اور نیل بہتا رہا (قسط نمبر 1)

اسلامی تاریخی ناول
تحریر: عنایت اللہ التمش

مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت کے بہت بعد کا واقعہ ہے۔ رسول کریم ﷺزندہ و سلامت تھے ۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان پھیلے ہوئے، جلتے جھلستے ہوئے ریگزار میں ایک مسافر گھوڑے پر سوار مدینہ کی طرف جا رہا تھا وہ اکیلا تھا صرف گھوڑا ہی اسکا ہمسفر تھا جس پر وہ سوار تھا اس زمانے میں کوئی مسافر اکیلے سفر نہیں کیا کرتا تھا لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے ۔کچھ اس لئے کہ رہزنوں اور قزاقوں کا خطرہ ہر قدم پر موجود رہتا تھا اور زیادہ تر اس لئے کہ قافلوں کے ساتھ کٹھن مسافت بھی سہل لگتی تھی ہر سہولت مل جاتی تھی بیماری کی صورت میں ہمسفر ہر طرح دیکھ بھال کرتے تھے ۔پھر وہ مسافر اکیلا کیوں جا رہا تھا؟ کہاں جا رہا تھا ؟ اس کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا ۔وہ قافلے سے بچھڑا ہوا یا بھٹکا ہوا راہی لگتا تھا لیکن اس کے چہرے پر اور اس کے انداز میں ایسے تاثرات کا نام و نشان نہ تھا جو گم کردہ راہ مسافر کے ہوا کرتے تھے سفر کی صعوبت کے آثار تو چہرے مہرے پر نمایاں تھے لیکن وہ مطمئن و مسرور تھا کبھی کوئی من پسند گیت گنگنانے لگتا اور کبھی گھوڑے سے یوں باتیں کرنے لگتا جیسے گھوڑا اس کی بات سمجھ رہا ہو۔ اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا دو پڑاؤ کر چکا تھا اس کے ساتھ کھانے کا جو سامان تھا اور اس کا جو لباس تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ تلاش روزگار میں مارا مارا پھرنے والا کوئی بددو نہیں اور وہ کوئی غریب سا عرب بھی نہیں اشیائے خورد و نوش اور لباس سے ہی نہیں چہرے کا جلال اور اس کا پروقار سراپا بتاتا تھا کہ اپنے قبیلے کا سرکردہ فرد ہے ۔ اس کے سفر کا ایک اور سورج غروب ہونے کو تھا وہ اس وقت ریت اور مٹی والے اونچے نیچے ٹیلوں کی بھول بھلیوں میں سے گزر رہا تھا اسے شاید معلوم تھا کہ قریب ہی چھوٹا سا ایک نخلستان ہے وہ بڑے اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اسے اپنے آپ پر پورا پورا اعتماد ہو نخلستان تک پہنچ گیا اس نے گھوڑے کو روکنا چاہا لیکن گھوڑے نے لگام کا اشارہ نظرانداز کردیا اور پانی پر جا کر رکا۔گھوڑا دن بھر کا پیاسا تھا،بے تابی سے پانی پینے لگا۔ سوار گھوڑے سے اترا اور وہ تھیلے کو کھولا جس میں کھانے پینے کا سامان تھا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

صبح ابھی گہری دھندولی تھی جب وہ پھر گھوڑے پر سوار ہو چکا تھا صحرا کی رات کی خنکی نے اسے اور اس کے گھوڑے کو تروتازہ کر دیا تھا ۔سورج اوپر آ گیا تھا جب وہ ٹیلوں ٹیکریوں کے علاقے سے نکل گیا تھا ۔یہ علاقہ پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا تھا کچھ دور آگے ٹھیکریاں تھی یہ بھی ریت اور مٹی کی تھیں ان پر کہیں کہیں خشک جھاڑیاں تھیں۔کچھ وقت گزرا وہ ان ٹیکریوں کے اندر جا رہا تھا۔ان میں سے گزرنے کے راستے صاف نظر آ رہے تھے۔لیکن ان میں آکر وہ راہرو بھٹک جاتے ہیں جو صحرا کے بھید نہیں جانتے اور ٹیکریوں کے اندر ہی اندر چلتے چلتے تھک کر شیل ہو جاتے ہیں وہ فاصلے تو بہت سا طے کر لیتے ہیں لیکن پہنچتے کہیں بھی نہیں۔یہ سوار صحرا کا بھیدی معلوم ہوتا تھا اسے جدھر سے بھی راستہ ملتا تھا بے خوف وخطر گزرتا جاتا تھا پھر ٹکریاں ختم ہونے لگی اور بار بار دائیں بائیں مڑنے اور بھٹک جانے کا خطرہ ختم ہوگیا تھا ۔کچھ آگے جاکر ریت اور مٹی کی یہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ایک دوسرے سے اور زیادہ دور دور ہو گئیں۔ وہ آخری ٹیکری سے گھوم کر آگے گیا تو اس کے سامنے ریت کا سمندر افق تک چلا گیا تھا اور سورج سر پر آ گیا تھا۔ریت جل رہی تھی اور اس سے اٹھنے والے شعلے آگ جیسے نہیں بلکہ شیشے اور چشمے کے پانی کی طرح شفاف تھے ان سے پرے کی چیزیں ان میں سے اس طرح نظر آتی تھی جس طرح شیشے میں سے نظر آیا کرتی ہیں ،لیکن جھلمل جھلمل کرتی نظر آتی ہیں اس سوار کو بائیں طرف سے ہلکی ہلکی دھمک سنائی دینے لگی اس نے اس طرف دیکھا تو سوار آ رہا تھا لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ شترسوار ہے یا گھوڑسوار کیونکہ وہ جھلملا رہا تھا دھمک سے شک ہوتا تھا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہے ۔اونٹ بے آواز پا چلا کرتا ہے۔تاہم ابھی اتنا ہی کہا جا سکتا تھا کہ کوئی سوار آ رہا ہے ۔ وہ رک گیا اور اس کا ایک ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر چلا گیا آنے والا کوئی رہزن ہی ہوسکتا تھا ۔اس کے پاس کوئی دولت نہیں تھی  زر و جواہرات نہیں تھے کہ اسے لوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ۔البتہ اس کا گھوڑا ایسی دولت تھی جس سے وہ دستبردار نہیں ہو سکتا تھا اس کی منزل نہ جانے ابھی کتنی دور تھی۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

جوں جوں سوار کا عکس واضح ہوتا آرہا تھا اس گھوڑسوار کی تلوار آہستہ آہستہ نیام سے باہر آتی جا رہی تھی ۔اس نے گھوڑا روک لیا تھا ۔وہ آنے والے سوار کو ایسا موقع نہیں دینا چاہتا تھا کہ وہ اس پر اچانک وار کر دے یا عقب سے حملہ کردے۔ ریت کے شفاف شعلوں میں سے آنے والا قریب آ گیا وہ گھوڑے پر سوار تھا۔چہرے کو تپش سے بچانے کے لیے اس نے سر اور چہرے پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا ۔آنکھیں ذرا ذرا سی نظر آ رہی تھیں۔ ایسے ہی اس کے انتظار میں روکے کھڑے سوار نے بھی اپنا چہرہ چادر میں چھپا رکھا تھا ۔ اس سوار نے اس سوار کے سامنے آکر گھوڑا روک دیا اور کچھ دیر دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔
کیا ہمیں ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہنا چاہیے؟ ــــــ آنے والے سوار نے پوچھاــــــ اکیلے سفر پر کیوں نکلے ہو ؟
اور تم اکیلے کیوں نکلے؟اِس سوار نے پوچھا ــــــــکہاں سے آئے ہو ؟کہاں جا رہے ہو ؟
تمہاری آواز جانی پہچانی سی لگتی ہےــــــــــ آنے والے سوار نے کہا ۔
کچھ ایسا ہی میں نے بھی تمہاری آواز میں محسوس کیا ہے۔اس سوار نے کہا آؤ ہم ایک دوسرے کو پہچان لیں، یہ کہہ کر اس نے اپنا چہرہ بے نقاب کر دیا ۔
خدا کی قسم ابن ولید! دوسرے سوار نے اپنا چہرہ بے نقاب کر کے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے کہا میں نے ٹھیک پہچانا تھا،یہ آواز میرے یار خالد بن ولید کی ہے ۔
عمرو بن عاص !خالد بن ولید نے گھوڑے سے اتر کر حیرت سے کہا کیا تو حبشہ نجاشی کے پاس نہیں چلا گیا تھا۔
دونوں بغلگیر ہوئے اور کچھ دیر ایک دوسرے کو بازوؤں میں جکڑے رکھا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

