اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر 10)

دوسری صبح نماز فجر کے بعد سالار واپس گھر آیا تو ان تینوں آدمیوں کو منتظر پایا، اس نے روزی کو ان کے حوالے کر دیا اور وہ چلے گئے۔ انطاکیہ سے اسکندریہ تک خشکی کا راستہ بھی تھا لیکن ایک دو دنوں بعد ایک بحری جہاز اسکندریا جارہا تھا انہوں نے سمندری راستہ اختیار کیا۔راستے میں روزی ایک ہی بات کرتی تھی کہ وہ  ہرقل کو قتل کرکے اس کا خون پئے گئی تینوں آدمی اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے تھے کہ وہ اس کے ساتھ ہوں گے۔ رات کو روزی سو جاتی تھی تو یہ تینوں آدمی جہاز کے عرشے پر کچھ دیر کے لیے جا بیٹھتے اور گپ شپ لگا کر سوتے تھے۔ہورشیش!،،،، ان تینوں میں سے ایک آدمی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا۔۔۔ مجھے تو یقین ہوگیا ہے کہ تمھاری بیٹی بچ جائے گی یہ لڑکی کنواری معلوم ہوتی ہے ۔۔۔۔امید تو یہی ہے۔۔۔۔ ہورشیش نے کہا ۔۔۔میں نے تو اپنے آپ کو اس صدمے کے لیے تیار کر لیا تھا کہ میری بیٹی کی قربانی دے دی جائے گی ، یہ تو خدا کی خاص مدد ہے کہ یہ لڑکی مل گئی ہے ہمارا اسقف اس لڑکی کو قبول کرلیں تو میں صدمے سے بچ جاؤں گا۔بچ جاؤ گے۔۔۔ اس کے دوسرے ساتھی نے کہا۔۔۔ تمہیں خدائی مدد مل گئی ہے۔

روزی کو اپنے ساتھ لانے سے ہورشیش کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو گیا تھا یہ مسئلہ اس کے لیے ایک ایسا صدمہ تھا جسے وہ ناقابل برداشت کہتا تھا، مسلمانوں کے سالار کو جو امیر انطاکیہ تھا ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ یہ شخص انسانی ہمدردی اور نیکی کے پردے میں اسے اور روزی کو بہت بڑا دھوکہ دے رہا ہے ۔روزی تو کچھ سمجھنے کی ذہنی حالت میں تھی ہی نہیں اس کا تو دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ ہورشیش کی اس فریب کاری کا پس منظر یہ تھا کہ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے قبطی عیسائی ہر سال ایک خاص رات دریا نیل کو ایک نوجوان کنواری لڑکی کی قربانی دیا کرتے تھے ، تاریخ میں آیا ہے کہ جس لڑکی کی قربانی دینی ہوتی تھی اس کے والدین کی رضامندی اس میں شامل ہوتی تھی ایسا کبھی بھی نہ ہوا کہ کسی لڑکی کو زبردستی اٹھا کر دریا میں پھینک دیا گیا ہو۔اب کے جس قبیلے کے ذمے یہ قربانی تھی اس میں صرف ہورشیش کی بیٹی نوجوان اور کنواری تھی باقی سب کی بیٹیاں بہت چھوٹی تھی یا شادی شدہ تھیں۔ ہورشیش کو اسقف نے بتایا گیا تھا کہ اس سال وہ اپنی بیٹی کو قربان کرے گا۔ ہورشیش کی کل اولادیں یہی ایک بیٹی تھی، اور اس بیٹی کے ساتھ اسے اور بیٹی کو اس کے ساتھ والہانہ پیار تھا ۔بے شک اسقف یعنی بڑے پادری نے اس کی اجازت کے بغیر اس کی بیٹی کو قربان نہیں کرنا تھا پھر بھی ہورشیش کو معلوم تھا کہ وہ اپنے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کا حکم ٹال نہیں سکتا اس کے گھر میں تو باقاعدہ ماتم شروع ہو گیا تھا۔ہورشیش اپنی بیوی کو کوستا تھا کہ اس نے اسے بیٹی کی شادی جلدی نہ کرنے دی، شادی ہو جاتی تو آج یہ زندہ تو رہتی۔ بیٹی خود بھی قربانی کے لیے تیار نہیں تھی اس نے صدمے کی کیفیت میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اسقف اعظم کو گرجے میں کھڑے ہو کر کہہ دے گی کہ اس کی شادی تو نہیں ہوئی لیکن وہ کنواری نہیں،  وہ کہتی تھی کہ وہ یہاں تک کہہ دے گی کہ وہ بہت بڑی گنہگار ہے اور اپنے جیسے دو نوجوانوں کے ساتھ گناہ کر چکی ہے اس لئے اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی اور نیل کا بہاؤ رکے گا نہیں،ہورشیش اور اس کی بیوی نے بیٹی کو سختی سے منع کر دیا اور کہا کہ جھوٹ بولنا بھی گناہ ہے اور اس جھوٹ سے ان کے خاندان کی اور پورے قبیلے کی بےعزتی ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر یہ الزام عائد ہو جائے کہ یہ لڑکی اپنی جان بچانے کے لئے جھوٹ بول رہی ہے۔

ان لوگوں کا یہ عقیدہ غلط ہی صحیح اور یہ ان کا وہم ہی صحیح کے نیل کا بہاؤ رک جاتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اپنے عقیدوں کی پابندی بڑی ہی سختی سے کرتے تھے ہرقل نے جو سرکاری عیسائیت رائج کی تھی اس کے مطابق قربانی قتل جیسا جرم تھا لیکن یہ لوگ یعنی قبطی عیسائی دن کے بجائے رات کو یہ رسم پوری کر لیا کرتے تھے۔ہورشیش کو جب اسقف نے کہا تھا کہ اب اس کی بیٹی کی قربانی دی جائے گی تو اس نے بلا حیل وحجت سرجھکا لیا تھا ، قربانی کے رات ابھی ڈیڑھ دو مہینے دور تھی ہورشیش کو اکلوتی بیٹی کا غم کھانے لگا تھا۔ اپنے کاروبار کے سلسلے میں اسے اپنے دو کاروباری ساتھیوں کے ساتھ انطاکیہ اور ایک دو جگہوں پر جانا پڑا۔اس کے ساتھ ہی اس کا دل یہ کہہ کر بہلاتے رہے کہ وہ خدا کے نام پر بیٹیاں قربان کر رہا ہے اور یہ قربانی ایسی ہے جو بنی نوع انسان کی بھلائی کیلئے ہے اس لئے خدا اس کا غم خوشی میں بدل دے گا اور اسے اور نہ جانے کیا اجر ملے لیکن ہورشیش پر کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا اور وہ غموں کے بوجھ تلے کراہتا ہی رہتا تھا۔

وہ اب اپنے کام سے فارغ ہو کر مصر واپس جا رہا تھا جہاز کے انتظار میں اسے انطاکیہ میں رکنا تھا ۔اتفاق سے اسے پتہ چلا کہ امیر انطاکیہ نے ایک بدروح یا چڑیل پکڑی ہے تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ امیر انطاکیہ کے ملاقاتی کمرے میں جا بیٹھا امیر انطاکیہ جو وہاں کی فوج کا سالار بھی تھا جب پوچھا کہ اس لڑکی کو کون اپنے گھر رکھنا چاہتا ہے تو اس کے دماغ میں بڑی اچھی بات آ گئی اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرگوشیوں میں صلاح مشورہ کیا تو ساتھیوں نے بھی تائید کر دی اور کہا کہ یہ لڑکی لے لو اس طرح روزی اس کے قبضے میں آ گئی۔واپسی سفر کے دوران ایک رات ہورشیش اور اس کے ساتھیوں نے روزی کو بھی جہاز کے عرشے پر بٹھا لیا اور اس کا دل اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے ہرقل کے خلاف باتیں شروع کردیں اور اس سے پوچھا کیا وہ کنواری ہے؟

ہاں تو؟ ۔۔۔روزی نے جواب دیا میں اتنی ہی کنواری ہوں جتنی وہ مریم کواری تھی جس نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دیا تھا۔ یہ کیوں پوچھتے ہو؟ہمیں تم پر کوئی شک نہیں ۔۔۔ہوزشیش نے کہا۔۔۔ یہ اس لئے پوچھا ہے کہ بزرگوں نے بتایا تھا کہ مظلوم کنواری اگر کسی ظالم کو قتل کر دے تو یہ اس کا گناہ نہیں ہوتا ہرقل سے زیادہ ظالم بادشاہ ہم نے کبھی نہیں سنا تھا۔جہاز اسکندریہ کی بندرگاہ سے جا لگا مسافر اترے اور اپنے اپنے ٹھکانوں کو چل پڑے ہورشیش اسکندریہ سے خاصی دور کسی گاؤں کا رہنے والا تھا اس کی منزل دور تھی اس لیے انہوں نے آونٹ کرائے پر لیے اور رات گہری ہوگئی تھی جب وہ اپنے گاؤں پہنچ گئے۔

اگلی صبح ہورشیش اپنے دونوں ساتھیوں کو ساتھ لے کر اس گاؤں پہنچا جو ان لوگوں کا مذہبی مرکز تھا وہ سب سے بڑے مذہبی پیشوا جسے اسقف کہتے تھے سے ملا اور اسے یہ جھوٹا بیان دیا کہ انطاکیہ میں انہیں ایک قبطی عیسائی ملا تھا اور اس نے کہا کہ اس کا کاروبار بہت ہی خراب ہو گیا ہے اور نوبت فاقوں تک آ پہنچی ہے خواب میں اسے حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا ہے کہ اپنی اس کنواری بیٹی کو دریا نیل پر قربان کردوں تو تمہارا کاروبار بھی صحیح ہو جائے گا اور نیل کے کنارے رہنے والوں کا بھی بھلا ہو گا اور اس کی دعائیں تمہیں اور زیادہ دنیاوی فائدے پہنچائے گی۔ہورشیش کے ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی گرجے میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ہورشیش کی تائید کر دی اور بتایا کہ اس خبطی عیسائی  نے اپنی بیٹی کو ان کے حوالے کردی ہے وہ کہتا تھا کہ اس سال اس کی بیٹی کو قربان کیا جائے۔

ہورشیش نے کہا کہ اس لڑکی کو ضرور قربان کیا جائے کیونکہ یہ ایک امانت ہے جس میں خیانت نہیں ہونی
چاہیے۔
 اسقف نے دو چار سوال پوچھے اور کہا کہ لڑکی کو اس کے سامنے لایا جائے ۔
اگلے روز روزی کو گرجے میں لے گئے اور اسقف نے اسے دیکھ کر صرف یہ پوچھا کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے یا اسے زبردستی بھیجا گیا ہے۔
 روزی نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اپنے مرضی سے آئی ہے۔
روزی تو اپنے ہوش و حواس میں تھی ہی نہیں وہ پورے خود اعتمادی اور خوشی سے بول رہی تھی جیسے اسے کوئی شک و شبہ نہ تھا۔
 اسقف نے منظوری دے دی کہ اس لڑکی کو قربان کیا جائے۔
ہورشیش اور اس کی بیوی نے روزی کو بڑے پیار سے اپنے گھر میں رکھا اور اس کے بگڑے ہوئے ذہن کے مطابق اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔
 اور روزی کی زندگی کا آخری دن آگیا اس رات اسے دریا نیل میں پھینک دینا تھا۔

شام کے وقت روزی کو گرجے میں لے گئے اسے ہورشیش کی بیٹی کے قیمتی کپڑے پہنائے گئے تھے اور اسے جو زیورات پہنائے گئے تھے وہ بھی ہورشیش کی بیٹی کے تھے، ہورشیش نے اپنی بیٹی کو بچانے کے
لیے اس کے سونے کے زیورات قربان کردیئے تھے وہ اپنی بیٹی کی قیمت دے رہا تھا۔

دس گیارہ سال پہلے یہ رسم اعلانیہ ادا کی جاتی تھی ہر طرف منادی کرا دی جاتی تھی کے آج رات نیل کے کنارے فلاں جگہ ایک لڑکی کی قربانی دی جارہی ہے لوگ جوق در جوق وہاں اکٹھے ہو جاتے تھے اور اس لڑکی کو مقدس سمجھ کر اس کے ہاتھ چومتے تھے لیکن ہرقل نے ایسی پابندی عائد کردی تھی کہ اس قربانی کو قتل قرار دے دیا تھا پھر بھی یہ لوگ چوری چھپے ہر سال یہ رسم ادا کر دیا کرتے تھے اور اس کا اعلان
نہیں ہوتا تھا۔
روزی کو ایک جگہ جو بستیوں سے دور تھی دریا نیل کے کنارے لے گئے ہورشیش نے اسے بتایا تھا کہ دریا پر ایک کشتی ملے گی اور وہ اسے اس کشتی سے اسکندریہ تک لے جائے گا ،اسقف وہاں موجود تھا اور قبیلوں کے دو چار سردار بھی تھے۔
اسقف نے روزی پر خوشبودار پانی چھڑکا اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ پڑھا اور پھر اس کے دونوں کندھوں پر باری باری انگلیاں رکھیں اور پھر اس کے سینے پر انگلی رکھی اور اسے بازو سے پکڑ کر دریا کے کنارے لے گیا وہاں کنارہ خاصا بلند تھا پیچھے ہوکر اس نے روزی کو دھکا دیا اور وہ دریا میں جا پڑی۔
رات تاریک تھی اسقف اور باقی لوگ ایک مذہبی گیت گنگنانے لگے دریا خاصا گہرا تھا لیکن بہاؤ میں تیزی اور تندی نہیں تھی کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی لڑکی دریا میں سے زندہ نکل آئی ہو، ہر وہ لڑکی جسے پھینکا جاتا تھا وہ ڈوب کر مر جاتی تھی، لیکن روزی کے معاملے میں کچھ اور ہی ہو گیا۔
روزی اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی تھی اور بڑی شوخ اور چلبلی لڑکی تھی ان کی بستی کے قریب سے دریائے فرات گزرتا تھا روزی اپنی دو تین ہمجولیوں کو لے کر دریا پر چلی جاتی اور تیراکی کرتی تھی، جوں جوں بڑی ہوتی گئی وہ دریا میں آگے ہی آگے یعنی وسط میں جانے لگی، جہاں بہاؤ خاصہ تیز ہوتا ہوتا تھا وہ اونچے سے اونچے کنارے پر جا کر دریا میں کودا بھی کرتی اور تیر کر نکل آتی تھی، اس کے باپ نے یہ انتظام کررکھا تھا کہ دو آدمی اس کے اور اس کی ہمجولیوں کے ساتھ دریا پر بھیجا کرتا تھا تاکہ خطرے کے وقت لڑکیوں کو دریا سے نکالے۔
اب روزی کو نیل میں پھینک دیا گیا تو نہ جانے اسے کیسے کیسے خیال آئے ہونگے لیکن سب سے پہلا اور اہم خیال یہ تھا کہ دریا میں سے زندہ نکلنا ہے۔
وہ دریا میں گری تو سطح پر آنے کے بجائے پانی کے نیچے ہی تیرنے لگی اور کچھ دور چلی گئی جب دم ٹوٹنے لگا تو پانی سے ابھری اور دوسرے کنارے کی طرف تیرنے لگی تاریکی میں اسے کوئی دیکھ نہ سکا دیکھتا بھی کون اسے دریا میں پھینکنے والے وہاں سے چلے گئے تھے کہ پکڑے نہ جائیں۔

