ہم اس داستان کو پیچھے اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں روزی ایک بار پھر قربانی سے بچ گئی تھی ۔
اور پادری اس کے ساتھی اس کے انتظار میں نیل کے کنارے اس جگہ کھڑے تھے جہاں سے روزی کو نیل میں پھینکنا تھا۔
ماہی گیروں کا سردار بابا اس توقع پر وہاں پہنچا تھا کہ روزی کو ان تین آدمیوں نے اس جگہ پہنچا دیا ہو گا جن تین آدمیوں نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ روزی کو قربانی کی جگہ پہنچا دیں گے، لیکن انہوں نے راستے میں کشتی رانوں کو قتل کرکے دریا میں پھینک دیا اور روزی کو لے اڑے ، اس کے بعد روزی رابعہ بن گئی۔
ماہی گیروں کے سردار نے وہاں پہنچ کر پادری کو بتایا کہ اس نے روزی کو تین اجنبی آدمیوں کے ساتھ پہلے ہی بھیج دیا تھا، تو سب حیران ہوئے کہ لڑکی گئی کہاں؟
بڑے پادری نے یہ فتوی دیا کہ نیل کو اس لڑکی کی قربانی نہیں چاہئے، نیل اسی لڑکی کو چاہتا ہے جس کی قربانی کا فیصلہ پہلے ہوا تھا۔
وہ لڑکی ہور شش کی اکلوتی بیٹی تھی جسے دریا میں ڈوب مرنے سے بچانے کے لیے اس نے روزی کو دھوکہ دیا اور انطاکیہ سے اسے ساتھ لے گیا تھا ،قربانی کے دستور کے مطابق اس نے اپنی بیٹی کے سارے زیورات روزی کو پہنا دیے تھے وہ بڑے ہی قیمتی زیورات تھے جو باپ نے اپنی بیٹی کی زندگی میں قربان کردئے تھے، مگر ہوا یہ کہ زیورات بھی گئے اور روزی بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ اور اب پادری نے یہ فیصلہ دے دیا کہ ہورشیش کی بیٹی کو ہی نیل کے حوالے کر دیا جائے اور اسے زیورات سے سجانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
چنانچہ ہورشش کی بیٹی کو جگا کر لے آئے اور پادری نے اپنے ہاتھوں اسے دریا میں پھینک دیا۔
یہاں سے یہ داستان یوں آگے چلی کہ بیٹی کے صدمے نے ہورشیش کے دل و دماغ کو ماؤف کردیا ،یہ بیٹی اس کی اکلوتی اولاد تھی اس پر وہم طاری ہونے لگا، جن میں ایک یہ تھا کہ ان لوگوں نے اس لڑکی یعنی روزی کو قربانی سے بچانے کے لئے خود غائب کیا ہے اور اس کی بیٹی کو مروا ڈالا ہے۔
ہورشیش اپنے مذہب کو بھول ہی گیا اور اس کی جگہ انتقام کا جذبہ پیدا ہو گیا۔
بیٹی کے صدمے کے ساتھ یہ چوٹ بھی کچھ کم نہ تھی کہ اس کے بڑے ہی قیمتی زیورات بھی ضائع ہو گئے تھے۔
ہورشیش کی بستی سے تقریباً تین میل دور رومی فوج کی ایک چوکی تھی جس میں افسر ایک عہدے دار اور چند ایک سپاہی رہتے تھے۔ شاہ ہرقل کو بڑی اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ مصر کے لوگ اس کے حق میں نہیں رہے ۔وجہ بڑی صاف تھی جس کا تفصیلی ذکر پیچھے ایک باب میں آگیا ہے وجہ یہ تھی کہ اس نے جو سرکاری عیسائیت رائج کی تھی اسے لوگ قبول نہیں کر رہے تھے، لڑکی کی قربانی کو تو اس نے قتل جیسا جرم قرار دے دیا تھا پھر بھی قبطی عیسائی چوری چھپے لڑکیوں کی قربانی دے رہے تھے۔
لوگوں پر دہشت طاری رکھنے کے لئے اور لڑکی کی قربانی روکنے کے لئے ہرقل نے مصر کے دیہاتی اور دور دراز علاقوں میں بھی چھوٹی بڑی چوکیوں کی صورت میں اپنی فوج پھیلا رکھی تھی۔
ان چوکیوں کے فوجی اپنے اپنے علاقے میں گشت کرتے رہتے اور لوگوں کو ڈراتے رہتے۔ ہورشیش کی بستی سے کچھ دور ایسی ہی چوکی تھی جس کے فوجی افسر اس بستی میں گشت کے لیے آتے رہتے تھے۔
ہورشیش کو اس چوکی کا خیال آیا تو اس کے اندر انتقام کی جو آگ سلگ اٹھی تھی وہ بہت بڑا شعلہ بن گئی اور وہ اس چوکی کی طرف چل پڑا۔
چوکی پر جاکر چوکی کے کمانڈر سے ملا اور اسے بتایا کہ ان کے پادری نے اس کی بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف زبردستی گھر سے اٹھا کر دریا میں پھینک دیا ہے۔
رومی افسر غصے سے بھڑک اٹھا اور پادری اور دیگر ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
ہورشیش نے اسے روک لیا اور کہا کہ وہ یہ کارروائی اس طرح کرے کہ یہ ظاہر نہ ہوں کہ ہورشیش نے مخبری کی ہے، اور اس کو ڈر یہ تھا کہ بستی والوں کو صحیح بات کا علم ہو گیا تو وہ اسے اور اس کی بیوی کو قتل کر دیں گے، اور اس نے یہ بھی کہا کہ وہ گھر پہنچ جائے تو کچھ دیر بعد فوجی آئیں۔
ہورشیش کے ساتھ اس طرح بات کریں جیسے وہ بھی اپنی بیٹی کی قربانی کا مجرم ہے۔
رومی افسر بات سمجھ گیا اور ہورشیش کو واپس بھیج دیا ۔
ہورشیش نے اپنی بیوی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور کیا کر رہا ہے۔
دن آدھے سے کچھ زیادہ گزر گیا تھا ،ہورشیش کی بستی کے لوگوں نے دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپ سنے جو بستی کی طرف بڑھتے آ رہے تھے، یہ کوئی بڑی بستی نہیں تھی بیس پچیس مکانوں کی چھوٹی سی آبادی تھی لوگ گھروں سے نکل کر باہر آ گئے انہوں نے گھوڑوں کو اور سواروں کو بھی پہچان لیا یہ ان کے اپنے فوجی تھے جو گشت پر آتے ہی رہتے اور بستی کے لوگوں کے ساتھ گپ سبب بھی لگایا کرتے تھے۔
ان میں ایک افسر ایک جواں سال عہدے دار اور کم و بیش بیس سپاہی تھے، قریب آ کر انہوں نے بستی کو گھیرے میں لے لیا افسر نے اعلان کیا کہ کوئی مرد یا عورت بھاگنے کی کوشش نہ کرے اور تمام لوگ باہر آجائیں۔
بستی کے لوگوں پر خوف طاری ہو گیا یہ سب قبطی عیسائی تھے اور اپنے بادشاہ ہرقل کی سرکاری عیسائیت کے سخت خلاف تھے اور یہ لوگ لڑکی کی قربانی میں بھی یقین رکھتے تھے انھیں ڈرنا ہی چاہیے تھا۔
ہورشیش کہاں ہے؟،،،، رومی نے کہا۔۔۔ جو کوئی بھی ہو سامنے آ جائے۔
ہورشیش آگے ہوگیا افسر گھوڑے سے اتر آیا اور اس نے اپنے سوار سپاہیوں سے بھی کہا کہ گھوڑوں سے اتر آئیں اور گھوڑے ایک جگہ کھڑے کرکے بستی کے اردگرد پھیلے رہیں۔
کیا گزشتہ رات تم نے اپنی بیٹی کو قربانی کے لیے دریا میں پھینکا تھا رومی افسر نے پوچھا۔
ہورشیش نے تو انکار ہی کرنا تھا کیونکہ یہ پہلے طے ہوچکا تھا کہ یہ ظاہر نہیں ہونے دیا جائے گا کہ یہ مخبری ہورشیش نے کی ہے۔ رومی افسر نے یہ ظاہرکرنے کے لئے کہ وہ اپنے طور پر تفتیش کر رہا ہے اور اس سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو سامنے لائے۔
میں ابھی تمہارا جھوٹ ثابت کردوں گا ۔۔۔رومی افسر نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تمہاری یہی ایک ہی بیٹی تھی میں کسی شک پر نہیں آیا پوری یقین کے ساتھ آیا ہوں اگر تم سچے ہو تو اپنی بیٹی کو سامنے لے آؤ میں تمہیں مہلت بھی دے دیتا ہوں۔
چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ سولہ سترہ سال عمر کی ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی دوڑی آئی اور رومی افسر کے سامنے جاکر اس نے کہا کہ میں ہوں ان کی بیٹی۔
میں گھر میں نہیں تھی۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔میں لڑکیوں کے ساتھ کسی دوسرے گھر کی چھت پر کھڑی دیکھ رہی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے ایک آدمی دوڑا آیا اس نے مجھے بتایا کہ آپ لوگ میرے باپ پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ اس نے مجھے نیل کی نذر کردیا ہے۔ میرا باپ اس لیے پریشان ہو گیا تھا کہ میں گھر میں نہیں تھی رومی افسر مسکرایا اس کی مسکراہٹ میں طنز تھی جیسے وہ جان گیا ہوں کہ اسے بے وقوف بنایا جارہا ہے اس نے ویسے ہی ایک آدمی کی طرف اشارہ کرکے اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ یہ لڑکی کس کی بیٹی ہے۔
ہورشیش کی ہے اس آدمی نے نڈر ہو کر جواب دیا ۔
رومی افسر نے ایک اور آدمی کو اپنے پاس بلا کر یہی سوال پوچھا۔
میں حیران ہوں آپ پوچھ کیا رہے ہیں ؟،،،،اس شخص نے جواب دیا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ یہ بیٹی کس کی اور فلاں بچہ کس کا ہے سب جانتے ہیں کہ یہ ہورشیش کی بیٹی ہے اور اس کا نام عینی ہے۔
رومی افسر بستی کے تمام لوگوں سے مخاطب ہوا اور یہی سوال پوچھا بستی کی ساری آبادی نے بیک زبان جواب دیا کہ یہ ہورشیش کی بیٹی ہے۔ رومی افسر کو معلوم نہیں تھا کہ ان لوگوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایکا کر لیا ہے اور یہ لوگ جان گئے ہیں کہ ہورشیش کی بیٹی کی قربانی کی خبر کسی غدار نے فوجیوں تک پہنچادی ہے ۔
اور اگر اس افسر نے ثابت کردیا کہ یہ خبر صحیح ہے تو کوئی بعید نہیں کہ یہ بستی کو ہی آگ لگا دیں گے ۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہرقل اور اس کے مقرر کیے ہوئے اسقف اعظم قیرس کے دلوں میں ان لوگوں کے لئے ذرا سا بھی رحم نہیں تھا جو ان کی سرکاری عیسائیت کے خلاف تھے ۔
رومی افسر چکرا گیا اسے شک ہوا کہ کسی ذاتی وجہ کی بنا پر ہورشیش اس سے بستی والوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس نے بڑے غصے کے عالم میں ہورشیش کو بازو سے پکڑا اور ایک طرف لے گیا۔
تمہارے دل میں جو بدمعاشی ہے وہ فوراً بتا دو ۔۔۔رومی افسر نے کہا ۔۔۔نہیں بتاؤ گے تو یہی سب کے سامنے تمہارا سر اڑا دیا جائے گا۔
سچ بولوں گا تو یہ لوگ میرا سر اڑا دیں گے، ہورشیش نے سرگوشی میں جواب دیا میں سچ ہی بتاؤں گا لیکن ان لوگوں سے مجھے بچانا آپ کا کام ہے۔
تم سچ بولو رومی افسر نے کہا۔
ہورشیش نے بتادیا کہ یہ اس کی بیٹی نہیں اور یہ فلاں شخص کی بیٹی ہے اور اس نے لڑکی کی ماں کا نام بھی بتا دیا۔
یہ بستی دریائے نیل کے کنارے پر آباد تھی وہاں کنارہ خاصہ اونچا اور چٹانیں تھا وہیں سے دریا مڑتا تھا اور پارٹ تنگ تھا اس لئے وہاں دریا گہرا بھی تھا اور اس کا جوش وخروش بھی زیادہ تھا، لڑکیوں کی قربانی اسی کنارے سے لڑکی کو دھکا دے کر دی جاتی تھی۔
جس لڑکی کی قربانی دی جاتی تھی اسے نیل کی دلہن کہا جاتا تھا اور اسے ایک مقدس آسمانی مخلوق سمجھ کر یاد کیا جاتا تھا۔
رومی افسر نے لڑکی کے باپ کو اور اس کی ماں کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ یہ کس کی بیٹی ہے دونوں نے جواب دیا کہ یہ ہورشیش کی بیٹی ہے ان لوگوں کے مذہبی جذبے کا یہ عالم تھا کہ لڑکی کی ماں نے رومی افسر کو ایک دو باتیں بڑے غصے میں کہہ ڈالی اور یہ بھی کہا کہ تم لوگ ہمیں ذلیل و رسوا کرنے کے لئے آجاتے ہو۔
رومی افسر نے سچ معلوم کرنے کے لئے ایک انوکھی ترکیب سوچ لی اس نے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور دریا کے بلند کنارے پر جا کھڑا کیا دو سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ لڑکی کو کنارے سے ذرا پیچھے رکھیں اور اس کے دائیں بائیں کھڑے رہیں وہ خود لوگوں سے مخاطب ہوا۔
