی کمان کھینچ کر تیر اس طرح چھوڑے کہ وہ مشعل کے جلنے والے سرے پر لگے اور مشعلیں جل اٹھیں یہ اس تیر انداز کا کمال تھا۔
اس کے بعد مسعود کنارے کی اندرونی ڈھلان پر آہستہ آہستہ اترنے لگا تو اینی کھڑی رہی وہ یوں نظر آتی تھی جیسے اس کے وجود میں سے ابھر رہی ہو۔ یہ مشعلوں کی تھرکتی ہوئی آگ اور نظر کا فریب تھا۔ اصل بات تو یہ تھی کہ بدوّ توہم پرست تھے اور توہم پرستی کی یہی لعنت ہوتی ہے کہ انسان حقیقت کی طرف دیکھتا ہی نہیں۔
پھر مسعود الٹے قدم کنارے پر چلا گیا اور اینی جو اس کی اوٹ میں چھپ گئی تھی مسعود کی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی باہر والے کنارے سے سرکتی چلی گئی مسعود بھی اس کے ساتھ گیا اس طرح ان سب نے بدوؤں کی توہم پرستی پسماندگی اور سادگی کو نہایت چابکدستی سے استعمال کیا۔ اور ان سب پر اور مذہبی پیشوا پر بھی ایسا پراسرار تاثر پیدا کر دیا کہ انہیں شک نہ ہوا کہ یہ سب ایک فریب تھا ۔جس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ مذہبی پیشوا اور سرداروں نے بھی مان لیا کہ یہ آسمانی مخلوق تھی۔
جاسوسوں کی یہ جماعت صحرا میں اسی جگہ چلی گئی جہاں یہ سب پہلے چھپے رہے تھے۔ تیر انداز سے کہا گیا کہ وہ اینی اور شارینا کو واپس پڑاؤ میں لے جائے ۔
انہیں اسی وقت روانہ کردیا گیا مسعود اپنا رات والا لباس بدل لیا تھا اور اس نے، فہد اور حدید نے جنگی لباس پہن لیا تھا۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
جاری ہے۔۔۔۔۔۔