 یہ تھیں تاریخ اسلام کی دو شخصیتیں ــــــــخالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ ،جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا خطاب عطا فرمایا تھا اور دوسرےتھے عمرو بن عاص رضی اللہ ،جنہوں  نے فاتح مصر کا اعزاز حاصل کیا ۔دونوں نے قیصر روم کو فیصلہ کن شکست دے کر اس کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔قیصرروم کی جنگی طاقت دہشت کا دوسرا نام تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس ہیبت ناک طاقت کو کوئی شکست دے سکتا ہے۔ہرقل جو طاقت کا دیوتا کہلاتا تھا اسلام کے ان تاریخ ساز سالاروں کے آگے آگے بھاگا پھر رہا تھا ۔جنگ یرموک آخری معرکہ تھا جس میں ہرقل کو فیصلہ کن شکست ہوئی تھی۔اب اسے کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی، پناہ ملی تو مصر میں ملی لیکن عمرو بن عاص وہاں بھی جا پہنچے۔ان دونوں عظیم سالاروں کی یہ فتوحات ایمان کی قوت جذبہ جہاد اور اس وجاہت کی الگ الگ داستانیں ہیں۔ایمان افروز، ولولہ انگیز خالد بن ولید رضی اللہ تعالی ان کی داستان فتوحات اور شجاعت ہم پہلے(شمیر بے نیام میں) سنا چکے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں نامور سالار وہاں کیا کر رہے تھے۔جہاں لاکھوں دق صحرا تھا اور زندگی کا نام و نشان نہ تھا۔
وہ بہت پہلے کی بات ہے جب ان کی وہاں اتفاقیہ ملاقات ہو گئی تھی اس وقت دونوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا دونوں مکہ کے قریش میں سے تھے دونوں کی معاشرتی اور معاشی حیثیت اہل قریش میں بڑی بلند اور نمایاں تھی۔خالد بن ولید امیرکبیر تاجر کے بیٹے تھے انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے شہزادوں جیسی زندگی گزاری تھی لیکن وہ جنگجو تھے اور نامور تیغ زن عسکریت ان کے رگ و ریشے میں رچی بسی ہوئی تھی اور فن حرب و ضرب میں انہیں خصوصی مہارت حاصل تھی۔خالد پیدائشی سپہ سالار تھے انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا تھا لیکن اہل قریش جس میدان اور معرکے میں مسلمانوں کے مقابل آئے منہ کی کھائیں اور اگلے معرکے کی تیاری کرنے لگے ۔خالد نے اپنے قبیلے کی شکست خوردگی اور مسلمانوں کی اہلیت اور ان کا نظم و نسق دیکھا تو اپنے قبیلے سے دل اچاٹ ہوگیا۔
خالد بن ولید کھوئے کھوئے سے رہنے لگے عسکریت کے علاوہ انھوں نے مسلمانوں کے کردار میں کوئی ایسی نمایاں جھلک دیکھی جو انہیں اپنے قبیلے میں نظر نہیں آتی تھی ۔
صلح حدیبیہ کے موقعہ پر تو خالد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے چل پڑے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بے خبر تھے آپ نے قریش کے ساتھ انھیں کی شرائط پر معاہدہ کرلیا جو خالد بن ولید کے لیے غیر متوقع تھا۔خالد تو پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے متاثر تھے۔صلح حدیبیہ سے ایسے متاثر ہوئے کہ ایک روز کسی کو بتائے بغیر مکہ سے نکلے اور مدینہ کا رخ کرلیا ان کے آگے ساڑھے تین سو کلومیٹر انتہائی دشوار مسافت تھی ۔وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرکے اسلام قبول کرنے جا رہے تھے۔راستے میں انہیں عمرو بن عاص مل گئے اور خالد نے انھیں وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

خالد بن ولید کی حیرت اس پر نہیں تھی کہ عمرو بن عاص انھیں آبادیوں سے بہت دور اس ویرانے میں مل گئے تھے بلکہ وہ حیران اس پر ہوئے تھے کہ عمرو بن عاص عرصہ دو سال سے حبشہ چلے گئے تھے اگر عمرو بن عاص انہیں مکہ میں ملتے تو خالد بن ولید حیران نہ ہوتے۔
پہلے تو یہ بتا اے ابن عاص!خالد بن ولید نے پوچھا؛ تُو یہاں کیا کررہا ہے؟ کیا تو حبشہ نجاشی کے پاس نہیں چلا گیا تھا ؟
ہاں ابن ولید! عمروبن عاص  نے کہا کہ میں حبشہ ہی چلا گیا تھا لیکن تجارت کے لیے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے وہاں گیا تھا ۔اچانک واپسی ہو گئی اور یوں سمجھ لیں کہ بھٹکتا ہوا یہاں آ پہنچا ہوں۔تو مل گیا ہے تو شاید کوئی راستہ دکھا دے میں تو سوچ سوچ کر تھک گیا ہوں۔
پہلے اپنی وہ سوچ تو بتاــــ خالد بن ولید نے کہا اگر تو سوچوں میں بھٹک سکتا ہے اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا پھر مکہ کے قریش تو اندھیروں میں گم ہو جائیں گے۔
عمرو بن عاص نے جو جواب دیا وہ تاریخ اسلام کا ایک فکر انگیز باب ہے ان کا جواب سننے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ عمرو بن عاص اصلاً کون تھے؟ کیا تھے؟اور ان کا خاندانی پس منظر کیا تھا ؟ــــــقریش بت پرست تھے اور انہوں نے بتوں کے کچھ نام رکھے ہوئے تھے ۔یہ ان کے دیوتا تھے۔ ان دیوتاؤں کا ایک خاص اوقاف تھا اور اس اوقاف کا نگراں بنو سہم تھا۔ اوقاف کے تمام تر انتظامات اور مالی معاملات بھی بنو سہم کی ذمہ داری میں تھے ۔اس وجہ سے عمرو بن عاص بن وائل سہمی کو قریش میں خاصہ اونچا مقام حاصل تھا ۔قبیلے پران کے فیصلے اور حکم چلتے تھے۔اور ان کی تعمیل ہوتی تھی۔خالد بن ولید کے خاندان کی طرح عمروبن عاص کا خاندان بھی دولت مند تھا دولت مندی کاذریعہ تجارت تھا۔عمروبن عاص کے والد اتنے صاحب اقتدار تھے کہ حضرت عمر بن خطاب کے قبول اسلام سے پہلے ان کے قبیلے بنو عدی کو بنو عبد الشمس میں ان کے گھر سے جو صفاء کے قریب تھے نکال دیا تو بنو سہم نے انہیں اپنے ہاں پناہ دی تھی۔پھر حضرت عمر بن خطاب نے اسلام قبول کیا تو اسی بنو سہم نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اس پر خطر صورتحال میں عمرو بن عاص کے والد عاص بن وائل سہمی نے انہیں اپنی حفاظت میں رکھا تھا۔
عاص بن وائل اتنے دولت مند تھے کہ ریشم کا لباس پہنتے تھے۔عمرو بن عاص پر اس دولت مندی کا اور اپنے خاندان کی حیثیت کا بہت زیادہ اثر تھا ۔ایک اثر تو یہ تھا کہ وہ عزت نفس کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔اور دوسرا اثر یہ کہ اقتدار پسندی میں کسی اور کو اپنے آگے یا اپنے اوپر برداشت نہیں کرتے تھے۔عمرو بن عاص بھی خالد بن ولید کی طرح اور قریش کے ہر سردار کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے درپے رہتے تھے۔لیکن عمرو بن عاص نے یہ بھی دیکھا کہ قریش کسی بھی مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے۔ عمرو بن عاص مسلمانوں کے خلاف غزوہ احزاب میں شامل تھے۔وہ خالد بن ولید کی طرح جنگجو ، شہسوار شمشیرزن تھے۔انہوں نے اپنی بے جگری اور بہادری کے جوہر دکھائے، جم کر لڑے لیکن اس معرکے کا انجام بھی وہی ہوا جو پہلے دیکھتے آ رہے تھے قریش حوصلہ ہار بیٹھے اور بری طرح میدان چھوڑ گئے۔
مشہور یورپی مورخ ایلفرڈ بٹلر نے واقعہ بیان کیا ہے جس کی تائید ایک مستند مسلمان تاریخ نویس ابن عبدالحکم نے کی ہے یہ واقعہ سنانے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تمام مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے عمرو بن عاص کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جس قدر بہادرتھے اور شہسواری اور شمشیر زنی میں جتنی شہرت رکھتے تھے اس سے کہیں زیادہ ذہانت و فطانت وقار و تمکنت دانائی اور زبان آوری اور سخن فہمی میں بھی خاص مقام رکھتے تھے ۔روز استدال ایسا کہ ان کے سامنے کوئی اور اپنی دلیل بازی کی جرات نہیں کرتا تھا ۔وہ حقیقت اور خوش فہمی کے فرق کو نہایت اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اور مکمل طور پر حقیقت بیں تھے ۔غزوہ احزاب میں قریش کی شکست دیکھ کر عمرو بن عاص نے قبیلہ قریش کے چند آدمیوں کو بلایا۔