میں اس لڑکی کو دریا میں پھینک رہا ہوں رومی افسر نے کہا اگر اس کی ماں اسے بچانا چاہتی ہے تو اسے اپنے ساتھ لے جائے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کی ماں اور لڑکی کے باپ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی میں تمہیں سوچنے کی مہلت دیتا ہوں کوئی جلدی نہیں اچھی طرح سوچ لو۔
لڑکی دریا کے کنارے کھڑی تھی رومی فوج کے دو سپاہی اس کے قریب کھڑے تھے اور رومی افسر بستی کے لوگوں اور لڑکی کے درمیان بڑے آرام سے ٹہلنے لگا اس نے بڑی اچھی ترکیب سوچی تھی کوئی ماں برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کی اولاد کو اس کی آنکھوں کے سامنے اتنے پر شور دریا میں پھینک دیا جائے ہورشیش اور اس کی بیوی کے جذبات سگے ماں باپ والے تو ہو ہی نہیں سکتے تھے توقع ہی یہی تھی کہ لڑکی کی سگی ماں اپنی بیٹی کو بچانے کے لئے دوڑی آئے گی، مگر وہاں جو ہوا اس کی تو کسی کو توقع ہی نہیں تھی ہوا یہ کہ بستی کے ایک پہلو سے ایک گھوڑاسرپٹ دوڑتا نکلا سب نے ادھر دیکھا گھوڑ سوار رومی فوج کی اس پارٹی کا عہدہ دار تھا اس کا رخ لڑکی کی طرف تھا فاصلہ بہت ہی تھوڑا تھا۔
عینی ہوشیار!،،،، گھوڑسوار نے پرجوش آواز میں کہا۔۔۔ لڑکی نے ادھر دیکھا سوار سرپٹ دوڑتے گھوڑے سے لڑکی کی طرف جھکا اور دایاں بازو اس کی طرف پھیلا دیا لڑکی نے دونوں بازو پھیلا دیے کسی کو کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہیں ۔
ان کے افسر نے لڑکی کے پہرے پر جن فوجی کو کھڑا کیا تھا وہ کچھ سمجھ گئے اور دونوں گھوڑے کے آگے آ گئے لیکن گھوڑا ان تک پہنچ چکا تھا اس نے دونوں کو ایسی ٹکر ماری کہ ایک تو لوٹتا ہوا دریا میں جاگرا اور دوسرا دوسری طرف گرا اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔
گھوڑے کی رفتار اور تیز ہو گئی اور جب گھوڑا آگے نکلا تو لڑکی کنارے پر نہیں تھی بلکہ سوار کی پیچھے بیٹھی ہوئی تھی اور اس نے دونوں بازو سوار کی کمر کے گرد لپیٹ لیے تھے ۔
فوجیوں کے گھوڑے ایک طرف کھڑے تھے ان کے افسر نے تعقب کا حکم دیا لیکن تعقب محذ بیکار تھا، یہ سب کچھ چند سیکنڈ میں ہوگیا
فوجی اپنے گھوڑوں کی طرف دوڑے کودکر سوار ہوئے اور اپنے عہدے دار کے پیچھے گھوڑے دوڑا دیے عہدے دار کا گھوڑا بھی فوجی گھوڑا تھا اور وہ خاصی دور نکل گیا تھا۔ تعقب اس لئے بیکار تھا کہ آگے علاقہ کچھ پہاڑی اور زیادہ تر جنگلاتی تھا ادھر کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا اس کے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دے رہے تھے جو اس کی رفتار کے ساتھ دور ہٹتے جارہے تھے سپاہی کچھ دور تک گئے اور ناکام لوٹ آئے۔
اس فوجی عہدیدار کا نام بن عامر تھا ، جواں سال اور بڑا ہی خوبرو آدمی تھا، وہ جب گشت پر نکلتا تو اس بستی میں ضرور آتا تھا، ایک بار اینی اور بن سامر کا آمنا سامنا ہو گیا ۔
جگہ ایسی تھی جہاں اور کوئی نہ تھا بن سامر نے اینی کا راستہ روک لیا، اینی مسکراتے مسکراتے سنجیدہ ہوگئی اور اس کے معصوم اور بھولے بھالے چہرے پر خوف کے آثار آگئے۔
تم فوجی ہوناں۔۔۔۔ اینی نے کہ۔۔۔ا تم سمجھتے ہو کہ جو چاہو کر سکتے ہو، ہم لوگوں پر یہی الزام کافی ہے کہ ہم قبطی ہیں اور بادشاہ کے مذہب کو نہیں مانتے تم مجھے زبردستی اٹھا لے جاؤ گے۔
بن سامر پر رومانی موڈ طاری تھا اس نے اینی کی یہ بات سنی تو اینی کی طرح اس کے چہرے پر بھی سنجیدگی آ گئی وہ ایک طرف ہو گیا اینی شاید بن سامر کے چہرے کے بدلے ہوئے تاثر سے متاثر ہو گی۔
بن سامر نے اسے راستہ دے دیا اسے بھاگ جانا چاہیے تھا لیکن وہ وہیں کھڑی رہی۔
میں تمہارے نام سے بھی واقف ہوں اینی!،،،، بن سامر نے کہا۔۔۔ تمہیں دور دور سے دیکھتا رہا ہوں میری نیت بد ہوتی تو تمہیں آٹھواں لینا میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔میں تمہارے ماں باپ کو حکماً اپنی چوکی پر بلوا سکتا تھا تم بھی دوڑی آتی۔
بن سامر جذباتی ہوتا چلا گیا اور اینی پر جیسے سحر طاری ہو گیا تھا ، وہ بھی بن عامر کی پرکشش شخصیت میں تحلیل ہوتی چلی گئی، اس پہلی ملاقات کے بعد اینی کئی بار بن عامر سے ملی بن سامر نےاینی کو عملاً یقین دلادیا تھا کہ وہ اینی کی عصمت کا لٹیرا نہیں،،،،،، محافظ ہے۔
میں تمہیں راز کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں اینی!،،،،،، ایک ملاقات میں بن عامر نے اینی سے کہا ۔۔۔۔اب مجھے تم پر اعتبار آ گیا ہے کہ تم میرے راز کو اپنا ایک بڑا ہی نازک راز سمجھو گی میں قبطی عیسائی ہوں، لیکن ظاہر یہ کر رکھا ہے کہ میں شاہ ہرقل اور قیرس کی عیسائیت کا پیروکار ہوں لیکن میں کسی لڑکی کو نیل کی دلہن بنانے کو گناہ سمجھتا ہوں، میں قیرس کو اسقف اعظم نہیں مانتا، ہمارا اسقف اعظم بنیامین ہے وہ لڑکی کی قربانی کے سخت خلاف ہے۔
بن عامر اور اینی عیسائی تھے وہ جب چاہتے شادی کرسکتے تھے لیکن بن سامر نے اپنا اخلاقی فرض سمجھا کہ اینی کے والدین سے اجازت لے لے۔
ایک روز اس نے اینی کے والدین کے ساتھ بات کی، دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموش رہے آخر اینی کے باپ نے کہا کہ وہ اینی کو جواب دے دے گا۔
اور اینی بن سامر کو بتا دے گی۔
اگلے ہی روز بن سامر گشت کے بہانے آیا اور اینی باہر جاکر اسے ملی۔
نہیں بن سامر ۔۔۔۔۔اینی نے بن سامر کو اپنے باپ کا جواب سنایا، نہ میرا باپ رضامند ہے نہ ماں وہ کہتے ہیں فوجی قابل اعتماد نہیں ہوا کرتے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ فوجی سرکاری عیسائیت کے پیروکار ہوتے ہیں۔
کیا تم نے انہیں بتایا نہیں بن سامر نے پوچھا،
بتایا ہے۔۔۔۔ اینی نے جواب دیا ۔۔۔۔میں نے بتایا ہے کہ بن سامر قبطی عیسائی ہے اور بنیامین کو اپنا اسقف اعظم مانتا ہے۔
باپ نے کہا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے کوئی فوجی کسی دوسری عیسائیت کا پیروکار نہیں ہوسکتا باپ نے یہ بھی کہا کہ اب تم بن سامر سے ملنا چھوڑ دو۔
تمہارا اپنا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ بن سامر نے پوچھا۔
میرا کوئی اور فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔اینی نے جواب دیا۔۔۔۔ میں نے اپنے دل کو مذہب کا اور مذہب کے فرقوں کا پابند بنا رکھا ہی نہیں، اپنے والدین کا فیصلہ بدلنے کی کوشش کروں گی وہ نہ مانے تو میں تمہارے پاس آ جاؤں گی
عینی ابھی اپنے والدین کا فیصلہ بن سامر کے حق میں کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن والدین مان نہیں رہے تھے اتنے میں یہ واقعہ ہوگیا ۔بن سامر نے دیکھا کہ اینی کو ہورشیش کی بیٹی بنا کر اس کے افسر کے سامنے کھڑا کردیا تو بن سامر خاموش رہا اسے معلوم تھا کہ اینی کس کی بیٹی ہے۔
رومی افسر نے اینی کو دریا کے اونچے کنارے پر کھڑا کر کے اعلان کیا کہ اس لڑکی کے جو بھی ماں باپ ہیں وہ آگے آجائیں ورنہ لڑکی کو دریا میں پھینک دیا جائے گا۔ بن سامر کو یہ خطرہ صاف نظر آنے لگا کے لڑکی کے اصل والدین سامنے نہیں آئیں گے۔ اور ہورشیش سچ نہیں بولے گا ،اور رومی افسر اینی کو نیل میں دھکیل دے گا۔
بن سامر کسی طرح بستی کے اندر چلا گیا کہ اسے کوئی دیکھ نہ سکا اس کا گھوڑا بستی کے باہر تھا سب کی نظروں سے اوجھل ہو کر بن سامر دوڑ کر اپنے گھوڑے تک پہنچا کود کر سوار ہوا اور پیشتر اس کے کہ کوئی سنبھل اور دیکھ سکتا کہ یہ کیا ہوا ہے، بن سامرنے اینی کو لے اڑا، اور پیچھے تڑپتا ہوا ایک سپاہی رہ گیا دوسرا سپاہی دریا میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔
رومی افسر غصے سے باؤلا ہونے لگا اس نے ہوشیش اور اس کی بیوی کو دیکھا ان کے چہروں پر رنج یا افسوس کا کوئی خاص تاثر نہیں تھا ۔ اس افسر کے لیے یہ معلوم کرنا کے اینی کس کی بیٹی تھی بہت ہی مشکل تھا لیکن جس ماں اور جس باپ کی وہ بیٹی تھی وہ کیسے برداشت کر لیتے کہ ان کی بیٹی کو ایک فوجی لے گیا ہے۔
اینی کا باپ افسر کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ یہ گھوڑسوار کون تھا جو اس کی بیٹی کو لے گیا ۔
صحیح بات سامنے آگئی۔۔۔ رومی افسر نے غصے میں حکم دیا کہ بستی کو آگ لگا دو لوگ تڑپ اٹھے اور سب نے واویلا باپا کردیا رومی افسر نے انہیں خاموش کرایا اور کہا کہ کوئی ایک آدمی بات کرے۔
لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ سب ان پڑھ اور پسماندہ ہیں، مذہب کے معاملات کو وہ نہیں سمجھتے انہیں پادری جو بات کہتے ہیں وہ اسی کو صحیح مان لیتے ہیں کوئی ماں باپ اپنی نو جوان اور کنواری بیٹی کو دریا میں پھینک دینا برداشت نہیں کرسکتا ۔ یہ مذہبی پیشواؤں کا عقیدہ ہے اور وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ نیل کو کچھ عرصے بعد ایک کنواری لڑکی نہ دو تو یہ لوگوں کے لئے غضب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
میں بھی تمہاری طرح عیسائی ہوں۔۔۔ رومی افسر نے کہا۔
اور میں قبطی بھی ہوں لیکن لڑکی کی قربانی کو میں ظلم اور بہت بڑا گناہ سمجھتا ہوں یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کیا تھا پھر ہم کس طرح مان لیں کے ایک لڑکی کی جان لینا عیسائیت میں جائز ہے؟
حضرت عیسی علیہ السلام نے کوڑھیوں کو شفا بخشی تھی، اور انہوں نے پیار اور محبت کا راستہ دکھایا تھا ،کیا تم نہیں جانتے ہمارا خدا کون ہے ہمارا خدا وہ ہے جو ہمیں حضرت عیسی علیہ السلام نے دکھایا تھا، یہ دریا ہمارا خدا نہیں ہو سکتا اور یہ وصف خدا کا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک معصوم انسان کی جان لے کر خوش ہوتا ہو۔
پھر ہمیں یہ بتا۔۔۔۔ ایک آدمی نے پوچھا کیا ہم وہ عیسائیت کو بھول جائیں جو ہمارے بادشاہ ہرقل نے رائج کی ہے۔
رومی افسر اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا کیونکہ وہ ھرقل کی فوج کا افسر تھا اور اس کی وفاداری ہرقل کے ساتھ تھی اگر وہ کہہ دیتا کہ ہرقل والی عیسائیت صحیح نہیں، اور اس کی مخبری ہوجاتی تو اس کی سزا موت سے کم نہیں ہوسکتی، کی قربانی جرم ہے اور اس کی سزا موت ہے۔
اس نے ہورشیش سے پوچھا کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا تھا۔
میری یہی ایک بیٹی تھی۔۔۔ ہورشیش نے کہا ان لوگوں نے بڑے پادری کے حکم سے اسے دریا میں پھینک دیا میں اس کوشش میں تھا کہ بستی والوں کو پتہ نہ چلے کہ میں نے مخبری کی ہے لیکن یہ دیکھ کر کے آپ بستی کو جلا دینے کا حکم دے رہے ہیں تو میں سچ بول رہا ہوں میں بستی کو نذرآتش ہونے سے بچانا چاہتا ہوں اگر بستی والے مجھے غداری کی سزا دینا چاہیں تو مجھے وہ سزا قبول ہے۔