روزی بہت دور جا کر دوسرے کنارے جا لگی اور دریا سے نکل گئی اس نے سب سے پہلے تو یہ محسوس کیا جیسے وہ ایک خواب دیکھ رہی تھی اور اچانک بیدار ہو گئی ہو اس کی حقیقی سوچیں واپس آ گئی تھی اور دماغ نارمل حالت میں آگیا تھا اس نے اپنا جائزہ لیا اور یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ یہ زیورات اسے کس نے پہنائے ہیں۔
وہ وہیں کھڑی رہی اور سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا نہ ایسا احساس تھا کہ وہ اپنے گھر سے کتنی دور نکل آئی ہے اور کیا یہ دریائے فرات ہے تھک ہار کر وہیں بیٹھ گئی۔
رات تو تاریک تھی، اس کا ذہن روشن ہونے لگا اسے لڑائی یاد آئی،،،، خونریز لڑائی،،،، اسے اچانک یوکلس یاد آگیا یوکلس کی محبت تو اس کی روح میں اتری ہوئی تھی یوکلس کی یاد میں اس کے ذہن اور جسم کو شدید دھچکا دیا اسے یاد آگیا کہ وہ خون میں نہائی ہوئی لاشوں اور تڑپتے کراتے ہوئے زخمیوں میں یوکلس کو ڈھونڈتی پھیر رہی تھی۔
اس کا ذہن کھلنے لگا یوکلس کی لاش ، ایک مکان میں یوکلس کی ماں کی لاش روزی کو یاد آ گیا یہی لاشیں دیکھ کر اسے کچھ ہوا تھا اور وہ خواب و خیال کی دنیا میں چلی گئی تھی حقیقت سے تعلق ٹوٹ گیا تھا۔
وہ جو جذبات کی شدت تھی جس نے ذہنی طور پر اسے ماؤف کر دیا تھا وہ پاگل تو نہیں ہو گئی تھی کہ اس کا ذہن حقیقت کو قبول ہی نہ کرتا اب ایک اور دھچکا لگا کے وہ حقیقی دنیا میں لوٹ آئی۔
ہرقل یاد آیا یہ بھی کہ وہ ھرقل کے قتل کے ارادے سے نکل کھڑی ہوئی تھی پھر جنگل میں بھٹکنا اسے چڑیل سمجھ لیا گیا تھا کوئی اس کے سامنے آ جاتا تو اس سے خوفزدہ ہو جاتا تو اس سے روزی کھانے پینے کا سامان لے لیتی تھی اس طرح وہ نہ اسے بھوک رہی پیاسی بھی نہ رہی۔
اسے وہ آدمی بھی یاد آ گئے جو اسے پیار اور شفقت سے بحری جہاز میں لائے تھے، تب اسے یاد آیا کہ وہ مصر کا نام لیتے تھے اسے یقین ہو گیا کہ وہ مصر میں ہے یہ بھی یاد آ گیا کہ اسے نئے کپڑے پہنا کر دو عورتوں نے اسے زیورات پہنائے تھے اسے شاید کہا گیا تھا کہ آؤ ہرقل کے قتل کو چلو وہ مسرور تھی کہ یوکلس کے خون کا انتقام لے گی۔
روزی کو گزرے ہوئے دنوں کی باتیں یاد آگئی۔ لیکن یہ کچھ دھندلی سی تھی اور جو حقیقت اس کے سامنے آگئی تھی وہ روشن تھی لیکن اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ اسے دریا میں کیوں دھکیلا گیا تھا
یوکلس کی یاد نے اس کے آنسو تو نکال دیے لیکن اب یہ صدمہ اتنا شدید نہیں تھا کہ پہلے کی طرح اس کے ذہن کو پھر ماؤف کردیتا اب اس کے ذہن میں بڑی خطرناک حقیقت آ گئی تھی۔
 ایک یہ زیورات جو بہت قیمتی تھے ،اور اس سونے سے زیادہ قیمتی وہ خود تھی۔
نوجوان بھی تھی اور خوبصورت اتنی کے اسے قیصر روم ہرقل دیکھ لیتا تو اپنے حرم کی زینت بنا لیتا۔

اپنے آپ کو تو وہ نہیں چھپا سکتی تھی زیورات چھپائے جاسکتے تھے اس نے بڑی تیزی سے زیورات اتار لئے تاکہ ڈاکوؤں کے لئے کشش نہ رہے پہلے اس نے سوچا کہ یہ سارا سونا دریا میں پھینک دے لیکن اس خیال سے رکھ لیا کہ کسی سے مدد حاصل کر لی گی۔
زیورات کو چھپانے کے لئے اس کے لباس میں جیب نہیں تھی اسے گاگرا سا پہنایا گیا تھا، پاؤں کے قریب سے اس نے گاگرے کا کچھ ٹکڑا پھاڑ لیا زیورات اس میں باندھ کر پوٹلی لباس کے نیچے باندھ لی،،،،،،، رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی روزی نوجوانی کی عمر میں تھی اس کی سوچوں پر نیند غالب آنے لگی قریب ھی ایک درخت تھا وہ اس کے نیچے لیٹی اور نیند نے اسے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا۔
آنکھ کھلی تو دن کی روشنی سے اس کی آنکھیں چوندھیا گئیں۔ اپنے اردگرد اسے کچھ آدمیوں کا احساس ہوا۔ ہڑ بڑا کر وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی وہاں تو بہت سے آدمی اس کے ارد گرد کھڑے اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
کون ہو ؟۔۔۔۔ایک آدمی نے پوچھا ۔۔۔یہاں کیوں پڑی ہو ۔
سب کچھ بتاؤں گی ۔۔۔روزی نے کہا۔۔۔ مجھے کسی ایسے گھر لے چلو جس گھر میں عورتیں  ہوں ، میں دھوکے میں یہاں تک پہنچی ہوں، میں دریا سے نکلی ہوں۔
روزی نے دیکھ لیا تھا کہ مزدور سے قسم کے لوگ ہیں بد کردار یا مجرمانہ ذہنیت کے لوگ ہوتے تو اسے یوں خاموشی سے کھڑے دیکھتے نہ رہتے، وہاں زبان کا کوئی مسئلہ نہ تھا مصر میں بھی عربی بولی جاتی تھی لب و لہجے میں کچھ فرق تھا۔
ہمارا بابا آرہا ہے۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ وہی بتائے گا کہ تمہیں گھر لے جانا ہے یا کیا کرنا۔ ہے تمہارا مذہب کیا ہے؟
میں عیسائی ہوں۔
پھر ڈرنا نہیں ۔۔۔اس آدمی نے کہا ہم سب عیسائی ہیں ،،،،قبطی عیسائی میں بھی قبطی ہوں ،،،روزی نے ان لوگوں کے ساتھ رشتہ پکا کرنے کی نیت سے جھوٹ بولا۔

ذرا ہی دیر بعد کسی نے اعلان کے انداز سے کہا کہ ہٹ جاؤ بابا آ رہا ہے سب اس طرح پیچھے ہٹے کی ایک طرف سے راستہ چھوڑ دیا۔ ایک معمر آدمی روزی کے سامنے آیا اس کے چہرے لباس اور چلنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ اونچی حیثیت کا شخص ہے روزی کو دیکھ کر اٹک کے رہ گیا ایسا چونکا کہ چند قدم دور ہی رک گیا اس کے چہرے پر ایسی تبدیلی آئی جسے چھپایا نہیں جاسکتا تھا۔
میں تمہیں اپنے گھر لے چلتا ہوں۔۔۔ بابا نے کہا۔۔۔ وہاں میری بیوی ہے دو بیٹیاں اور ایک بہو ہے۔
میں ایسے ہی گھر جانا پسند کرو گی جہاں عورتیں ہوں۔۔۔ روزی نے کہا۔۔۔ بابا اسے ساتھ لے چلا ،،،روزی نے گردوپیش کا جائزہ لیا ایک طرف دریائے نیل کے ساحل پر چھوٹی بڑی کشتیاں بندھی ہوئی تھیں تھوڑی ہی دور آگے اور بھی بڑی بادبانوں والی کشتیاں کھڑی تھیں لوگ ایک دو کشتیوں سے اتر بھی رہے تھے سوار بھی ہو رہے تھے، یہ پتن تھا جہاں سے لوگ دریا کے پار یا دوسرے مقامات کو جاتے تھے۔
دریا سے اڑھائی تین فرلانگ دور ایک قصبہ دکھائی دے رہا تھا وہ چھوٹے بڑے جھونپڑے بھی تھے اور اچھے قسم کے پکے مکان بھی، یہ کشتی رانوں اور ماہی گیروں کی آبادی تھی اور تمام تر آبادی عیسائیت کے پیروکار تھے پتن پر لوگوں کی آمدرفت شروع ہو گئی تھی۔
بابا کی حیثیت قبیلے کے سردار جیسی تھی وہ عسائیت کے قبطی فرقے سے تعلق رکھتا تھا ،اس فرقے میں بھی اسے سرداروں جیسا رتبہ حاصل تھا ۔
وہ روزی کے ساتھ بات کیے بغیر اسے اپنے گھر لے گیا اور ایک کمرے میں بٹھا دیا پھر گھر کی عورتوں کو بلایا اور روزی سے کہا کہ وہ بیان کرے کہ اس پر کیا گزری ہے؟
روزی نے اسے تفصیل سے سنایا کہ وہ کس ذہنی حالت میں انطاکیہ تک پہنچی پھر مصر کے اس مقام تک کس طرح لائی گئی تھی۔
بابا خاموشی سے سنتا رہا روزی بات سنا چکی تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے نہلاؤ کپڑے تبدیل کراؤ اور کھانا کھلاؤ، اس نے روزی کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑی شفقت سے کہا کہ اس گھر کو وہ اپنا گھر سمجھے اور اسے اس کے ٹھکانے پر پہنچا دیا جائے گا۔
بابا باہر نکلا اور ایک آدمی کو دو تین نام بتا کر کہا کہ انہیں فورا یہاں لے آئے۔
بابا کا مکان ایک کشادہ حویلی تھی جس سے بابا کی اونچی حیثیت کا پتہ چلتا تھا ۔

وہ اس حویلی کے ایک اور کمرے میں بیٹھا تھا وہ آدمی آگئے تھے جنہیں اس نے بلایا تھا ان میں سے ایک نے
کہا کہ سنا ہے ایک اکیلی لڑکی پکڑی گئی ہے۔
وہ میرے گھر میں ہے۔۔۔ بابا نے کہا ۔۔۔میں نے اسی لیے تمہیں بلایا ہے تم جانتے ہو گزشتہ رات نیل کو ایک لڑکی کی قربانی دی گئی تھی وہ یہی لڑکی تھی یہ دریا سے زندہ نکل آئی ہے۔
نیل نے ہماری قربانی قبول نہیں کی اگل کر باہر پھینک دی ہم سے ناراض ہے اس کا بہاؤ رک جائے گا یا اتنا سیلاب آئے گا کہ اناج کے فصل بہا لے جائے گا اور بستیاں غرق ہو جائیگی، قحط پڑ جائے گا، یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ گزشتہ رات مجھے بھی قربانی کی تقریب میں بلایا گیا تھا اور میں نے لڑکی کو دیکھا تھا آج صبح مجھے اطلاع ملی کہ ایک لڑکی دریا کے کنارے سوئی ہوئی ہے جس کی حالت بتاتی ہے کہ دریا سے نکلی ہے۔
ہمارے لئے کیا حکم ہے۔۔۔ ایک نے پوچھا۔۔۔
یہ اسقف بتائے گا ۔۔۔بابا نے کہا۔۔۔ میں اس کے پاس جارہا ہوں تم میں سے کوئی ایک میرے ساتھ چلو فیصلہ اسقف نے ہی کرنا ہے کہ اسی لڑکی کو پھر دریا کے سپرد کیا جائے یا کسی اور لڑکی کی قربانی دی جائے گی۔ میں ایک بات نہیں سمجھ سکا قربانی کے وقت لڑکی کو خاصا زیور پہنایا گیا تھا اب ایک چیز بھی اس کے جسم کے ساتھ نہیں، انگلی میں انگوٹھی بھی نہیں میں نے اس سے اس لیے پوچھا نہیں کہ اسے یہ معلوم نہ ہو سکے کہ میں نے اسے قربانی سے پہلے دیکھا تھا یہ تو اسے معلوم ہی نہیں کہ اسے دریا میں کیوں پھینکا گیا تھا ہوسکتا ہے اسے پتہ چل جائے کہ ایک بار پھر دریا میں پھینکا جائے گا تو یہ یہاں سے غائب ہوجائے گی۔

بابا کو معلوم نہیں تھا کہ روزی عورتوں کو زیورات کھول کر دکھا رہی تھی، اور کہا تھا کہ اسے جو کوئی اس کے ماں باپ کے پاس پہنچا دے گا اسے وہ یہ سارے زیورات دے دے گی۔
بابا ایک آدمی کے ساتھ اسقف) بڑے پادری) سے ملنے چلا گیا وہ گھوڑوں پر گئے تھے، اسقف کسی اور بستی میں رہتا تھا جو وہاں سے خاصی دور تھی روزی رات کی تھکی ہاری نہا کر کھانا کھا کر سو گئی۔
سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی جب بابا واپس آگیا ، روزی ابھی تک سوئی ہوئی تھی ،بابا نے بیوی کو بتایا کہ اسقف نے کہا ہے کہ آج ہی رات اس لڑکی کو پھر اسی جگہ لے جا کر دریا میں پھینک دیا جائے اور اس کے ہاتھ باندھ کر پھینکا جائے تاکہ یہ تیر کر نکل نہ سکے۔
بیوی نے بابا کو بتایا کہ لڑکی کے پاس زیورات ہیں جو اس نے چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔ بابا نے کہا کہ لڑکی کو فوراً تیار کرے زیورات پہنا دے اسے لے جانے والے آگئے ہیں۔
 بیوی اس کمرے میں جانے لگی جس میں روزی سوئی ہوئی تھی تو بابا نے کہا کہ اسے فورا جگا دو۔
ابھی جگا کر تیار کرتی ہوں بیوی نے کہا اس نے تو نیل کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو جانا ہے۔
بابا کی بیوی نے یہ الفاظ روزی کے کمرے میں داخل ہو کر کہے اس وقت روزی جاگ اٹھی تھی اور اس نے یہ الفاظ سن لیے یہ بوڑھی عورت روزی کو اٹھا کر تیار کرنے لگیی، تو روزی نے پوچھا کہ اسے کہاں لے جایا جا رہا ہے؟
بیوی کو بابا نے بتایا تھا کہ لڑکی کو صحیح بات نہیں بتانی پھر بھی اس نے کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے روزی کو شک ہو گیا اور وہ بگڑ گئی۔
بابا کو بتایا گیا وہ روزی کو بہلانے پھسلانے اور ورغلانے کی جتن کرنے لگا بابا کو یہ خطرہ بھی نظر آ رہا تھا کہ یہ بات کھل گئی کہ روزی کو قربانی کے لیے لے جایا جا رہا ہے ، تو یہ بات کسی سرکاری اہلکار یا افسر تک پہنچ جائے گی اور سب کو گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دیا جائے گا۔
بابا آخر معمر اور جہاندیدہ آدمی تھا اس نے شفقت اور فریب کاری کا حربہ استعمال کیا اسے کہا کہ وہ زیورات نہ پہنے، روزی کہتی تھی کہ یہ زیورات وہ اپنے پاس رکھے گی ہی نہیں نہ یہ اس کے ہیں۔
سورج غروب ہوگیا روزی کو باہر لایا گیا یہ خبر لوگوں تک پہنچ گئی تھی کہ شب جو لڑکی ملی تھی اسے رات نیل میں قربانی کے لئے پھینکا گیا تھا اور آج رات اسے پھر پھینکا جائے گا اس کا ڈوب مرنا لازم ہے ورنہ نیل ناراض ہوکر تباہی اور بربادی پھیلائے گا۔

