سابقہ اقساط
قسط نمبر 01
بات جب فتح مصر پر آتی ہے تو لامحالہ یہ سوال ہوتا ہے کہ اس وقت مصر میں حکومت کس کی تھی اور جب تاریخ یہ جواب دیتی ہے، کہ اس وقت رومی مصر پر قابض تھے اور حکمران ہرقل تھا تو یاد آتا ہے کہ ہرقل تو ملک شام میں تھا اور یہ سارا خطہ اس کی حکمرانی میں تھا پھر ہرقل مصر کس طرح پہنچ گیا؟ شام سے ہر قل اپنی مرضی سے مصر نہیں گیا تھابلکہ اسے مسلمانوں نے شام سے بھگایا تھا ۔اس وقت دنیا میں دو ہی جنگی طاقتیں تھی ایک آتش پرست ایرانی اور دوسرے رومی۔ بہت مدت پہلے رومیوں نےعیسائیت قبول کر لی تھی یہ دونوں طاقتیں مشرق وسطیٰ میں ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتی تھی کبھی ایرانی شام اور مصر پر قابض ہوجاتے تھے تو کبھی رومی انہیں شکست دے کر ان سے یہ علاقہ چھین لیا کرتے تھے۔ان دونوں طاقتوں کے کبھی تصور میں بھی نہیں آیا تھا کہ افق اسے ایک تیسری طاقت بھی ابھرے گی جو ان دونوں طاقتوں کو ریزہ ریزہ کرکے بکھیر دے گی عربوں سے تو یہ لوگ کوئی ایسی توقع رکھتے ہی نہیں تھے عربوں کو جاہل اور پسماندہ بدو کہا کرتے تھے۔ لیکن اسی عرب کے ایک غار کی تاریکی سے اللہ کانور پھوٹا جس کی کرنیں بڑی تیزی سے پھیلتی چلی گئیں اور لوگوں کے دل و دماغ کو منور کرتی گئیں۔ اس غار کو غار حرا کہتے ہیں یہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور آپ کو اللہ تبارک وتعالی نے رسالت عطا فرمائی تھی ۔یہاں سے تیسری جنگی طاقت ابھرنے لگی لیکن ایک فرق کے ساتھ ،اس تیسری طاقت کو صرف جنگی ہتھیاروں پر بھروسہ نہیں تھا بلکہ یہ طاقت عظیم نظریے سے لیس تھی اور اس نظریے میں اللہ کی طاقت شامل تھی، ایرانیوں اور رومیوں کو اپنے بےانداز گھوڑوں اور تیر و تفنگ پر ناز تھا ۔لیکن جب ان کے بڑے بڑے لشکر مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کے مقابلے میں آئے تو ان کے لیے میدان میں ٹھہرنا محال ہو گیا یہ ایک نظریے اور عقیدے کا کرشمہ تھا جسے آج تک اللہ کا دین کہا جاتا ہے۔تاریخ آج بھی حیران ہے کہ جن رومیوں نے ایرانیوں جیسی طاقت کو پے در پے شکست دے دی تھی۔ وہ مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں کس طرح پٹ گئے اور پیٹے بھی ایسے کہ مسلمانوں نے انہیں شام سے بےدخل ہی کر ڈالا اور ان کی فوجوں نے مصر میں جا دم لیا۔
تاریخ حیرت کا اظہار بھی کرتی ہے اور اس سوال کا جواب بھی تاریخ کے دامن میں موجود ہے ایک ایک لمحے کی داستان مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے قلم بند کرکے تاریخ کے حوالے کر دی تھی اور وہ آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہے یہ تفصیلات جنگی نوعیت کی ہے مورخوں نے مسلمانوں کی جنگی اہلیت جذبہ اور فن حرب و ضرب کے معجزہ نما کارنامے لکھیں ہیں۔ انہوں نے مسلمان سپہ سالاروں کی جنگی چالوں پر قیادت پر اور لشکروں میں ڈسپلن قائم رکھنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو مؤرخوں نے نظر انداز کیا ہے ،یا وہ اس سے واقف ہی نہیں تھے اس کی صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔
جب مسلمان ابو عبیدہ ،خالد بن ولید، اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم کی قیادت میں رومیوں سے برسرپیکار تھے اور ہر میدان سے رومیوں کے پاؤں اکھڑتے جا رہے تھے اس وقت اس علاقے کا ایک بڑا قلعہ بند شہر بہت شہرت یافتہ تھا یہ تھا قنسرین ۔اس کی دفاعی پوزیشن بڑی ہی مضبوط تھی یہ ایک الگ داستان ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے قنسرین کو کس طرح فتح کیا تھا۔ یہاں بات ایک شخصیت کی سامنے آتی ہے جس کے حوالے سے ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عظمت واضح کریں گے۔اس علاقے میں ایک شخص جبلہ بن الیہم غسانی تھوڑے سے علاقے کا بادشاہ بنا ہوا تھا۔ یہ اس کا اپنا قبیلہ تھا جو بنو غسان کے نام سے مشہور تھا وہ رومیوں کا دوست تھا اور جبلہ بن الیہم رومیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے سوا انہیں ہر طرح کی مدد دیتا تھا۔ جبلہ بے پناہ دولت اور خزانوں کا مالک تھا اور موقع پرست بھی تھا وہ رومیوں کا تو دوست تھا لیکن مسلمانوں کو وہ اس طرح دشمن نہیں سمجھتا تھا جس طرح رومی سمجھتے تھے جبلہ بڑے ہی صاف ستھرے ذوق و شوق کا مالک تھا اسے عرب کے شاعروں کے ساتھ دلی محبت تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ تو اسے سب سے زیادہ عزیز تھے اور انکے کلام پر وہ وجد میں آ جایا کرتا تھا ۔اس کے باوجود وہ رومیوں کا حلیف تھا ۔جو اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کی چھوٹی سی سلطنت رومیوں میں گھری ہوئی تھی۔ہرقل جب مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگا تو جبلہ بن الیہم نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ اسلام قبول کرلے اس علاقے میں مجاہدین کے جو لشکر لڑ رہے تھے ان کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے جبلہ بن الیہم نے ان کی طرف اپنا ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اپنے تمام تر قبیلے غسان کے ساتھ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے ۔ابو عبیدہ کی نگاہ میں یہ ایک بڑی فتح تھی انہوں نے اپنے ان دو تین آدمیوں کو جبلہ کے پاس بھیجا جو غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کے طریقے سے اچھی طرح واقف تھے۔ یہ آدمی وہاں گئے اور جبلہ اپنے پورے قبیلے کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔ ابو عبیدہ نے یہ اطلاع امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بھیجی۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس اطلاع پر اتنا خوش ہوئے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔جبلہ کو سرزمین عرب کی یاد ستا رہی تھی وہ اپنے محبوب شاعروں کے وطن کو دیکھنا چاہتا تھا ۔اس نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنا ایک ایلچی اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ وہ ان کے حضور حاضری دینا چاہتا ہے۔ اور اس کی خواہش ہے کہ فریضہ حج بھی ادا کرے ۔