یہ خوف دل سے نکال دو ۔۔۔رومی افسر نے کہا ۔۔۔۔میری موجودگی میں تمہیں کوئی سزا نہیں دے سکتا میں تم سب کی تعریف کرتا ہوں کہ تم میں اتحاد اور اتفاق ہے میں تمہارا یہ اتحاد قائم رکھنا چاہتا ہوں تمھاری بستی کو کوئی نہیں جلائے گا لیکن اس بستی میں سے کسی لڑکی کی قربانی دی گئی تو پھر میرا رویہ وہی ہوگا جو شاہ ہرقل کے حکم کے مطابق ہونا چاہئے۔
ہم اپنے بڑے پادری کے حکم کے پابند ہیں۔۔۔۔ ایک آدمی نے کہا ۔
رومی افسر نے ان لوگوں سے معلوم کر لیا کہ بڑا پادری کہاں رہتا ہے اور اس کے ساتھ اس قسم کی کارروائیوں میں کون کون ہوتا ہے لوگوں نے رومی افسر کو یہ ساری معلومات دے دیں اور اس شخص یعنی ماہی گیروں کے سردار کا نام بھی بتا دیا۔
رومی افسر نے اسی وقت وہاں سے اپنے سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور اس بستی کی طرف گھوڑوں پر سوار ہو کر چلا گیا جس میں بڑا پادری رہتا تھا۔
پادری وہاں مل گیا اس کے تین چار چیلے بھی اسی بستی میں رہتے تھے ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی رات رومی افسر اس بستی میں پہنچا جہاں ماہی گیروں کا سردار بابا رہتا تھا اسے بھی گرفتار کر لیا گیا۔
دوسرے دن رومی افسر چند ایک گھوڑسوار سپاہیوں کے ساتھ بستی میں جا پہنچا ،جہاں لڑکی کی قربانی دی گئی تھی اب اس کے ساتھ فوج کا ایک بڑا افسر بھی تھا ،اس کے علاوہ اس کے ساتھ بڑا پادری ،پادری کے تین چار ساتھی اور ماہی گیروں کا بابا بھی تھا، یہ سب زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے ،اور ان کے پیروں میں بیڑیاں تھیں ۔بستی کی ساری آبادی کو باہر نکال لیا گیا زنجیروں میں بندھے ہوئے ملزموں کو دریا کے اونچی چٹانی کنارے پر کھڑا کردیا گیا۔
انہیں غور سے دیکھو ۔۔۔بڑے فوجی افسر نے لوگوں سے کہا۔۔۔ اور پوچھا کیا یہی وہ لوگ جنہوں نے پہلے ایک لڑکی کو یہاں سے دریا میں پھینکا تھا اور پھر ہورشیش کی بیٹی کو بھی دریا میں پھینک دیا تھا۔
یہی ہیں ۔۔۔ حورشیش کی آواز تھی۔
یہی ہیں ۔۔۔۔دو تین اور آوازیں اٹھیں۔
سب بولو۔۔۔ فوجی افسر نے کہا۔
ہاں یہی ہیں ۔۔۔ساری آبادی بول اٹھی۔
افسر نے سر سے اشارہ کیا ،سپاہی مجرموں کی طرف دوڑے گئے ان کی زنجیر اور بیڑیاں اتار لیں ،اور انہیں دریا کے اونچے کنارے پر کھڑا کردیا ،دوسرے کئی ایک سپاہیوں کے پاس تیر اور کمان تھی، اپنے افسر کے اشارے پر انھوں نے کمانوں میں تیر ڈالے اور دوسرے ہی لمحے یہ تیر مجرموں کے جسموں میں داخل ہو چکے تھے۔
ان میں سے کچھ اس طرح گرے کے بلند کنارے سے دریا میں جا پڑے اور جو ایک دو کنارے سے ہٹ کر گرے انہیں سپاہیوں نے پاؤں کی ٹھوکروں سے دریا میں پھینک دیا۔
اس وقت بن سامر اور اینی وہاں سے بہت دور ریگستان میں جارہے تھے ۔
اینی بن سامر کے پیچھے گھوڑے پر بیٹھی تھی، مجھے صرف اپنے ماں باپ کا خیال آتا ہے اینی کہہ رہی تھی رومی فوجی انہیں مار ڈالیں گے۔
کچھ تو قربانی دینی پڑتی ہے اینی!،،، بن سامر نے کہا۔۔۔ میرے بھی ماں باپ ہیں اور یہ بھی دیکھو کہ میں نے اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال دیا ہے، میں جب پکڑا جاؤں گا تو مجھے جلاد کے حوالے کردیا جائے گا، ایک تو میں نے فوجی قانون کے خلاف ورزی کی ہے، اور فوج کے دو سپاہیوں کو مار آیا ہوں، وہ جو دو سپاہی میرے گھوڑے کے آگے آگئے تھے وہ زندہ نہیں رہے ہونگے، اب پیچھے نہ دیکھو آگے کا خیال کرو میں تمہیں قبطی عیسائیوں کے بڑے پادری بنیامین کے پاس لے جا رہا ہوں وہ کوئی راستہ دکھا دے گا۔
بن سامر کو بنیامین کے ٹھکانے کا علم تھا۔ پچھلے باب میں بیان ہوچکا ہے کہ بنیامین شہروں اور بستیوں سے بہت دور دشوار گزار ریگستان میں ایک ایسی جگہ روپوش تھا۔ جس کے اردگرد ریت اور مٹی کے ٹیلے اور نشیب و فراز تھے۔
بن سامر کو یہ ٹھکانہ اس طرح معلوم تھا کہ وہ بنیامین کی ہی ایک خفیہ تنظیم کا آدمی تھا،
ہرقل نے قیرس نام کے ایک بڑے پادری کو اپنی بنائی ہوئی عیسائیت کا اسقف اعظم بنا دیا ، اور اسے کلی اختیارات دے دیے تھے کہ وہ ظلم اور درندگی کے ذریعے سرکاری عیسائیت لوگوں سے منوائے، قیرس نے کسی ایسے پادری کو زندہ نہیں رہنے دیا تھا جس نے اس کی اور ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کی تھی، انہیں صرف مار ہی نہیں ڈالا تھا، بلکہ ایسی اذیت دی تھی کہ وہ مرتے بھی نہیں اور جیتے بھی نہیں تھے۔
مثلا اپنے مخالف کے کپڑے اتار کر اور لٹا کر اسکے جسم پر دہکتے ہوئے انگارے یا جلتی ہوئی مشعلیں رکھ دی جاتی تھی، اور پھر اسے کہا جاتا تھا کہ وہ ھرقل کی عیسائیت کو قبول کر لے اور اسی عیسائیت کو گرجوں میں رائج کرے۔
یہ تو سرکاری کارروائیاں تھی جو کھلم کھلا کی جاتی تھیں، تاکہ لوگوں کے دلوں پر دہشت طاری ہوجائے لیکن بنیامین نے ایک خفیہ تنظیم بنا لی تھی جس میں عیسائیت کے عالم بھی تھے اور بن ثامر جیسے دلیر اور نڈر فوجی بھی تھے ،جو اپنی جان پر کھیل جانے کو ایک کھیل ہی سمجھتے تھے ۔
بن سامر اسی تنظیم کا جاں باز تھا اسے بنیامین کے ہاں ہی پناہ مل سکتی تھی۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
بن سامر اور اینی کو ایک رات اور راستے میں گزارنی پڑی اور اگلے روز وہ بنیامین کے پاس پہنچ گئے۔
کیا کر آئے بن سامر!،،،،، بنیامین نے پوچھا یہ لڑکی کون ہے؟
اپنے عقیدے کے لئے تو کچھ نہیں کیا ۔۔۔بن سامر نے جواب دیا ۔۔۔۔اپنی ذات اور اپنے جذبات کے لئے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے۔
کوئی برا نہیں کیا ۔۔۔بنیامین نے کہا ۔۔۔تم نے اپنی محبت اور اس لڑکی کی جان بچانے کے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے تمہیں چھپ کر رہنا پڑے گا۔
رہوں گا تو میں چھپ کر ہی۔۔۔۔ بن سامر نے کہا ۔۔۔۔لیکن میں بیکار نہیں بیٹھونگا میں شاہی عیسائیت کے خلاف کچھ نہ کچھ کرتا رہنا چاہتا ہوں مجھے بتائیں میں کیا کروں۔
بنیامین نے کچھ علمانہ سی باتیں شروع کر دیں۔
قابل احترام اسقف! ۔۔۔۔بن سامر نے کہا۔۔۔ میرے پاس اتنا علم نہیں کہ آپ کی یہ باتیں سمجھ سکوں مجھے صرف یہ بتائیں کہ صحیح عقیدے کو لوگوں میں پھیلانے کے لئے کسے قتل کرنا ہے اور کوئی اپنا دشمن بتائیں جس سے آپ کو بہت ہی خطرہ ہو اور میں جاکر اسے قتل کر دوں۔
ابھی تم خود قتل ہونے سے بچو۔۔۔ بنیامین نے کہا۔۔۔ تم فوجی قانون کے مطابق جو جرم کرکے آئے ہو اس کی سزا تم جانتے ہی ہو کیا ہے ابھی اپنے آپ کو روپوش رکھوں کچھ عرصے بعد میں تمہارا حلیہ بدل کر تمہیں اصل مقصد کے لیے استعمال کروں گا۔
میں ایک بات سمجھتا ہوں۔۔۔ بن سامر نے کہا۔۔۔ ہرقل کو عیسائیت کی توہین کی جو سزا ملی ہے اس سے اس نے عبرت حاصل نہیں کی شام کا اتنا بڑا ملک اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اس کی آدھی سے زیادہ فوج مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ مری ہے، اور اس وقت جو فوج اس کے پاس ہے اس پر عرب کے مسلمانوں کی ایسی دہشت طاری ہے کہ کوئی مذاق میں ہی کہہ دے کہ مسلمان مصر پر بھی حملہ کریں گے تو ہمارے فوجیوں کے رنگ پیلے پڑ جاتے ہیں۔
مذہب کی توہین جس نے بھی کی اسے ایسی ہی سزا ملی۔۔۔ بنیامین کہا ۔۔۔اسلام کی طرح عیسائیت بھی ایسا مذہب ہے جس پر خدا نے کتاب نازل کی ہے ہرقل نے شہنشاہیت کے نشے میں اس مقدس کتاب کی خلاف ورزی کی ہے مجھے نظر آرہا ہے کہ مصر بھی ہرقل کے ہاتھ سے نکل جائے گا ،مذہب کو فرقوں میں بانٹ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔
کیا مسلمان مصر پر چڑھائی کریں گے۔۔۔ بن عامر نے پوچھا۔
اب تک کر چکے ہوتے۔۔۔ بنیامین کہا۔۔۔ لیکن مسلمانوں پر قحط کا ایسا عذاب نازل ہوا ہے کہ سارے عرب میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ،مجھے وہاں کی خبریں ملتی رہتی ہیں، قحط ختم ہونے تک تو مسلمان فوج کشی کی سوچ بھی نہیں سکتے۔
اسقف اعظم !،،،،بن سامر نے کہا۔۔۔۔ ایک بات دل میں آتی ہے مسلمان جب کبھی مصر پر حملہ کریں گے تو ہمیں ان کے خلاف لڑنا پڑے گا، لیکن میں سوچتا ہوں کہ جس طرح مسلمان ہرقل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اسی طرح وہ ہمارا بھی دشمن ہے کیا ہمیں ہرقل کی وفاداری کرنی چاہیے۔
یہ مسئلہ میرے سامنے آچکا ہے۔۔۔ بنیامین کہا۔۔۔ شام سے تین مسلمان جاسوس میرے پاس آئے تھے انہوں نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کیا تھا لیکن میں نے ان کی اصلیت جان کر انہیں بتا بھی دیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان لشکر مصر پر حملہ آور ہو تو عیسائی ہرقل کے خلاف حملے سے پہلے یا حملے کے دوران باغی ہو جائیں ، ان کے خلیفہ اور سالاروں کا مقصد یہ ہے کہ پہلے ہرقل کو مصر سے نکالا جائے اس کے بعد مسلمان اور عیسائی آپس کے معاملات طے کر لیں گے,,,,,,,, تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی صورت میں قبطی عیسائی تماشائی بنے رہیں گے لیکن یہ بھی سن لو کہ ابھی یہ میرا آخری فیصلہ نہیں، البتہ یہ فیصلہ ضرور ہے کہ قبطی عیسائی ہرقل کے وفادار نہیں ہونگے۔
یہ تو بعد کی باتیں تھیں، بن سامر کو کچھ عرصے تک روپوش رہنا تھا ایک لڑکی کو بھگا لے جانا ان کے ہاں کوئی جرم نہیں تھا ،اصل جرم تو یہ تھا کہ بن سامر نے فوجی قانون توڑا اور دو سپاہیوں کو مار گیا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اویس اور رابعہ کی شادی کردی یہ بیت المقدس کی بات ہے۔
عمرو بن عاص اب امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس مدینہ جانا چاہتے تھے تاکہ ان سے مصر پر حملے کی اجازت لیں، مگر ان کی روانگی سے پہلے ہی مدینہ سے پیغام آ گیا کہ خشک سالی نے ایسا قحط پیدا کر دیا ہے کہ لوگ مر رہے ہیں۔
اس کے بعد تو کسی کو ہوش ہی نہ رہی کہ قحط زدہ لوگوں کے پیٹ میں روٹی ڈالنے کے علاوہ کچھ اور بھی سوچ سکتے ، قحط کی تباہ کاریاں نو مہینے پورے جوش و خروش سے جاری رہیں، عمرو بن عاص کے ذہن سے تو جیسے مصر نکل ہی گیا تھا، قحط کی زد میں تو صرف عرب آیا، لیکن قحط زدہ علاقوں کو خوراک مہیا کرنا عراق اور شام کے امراء کی ذمہ داری تھی، آخر انہیں یہ خبر پہنچی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابر رحمت برسا دی ہے، تو عمرو بن عاص کو خیال آیا کہ وہ تو مصر پر حملے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔
اویس رابعہ کے ساتھ ابھی بیت المقدس میں ہی تھا اس کے دونوں جاسوس ساتھی بھی جو مصر سے جاکر بنیامین سے مل آئے تھے ابھی اس کے ساتھ ہی تھے، انہیں مختلف علاقوں سے بلایا گیا تھا کیونکہ یہ بہت ہی تجربہ کار اور ذہین جاسوس تھے، انہیں اپنے اپنے لشکروں میں واپس چلے جانا چاہئے تھا، لیکن عرب کے قحط نے سارا نظام ہی تہہ و بالا کر ڈالا تھا اس لئے یہ تینوں جاسوس مجاہدین بیت المقدس میں ہی پڑے رہے۔
قحط کے بعد جب انتظامی حالات معمول پر آئے تو سپہ سالار ابوعبیدہ نے عمرو بن عاص کو پیغام بھیجا کہ تینوں مجاہدین کو ان کی اصل جگہوں پر واپس بھیج دیں۔ اویس حلب سے آیا تھا اور وہ رہنے والا بھی وہی کا تھا اس لئے اسے واپس حلب جانے کا حکم مل گیا۔
رابعہ جو قبول اسلام سے پہلے روزی ہوا کرتی تھی مصر سے واپس آتے ہی اویس کے پیچھے پڑ گئی تھی کہ وہ حلب اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے جانا چاہتی ہے۔ اویس اسے کہتا تھا کہ وہ اپنے والدین اور دوسرے قریبی عزیزوں سے ملنے کے لیے اتنی بیتابی نہ دکھائے، کیونکہ وہ اسے دیکھ کر خوش نہیں ہونگے ،اور اس کے قبول اسلام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھے گے، اویس بھی نو مسلم تھا یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ جو سنتا وہ حیران ہوتا یہ تو اس وقت کا ایک معمول تھا، غیر مسلم مسلمانوں کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر قبول اسلام کرتے ہی رہتے تھے۔ لیکن اس نے اسلام قبول کیا تو نہ جانے کیوں اس کے بھائی باپ اور دوست اس کے دشمن ہو گئے تھے، صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے جو یہ ہو سکتی ہے کہ اویس غیر معمولی طور پر دلیر ،اور بے خوف تھا ،اور اس کا جسم تو پھرتیلا تھا ہی ،اس کے دماغ میں ایک خاص قسم کی مستعدی اور دانشمندی تھی، اس کے عزیزوں نے یہی سوچا ہوگا کہ اتنا قیمتی اور ایسا جواں سال آدمی ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
اس نے رابعہ کو یہ صورتحال یاد دلائی تھی، اور یہ بھی کہ خود رابعہ نے اسے دھتکار دیا تھا ، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ رابعہ جب روزی ہوا کرتی تھی تو اویس کو جب وہ رابن ہوا کرتا تھا دل وجان سے چاہتی تھی، لیکن رابن جب اویس بن گیا تو روزی نے اسے واضح الفاظ میں یہ کہہ کر دھتکار دیا تھا کہ وہ اب مسلمان ہو گیا ہے، اب وہ رابعہ سے کہتا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ رابعہ کے والدین اور رشتہ دار اسے بھی دھتکار دیں گے ۔
رابعہ اسلام کے خلاف ہوا کرتی تھی لیکن اویس اور اس کے دونوں ساتھیوں نے مصر میں اسے جس طرح نیل کی دلہن بننے سے بچایا اور پھر ایک پاکیزہ اور مقدس چیز سمجھ کر اپنے پاس رکھا اس سے وہ اتنی متاثر ہوئی کہ دلی خوشی سے روزی سے رابعہ بن گئی۔
میں اپنے والدین سے ضرور ملونگی رابعہ اویس سے کہتی تھی۔۔۔ ایک تو وہ میرے والدین ہے اور دوسرے میرا یہ ارادہ بھی ہے کہ انہیں قائل کروں گی کہ وہ بھی اسلام قبول کر لیں۔
اس نے یہ بات اویس سے تین چار مرتبہ کہی تھی ،اور ہر بار اویس اس کی یہ بات سن کر ہنس پڑا تھا ۔
اویس کی مجبوری تھی کہ اسے حلب واپس جانا پڑا ویسے اس نے حلب کو دل سے اتار دیا تھا ۔ رابعہ بہت ہی خوش تھی کہ وہ اپنے شہر اپنے ماں باپ کے پاس جا رہی ہے۔
حلب پہنچ کر اویس رابعہ کو اپنے ٹھکانے پر لے گیا ،پہلے تو وہ غیر شادی شدہ مجاہدین کی طرح لشکر کے ساتھ رہتا تھا، لیکن اب بیوی ساتھ ہونے کی وجہ سے اسے لشکر کی طرف سے چھوٹا سا ایک مکان دے دیا گیا۔ اویس کو اپنے کسی عزیز سے ملنے کا ذرا سا بھی شوق نہیں تھا ،لیکن رابعہ نے اسے ضد کر کے تیار کر لیا کہ اس کے ماں باپ سے ملنے چلے، اویس اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، اس شرط پر اس کے ساتھ چل پڑا کے وہ باہر کھڑا رہے گا اور اگر اس کے والدین پسند کریں گے تو وہ اندر جائے گا۔
والدین کے دروازے پر پہنچ کر اویس باہر کھڑا رہا اور رابعہ بچوں کی سی شوخی کرتی اندر چلی گئی، گھر کے جس فرد نے بھی اسے دیکھا وہ حیران بعد میں ہوا اس سے پہلے خوف زدہ ہوا کہ یہ ان کی روزی نہیں اس کی روح یا بدروح ہے، روزی کو تو وہ مرا ہوا سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ پاگل پن کی کیفیت میں شہر سے بھاگی تھی، ایک سال اور کچھ مہینے گزر گئے تھے اب تو اس کی واپسی کی امید بھی ختم ہو گئی تھی۔
کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو؟،،،، رابعہ نے اپنے ماں باپ اور دیگر اہل خانہ سے کہا ۔۔۔میں زندہ ہوں لیکن پہلے سے زیادہ زندہ ہوں۔
کیا تم واقعی زندہ ہو ۔۔۔روزی ماں نے بازو پھیلا کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔
نہیں ماں! ۔۔۔رابعہ نے کہا۔۔۔ روزی مر گئی ہے میں اب رابعہ ہوں، میں مسلمان ہو گئی ہوں، میرا خاوند باہر کھڑا ہے میں اسے اندر لاتی ہوں۔
رابعہ کی ماں کے پھیلے ہوئے بازو نیچے گرپڑے اسے روزی کا قبول اسلام بہت برا لگا تھا ۔روزی نوعمر لڑکی تھی اسے ابھی اتنا تجربہ حاصل نہیں ہوا تھا کہ چہرے کی کیفیت سے اسکا ردعمل محسوس کر سکتی ،ویسے بھی وہ جذبات کے غلبے میں آئی ہوئی تھی اور بہت خوش تھی، ماں اور دیگر اہل خانہ کا ردعمل سمجھے بغیر وہ باہر کو دوڑی اور اویس کو بازو سے پکڑ کر اندر لے گئی۔ اویس اس خیال سے اس کے ساتھ چلا گیا کہ اس کے والدین نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی ہو گی۔
اویس اندر گیا تو اسے رابعہ کا باپ سامنے کھڑا نظر آیا اور اس نے اس کے ساتھ مصافحہ کرنے کے لئے دونوں ہاتھ آگے کیے لیکن رابعہ کے باپ نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلیے۔ رابعہ کی ماں نے اویس کو حقارت سے دیکھا اور منہ پھیر لیا ، رابعہ کا ایک بڑا بھائی اور اس کی بیوی بھی گھر میں تھی ان دونوں نے بھی اویس کے ساتھ ایسی ہی حقارت آمیز بے رخی کا مظاہرہ کیا۔
دیکھ لیا رابعہ !۔۔۔۔اویس نے کہا۔۔ کیا وہی نہیں ہوا جو میں کہتا تھا انہیں بتاؤں میں تمہیں کہاں ملا تھا اور کس طرح تمہیں موت کے منہ سے نکالا تھا، ان لوگوں میں اتنا بھی اخلاق نہیں کہ اپنے داماد کے ساتھ وہ سلوک کریں جو دامادوں کا حق ہوتا ہے۔
ہم نے تمہیں اپنا داماد نہیں بنایا۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا۔۔۔ تم خود گمراہ ہوئے تھے اور تم نے ہماری بیٹی کو بھی گمراہ کر دیا ہے ،ہم اس گھر میں تمہیں اچھے سلوک کا حق نہیں دے سکتے۔
رابعہ کا چہرہ غصے اور ندامت سے سرخ ہو گیا، اویس نے اسے کہا کہ وہ انھیں بتائے کہ لوگوں نے اسے دھوکے میں کہاں تک پہنچا دیا تھا ،اور اویس نے اسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کس طرح بچا لیا تھا،،،،،، رابعہ نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ بیٹھ جائیں اور سنیں کہ اس پر کیا بیتی تھی اور کس طرح اللہ نے یہ تین فرشتے آسمان سے اتارے تھے۔
سب بیٹھ گئے رابعہ نے اویس کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اس پر جو بیتی تھی وہ سنانی شروع کردی وہ جوں جوں سناتی جا رہی تھی اس کے گھر کے افراد کے چہرے نارمل حالت پر آتے جا رہے تھے، آخر میں اس نے کہا کہ وہ اس قدر مجبور اور بے بس تھی کہ اویس اور اس کے ساتھی اسے جتنا چاہے خراب کر سکتے تھے لیکن انھوں نے فرشتوں جیسا سلوک کیا۔
میں اس اخلاق اور سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئی ہوں۔۔۔ رابعہ نے کہا ۔۔۔ورنہ تمہیں یاد ہوگا ماں میں اویس کو دلی طور پر چاہتی تھی جب یہ رابن ہوا کرتا تھا ،لیکن یہ جب مسلمان ہوا تو میں نے اس سے تعلق توڑ لیا تھا، میں کہتی ہوں کہ جتنا اچھا اخلاق مسلمانوں کا ہے اتنا کسی اور کا نہیں ہوسکتا، مصر میں جاکر دیکھو عیسائی بادشاہ ہرقل عیسائیوں کا خون بہا رہا ہے، وہاں تو یہ مسئلہ ہی نہیں ہو رہا کہ سچی اور صحیح عیسائیت کونسی ہے، بادشاہ کی یا رعایا کی۔
رابعہ بولتی چلی گئی اویس خاموش بیٹھا رہا اور گھر کے افراد چپ چاپ سنتے رہے۔
میں تو کسی اور ارادے سے آئی تھی۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔ میں کہتی ہوں تم سب اسلام قبول کر لو۔
کون سے مسلمانوں کی بات کررہی ہو۔۔۔ باپ نے کہا۔۔۔ وہ مسلمان کوئی اور تھے جنکے اخلاق سے غیر مسلم متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے، اسلام نے شراب کو ویسے ہی حرام قرار دیا ہے جیسے خنجیر کو، میں جانتا ہوں مسلمان شراب کی بو سے بھی بھاگتے ہیں لیکن یہاں بعض مسلمان نے شراب نوشی شروع کردی ہے اور وہ شراب کو حلال سمجھنے لگے ہیں۔
میں نہیں مانتا۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ آپ یہ کہیں کہ میں نے اور آپ کی اس بیٹی نے اسلام قبول کر کے اچھا نہیں کیا مسلمانوں پر جھوٹا الزام عائد نہ کریں۔
یہ الزام نہیں۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا ۔۔۔میں تمہیں ایسے مسلمان دکھا سکتا ہوں اور دکھاؤں گا۔
یہ ان کا ذاتی فعل ہے ۔۔۔اویس نے کہا۔۔۔ اسلام نے یا خلیفہ نے یا مسلمانوں نے بحیثیت قوم انہیں شراب پینے کی اجازت نہیں دی ،نہ ہی اسلام نے شراب کو حلال قرار دے دیا ہے۔
یہ تمہیں کچھ وقت گزر جانے کے بعد پتہ چلے گا۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا۔۔۔ ان شراب نوش مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی انکی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بھی شراب پینے لگیں گے ،شراب کا نشہ عقل پر غالب آجاتا ہے پھر انسان دوسرے گناہوں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے، اگر اس قوم میں شراب چل نکلی تو اس کا وہ حسن سلوک ختم ہوجائے گا جس سے متاثر ہو کر غیرمسلم اسلام قبول کر لیتے ہیں۔
اویس کے ساتھ رابعہ بھی اکتانے لگی کہ اس کا باپ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناپسندیدگی اور بے زاری کا اظہار کررہا ہے۔ اپنے باپ کو وہ جانتی تھی کہ اپنے مذہب کے معاملے میں وہ بڑا ہی سخت ہے، بلکہ عیسائیت اس کے دل و دماغ پر جنون کی طرح طاری تھی اس نے بہتر سمجھا کہ اپنے باپ کی اس الزام تراشی کو یہی روک دے اس نے باپ سے کہا۔۔۔ کہ وہ آئندہ بھی اویس کو اپنے ساتھ لانا چاہتی ہے کیا باپ اس کی اجازت دیتا ہے؟