لوگ روزی کو دیکھنے کے لئے باہر کھڑے تھے اس قصبے کی ساری آبادی قبطی عیسائیوں کی تھی صرف قبطی عیسائی لڑکی کی قربانی دیتے تھے اور روزی کو ایک مقدس اور متبرک لڑکی سمجھ کر دیکھنا چاہتے تھے۔ انھیں یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ لڑکی کو فریب کاری سے لے جایا جا رہا ہے روزی کو باہر لائے تو لوگ اس کے ہاتھ یا کپڑے کو عقیدت سے چومنا یا چھونا چاہتے تھے۔
وہ آگئی،،،، کئی آوازیں اٹھیں قربانی والی لڑکی آگئی۔۔۔۔۔
ایسی اور بھی بہت سی آوازیں تھیں جو روزی کے کانوں میں پڑی وہ سمجھ گئی کہ اسے دھوکے سے لے جایا جارہا ہے اس نے ان دو آدمیوں کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا جن کے حوالے بابا نے اسے کیا تھا، وہ دونوں اسے بازوؤں سے پکڑ کر آگے کو چلانے لگے لیکن روزی نے اودھم برپا کردیا لوگ کچھ اور سمجھے تھے لیکن وہاں کچھ اور ہی تماشا بن گیا۔
اٹھا لو !۔۔۔۔بابا نے حاکمانہ آواز میں کہا۔۔۔ اور کشتی میں پھینک کر لے جاؤ روزی بیٹھ گئی اور دونوں آدمی اسے اٹھانے لگے روزی ان کے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔
تین آدمی آگے بڑھے اور ان دونوں آدمیوں کو پیچھے ہٹا دیا ان تینوں میں سے ایک نے روزی کو اٹھنے کو کہا روزی چیخ چلا رہی تھی اس نے اس آدمی کو دیکھا تو وہ یوں چپ ہو گئی جیسے مر گئی ہو اس کے چہرے کا رنگ روپ بالکل ہی بدل گیا اور اس کی آنکھیں ٹھہر گئی، اس آدمی نے ان دونوں آدمیوں کو جو روزی کو اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے دور پیچھے ہٹا دیا۔
تم ؟،،،،،،روزی نے اس آدمی سے حیرت زدہ سرگوشی میں پوچھا۔۔۔۔ تم رابن ہی ہو ناں!،،،،
رابن ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ اس آدمی نے کہا بھول گئی ہو میں کتنے عرصے سے رابن نہیں اویس ہوں۔
تمہیں انتقام لینے کا بہت اچھا موقع مل گیا ہے۔۔۔ روزی نے کہا ۔ فضول باتیں مت کرو ان تینوں میں سے ایک اور نے کہا اگر زندہ رہنا چاہتی ہو تو خاموشی سے ہمارے ساتھ چل پڑو
میرے دل میں تمہاری دشمنی تو نہیں اویس نے کہا میں نے تمہاری محبت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
اتنی باتوں کا یہ موقع نہیں۔۔۔ اویس!،،، تیسرا بولا اسے ان لوگوں کے قبضے سے نکالو
یہ باتیں سرگوشیوں میں ہو رہی تھی۔
ائے قبطیوں!،،،، اویس نے تماشائیوں سے مخاطب ہو کر اعلان کیا یہ لڑکی نیل کو خوش کرنے کے لئے اپنی جان دینے کو تیار ہے یہ اس جگہ تک ہمارے ساتھ جائے گی جہاں اسے لے جا رہے تھے۔
ٹھہرو!،،، بابا نے آگے بڑھ کر کہا۔۔۔ تم تینوں میرے لئے اجنبی ہو میں خوش ہوں کہ یہ کار خیر تم نے اپنے ذمے لے لیا ہے لیکن میں اپنے اطمینان کے لئے تمہارے ساتھ اپنے دو آدمی بھیجوں گا۔
اویس اور اس کے ساتھیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
دو نہیں ہمارے ساتھ چھ آدمی بھیج دیں۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ ہم قبطی ہیں ،قبطیوں کو دھوکہ نہیں دیں گے۔
وہی دو آدمی جو پہلے روزی کو گھسیٹ اور اٹھا رہے تھے بابا کے کہنے پر اویس اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ ہو گئے روزی پر تو اویس نے جیسے جادو کردیا تھا کہ اوہ اتنی شدید مزاحمت کر رہی تھی کہاں وہ ان کے ساتھ بڑے آرام اور اطمینان سے جا رہی تھی لوگ آگے بڑھ بڑھ کر روزی کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے۔

پتن پر درمیانہ سائز کی ایک کشتی تیار کھڑی تھی ملاح بھی تھا لیکن جو دو آدمی ساتھ جا رہے تھے وہ تھے تو اچھی حیثیت والے لیکن کشتی ران قبیلے کے آدمی تھے اس لیے کشتی رانی کے ماہر تھے کشتی دو بادبانوں والی تھی انہوں نے ملاح سے کہا کہ وہ خود کشتی لے جائیں گے ملاح کشتی سے ہٹ گیا
روزی اویس اور اس کے دونوں ساتھی کشتی میں سوار ہوگئے پھر دونوں آدمی کشتی میں گئے اور بادبان کھول دیے ۔بابا نے کہا ۔۔۔کہ وہ رات کو بروقت پہنچ کر تقریب میں شامل ہو جائے گا۔
کشتی چل پڑی اسے دریا کے بہاؤ کے مخالف رخ جانا تھا۔ ہوا تو تھی لیکن دریا کا بہاؤ تیز تھا اس لیے کشتی کی رفتار سست تھی۔ سورج غروب ہو گیا تھا شام تاریک ہوتی جارہی تھی، پت پیچھے ہٹتا جا رہا تھا اور شام کے گہرے ہوتے اندھیرے میں گم ہو گیا۔
تقریبا آدھا فاصلہ طے ہو گیا تھا کشتی چلانے والے دونوں آدمی کشتی کے درمیان بیٹھ گئے تھے ،اویس اپنے دو ساتھیوں اور روزی کے ساتھ پیچھے بیٹھا ہوا تھا اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا تینوں نے خنجر نکال لئے ان کا شکار تین چار قدم آگے بیٹھا ہوا تھا، تینوں اٹھے اور پیشتر اس کے کہ ان دو آدمیوں کو پتہ چلتا خنجر اوپر سے نیچے آکر ان کے دلوں میں اتر چکے تھے تینوں نے انہیں اٹھا کر دریا میں پھینک دیا۔
اب کہو روزی!،،، اویس نے کہا۔۔۔ مجھ پر اعتبار آیا یا کچھ شک ہے۔
ہاں اویس!،،،، روزی نے کہا ۔۔۔میرے دل میں کوئی شک نہیں رہا لیکن مجھے لے جاؤ گے کہاں؟
 شام ،،،حلب !،،،،اویس نے جواب دیا تمہارے ماں باپ کے پاس،،،،، ہم مسلمان ہیں روزی ہم بھلائی چاہتے ہیں اور بھلائی کرتے ہیں۔
تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟،،، روزی نے پوچھا۔
تجارت ،،،اویس نے کہا۔۔۔ ہمارا مال اسکندریہ پڑا ہے ۔ یہاں ہم ایک تاجر سے ملنے آئے تھے۔
اویس نے جھوٹ بولا تھا۔ ان تینوں کا تجارت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں تھا تینوں اسلامی لشکر کے مجاہدین تھے اور ان کا تعلق جاسوسوں کے گروہ کے ساتھ تھا، اویس جواں سال آدمی تھا اور عیسائی ہوا کرتا تھا۔ دو اڑھائی سال پہلے وہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شدید زخمی ہوگیا تھا اس کا زندہ رہنا ممکن نہ تھا اس کے اپنے ساتھیوں نے اسے نہ اٹھایا اس پر آخری غشی طاری ہو رہی تھی۔

مجاہدین اپنے زخمیوں کو اٹھا رہے تھے اویس نے جو اس وقت رابن ہوا کرتا تھا ایک مجاہد کے آگے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ اسے بچالے مجاہد نے پہلے اسے پانی پلایا پھر کسی کو آواز دی اور خود چلا گیا دو مسلمان عورتیں آئیں اور یہ دیکھنے کے باوجود کی یہ عیسائی ہے اور اپنا دشمن ہے اویس کو اٹھا کر وہاں لے گئیں جہاں زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی ہو رہی تھی۔
دو تین دنوں بعد اویس پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو گیا کچھ دن اور گزرے تو وہ چلنے پھرنے لگا ،وہ مسلمانوں کے حسن سلوک سے بہت ہی متاثر ہوا کسی نے اسے دشمن اور غیر مسلم سمجھا ہی نہیں اصل بات تو یہ تھی کہ دو مسلمان عورتیں اسے موت کے منہ سے نکال لائی تھیں، اس کے اپنے ساتھیوں نے دیکھ کر اسے نہیں اٹھایا تھا کہ یہ تو مر رہا ہے۔
وہ جب پوری طرح صحت یاب ہوگیا تو اس کی حیثیت جنگی قیدی کی تھی لیکن سالار کے حکم سے اسے آزاد کردیا گیا، وجہ غالباً یہ تھی کہ اس نے خود درخواست کی کہ اسے اپنے پاس اٹھا لے چلیں۔
 اب اسے آزاد کردیا گیا تو اس نے اپنی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ لیا اس نے کہا کہ وہ واپس نہیں جائے گا اور وہ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے۔ اسے سالار کے پاس لے گئے سالار امام بھی ہوا کرتا تھا اس نے اویس کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا اور اس کا نام اویس رکھا وہ حلب کا رہنے والا تھا۔
روزی اویس کے قبیلے کی لڑکی تھی اسے اویس اتنا اچھا لگتا تھا کہ اس کے دل میں یہ خوبرو جوان محبوب کی صورت اختیار کرتا جارہا تھا ، اویس کی روزی کے ساتھ جذباتی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ روزی اس کی روح میں اتر گئی تھی ۔
لیکن انقلاب یہ آیا کہ روزی کو یوکلس مل گیا اور جس طرح اسے یوکلس ملا وہ پہلے تفصیل سے ایک باب میں بیان ہوچکا ہے، اور اویس نےاس دوران اسلام قبول کر لیا۔
اویس کو پتہ چلا کہ روزی ایک رومی جرنیل کے بیٹے پر فریفتہ ہوگئی ہے تو اویس نے اس سے بےوفائی کا شکوہ کیا ۔روزی نے اسے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ اسلام کر قبول کر چکا ہے اور اس نے اپنے مذہب سے بے وفائی کی ہے اس لیے اس کے ساتھ وہ کوئی تعلق نہیں رکھے گی۔
اویس نے کہا کہ وہ بھی کسی جرنیل کا بیٹا ہوتا تو روزی اس سے قطع تعلق نہ کرتی اس بات پر اویس اور روزی میں تلخ کلامی ہو گئی روزی اسے کہتی تھی کہ وہ اپنے مذہب میں واپس آجائے،  اویس نے کہا کہ مسلمانوں نے اسے نئی زندگی دی ہے اور اسے پہلی بار پتہ چلا ہے کہ مسلمانوں نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا ہے یہ اسلام کے احکامات ہیں جو اس مذہب کی تعلیمات میں شامل ہے اس کے بعد روزی یوکلس کی ہو کے رہ گئی۔
اویس مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوگیا تھوڑے سے ہی وقت میں اس نے اپنے اوصاف سب پر عیاں کردئیے وہ پر جوش، اور جذبہ جہاد سے سرشار مجاہد ہی نہیں تھا، شہ سواری، تیغ زنی،  برچھی بازی ،اور تیر اندازی میں خصوصی طور پر ماہر تھا، پھر اس کا یہ وصف کھل کر سامنے آگیا کہ اس میں وہ ذہانت بدرجہ اتم موجود ہے جو دشمن ملک میں بھیجے جانے والے جاسوسوں اور تخریب کاروں کے لیے ضروری ہوتی ہے ایسے دیگر اوصاف بھی اس میں موجود تھے۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سپہ سالار حضرت عمرو بن عاص پر مصر کی فتح کا جنون طاری تھا انہوں نے ہر پہلو سے دلائل دے کر امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو قائل کر لیا تھا کہ انھیں مصر پر فوج کشی کی اجازت دی جائے۔
 صحابہ اکرام اس تجویز کی مخالفت کر رہے تھے ان کے متفقہ مشورے سے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ شام کے تمام تر سرکاری انتظامات اور امور کو رواں، اور دفاع کو مستحکم کر لیا جائے تو مصر پر حملے کی اجازت دے دی جائے گی۔

 عمرو بن عاص شام کے ساتھ عراق کے بھی دفاع کے لئے ضروری سمجھتے تھے کہ مصر پر فوراً چڑھائی کردی جائے ، جواز یہ پیش کرتے تھے کہ قیصر روم ہرقل کی فوج شام سے بہت بری شکست کھا کر بھاگ گئی ہے، اور بکھر گئی ہے ،خود ہرقل کو کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی تھی،یہ شکست خوردہ اور خوف زیادہ فوج مصر جا پہنچی ہے، اور اس کی آدھی سے زیادہ نفری ماری گئی ہے ،اگر اس فوج پر فوراً حملہ نہ کیا گیا تو ہرقل اور مصر میں اس کا جرنیل اطربون اس فوج کو لڑنے اور جوابی حملہ کرنے کے قابل بنا لیں گے، اسے سستانے اور سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے، آدھی سے زیادہ فوج ماری گئی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بہت ہی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے تھے عمرو بن عاص مصر کے سیاسی مذہبی اور معاشرتی حالات سے بڑی اچھی طرح واقف تھے انہوں نے اپنے طور پر دو جاسوس مصر بھیج کر مصر کے داخلی امور کے متعلق تفصیلی رپورٹ حاصل کر لی تھی۔
 عمرو بن عاص نے امیرالمومنین سے خاص طور پر کہا تھا کہ عیسائیت چار فرقوں میں بٹ گئی تھی ،،،قبطی، یعقوبی، ملکانی، اور ہرقل نے ایک فرقہ سرکاری بنا ڈالا تھا۔
 پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ ہرقل نے عیسائیت سے فرقے ختم کرکے ایک سرکاری عیسائیت بنا ڈالی اور حکم نامہ جاری کردیا کہ یہ صحیح عیسائیت ہے اور اس سے اختلاف سنگین جرم ہے ، دوسرے فرقوں نے اس سرکاری مذہب کو ایک فرقہ قرار دے کر اسے قبول نہ کیا۔
 ہرقل نے غیر انسانی تشدد کے ذریعے اپنا سرکاری مذہب منوانے کا حکم دیدیا اور قیرس نام کے ایک بڑے ہی ظالم اور درندہ صفت پادری کو اسقف مقرر کرکے اسے ظلم و تشدد اور ایذا رسانی کے وسیع اختیارات دے دیے۔
 عیسائیوں کا سب سے بڑا فرقہ قبطی تھا عیسائیوں نے ہرقل کی سرکاری عیسائیت کے خلاف محاذ بنالیا اور قیرس کے وحشیانہ مظالم کا نشانہ دس گیارہ سال بنے رہے تھے۔
 عمرو بن عاص نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا تھا کہ قبطیوں کی مدد کو پہنچنا ہمارا فرض ہے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