حضرت عمر نے اسے اجازت دے دی ۔امیرالمومنین جانتے تھے کہ جبلہ بن الیھم کس پائے کا آدمی ہے اور وہ حج کر کے پکا مسلمان بن جائے گا۔ اس کا پورا قبیلہ مسلمان ہو کر مسلمانوں کا ایک بازو بن گیا تھا۔ایک روز امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اطلاع دی گئی کہ جبلہ بن الیھم غسانی آ رہا ہے۔ یہ مدینہ کا واقعہ ہے ۔مدینہ شہر میں تو ہنگامہ برپاہوگیا ۔جبلہ بن الیہم اپنے چند ایک مصاحبوں کے ساتھ نہیں آرہا تھا بلکہ اس کے ساتھ پانچ سو افراد تھے جن میں اکثریت اس کے شاہی خاندان کی تھی اور باقی قبیلہ غسان کے سرکردہ افراد تھے اور ان سب کی عورتیں بھی ساتھ تھی ۔حضرت عمر نے کہا کہ مدینہ کے لوگ باہر نکل کر جبلہ اور اس کے ہمراہیوں کا استقبال کریں ۔اور اسے پوری تعظیم دیں۔ لوگ پہلے ہی گھروں سے نکل آئے تھے اور عورتیں منڈیروں پر کھڑی ہو کر اس قافلے کو دیکھنے لگیں۔جبلہ اپنے دو سو سواروں کو خصوصی لباس پہننے کو کہا ۔اس مقصد کیلئے یہ قافلہ مدینہ سے کچھ دور رہ گیا ۔ان سواروں نے جب لباس پہنا تو دیکھنے والے حیران رہ گئے کیونکہ یہ بڑی ہی قیمتی ریشم کا لباس تھا ۔ہر سوار اپنی اپنی جگہ بادشاہ اور شہزادہ لگتا تھا ۔ ان کے گھوڑوں کے گلوں میں سونے اور چاندی کے ہار ڈالے ہوئے تھے۔ گھوڑوں پر رنگا رنگ ریشمی چادر پڑی ہوئی تھی ۔جبلہ نے اپنے سر پر تاج رکھ لیا۔ اس کا اپنا لباس تو انتہائی قیمتی تھا ۔آخر بادشاہ تھا خواہ اس کی بادشاہی محدود سے علاقے میں تھی۔ یہ قافلہ جب شہر میں داخل ہوا تو شہر کے لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا ۔بعض نے حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں، انہوں نے اتنے قیمتی لباس کبھی نہیں دیکھے تھے۔ وہ اس لئے بھی حیران ہو رہے تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں پھر بھی انہوں نے اپنی شاہانہ انداز نہیں چھوڑے۔حضرت عمر جبلہ کے استقبال کے لیے باہر نہ آئے جبلہ ان کے ملاقات کے کمرے میں داخل ہوا تب امیرالمومنین نے اٹھ کر اسے گلے لگایا اور جس طرح خود فرش پر بیٹھا کرتے تھے۔ اسی طرح اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا اور اسے مبارک باد دی کہ اس نے اللہ کا سچا دین قبول کرلیا ہے اور اب کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔
جبلہ اپنے پانچ سو ہمراہیوں کے لئے نہایت خوبصورت اور قیمتی خیمے ساتھ لایا تھا۔ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسے ایک نہایت اچھی جگہ دے دی جہاں اس کے آدمیوں نے ترتیب سے خیمہ گاڑ لئے اور وہاں ایک الگ تھلک بستی آباد ہوگی یہ بستی شہر سے کچھ دور تھی۔روز حج قریب آرہا تھا ایک روز امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے ساتھ لیا اور حج کیلئے مکہ کو روانہ ہوگئے اس وقت مکہ سلطنت اسلامیہ میں شامل ہو چکا تھا اب صلح حدیبیہ کی پابندیاں ختم ہوگئی تھی ۔جبلہ حج کے لئے چلا تو اس کے ساتھ چند ایک ہی اپنے آدمی تھے باقی سب کو وہ مدینہ چھوڑ گیا فریضہ حج ادا کرنے کے لئے جبلہ نے جو احرام باندھا تھا وہ اس کے ٹخنوں سے نیچے چلا گیا تھا ۔خانہ کعبہ کے طواف کے دوران پیچھے آنے والے ایک آدمی کا پاؤں اس کے احرام پر جاپڑا اور احرام کھل گیا۔ اس شخص نے اس حرکت کو اپنی توہین سمجھا اور پیچھے مڑ کر اس آدمی کی ناک پر بڑی زور سے مکا مارا اس آدمی کی ناک سے خون بہنے لگا۔اس وقت حضرت عمر اس کے ساتھ نہیں تھے انہیں بعد میں اطلاع ملی کہ جبلہ نے یہ حرکت کی ہے ۔حضرت عمر نے اس آدمی کو بلایا اور اس آدمی نے بھی شکایت کی کہ جبلہ نے اس کی ناک پر مکا مارا ہے جس سے اس کی ناک سے خون بہنے لگا تھا اور وہ طواف مکمل نہیں کر سکا تھا۔ اس شکایت کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حیثیت بالکل ہی بدل گئی وہ اب جبلہ کے میزبان نہ رہے بلکہ وہ خلیفۃالمسلمین بن گئے اور اس کے ساتھ ہی ان پر قاضی کے فرائض بھی آپڑے انہوں نے جبلہ بن الیہم کو طلب کیا ۔جبلہ فوراً پہنچا اس کا انداز شاہانہ تھا اور وہ حضرت عمر کے پہلو میں بیٹھنے لگا ۔خلیفہ یہ عزاز کسی بڑے ہی اہم مہمان کو دیا کرتے تھے کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا تے ۔جبلہ کو بھی انہوں نے یہی مقام دیا تھا لیکن اب صورت حال کا تقاضا کچھ اور تھا۔تم یہاں سے اٹھو اور وہاں سامنے بیٹھو۔ حضرت عمر نے جبلہ کو اپنے پہلو سے اٹھاتے ہوئے کہا ـــــــــ تم اب میرے میزبان نہیں ملزم ہو ـــــــــ جبلہ بادل نخواستہ اٹھا اور وہاں جا بیٹھا جہاں حضرت عمر نے بیٹھنے کو کہا ،اس کے چہرے پر غصے کا تاثر آ گیا اور کچھ حیرت بھی۔ جبلہ بن ایھم ـــــــــ حضرت عمر نے پوچھا کیا تم نے اس شخص کی ناک پر مکہ مارا ہے ۔ہاں! جبلہ نے نڈر ہو کر جواب دیا میں نے اس کی ناک پر مکہ مارا ہے کیونکہ اس نے میرے احرام پر پاؤں رکھ دیا تھا۔اس شخص کا بیان ہے کہ بھیڑ کی وجہ سے اسکا پاؤں تمہارے احرام پر آگیا تھا ـــــــــ حضرت عمر نے کہا ـــــــــ اور طواف کے دوران ایسا ہو ہی جاتا ہے اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس نے دانستہ تمہارے احرام پر پاؤں رکھ دیا تھا تو یہ بتاؤ تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم اسے سزا دو؟ تم نے یہ معلوم کرنے کی زحمت کیوں گوارا نہ کی کہ اس شخص سے پوچھ لیتے کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی ہے؟ یہاں تو میں نے اسے ایک مکا مارا ہے ـــــــــ جبلہ نے کہا ـــــــــ اگر یہ میرے یہاں ہوتا تو میں اسے ایسی سزا دیتا جو دوسروں کے لئے عبرت ہوتی ـــــــــ وہاں تمہارا اپنا قانون چلتا ہوگا ـــــــــحضرت عمر نے کہا ـــــــــ تم نے اسلام قبول کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اسلام کے عدل و انصاف کے اصول بھی قبول کر لیے ہیں اسلام کے قانون کے مطابق تمہیں اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔
میں نے آپ کو امیر المومنین تسلیم کرلیا ہے۔ جبلہ نے ناگواری کے لہجے میں کہا۔ لیکن میں حیران ہوں کہ آپ کیسے امیرالمومنین ہیں کہ چھوٹے بڑے کے فرق کو بھی نہیں پہچانتے۔ میں اپنے خطے کا بادشاہ ہوں اور یہ ایک معمولی سا آدمی ہے ۔کیا یہ میری توہین نہیں کہ آپ نے مجھے ایک معمولی آدمی کے ساتھ بٹھا دیا اور میرے ساتھ ایک ملزم جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ اسلام نے تم دونوں کی حیثیت ایک کر دی ہے ـــــــــ حضرت عمر نے کہا ـــــــــ صرف زہد اورتقوی ہے جو کسی کو کسی پر فضیلت دے سکتا ہے۔ چھوٹے بڑے کے لیے دولت اور بادشاہی کا پیمانہ اسلام میں نہیں چل سکتا ۔اللہ نے سب کو ایک جیسا پیدا کیا ہے تمہارا ایک جرم یہ ہے کہ تم نے خانہ کعبہ میں بدتمیزی کی اور دوسرا یہ کہ ایک آدمی کو مکا مار کر اس کا خون بہایا جس کی وجہ سے وہ طواف مکمل نہ کر سکا ۔معلوم ہوتا ہے کہ میں غلط جگہ آ گیا ہوں ۔جبلہ نے کہا ـــــــــ میں تو سمجھتا تھا کہ مسلمان کوئی امیر کبیر لوگ نہیں بلکہ ان میں اکثریت غریبوں کی ہے اس لیے مجھے یہاں زیادہ احترام ملے گا۔ اگر احترام چاہتے ہو تو ایک طریقہ ہے ۔
حضرت عمر نے کہا ـــــــــ اس شخص سے معافی مانگ لوں اگر یہ تمہیں معاف کردیتا ہے تو میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا۔ تو کیا اس سے بہتر نہ ہوگا کہ میں عیسائی مذہب میں چلا جاؤں ۔جبلہ نے کہا ـــــــــ عیسائیوں میں تو میرے ساتھ ایسا سلوک کبھی نہ ہو ۔میں تمہیں اسلام کا یہ قانون بھی بتا دیتا ہوں حضرت عمر نے کہاکہ اگر تم سزا سے بچنے کے لئے عیسائیت میں چلے جاؤ گے تو میں تمہارے قتل کا حکم دے دوں گا۔ یہ بھی سوچ لے امیرالمومنین۔جبلہ نے کسی حد تک رعونت سے کہا ـــــــــ اگر آپ میرے ساتھ یہ سلوک روا رکھیں گے تو میری اور میرے اتنے بڑے قبیلے کی دوستی سے محروم ہو جائیں گے میرا قبیلہ اتنا دولت مند ہے کہ زروجواہرات میں کھیلتا ہے ۔پھر میرا قبیلہ ایک طاقت ہے کیا آپ اپنا اتنا زیادہ نقصان پسند کریں گے؟ ہم صرف اسلام کا نقصان برداشت نہیں کرسکتے ـــــــــ حضرت عمر نے کہا ـــــــــ ہم اپنا مال ومتاع اپنے بچے اور اپنی جان اسلام پر قربان کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں اگر کسی کی دوستی کی ضرورت ہے تو وہ صرف اللہ تبارک وتعالی ہے۔
