خاموشی اور سکون کی حالت میں تمہارا دل دن اور رات کے تمام رازوں سے واقف ہوسکتا ہے۔
مگر تمہارے کان منتظر رہتے ہیں کہ تمھارے دل کا علم ان تک پہنچے۔
تم چاہتے ہو کہ وہ راز جو تمھارے دل میں واضح رہتا ہے۔
الفاظ کے پیکر میں تمھارے کانوں تک پہنچے۔
تم چاہتے ہوکہ اپنے تصور کے عریاں جسم سے اپنی انگلیوں کو مس کرسکو۔
اور بہتر ہے ایسا ہی ہو۔
تمھاری روح کی گہرائی کا سرچشمہ ضرور ہے کہ لبریز ہو کر چھلکے۔
اور شور مچاتا ہوا سمندر کی طرف دوڑے۔
تب سمندر کی بے پایاں گہرائی کے خزانے تمھاری آنکھوں کے سمانے روشن ہوجائیں گے۔
مگر نامعلوم خزانوں کو کسی ترازو میں تولنے کی کوشش نہ کرو۔
اور نہ علم کی گہرائی کو لکڑی اور ڈوری کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کرو۔
اس لئے کہ تمھارے وجود معنوی ایک مندر ہے،جوبےپایاں اور ناپید کنار ہے۔
یہ نہ کہو کہ تم نے حق کو پالیا ہے۔
بلکہ صرف یہ کہو کہ میں راستہ چلتے چلتے ایک جگہ اپنی روح سے دوچار ہوا۔
اس لئے کہ روح کے راستے بہت ہیں۔
اور وہ نہ ایک مقرر ہ راستے پر چلنے کے لئے مجبور ہے۔
نہ جنگل کے ایک پودے کی طرح پابند ہے۔
روح جب پھلتی اور پھولتی ہے تو اس طرح پھولتی ہے جس طرح ہزار پتیوں والا کنول!