عمرو بن عاص نے دیکھا کہ امیرالمومنین مصر پر فوج کشی کے لئے آمادہ تو ہو گئے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں وہ کب حملے کا حکم دیں۔
 تو انہوں نے اپنا ایک پلان بنا لیا انہیں یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ رومی فوج جو شام سے بہت بری حالت میں بھاگی تھی اسے اس کے جرنیل پھر منظم کرکے مزید فوج تیار کرلیں گے ۔اور ہرقل شام پر جوابی حملہ کرے گا انہوں نے اس کا تدارک یہ سوچا کہ جس طرح الجزیرہ کے عیسائیوں نے مسلمان فاتحین کے خلاف بغاوت کر دی تھی اسی طرح مصر میں بغاوت کرائی جائے۔
 ایک روز انہوں نے اپنے ماتحت سالاروں کو مشورے کے لئے طلب کیا اور انہیں اس صورتحال سے آگاہ کرکے بتایا کہ ان کا پلان کیا ہے۔
مصر کے قبطی عیسائیوں کو ہرقل اور اطربون کے خلاف اکسایا جا سکتا ہے۔۔۔ عمرو نے کہا۔۔۔ وہاں سب سے زیادہ مظلوم اور ھرقل کے قہر کا شکار قبطی ہو رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے وہ بغاوت کی ہمت نہ رکھتے ہوں۔۔۔ ایک سالار نے کہا۔۔۔ انہیں اپنے زیر اثر لیا جا سکتا ہے اور تیار کیا جاسکتا ہے کہ ہم مصر پر حملہ کرے تو قبطی ہمارا ساتھ دیں۔ اور وہ قبطی جو رومی فوج میں ہیں وہ بے دلی سے لڑیں اور بھاگ نکلیں۔ عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا کہ انھیں تین یا چار ایسے مجاہدین کی ضرورت ہے جو مصر جائیں اور قبطیوں میں گھل مل کر انہیں ہرقل کے خلاف تیار کریں۔
جاسوسی کا محکمہ موجود تھا لیکن اس کام کے لئے خاص قسم کے افراد کی ضرورت تھی سالاروں نے دو مجاہدین کو منتخب کرلیا، انہی دنوں اویس اپنے خصوصی اوصاف کی وجہ سے نام پیدا کر رہا تھا اسے بھی اس مہم کے لیے الگ کرلیا گیا اور تینوں کو عمرو بن عاص کے حوالے کردیا گیا عمرو بن عاص نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا اور انہوں نے اس مہم کے لیے تیار کرنے لگے۔
چند دنوں بعد انہیں مصر روانہ کردیا گیا وہ تاجروں کے بہروپ میں وہاں گئے تھے ایک مہینے کے اندر اندر انہوں نے دو تین عیسائیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کر لیے، اور ان عیسائیوں نے انہیں رہنے کو اپنے ہاں جگہ دے دی تھی۔
اب وہ اسی سلسلے میں کہیں جا رہے تھے کہ اویس نے روزی کو دیکھ لیا روزی کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اویس اور اس کے ساتھی اس کی طرف توجہ ہی نہ دیتے، اویس  سے رہا نہ گیا اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس لڑکی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے۔ اور وہ حیران ہے کہ یہاں کس طرح پہنچ گئی ہے۔

اویس نے تماشائیوں سے معلوم کر لیا کہ یہ کیا معاملہ ہے تماشائیوں نے بتایا کہ اس لڑکی کو نیل کی قربانی کے لیے لے جا رہے ہیں اور یہ جا نہیں رہی ۔ اویس اور اس کے ساتھیوں نے ساری معلومات حاصل کرکے طے کر لیا کہ انہیں کیا کرنا ہے، تینوں خصوصی ذہانت کے مالک تھے اور اداکاری کے ماہر تھے وہ قبطی عیسائیوں کے بہروپ میں آگے بڑھے اور ان دو آدمیوں سے جا ملے جو روزی کو لے جا رہے تھے۔
ان کی یہ کوشش کامیاب رہی انہوں نے دونوں آدمیوں کو قتل کر کے دریا میں پھینک دیا وہاں دریا زیادہ چوڑا تھا اور کشتی دریا کے وسط میں جارہی تھی کشتی کو کنارے لگانا اور وہاں سے غائب ہو جانا تھا، مگر اس وقت تک عربوں میں یہ کمزوری موجود تھی کہ کشتی رانی کے فن سے ناواقف تھے، دجلہ اور فرات میں چپو والی کشتی چلا سکتے تھے تمام مجاہدین چپو کو مار سکتے اور کشتی کا رخ بھی بدل سکتے تھے لیکن بادبانوں کے صحیح استعمال سے نا واقف تھے۔
اویس اور اس کے ساتھی یہ جانتے تھے کہ کشتی کا رخ بدلنے اور موڑنے کے لئے اس کے پیچھے ایک بڑا چپو موجود ہے ان میں سے ایک نے اس چپو کو ایک طرف موڑا کشتی تو کنارے کے سمت مڑ گئی لیکن بادبانوں کی پوزیشن کو بھی اس کے مطابق ذرا دائیں بائیں کرنا تھا۔
کشتی کا رخ بدلنے سے ہوا کا رخ بدل گیا اس وقت ہوا زادہ تیز ہو گئی تھی ان تینوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بادبان گرائے یا لپیٹے کس طرح جاتے ہیں، ہوا اور بادبانوں نے کشتی کو ایک پہلو سے اٹھا دیا اور اس کا دوسرا پہلو پانی کے اندر چلا گیا پانی بڑی تیزی سے کشتی میں آگیا۔
لڑکی کو سنبھالو اویس! ۔۔۔ایک مجاہد نے گھبرا کر کہا۔۔۔ میری فکر نہ کرو روزی نے کہا میں تیرسکتی ہوں ایک بار اس دریا سے نکل چکی ہوں۔
انہیں کچھ اور کہنے سننے کی مہلت نہ ملی بادبانوں نے ہوا کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے کشتی کو الٹ دیا اور چاروں دریا میں جا پڑے وہ سب تیرنا جانتے تھے کنارے کی طرف تیرنے لگے۔
اویس روزی کو پکار رہا تھا روزی بے خوف و خطر کنارے کی طرف تیرتی جا رہی تھی، چاروں کنارے تک پہنچ گئے نیل نے اپنی قربانی ایک بار پھر اگل دی، اس کا بہاؤ قربانی نہ ملنے سے روکا نہیں،،،،،،،نیل بہتا رہا!،،،،،
اب مسئلہ یہ تھا کہ روزی کو کہاں چھپائیں، اور اسے شام تک کس طرح پہنچائیں، یہ ان کے فرائض میں شامل نہیں تھا لیکن اویس نے روزی کو بچانے اور شام تک پہنچانے کا فرض اپنے سر لے لیا تھا ،یہ تینوں دراصل قبطی عیسائیوں کے اسقف بنیامین کے پاس جا رہے تھے۔
بعض تاریخ نویسوں نے بنیامین کا نام ابو میا مین لکھا ہے لیکن مستند مؤرخوں نے متفقہ طور پر بنیامین کو صحیح نام کہا ہے۔
بنیامین کسی بستی میں نہیں رہتا تھا بلکہ ایک مقام و قوص سے کچھ دور ایسے ریگستان میں رہتا تھا جسے ٹیلوں اور نشیب و فراز نے دشوار گزار بنا رکھا تھا ۔ عوام جو ہرقل کی سرکاری عیسائیت کو قبول نہیں کرتے تھے بنیامین کو اپنا روحانی پیشوا مانتے تھے۔ ہرقل نے قیرس کو بنیامین کے قتل کی اجازت دے دی تھی بنیامین کو بروقت پتا چل گیا اور فرار ہوگیا۔
یہ عمرو بن عاص کے تینوں جاسوسوں کا کمال تھا کہ انہوں نے بنیامین کا ٹھکانہ معلوم کر لیا تھا ۔یہ اپنے آپ کو کٹر قبطی ظاہر کرتے تھے اور قبطی عیسائیوں کے گرجوں میں بھی جاتے اور ان کی طرح عبادت کرتے تھے۔
یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ اویس اپنے اصل فرائض اور مشن کو چھوڑ کر روزی کو اس کے ماں باپ کے حوالے کرنے کے لیے ملک شام کو چلا جاتا ،لیکن روزی کو ساتھ بھی نہیں رکھا جا سکتا تھا اور اسے تنہا بھی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا تینوں نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کیا۔
کیوں نہ اسے اپنے ساتھ ہی لے چلیں۔۔۔ ان تینوں جاسوسوں کے امیر (کمانڈر) نے کہا۔۔۔ اور یہ ظاہر کر کے کہ یہ بھی قبطی ہے اسے بنیامین کے حوالے کر دیں گے اور اسے کہیں گے کہ اس لڑکی کو حلب پہنچا دے۔
اسے پتہ چل گیا کہ اس لڑکی کو نیل کی قربانی سے فرار کیا گیا ہے تو،،،،،، ۔
یہ خطرہ دل سے نکال دو۔۔۔۔ امیر نے کہا۔۔۔ میرے کانوں میں یہ بات پڑی تھی کہ بنیامین اس قربانی کو گناہ سمجھتا ہے لیکن ابھی اس لیے خاموش ہے کہ قبطیوں کی غالب اکثریت اس قربانی کو برحق مانتی ہے۔
انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے، اور بنیامین کا ٹھکانہ کہاں اور کتنی دور ہے، دریا کے کنارے زیادہ دیر رکے رہنا ٹھیک نہیں تھا وہ اس طرف چل پڑے جدھر بنیامین کا ٹھکانہ تھا صبح تک انہیں بہت دور نکل جاناتھا

بنیامین ہی ان مسلمان جاسوسوں کے کام کا آدمی تھا ۔انہوں نے بنیامین کے متعلق تمام ضروری معلومات حاصل کرکے اس کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تھا ۔یہ تفصیلات تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں مشہور تاریخ دان الفرڈ بٹلر نے یہ تفصیلات اپنی انگریزی زبان کی کتاب ۔۔۔مصر میں عربوں کی فتوحات ۔۔۔میں یکجا کر دی ہے۔
یہ تفصیلات مختصراً اس طرح ہے کہ ہرقل نے عسائیت کو سرکاری شکل دے کر اس کا اصل حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا اور اسے لوگوں پر مسلط کرنے کا شاہی فرمان جاری کر دیا ،عسائیت کے علماء نے تو اسے قبول کرنا ہی نہیں تھا عوام نے بھی اسے قبول نہ کیا۔
 ایک بڑے پادری کو وسیع اختیارات دے دیے کہ وہ جبری طور پر یہ مذہب لوگوں پر مسلط کرے۔
قیرس نے اسکندریہ میں ایک مذہبی اجتماع منعقد کیا اور اپنے سرکاری مذہب کی تبلیغ کی ۔
بیت المقدس امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی ان کے حوالے اور اپنی شکست کے معاہدے پر دستخط کرنے والے اسقف اعظم سفرنیوس اسکندریہ میں موجود تھا۔
 اس نے قیرس کو الگ بیٹھا کر دلائل سے بھی اور منت سماجت سے بھی قائل کرنے کی کوشش کرڈالی کہ وہ عسائیت کو آسمانی کتاب انجیل کے مطابق رہنے دے۔
 لیکن قیرس کے دل میں خدا کا نہیں ہرقل کا خوف تھا اور پھر ہرقل نے اسے لوگوں کی جان لینے تک کہ جو اختیارات دے دیے تھے انہوں نے اسے فرعون بنا دیا تھا۔
سفرنیوس تو تاریخ کے کسی تاریک گوشے میں جا گم ہو گیا۔ بنیامین ہرقل اور قیرس کے خلاف میدان میں اتر آیا۔
 الفرڈ بٹلر لکھتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں بنیامین کی محبت بھی تھی تعظیم و تکریم بھی۔
 وہ دانشمند اور اپنے مذہب کا عالم تھا مذہب کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتا تھا۔
ہرقل نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا بنیامین کے پاس کوئی جنگی طاقت نہیں تھی پھر بھی اس نے عسائیت کے دفاع کا فیصلہ کر لیا اور روپوش ہو گیا۔
 اسکندریہ سے کچھ دور ایک صحرائی بستی قوص ہوا کرتی تھی بنیامین اس سے کچھ دور دشوار گزار صحرا میں چلا گیا اور وہاں گرجا بنا لیا اس کا خفیہ رابطہ اپنے کارندوں کے ساتھ تھا جو تبلیغ کرتے پھرتے اور لوگوں کو بنیامین کی ہدایت دیتے رہتے تھے۔
 اس طرح بنیامین روپوش ہوتے ہوئے بھی لوگوں میں موجود اور سرگرم رہا۔
قیرس کو بنیامین کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا اس نے بنیامین کے بڑے بھائی کو گرفتار کرلیا۔
 تاریخ میں اس بھائ کا نام نہیں ملتا قیرس کو معلوم تھا کہ بنیامین کے مشن کو اس کا یہ بھائی چلا رہا ہے، اسے کہا گیا کہ وہ ھرقل کی عسائیت کو قبول کر لے اور اپنے پیروکاروں کو یہ عیسائیت قبول کرنے کو کہے۔
بڑے بھائی نے صاف انکار کردیا اور کہا وہ خدا کا حکم مانے گا کسی انسان کا نہیں۔
 ہرقل صرف سلطنت روم کا بادشاہ ہے اور ایک گنہگار بندہ ہے اصل بادشاہ خدا ہے اس دنیا کا بھی اور اگلے جہان کا بھی۔