 اے اہل قریشـــــعمرو بن عاص نے کہا خدا کی قسم محمد ﷺکے معاملے میں ہم سب خوش فہمی میں مبتلا ہیں کسی ایک بھی معرکہ میں ہم ان کے مقابل میں نہیں جم سکے ہیں کیوں نہ ہم لوگ تسلیم کرلیں کہ محمدﷺ کا ستارہ عروج پر پہنچ رہا ہے وہ وقت تیزی سے چلا آ رہا ہے جب مسلمان ہم پر غالب آ جائیں گے۔
 ہم تمھیں دانشمند سمجھتے ہیں !ــــــ ایک آدمی نے کہا ــــــجو تو نے  کہا ہے وہ ہم دیکھ چکے ہیں تو ہم سب میں عقل و دانش زیادہ رکھتا ہے۔یہ بتا تو چاہتا کیا ہے اور ہم کیا کریں۔
 تم سب میرے دوست ہو ــــــ عمرو بن عاص نے کہا ــــــ میں جو چاہتا ہوں،وہ اور کوئی نہیں مانے گا۔ تم سب میرے دوست ہو ،مجھے اپنی اور تمہاری عزت کا خیال ہے میرے سامنے ایک ہی راستہ ہے تم میں سے جو
میرا ساتھ دینا چاہے، وہ میرے ساتھ حبشہ چلا چلے اور ہم حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی پناہ میں رہیں گے۔
 کب تک وہاں پڑے رہیں گے؟ ــــــ ایک نے پوچھا ــــــ وہاں کریں گے کیا ؟
تجارت ! ــــــ عمرو بن عاص نے جواب دیا۔ تجارت نہ ہو سکی تو نجاشی ہمارے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش پیدا کر دے گا۔ اگر مسلمان قریش پر غالب آگئے تو میں مسلمانوں کی غلامی سے نجاشی کے زیر سائے رہنا بہتر سمجھتا ہوں۔اگر قریش مسلمانوں پر غالب آگئے تو محمد ﷺکا نیا مذہب ختم ہوجائے گا۔اور ہم لوگ واپس آ جائیں گے۔
ابن ولید ! ــــــعمرو بن عاص نے خالد بن ولید کو یہ ساری باتیں سنا کر کہا؛ تو چپ چاپ میری بات سن رہا ہے تیری اس خاموشی سے اس کے سوا اور کیا سمجھ سکتا ہوں کہ تجھے میری باتیں اچھی نہیں لگیں۔
میری خاموشی پر مت جا میرے عزیز دوست ! ــــــ خالد بن ولید نے کہا ــــــ مجھے بھی کچھ کہنا ہے جو میں کسی اور سے نہیں کہہ سکتا پہلے تیری پوری بات سن لو تو اپنی سناؤں گا۔
میں نے بتایا ہے ناں کہ چند آدمی بھی میرے ساتھ تیار ہو گئے ۔ہم نے تجارت کو بہانہ بنایا اور چل پڑے،تجھے شاید حبشہ کا راستہ معلوم ہو ہی ہوگا۔ہم یہاں سے چلے اور سمندر (بحرہ قلزم) کے ساتھ ساتھ چلتے یمن میں داخل ہو گئے۔اور پھر عدن جاپہنچے عدن کے قریب اس جگہ پہنچے جہاں سمندر بہت ہی کم چوڑا ہے۔بڑی بادبانی کشتی پر ہم نے سمندر پار کیا اور پھر خشکی کا سفر شروع ہوگیا اور پھر تین چار پڑاؤ  کر کے حبشہ کے دارالحکومت ادلیس ابابا پہنچ گئے تجھے یہ اندازہ ہوگا کہ یہ سفر کتنا طویل ہے اور کٹھن بھی لیکن ہم خیریت سے اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں گئے اور اس سے پناہ مانگی اور یہ بھی کہا کہ تجارت پیشہ لوگ ہیں اس لیے اس پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ اور پناہ کے سوا کوئی مدد نہیں مانگیں گے ۔نجاشی نے ہمیں شاہی مہمانوں کی طرح رکھا اور ہمیں ایسی رہائش مہیا کردیں جو شاہی خاندان جیسی رہائش تھی
مجھے ان باتوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ــــــ خالد بن ولید نے کہا۔ میں یہ سننا چاہتا ہوں کہ تم واپس کیوں چلے آئے اور اب کہاں کا ارادہ ہے؟ میں دیکھ رہا ہوں تو اگر حبشہ سے ہی آیا ہے تو مکہ کیوں نہ رک گیا ۔مکہ پیچھے بہت دور رہ گیا ہے۔ کیا تو کوئی خاص بات مجھ سے چھپا رہا ہے؟
نہیں ابن ولید ــــــ عمرو بن عاص نے کہا تو میرا دوست ہے اور اہل قریش میں تجھے وہی برتر حیثیت حاصل ہے جو مجھے ، میں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے تجھے نہیں بتایا تھا کہ میں یہاں سے ہمیشہ کے لئے جا رہا ہوں یہ تو میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہا تھا کہ وہ بھی کسی کے ساتھ ذکر نہ کرے لیکن اب دل میں ایسی بات آگئی ہے جس کے متعلق میں فیصلہ نہیں کرسکتا اچھا ہوا تو مل گیا ہے۔
تیرے ساتھی کہاں ہیں؟خالد بن ولید نے پوچھا۔
انہیں وہیں چھوڑ آیا ہوں۔عمرو بن عاص نے جواب دیا ــــــ میں جو ارادہ کرکے وہاں سے آیا ہوں میرے ساتھیوں کو یہ ارادہ پسند نہیں آیا اور میں ان کا ساتھ چھوڑ آیا ہوں ۔میں سمجھتا تھا کہ تو راستے سے بھٹک گیا ہے۔خالد بن ولید نے کہا؛ لیکن تیری باتوں سے شک ہوتا ہے کہ تیری عقل صحیح سوچوں سے بھٹک گئی ہے ۔اتنی لمبی باتیں نہ کر ابن عاص! مجھے صحیح بتا دیے تیرا ارادہ کیا ہے اور تو کس منزل کا مسافر ہے؟

ابن ولید ! ــــــ عمرو بن عاص نے کہا جب تک بات پوری نہ سنالوں اپنا ارادہ نہیں بتاؤں گا کیونکہ تو غلط سمجھ لے گا ۔یہ تو تجھے معلوم ہے کہ ہمارے تاجر حبشہ جاتے رہتے ہیں ہم وہاں تقریبا ایک سال سے ہیں۔ ایک روز عربی تاجروں کا ایک قافلہ عدلیس ابابا پہنچا۔اس میں میری جان پہچان کے لوگ بھی تھے ۔ان سے پتہ چلا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر قبیلہ قریش کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے کی رو سے قریش اور مسلمان دس سال تک جنگ نہیں کریں گے ۔پھر مجھے پتہ چلا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ساری شرطیں مان لی ہیں۔اور طے پایا ہے کہ وہ ایک سال بعد عمرہ کرنے آئیں گے میں نے تسلیم نہیں کیا کہ ایسا معاہدہ ہوا ہوگا۔لیکن تھوڑی ہی عرصہ بعد مکہ سے آیا ہوا ایک اور آدمی ملا ۔اس نے بتایا کہ مسلمان اپنے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سال بعد عمرہ کرنے آئے تھے اور پرامن طریقے سے عمرہ کیا اورواپس چلے گئے۔میں نے مکہ سے آنے والے اس شخص سے اور کی باتیں پوچھیں تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کیا قریش نے مسلمانوں کا غلبہ قبول کر لیا ہے۔اور ان کی برتری کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ابن ولید تجھے میری بات اچھی لگے نہ لگے میں اپنے دل اور دماغ کی بات کرتا ہوں میں محمدﷺ کے کردار کا قائل ہوگیا ہوں ۔اور سوچ سوچ کر میں اس رائے پر پہنچا کہ محمدﷺ کا ستارہ اقبال کے عروج پر پہنچ گیا ہے۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ مدینہ جا کر اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پھر مجھے یہ پتہ چلا کہ قریش مدینہ پر یلغار کرنے گئے تھے لیکن مسلمانوں نے ایک نئی رکاوٹ سوچ لی اور قریش کی یلغار ناکام ہوگئی ہے۔مسلمانوں نے مدینہ کے ارد گرد خندق کھودی تھی۔خالد بن ولید بھی اس یلغار میں شامل تھے۔ اور انھوں نے گھوڑے سے یہ خندق پھلانگنے کی کوشش بھی کی تھی اور ناکام رہے تھے اس لیے وہ جنگ خندق کی ہر بات عمر بن عاص کو سنا سکتے تھے۔انہوں نے جنگ خندق کی پوری تفصیل سنائی اور مسلمانوں کے دانشمندی کو خراج تحسین پیش کیا کہ انھوں نے خندق کھود کر قریش کا حملہ ناکام کردیا تھا۔
پھر تو ہی بتا میرے عزیز دوست ــــــ عمرو بن عاص نے کہا ،میں مسلمانوں کے عسکری برتری کیوں نہ تسلیم کروں؟میں نے یہ ساری تفصیل حبشہ میں سنی تھی اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارے اہل قریش کے پاس کچھ نہیں رہا ۔میں اس سے خیال آیا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں وہ عظمت موجود ہے جو ہمارے قبیلے کے کسی بڑے بزرگوں میں ابھی تک حاصل نہیں ہوئی۔میں جنگجو ہوں تو بھی جنگجو ہے۔کیا ہم اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر کہیں اپنے جوہر دکھا سکتے ہیں؟ ــــــ نہیں کبھی نہیں اب میں وہ بات کرنے لگا ہوں جو تجھے مشتعل کر دے گی اور ہوسکتا ہے تو مجھے قتل کر دینے کو تلوار نکالے۔
اپنے دل کی بات مجھ سے سن لے ــــــ خالد بن ولید نے کہا ــــــ تو اسلام قبول کرنے کے ارادے سے آیا ہے! کیا میں نے غلط کہا؟
خدا کی قسم تم میرے دل کا بھید پا گیاہے ــــــ عمرو بن عاص نے کہا؛ لیکن میں اس ارادے کے باوجود بھٹک جاتا ہوں۔اب خیال آتا ہے کہ میرا یہ فیصلہ صحیح نہیں شاید میں اپنے قبیلے سے رشتہ توڑنا نہیں چاہتا ۔لیکن اپنے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی نہ کر سکے اور میں کہتا ہوں کہ وہ اسی قابل ہیں کہ مسلمان ان پر غالب آجائیں ــــــ ابن ولید! مجھے بتا ،کیا میں ٹھیک فیصلے پر پہنچا ہوں۔ اگر میرا فیصلہ غلط ہے تو خدا کی قسم تجھے اجازت دیتا ہوں کہ میرا سر تن سے جدا کر دے ۔
خالد بن ولید نے آسمان کی طرف منہ کرکے بڑا سا جان دار قہقہہ لگایا ،پھر عمرو بن عاص کی طرف دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ ان کے کندھے پر رکھے۔ اس وقت خالد بن ولید کے چہرے پر کچھ ایسی رونق تھی جسے جلال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ابن عاص! ــــــ خالد بن ولید نے عمرو بن عاص کو کندھوں سے ہلکا سا جھٹکا دے کر کہا ؛تیرا فیصلہ برحق ہے اپنے ارادے سے بھٹکنا نہیں ــــــ میں اس سفر میں تیرا ہمسفر ہوں ــــــ دونوں کی منزل ایک ہی ہے ۔میں اسلام قبول کرنے کے لئے مدینہ جا رہا ہوں مکہ میں کسی کو بتا کر نہیں آیا ۔آ میرے ساتھ چل