میں اس معاملے کو اور زیادہ طول نہیں دوں گا اس شخص سے معافی مانگوں اگر یہ تمہیں معاف کرتا ہے تو تمہارے لیے کوئی سزا نہیں ورنہ تمہیں سزا لینی پڑے گی۔ جبلہ گہری سوچ میں کھو گیا۔ امیرالمومنین! ـــــــــ آخر اس نے سر اٹھا کر کہا ـــــــــ مجھے صرف آج رات کی مہلت دے دیں میں صبح ہوتے ہی بتا دوں گا کہ میں اس شخص سے معافی مانگوں گا یا سزا بھگتوں گا ۔حضرت عمر نے اسے سوچنے کی مہلت دے دی اور اسے یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ اپنی قیام گاہ میں چلا جائے اور کل صبح پھر پیش ہو جائے۔
یہ معاملہ اتنا مشہور ہوگیا کہ جب جبلہ باہر نکلا تو حاجیوں کا ایک ہجوم باہر کھڑا تھا ۔یہ سارا ہجوم انصاف کا مطالبہ کر رہا تھا ۔آخر ہجوم کو بتایا گیا کہ فیصلہ کل ہوگا۔ اگلے روز کی صبح طلوع ہوئی تو جبلہ نہ آیا اسے نماز پڑھنے بھی نہ دیکھا گیا، سورج طلوع ہوا اور پھر اوپر آنے لگا، تب امیرالمومنین نے حکم دیا کہ جبلہ کو پکڑ کر لایا جائے ۔کچھ آدمی دوڑے گئے تو دیکھا کہ جبلہ وہاں نہیں تھا خیمے لگے ہوئے تھے لیکن خالی تھے جبلہ اور اس کے ساتھیوں کے گھوڑے غائب تھے ۔جبلہ بھاگ گیا تھا اس کے پانچ سو سوار اور دیگر افراد مدینہ میں موجود تھے۔ اس کا تعاقب بیکار تھا کیوں کہ ایک رات سے زیادہ وقت گزر گیا تھا ۔اور جبلہ یقینا بہت دور نکل گیا تھا وہ اپنے ان چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ پہنچا اور اپنے تمام ساتھیوں کو بڑی عجلت سے تیار کروایا اور مدینہ سے بھاگ گیا ۔مدینہ والوں کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جبلہ کیوں واپس جارہا ہے؟ اور امیرالمؤمنین مکہ میں کیوں رہ گئے ہیں؟ اس وقت ہرقل روم قسطنطنیہ میں تھا جبلہ اس کے پاس گیا اور اس سے معافی مانگی کے اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اور یہ واقعہ ہوگیا اس لیے وہاں سے بھاگ آیا ہے ۔ہرقل بہت خوش ہوا کہ اتنا طاقتور قبیلہ پھر اس کا حلیف بن گیا ہے۔ ہرقل نے اسے کچھ اور جاگیر دے دی ۔یہ تھی اسلام کی وہ قوت جس نے آتش پرست ایرانیوں اور رومیوں کو شکست دی تھی۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
اب ہم ہرقل کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تاریخ کیا بتاتی ہے کہ وہ شام سے کس طرح بھاگا تھا۔ اسے اپنی طاقت پر اس قدر ناز تھا کہ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کی بادشاہی کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔اور روم کی سلطنت وسیع ہوتی چلی جائے گی ۔لیکن مسلمانوں نے اس کے لیے ایسی صورت حال پیدا کر دی تھی کہ وہ پیچھے ہٹتا ہوا جس شہر میں پہنچتا وہاں مسلمان پہنچ جاتے۔ اور اس شہر کو محاصرے میں لے لیتے تھے۔ آخر وہ انطاکیہ کے قلعہ بند شہر میں جا پہنچا لیکن ابو عبیدہ نے اسے وہاں بھی بیٹھنے نہ دیا آخر وہ چھوٹے سے ایک شہر رہاء پناہ گزین ہوا ۔ایلفرڈ بٹلر لکھتا ہے کہ اسے توقع تھی کہ وہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو وہاں ایکجا کر لے گا اور مسلمانوں کا جم کر مقابلہ کرے گا ۔ہوسکتا ہے وہ مسلمانوں کو شکست دے دے لیکن وہ جدھر بھی پیغام بھیجتا تھا ادھر سے کوئی جواب آتا ہی نہیں تھا۔ اور اگر جواب آتا بھی تھا تو وہ مایوس کن ہوتا تھا ۔اسلام کے عظیم سپہ سالاروں نے رومیوں کی بکھری ہوئی فوج کے مطابق اپنی فوج کو بھی تقسیم کر دیا تھا اور رومیوں کے لیے ناممکن ہو گیا تھا کہ وہ اپنی فوج کو کسی ایک مقام پر یکجا کر لیتے۔ ہرقل رہاء میں قیام کیا۔ اس کا شاہی خاندان اس کے ساتھ تھا دو جوان بیٹیاں تھیں، اور بیویوں کی تعداد بھی خاصی تھی، وہ بیویاں تو برائے نام تھی ۔سب داشتائیں تھیں ،اس کے علاوہ تمام تر شاہانہ لوازمات اس کے ساتھ تھے اس حالت میں بھی وہ فرعون جیسا بادشاہ تھا ۔اس نے دربار منعقد کیا جیسا وہ کیا کرتا تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس نے بڑے ہی قابل جوتشی اور نجومی اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے ۔مسلمان اپنے اللہ پر یقین رکھتے تھے اور اس کی خوشنودی کی خاطر لڑتے اور جانیں قربان کرتے تھے۔ لیکن ہرقل اگلا قدم اٹھانے سے پہلے جوتشوں اور نجومیوں سے پوچھتا تھا کہ اسے یہ قدم اٹھانا چاہیے یا نہیں اور اگر اٹھانا ضروری ہے تو اس کے لئے کون سا دن اور کون سا وقت موزوں ہوگا۔ اس نے دربار منعقد کیا اور حکم دیا کے اس کے نجومی کو حاضر کیا جائے۔ نجومی پیغام ملتے ہی دوڑا آیا اور ہرقل کے سامنے جا کر آداب بجا لایا۔ وہ خوش ہو رہا ہو گا کہ ہرقل اس سے اب پوچھے گا کہ اب ستاروں کا حساب بتا کہ میں کہاں جاؤں لیکن ہرقل کی آنکھیں کھل گئیں تھیں۔
اب بتا ائے ستاروں کے بھیدی ــــــ ہرقل نے شاہانہ عتاب کے لہجے میں پوچھا تیرے ستارے کیا کہتے ہیں۔ تو نے ہر بار مجھے بتایا کہ اب میں یوں کرو تو ایسا ہو جائے گا اور مسلمان اندھے ہو کر بھاگ جائیں گے۔ اپنی پیشن گوئیوں کو یاد کر اور بتا کے مجھے یہ کیوں نہ بتایا کہ میری قسمت میں دربدر چھپتے پھرنا نہ لکھ دیا گیا ہے اور میرے لئے کوئی پناہ نہیں ــــــ مجھے جواب دے ــــــ نجومی نے علم نجوم کی اصطلاحوں میں بات کی اور پوری کوشش کرنے لگا کہ ہرقل کو قائل کرلے۔ کہ غلط پیشنگوئی گوئیوں کا قصوروار نجومی نہیں بلکہ ستارے ہیں جو خلا کی وسعتوں میں گردش کر رہے ہیں۔ مجھے تمہاری ایک بھی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ ہرقل نے کہا ــــــ تو نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا کہ میری قسمت میں اپنی ہی سلطنت میں دربدر چھپتے پھرنا اور پناہ ڈھونڈنا لکھ دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت مجھ پر اب کھلی ہے کہ جس طرح میں بھٹکتا پھر رہا ہوں اسی طرح یہ ستارے افلاک کی وسعتوں میں بھٹک رہے ہیں ۔اور دوسری حقیقت یہ کہ تو مجھے دھوکہ دے دے کر اور مجھے خوش فہمیوں میں مبتلا کر کر کے دولت بٹورتا رہا ہے۔
نجومی کو کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا ہرقل اٹھا اور آہستہ آہستہ نوجوان کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔سارے دربار پر سناٹا طاری ہو گیا سب جانتے تھے کہ ہرقل ویسےہی اٹھ کر نجومی تک نہیں گیا ۔ہر قل ایک بڑا ہی خوبصورت خنجر ،جس کے دستے میں ہیرے جڑے ہوئے تھے ، اپنی کمر کے ساتھ لٹکائے رکھتا تھا ۔بجلی کی تیزی سے ہرقل کا ہاتھ خنجر کے دستے پر گیا، خنجر نیام سے باہر آیا اور دوسرے ہی لمحے نجومی کے پیٹ میں اترا ہوا تھا ۔نجومی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ایک دو قدم پیچھے ہٹا اور اس کا جسم ڈولنے لگا پھر وہ گر پڑا۔ہرقل نے خنجر ایک طرف پھینکا جو ایک آدمی نے پکڑ لیا ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ صاف کر کے دے دیا جائے۔ ہرقل اپنے تخت پر جا بیٹھا باہر سے کچھ ادمی دوڑے آئے اور وہ مرے ہوئےنجومی کو اٹھا کر لے گئے۔ شاہ مردین کو لے آو ــــــ ہرقل نے حکم دیا ــــــ آج میں ان دونوں کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں جو میری قسمت کا جھوٹا عکس دکھایا کرتے تھے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہرقل کی عمر کے ہی ایک آدمی کو اس کے دربار میں لایا گیا ۔سب درباری اسے دیکھ رہے تھے اور سب کی نظروں میں اس کے لیے رحم تھا۔وہ یقینا سوچ رہے تھے کہ اس شخص کو اگر بتایا جائے کہ اس کی زندگی دو تین منٹ ہی رہ گئی ہے تو اس پر کیسی بے رحم کیفیت طاری ہوجائے گی ۔صرف ہرقل تھا جس کی نظروں میں اور جس کے دل میں اس وقت کوئی رحم نہیں تھا۔ ایک درباری نے اس کا خنجر صاف کر کے اس کے حوالے کردیا۔ ہرقل نے خنجر نیام میں ڈال لیا ۔شاہ مردین نام کا یہ شخص جو اس کے سامنے کھڑا تھا ،شاہی جوتشی تھا۔ہرقل ہرجنگ اور ہر پیش قدمی سے پہلے اس شخص سے زائچہ بنوایا کرتا تھا۔