نہیں!،،،، باپ نے فوراً اپنا فیصلہ سنا دیا۔۔۔ تم دونوں کے لئے میرے گھر کے دروازے بند ہوچکے ہیں ،اگر تم دونوں واپس عیسائیت میں آ جاؤں تو میں تمہارے لئے اپنے دل اور اپنی روح کے بھی دروازے کھول دوں گا۔
ہم اب کسی غلط دروازے میں داخل نہیں ہوں گے۔۔۔ اویس نے کہا ۔۔۔اور اٹھ کھڑا ہوا رابعہ کو اٹھایا اور بولا چلو رابعہ میں اپنی توہین اور بےعزتی برداشت کر سکتا ہوں ،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذرا سی جھوٹی تہمت بھی برداشت نہیں کروں گا، میں یہاں کئی اور عیسائیوں کو مسلمان کر لوں گا۔
شاید تم ایسا نہیں کر سکو گے۔۔۔ رابعہ کا بڑا بھائی جو اس وقت تک خاموش تھا بولا ۔۔۔روزی اسے اسلام کی تبلیغ سے روکنا ورنہ،،،،،،،،
میں روزی نہیں رابعہ ہوں میرے بھائی۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔ یہ اپنے مذہب کے لئے جو بہتر سمجھے گا کرے گا میں اسے نہیں روکوں گی۔
اویس اور رابعہ وہاں سے نکل آئے رابعہ کا بھائی دونوں کو دروازے سے نکل جانے تک گھورتا رہا تھا۔
اویس بہت بہادر مجاہد ہی سہی، بڑا ذہین اور عقل و دانش والا جاسوس ہی سہی ،لیکن وہ رابعہ کے بھائی کی نیت اور نظریں نہ بھانپ سکا۔ اس بھائی نے اویس کو بڑے تحمل سے کہا تھا کہ شاید تم ایسا نہیں کر سکو گے،لیکن اس تحمل میں ایک طوفان چھپا ہوا تھا جسے اویس دیکھ نہ سکا محسوس بھی نہ کر سکا تھا۔
اس گھر سے نکل کر وہ رابعہ سے کہتا جارہا تھا کہ وہ پھر کبھی اسے یہاں نہ لائے۔
نہیں لاؤ گی اویس!،،،، رابعہ نے کہا۔۔۔ توقع نہیں تھی کہ میرے ماں باپ مجھے اس طرح دھتکار دیں گے ،ایک خیال رکھنا اویس میرا باپ مذہب کا پرستار ہے لیکن میرا یہ بھائی ٹھیک آدمی نہیں۔
یہ میرا کیا بگاڑ لے گا ۔۔۔اویس نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ میرا کوئی تعلق ہی نہیں نہ اس کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا ہے۔
رابعہ نے یہ جو کہا تھا کہ اس کا بھائی ٹھیک آدمی نہیں، اس کا اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ٹھیک نہیں تو کس حد تک برا آدمی ہے ،اور اس میں کیا برائی ہے رابعہ کا یہ بھائی مسلمانوں کا جانی دشمن تھا رومی فوج میں عارضی طور پر شامل ہو کر ایک دو مرتبہ مسلمانوں کے خلاف لڑا بھی تھا لیکن یہ محسوس کر کے کہ مسلمانوں کو میدان جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی وہ فوج سے نکل آیا اور مسلمانوں کے خلاف زمین دوز تخریبی کارروائیوں کا ارادہ کر لیا، اس نے تین چار اپنے جیسے دوستوں کو ساتھ ملا لیا تھا لیکن ابھی تک وہ کوئی ایسی تخریبی کارروائی نہیں کر سکا تھا جس سے مسلمانوں کو کوئی نمایاں نقصان پہنچتا اس نے تبلیغی مہم بھی شروع کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو اپنے مذہب عیسائیت کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی ،اس کی شادی سے بہت پہلے نوجوانی کے وقت اسے ایک لڑکی سے محبت تھی اور اس کی شادی اسی لڑکی کے ساتھ ہونی تھی، لیکن جس طرح رابعہ اور شارینا نے کسی مجاہد سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئی تھیں، اسی طرح یہ لڑکی بھی کسی ایسی ہی صورتحال میں ایک عربی مجاھد سے ایسی متاثر ہوئی کی رابعہ کے بھائی کو ٹھکرا کر اور پھر اسلام قبول کر کے اس مجاہد کی رفیقہ حیات بن گئی تھی۔
اب اس شخص کی اپنی بہن نے اسلام قبول کرکے ایک نو مسلم کے ساتھ شادی کرلی تو اسے اپنی پہلی محبت یاد آ گئی اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑا ھی خوفناک ارادہ اس کے دل میں پیدا ہوگیا ،اویس اور رابعہ کے چلے جانے کے بعد وہ گھر سے نکلا اور اپنے دو تین دوستوں کو اکٹھا کر لیا انہیں اویس اور رابعہ کی بات سنائی اور کہا کہ اویس کہتا ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کر ے گا۔
ہم اسے کس طرح روک سکتے ہیں؟ ۔۔۔ایک دوست نے پوچھا۔
قتل،،،، رابعہ کے بھائی نے دوٹوک لہجے میں کہا۔۔۔۔ ہم نے آج تک کوئی ایسی کاروائی نہیں کی جس سے اسلام کا راستہ روکا جاسکتا ہے ہم صرف باتیں کرتے رہے ہیں اور عملاً کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
دوست اویس کے قاتل پر رضامند ہو گئے اور سوچنے لگے کہ قتل کس طرح کیا جائے کچھ دیر اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور انہوں نے ایک طریقہ سوچ لیا یہ بھی طے کر لیا کہ کون آدمی اویس کو جھانسہ دے کر قتل کی جگہ تک لائے گا۔
چار پانچ دن گزر گئے اویس ان کے پھندے میں نہ آ سکا کیوں کہ وہ اپنے فرائض میں مصروف ہو گیا تھا، ان دنوں میں جو گزر گئے تھے ان لوگوں کا یہ ارادہ مکمل طور پر مستحکم ہو گیا کہ اویس کو قتل کرکے ہی رہیں گے۔
آخر ایک روز اویس اس شخص کو مل گیا جس کے ذمے یہ کام تھا کہ اویس کو جھانسہ دے کر قتل والی جگہ پہنچائے گا، انہوں نے قتل کا منصوبہ نہایت اچھا بنایا تھا ، رابعہ کے بھائی نے اویس کی اس بات کو سامنے رکھا تھا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اویس کو دھوکے میں شہر سے باہر لے جانے والے آدمی نے اویس سے کہا کہ دو تین عیسائی مسلمان ہونا چاہتے ہیں لیکن وہ کچھ جاننا اور سمجھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ خود بھی مسلمان ہو جائے گا۔
اویس شام کے بعد اس شخص کے ساتھ اس طرف چل پڑا جہاں اسے قتل کرنا تھا اور پھر اس کی لاش غائب کردینی تھی۔ اویس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کی ایسی محبت اور عقیدت پیدا ہو گئی تھی کہ اس نے یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ یہ دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔
وہ اس شخص کے ساتھ شہر سے باہر نکل گیا، اسے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ آدمی شہر سے باہر ایک جگہ بیٹھے ملیں گے اور وہاں بات ہو گی ،اس قاتل پارٹی نے ہر کام یوں طے کر لیا تھا کہ یہ شخص اویس کو اس جگہ لے جائے گا اور رابعہ کا بھائی اپنے دو دوستوں کے ساتھ وہاں پہلے سے موجود ہوگا اور کوئی بات کیے بغیر فوراً ہی اویس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
اویس اس شخص کے ساتھ اس جگہ پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا اس شخص نے کہا کہ وہ لوگ ابھی آتے ہوں گے ،دونوں وہاں انتظار میں بیٹھ گئے اور وقت گزرتا چلا گیا یہ آدمی پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھتا رہا آخر اویس نے کہا کہ وہ اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتا اور اگر یہ لوگ کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کل میرے پاس آ جائیں اور میں انہیں کسی ایسے مجاہد سے ملوا دو گا جو اسلام کے امور اور معاملات کو زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے۔
قاتل پارٹی کا یہ آدمی اکیلے تو کچھ نہیں کرسکتا تھا نہ اسے یہ بتایا گیا تھا کہ پارٹی کا کوئی اور آدمی نہ آئے تو یہ کام وہ خود ہی کر دی، اس شخص نے اویس کو باتوں میں لگائے رکھا لیکن وقت اتنا زیادہ گزر گیا تھا کہ وہ خود اس شخص نے محسوس کیا کہ اب انتظار بےکار ہے دونوں وہاں سے واپس آ گئے، اور اویس اپنے ٹھکانے پر چلا گیا۔
میرا بھائی بہت ہی بیمار ہو گیا ہے۔۔۔ رابعہ نے اویس کو بتایا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ان کے پڑوس میں رہنے والی ایک عورت ادھر سے گزری میں تمہارے انتظار میں دروازے میں کھڑی تھی عورت میرے پاس رک گئی اور اس نے بتایا کہ تمہارا بھائی دو تین دنوں سے کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہے کہ کسی سیانے کو پتہ نہیں چلتا کہ بیماری کیا ہے ،دو تین دنوں میں ہی وہ آخری وقت تک جا پہنچا ہے اور ہوسکتا ہے آج کی رات اس کی زندگی کی آخری رات ہو، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بھائی کو دیکھنے جاؤں یا نہ جاؤں۔
جانا چاہتی ہو تو میں تمہیں روکوں گا نہیں۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ مجھے ساتھ لے جانا چاہو تو میں بھی چلوں گا۔
رابعہ کو اپنے گھر سے دھتکار کر نکالا گیا تھا لیکن وہ آخر بہن تھی اس سے رہا نہ گیا اور وہ اسی وقت اویس کو ساتھ لے کر اپنے بھائی کو دیکھنے چلی گئی، اسے کسی نے گھر میں آنے سے روکا نہیں شاید اس لیے کہ اس کے بھائی پر نزع کا عالم طاری تھا بھائی کی بیوی اس کی ماں اور باپ رو رہے تھے
بھائی نے رابعہ سے پہلے اویس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھیں بند ہو گئی فوراً ہی بھائی کی آنکھیں کھلی اس نے ایک ہچکی لی اور اس کا چہرہ ایک طرف ڈھلک گیا وہ مر چکا تھا ۔ اویس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس شخص نے اسے قتل کرنے کے لئے پھندہ لگا دیا تھا ،اور اویس اس پھندے میں چلا بھی گیا تھا، لیکن اللہ کا کوئی بندہ اللہ کے ارادوں کو نہیں سمجھ سکتا ،رابعہ کے آنسو بہنے لگے ماں باپ نے اس کی طرف توجہ ہی نہ دی ان کا جوان اور شادی شدہ بیٹا مر گیا تھا اویس رابعہ کو وہاں سے لے آیا۔
دوسرے ہی دن پتہ چلا کہ رابعہ کے بھائی کا ایک دوست جو اویس کے قتل کی اس سازش میں شامل تھا اسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے تیسرے دن وہ بھی مر گیا ۔اس کے ساتھ ہی اس کا وہ دوست بھی اسی بیماری سے چل بسا جو اویس کو قتل والی جگہ لے گیا تھا۔
اویس کو اللہ نے قتل ہونے سے صاف بچا لیا، اویس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ جو مر گئے ہیں وہ اسے مارنے کی سازش کرچکے تھے، لیکن یہ بیماری صرف ان تین دوستوں کے لیے ہی نہیں آئی تھی بلکہ حلب کے پورے شہر میں یہ بیماری پھیل گئی گھر گھر سے جنازہ نکلنے لگے طبیبوں نے بتایا کہ یہ طاعون کا مرض ہے، یہ ایسا لاعلاج مرض تھا کہ جس پر اس کا حملہ ہوتا ہے وہ ایک دو دنوں میں مر جاتا تھا۔ طبیبوں نے بہت کوشش کی کہ اس مرض کو روکا جائے لیکن مرض پھیلتا چلا گیا اور اس نے پورے ملک شام کو لپیٹ میں لے لیا۔
تاریخ میں اس وباء کے متعلق جو تفصیلات آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ابتدا فلسطین کے ایک قصبے عمواس سے ہوئی تھی، اس دور کے لوگوں کو ابھی اتنی سوجھ بوجھ نہیں تھی کہ ایسی بیماریوں میں کیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے، عام ذہن کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے کو بھی لگ سکتی ہے ،اسی لاعلمی کا نتیجہ تھا کہ عمواس سے چلنے والی بیماری شام تک پہنچی اور موت ہر گھر کے دروازے پر دستک دینے لگی۔