تاریخ لکھنے والوں کی شہادت موجود ہے کہ خالد بن ولید اور عمرو بن عاص اکٹھا مدینہ پہنچے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضری دی۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ ان دونوں کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل کیا تھا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر کچھ لوگ بیٹھے تھے تو ان کے دلوں میں یہ شک ضرور پیدا ہوا ہوگا کہ یہ دونوں اچھی نیت سے نہیں آئے ۔سب جانتے تھے کہ خالد بن ولید نے حضور صلی اللہ وسلم کے قتل کا عہد کر رکھا ہے۔ اتنا تو ضرور  ہی ہوا ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس پر سناٹا طاری ہو گیا ہوگا ۔اور یہ دونوں کوئی عام قسم کے آدمی ہوتے تو اور بات تھی۔ سب ان دونوں کے متعلق جانتے تھے کہ انہیں اپنے اپنے قبیلے میں کتنی اونچی اور برتر حیثیت حاصل ہے۔ اچھا ہوا خالد بن ولید جلدی بول پڑے اور محفل پر جو کھچاؤ طاری ہو گیا تھا وہ ختم ہوگیا۔
میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے آیا ہوں۔ خالد بن ولید نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ؛میں دل و جان سے آپ کی رسالت کو تسلیم کرتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کی بیعت قبول فرمائی اور انہیں حلقہ بگوش اسلام کر لیا پھر آپ نے عمروبن عاص کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔عمرو بن عاص سرک کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے ــــــ میں بھی آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتا ہوں ــــــ عمرو بن عاص نے کہا ؛لیکن بیعت سے پہلے یہ عرض ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں اور آئندہ محتاط رہوں گاکہ اسلام کے دائرے میں رہوں اور اپنے آپ کو گناہوں سے پاک رکھوں۔
مصر کے مشہور تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل مختلف حوالوں سے لکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عاص سے کہا کہ گناہ معاف کرنے والا اللہ ہے اور جو توبہ کرکے اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اس کے پچھلے تمام گناہ اس طرح دھل جاتے ہیں جس طرح ہجرت سے پچھلی تمام مصیبتیں ختم ہوجاتی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عاص سے کہا کہ وہ بیعت کرلیں اور اپنے آپ میں خود ہی تبدیلی محسوس کریں گے۔اس طرح عمرو بن عاص نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خالد بن ولید اور عمرو بن عاص کو مکے سے جانتے تھے۔ آپ ان دونوں کی خوبیوں صلاحیتوں اور کردار سے خوب واقف تھے ۔آپ نے ان دونوں کو اعتماد میں لے لیا بلکہ مورخ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کیا لیکن دونوں اس اعتماد پر پورے اترے اور اسلام کو دو عظیم سپہ سالار مل گئے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

چونکہ یہ داستان فتح مصر کی ہے اس لئے ہم اپنے آپ کو اس کا پابند رکھیں گے ۔اور ان ہی سالاروں کا ذکر نمایاں طور پر کریں گے جنہوں نے فرعونوں کی زمین پر اسلام کے جھنڈے گاڑے تھے۔ان سالاروں کے سپہ سالار عمرو بن عاص تھے۔فتح مصر کا خیال اور عزم عمروبن بن عاص کے دماغ میں ہی آیا تھا اور انہوں نے ہی امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو قائل کیا تھا کہ مصر پر فوج کشی کی جائے۔ امیرالمومنین رضامند نہیں ہو رہے تھے اور عمرو بن عاص کی تجاویز کو ٹالتے  چلے آرہے تھے۔آخر ایک روز وہ قائل ہو ہی گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے عمرو بن عاص مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنے کے لئے ہی دنیا میں آئے تھے۔
یہ ساری تفصیلات اس داستان میں تفصیل سے سنائی جائیں گی۔ان تفصیلات میں کچھ دلچسپ ہیں، کچھ فکر انگیز ہیں، کچھ ولولہ انگیز ہیں، اور کچھ درد ناک بھی ہیں، لیکن جو حقیقت ہمارے سامنے کھل کر آتی ہیں وہ قابل غور ہے۔وہ یہ کہ اللہ جو کام کرنا چاہتا ہے اس کے لیے حالات خود ہی پیدا کردیتا ہے ۔خالد بن ولید اور عمرو بن عاص کا خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور قبول اسلام کے لئے پہنچ جانا کوئی اتفاق نہ تھا ۔اللہ تبارک وتعالی نے اسلام کو دو تاریخ ساز اور عظیم سپہ سالار عطا کرنے تھے۔ان کے ہاتھوں رومیوں کی طاقت کو فنا کروانا تھا اور پھر عمرو بن عاص کے ہاتھوں مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنا تھا۔ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن عاص کے متعلق ایک واقعہ بیان کردیا جائے ۔جسے زیادہ تر مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویسوں نے تاریخ کے دامن میں محفوظ کر دیا تھا ان میں بلاذری مقریزی اور ابن عبدالحکم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