اے میری قسمت کے زائچہ بنانے والے! ــــــ ہرقل نے شاہ مردین سے پوچھا ــــــ کیا تو بتا سکتا ہے تیری قسمت میں کیا لکھا ہے ــــــ ؟وہی جو میں نے چاہا تھا ــــــ شاہ مردین نے جواب دیا آج جب مجھے موت کی دہلیز پر کھڑا کردیا گیا ہے تو میں مرنے سے پہلے سچ بولنا چاہتا ہوں ۔اے روم کے طاقتوربادشاہ! جب تونے مجھے زائچہ بنانے کے لیے کہا تو میں وہی کچھ لکھا جو تو چاہتا تھا۔ میں نے تجھے خوش فہمی میں مبتلا رکھا اور یہی مژدہ سناتا رہا کہ تو انسان نہیں دیوتا ہے اور تیرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ مطلب یہ کہ تو مجھے دھوکا دیتا رہا اور انعام واکرام وصول کرتا رہا ــــــ ہرقل نے کہا ــــــ تیرے زائچوں کے عوض تجھے شاہی رتبہ دے رکھا اور تجھ پر دولت لوٹاتا رہا ۔اورتو اسی دولت اور رتبے خاطر مجھے دھوکا دیتا رہا۔ دولت کی خاطر نہیں! ــــــ شاہ مردین نے کہا ــــــ انتقام کے خاطر میں نے تجھ سے انتقام لیا ہے تجھےاس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں سے اب تو واپس ملک شام میں حکومت کرنے کے لئے نہیں جاسکتا ۔انتقام ــــــ ہرقل نے حیرت کے لہجے میں پوچھا ــــــ انتقام کیسا ؟میں نے تیرا کیا نقصان کیا تھا؟
ہاں انتقام! ــــــ شاہ مردین نے بڑی دلیری سے کہا ــــــ اب سن میں نے تیرے اس گناہ کا انتقام لیا ہے۔
ستائیس اٹھائیس برس پہلے کا ایک دن یاد کر تجھے وہ دن یاد نہیں آئے گا کیونکہ تیری اس شاہانہ زندگی کا ایک ایک دن ایسا بھی گزرا ہے۔ تو کچھ دور جنگل میں شکار کھیلنے گیا تھا۔ میں اپنی چھوٹی اور نوجوان بہن کے ساتھ اس جنگل سے گزر رہا تھا ۔میری بہن بہت ہی خوبصورت تھی اور مجھے اس کے ساتھ اتنا زیادہ پیار تھا جتنا اپنے مذہب کے ساتھ بھی نہیں تھا ۔
تیرے دو محافظوں نے میری بہن کو دیکھ لیا اور اسے پکڑ لیا ۔میں نے اسے بچانے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے مارا پیٹا اور کہا کہ بادشاہ ہرقل کے لیے اس قسم کی ایک خوبصورت لڑکی چاہیے انہوں نے کہا کہ ہرقل تین چار دن جنگل میں قیام کرے گا اور اسے اس لڑکی کی ضرورت ہے۔ وہ میری روتی چیختی بہن کو تیرے پاس لے گئے میں تیرے پاس آنا چاہتا تھا لیکن مجھے کوئی آگے نہیں جانے دیتا تھا۔ میں وہیں رکا رہا اور جب تو اپنے خیمے سے شکار کے لیے نکلا تو میں دوڑتا ہوا تیرے قدموں میں جا گرا اور اپنی پیاری بہن کی بھیک مانگی۔ تو نے مجھے پاؤں سے بڑے زور سے ٹھوکر ماری اور کہا کہ اسے اٹھا کر دور پھینک دو۔تیرے آدمیوں نے مجھے مار مار کر بہت دور جا چھوڑا۔میں پھر بھی وہیں بیٹھا رہا تین چار دن وہی بھوکے پیاسے گزار دیا ۔اور جب تو شکار سے واپس چلا گیا تو میں اس جگہ گیا جہاں تیرے خیمے لگے ہوئے تھے وہاں میری بہن کی برہنہ لاش پڑی ہوئی تھی میں جانتا تھا کہ تو نے اور تیرے ہمراہیوں نے میری بہن کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ میں نے اسی وقت عہد کرلیا تھا کہ ہرقل سے انتقام لوں گا ۔میرا باپ علم نجوم اور علم جوتش کی سوجھ بوجھ رکھتا تھا اور وہ لوگوں سے پیسے لیکر زائچے بھی بناتا تھا۔ اس نے یہ فن مجھے بھی سکھا دیا تھا لیکن میں نے اس میں دلچسپی نہ لی اور پھر میرا باپ اپنی بیٹی کا صدمہ دل میں لیے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میں ہر وقت اس سوچ میں گم رہنے لگا کہ تجھ سے انتقام کس طرح لو ایک طریقہ میرے دماغ میں آگیا۔ لوگ میرے باپ کی کرامت کی وجہ سے مجھے بھی عزت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے میں نے اپنے متعلق مشہور کر دیا کہ میں باپ کی گدی پر بیٹھ گیا ہوں۔ اور جوتش اور نجوم کا کام شروع کر دیا ہے۔ میں نے باپ والا علم تو نہ سیکھا اس کی جگہ کچھ فریب کاریاں اور شعبدہ بازی سیکھ لی۔ میری شہرت پھیلتی گئی ۔اور میں ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ تجھے یہ بتاؤ کہ سات آٹھ برس بعد میں نے کس طرح تجھ تک رسائی حاصل کی اور تو نے مجھے اپنے محل میں رکھ لیا میں نے انتقام لینا شروع کردیا۔ ہرقل بڑا ہی ظالم اور درندہ صفت حکمران اور جرنیل تھا ۔درباریوں کو توقع یہی تھی کہ ابھی ہرقل اٹھے گا اور شاہ مردین کو اسی طرح پیٹ میں خنجر گھونپ کر قتل کر دے گا جس طرح اس نے نجومی کو قتل کیا تھا ۔لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ عجیب بات ہوئی کہ ہرقل بت بن گیا تھا۔ اور آنکھیں پھاڑے شاہ مردین کو دیکھے جا رہا تھا۔ غالبا اس لیے کہ اس کے منہ پر کبھی کسی کو سچ بولنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔ اس حالت میں جب کہ شکست کھا کر بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ اس کے دربار میں کنیز اور دو تین شہزادیاں موجود تھی اور منظر وہی بنا ہوا تھا جو اس کے محل کے دربار میں بنا کرتا تھا۔ شہزادیاں اور کنیزیں بھی شاہ مردین کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ائے ہروقل! _____شاہ مردین کہہ رہا تھا _____اپنے آپ کو طاقت کا دیوتا سمجھنا چھوڑ دیں اور یہ بھی دل سے نکال دے کہ رعایا کی بہنیں اور بیٹیاں تیری ملکیت ہیں۔ اور سب تیرے حکم کے غلام ہیں۔ تجھے اپنے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ میں نے تجھ سے اسی طرح اپنی بہن کی بے عزتی اور موت کا انتقام لیا کہ بڑے ہی دلکش اور طلسماتی زائچہ تیار کر کر کے تجھے دکھاتا رہا۔ اور دوسرا کام یہ کیا کہ اس نجومی کو جسے تو نے ابھی ابھی قتل کیا ہے ،میں نے اپنے ساتھ ملا لیا اور مجھے جو دولت تجھ سے ملتی تھی وہ میں آدھی اس نجومی کو دے دیتا تھا۔ اس کے عوض میں اس سے یہ کام کرواتا تھا کہ وہ تجھے کسی خطرے سے قبل از وقت خبردار نہ کرے۔بلکہ ایسی پیشن گوئیاں تیرے کان میں ڈالتا رہے کہ تو آگے ہی آگے خطرے کی طرف بڑھتا ہی چلا جائے اور تباہی کھائی میں جاگرے۔ آج اپنا انجام دیکھ لے_____میں جانتا ہوں آج کا دن میری زندگی کا آخری دن ہے۔ میں چاہتا ہوں کم از کم ایک صحیح اور سچی بات تیرے دماغ میں ڈال دوں ۔شاید اس سے تیرے دن پھر جائیں ۔بات دانشمندی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر انسان کے قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ نجومی اور جوتشی لوگوں پر نشہ طاری کر دیا کرتے ہیں۔ یہ نشہ انسان کے دماغ کو اور جسم کو بھی بےکار کردیتا ہے۔ کامیاب وہ ہوتا ہےجس نے اپنے پیدا کرنے والے پر اور اپنے آپ پر اعتماد اور بھروسہ کیا۔ زائچے اور پیشنگوئیوں کے سہارے چلنے والے اسی انجام کو پہنچا کرتے ہیں، جس انجام کو تو پہنچ گیا ہے۔ دیکھ لے عرب کے بدو اور گڈرئیے ایک طاقت بن کر تجھے شکست پر شکست دیے چلے جارہے ہیں۔ اور تو پناہیں ڈھونڈتا پھر رہا ہے_____اُٹھ اور مجھے اپنے ہاتھوں قتل کر دے۔ میرے قتل کرنے سے پہلے میری ایک سچی پیشنگوئی سن لے ۔زندگی میں پہلا زائچہ تیار کیا ہے جو ہر لحاظ سے صحیح اور سچا ہے۔ مرتے مرتے میں تیرے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتا ہوں۔میرا زائچہ کہتا ہے کہ اب تو کبھی شام میں نہیں جائے گا اور تیرا ٹھکانا مصر ہے ۔جہاں تیری قوم کی حکومت ہے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد عرب کے مسلمان تجھ پر آسمانی بجلی کی طرح گریں گے۔ اتنا خون بہے گا کہ دریا نیل سرخ ہو جائے گا۔ پھر تیری رومی بادشاہی کا بوریا بستر گول ہو جائے گا اور بحیرہ روم میں ڈوب جائے گا۔ مصر سلطنت اسلامیہ میں شامل ہو جائے گا اور ایسی سنسنی خیز کہانیاں جنم لیں گی جو تاقیامت تاریخ ساری دنیا کو سناتی رہے گی۔ تو چاہے تو مجھے ابھی قتل کردے اورچاہے تو مجھے قید خانے میں ڈال دے۔ اگر میری پیشن گوئی غلط ثابت ہوئی تو مجھے قتل کر دینا یا صحیح ثابت ہوئی تو مسلمان مجھے رہا کر دیں گے۔شاہ مردین خاموش ہو گیا۔
پورے دربار پر خاموشی طاری ہوگئی ۔ہرقل بھی چپ چاپ بیٹھا رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے یہاں جتنے انسان تھے، وہ پتھر کے بت بن گئے ہیں آخر ہرقل اٹھا۔ شاہ مردین! ___ہرقل نے اپنی شاہانہ آواز میں کہا؛ میں نے کبھی کسی سے معافی نہیں مانگی۔ جاؤ تم آزاد ہو۔ شاہ مردین کچھ دیر ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا جیسے اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو ۔
ہرقل نے ایک پھر کہا_____چلے جاؤ_____شاہ مردین کورنش بجا لایا اور الٹے قدم چلتا دربار سے نکل گیا۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے جیسے اس وقت ہرقل کا دماغی توازن بگڑ گیا تھا۔ اور ذہنی طور پر وہ نارمل لگتا ہی نہیں تھا۔ اس نے ایک اور عجیب حرکت کی، اپنے محافظ دستوں کے کمانڈر کو بلایا اور اس کے کان میں کچھ کہا کمانڈر دوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔ ہرقل نے مختلف حاکموں کو باری باری ایک کام دینے شروع کردیے۔ اس کے سامنے مسئلہ یہی ایک تھا کہ وہ رہاء میں اپنی بکھری ہوئی فوج کو اکٹھا کرسکتا ہے یا نہیں۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ شکست اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔ کچھ وقت گزر گیا تو محافظ دستے کا کمانڈر دربار میں داخل ہوا ۔ہرقل کے اشارے پر وہ باہر گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک قیدی تھا جس کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور ہاتھ زنجیر میں بندھے ہوئے تھے وہ کوئی مسلمان تھا۔
جوان اور خوبرو تھا اس کی تراشی ہوئی چھوٹی چھوٹی داڑھی اس کے چہرے پر بھاپ رہی تھی اور اس کے مردانہ حسن میں اضافہ کر رہی تھی۔ وہ قیدی تھا لیکن اس کے کپڑے صاف ستھرے تھے۔ اور منہ سر دھلا دھلایا لگتا تھا۔ ہرقل کے حکم پر اسے دربار کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔اس وقت تک مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تھیں ان میں ہزارہا رومی جنگی قیدی بنالئے گئے تھے۔ اور مسلمانوں نے انہیں پیچھے بھیج دیا تھا کچھ مسلمان بھی جنگی قیدی ہوئے تھے جن کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی۔ ہرقل کے حکم سے دو یا تین مسلمان قیدیوں کو قید خانے میں رکھا گیا تھا۔ اور باقی قیدیوں کے ساتھ اس قدر برا سلوک ہو رہا تھا کہ وہ بھوکے پیاسے مر رہے تھے۔ مسلمان قیدیوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا ۔کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ ہرقل نے ان دو تین قیدیوں کو قید خانے میں کیوں رکھا ہے۔ اب ان میں سے ایک قیدی اس کے دربار میں لایا گیا، اس کے لباس سے اور حال حلئیے سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کی دیکھ بھال بھی ہوتی ہے اور انہیں کھانا بھی بہت اچھا دیا جاتا ہے۔
تم جنگی قیدی ہو_____ہرقل نے اس قیدی سے کہا _____تم جانتے ہو گے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ یہاں کیا سلوک ہوتا ہے ۔آدھے سے زیادہ قیدی مر چکے ہیں اور باقی جو ہیں وہ ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے ہیں۔ لیکن تمہیں ہم نے اپنا معزز مہمان بنا رکھا ہے ۔قید خانے کی کوٹھری میں صرف اس لئے رکھا ہے کہ تم فرار نہ ہوجاؤ۔میرے حکم سے تمہاری جو عزت کی گئی ہے اور تمہیں جو سہولتیں دی گئی ہیں اس کے عوض میں تم سے راز کی ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ تم مجھے یہ بات بتا دو گے۔
پھر میں تمہیں آزاد کر دوں گا ۔تم نہیں بتاؤ گے تو اور قیدی میرے پاس ہیں، وہ بتا دیں گے اور تمہیں میں قتل کرا دوں گا۔ تم ایک ذمہ دار آدمی ہو میں جانتا ہوں ایک جانباز گروہ کے کمانڈر ہو ،تم جو بات جانتے ہو وہ اور کوئی نہیں بتا سکتا۔تم بادشاہ ہو یا سپہ سالار مجھ پر ان عہدوں اور رتبو ں کا کچھ اثر نہیں ہوگا ۔
مسلمان قیدی نے کہا_____تمہارے جلاد کی تلوار میری گردن پر ہوگی تو بھی راز کی کوئی بات نہیں بتاؤں گا ۔ان خوبصورت اور دلکش کنیزوں اور شہزادیوں میں سے ایک مجھے دے دو گے اور اس کے ساتھ خزانہ میرے قدموں میں ڈھیر کر دو گے تو بھی راز کی بات میرے زبان پر نہیں آئے گی۔ میں اپنے مجاہد ساتھیوں کے خلاف اور اپنی قوم کے خلاف غداری نہیں کروں گا ۔اگر ہم قتل سے ڈرنے والے ہوتے تو آج تم جیسے طاقتور بادشاہ ہم سے شکست نہ کھاتے ہم نے اپنی جان اللہ کے سپرد کر رکھی ہے، ہمارے جسم کٹ جاتے ہیں اور ہماری روحیں لڑتی ہیں۔
میں تم سے کوئی فوجی راز نہیں پوچھ رہا_____ہرقل نے کہا_____ تو میری فوج کے خلاف لڑا ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہم پر فتح پا لی ہے۔ تو عقل والا آدمی معلوم ہوتا ہے ،مجھے صرف یہ بتا دے کہ تیری فوج میں وہ کون سی خوبی ہے جو میری فوج میں نہیں اور میری فوج میں وہ کون سی خامی ہے کہ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہوئے بھی تھوڑی سی نفری کی فوج سے شکست کھا گئی ہے۔ اس فوج نے تو ایرانیوں کی فوج کو کئی میدانوں میں بھگایا ہے حالانکہ ایرانی بہت بڑی جنگی طاقت رکھتے تھے۔