یہ مرض طاعون تھا لیکن اس دور کے لوگوں نے اسے عمواس کا مرض کہا تھا۔ بعض مؤرخوں نے بھی اسے یہی نام دیا ہے۔
قحط کے اثرات ابھی باقی تھے کہ اس وباء نے قحط کی تباہ کاریوں کو بھی مات کر دیا ۔
یہ وباء (639 عیسوی ) (18ہجری )میں پھیلی تھی۔
قحط عرب میں پڑھا تھا، اور طاعون شام میں پھیلی لیکن اس کے دوسرے اثرات عرب تک پہنچے ایوان خلافت ہلکے رہ گیا، وباء صرف شہریوں میں نہیں بلکہ مجاہدین کے لشکروں میں بھی پھیل گئی تھی۔
اس کی خبر ہرقل تک پہنچ گئی ۔ وہ بہت خوش ہوا اور اپنے مشیروں سے کہا کہ مسلمانوں کو شکست دینے کا یہ موقع نہایت اچھا ہے۔ خوشامدی مشیروں نے اس کی تائید کردی۔
اس کے مقرر کیے ہوئے اسقف اعظم قیرس کو ہرقل کے اس ارادے کا پتہ چلا تو وہ ہرقل کے پاس گیا۔
یہ خطرہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی محسوس کیا تھا کہ اس خوفناک صورتحال میں رومی فوج نے حملہ کر دیا تو حملے کو روکا نہیں جا سکے گا ،آدھا لشکر اس مرض کی نذر ہو گیا تھا اور کچھ سالار بھی اس وباء کی زد میں آکر اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔
شہنشاہ روم!،،،، قیرس نے ہرقل سے کہا۔۔۔ معلوم ہوا ہے کہ آپ شام پر فوج کشی کرنا چاہتے ہیں ؟،،،،اور مشیروں نے آپ کی تائید میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو ملک شام سے نکالنے کا اس سے زیادہ اچھا موقع پر کبھی نہیں ملے گا۔
ہاں اسقف اعظم !،،،،،ہرقل نے پرعزم لہجے میں کہا۔۔۔ شام ہی نہیں میں پورے ملک عرب کو اپنی سلطنت میں شامل کر لوں گا ابھی تو وہ قحط سے نہیں سمنبھلے تھے کہ ان پر یہ مصیبت نازل ہو گئی ہے۔
اگر مجھے آپ کے نقصان کا احساس نہ ہوتا تو میں بھی آپ کی تائید کرتا۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ لیکن آپ میرے بادشاہ ہیں ،اور محسن ہیں ،اور سلطنت روم کے ساتھ میری روحانی وابستگی ہے میں آپ کو اس راستے پر جانے سے روکوں گا جو تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اس حقیقت کو نہ بھولیں کہ ہماری آدھی سے زیادہ فوج عربوں کے ہاتھوں ماری جاچکی ہے اور باقی جو بچ کر مصرمیں ہے اس پر ابھی تک عربی مسلمانوں کی دہشت طاری ہے ۔اگر آپ اس فوج کو طاعون سے مروانا چاہتے ہیں تو شام پر حملہ کردیں۔
کیا اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ مسلمانوں کے لشکر بھی اسی بیماری کی زد میں آگئے ہیں، اور یہ وباء ہماری فوج کو بھی نہیں بخشے گی؟ کل تک مجھے جو خبر ملی ہے ان سے پتہ چلا ہے کہ مسلمانوں کے کچھ سالار بھی اس بیماری سے مر چکے ہیں۔
ہرقل یہ بات سمجھ گیا اور اس نے شام پر حملے کا ارادہ ذہن سے نکال دیا۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ وباء کی اطلاع ملنے سے پہلے ہی شام جانے کا ارادہ کر چکے تھے ۔اس دوران وباء کی اطلاعیں پہنچنے لگیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کچھ زیادہ پریشان نہ ہوئے بلکہ انہوں نے جانا زیادہ بہتر سمجھا تھا کہ وہاں کی صورت حال دیکھ کر وباء کو روکنے کا کچھ بندوبست کیا جائے ۔چنانچہ حضرت عمر نے فوری روانگی کا حکم دے دیا اور ان کا قافلہ سُوئے شام روانہ ہو گیا۔
نہ جانے کتنے دنوں بعد امیرالمومنین کا قافلہ تبوک پہنچا شام کے مختلف علاقوں کے سالاروں کو پہلے اطلاع دے دی گئی تھی کہ امیرالمومنین شام کے دورے پر آرہے ہیں ہر سالار نے سوچ لیا کہ امیرالمومنین کا شام میں آنا ٹھیک نہیں ،چنانچہ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ، سالار یزید بن ابی سفیان ،اور سالار شرجیل بن حسنہ، تبوک پہنچ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بتایا کہ وہ اس سے آگے نہ جائیں کیوں کہ شام کی زمین اور فضا میں طاعون کے جراثیم اور موت کے سوا کچھ نہیں رہا انہوں نے امیرالمومنین کو وباء کی شدت اور تباہ کاری کی تفصیلات بتائیں۔
یہاں روکے رہنا میرے لیے ممکن نہیں ۔۔۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ میں یہیں سے واپس مدینہ چلا گیا تو بھی ان کی روحوں کے آگے شرمسار ہونگا جنہیں اس بیماری نے اللہ کے حضور پہنچا دیا ہے میں اپنے قوم کو اتنی خطرناک ابتلا میں چھوڑ کر واپس کس طرح جا سکتا ہوں۔
سالاروں نے انھیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ آگے نہ جائیں وہ دلیل یہ دیتے تھے کہ اس خوفناک صورتحال میں اگر امیرالمومنین کو کچھ ہو گیا تو ایک اور مسئلہ پیدا ہوجائے گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پھر بھی نہ مانے اور سب سے مشورہ طلب کرنے لگے ان کے ساتھ سالاروں کے علاوہ کچھ اکابرین بھی تھے ان سب میں اختلاف پیدا ہو گیا۔
یا امیرالمومنین !،،،،بعض نے ان الفاظ میں مشورہ دیا چونکہ آپ بنی نوع انسان کی بھلائی اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر جا رہے ہیں اس لئے آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ آگے کیا خطرات ہیں۔
نہیں امیرالمومنین!،،،، دوسرے گروہ نے یہ خیال ظاہر کیا جہاں ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ بھی نہ ہو وہاں کم از کم خلیفہ وقت کو نہیں جانا چاہیے، اللہ تعالی نے عقل اسی لیے عطا فرمائی ہے کہ ہر کام سوچ سمجھ کر کرو۔
آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قریش کے ان صحابہ کرام کو جو اس وقت ان کے ساتھ تھے اور جو فتح مکہ میں بھی شریک تھے اپنے پاس بلایا اور یہ مشورہ ان کے آگے رکھا ان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے یہ سب اس فیصلے پر متفق ہوگئے کہ امیرالمومنین اپنے تمام قافلے سمیت تبوک سے آگے نہیں بلکہ واپس مدینہ جائیں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی وقت حکم دیدیا کہ کل صبح ان کا قافلہ مدینہ کو روانہ ہوگا۔
تقریباً تمام مؤرخوں نے امیرالمومنین اور ابو عبیدہ کا ایک مشہور مکالمہ لکھا ہے ،تاریخ میں آیا ہے کہ ابوعبیدہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تبوک سے آگے جائیں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واپسی کا فیصلہ کرلیا تو ابوعبیدہ کی رائے نہ جانے کس طرح متزلزل ہو گئی۔
ابن الخطاب!،،،،، ابوعبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑی بے تکلفی سے کہا ۔۔۔قضائے الہی سے بھاگتے ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور حیرت زدگی کے عالم میں کچھ دیر ابوعبیدہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔
ابن الجراح!،،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوعبیدہ سے کہا۔۔۔۔ کاش یہ بات کوئی اور کہتا۔۔۔۔ ہاں میں قضائے الہی سے قضا الہی کی طرف بھاگ رہا ہوں۔
ابوعبیدہ خاموش ہوگئے اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آ گئے وہ معمر صحابی تھے انھیں پتہ چلا کہ یہاں کیا مسئلہ درپیش ہے تو انھوں نے حتمی فیصلہ سنا دیا انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ تم سنو کسی علاقے میں کوئی وبا پھیل گئی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم اس جگہ ہو جہاں وبا پھوٹ پڑی تو وہاں سے بھاگو نہیں کیونکہ تم یہ وباء اپنے ساتھ لے جاو گے اور کسی اور جگہ پھیلا دو گے، چونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مطمئن ہوگئے اور تبوک سے واپس مدینہ چلے گئے۔
مدینہ پہنچ کر امیرالمومنین اطمینان سے کس طرح رہ سکتے تھے، ہر وقت شام کے لوگوں کے متعلق سوچتے کہ انھیں اس وباء سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے۔
تاریخ کے مطابق انھیں سب سے زیادہ خیال ابوعبیدہ کا تھا ابوعبیدہ بڑے قیمتی سپہ سالار تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں بچانا چاہتے تھے، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انھوں نے ابوعبیدہ سے کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مدینہ چلے چلیں، لیکن اس عظیم سپہ سالار نے جواب دیا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو موت کے سائے میں چھوڑ کر نہیں جائیں گے ،اور انہوں نے اپنے وہ الفاظ استعمال کیے جو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہہ چکے تھے میں قضائے الہی سے نہیں بھاگوں گا۔
مدینہ پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سپہ سالار ابوعبیدہ کو طاعون سے بچانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان کے نام ایک پیغام لکھوا کر تیزرفتار قاصد کے ہاتھ بھیجا پیغام یہ تھا کہ میں ایک ضروری مسئلہ پر تم سے زبانی گفتگو کرنا چاہتا ہوں اس لئے پیغام ملتے ہیں چل پڑو۔
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس پیغام کا جواب یہ دیا کہ جس مسئلہ پر آپ میرے ساتھ صلح مشورہ کرنا چاہتے ہیں وہ ملتوی ہو سکتا ہے لیکن میں یہاں اسلامی لشکر کا سپہ سالار ہوں اور اس لشکر کو اتنی بڑی مصیبت میں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا میں اپنے ساتھیوں کو نہیں چھوڑوں گا اور اللہ کے حکم کا انتظار کروں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیغام کا جواب ملا تو ان پر جذبات کے احساس کا غلبہ ہوا کہ ان کے آنسو بہہ نکلے وہاں جو حضرات بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے کسی نے گھبرا کر پوچھا یا امیرالمومنین ابوعبیدہ فوت تو نہیں ہوگئے ۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رقت آمیز آواز میں جواب دیا ۔۔۔نہیں مگر معلوم ہوتا ہے وہ فوت ہی ہو جائے گا۔
امیرالمومنین نے ابوعبیدہ کا خط تمام حاضرین کو پڑھنے کے لئے دیا پھر سوچ سوچ کر ابو عبیدہ کے نام ایک اور پیغام لکھا جس میں لکھوایا کہ ابو عبیدہ نشیبی علاقے سے نکل کر ذرا بلند اور صحت افزا مقام پر چلے جائیں اور اپنے لشکر کو بھی ساتھ لے جائیں۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس حکم یا مشورے پر عمل کرنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ طاعون نے انہیں بھی زد میں لے لیا اور وہ تیسرے دن فوت ہو گئے، انہوں نے بیماری کے حملے کے ساتھ ہی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا، وہاں موت کا یہ عالم تھا کہ معاذ بن جبل کے دو جوان بیٹے طاعون کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ اور کچھ دنوں بعد وہ خود بھی اس مرض سے فوت ہو گئے انہوں نے عمرو بن عاص کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔
عمرو بن عاص نے مجاہدین کے لشکر کو اور شہریوں کو بھی کہا کہ وہ میدانوں سے نکل کر پہاڑوں میں چلے جائیں چنانچہ لوگ گھر کھلے چھوڑ کر پہاڑوں میں چلے گئے اور اس طرح طاعون کا زور ٹوٹتے ٹوٹتے بالکل ہی ختم ہو گیا۔
یہ وباء کئی مہینے انسانی جانوں سے کھیلتی رہی اور پچیس ہزار مسلمانوں کی جان لے کر ٹلی جو سالار فوت ہوئے ان میں ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان ،حارث بن حسام، سہیل بن عمرو، اور عتبہ بن سہیل، رضی اللہ تعالی عنہم خاص طور پر شامل ہیں ۔حارث بن ہشام کے خاندان کے ستر افراد اور حضرت خالد بن ولید کے خاندان کے چالیس افراد اس وباء میں فوت ہوگئے تھے۔
موجودہ دور کا مستند تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل (مصری) کئی ایک مؤرخوں کے حوالوں سے لکھتا ہے کہ یہ وباء ویسے ہی نہیں آ گئی تھی، بلکہ اللہ نے مسلمانوں کو غلط راستے پر چل نکلنے پر خبردار کیا تھا۔ اس نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ان علاقوں میں بڑی لمبی جنگ ہوئی تھی جو بہت ہی خونریز تھی رومی فوج کی بے انداز لاشیں سارے علاقے میں پڑی گلتی سڑتی رہی تھیں، انہوں نے جراثیم پیدا کرکے فضا میں پھیلا دیں اور طاعون کی وباء پھوٹ پڑی پڑی۔
قدیم مؤرخین اس سبب کو تسلیم نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ یہ وباء شام سے نہیں بلکہ فلسطین کے ایک شہر عمواس میں سے اٹھی تھی اور یہ اللہ کا نازل کیا ہوا غضب تھا۔
اس داستان میں پہلے ذکر آیا ہے کہ رابعہ کے باپ نے اویس اور رابعہ سے کہا تھا کہ شام میں بعض مسلمانوں نے شراب اپنے اوپر حلال کر لی ہے اور وہ کھلم کھلا شراب پینے لگے ہیں، اویس اور رابعہ نے کہا تھا کہ یہ شخص مسلمانوں پر بےبنیاد الزام عائد کررہا ہے اور یہ اسلام سے نفرت کا اظہار ہے، لیکن رابعہ کا باپ الزام تراشی نہیں بلکہ سچی بات کہہ رہا تھا۔
ان مؤرخوں نے لکھا ہے کہ شام اسلامی سلطنت میں شامل ہوگیا تو عرب کے کئی خاندان شام کے مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہو گئے تھے، وھاں کے عیسائی آبادی مسلمانوں کی وفادار ہو گئی لیکن دل سے انہوں نے مسلمانوں کو قبول نہیں کیا تھا ،کچھ دانشمند عیسائیوں نے اس قسم کی نظریاتی تخریب کاری کی کہ کچھ مسلمانوں کو شراب کی طرف مائل کر لیا صاف ظاہر ہے کہ انھوں نے یہ کام اپنی حسین اور جوان لڑکیوں کے ذریعے کیا ہوگا۔
ان مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں نے شراب نوشی سے روکا تو شراب نوش مسلمانوں نے قرآن کے حوالے سے کہا کہ قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں ۔۔۔۔۔کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے۔۔۔۔۔ یہ مسلمان کہتے تھے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ اپنے بندوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ شراب کو حلال سمجھیں یا حرام، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں کسی شراب نوش کو سزا نہیں دی گئی تھی۔
محمد حسنین ہیکل کچھ اور حوالوں سے لکھتا ہے کہ جب سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع ملی کہ کچھ مسلمانوں نے شراب نوشی شروع کر دی ہے تو انہوں نے اپنے طور پر تحقیقات کی ،ان کے آگے بھی وہی دلائل رکھے گئے کہ قرآن میں واضح طور پر شراب کو حرام قرار نہیں دیا گیا، ابو عبیدہ نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ سارا مسئلہ لکھ کر بھیجا اور ان کا فیصلہ مانگا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلامی دستور کے مطابق چند ایک صحابہ کرام کو مشورے کے لئے بلایا اور یہ مسئلہ ان کے آگے رکھا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا کہ کوئی شخص شراب پیتا ہے تو وہ اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے ۔ عقل و ہوش کھو جائے تو وہ شخص واہی تباہی بکتا ہے۔ جب واہی تباہی بکنے پر آتا ہے تو پھر کسی کو غلط قرار دیتا ہے۔ اللہ کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور قرآن کو بھی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دوسرے صحابہ کرام کے مشورے سنکر جب حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی یہ بات سنی تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا شراب نوشی کی سزا اسّی (80)دُوّرے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوعبیدہ کو لکھا کہ شراب پینے والوں کو اپنے سامنے حاضر کرو اگر وہ شراب کو حلال کہیں تو انہیں قتل کر دو، اور اگر وہ اقرار کریں کہ شراب حرام ہے تو انہیں اسیّ اسیّ دُرّے لگوائے جائیں۔
امیرالمومنین کا یہ حکم جب ابوعبیدہ تک پہنچا تو انہوں نے تمام شراب نوش مسلمانوں کو ڈھونڈ نکالا اور اپنے پاس بلوایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ شراب کو انہوں نے حلال کہا تو قتل کردیئے جائیں گے ۔
ابو عبیدہ نے سب سے پوچھا کہ شراب کے متعلق ان کی کیا رائے ہے۔
شراب حرام ہے۔۔۔۔۔ سب کے سب بیک زبان بولے۔
اے اہل اسلام!،،،،، تم پر اللہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی آفت نازل ہوگی۔۔۔ ابوعبیدہ نے کہا۔۔۔ میں تم سب کو اسیّ اسیّ دوروں کی سزا دیتا ہوں، ان سب کو یہ سزا دی گئی اور اس کے بعد کسی مسلمان نے شراب سونگھنے کی بھی جرات نہ کی۔
ابو عبیدہ کے ان الفاظ سے کچھ تاریخ نویسوں نے تاریخ میں یہ غلط روایت ڈال دی ہے کہ ابو عبیدہ نے بددعا دی تھی کہ اللہ ان مسلمانوں پر اپنا غضب نازل کرے۔
اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ طاعون کی وباء ابو عبیدہ کی بد دعا کا نتیجہ تھی ۔
یہ روایت اس لیے بے بنیاد ہے کہ ابو عبیدہ بددعا دینے والی شخصیت تھے ہی نہیں ،اور وہ ایسی بددعا کبھی نہ دیتے جو چند ایک گنہگاروں کے ساتھ ہزارہا بے گناہوں پر بھی عذاب نازل کرتی، صرف یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ کچھ مسلمانوں نے شراب کو حلال قرار دے لیا تھا اور اللہ نے انہیں اس وباء کی صورت میں شدید جھٹکا دیا تھا کہ اللہ کے راستے پر واپس آجائیں۔
بن سامر ابھی تک بنیامین کے یہاں بیٹھا ہوا تھا کئی مہینے گزر گئے تھے ،بنیامین نے اینی کے ساتھ اس کی شادی کر دی تھی ،وہ کچھ کرنا چاہتا تھا ایک تو وہ فوجی تھا اور اس کا ذہن فراغت کو قبول نہیں کر رہا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ کٹّر قبطی عیسائی تھا بلکہ اس پر عیسائیت ایک جنون بن کر طاری رہتی تھی ،وہ بنیامین کے خفیہ گروہ کا کارندہ تھا اور بنیامین اسے کوئی کام نہیں دے رہا تھا، وہ وجہ یہ بتاتا تھا کہ بن سامر بھگوڑا فوجی ہے اور دو سپاہیوں کو مار کر بھاگا ہے اور اس نے ایک لڑکی بھی اغوا کی ہے پکڑے جانے کی صورت میں اس کے لیے سزائے موت سے کم کوئی سزا نہیں تھی ، بن سامر فراغت کی زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔
بنیامین ہرقل کے محل تک اپنے جاسوس پھیلا رکھے تھے، بن سامر بھی دراصل اس کا جاسوس ہی تھا ۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ اس وقت ہرقل مصر میں نہیں بلکہ بزنطیہ میں تھا اور مصر پر حکمرانی کے فرائض مقوقس ادا کررہا تھا۔ مقوقس دراصل ہرقل کا باج گزار تھا۔ عملاً مصر کا بادشاہ ہرقل تھا اور جنگی امور اس کے ایک مشہور و معروف جرنیل اطربون کے ہاتھ میں تھے ،وہ دور دراصل فوج کا ہی دور تھا شام ہرقل کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور وہ اس کوشش میں تھا کہ شام پر دوبارہ قبضہ ہو جائے، اس کی زیادہ تر توجہ فوج کی ضروریات اور دیگر فوجی معلومات پر مرکوز رہتی تھی۔
ایک روز بنیامین کے پاس دو آدمی آئے جو اس کے جاسوس تھے وہ مصر کے دارالحکومت اسکندریہ میں رہے تھے اور کچھ عرصہ بزنطیہ میں گزار کر آئے تھے، بنیامین نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا خبر لائے ہیں۔ جاسوس نے بتایا کہ ہرقل کے دماغ پر شام سوار رہتا ہے اور وہ جلدی سے جلدی شام پر فوج کشی کرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے ،اس نے اُس وقت عرب پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا، جب وہاں قحط کا دور دورہ تھا لیکن مشیروں نے اسے روک دیا اور جواز یہ پیش کیا کہ قحط صرف عرب میں ہے شام میں نہیں اور مسلمانوں کے لشکر شام میں ہیں اگر رومی فوج عرب میں داخل ہوں گی تو شام سے مسلمان لشکر رومی فوج کو گھیرے میں لے لیں گے اور اس کا انجام بہت برا ہوگا۔
جاسوسوں نے بتایا کہ جب شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور وہاں موت کا راج قائم ہو گیا تو بھی ہرقل نے شام پر حملے کا ارادہ کرلیا تھا اگر ہرقل اپنے مشیروں کے مشورے مان لیتا تو وہ فوج کو ساتھ لے کر شام جا دھمکتا ،لیکن اس کے اسقف اعظم قیرس نے اسے یہ مشورہ دیا کہ اس نے شام میں فوج داخل کی تو فوج میں طاعون پھیل جائے گی اور اتنی زیادہ جانیں ضائع ہو جائیں گی کہ سوائے پسپائی اور مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ مرنے کے رومی فوج کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
قیرس نے دوسرا خطرہ یہ ظاہر کیا کہ مصر سے اپنی فوج شام چلی گئی تو مصر میں قبطی عیسائی اور دوسرے فرقوں کے عیسائی جو ہرقل کی سرکاری عیسائیت کے خلاف ہیں بغاوت کر دیں گے اور جو تھوڑی سی فوج مصر میں ہوگی وہ اس بغاوت پر قابو نہیں پا سکے گی، اس بغاوت کا یہ انجام بھی ہو سکتا ہے کہ شام ہاتھ نہ آیا اور مصر ہاتھ سے نکل جائے۔
جاسوسوں نے یہ بھی بتایا کہ مقوقیس ،ہرقل اور اطربون کو اس بات پر قائل کر رہا ہے کہ شام میں عیسائی مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دیں اور وہاں اپنے تخریب کار بھیجے جائیں، مقوقس کا یہ مشورہ ہرقل اور اطربون کے پیش نظر ہے انہوں نے اس مشورے کو پسند تو کیا لیکن اس پر عملدرآمد کی کوئی بات نہیں کی۔
اس دور میں شام میں غالب اکثریت آبادی عیسائی قبائل کی تھی اور یہ تمام قبائل جنگجو تھے، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان قبائل نے ایک بار بغاوت بھی کی تھی لیکن اس پر قابو پالیا گیا تھا بہرحال شام بغاوت کرنے کی پوزیشن میں تھے۔