واقعہ یوں ہے کہ عمربن عاص تجارت اور سیاحت کے سلسلے میں عراق شام فلسطین اور مصر تک جایا کرتے تھے ۔یہ ان کے قبول اسلام سے بہت پہلے کا واقعہ ہے ایک بار عمروبن عاص چند ایک اہل قریش کے ساتھ تجارت کے سلسلے میں بیت المقدس گئے ۔انہیں وہاں بہت دن رکنا تھا اور انہوں نے شہر کے باہر ایک کھلی جگہ ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ان کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی ہر روز اونٹوں کو چرانے کے لئے قریبی جنگل میں لے جایا کرتا تھا۔ایک روز اونٹوں کو چرنے چگنے کے لئے لے جانے کی باری عمرو بن عاص کی تھی۔ دن کا پچھلا پہر تھا ، وہ اونٹوں کو کھول کر لے گئے اور ایک پہاڑی کے دامن میں لے جاکر کھلا چھوڑ دیا ۔وہاں گھاس اور جھاڑیوں کی بہتات تھی اور درخت ہرے بھرے تھے۔ موسم گرمیوں کا تھا اور ان دنوں گرمی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی پہاڑی سے اتر رہا ہے اس کے اترنے کا انداز بتا رہا تھا کہ اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں اور کسی بھی قدم پر وہ گر پڑے گا اور لڑکھڑاتا ہوا نیچے آئے گا ۔اور شاید زندہ نہ ہی رہے۔عمرو بن عاص ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے ۔اور اس آدمی کو بڑی غور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ آدمی پہاڑی سے تو اتر آیا لیکن اس سے چلا نہیں جا رہا تھا کبھی وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے گلے پر رکھ لیتا اور کبھی وہ رکتا اور اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ۔ وہ قدم گھسیٹا ڈولتا اور جھومتا عمرو بن عاص تک پہنچ گیا اور گر پڑا ۔پانی ــــــ  اس آدمی کے منہ سے سسکی نکلی ۔پانیــــــ مر جاؤں گا ۔
عمرو بن عاص کے پاس پانی کا مشکیزہ بھرا ہوا تھا ۔گرمی اتنی کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پیاس لگتی تھی اور حلق میں کانٹے چبھنے لگتے تھے ۔اس لئے عمرو بن عاص نے پانی کا مشکیزہ اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک دو گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔ اس آدمی نے پانی مانگا تو عمرو بن عاص نے مشکیزہ کھولا اور پھر اس کو سہارا دے کر بٹھایا اور مشکیزے کا منہ اس کے منہ کے ساتھ لگا دیا گیا۔وہ شخص اتنا پیاسا تھا کہ آدھا مشکیزہ پانی پی گیا۔تم نے مجھے پانی نہیں ،نئی زندگی دی ہے۔ اس آدمی نے کہا میں حضرت عیسی علیہ السلام کی اس سرزمین کی زیارت کی خاطر پہاڑی پر چڑھ گیا تھا کہ دور دور تک اس علاقے کو دیکھوں گا لیکن میری حماقت کہ پانی ساتھ نہ لے گیا۔یہ تو ایک  معجزہ ہے کہ میں تم تک زندہ پہنچ گیا ہوں ،اس شخص نے اپنا نام شماس بتایا اور یہ بھی کہ وہ عیسائی ہے۔وہ مصر کے بہت بڑے شہر اور بندرگاہ اسکندریہ کا رہنے والا تھا ، اس وقت اسکندریہ مصر کا دارالحکومت تھا اور مصر میں ایرانیوں کی حکومت تھی۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

 شماس کو پانی ملا جو اس نے پیٹ بھر کر پیا تو اس کے جسم میں تازگی آ گئی ۔وہ تھکا ہوا بھی تھا۔ اسے غنودگی محسوس ہونے لگی، عمرو بن عاص کا شکریہ ادا کرکے وہ اٹھا اور قریبی ایک درخت کے نیچے لیٹا اور لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی وہ خراٹے لینے لگا۔عمرو بن عاص اس سے بے خبر ہو گئے اور اپنے اونٹوں کو دیکھنے لگے کہ کوئی اونٹ اِدھراُدھر نہ ہوجائے ۔انہوں نے ویسے ہی اپنا مشکیزہ دیکھا کہ اس پیاسے انسان نے اس میں کوئی قطرہ چھوڑا بھی ہے یا نہیں مشکل سے دوچار گھوٹ پانی رہ گیا تھا۔عمروبن عاص کو دلی اطمینان محسوس ہورہا تھا کہ انہوں نے ایک پیاسے کی جان بچائی ہے ۔وہ شخص جس نے اپنا نام شماس بتایا تھا بیت المقدس شہر تک نہ پہنچ سکتا ۔عمرو بن عاص نے سوئے ہوئے شماس کی طرف دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہوگئے ۔ایک بڑا لمبا سانپ جس کا رنگ سیاہی مائل تھا آہستہ آہستہ سوئے ہوئے شماس کی طرف رینگتا آرہا تھا ۔گرمی کی شدت میں سانپوں میں زہر بہت ہی تیز ہوجاتا ہے۔اور فورا ہی اثر کرتا ہے ۔سانپ اور شماس میں ایک دو قدموں کا ہی فاصلہ رہ گیا تھا۔عمرو بن عاص اتنی جلدی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے کہ سانپ کو شماس تک پہنچنے سے پہلے مار ڈالتے یا بھگادیتے۔اس زمانے میں گڈریے اپنے ساتھ تیر اور کمان ضرور ہی رکھا کرتے تھے ۔تلوار اور برچھی بھی ان کے پاس ہوتی تھی لیکن تیر و کمان کو اس لیے زیادہ ضروری سمجھا جاتا تھا کہ مویشی یا بھیڑ بکریاں چرتی چگتی دور نکل جاتی تھی ۔کوئی درندہ آ نکلتا تو گڈریے دور سے اسے تیر مار سکتے تھے۔عمرو بن عاص اونٹ چرانے کے لیے گئے تھے ،اس لئے تیروکمان بھی ساتھ لے گئے تھے۔ انہوں نے سانپ کو دیکھا تو فوراً کمان میں تیر ڈالا اور سانپ کے سر پر تیر چلایا فاصلہ بہت تھوڑا تھا۔ اس لئے تیر سانپ کے سر میں سے گزر کر زمین میں گڑ گیا۔ سانپ وہیں لوٹ پوٹ ہوتا رہا اور مر گیا۔انہوں نے شماس کو جگانا مناسب نہ سمجھا ۔وہ بڑی گہری نیند سویا ہوا تھا۔کچھ دیر بعد شماس کی آنکھ کھلی اوروہ اٹھ بیٹھا سب سے پہلے اس کی نظر سانپ پر پڑی اور وہ بدک کر اٹھا اور اس سے دور ہٹ کر اسے دیکھنے لگا ۔اس نے سانپ کے سر میں گزرا ہوا اور کچھ زمین میں گڑا ہوا تیر دیکھا۔تو گھوم کر عمرو بن عاص کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر حیرت تھی۔عمرو بن عاص مسکرا رہے تھے۔مر گیاہے ــــــ  عمر وبن عاص نے کہا ۔اب ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ تمہارے پاس پہنچ گیا تھا۔ میرے تیر نے اسے آگے نہیں آنے دیا۔شماس آہستہ آہستہ عمروبن عاص کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔وہ انھیں دیکھتا ہی رہا جیسے اس کی زبان بولنے سے عاری ہو گئی ہو ۔عمرو بن عاص بھی اسے دیکھتے رہے اور منہ سے کچھ بھی نہ بولے۔
تم مجھے انسان نہیں لگتے ــــــ  شماس نے کہا ــــــ  خدا نے تمہیں میری حفاظت کیلئے آسمان سے اتارا ہے۔کہیں تم آسمانی مخلوق تو نہیں ہو؟
خدا کی قسم اتنی زیادہ حیرت کی بات تو نہیں تھی ــــــ  عمرو بن عاص نے کہا ــــــ  انسان ہی تو انسان کے کام آیا کرتا ہے۔میں آسمان سے نہیں اترا مکّہ سے بغرض تجارت آیا ہوں اور میں قبیلہ قریش کا آدمی ہوں۔میں مصر کے سب سے بڑے شہر اسکندریہ کا رہنے والا ہوں ــــــ  شماس نے کہا یہ مت سوچ کہ میں مصری ہوئی اس لئےتمہارے ملک عرب کے رسم و رواج سے ناواقف ہو ں گا۔میں جانتا ہوں کہ ملک عرب میں ایک انسانی جان کا خون بہا 100 اونٹ ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ 100 اونٹوں کی قیمت ایک ہزار دینار ہوتی ہے کیا میں نے غلط کہا ہے۔
نہیں دوست، عمرو بن عاص نے کہا؛ تم نے غلط نہیں کہا ،عرب میں ایک انسانی جان کی قیمت ایک سو اونٹ ہی ہے، اور یہ قیمت اتنی زیادہ ہے کہ ہر کوئی اتنی قیمت نہیں دے سکتا ،اس لئے کوئی کسی کو قتل نہیں کرتا ،لیکن انسانی جان کی قیمت کا خیال تمہیں کیوں آیا؟یہ مت پوچھ کہ مجھے یہ خیال کیوں آیا ہے۔ شماس نے کہا میں تمہیں اپنے ملک لے چلوں گا خدا کی قسم، میں تمہیں دو جانوں کی قیمت دوں گا۔ یہ تمہارا حق ہے جو میں نے ادا نہ کیا تو خدا مجھ سے ناراض ہو گا۔یہ نبیوں اور پیغمبروں کی مقدس سرزمین ہے، میں ان کی مقدس روحوں کو ناراض کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔لیکن یہ تو بتاؤ ــــــ  عمروبن عاص نے پوچھا ــــــ  وہ کون سے دو انسان ہیں جنہیں تم نے قتل کیا ہے؟اور میں کون ہوتا ہوں جو خون بہا وصول کروں ۔عرب کے لوگ اتنے کم عقل تو نہیں ہوتے جتنے تم لگ رہے ہو ــــــ  شماس نے کہا۔
تم نے دو بار میری جان بچائی ہے، کہ پیاس نے تو میری جان لے ہی لی تھی۔ تم اگر کچھ ہی دیر اور مجھے پانی نہ پلاتے تو میں مر چکا ہوتا ،پھر تم نے مجھے اس اتنے زیادہ زہریلے سانپ سے بچایا تم تیر چلانے میں ذرا سی بھی کوتاہی کرتے تو سانپ مجھے ڈس لیتا اور میں بیدار ہونے سے پہلے ہی مر چکا ہوتا ،پھر بتا مجھ پر دو جانوں کی قیمت واجب ہوتی ہے یا نہیں؟
عمرو بن عاص بڑے معزز اور برتر خاندان کے فرد تھے انہوں نے شماس سے کہا کہ ان کا اس پر کوئی حق نہیں بنتا۔ انہوں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے۔
میرے عربی دوست ــــــ  شماس نے کہا تم نہیں جانتے تم نے کس کی جان بچائی ہے خدا نے مجھے اتنی دولت دی ہے اور ایسا رتبہ دیا ہے کہ میرے دوستانہ تعلقات شاہی خاندان کے ساتھ اور وہاں کے امراء اور حکام کے ساتھ بڑے گہرے ہیں۔اور ان حلقوں میں مجھے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔میرے پاس یہاں دو ہزار دینار ہوتے تو میں تمہارا حق یہی ادا کر دیتا ۔میں تمہیں اسکندریہ لے چلوں گا اور تم انکار نہیں کرو گے۔جہاں تم نے مجھ پر دو احسان کئے ہیں وہاں تیسرا احسان یہ کرو کہ میرے ساتھ چلو۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