قیرس کے حکم سے بنیامین کے بڑے بھائی پر جو تشدد کیا گیا اس کی تفصیلات الفرڈ بٹلر نے بیان کی ہے۔ اسے برہنہ کر کے فرش پر لیٹا دیا گیا اور اس کے جسم پر مشعلیں  رکھ دی گئی ذرا تصور میں لائیں کہ مشعلوں کے شعلوں نے اس کے جسم کو کس طرح جلایا ہوگا۔
کہو!،،، قیصر روم شاہ ہرقل کا مذہب سچا ہے۔۔۔ اسے کہا گیا ۔۔۔اور یہ کہ باقی سب جھوٹے ہیں۔
لعنت اس پر جو ہرقل کے مذہب کو سچا سمجھتا ہے۔۔۔ بنیامین کے بھائی نے کہا۔۔۔ سچا مذہب انجیل کا ہے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ اس کے دونوں پہلوؤں سے چربی پگھل پگھل کر فرش پر بہ رہی تھی مشعلیں ہٹا کر اس سے کہا گیا کہ وہ اتنا ہی بتا دے بنیامین کہاں ہے؟
اگر مجھے معلوم ہے تو بھی نہیں بتاؤں گا اس نے جواب دیا۔
اس کا ایک دانت اکھاڑ کر پھر پوچھا۔۔۔ بنیامین کہاں ہے اس نے پھر وہی جواب دیا اس کا ایک اور دانت اکھاڑ کر پرے پھینک دیا گیا ۔۔۔پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا کہ اسے ہرقل کی سرکاری عیسائیت تسلیم کرنے کو کہتے تو وہ انکار کر دیتا اس کا ایک دانت اوزار سے پکڑ کر اکھاڑ دیا جاتا پھر پوچھتے بنیامین کہاں ہے۔ وہ نہ بتاتا تو اس کا ایک دانت کھینچ کر نکال دیا جاتا اس طرح اس کے تمام دانت نکال دیے گئے اور اس کے منہ سے خون بہنے لگا۔
اس کے عقیدے اور جذبے کی پختگی کا یہ عالم کہ ابھی تک ہوش میں تھا اس کے بعد اسے تین بار کہا گیا کہ وہ ھرقل کی عیسائیت کو تسلیم کرے اس نے تینوں بار انکار کیا قیرس کے حکم سے اسے سمندر میں پھینک دیا گیا اور وہ ڈوب کر مر گیا
الفرڈ بٹلر نے ایک اور پادری سیموئیل کا واقعہ بیان کیا ہے۔ یہ پادری بھی بنیامین کا پیروکار تھا اور اس نے صحرا میں کہیں گرجا بنا رکھا تھا ۔وہ قبطی تھا اور ہرقل کے مذہب کے خلاف محاذ قائم کیے ہوئے تھا ۔قیرس نے اس کے نام ایک پیغام لکھا جس میں اس سے کہا گیا کہ وہ ھرقل کا سرکاری مذہب قبول کرلے۔ یہ پیغام ایک فوجی افسر لیکر گیا جس کے ساتھ ایک سو سپاہی تھے اس نے پیغام سیموئیل کو دیا۔
ہمارا سردار بنیامین کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔۔۔سیموئیل نے  پیغام پھاڑ کر پھینکتے ہوئے کہا۔۔۔ لعنت خدا کی ان پر جنہوں نے یہ پیغام بھیجا ہے لعنت رومی سلطنت پر جس نے ہم پر جھوٹا مذہب ٹھونسا ہے۔
پیغام لے جانے والے فوجی افسر کو قیرس کے تمام حکم دیے گئے تھے، سیموئیل نے پیغام پھاڑ کر توہین آمیز الفاظ کہے تو فوجی افسر نے اسے گرفتار کر لیا اس کے بازو پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے فوجی افسر گھوڑے پر سوار تھے سیموئیل پیدل جا رہا تھا۔ اسے پوری طرح ذلیل و رسوا کرنا مقصود تھا ۔لوگ اسے دیکھنے کے لئے اکٹھا ہو گئے۔
آئے لوگوں!،،، سیموئیل نے بڑی ہی بلند اور جاندار آواز میں کہا۔۔۔ میں آج بہت خوش ہوں آج حضرت عیسی علیہ السلام کی ناموس اور صداقت پر میرا خون بہے گا۔
 اے لوگو!،،،، اپنے مذہب کی سچائی کو مانو۔ کسی بادشاہ سے نہ ڈرو، اس نے قیرس کو گالیاں دینی شروع کر دی۔
فوجی اسے مارتے پیٹتے ہوئے قیرس کے پاس اس حالت میں لے گئے کہ اس کے سر اور چند اور جگہوں سے خون بہہ رہا تھا۔
 قیرس نے فوجیوں کو حکم دیا کہ اس کی اور پٹائی کی جائے، تاریخ شاہد ہے کہ اسے اس قدر پیٹا گیا کہ اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے۔

او بدبخت پادری ۔۔۔۔قیرس نے سیموئیل سے کہا ۔۔۔تجھے کلیسا کا سربراہ کس نے بنایا ہے اور تجھے یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ تیرے ماتحت پادری اور پیروکار میرے خلاف میرے مذہب کے خلاف تبلیغ کرتے پھریں۔
او بے مذہب دجال!،،،، سیموئیل نے گرجتی آواز میں کہا ،،،،،نیکی خدا کی عبادت ،اور بنیامین کی اطاعت اور پیروی میں ہے۔
 تو ابلیس کی اولاد ہے تیری اور تیرے مذہب کی اطاعت گناہ ہے۔
قیرس نے حکم دیا کہ اس کے منہ پر اتنے مکے مارے جائیں کہ اسکا منہ سوج جائے،،، حکم کی تعمیل ہوئی۔
اب جواب دے،،،، قیرس نے پوچھا ،،،تو مصر کے حاکم اور مذہبی پیشوا کا حکم کیوں نہیں مانتا کیا تو نہیں جانتا کہ تیری زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے۔
کیا تو ابلیس کو نہیں جانتا ائے قیرس !،،،،،سیموئیل نے شدید غصے کی حالت شدید زخمی حالت میں بھی بلند آواز میں کہا ،،،،ابلیس ملائکہ کا سردار تھا لیکن غرور اور تکبر نے اسے خدا کا حکم ماننے سے روک دیا خدا نے اسے لعنتی قرار دے دیا۔ ائے قیرس تو ابلیس سے بڑھ کر لعنتی ہے۔
قیرس نے حکم دیا کے اسے باہر لے جا کر اس کا سر اڑا دو، اس کے حکم کی تعمیل ہونے ہی والی تھی کہ ایک حاکم اعلی جس کا تاریخ میں نام نہیں لکھا گیا ادھر آ نکلا اس نے سموئیل کی جان بخشی کردی اور اسے ملک بدر کردیا۔
پیرس کے ظلم و تشدد اور قتل و غارت گری کی یہ دو ہی مثالیں کافی ہیں ۔

عمرو بن عاص کا پلان یہ تھا کہ مصر کے عیسائیوں کو ہرقل کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے لیکن وہاں صورتحال یہ تھی کہ مصر کے لوگوں کے دلوں میں ہرقل کی نفرت پیدا ہو چکی تھی جو روز بروز بڑھتی جارہی تھی ۔اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا ۔ عمرو بن عاص یوں زمین ہموار کر لینا چاہتے تھے کہ وہ مصر پر حملہ کریں تو عیسائی ان کا ساتھ دیں گے اتنا ہی کریں کہ ہرقل کے لیے جنگی طاقت نہ بنیں۔
ادھر ماہی گیروں اور ملاحوں کی بستی کا سردار بابا رات کو قربانی والی جگہ کی طرف کشتی میں روانہ ہوا دریائی راستہ چھوٹا تھا دریا کا رخ ادھر ہی تھا جدھر سے سردار کی کشتی جا رہی تھی آدھا فاصلہ طے ہو گیا تو آگے سے ایک الٹی ہوئی کشتی تیرتی آ رہی تھی ، اس کے بادبان ساتھ ساتھ تیر رہے تھے یہ کشتی سردار کی کشتی کے قریب سے گزری اندھیرے میں اتنا ہی پتہ چل سکتا تھا کہ یہ کشتی ہے یہ دیکھنا ممکن نہیں تھا کہ یہ کشتی کس کی ہے، انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ ان کے اپنے آدمیوں کی کشتی ہے۔ اور ان کی قربانی ایک بار پھر غائب ہو گئی ہے۔
قربانی والی جگہ پہنچے تو ایک پادری اور چند ایک سرکردہ افراد پہلے ہی پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے ماہی گیروں اور کشتی رانوں کے بابا سے پوچھا لڑکی کہاں ہے؟
اس نے حیران ساہو کے بتایا کہ اسے پانچ آدمیوں کے ساتھ پہلے ہی بھیج دیا گیا تھا۔
وہاں تو ماتم جیسی کیفیت پیدا ہو گئی بابا نے کہا کہ انہوں نے ایک بادبانی کشتی الٹی بہتی دیکھی ہے لیکن دونوں کشتی ران پرانے تجربے کار تھے کشتی کسی وجہ سے الٹی ہو گئی تھی تو وہ تیر کر نکل آتے لڑکی بھی تیراج تھی۔
کشتی میں تین آدمی اجنبی تھے بابا نے بتایا وہ نہ ہوتے تو لڑکی کو قربانی کیلئے تیار کرنا ناممکن ہو جاتا۔
نیل کو اس لڑکی کی قربانی قبول نہیں۔۔۔ پادری نے کہا۔۔۔ نیل کے عتاب سے بچنا ہے تو اسی لڑکی کی قربانی دینی پڑے گی جسے پہلے منتخب کیا گیا تھا۔
ہورشیش  کی بیٹی،،،، اسے ابھی لا کر دریا میں پھینک دیا جائے۔
پچھلے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ اپنی بیٹی کو قربانی سے بچانے کے لئے ہورشیش نام کا ایک آدمی انطاکیہ سے روزی کو دھوکے سے مصر لے گیا اور اسقف کے آگے یہ جھوٹ بولا تھا کہ اس کے باپ نے اپنی بیٹی کو نیل کی قربانی کے لئے بھیجا ھے۔
پادری نے کہا کہ ہورشیش کو ابھی جگا کر کہا جائے کہ اپنی بیٹی ساتھ لے کر آ جائے ۔
ہورشیش بیٹی کو لے کر آ گیا اس نے پادری کو بتایا کہ اس نے اپنی بیٹی کے سارے زیورات اس لڑکی کو پہنا دیئے تھے جو لاپتہ ہو گئی تھی اور اب اپنی بیٹی کو پہنانے کے لئے زیورات کی کوئی ایک بھی چیز نہیں، اس نے یہ بات اس امید پر کہی تھی کہ اس کی بیٹی بچ جائے گی، لیکن پادری نے کہا کہ زیورات اتنے اہم نہیں قربانی ایک جسم کی دی جاتی ہے اور جسم ایک کنواری لڑکی کا ہونا لازمی ہے۔
پادری کا حکم ٹالا نہیں جا سکتا تھا اسی لڑکی کو گھر سے لا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔ جسے بچانے کے لئے لڑکی کا باپ روزی کو دھوکہ دے کر لایا گیا تھا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

اس وقت روزی نیل سے بہت دور نکل گئی تھی ۔اویس اور اس کے ساتھی کوئی ایسے مسافر تو نہیں تھے جن کے پاس نہ پیسہ ہو نہ کوئی اور وسیلہ، وہ جاسوس تھے ان کے پاس رقم بھی تھی عقل بھی تھی انہوں نے کرائے کے اونٹ لے لیے اور قوص جا پہنچے۔
قوص ان عیسائیوں کا مرکز تھا جو ہرقل اور قیرس کی عیسائیت کے خلاف برسر پیکار تھے۔ یہاں بھی ان تینوں نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کیا انہوں نے روزی کو اس طرح چادر میں لپٹا ہوا تھا کہ اس کا چہرہ تھوڑا سا ہی دکھائی دیتا تھا۔
اونٹوں نے انہیں جلد ہی قوص پہنچا دیا تھا شام گہری ہو گئی تھی انہیں رات وہیں گزارنی تھی ۔وہاں سرائے موجود تھی وہ سرائے میں چلے گئے کھانے کے بعد باتیں کرنے بیٹھ گئے۔
اب بتاؤ روزی!،،،، ایک مجاہد جاسوس نے اس سے پوچھا ہمارے متعلق تمہارے دل میں کوئی شک تو نہیں؟
نہیں !،،،،روزی نے کہا۔
اسے کوئی شک ہونا بھی نہیں چاہیے وہ گزشتہ رات سے ان کے ساتھ تھی اگر یہ تینوں بدنیت ہوتے تو اب تک عملا بدنیتی کا ارتکاب کر چکے ہوتے زیادہ خطرہ اویس کی طرف سے تھا ۔روزی نے اسے یوکلس کے مقابلے میں دھتکار دیا تھا ،اویس سوچ سکتا تھا کہ انتقام لینا اس کا حق ہے لیکن اس نے روزی کے ساتھ سلوک برتاؤ اور انداز ایسا رکھا جیسے روزی نوخیز اور حسین لڑکی نہیں بلکہ اس کا کوئی مجاہد رفیق ہو۔
اویس!،،،، روزی نے کہا ۔۔۔۔تم نے کہا تھا کہ تمہیں مسلمانوں نے نئی زندگی دی اور تم نے دیکھا کہ مسلمانوں نے تمہیں احسان نہیں جاتا یا بلکہ اسلام کا حکم ہی یہی ہے تو تم نے اسلام قبول کر لیا ۔اب تم نے اور تمہارے ان ساتھیوں نے مجھے نئی زندگی دی ہے، مجھے پتہ چل گیا تھا کہ اب میرے ہاتھ باندھ کر دریا میں پھینک دیں گے ،تم نہ آجاتے تو اس وقت میری لاش کو دریائے مخلوق نوچ رہی ہوتیں۔
اللہ کا حکم تھا تم زندہ رہو گی۔۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ اللہ نے اس کا سبب یہ بنایا کہ مجھے وہاں بھیج دیا جہاں تمہاری زندگی اور موت کا فیصلہ ہو رہا تھا ہم تینوں وہاں اللہ کے بھیجے ہوئے پہنچے تھے تمہیں میں نے نہیں اسلام نے نئی زندگی دی ہے۔
پھر مجھے اسلام میں داخل کر لو اویس!،،،، روزی نے کہا ۔۔۔اور اس کے آنسو بہہ نکلے پھر بولی مجھے ذرا سی بھی توقع نہیں تھی کہ تم مجھے بخش دو گے میں تم سے اور تمہارے ان ساتھیوں سے اتنی متاثر ہوئی ہوں کہ باقی عمر تمہارے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ابھی نہیں روزی!،،،، اویس کی پارٹی کے سردار نے کہا ۔۔۔تم اپنے ماں باپ کے پاس پہنچو گی تو ہوسکتا ہے تمہارے خیالات بدل جائیں، یہاں تم خوف و ہراس کی کیفیت میں ہوں اور تم کمسن بھی ہو ہم تمہیں تمہارے ماں باپ کے پاس پہنچا دیں گے وہاں آزادی سے فیصلہ کرنا۔
روزی فیصلہ کرچکی تھی۔ تینوں مجاہدین نے اسے کہا کہ اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ آزادی سے کیا جاتا ہے لیکن وہ رو پڑی کہتی تھی ماں باپ کے پاس جائے گی ہی نہیں۔ اویس نے اسے بتایا تھا کہ وہ تجارت کے سلسلے میں مصر آئے ہیں ، روزی کی ضد یہ تھی کہ وہ ان کے ساتھ واپس جائے گی۔
اسے بتایا نہیں جاسکتا تھا کہ ان تینوں کا مشن کچھ اور ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔
 لیکن روزی کی ضد اور آہ وزاری نے انہیں پریشان کر دیا اس نے آخر یہ کہہ دیا کہ وہ اب مسلمان ہے عیسائی نہیں۔
مجاہدین کے لئے روزی نے ایسا مسئلہ کھڑا کردیا کہ ان کے لئے کوئی راہ فرار نہ رہی روزی اعتماد اور جرات کے ساتھ بات کرنے والی لڑکی تھی وہ کسی پہلو ڈرپوک لڑکی نہیں تھی۔