ہاں یہ راز تجھے دے سکتا ہوں _____مسلمان قیدی نے کہا_____ہم متحد اور دین دار قوم ہیں۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور اس جسم میں دماغ صرف ایک ہے جس کا حکم سارا جسم مانتا ہے ۔اگر تو نے ہمیں کبھی نماز پڑھتے دیکھا ہو تو اسی سے سمجھ جائے گا کہ ہم اللہ کے حضور جھکتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ۔ ہم ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو شاید نہیں جانتا کہ میدان جنگ میں ہمارا سپہ سالار امامت کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ پھر ہماری یہ خوبی ہے کہ ہم لوگ زندگی سے کم اور موت سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اور تکبر و غرور کے بجائے ہم عجز وانکساری کو پسند کرتے ہیں ۔ہماری تنظیم ایسی ہے جیسی تیری فوج میں ہے۔ سپہ سالار ہے، اس کے ماتحت سالار ہے، اس کے ماتحت کمانڈر ہیں اور اسی طرح چھوٹے چھوٹے عہدے بھی ہیں لیکن ہم جب اکٹھا بیٹھتے ہیں تو ہم میں کوئی حاکم اور کوئی محکوم نہیں ہوتا اس وقت ہمارے رتبے ختم ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی بادشاہ نہیں اور کوئی رعایا نہیں۔ ہمیں کوئی قتل کی دھمکی دے یا دولت کا لالچ دے ہم سب سے پہلے اللہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔اور اس کی ذات کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔تو نے اپنی فوج کی خامیاں پوچھی ہیں۔ تیری فوج کی سب سے بڑی خامی تیرا وجود ہے۔ اگر تو اپنے دماغ سے حکمرانی کا غرور نکال دے اور ذہنیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو سپاہی سمجھنے لگے تو دیکھ تیری قوم اور تیری فوج میں وہی طاقت پیدا ہوتی ہے یا نہیں جو ہم میں ہے۔ ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے لڑتے ہیں اور تیری فوج تیری خوشنودی کے لیے لڑتی ہے تو پیچھے ہٹ گیا توں تیری ساری فوج تتر بتر ہو گئی ۔ہمارا اللہ پیچھے نہیں ہٹا کر تا ،ہم اس کے نام پر بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ہم میں سے جو شہید ہوجاتے ہیں ان کی جگہ اور مجاہدین آجاتے ہیں۔ ہمارا سپاہی اگر میدان جنگ میں اکیلا رہ جائے گا تو اپنا سالار خود بن جائے گا اور اپنے آپ کو یہ حکم کبھی نہیں دے گا کہ تم اکیلے ہو اس لیے بھاگ جاؤ ۔
یہ مسلمان قیدی اس قسم کی باتیں کرتا رہا ،ہرقل نے ان باتوں کے بعد اس سے پھر فوجی راز معلوم کرنے شروع کر دیے اور یہ بھی پوچھا کہ تمہارے سپہ سالار کا اگلا پلان کیا ہے ۔
اس قیدی نے ایسے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ابھی قید میں پڑے رہنا چاہتے ہو_____ ہرقل نے کہا _____جب تک میرے ان سوالوں کا جواب نہیں دوگے تو قید میں ہی پڑے رہو گے۔ اور تمہارے ساتھ وہی سلوک ہونے لگے گا جو ہم دشمن کے جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ ہرقل نے حکم دیا ابھی اسے کوٹھری میں رہنے دو ۔دو روز بعد اسے پھر پیش کرنا ،قیدی کو دربار سے لے گئے۔ اگلی صبح ہرقل کی ایک جوان سال شہزادی گھوڑے پر سوار قید خانے میں آئی قید خانے کے حاکم کو پتہ چلا تو وہ دوڑتا ہوا باہر نکلا اور شہزادی کے آگے جھک گیا۔ وہاں تو سارے خاندان کے ہر فرد کا حکم چلتا تھا یہ تو شہزادی تھی شہزادیوں کا تو اور ہی زیادہ احترام کیا جاتا تھا ۔وہاں ایک نہیں کئی شہزادیاں تھی، اس شہزادی نے اس مسلمانوں قیدی کا نام لیا اور کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے آئی ہے اور اسے ہرقل کے دربار میں پیش کرنا ہے۔اگر کوئی اور قیدی ہوتا تو حاکم یہ ضرور سوچتا کہ ایک قیدی کو ہرقل کے دربار میں پیش کرنے کے لیے ایک شہزادی کیوں آئی ہے لیکن اس حاکم کو معلوم تھا کہ اس مسلمان قیدی کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ اور یہ برائے نام قیدی ہے ایک روز پہلے اسے ہرقل کے دربار میں لے گئے تھے۔
حاکم نے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ شہزادی اس قیدی کو ساتھ لے جانے کیوں آئی ہے ۔حاکم اس شہزادی کے ساتھ ہو لیا اور چابیاں لے کر مسلمان قیدی کی کوٹھری تک پہنچا ۔کوٹھری کھول کر قیدی کو باہر نکالا اور شہزادی کے حوالے کردیا۔ یہ آج شہنشاہ ہرقل کا مہمان ہوگا۔ شہزادی نے قید خانے کے حاکم سے کہا۔حکم ہے کہ اس کی بیڑیاں اور زنجیریں اتار دی جائیں۔ اسی لیے ہرقل نے حکم بھیجا ہے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ قیدی کی بیڑیاں اور زنجیریں اتار دی گئیں۔ شہزادی اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
خود گھوڑے پر سوار ہوئی اور قیدی سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ پیدل چلے وہ کچھ دور تک اسی طرح چلتے گئے کہ شہزادی گھوڑے پر تھی اور قیدی اس کے ساتھ پیدل جا رہا تھا۔ کچھ اور آگے گئے تو شہزادی نے گھوڑا روک لیا۔میرے پیچھے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ_____ شہزادی نے قیدی سے کہا_____ ایڑ لگاؤ اور گھوڑے کو کھلا چھوڑ دو۔ آگے تمہیں الگ گھوڑا مل جائے گا مجھ سے یہ نہ پوچھنا کے میں تمہیں کہاں لے جا رہی ہوں ۔قیدی بلا چوں چرا شہزادی کے پیچھے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا اور ایڑ لگا دی ۔اس سے آگے گھنا جنگل اورپہاڑی علاقہ تھا وہ شہر سے دور نکل گئے تو قیدی نے شہزادی سے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ تم میرے ساتھ نہیں جارہے ،میں تمہارے ساتھ جا رہی ہوں _____ شہزادی نے کہا_____ مجھے اپنی فوج میں لے چلو، میں واپس آنے کے لئے نہیں جارہی ،اسی لیے تمہیں قید خانے سے نکلوا لائی ہوں۔قیدی نے لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا گھوڑا چل پڑا ۔
قیدی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کا لشکر کہاں ہوگا ۔اس لئے پکڑے جانے کا خطرہ ابھی سر پر موجود تھا اس نے گھوڑے کی رفتار ذرا تیز کر دی۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
جس دن کی صبح شہزادی مسلمان قیدی کو قید خانے سے رہا کروا کے لے گئی تھی، اس دن کی شام ہونے کو آ گئی ۔اس شہزادی کا نام شارینا تھا ۔وہ کسی معمولی سے گھرانے کی لڑکی نہیں تھی کہ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی گھر والے پریشان ہونے لگتے کہ لڑکی گھر سے نکلی تھی اور ابھی تک نہیں آئی ۔وہ شہزادی تھی اور ماں کو معلوم تھا کہ وہ گھوڑے پر گئی ہے، اس لئے کچھ وقت لگا کر ہی آئے گی لیکن پورا دن گزر گیا تھا ۔شارینا وہاں اکیلی لڑکی تو نہیں تھی۔ وہ شاہی محل تھا جس میں اس جیسی کئی لڑکیاں تھیں۔ ان میں کچھ داشتائیں تھی اور کچھ بیویاں۔ ایک لڑکے کا ذرا زیادہ وقت کے لئے ادھر ادھر ہو جانا کوئی پریشان کن واقعہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ماں نے دن کے دوران تو اپنی بیٹی کی غیر حاضری محسوس ہی نہ کی ۔محسوس نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں محل کے اندر کے ماحول میں بے تحاشہ کھچاؤ پایا جاتا تھا ۔ہرقل بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ اور اس کی افواج شکست خوردگی کے عالم میں بکھر گئی تھی ۔ہرقل فرعون قسم کا بادشاہ تھا، اپنی شکست پر وہ غصے سے باؤلا ہو گیا تھا۔ اس کی بیویاں اور داشتائیں اور محل میں رہنے والے دوسرے لوگ چھپتے پھرتے تھے کہ ہرقل غصے میں آکر کسی کو ذرا سی بات پر قتل کردے گا ۔کسی کے قتل کا حکم دینا اس طرح معمولی بات تھی جیسے بےکار سی کوئی چیز اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دی جائے۔شارینا کی ماں شام سے بہت پہلے ہی پریشان ہونے لگی تھی۔ لیکن وہ ہرقل کو بتانے سے ڈرتی تھی کہ ہرقل پہلے ہی غصے کی حالت میں ہے لیکن جب سورج غروب ہونے کو آ گیا تو ہرقل کے اس کمرے میں جا پہنچی جس میں ہرقل جاسوسوں سے رپورٹیں لیا کرتا تھا اور اپنے فوجی افسروں اور دیگر حاکموں کو بلا کر ان سے کام کی باتیں کیا کرتا اور احکام دیا کرتا تھا۔