عمرو بن عاص مالدار باپ کے بیٹے تھے اور تجارت بھی وسیع پیمانے کی تھی اس لئے سیروسیاحت کا ذوق و شوق بھی تھا وہ جہاں چاہتے بڑے آرام سے جا سکتے تھے۔ شماس کی پیشکش قبول کرنے میں وہ اس لئے پس و پیش کر رہے تھے کہ وہ احسان کا صلہ نہیں لینا چاہتے تھے۔ ویسے شماس کی پیشکش عمر بن عاص کی خواہش کے عین مطابق تھی۔ انہوں نے اس کی بہت شہرت سنی تھی اور کئی بار انہیں اسکندریہ جانے کا خیال آیا تھا انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ آج کیا واقعہ ہوا ہے اور یہ شخص انہیں کیا صلہ دے رہا ہے۔اپنے ساتھیوں کی اس جماعت کے وہ سربراہ تھے ۔ساتھی انھیں روک نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شخص کی پیش کش قبول کر لے اور اس کے ساتھ چلے جائیں۔ عمرو بن عاص نے اپنی پسند اور مرضی کا ایک ساتھی اپنے ساتھ تیار کرلیا اور اگلے روز وہ آ گئے جہاں شماس ٹھہرا ہوا تھا۔ اسے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ اسکندریہ جائیں گے انہوں نے روانگی کا دن اور وقت طے کرلیا۔اس دور میں نہر سوئز نہیں ہوا کرتی تھی اس لیے خشکی کے راستے بھی مصر جایا جاسکتا تھا ۔اور اسکندریہ تک جانے کے لیے بحری راستہ بھی تھا ۔یہ بتانا ممکن نہیں کہ وہ لوگ کس راستے گئے خشکی یا سمندر کے راستے ، تاریخ نے اتنا ہی لکھا ہے کہ عمرو بن عاص اپنے ایک ساتھی کے ساتھ شماس کے ہمراہی میں اسکندریہ پہنچ گئے۔ بیت المقدس سے اسکندریہ کا فاصلہ پانچ سو کلومیٹر ہے۔عمرو بن عاص نے جب اسکندریہ شہر کی شان و شوکت اور حسن و جمال دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ انہوں نے بے ساختہ کہا ،شماس میں نے ایسا شہر اور اتنی دولت کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی ۔جس کی ریل پیل یہاں دیکھ رہا ہوں۔
 مورخوں نے ایک واقعہ لکھا ہے جو دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی ۔وہ یوں ہے کہ انہی دنوں اسکندریہ میں ایک جشن منایا جارہا تھا۔ تاریخ میں یہ پتہ نہیں ملتا کہ کیسا جشن تھا؟ جس میں صرف شہر کے لوگ ہی شامل نہیں تھے بلکہ شاہی خاندان بھی اس میں شامل تھا اور امراء وزراء اور حاکم بھی اس میں شریک تھے۔ شہسواری تیراندازی تیغ زنی اور کشتیوں کے مقابلے بھی ہو رہے تھے لوگوں نے بڑے ہی قیمتی کپڑے پہن رکھے تھے۔شماس عمرو بن عاص کو بھی اس جشن میں لے گیا ۔شماس نے عمرو بن عاص کے لیے ریشمی لباس تیار کروا کے انھیں پہنایا تھا ۔عمرو بن عاص نے دیکھا کہ شاہی افراد اور حکام بالا میں شماس کو خصوصی پذیرائی حاصل تھی۔ اس روز اس جشن کی خاص تقریب منائی جا رہی تھی۔لوگ ایک دائرے میں اکٹھا ہو گئے تھے۔ شاہی افراد کے لئے آگے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی گئی تھی لوگوں کے ہجوم کے درمیان جو خالی جگہ تھی وہاں ایک آدمی کھڑا تھا ۔
اس کے ہاتھ میں ایک سنہری گیند تھی وہ بار بار گیند کو پوری طاقت سے اوپر کو پھیکتا تھا۔ اور گیند اوپر جا کر زمین پر گرتی تھی۔
شماس نے عمروبن عاص کو بتایا کہ جب کبھی یہ جشن منایا جاتا ہے۔ اس میں یہ تقریب ضرور منعقد ہوتی ہے۔ ایک آدمی آنکھیں بند کرکے گیند اوپر پھیکتا ہے اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کے ایک بازو پر گرے وہ شخص بادشاہ بنے بغیر مر نہیں سکتا ۔عمرو بن عاص نے دیکھا کہ گیند زیادہ تر زمین پر گرتی تھی۔  اور اگر کسی آدمی پر گریں تو اس کے بازو پر نہ گری سر پر یا کندھے یا پیٹ پر گری، شماس چونکہ صاحب حیثیت اور مرتبے والا آدمی تھا، اس لئے اسے آگے بیٹھنے کو جگہ ملی اور وہ عمرو بن عاص کو بھی آگے لے گیا، گیند پھینکنے والے نے ایک بار پھر گیند اوپر کو پھینکی تو گیند عمرو بن عاص کے دائیں بازو پر آپڑی اور عمرو نے گیند کو وہیں پکڑ لیا ۔شاہی خاندان کے افراد اٹھ کھڑے ہوئے، وہ اس شخص کو اچھی طرح دیکھنا چاہتے تھے جس کے بازو پر گیند گری تھی۔شماس نے اٹھ کر اعلان کیا کہ اس شخص کا نام عمرو بن عاص ہے اور یہ مکہ سے یہاں آیاہے ۔تماشائیوں میں کئی لوگ قہقہہ لگا کر ہنسے اور کسی کی بڑی بلند آواز آئی۔ یہ سب غلط ہے۔۔۔۔ عرب کا یہ بدبو ہمارا بادشاہ نہیں ہو سکتا ۔ہجوم میں سے کئی آوازیں اٹھیں۔ نہیں ۔۔۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ چھوٹا ناٹا سا بدو  مصر کا بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمرو بن عاص عرب کے عام لوگوں کی طرح دراز قد نہیں تھے ۔ان کا قد چھوٹا، سر بڑا ،ہاتھ اور پاؤں کچھ زیادہ ہی بڑے تھے، ان کی بھویں گھنی تھیں، اور منہ بھی کچھ زیادہ چوڑا تھا، داڑھی لمبی رکھتے تھے، سینہ تو خاص طور پر چھوڑا تھا۔ یہ کسی دلکش آدمی کی تصویر نہیں بنتی لیکن ان کی سیاہ چمکیلی آنکھوں اور چہرے پر بشاشت اور زندہ دلی کا تاثر رہتا تھا۔ غصے والی بات پر بھی انہیں غصہ نہیں آتا تھا ان کا یہ جسم دیکھ کر اسکندریا والوں نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ شخص انکا بادشاہ نہیں ہوسکتا۔اللہ کے بھید کو کوئی نہیں پا سکتا ،کوئی بھی نہ سمجھ سکا ۔خود عمروبن عاص بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ اللہ تبارک و تعالی کا ایک اشارہ ہے۔ جو کچھ ہی عرصے بعد عملی شکل میں سامنے آجائے گا ۔اور آج جو لوگ اور شاہی خاندان کے جو افراد اس عربی بدو کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ انقلاب بھی دیکھیں گے کہ یہی عربی مصر کے بادشاہ کا تخت الٹ دے گا۔ اور فاتح مصر کہلائے گا اور انھیں لوگوں پر اس کا حکم چلے گا۔گیند کی رسم ادا ہو چکی تھی اور گیند نے ان کے عقیدے کے مطابق فیصلہ دے دیا تھا ۔لیکن تماشائیوں کا ہجوم اس فیصلے کو منظور نہیں کررہا تھا۔ اس رسم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جس پر گیند گری ہو اسے اسی وقت بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔ بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ آنے والے وقت میں بادشاہ بن سکتا ہے لیکن ہجوم نے ہنگامہ بپا کر رکھا تھا۔
شماس نے عمرو بن عاص کا بازو پکڑا اور انہیں وہاں سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا اور گھر لے گیا۔ دو تین دن اور اسکندریہ  کی سیر کروائی اور پھر بوقت رخصت دو ہزار دینار پیش کیے ،جو عمر بن عاص نے کچھ پس و پیش کے بعد لے لیے ۔شماس نے عمرو بن عاص اور ان کے ساتھی کے ساتھ اپنا ایک آدمی روانہ کیا اور اس سے کہا کہ انھیں بیت المقدس چھوڑ کر واپس آجائے۔ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ عمرو بن عاص مصر سے تو آگئے لیکن مصر اور اسکندریہ ان کے ذہن پر ایسا سوار ہوا کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ مصر میں جاکر آباد ہونا چاہتے ہیں۔
چونکہ یہ باب اس داستان کا تعارفی باب ہے اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن عاص کی شخصیت اور جنگی فہم و فراست کی ایک دو جھلکیاں دیکھ لی جائیں۔یہ تو بیان ہو چکا کہ عمرو بن عاص نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا ۔اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کس طرح اعتماد کیا۔ اور انہیں جنگی امور میں اعلی رتبہ دیا تھا ۔ہم آپ کو اس داستان کے اس دور میں تھوڑی سی دیر کے لیے لے جاتے ہیں جب ابوعبیدہ، خالد بن ولید، شرجیل بن حسنہ، اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم نے شام سے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیے تھے۔ اور رومی پسپائی کی کیفیت میں داخل ہو چکے تھے۔ہم کسی معرکے کو تفصیل سے بیان نہیں کریں گے، ورنہ اصل داستان دھری رہ جائے گی۔