 جماعت کے امیر نے ساتھیوں سے صلاح مشورہ کر کے روزی کو اپنے ہاتھ پر مسلمان کر لیا اور اس کا نام رابعہ رکھ دیا اسے معلوم تھا کہ غیر مسلم کو کس طرح اسلام میں داخل کیا جاتا ہے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ رابعہ کو اپنی اصلیت اور مشن سے آگاہ کیا جائے یا نہیں۔
 اسلام کے احکام ایسے تھے کہ وہ ایک دوشیزہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔اب تو یہ لڑکی مسلمان ہو گئی تھیں بہت ہی غوروفکر کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ رابعہ کو اپنے راز میں شریک کرلیا جائے۔
تینوں نے رابعہ کو پاس بٹھا کر بتایا کہ وہ مصر میں کیا کرنے آئے ہیں۔ اور وہ قبطی پادری بنیامین سے ملنے جا رہے ہیں اس پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا جائے گا کہ وہ مسلمان ہیں۔ بلکہ یہ بتایا جائے گا کہ ہم قبطی عیسائی ہیں اور شام کے عیسائی سرداروں کا پیغام لائے ہیں۔
میں ہر طرح سے تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔ رابعہ نے کہا ۔۔۔جان بھی دے دوں گی لیکن اس طرح نہیں کہ مجھے نیل میں ڈوبو دیا جائے یہ بھی سوچ لو کہ جس کے پاس جا رہے ہو وہ قبطی ہے اس کے پاس اور لوگ بھی آتے ہونگے کسی نے مجھے پہچان لیا تو پھر میں ان سے بچ نہیں سکوں گی۔
یہ بھی ایک مسئلہ تھا مگر ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود نہیں تھا انھوں نے یہ مسئلہ اللہ پر چھوڑ دیا۔
بنیامین روپوشی کی حالت میں تھا اس لئے اس کا ٹھکانہ معلوم کرنا آسان کام نہیں تھا ۔یہ تینوں جاسوس تھے انہوں نے کسی طریقے سے اپنی اس منزل کا سراغ لگا لیا تھا۔ وہ جگہ دور نہیں تھی لیکن علاقہ دشوار گزار تھا۔ ریتیلے ٹیلے اور گھاٹیاں تھیں ،کہیں زمین نیچے اور کہیں اوپر چلی جاتی تھی۔
وہ دن کے پچھلے پہر وہاں پہنچ گئے وہ چھوٹا سا نخلستان تھا جیسے جلتے جھلساتے ہوئے جہنم میں چھوٹی سی جنت ہو ۔

ایک گرجا تھا اس کے اردگرد چھوٹے بڑے خیمے لگے ہوئے تھے گرجا پتھروں اور گارے کا بنایا گیا تھا۔ بنیامین گرجے کے ایک کمرے میں رہتا تھا اسے اطلاع دی گئی کہ تین آدمی اور ایک لڑکی آئیں ہیں ۔  بنیامین نے انہیں اسی وقت بلا لیا۔
تین مجاہدین کی اس جماعت کے امیر نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ حلب کے رہنے والے عیسائی ہیں، اور قبطی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، رابعہ کا تعارف اس طرح کرایا کہ یہ اویس کی بیوی ہے ابھی ابھی ان کی شادی ہوئی ہے ،اور رابعہ مصر دیکھنے اور بنیامین سے ملنے کو بے تاب تھی،،،،،انہوں نے اپنے نام عسائیوں والے بتائے ۔ ہر ایک نے اپنے گلے سے چھوٹی سی صلیب لٹکا رکھی تھی۔
کیا آپ مجھے صرف ملنے آئے ہیں؟۔۔۔ بنیامین پوچھا ۔۔۔یا کوئی اور بات ہے آپ کے ملک شام میں عیسائی کس حال میں ہیں؟
ہم شام سے صرف آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔۔ اور ایک خاص بات بھی ہے ۔۔۔شام میں رومیوں نے عیسائیوں کو بہت بڑا دھوکا دیا ہے ہم تیس ہزار کا لشکر بن کر ہرقل کے پاس گئے کہ رومیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کریں گے لیکن ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہمارے سرداروں نے فیصلہ کیا کہ ہم مسلمانوں سے دشمنی مول لے کر آئے ہیں مگر رومی ہمیں آگے کرکے خود بھاگ نکلنے کی فکر میں ہیں،،،،،
رومیوں کے کہنے اکسانے پر ہم نے مسلمان فاتحین کے خلاف بغاوت کر دی رومی پھر بھی ہماری مدد کو نہ آئے ہم مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور ہتھیار ڈال دیے مسلمان ہمارا قتل عام کرسکتے تھے ہمارے بیٹیوں کو لونڈیاں بنا لیتے اور ہماری حیثیت غلاموں جیسی بنا دیتے تو انہیں کون روک سکتا تھا لیکن انہوں نے ایسی کوئی ظالمانہ حرکت نہیں کی ۔ انہوں نے اپنے آپ کو فاتح اور ہمیں مفتوح اور محکوم سمجھا ہی نہیں نہ ہمارے مذہب میں دخل اندازی کی ہے نہ کریں گے۔
میں مسلمانوں کے کردار سے واقف ہوں ۔۔۔بنیامین نے کہا۔۔۔ شام میں رومیوں کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ یہ بد کار لوگ ہیں اور مصر میں انھوں نے اپنی ہی ایک عیسائیت رائج کردی ہے تمھیں یہ تو معلوم ہو گیا ہوگا کہ میں یہاں روپوش ہوں۔
 میں شام کے عیسائیوں کے لئے  کر ہی کیا سکتا ہوں۔
ہم آپ سے مدد لینے نہیں آئے ۔۔۔امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہم مصر کے عیسائیوں کی مدد کرنے آئے ہیں۔
وہ ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں؟ ۔۔۔بنیامین نے پوچھا۔


ہمارے سرداروں اور پادریوں کو مصر کے حالات معلوم ہے۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ مصر میں کچھ عیسائی خاندان بھاگ کر شام چلے گئے ہیں انہوں نے وہاں جا کر بتایا کہ مصر میں عیسائیوں پر کس طرح ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں ہمارے سرداروں کے لئے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ وہ لشکر تیار کرکے مصر پر حملہ کر دیں، انہوں نے ایک مسلمان سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس ایک وفد بھیجا،،،،، 

وفد میں دو معمر پادری بھی تھے۔ وفد نے اس مسلمان سپہ سالار کو مصر کے عیسائیوں کی مظلومیت اور کسمپرسی سے آگاہ کیا ،اور کہا کہ مسلمان عیسائیوں کی مدد کریں تو ملک کے شام کے عیسائی تیس سے چالیس ہزار تک کا لشکر دے دیں گے۔

 امیر جماعت نے یہاں سے بات شروع کی اور بولتا ہی چلا گیا ۔بنیامین انہماک سے سنتا رہا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اسے یہ بات اچھی لگ رہی ہو، امیر جماعت کا مدعا یہ تھا کہ مصر کے عیسائی بغاوت کردیں تو مسلمان مصر پر حملہ کر دیں گے، اگر بغاوت نہ کرے تو حملے کی صورت میں وہ مسلمانوں کی مدد کریں عمرو بن عاص نے اپنے تین مجاہدین کو جو مشن دیا اور جو ہدایت دی تھی امیر جماعت نے ان کے مطابق بات کی۔

میں ایک بات اور کہوں گا ۔۔۔امیر جماعت نے کہا ۔۔۔یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ عیسائی فرقوں میں بٹ گئے ہیں یہ صورتحال عیسائیت اور عیسائیوں کے اتحاد کے لئے بہت ہی خطرناک ہے ،عیسائیت کو نقصان پہنچا رہی ہے کےایک کنواری کو دریائے نیل میں پھینک دیا جاتا ہے یہ بدعت قبطی عیسائیوں میں پائی جاتی ہے۔

 کیا آپ اس ظالمانہ رسم کو روک نہیں سکتے؟،،

میں اس رسم کو صحیح نہیں مانتا۔۔۔ بنیامین کہا ۔۔۔میں یعقوبی فرقے کا قبطی ہوں۔ یعقوبی اس رسم کو قتل جیسا گناہ سمجھتے ہیں لیکن میں ابھی اس بحث میں پڑنے سے گریز کر رہا ہوں لڑکی کی قربانی دینے والے قبطی بھی مجھے اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ہرقل کے خلاف ہم نے جو محاذ بنایا ہے اس پر میری ہر ہدایت  پر عمل کرتے ہیں۔

 اگر میں نے یہ حکم جاری کردیا کہ لڑکی کی قربانی گناہ ہے تو کم فہم اور کٹر قبطی نہیں مانیں گے اور تفرقہ پیدا ہوجائے گا ۔

 اس کا نتیجہ ہ۔ارے محاذ کیلئے اچھا نہیں ہوگا،،،، ابھی تم وہ بات کرو جس کے لئے آئے ہو۔

وہ بات تو ہو چکی ہے۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہمیں آپ کے جواب اور حکم کی ضرورت ہے جو ہم اپنے سرداروں تک پہنچائیں گے۔

اپنے سرداروں تک نہیں۔۔۔ بنیامین نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اپنے سالار عمرو بن عاص تک تم یہ پیغام پہنچاؤ گے تم نے اتنی زیادہ باتیں کی ہیں کہ تم نے اپنے اوپر جو پردہ ڈال رکھا تھا وہ اتنا زیادہ سرک گیا کہ میں نے تمہاری اصلیت دیکھ لی، اس لڑکی کو دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ تم اسے اپنے ساتھ کیوں لئے پھرتے ہو مسلمان عورت کو میدان جنگ میں نہیں لڑاتے نہ عورت کو جاسوسی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

میں نومسلم ہوں ۔۔۔رابعہ نے کہا ۔۔۔کل اسلام قبول کیا ہے شام کے شہر حلب کی رہنے والی ہوں۔

رابعہ پر جو بیتی تھی وہ اس نے سنا دی کوئی بات چھپائی نہیں نہ مبالغہ آمیزی کی۔

 ان مسلمانوں نے اپنے فرائض سے ہٹ کر مجھے نئی زندگی دی ہے۔

 رابعہ نے آخر میں کہا ۔۔۔میں ان کے کردار سے اتنی متاثر ہوئی کہ ان کا مذہب قبول کر لیا انہوں نے مجھے ایک مقدس اور پاک چیز جان کر مجھے اپنے ساتھ رکھا۔

 اور میں بھی نومسلم ہوں۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ اپنی جان اسلام کے لئے وقف کر دی ہے اویس نے بنیامین کو سنایا کہ اس نے کیوں اسلام قبول کیا تھا۔

تاریخ داں ایلفریڈ بٹلر اور عربی مؤرخوں نے بنیامین کی شخصیت کا جو عکس پیش کیا ہے وہ ایک ہی جیسا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بنیامین مصر کے قبطیوں کا اسقف اعظم تھا ،لوگ دل و جان سے اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے، بنیامین تھا ہی عظیم الشان اور غیرمعمولی طورپر دانشمند ،اس کے کردار کی بنیاد نیکی اور بنی نوع انسان کی بھلائی اور محبت تھی، عیسائیت کے ان مذہبی پیشواؤں اور قبائل کے سرداروں کا جانی دشمن تھا ،جو ہرقل کی سرکاری عیسائیت کے پیروکار تھے  اس کی فہم و فراست اور دور بین نگاہیں مستقبل کے پردے چاک کر سکتی تھیں۔

 اپنے سپہ سالار سے کہنا ۔۔۔بنیامین نے کہا ہرقل ہمارا مشترکہ دشمن ہے اگر آپ مصر پر فوج کشی کریں گے تو ایسا ہوگا ہی نہیں کہ عیسائی ہرقل کا ساتھ دیں گے ہم اس وقت کو نہیں بھولے جب فوکاس قیصر روم تھا۔ عیسائیوں کا تو وہ دشمن تھا ہرقل نے اس کے خلاف بغاوت کی تو ہم نے اس کا ساتھ دیا اور فوکاس کا تختہ الٹ کر ہرقل کو قیصر روم بنایا تھا۔

 ہرقل خود عیسائی تھا لیکن عیسائیوں کے تعاون اور ان کی قربانیوں کو نظر انداز کر کے اس نے عیسائیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ،عیسائیوں کے لیے وہ قصاب اور درندہ بن گیا ،اس کے حکم سے عیسائی کسانوں کا پیدا کیا ہوا اناج چھین کر بزنطیہ بھیج دیا جاتا ہے۔ عیسائیوں کو اس نے نیم فاقہ کش بنا کر ان پر ظالمانہ لگان عائد کردیا تھا،،،،

 عیسائیوں پر جور و ستم کی داستان بہت طویل ہے، شام کے عیسائی قبائل کو ہرقل نے دھوکے دیے مسلمانوں کے سامنے انہیں ڈھال بنانا چاہا شام میں جو ہوا وہ مجھے معلوم ہے ،میں جانتا ہوں کہ مسلمان مفتوحہ ملک کے لوگوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ محکوموں پر جور و استبداد کا تو ان کے ہاں تصور ہی نہیں ،جزیہ ادا کرکے ہر کوئی اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے۔

 میری نظریں آنے والے وقت کو دیکھ رہی ہیں مسلمانوں کا یہ رویہ قائم رہا تو عسائیت اپنے پیروکاروں کو اسلام کی آغوش میں ڈالنا شروع کر دی گی، اور مصر اسلامی ملک بن جائے گا ۔

رومی مصر میں نہیں ٹھہرسکیں گے مسلمانوں نے مصر پر فوج کشی کی تو یہاں کے عیسائی خاموش تماشائی بنے رہیں گے، اور یہ کوئی حیرت ناک بات نہیں ہوگی کہ روم میں اہل مصر کے ہم مذہب ہیں لیکن اہل مصر مسلمانوں کا استقبال کریں گے۔

 تم واپس چلے جاؤ ۔عیسائیوں کو رومیوں کے خلاف بھڑکانے کی کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں ہم بغاوت نہیں کریں گے ۔

ہمارے پاس رومیوں جیسی جنگی طاقت نہیں،   ہم رومیوں کو اس دھوکے میں رکھنا چاہتی ہیں کہ ہم ان کی وفادار رعایا ہیں۔