بیوی کو اس کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو غصے سے اس کا چہرہ دھکنے لگا ۔اس وقت وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے پاس کسی اور شہر سے آیا ہوا ایک قاصد بیٹھا ہوا تھا۔
کیوں آئی ہو؟ _____ ہرقل نے شاہانہ اور غصیلی آواز میں پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں؟ _____سب معلوم ہے ،شارینا کی ماں ہرقل کی پوری بات سنے بغیر التجا کے لہجے میں کہا_____ آپ کی مصروفیت اور آپ کی پریشانی بڑی اچھی طرح جانتی ہوں ،یہ آپ کی ہی نہیں یہ ہم سب کی پریشانی ہے ،میں اس طرح کبھی نہ آتی لیکن ماں ہوں۔
اصل بات بتاؤ کیا ہے؟ _____ ہرقل نے اس قدر گرج کر کہا جیسے کمرے کی چھت بھی کانپ اٹھی ہو۔
شارینا صبح گھوڑے پر نکلی تھی شارینا کی ماں نے کہا_____ ابھی تک واپس نہیں آئی_____تو کیا میں اسے جاکر ڈھونڈوں؟_____ ہرقل نے بڑی تلخ طنز کی اور کچھ دیر شارینا کی ماں کے منہ کی طرف دیکھتا رہا _____ آخر بولا ؛اپنی اپنی اولاد پر تم سب خود ہی نظر کیوں نہیں رکھا کرتی۔ کیا محل کے ملازموں محافظوں اور دیگر کارندوں نے تمہارا حکم ماننا چھوڑ دیا ہے۔ تمہیں میرے پاس آنا ہی نہیں چاہیے تھا ۔
آپ جانتے ہیں یہ میری ایک ہی بیٹی ہے۔ شارینا کی ماں نے بھکاریوں کی طرح کہا _____ معلوم نہیں کہاں چلی گئی ہے، ملک کے حالات بھی تو ٹھیک نہیں۔
تم ایک بیٹی کو رو رہی ہوں ہرقل نے کہا _____ یہاں پورا ایک ملک اپنی سلطنت سے نکل گیا ہے_____ اور تم ایک بیٹی کو ڈھونڈ رہی ہو، ہرقل کی یہی ایک بیٹی یا دو چار بیٹے بیٹیاں ہوتے تو وہ پریشان ہوتا کہ ایک بیٹی کہاں چلی گئی ہے۔ اسے تو یاد ہی نہیں ہوگا کہ اس کی کتنی باقاعدہ بیویاں ہیں اور داشتائیں کتنی ہے۔ اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس کے کتنے بیٹے اور کتنی بیٹیاں ہیں۔ ان دنوں تو اسے اور کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔ پچھلے باب میں بیان ہو چکا کہ ہرقل بھاگا بھاگا پھر رہا تھا مسلمانوں نے اسے شام سے بے دخل کر دیا تھا ۔
رہاء میں تو اس نے آکر پناہ لی تھی۔ وہ اس کوشش میں تھا کہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو یہاں اکٹھا کر لے گا اور مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑے گا۔ ایک شہزادی کا کہیں غائب ہو جانا اس کے لئے ذرا سی بھی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتا تھا۔ شارینا کے ماں نے ہرقل کی باتیں سنیں اور اس کی ذہنی حالت دیکھی اور پھر اس کا احساس سرد رویہ دیکھا تو کچھ اور کہے بغیر وہاں سے نکل آئی۔
اسے کسی نے بتایا تھا کہ اس کی بیٹی کو قید خانے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ ماں اس سوچ میں پڑ گئی کہ قید خانہ آبادی سے کچھ دور ہے اور اس کے ارد گرد تمام علاقہ ویران اور بنجر ہے اس طرف کوئی سیرگاہ نہیں، نہ کوئی اور ایسی جگہ ہے جہاں شارینا گئی ہو۔ قید خانہ تو کوئی ایسی جگہ نہ تھی جسے دیکھنے کے لیے شارینا گئی ہو ۔اگر وہ قید خانے میں ہی گئی تھی تو شام تک اس کا وہاں رکنا محال بے معنی اور نا قابل یقین تھا۔وہ آخر ماں تھی اس کے ذہن میں وہم اور وسوسے پیدا ہونے لگے اسے خیال آیا کہ شارینا قیدخانے میں قیدیوں کو تفریحاً دیکھنے گئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کسی خطرناک قیدی نے اسے مار ڈالا ہو اور قید خانے کے عملے نے اس کی لاش اندر ہی کہیں دبا دی ہو تاکہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو سکے۔شارینا کی ماں ہرقل کی دوسری بیویوں کی طرح ایک بیوی تھی۔ ملکہ نہیں تھی نہ ہی ہرقل نے اپنی کسی بیوی کو ملکہ عالیہ کا درجہ دیا تھا ۔پھر بھی اس کی بیویاں حکم چلا سکتی تھیں اور شاہی اختیارات کا آزادانہ استعمال کرنے کی بھی اجازت تھی۔ شارینا کی ماں نے اپنے خاص ملازم کو قید خانے کی طرف دوڑا یا کہ دروغہ کو ساتھ لے آئے۔ اس نے سوچا یہ تھا کہ دروغہ معلوم کرے کہ شارینا قید خانے کے اندر گئی تھی اور اگر نہیں گئی تو کسی نے اسے قید خانے کے قریب سے گزرتے دیکھا ہوگا۔ ان سے ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ سارا سراغ دروغہ سے ہی مل جائے گا۔ قید خانے کا دروغہ حکم ملتے ہی پہنچ گیا۔ شارینا کی ماں نے پریشانی کے عالم میں اس سے شارینا کے متعلق پوچھا کہ وہ قید خانے کے اندر گئی ہو گی، اسے قیدخانے کے قریب سے گزرتے کسی نے جو دیکھا ہوگا۔ داروغہ نے شارینا کی ماں کے منہ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں سوال بھی تھا اور حیرت بھی ۔
شارینا کی ماں نے جب یہ کہا کہ شارینا صبح کی گئی ہوئی ابھی تک واپس نہیں آئی تو دروغہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ملکہ عالیہ! ____ ہرقل کی بیوی ہونے کی وجہ سے اس نے احتراماً ملکہ عالیہ کہنا ضروری سمجھا اور بولا____ کل صبح شہنشاہ ہرقل نے ایک مسلمان قیدی کو طلب کیا تھا۔ آج صبح شہزادی قید خانے میں آئی اور اس مسلمان قیدی کو رہا کروا کے اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔باہر شہزادی کا گھوڑا کھڑا تھا جس پر وہ سوار ہوئی اور قیدی ساتھ ساتھ پیدل چل پڑا تھا ۔شارینا کی ماں اس مسلمان قیدی کے متعلق اچھی طرح جانتی تھی کہ اسے اور اس کے دو تین ساتھیوں کو مہمانوں کی طرح قیدخانے میں کیوں رکھا گیا ہے ۔ اب اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی ایک قیدی کو چھڑوا کر لے گئی ہے تو اس نے ضرورت محسوس کی کہ اس کی اطلاع ہرقل کو ہونی چاہیے کہ یہ کوئی سازش ہو سکتی تھی۔شارینا کی ماں کو ڈر یہ تھا کہ ہرقل سے یہ بات چھپا لی گئی اور کچھ دنوں بعد کسی اور ذریعے سے اسے پتہ چلا تو وہ اسے بھی اور دروغہ کو بھی قتل کروا دے گا ،یہ سوچ کر اس نے دروغہ کو ساتھ لیا اور پھر ہرقل کے کمرے میں جاپہنچیں۔ اب تو ہرقل نے اسے ایسی قہر بھری نظروں سے دیکھا جیسے خود اٹھ کر اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ دے گا۔ لیکن قید خانے کے داروغہ کو ساتھ دیکھ کر اسے شک ہوا کہ بات کچھ اور ہے اور کوئی خاص واقعہ ہوگیا ہے۔شارینا کی ماں نے اسے بتایا کہ شارینا اس مسلمان قیدی کو رہا کروا کے نہ جانے کہاں لے گئی ہے۔ جس قیدی کو کل صبح دربار میں بلایا گیا تھا۔ہرقل کی آنکھوں میں جو قہر اترا تھا وہ آنکھوں میں ہی گم ہو گیا۔ اور ہرقل پر خاموشی طاری ہوگئی۔ کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ اس خاموشی میں سے ایسا ہولناک طوفان اٹھے گا۔ ہرقل کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ایک شہزادی ایک قیدی کو قید خانے سے نکلوا کر اس کے ساتھ چلی گئی ہے ۔اسے پریشانی اس سے لاحق ہوئی کہ یہ مسلمان قیدی ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔ وہ کوئی ادنی سپاہی نہیں تھا مسلمانوں کے لشکر میں اسے کوئی عہدہ حاصل تھا اور وہ اچھا خاصہ عقلمند بھی تھا۔ اور تم نے ایک شہزادی کے کہنے پر اسے رہا کردیا۔