 رومیوں کا مشہور جرنیل تو ہرقل تھا لیکن ان کا ایک انتہائی چالاک عیار اور مکار جرنیل اطربون تھا۔ اس کی عسکری فہم و فراست اور میدان جنگ میں نظروں کی گہرائی کا تو کوئی جواب ہی نہیں تھا۔ وہ ہرقل کا ہم پلہ اور ہم رتبہ تھا ،لیکن اس کے مقابلے میں طفل مکتب لگتا تھا ،تاریخ حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ مسلمان سپہ سالاروں نے اطربون کو کس طرح شکست دے دی تھی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما چکے تھے، خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ،اور اب خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ عمررضی اللہ عنہ عمرو بن عاص کے جوہر دیکھ چکے تھے۔ اور ان کی خوبیوں سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے۔ عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے، کہ خالد بن ولید خطرہ مول لیا کرتے ہیں، اور شجاعت میں دوسروں کو حیران کر دیتے ہیں، لیکن عمرو بن عاص سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں اور آگ میں بھی کود جاتے ہیں ، جنگی مبصروں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص دشمن کو دھوکہ دینے کی پالیسی پر عمل کرتے تھے۔ اور ان میں شجاعت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔دوبدو معرکوں میں دشمن تو ان کے سامنے کبھی ٹھہرے ہی نہیں سکتا تھا۔ اور انہوں نے ایسی مثالیں پیش کر کے دکھا دی تھی۔
رومی فوجیں شام سے پسپا ہوئی اور فلسطین میں مختلف مقامات پر پھیل گئی یہ رومیوں کی ایک چال تھی جو انہوں نے مسلمانوں کی قلیل تعداد دیکھ کر چلی تھی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کا لشکر کسی ایک مقام پر حملہ کرے گا تو یہ تمام بکھری ہوئی فوج اس طرح اکٹھا کر لی جائے گی کہ مسلمان کے اس تھوڑے سے لشکر کو ہر طرف سے گھیر لیا جائے گا۔
عمرو بن عاص کے ذمہ بیت المقدس کی فتح لگادی گئی ان کے مقابل رومیوں کا انتہائی چالاک جرنیل تھا وہ اس وقت اپنی فوج اجنادین کے مقام پر لے جا رہا تھا۔ عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کی نفری اور جسمانی کیفیت دیکھی تو امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کمک بھیجیں دیں کیونکہ مقابلہ اطربون سے ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام ملتے ہی اچھی خاصی کمک بھیج دی (اور تاریخ میں آیا ہے )کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک بڑا دلچسپ جملہ کہا انہوں نے فرمایا ہم نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے ۔اب دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔
حضرت عمر اچھی طرح جانتے تھے کہ اطربون جنگی کیفیت میں لومڑی جیسی چالاکی اور عیاری کو ایسی خوبی سے استعمال کرتا ہے کہ اپنے دشمن کو چکر دے کر بھگا دیتا ہے۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کچھ ایسے ہی اوصاف عمروبن عاص میں بھی تھے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷

 امیر المومنین کی بھیجی ہوئی کمک فلسطین عمرو بن عاص کے پاس پہنچ گئی ۔عمرو بن عاص نے یوں نہ کیا کہ ساری کمک اپنے پاس رکھ لیتے ۔انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اپنا لشکر تین چار حصوں میں بٹ گیا تھا ۔اور کسے کمک کی زیادہ ضرورت تھی۔ انہوں نے دو مقامات پر  کمک بھیج دیا اور کچھ اپنے ساتھ رکھی۔ لیکن جب آگے بڑھے تو دیکھا کہ اطربون نے اپنی فوج قلعہ بند کر لی ہے۔ اور چاروں طرف گہری خندق کھود رکھی ہے۔ عمرو بن عاص نے دیکھ لیا کہ محاصرہ کیا تو بڑا ہی لمبا ہوجائے گا اور خندق کی وجہ سے یہ قلعہ سر کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت ہی دشوار ضرور ہوگا طریقہ ایک ہی ہے کہ اب ان کو دھوکے میں لایا جائے۔ انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دو ایلچی اطربون کی طرف بھیجے جن کے لئے ہدایت یہ تھی کہ وہ عطربون کے ساتھ صلح کے معاہدے کی بات چیت کریں تو وہ یقینا نہیں مانے گا ،لیکن اصل مقصد یہ ہے کہ قلعے کے اندر اچھی طرح دیکھیں کہ یہ قلعہ کس طرح سر کیا جاسکتا ہے۔ اور رومیوں کے فوج کی نفری کتنی ہے وغیرہ وغیرہ ۔عمرو بن عاص کا مقصد صلح نہیں تھا بلکہ جاسوسی تھا۔ دونوں ایلچی گئے اور بات چیت کر کے واپس آ گئے۔
 عمرو بن عاص نے جب ان سے اپنے ذہن کے مطابق پوچھنا شروع کیا کہ انہوں نے کیا فلاں چیز دیکھی تھی؟ کیا بات کی تھی؟ عطربون کے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا ؟اور تم لوگ دیکھ کر کیا آئے ہو؟ عمرو بن عاص نے دیکھا کہ یہ دو ایلچی نکمے ثابت ہوئے ہیں۔ اور وہاں عطربون سے مرعوب ہو کر آئے ہیں۔ اور انہوں نے جاسوسی پوری طرح کی ہی نہیں۔ عمرو بن عاص نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا کہ وہ خود ایلچی بن کر جائیں گے۔ اور یہ ظاہر ہونے ہی نہیں دیں گے کہ مسلمانوں کی اس لشکر کے سپہ سالار وہی ہیں ۔اور ان کا نام عمرو بن عاص ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کو ذرا سا بھی شک ہو گیا تو وہ پکڑ کر قتل کروا دے گا ،یا کال کوٹھری میں پھینک دے گا۔
 عمرو بن عاص نے بھیس بدلا اور اپنے سالاروں سے رائے لی ہیں اور انکے رائے کے مطابق اپنے بہروپ میں کچھ تبدیلیاں کیں اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔ قلعے کے دروازے پر جاکر انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار نے انہیں ایلچی کے طور پر بھیجا ہے۔ اور عطربون سے بات چیت کرنی ہے ۔اطربون کو اطلاع ملی تو اس نے انہیں فوراً بلالیا ۔
عمروبن عاص عطربون کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ اور ایسی اداکاری کی جیسے وہ صرف ایلچی ہیں۔ اور اپنے لشکر میں ان کا کوئی ایسا اونچا رتبہ عہدہ نہیں۔ عطربون نے انہیں اتنی ہی تعظیم دی جیتنی ایک ایلچی کو دی جایا کرتی تھی۔ صلح کے مذاکرات شروع ہوئے عمرو بن عاص نے تو یہ سن رکھا تھا کہ عطربون بہت ہی چالاک  آدمی ہے۔ لیکن انھیں اندازہ نہ تھا کہ وہ کس حد تک چالاک ہے ۔اور اس کی نظریں کتنی گہرائی تک پہنچ جایا کرتی ہیں۔
 عمرو بن عاص آخر سپہ سالار تھے اور اپنے قبیلے میں بھی انہیں برتری حاصل تھی اور یہ برتری انکا بنیادی جزو تھا۔ انسان شعوری طور پر تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ لیکن لاشعور پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں ہوتا، شاید باتیں کرتے کرتے عمرو بن عاص  کے منہ سے کچھ ایسی بات نکل گئی ہو گی یا انہوں نے لب و لہجے میں کوئی ایسا تاثر پیدا کر دیا ہو گا کہ عطربون چونکا۔
 میری نظروں نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا ۔عطربون نے مسکراتے ہوئے کہا میرا خیال ہے کہ میں کسی ایلچی سے نہیں بلکہ عرب کے سپہ سالار کے ساتھ بات کررہا ہوں ۔کیا تم عمرو بن عاص نہیں ہو ؟نہیں۔ عمرو بن عاص نے جواب دیا ۔اگر میں عمرو بن عاص ہوتا تو اپنے اوپر جھوٹا پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ہمارے سپہ سالار عمرو بن عاص اتنے نڈر اور بے خوف انسان ہیں کہ انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں۔  تاریخ میں لکھا ہے کہ عطربون ہنس پڑا۔ جیسے وہ عمرو بن عاص کی بات مان گیا ہو اور انہیں ایلچی ہی سمجھ رہا ہو۔ جنگ کے بعد جنگی قیدیوں سے پتہ چلا تھا کہ عطربون نے عمرو بن عاص کو صحیح پہچانا تھا۔ اور انہیں دھوکا یہ دیا تھا کہ اسے غلطی لگی ہے اور واقعی ایلچی ہے۔ عمرو بن عاص اس کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور سوچنے لگے کہ یہاں سے کس طرح نکلا جائے۔ انہیں شک اس طرح ہوا کہ مذاکرات کے دوران عطربون کسی بہانے باہر نکلا اور جلدی واپس آ گیا اور مذاکرات شروع کردیئے اس کی اس حرکت سے عمرو بن عاص کو پکا شک ہوگیا کہ ان کی خیر نہیں۔ بعد میں جو اصل بات کھلی تھی وہ یہ تھی کہ اطربون نے باہر جاکر اپنے ایک محافظ سے کہا تھا کہ وہ فلاں جگہ جاکر انتظار کرے اور یہ عربی جو اندر بیٹھا ہے واپس جا رہا ہوں تو پیچھے سے اس کی گردن پر ایسا وار کرے کہ سر تن سے جدا ہو جائے۔