ان تینوں مجاہدین کا مشن کامیاب تھا۔ انہیں مصر کے کسی اور علاقے میں جاکر عیسائیوں کو بھڑکانے کی ضرورت نہیں تھی۔

 ان کے اسقف اعظم نے وہ کام کردیا جو یہ تینوں کرنے آئے تھے۔

 اویس کو تو کچھ زیادہ ہی کامیابی حاصل ہو گئی تھی، وہ بنیامین سے رخصت ہوئے رات قوص کے سرائے میں گزاری ش صبح طلوع آفتاب آفتاب سے بہت پہلے کرائے کے اونٹوں پر اسکندریہ کو روانہ ہوگئے ، انہیں خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ پہچانے جائیں گے، رابعہ کو بھی پہچان لیں گے اسے اس سے چھین کر نیل میں پھینک دیں گے، وہ خوش قسمت تھے کہ انہیں ایک جہاز تیار مل گیا وہ اس جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔

تاریخ سے یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ تینوں مجاہدین کتنا عرصہ مصر میں رہے تھے اور جب عمرو بن عاص نے انہیں مصر بھیجا تھا اس وقت عمرو کہاں تھے، البتہ یہ واضح ہے کہ یہ مجاہدین واپس آئے تو اس وقت وہ بیت المقدس میں تھے ، مجاہدین کو راستے میں ہی کسی نے بتا دیا تھا۔

 انہیں عمرو بن عاص نے بھیجا تھا اس لئے وہ وہ بیت المقدس جاپہنچیں۔

 عمرو بن عاص نے اطلاع ملنے پر انہیں فوراً بلا لیا۔

کیا کرآئے؟،،،، سپہ سالار عمرو نے ان سے پوچھا۔

امیر جماعت میں تمام تر کرگزاری سنائی اور بنیامین نے جو باتیں کی تھیں وہ لفظ بلفظ سنائی۔

یہ تو قبطیوں کے اسقف اعظم کی باتیں ہیں۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہم نے وہاں ہر عیسائی کے دل میں رومیوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی دیکھی ہے ، ہر محفل میں ،گرجوں میں، سراؤں میں، سفر میں، اس نفرت کا کھلم کھلا اظہار ہوتا ہے ۔

بنیامین نے جو کہہ دیا ہے اسے میں حرف آخر سمجھتا ہوں،،، عمرو بن عاص نے کہا۔

میرا مشورہ قبول کریں۔۔۔ ایک اور مجاہد نے کہا ۔۔۔مصر پر حملہ کرنا ہے تو فوراً کریں، رومی فوج کی ذہنی اور جسمانی حالت ابھی تک نہیں سمبھلی، اور عیسائی اس فوج کے دشمن ہو گئے ہیں۔

عمرو بن عاص یہ رپورٹ سن کر بہت خوش ہوئے،،،، کہنے لگے کہ وہ پہلی فرصت میں مدینہ جائیں گے اور امیرالمومنین سے مصر پر حملے کی اجازت لے لیں گے۔

کام کی باتیں ہو چکیں تو رابعہ کی بات سپہ سالار کو سنائی گئی ، رابعہ باہر بیٹھی ہوئی تھی اویس نے سپہ سالار سے کہا کہ وہ اس کا رابعہ کے ساتھ نکاح پڑھا دے۔

سپہ سالار نے رابعہ کو اندر بلایا اور اس سے پوچھا کہ وہ کس طرح اویس کے پاس آئی ہے۔ رابعہ نے وہی کہانی سنا دی جو سپہ سالار پہلے سن چکے تھے وہ دراصل تصدیق چاہتے تھے، اور یہ بھی کہ اس کمسن دوشیزہ پر جبر نہ ہو رہا ہو ۔

رابعہ نے انہیں مطمئن کردیا اور شادی کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے اویس اور رابعہ کا نکاح پڑھا دیا

عمرو بن عاص مدینہ جانے کا موقع پیدا کررہے تھے ،امید بندھ گئی تھی کہ انہیں مصر پر حملے کی اجازت مل جائے گی۔

 تین چار ہی دن گزرے ہوں گے کہ مدینہ سے امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک پیغام لایا لے کر قاصد آ گیا ۔

عمرو بن عاص نے پیغام پڑھا تو لرز کر رہ گئے اتنے حوصلے مند اور پر عزم سپہ سالار کے ہاتھ کانپنے لگے۔

پیغام صرف اتنا تھا۔۔۔ عمرو بن عاص کے نام۔۔۔ السلام علیکم۔۔۔ اما بعد۔۔ کیا تم مجھے میرے ساتھیوں کو اور ان لوگوں کو جن کا میں ضامن اور ذمہ دار ہوں ہلاک ہوتا دیکھو گے، اور خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ زندہ رہو گے مدد ،مدد ،مدد،،،،،

یہ پیغام ایسی نوعیت کا تھا جسے موجودہ دور میں sos کہا جاتا ہے۔

کیا آفت آن پڑی ہے عمرو بن عاص نے قاصد سے پوچھا۔

قحط۔۔۔۔ قاصد نے جواب دیا۔۔۔ عرب کی جنوبی سرحد سے لے کر شمالی سرحد تک ہر انسان کی اور مویشیوں کی جان بےدردی سے لے رہا ہے ۔مدینہ کو میری واپسی تک نہ جانے کتنی اور جانیں لے چکا ہوگا۔ اناج کا ایک دانہ کہیں نظر نہیں آتا لوگ پانی کو ترس رہے ہیں، دودھ دینے والے مویشی ہڈیوں کے ڈھانچے بن کر مر رہے ہیں، ان کے جسموں میں نمی کا ایک قطرہ نہیں دودھ کہاں سے دیں۔

یہ تاریخ  عیسویں 639 بمطابق 18 ہجری میں پڑا تھا۔

قاصد نے قحط کی تباہ کاری سنائی، اور سننے والے لرزہ براندام ہو گئے۔

 عمرو بن عاص نے امیرالمؤمنین کے نام پیغام لکھوایا، تاریخ کے مطابق تحریر اتنی سی ہی تھی۔

 امیر المومنین کے نام۔۔۔ السلام علیکم۔۔۔ اما بعد۔۔۔ اطمینان رکھیں خوراک کا ایسا قافلہ بھیج رہا ہوں جس کا اگلا سرا آپ کے پاس اور دوسرا سرا میرے پاس ہوگا،،،،،

امیر امیرالمومنین نے ایسے ہی پیغام معاویہ بن ابی سفیان، اور ابو عبیدہ ،کو شام بھیجے تھے جو وہاں کے امراء اور سپہ سالار تھے۔ پھر ایسا ہی پیغام عراق کے امیر اور سپہ سالار سعد بن ابی وقاص کو بھی بھیجا ان سب نے امیرالمومنین کو ایسا ہی جواب دیا جیسا عمرو بن عاص نے لکھ بھیجا تھا۔

تاریخ میں جو اعداد و شمار آئے ہیں ، یوں ہیں۔

عمرو بن عاص نے فلسطین سے ایک ہزار اونٹ آٹے اور گھی سے لدے ہوئے، خشکی کے راستے، اور انہیں اشیا سے لدے ہوئے بیس بحری جہاز کی عقبہ کی بندرگاہ سے روانہ کیے۔

خوراک کے علاوہ عمرو نے پانچ ہزار کمبل بھی بھیجے ۔

شام سے معاویہ بن ابی سفیان نے آٹے سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ بھیجے خوراک کے علاوہ تین ہزار چغے بھی ساتھ تھے، سعد بن ابی وقاص نے عراق سے ایک ہزار آٹھ سو اونٹ یہ بھی اناج سے لگے ہوئے تھے،

شام کے ایک اور حصے کے امیر اور سپہ سالار ابوعبیدہ بن جراح نے چار ہزار اونٹوں پر اناج اور دیگر اشیاء خورد و نوش لدوائیں اور خود اس قافلے کے ساتھ چل پڑے ۔

مدینہ پہنچے تو امیر المومنین نے لوگوں میں اس خوراک کی تقسیم کا کام ابوعبیدہ کے ہی سپرد کر دیا، تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ امیرالمومنین نے حکم دیا کہ ابو عبیدہ کو چار ہزار درہم ادا کیے جائیں۔

امیرالمومنین!،،، ابوعبیدہ نے کہا۔۔۔ مجھے اس معاوضے کی ضرورت نہیں ،میں نے جو معاونت کی ہے یہ اللہ کی خوشنودی کے لئے کی ہے مجھے دنیاوی مفاد کی طرف نہ کھینچیں۔

یہ معاوضہ تم نے طلب نہیں کیا!،،،،امیرالمومنین نے کہا۔۔۔ اس لئے یہ لے لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھے ایسا ہی ایک واقعہ پیش آ چکا ہے، تم نے جو بات مجھ سے کہی تھی وہی میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہی تھی، لیکن آپ نے میرا جواز رد کرکے مجھے رقم وصول کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

 ابو عبیدہ نے چار ہزار درہم لے لیے اور شام کے اس علاقے کو واپس چلے گئے جہاں کے وہ امیر مقرر ہوئے تھے۔

اس داستان کا یہ باب اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس خوفناک قحط میں امیرالمومنین اور ان کے ماتحت افسروں کی فرض شناسی اور انسان دوستی کا تذکرہ نہ کیا جائے۔

قحط کا باعث یہ ہوا کہ آسمان بادلوں سے خالی ہو گیا بادلوں کی غیر حاضری میں سورج نے زمین و آسمان کو جلانا شروع کردیا ۔ کھیتوں کی مٹی اکڑ گئی اور زمین چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پھٹنے لگی، آسمان کے تیور دیکھ کر کسانوں نے ہل نہ چلائے وہ دیکھ رہے تھے کہ گھاس کی ایک پتی بھی ہری نہیں رہ گئی تھی، فصل جو پکنے کے لئے اوپر ہی اوپر اٹھ رہے تھے جہاں تک پہنچے تھے وہی جل کر راکھ ہوگئے، اناج کی پیداوار کی امیدیں دم توڑ گئیں۔

نخلستان سوکھ گئے ہریالی کا کہیں نام و نشان نہ رہا، ہوا چلتی تو دھول اڑتی تھی، کسی درخت کا ایک پتہ بھی ہرا نہ رہا ،درخت خشک لکڑیاں بن کے رہ گئے، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ مویشی اور دیگر جانور ایسی تیزی سے مرنے لگے جیسے موت جھاڑو دے رہی ہو۔ انسان فاقوں مرنے لگے، جن لوگوں کے پاس روپیہ پیسہ تھا وہ بھی مر رہے تھے، اناج کا ایک دانہ نہ تھا روپیہ پیسہ محض بیکار تھا۔

اس قحط والے سال کو عام الرّمادہ (یعنی خاک والا سال) کہا گیا تھا۔

اب دیکھئے اس وقت کے سربراہ ملت و حکومت کا کردار اور حسن تدبر ۔

امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذاتی کردار تو بلند تھا ہی، لیکن غور اس پر کریں کہ یہ کردار اسلام کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔

 انہوں نے جلسوں میں تقریریں نہیں کی کہ ہم عوام کو بھوکا نہیں مرنے دیں گے، ذخیرہ اندوزی ختم کرنے کے لیے قانون بنایا جارہا ہے ،ہم تباہ کر دیں گے ،کمیٹی بنا دی گئی ہے ،ایسی بھڑک نما تقریروں کے بعد رات گھر جاکر مرغن کھانے کھائے اور سو گئے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عراق ،شام، اور فلسطین سے آنے والی خوراک کے قافلوں کے لیے حکم دیا کہ یہ متاثرہ علاقوں میں چلے جائیں ،اور اشیاء لوگوں میں تقسیم کردی جائیں ،دوسرا حکم یہ دیا کہ قافلوں کے اونٹ واپس نہ کئے جائیں انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

 قحط زدہ علاقوں میں ایک بھی اونٹ زندہ نہیں رہا تھا ،اگر کوئی اونٹ زندہ نظر آتا تھا تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوتا تھا گوشت کا نام و نشان نہیں ،زرخیز علاقوں سے آئے ہوئے اونٹ تنو مند اور تروتازہ تھے ،کم و بیش دس ہزار اونٹ ذبح کرکے فاقہ کش لوگوں کو کھلا دیے گئے۔

مدینہ دارالخلافہ بھی تھا اور ہر لحاظ سے عرب کا مرکزی شہر بھی وہاں خوشحال لوگ رہتے تھے ،ان کے گھروں میں خوراک کا ذخیرہ تھا۔ مدینہ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ بہت سے بھاگے ہوئے ہزارہا لوگ پورے پورے کنبے مدینہ میں آگئے، اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی یہ سب بھوکے تھے، ان کے بچے بھوکے، ان کی عورتیں بھوکی تھیں، ماؤں کے دودھ سوکھ گئے، اور دودھ پیتے بچے مر رہے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ کے لوگوں سے کہا کہ وہ گھروں میں دو گنا کھانا پکایا کریں اور ان پناہ گزینوں کو آپس میں بانٹ کر گھروں میں لے جائیں، لوگوں نے فوراً اس پر عمل کیا لیکن پناہ گزینوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے گھوم پھر کر جائزہ لیتے رہتے تھے ،مدینہ کے خوشحال لوگ پورا پورا تعاون کررہے تھے کچھ لوگ پھر بھی بھوکے رہ جاتے تھے۔

امیر المومنین نے اس کا حل یہ نکالا کہ حکم جاری کردیا کہ کسی شہری کے گھر کھانا نہیں پکے گا، تمام خوراک ایک جگہ اکٹھا کرکے مشترکہ طور پر کھانا پکے گا اور سب ایک دستر خوان پر کھانا کھایا کریں گے۔

 امیر المومنین نے اس کی ابتدا اپنے گھر سے کی کھانا ایک جگہ پکنے لگا، امیرالمومنین اپنے اہل و عیال کے ساتھ اسی دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے۔

مسلم اور غیر مسلم تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس دستر خوان پر ہر روز دونوں وقت کھانے والوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہوتی تھی، مریض، بوڑھے ،معذور ،عورتیں، بچے ،جو دسترخوان تک نہیں پہنچ سکتے تھے انہیں وہاں کھانا پہنچایا جاتا تھا جہاں جہاں ان کا قیام تھا ان کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔

امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار کی اور امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ایثار کی صرف ایک مثال کافی ہوگی ۔مؤرخوں نے ایسے متعدد واقعات لکھے ہیں۔

 امیرالمومنین سب کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے ایک روز دسترخوان پر گھی میں چُوری کی ہوئی روٹی تھی ،حضرت عمر نے ایک بدو کو اپنے ساتھ بٹھا لیا دونوں ایک ہی پلیٹ سے چوری کھانے لگے۔

بدو بدتمیزی سے کھا رہا تھا پلیٹ میں جدھر گھی دیکھتا ادھر سے بہت بڑا لقمہ بنا کر منہ میں ڈال لیتا امیرالمومنین نے اس سے پوچھا کہ تو نے کبھی گھی والی روٹی نہیں کھائی؟