ہرقل نے دروغہ سے کہا ____ اس کی بیڑیاں اور ہتھکڑی بھی اتار دیں۔ یہ میری گرفتاری کی سازش ہو سکتی ہے اور میرے قتل کی بھی۔
قیدخانے کا دروغہ چپ چاپ کھڑا تھا۔ اس نے ذہنی طور پر قبول کرلیا تھا کہ اس کی زندگی چند منٹ رہ گئی ہے۔ ہرقل کے یہاں سزائے موت سے کم کوئی سزا نہیں تھی۔
کیا تمہیں قتل نہ کروا دیا جائے؟____ ہرقل بولا____ اگر یوں شہزادی کی مدد سے فرار ہونے والے قیدی عیسائی ہوتا تو میرے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا ۔فرار ہونے والا مسلمان تھا ۔کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ان مسلمانوں نے ہمیں کس انجام تک پہنچادیا ہے۔ کیا تم صرف ایک وجہ بتا سکتے ہو ،جس کے بنا پر تمہارا یہ اقدام صحیح سمجھا جائے؟ ۔
جس طرح جوتشی نے اپنے آپ کو موت کے سامنے کھڑا دیکھ کر ہرقل کو سچی اور کھری کھری باتیں سنا دی تھی، ویسی ہی کیفیت قیدخانے کے دروغہ پر طاری ہو گئی۔ اسے یقین تھا کہ اب وہ زندہ باہر نہیں جا سکے گا۔ شہنشاہ روم! ____ دروغہ نے کہا اگر میں شہزادی کا حکم نہ مانتا تو وہ مجھے قتل کروا دیتی۔ اس کا حکم مانا ہے تو آپ مجھے سزائے موت سنا رہے ہیں، مجھے آپ کی سزا قبول ہے۔ قبول نہ ہوتی تو بھی آپ نے مجھے معاف نہیں کر دینا تھا۔ میں نے روم کی شہنشاہی کا نمک کھایا ہے۔ مجھے یہ عہدہ اس شہنشاہی نے دیا تھا ۔میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مرنے سے پہلے آپ کا کھایا ہوا نمک حلال کرجاؤ ں۔یہی ایک صلہ ہے جو میں آپ کے قدموں میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کوئی سونے اور چاندی کا خزانہ نہیں چند ایک الفاظ ہیں جو آپ نے قبول کر لیا تو آپ کے لئے اور آپ کی سلطنت کے لیے بھی سود مند ہوں گے۔ہرقل اسے چپ چاپ دیکھتا رہا تھا ۔اس کی اس خاموشی کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا ،کہو۔موت نے دروغہ پر خوف اور تاسف طاری ہونے کے بجائے اس میں جرات پیدا کردی۔
میں زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا ____ دروغہ نے کہا____ حکم ماننا ہم لوگوں کا فرض ہے۔ یہاں حکم ایک فرد سے نہیں ملتا بلکہ شاہی خاندان کے تمام افراد سے کئی طرح کے حکم ملتے ہیں، اور ہم لوگ کسی کی بھی حکم عدولی کی جرات نہیں کر سکتے ۔میں جانتا ہوں تین چار مسلمان قیدیوں کو آپ نے مہمانوں کے طور پر قیدخانے میں رکھا ہوا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کیوں ان کے ساتھ اتنا اچھا سلوک ہو رہا ہے ۔آپ ان سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان مسلمانوں نے اتنی قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے روم کی ایسی عظیم اور دہشت ناک جنگی طاقت کو کس طرح شکست دے دی ہے کہ رومی فوج بکھر کر پسپا ہو رہی ہے۔
اور کہیں بھی اس کے پاؤں جم نہیں رہے۔ شاید آپ ان خصوصی قیدیوں کو کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتے ہوں گے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ۔میں نے ان سے دو بار یہی بات پوچھی تھی انہوں نے جو جواب دیا ،وہ میرے دل نے قبول کیا اور یہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہا اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا نہ کوئی شاہی خاندان ہوتا ہے ۔بادشاہی صرف اللہ کی ہے اور مسلمان اسی کا حکم مانتے اور اسی کے راستے پر چلتے ہیں، ان قیدیوں نے مجھے بتایا کہ وہ لڑتے بھی ہیں تو اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور اسی کی خوشنودی کی خاطر، دو یا تین مسلمان بھی کہیں اکٹھا ہو جائیں یا سفر پر نکلے تو ایک کو اپنا امیر بنا لیتے ہیں اور پھر اسی کے حکم پر چلتے ہیں ان کا سالار لشکر کا امیر بھی ہوتا ہے، اور امام بھی ،انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے فیصلہ کیا کرتے تھے، اب ان کا ایک خلیفہ ہے جس کا ہر حکم بسروچشم مانا جاتا ہے ،لیکن خلیفہ بھی مشورہ کے بغیر کوئی حکم جاری نہیں کرتا ،کسی خلیفہ کی کسی امیر کی اور کسی سپہ سالار کی بیوی یا بیٹی یا بیٹا کوئی حکم نہیں دے سکتے، اگر وہ کوئی جرم کر بیٹھے گے تو انہیں بھی ویسے ہی سزا ملے گی جیسی ایک عام اور ادنیٰ مرد یا عورت کو دی جاتی ہے۔
شہنشاہ معظم! اب آپ اپنے یہاں دیکھیں ،شاہی خاندان کے افراد کی تعداد دیکھیں۔ ہمارے لئے کوئی ایسا حکم نہیں کہ ہم ان میں سے کسی کا کوئی بھی حکم نہ مانے ۔اگر میں ان میں سے کسی کا کوئی حکم نہیں مانوں گا تو وہ مجھے اسی قید خانے کی کال کوٹھری میں بند کر دے گا، جس کا آج میں دروغہ ہوں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ آپ نے شہزادی کے ساتھ نکل جانے والے قیدی کو مہمان کی حیثیت سے رکھنے کا حکم دیا تھا، اسے شہزادی شارینا اپنے ساتھ لے جانے کے لئے آئی اور کہا کہ شاہ ہرقل نے اسے طلب کیا ہے تو میں اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتاتھا۔
باقی تینوں مسلمان قیدیوں کی یہ سہولتیں ختم کردو ____ ہرقل نے کہا ____ انہیں تہہ خانے کی کوٹھڑیوں میں بند کر دو انہیں گل سڑ کر مرنے دو۔
ہرقل نے یہ حکم ایسے لہجے میں دیا جیسے نیند میں بول رہا ہو۔ یہ شک بھی ہوتا تھا جیسے اس نے دروغہ کی پوری بات سنی ہی نہ ہو۔
اس پر شکست کا پہاڑ آن پڑا تھا، شام ایک بڑا ملک تھا ،جو اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، اور مسلمانوں کی جھولی میں چلا گیا تھا ،کیا آپ ان کے تعاقب کا حکم نہیں دیں گے ____ شارینا کی ماں نے پوچھا ؟____ نہیں ہرقل نے بے جان سے لہجے میں کہا____ صبح کے نکلے ہوئے اب تک وہ دور نکل گئے ہوں گے۔ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ گئے کس سمت کو ہیں۔ شارینہ کی ماں کچھ نہ کچھ بولتی رہی ۔ہرقل اس کی کسی بات کا ادھورا سا جواب دے دیتا یا صرف اتنا کرتا کہ اس کے منہ کی طرف دیکھ کر منہ پھیر لیتا ۔دروغہ کو ہرقل نے کوئی اشارہ کیا تھا، یا دروغہ نے فرض کر لیا کہ اس کا چھٹکارا ہو گیا ہے، وہ الٹے قدم چلتا دروازے تک گیا اور باہر نکل گیا۔
وہ چلا گیا ہے، شارینہ کی بیوی نے کہا ____ اس کی جان بخشی نہ کریں ____ جانے دوا سے، ہرقل نے کہا ____ میں آنے والوں کا انتظار کر رہا ہوں۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہرقل نے اپنی پسپا ہوتی ہوئی فوج کو شام کے مختلف مقامات پر بکھیر دیا تھا اور اس نے یہ چال اس توقع پر چلی تھی کہ اس کے مطابق مسلمانوں کا لشکر بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا اور یہ اس کی کمزوری کا باعث بنے گا پھر ہرقل اپنی بکھری ہوئی فوج کو کسی ایک موضوع مقام پر یکجا کر کے مسلمانوں کی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی فوج پر زوردار حملہ کرے گا اور پھر مسلمان اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ہرقل رہاء میں آ گیا تھا اور اپنی فوج کو یہی اکٹھا کرنا چاہتا تھا لیکن کہیں سے بھی اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا کہ وہاں کی فوج کب اس تک پہنچے گی یہ تھا وہ انتظار جس کی بے تابی نے اس کا دماغ جکڑ رکھا تھا۔
جاری ہےــــــــ