 وہ محافظ اس جگہ چلا گیا تھا جو اس کام کے لیے موضوع تھی۔ عمرو بن عاص نے ایک طریقہ سوچ لیا انہوں نے مذاکرات کا رنگ ہی بدل ڈالا اور یوں ظاہر کرنے لگے جیسے وہ رومیوں کی طاقت سے ڈرتے ہیں اور ان کے شرائط مان لیں گے اس رویے کا اثر ان پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ اب میں آپ کو اپنی اصل حیثیت بتاتا ہوں ۔عمرو بن عاص نے کہا ۔ میں سپہ سالار عمرو بن عاص کا بھیجا ہوا ایلچی نہیں ہوں۔ بلکہ ہم اپنے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)کے بھیجے ہوئے دس مشیر ہیں اور ہمیں آپ کے ساتھ صلح کی بات چیت کیلئے بھیجا گیا اور ہمارے حکم یہ ہے کہ قابل قبول شرائط مان لیں۔ہم مدینہ سے سیدھے آپ کے پاس پہنچے ہیں۔عمروبن عاص کا ان مذکرات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔میں نے آپ کی بات سن لی ہے ۔ میرے باقی نو ساتھی  میرے انتظار میں بیٹھے ہیں اگر آپ چاہیں تو میں ان سب کو یہاں لے آؤں گا اور آپ چاہیں تو میں جاکر انہیں بتاؤں گا کہ یہ بات ہوئی ہے ۔فیصلہ کرکے آپ کو بتا دیں گے۔ مجھے یہی توقع ہے کہ میرے ساتھی آپ کی شرائط مان لیں گے ۔ یہ تو اور زیادہ اچھا ہے اطربون نے کہا بہتر ہے تم انہیں یہی لے آؤ۔اطربون پھر کسی کام کے بہانے  باہر نکلا اور ایک محافظ کو یہ حکم دیا کہ فلاں محافظ فلاں جگہ کھڑا ہوگا اسے کہہ دو کہ تمہیں جو پہلے کام بتایا تھا وہ اب نہیں کرنا اور واپس آ جاؤ۔ عمروبن عاص وہاں سے اٹھے  خیروبخوبی قلعے سے نکل آئے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔اطربون شام تک انتظار کرتا رہا۔ یہ عربی سپہ سالار مجھے دھوکا دے کر زندہ نکل گیا ہے ۔اطربون نے کہا میں نے اس سے بڑھ کر عیار آدمی کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے بعد میدان میں بڑی خونریز لڑائی ہوئی جس میں دونوں طرف کا بے پناہ جانی نقصان ہوا اور اطربون اپنی بچی کچھی فوج کو ساتھ لے کر بیت المقدس چلا گیا اور وہاں فوج کو قلعہ بند کر لیا ۔عمرو بن عاص اور ایک دو اور سالاروں نے بیت المقدس کو محاصرے میں لے لیا۔
 ایک روز عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی کہ اطربون کا کوئی ایلچی پیغام لایا ہے۔ انہوں نے ایلچی کو فورا بلالیا اور پیغام لے کر پڑھا۔ اطربون نے لکھا تھا۔ تم میرے دوست ہو اور تمہاری قوم نے تمہیں وہی رتبہ دیا ہے جو میری قوم نے مجھے دے رکھا ہے۔ میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تم نے اگر اجنادین ہم سے لے لیا تو اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہنا کہ تم فلسطین کا کوئی اور حصہ فتح کر لو گے ۔تم فلسطین میں اب کوئی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ تمہارے لیے بہتر یہ ہے کہ یہیں سے واپس چلے جاؤ اور اپنے آپ کو تباہی سے بچا لو اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تمہارا انجام انہیں جیسا ہوگا جو بیت المقدس کو فتح کرنے آئے تھے اور پھر زندہ واپس نہ جا سکے۔ عمرو بن عاص نے اطربون کے ایلچی کے ہاتھ اس کے پیغام کا جواب بھیج دیا انہوں نے جواب میں لکھا۔ میں فلسطین کا فاتح ہوں میں تمہیں دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے مشیروں کے ساتھ تبادلہ خیالات کرلو ہوسکتا ہے وہ تمہیں تباہی سے بچانے کے لئے کوئی دانشمندانہ مشورہ دے سکے۔
 اجنادین اور بیت المقدس کی فتح ایک الگ داستان ہے یہاں ایک دلچسپ بات سامنے آتی ہے جو تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ اطربون نے عمرو بن عاص کا پیغام پڑھااور ان کے الفاظ پڑھ کر وہ ہنس پڑا کہ میں فلسطین کا فاتح ہوں۔ ابھی بیت المقدس فتح نہیں ہوا تھا اطربون نے عمرو بن عاص کا یہ پیغام اپنے مصاحبوں اور مشیروں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ عمرو بن عاص بیت المقدس کا فاتح نہیں ہوسکتا ،اس نے ایسے لہجے میں یہ بات کہی کہ سننے والوں کو یہ خیال آیا کہ بیت المقدس ضرور فتح ہوگا ،لیکن فاتح عمر بن عاص نہیں ہونگے، ان میں سے کسی نے اس سے پوچھا کہ اس نے ایسی بات کیوں کہی ہے۔  بیت المقدس کے فاتح کا نام عمر ہے۔اطربون نے یہ عجیب بات کہی ، توریت میں لکھا ہے کہ بیت المقدس کے فاتح کے نام میں صرف تین حروف ہوں گے یہ تین حروف عمر ہوسکتے ہیں۔ پھر تورات میں عمر کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں جن میں کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں تورات میں صاف لکھا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔ طبری لکھتا ہے کہ اطربون نے یہ بات حتم و یقین کے لہجے میں کہی اور اس کی اس مجلس پر سناٹا طاری ہو گیا ۔بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اطربون بغیر لڑے بیت المقدس سے اپنی فوج نکال کر مصر کو بھاگ گیا۔

جاری ہےــــــــ

اپنا تبصرہ بھیجیں