یا امیرالمومنین!،،،، بدو نے لجاجت کے لہجے میں کہا۔۔۔ جب سے قحط پڑا ہے نہ کہیں گھی دیکھا ہے، نہ روٹی، نہ کسی اور کو گھی روٹی کھاتے دیکھا ہے۔

امیر المومنین نے قسم کھالی کہ جب تک قحط ہے وہ گھی والی روٹی نہیں کھائیں گے ،سب نے دیکھا کہ انہوں نے گھی کے علاوہ گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا ،ان کی بھاگ دوڑ کا یہ عالم تھا کہ ابھی مدینہ میں کھانے کا انتظام دیکھ رہے ہیں اور ابھی کسی دور کے علاقے کی طرف دیکھنے جا رہے ہیں کہ وہاں لوگوں کو ٹھیک طرح کھانا مل رہا ہے یا نہیں۔

 مسلسل مشقت بھاگ دوڑ اور پریشانی کے ایسے آثارات تھے، اس کے ساتھ امیر المومنین نے اپنی روزمرہ غذا کم کر دی تھی، ان کا رنگ سرخ سفید ہوا کرتا تھا جو سیاہ پڑ گیا ،اور جسم لاغر ہوتا چلا گیا، پیٹ میں کوئی تکلیف بھی رہنے لگی ان کے رفقائے کار کو پریشانی لاحق ہو گئی کہ امیرالمؤمنین نے پوری غذا کھانی شروع نہ کی تو یہ صورت ان کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔

ان رفقاء نے جن میں معمر صحابہ اکرام بھی تھے۔۔۔ امیرالمومنین سے کہا۔۔۔ کہ آرام کریں نہ کریں اپنی روزمرہ غذا پوری کر لیں۔ امیرالمؤمنین نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے۔۔۔ انہوں نے کہا ۔۔۔مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مجھ پر بھی وہی گزرے جو لوگوں پر گزر رہی ہے۔

اگر ہمارے آج کے حکمران حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ان الفاظ کو اپنا اصول حیات بلکہ ایمان کا جزو بنا لیں تو ملک کا اجڑا ہوا گلستان سرسبزوشاداب ہوجائے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کے حضور بہتے آنسو سے گڑگڑاتے تھے۔۔۔۔ یا اللہ یہ قحط اگر میرے کسی گناہ یا اپنے فرائض سے کوتاہی کی سزا ہے تو مجھے بخش دے میری قوم کو سزا نہ دے۔

 کوئی دعا قبول نہیں ہورہی تھی آسمان جل رہا تھا زمین کو جلا رہا تھا۔

*آسمان*   سر زمین عرب کا دشمن ہوگیا تھا۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے انتظامات اور ان کی اپنی بھاگ دوڑ لوگوں کو قحط سے نھیں فاقہ کشی سے نجات دلاسکتی تھی۔ جو انہوں نے دلادی لیکن صحابہ کرام اور دیگر اکابرین حضرت عمر کی بڑی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کے متعلق پریشان تھے۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تو گھولے جا رہے تھے، انہوں نے جسمانی توانائی برقرار رکھنے والی غذا ترک کر دی تھی، اور کہتے تھے کہ یہ غذا اس وقت کھاؤں گا جب میری قوم کے ہر فرد کو یہ غذا میسر آنے لگے گی۔

تاریخ نویس ابن سعد نے اپنی ایک کتاب (طبقات) میں لکھا ہے کہ بزرگوں کے کہنے پر بعض جواں سال افراد نے کھانے کے وقت حضرت عمر کو کسی بہانے دسترخوان عام سے ہٹا کر الگ بٹھایا اور گوشت کے ساتھ گھی میں پکائی ہوئی روٹی ان کے آگے رکھ دی، اور انہیں باتوں میں لگالیا، انہوں نے عہد کر لیا تھا کہ امیرالمومنین کو گوشت اور گھی کھلا کر ہی رہیں گے، لیکن امیرالمومنین نے یہ کھانا ایک طرف سرکا دیا۔

دسترخوان پر گھوم پھر کر دیکھو۔۔۔ امیر المومنین نے کہا۔۔۔ جو کوئی فاقہ کشی سے بہت ہی نحیف ہو گیا ہو یہ کھانا اسے کھلا دو میرے لئے عام روٹی اور سب کے لیے پکا ہوا سالن زیادہ اچھا رہے گا۔

ابن سعد نے تین مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شام حکم دیا کے دسترخوان  عام پر جو لوگ موجود ہیں ان کی گنتی کی جائے۔ گنتی کی گئی۔ سات ہزار سے کچھ زائد تھی اور بوڑھے، بچے اور مریض جو دسترخوان پر نہیں آ سکے اور انہیں جہاں جہاں تھے کھانا پہنچایا گیا تھا ان کی تعداد چالیس ہزار سے ذرا زیادہ تھی۔

امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس رات بھی وہیں کھانا کھایا جو باقی سب نے کھایا تھا۔ انھوں نے پانی مانگا تو انھیں وہ پانی دیا گیا جس میں شہد ملا ہوا تھا انہوں نے ایک گھونٹ پی کر پیالہ رکھ دیا۔

خدا کی قسم!،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ میں ایسا کام نہیں کروں گا جسکی روزقیامت مجھ سے جواب طلبی ہو۔

پھر ایک واقعہ یہ بھی قابل غور و فکر ہے کہ ایک روز امیرالمومنین نے اپنے ایک چھوٹے بیٹے کو تربوز کا ایک ٹکڑا کھاتے دیکھا تو بولے،،،،، واہ امیر المومنین کے بیٹے تو پھل کھا رہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھوکی مررہی ہے۔

بچہ اپنے عظیم باپ کی سخت مزاج سے واقف تھا وہ رو پڑا امیرالمومنین کو بچے کا رونا متاثر نہ کرسکا ،کسی نے انہیں بتایا کہ بچے نے تربوز کا یہ ٹکڑا چند ایک کھجوروں کے بدلے لیا ہے تو انہیں اطمینان ہوا اور انہوں نے بچے کو بہلا لیا۔

قحط ٹلتا نظر نہیں آرہا تھا، عراق، اور شام سے اناج اور اجناس آرہی تھی جو نہایت اچھے انتظامات کے تحت مدینہ سے دور دراز علاقوں تک بھی پہنچائی جا رہی تھی۔ امیرالمومنین خود جاکر تقسیم کے انتظامات دیکھتے تھے چھ سات مہینے گزر گئے تھے۔

ایک روز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ سے تھوڑی ہی دور ایک بستی میں گئے تو وہاں دو گھروں میں ماتم کی آہ و بکا دیکھی، ایک عورت کا جوان بیٹا، اور ایک عورت کا خاوند مر گیا تھا۔

 حضرت عمر نے پہلی بات یہ پوچھی کہ یہ بھوکے تو نہیں مرے، یہ جواب سن کر انہیں اطمینان ہوا کہ انہوں نے ایک وقت کا بھی فاقہ نہیں کیا تھا، موت کا سبب کوئی ایسی بیماری بنی جسے کوئی بھی نہ سمجھ سکا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا کہ ان کے کفن بیت المال سے دیئے جائیں۔ کفن آ گئے دونوں کی نماز جنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خود پڑھائی تھی۔

یہ پراسرار بیماری بڑھنے لگی بیماریاں ایسی تھی کہ علاج کی مہلت ہی نہیں دیتی تھی، یہ وبا کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی کسی بھی مؤرخ نے نہیں لکھا کہ اس بیماری کی علامت کیا تھی۔

 امیرالمومنین جو ذرا سا آرام کرتے تھے وہ بھی چھوڑ دیا اور اس بیماری کی روک تھام کے لئے بستی بستی بھاگنے دوڑنے لگے۔ طبیب بھی پریشان ہو گئے ان کی دوائیوں کا اتنا سا ہی اثر ہوتا تھا کہ مریض کی موت کچھ دن ٹل جاتی تھی لیکن وہ آخر موت کے منہ میں چلا ہی جاتا تھا۔

طبیب اتنا ہی سمجھ سکے کہ اس بیماری کا تعلق قحط اور خشک سالی کے ساتھ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم جاری کردیا کہ اس بیماری سے مرنے والوں اور قحط ختم ہونے تک کسی بھی بیماری سے مرنے والے کا کفن بیت المال سے ملے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جہاں تک پہنچ سکتے وہاں نماز جنازہ خود پڑھاتے تھے۔

امیرالمومنین کسی بیمار کی وفات کی اطلاع پر جاتے تو کچھ اس قسم کے الفاظ ان کے کانوں سے ٹکراتے تھے۔

 یا امیرالمومنین!،،، آپ نے بھوک سے تو بچا لیا موت سے نہیں بچا سکیں گے،،،، یا یہ کہ یا امیرالمومنین!،،،، روٹی دے سکتے ہو زندگی نہیں دے سکتے.

اس پر اسرار اور ظالم بیماری نے تمام تر عرب پر دہشت طاری کردی تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نماز کے بعد قحط سے نجات کی دعا کرتے تھے، بیماری نے زور پکڑا تو رات رات بھر نوافل پڑھتے اور اس طرح قحط اور

 بیماری سے نجات کی دعا کرتے تھے کہ روتے روتے ان کی ہچکی بندھ جاتی تھی۔

یا اللہ! یا غفور الرحیم! ۔۔۔۔حضرت عمر دعا میں یہ الفاظ ضرور کہتے تھے۔۔۔ میرے گناہوں کی سزا اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو نہ دے اپنے بندوں کو میرے ہاتھوں ہلاک نہ کرا پروردگار۔

یوں لگتا تھا جیسے اللہ نے سرزمین عرب سے نگاہیں پھیر لی ہوں دعاوں کو قبولیت حاصل ہو ہی نہیں رہی تھی۔

آخر امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی حالت ایسی ہو گئی جیسے بالکل ہی ہار کر بے دست و پا ہو گئے ہوں۔

 انہوں نے ہر طرف قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیے کہ تمام لوگوں کو اپنی اپنی جگہ اکٹھا کرکے نماز استسقاء پڑھی جائے اور اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کی جائے کہ قحط کے عذاب سے اللہ چھوڑا دے ۔

پیغام میں یہ بھی کہا گیا کہ جو لوگ رات ہی رات مدینہ پہنچ سکے پہنچے جائیں۔

قاصد فوراً ہی روانہ ہو گئے تھے دور کے علاقوں کو جانے والے قاصد رات کو بھی چلتے رہے تھے ،مدینہ منورہ میں نماز استسقاء کا وقت اگلے روز دوپہر کا مقرر کیا گیا تھا،،،،، جہاں جہاں پیغام پہنچایا گیا اور لوگوں نے نماز کا وقت مقرر کرکے اعلان کردیا۔

اگلے روز مدینہ کے لوگ اور مدینہ میں آئے ہوئے پچاس ساٹھ ہزار پناہ گزین زمین و آسمان کو جلاتی ہوئی دوپہر کے وقت نماز استسقاء کے لیے باہر نکلے ،اور میدان میں صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے، زمین دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح گرم تھی ،جس پر ننگے پاؤں کھڑا ہونا ممکن نہ تھا، لیکن لوگ اللہ کی ذات باری میں جیسے تحلیل ہو گئے تھے کہ انہیں پاوں جلنے کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ امامت کے لیے آگے آئے انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ردائے مبارک اپنے جسم پر لے رکھی تھی۔

جن مؤرخوں نے اس نماز کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے اس وقت کے وقعے نگاروں کے حوالے سے وہ منظر بیان کیا ہے۔

 جب مدینہ کے لوگ نماز استسقا پڑھ رہے تھے لوگوں کی سسکیاں اور ہچکیاں صاف سنائی دے رہی تھیں اور یہی کیفیت امیرالمومنین پر طاری تھی۔

نماز کے بعد امیرالمومنین دعا کے لیے اٹھے ان کا کوئی لفظ واضح طور پر سمجھ میں نہیں آتا تھا، کیونکہ وہ بچوں کی طرح بلبلا اور رو رہے تھے۔

 مؤرخوں نے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ حضرت عمر کے انسو ان کی داڑھی سے یوں ٹپکنے لگے جیسے انہوں نے اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ہوں۔

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ،دعا کے دوران حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کا بازو پکڑا اور اٹھا کر اپنے پہلو میں کھڑا کر لیا پھر ان کے دونوں ہاتھ پکڑ کر دعا کے انداز میں آسمان کی طرف کیے۔

یااللہ !،،،،،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی بلند آواز میں کہا۔۔۔ ہم تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو تیرے حضور شفاعت کے لئے لائے ہیں ہماری نہیں تو ان کی ہی سن لے۔

یا پروردگار !۔۔۔۔۔حضرت عباس نے حضرت عمر کی آواز سے بھی بلند آواز میں کہا۔۔۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی رحمت کے چند قطرے،،،،،،

حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی آواز رقّت میں دب گئی اور اس طرح ہچکیاں لے لے کر رونے لگے جیسے اپنے آپ پر قابو نہ پا سکیں گے۔

مدینہ سے دور دور تک جہاں جہاں امیر المومنین کا پیغام پہنچا تھا اس وقت نماز استسقاء پڑھی جا رہی تھی، ہر آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے، اور لوگ اس عذاب سے اللہ کی پناہ مانگ رہے تھے ۔

نماز کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بلند آواز سے ورد کرتے جاتے تھے۔ اللہ، رحمان ،اور رحیم، ہے۔

پھر جلتے اور جلاتے ہوئے اس دن کا سورج بھی غروب ہوگیا ایک اور رات آئی موسم کی تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ لیکن اس رات کے بطن سے جس صبح نے جنم لیا اسے دیکھ کر کسی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا تھا ۔ سورج جیسے طلوع ہوا ہی نہ ہو کیونکہ آسمان پانی سے لدے ہوئے سرمائی اور سیاہ بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا ۔اور جب یہ بادل پھٹ پڑے تو دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف جل تھل ہوگیا بارش ایسی موسلادھار کے اس کی دھند میں کچھ دور تک نظر کام نہیں کرتی تھی۔

نو مہینوں کی پیاسی زمین اللہ کی رحمت سے سیراب ہوگی ،یہ تاریخی قحط پورے نو مہینے رہا تھا۔

دو تین دنوں بعد بارش کا زور تھاما، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ کے اندر اور باہر ان پچاس ساٹھ ہزار پناہ گزینوں میں دوڑتے جو نو مہینوں سے وہاں پڑے تھے، وہ ان لوگوں سے یہ کہتے پھرتے تھے کہ اپنے گھروں کو چلے جاؤ ،لوگوں کو ان کے گھروں بھیجنے پر امیرالمؤمنین کچھ زیادہ ہی زور دے رہے تھے۔

 انہوں نے بعد میں اپنے مصاحبین سے کہا کہ وہ ان پناہ گزینوں کو اس خیال سے مدینہ سے نکال رہے تھے کہ انھیں آرام سے حاصل ہونے والی روٹی کا چسکا نہ پڑ جائے۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا خیال یہ تھا کہ لوگ فوراً کھیتی باڑی میں لگ جائیں۔

جاری ہےــــــــ

اپنا تبصرہ بھیجیں