قیرس کو بجا طور پر خطرہ نظر آ رہا تھا کہ مصر میں قبطی عیسائی بغاوت کر دیں گے کیونکہ اسے اپنا وہ ظلم و تشدد اور درندگی یاد تھی جو اس نے مصر کے عیسائیوں پر کی تھی اسے بھی معلوم تھا کہ جب بھی موقع ملا عیسائی اس کے اور ہرقل کے خلاف ہی اٹھیں گے۔
تاریخ کہتی ہے کہ ہرقل حملے کا ارادہ تو کرتا تھا لیکن شش و پنج میں پڑا رہتا تھا، اگر وہ اس وقت شام پر چڑھائی کر دیتا جب طاعون مسلمانوں کو چاٹ رہی تھی تو مسلمانوں کے لئے مشکل پیدا ہوجاتی مسلمانوں کے لشکر طاعون کی نظر ہو رہے تھے اور چیدہ چیدہ سپہ سالار بھی فوت ہوتے جارہے تھے۔
یہ تو اس کے اسقف اعظم قیرس نے اسے خبردار کردیا تھا کہ شام میں فوج داخل کی تو وباء اپنی فوج میں بھی پھیل جائے گی۔
اُس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے مشیران کرام شدید پریشانی کے عالم میں تھے ایسے خوفناک قحط کے بعد وباء، دو ایسی چھوٹیں تھیں جو بڑے بڑے جابر بادشاہوں کے گھٹنے ٹیک دیا کرتی ہیں۔
ایوان خلافت جنگ جیسی صورتحال کے ساتھ نپٹنے کے لیے تیار نہیں تھا ،لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ رومی چڑھائی کر دیتے تو مسلمان گھٹنے ٹیک دیتے۔
اس سے پہلے امت مسلمہ کے سامنے ایک مثال موجود تھی۔ یہ کوئی ماضی بعید کی بات نہیں تھی بلکہ چند ہی سال پہلے کا ایک حادثہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر بھیج کر ایک محاذ کھول دیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ایک دو اور صحابہ کرام نے ان کی اس کارروائی پر حیرت اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امت پر اس قدر شدید چوٹ پڑی ہے جس سے پوری امت غم میں ڈوب گئی ہے اس صورتحال میں نیا محاذ کھولنا دانشمندی نہیں۔
ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ہم اگر غم میں ڈوبے رہے گئے تو کفار یہ تاثر لیں گے کہ اب مسلمان اٹھنے کے قابل نہیں رہے، اس کے فوراً بعد ہوا بھی یہی ارتداد کا ایسا فتنہ اٹھا جس نے ایک خطرناک اور طویل جنگ کی صورت اختیار کرلی۔
کئی رسول اٹھے اور مجاہدین اسلام نے دین کے ان دشمنوں کو ان کے خون میں ڈبو کر ثابت کردیا کہ اللہ کا یہ دین ہمیشہ زندہ و پائندہ رہنے کے لیے آیا ہے اور مسلمان اس کی آن اور شان پر ہر صورت حال میں جان قربان کرتے رہیں گے۔
ایمان مضبوط ہو دل میں اللہ کے نام کی محبت اور اللہ کی خوشنودی ہو تو اللہ ایسے معجزے کرکے دکھا دیتا ہے کہ بندے حیرت زدہ ہو کے رہ جاتے ہیں۔
یہاں کسریٰ ایران کے خلاف جنگ کا ایک واقعہ یاد آتا ہے ، جسکا بیان بے محل نہ ہوگا، کسریٰ ایران کی طاقتور فوجیں اپنے علاقے مسلمانوں کو دیتی پسپا ہوتی جا رہی تھیں۔ اور یہ اس جنگ کا آخری اور عروج کا دور تھا۔ اس وقت کسرا ایران یزدگرد تھا ۔ اس کی فوج خوزستان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی تھی اور کسریٰ کے بڑے بڑے نامور جرنیل مجاہدین اسلام کے سیلاب کو روکنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے ۔
امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ تاریخ ساز سپہ سالار ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو اس محاذ پر بھیج دیا۔
یہاں ہم خوزستان کے سارے محاذ اور معرکے بیان نہیں کریں گے بس مختصراً اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔
کسریٰ ایران کا ایک بڑا ھی تجربے کار اور زبردست جرنیل ہرمزان تھا جو ایران کے شاہی خاندان کا فرد تھا اسے قوت و اقتدار کا سردار کہا جاتا تھا، اس نے کسریٰ ایران یزدگرد کے آگے یہ شرط رکھی کہ اسے خوزستان کا مرکزی شہر اہواز اور فارس کا کچھ حصہ اس کی حکومت میں دے دیا جائے تو وہ مسلمانوں کے سیلاب کو نہ صرف روک دے گا بلکہ اسے یہیں سے پیچھے دھکیل دینے میں پوری پوری مدد کرے گا ۔
یزدگرد نے اسی وقت فرمان جاری کر دیا کہ یہ دو علاقے ہرمزان کو عطا کر دیے گئے ہیں۔
ہرمزان نے کسریٰ سے جتنی فوج مانگی اتنی ہی دے دی گئی کہ فوج نفری کے لحاظ سے اور اسلحے کے لحاظ سے بھی اس وقت کی بڑی ہی طاقتور فوج تھی، ہرمزان فوراً اس فوج کے ساتھ کوچ کرگیا اور ایران کے ایک بہت بڑے شہر قستر میں جا پہنچا ۔ یہ ایرانی فوج کی بہت بڑی چھاؤنی تھی اور وہاں شاہی محلات بھی تھے۔
ہرمزان نے اس شہر کی بیرونی دیوار اور قلعے مزید مستحکم کرنے کے لئے مرمت کروائی اور کچھ اضافے بھی کیے شہر کے ارد گرد خندق بھی کھدوا دی اس نے یہ کام شب و روز کی محنت سے بہت جلدی مکمل کرلیا۔ پھر اس نے شہر کے ارد گرد کے علاقے کے سرکردہ افراد کو بلایا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور کہا کہ مسلمان جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کی لڑکیوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ اس طرح اس نے ان لوگوں کے خون کو گرما کر کہا کہ لوگوں کو لڑنے کے لئے تیار کریں اور انھیں شہر کے اندر لے آئیں۔
علامہ شبلی نعمانی اور محمد حسنین ہیکل مختلف مؤرخوں کے حوالوں سے لکھتے ہیں کہ چند دنوں میں ہی لوگوں کا ایک جم غفیر شہر میں آگیا ۔
ہرمزان نے ان سے خطاب کیا اور ایسی باتیں کی کہ ہر فرد آگ بگولا ہو گیا ۔
لڑنے والے لوگ ابھی تک چلے آ رہے تھے یہ ہنگامہ خیر سلسلہ مسلمانوں سے چھپا نہ رہ سکا اور اس کی اطلاع سپہ سالار ابوموسی کو ملی انہوں نے فوراً ایک تیز رفتار قاصد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف اس پیغام کے ساتھ مدینہ بھیجا کہ صورت حال ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ کمک کی شدید اور بہت جلد ضرورت ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو جو اس وقت کوفہ میں تھے پیغام بھیجا کہ اپنی آدھی فوج لے کر ابوموسی کے پاس پہنچ جائیں ، دوسرا پیغام جریر بجلی کو بھیجا کہ وہ اپنا ادھا لشکر لے کر ابوموسی کی مددکوپہنچیں۔
یہ دونوں لشکر پہنچنے تک ہرمزان اپنا قلعہ اور شہر کا دفاع تیار کرچکا تھا کمک بروقت ابوموسی تک پہنچ گئی تھی.
ہرمزان کے پاس بہت بڑی فوج تھی جس کے بل بوتے پر اس نے شہر میں محصور ہو کر لڑنا بہتر نہ سمجھا اس کی بجائے باہر نکل کر حملہ کیا۔
ابو موسی نے دائیں پہلو پر برار بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو رکھا اور دائیں پہلو پر براء بن عازب انصاری رضی اللہ عنہ کو رکھا۔
یہ دونوں سالار دلیری اور شجاعت میں خاص شہرت رکھتے تھے دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا یہ ایک خونریز معرکہ تھا مجاہدین اسلام کی تعداد دشمن کی نسبت نصف تھی لیکن انہوں نے ہرمزان کی حملہ آور فوج کو پیچھے دھکیل دیا۔
آخر ہرمزان کی فوج کچھ تو کٹ مری اور باقی شہر کے کھلے دروازوں میں داخل ہونے لگی، مسلمان تعاقب میں تھے۔
ہرمزان کی دلیری کا یہ عالم کہ جرنیل ہوتے ہوئے وہ سپاہیوں کی طرح لڑ رہا تھا اسے سب سے پہلے قلعے میں چلے جانا چاہیے تھا لیکن وہ قلعے کے دروازے پر کھڑا رہا۔
سالار برار بن مالک دروازے تک پہنچ گئے اور ان کا سامنا ہرمزان سے ہوا دونوں میں تیغ زنی ہوئی۔ آخر ہرمزان نے برار کو شہید کردیا۔
اس کے بعد اپنے ایک اور سالار مخراۃ بن ثور رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ہرمزان نے ان کا راستہ روک لیا۔ یہ سالار نامی گرامی شہسوار اور تیغ زن تھے ۔انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ہرمزان نے برار کو قتل کردیا ہے وہ انتقام لینے کو آگے بڑھے اور ہرمزان پر جھپٹے لیکن ہرمزان نے تیغ زنی کے وہ مظاہرے کئے کہ مخراۃ بن ثور کو چکرا دیا اسلام کے یہ شہسوار سالار تیغ زنی میں کم نہ تھے لیکن ہرمزان نے انہیں بھی شہید کر دیا۔
ہرمزان اپنی باقی ماندہ فوج کو قلعے کے اندر لے جانے میں کامیاب ہو گیا اور شہر کے دروازے پھر بند ہو گئے۔
تاریخ کے مطابق پیچھے یعنی شہر کے باہر ایرانی فوج کی ایک ہزار سے زائد لاشیں پڑی تھی اور چھے سو ایرانی فوجیوں کو پکڑ لیا گیا تھا۔
اس کے بعد ہرمزان نے باہر آکر لڑائی نہ لڑی، اور قلعہ بند ہو کر لڑتا رہا دن پر دن گزرتے جا رہے تھے اور پھر مہینے گزرنے لگے ہرمزان نے شہر کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔
ایک روز مجاہدین اس محصور شہر کے ایک ایرانی شہری کو پکڑ لائے وہ ضد کر رہا تھا کہ اسے مجاہدین اپنے سپہ سالار سے ملوا دیں۔
آخر اسے ابو موسی کے پاس لے گئے اس ایرانی نے بتایا کہ وہ ایک ایسے راستے سے باہر نکلا ہے جس کا عام شہریوں کو علم نہیں، اس نے کہا کہ وہ ابوموسی کو شہر میں داخل ہونے کے لئے یہ راستہ بتا سکتا ہے اور اس کے عوض وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کے خاندان کے ایک سو افراد کی جان بخشی کی جائے اور اس کے خاندان کی کسی لڑکی کو اپنے قبضے میں نہ لیا جائے۔
سپہ سالار ابوموسیٰ نے اسے کہا کہ مسلمانوں کا کردار ہی یہی ہے کہ وہ کسی لڑکی کو اپنے قبضے میں نہیں لیا کرتے ،اور جو عورتیں مسلمانوں کے پاس آتی ہیں وہ ایک اور صورت حال ہوتی ہے۔ پھر ابوموسی نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ کامیابی کی صورت میں نہ صرف اس کے خاندان کے ایک سو افراد کو اپنی حفاظت میں لے لیں گے بلکہ اس کے اپنے کنبے کی کفالت بھی اپنے ذمے لے لیں گے۔
اس آدمی نے کہا کہ پہلے اس کے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیجا جائے جسے وہ شہر سے واقف کرا دے۔
ابوموسی ایک بڑے ہی دلیر اور عقلمند مجاہد اسرس بن عوف شیبانی کو اس کے ساتھ کر دیا۔
اس ایرانی نے کہا کہ اسرس کو نوکروں یعنی غلام والا لباس پہنایا جائے تاکہ شہر میں کوئی اسے پہچان نہ سکے کہ یہ مسلمان ہے ۔ اسے فوراً وہ لباس پہنایا گیا اور حلیہ تبدیل کردیا گیا۔ ایرانی اسرس کو اسی رات اپنے ساتھ لے گیا۔
اس علاقے میں دریا کی کئی شاخیں نکلتی تھیں جنہیں نہر کہا جاتا تھا۔
جب قستر کا یہ قلعہ تعمیر ہوا تھا تو اس وقت کے بادشاہ نے اسے ایسے تعمیر کرایا کہ ایک نہر اس کے بالکل قریب سے گزرتی تھی اس نہر سے ایک شاخ نکال کر اس شہر کے نیچے سے گزاری گئی تھی کہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ نیچے سے ایک نہیں گزرتی ہے ۔ یہ نہر ایک سرنگ میں گزار دی گئی تھی۔ قریب سے دیکھنے والے کو یہی پتہ چلتا تھا کہ یہ نہر زمین کے نیچے شہر کے اندر جاتی ہے ۔ شہر کے اندر اس میں سے چشمے نکالے گئے تھے۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
جاری ہےــــــــ