فلسفہ حُسن

فلسفہ حُسن | فلسفہ جبران | خلیل جبران

تم حُسن کو کہاں پاؤ گے اور کس طرح پاؤ گے؟
علاوہ اس کے یہ خود ہی تمہیں راستے میں مل جائے یا تمہاری رہنمائی کے لئے کوئی اشارہ کرے۔
اور تم کس طرح اس کا ذکر زبان پر لا سکو گے؟
علاوہ یہ کہ وہ تمہاری ہی زبان سے گفتار کا چشمہ جاری کرے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں۔
حُسن مہربا ن ہے اور اس کی گرفت بہت نرم ہے۔
وہ آنکھیں نیچے کئے ہما رے درمیان سے گزرتا ہے۔

اور بعض کہتے ہیں۔
نہیں ، یہ طاقت کا ایک خوفناک دیوتا ہے۔
ایک طوفان کی طرح وہ ہمارے قدموں کے نیچے زمین کو اور ہمارے سروں کے اوپر آسمان کو ہلا دیتا ہے۔

اور جو تھکے ہیں وہ کہتے ہیں۔
حُسن ایک مدھم آواز ہے ایک ہلکا راگ ہے جو ہما ری روح کے اندر آہستہ آہستہ ترنم پیدا کرتا ہے۔

مگر جو لوگ بے چین ہیں اور اضرابِ ذوق میں مبتلا ،وہ کہتے ہیں۔
ہم نے حسن کو پہاڑ کی وادیوں میں گرجتے سنا ہے۔

شب کے وقت بستی کے چوکیدار کہتے ہیں۔
حُسن صبح کو مشرق سے بیدار ہوکر آئے گا۔
اور دوپہر کے وقت کھیتوں کے مزدور اور راستوں پر مسافر کہتے ہیں۔
ہم نے غروب آفتاب کے وقت، حسن کو آسمان کے دریچے سے زمین کی طرف جھانکتے دیکھا ہے۔

تم لوگ کس کس عنوان کے تحت حسن کا ذکر کرتے ہو؟
 لیکن درحقیقت تم حسن کا ذکر ہی کب کرتے ہو ۔ ۔ ۔
تم تو محض اپنی ضرورتوں اور خوائشوں کا ذکر کرتے ہو جو پوری نہیں ہوئیں۔
مگر حسن ضرورت اور خوائش نہیں ہے۔
وہ صرف ایک کیف ہے۔ ۔ ۔ ۔ کیف اعلی

وہ پیاسے کے خشک ہونٹ اور سائل کا پھیلا ہوا ہاتھ نہیں ہے۔
بلکہ وہ دل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔جوش طلب سے پُر
وہ ایک روح ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسحور!
نہ وہ کوئی مندر کی مورتی ہے جسے تم دیکھ سکو۔
نہ کوئی گیت جس کو تم سن سکو۔
بلکہ ایک نقش تصور ہے جس کو تم آنکھ بند کرکے دیکھ سکتے ہو۔
ایک راگ ہے جسے تم کان بند کرکے سن سکتے ہو۔
ایک باغیچہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدا بہار!
فرشتوں کی ایک سنگت ہے جو ہمیشہ فضا میں منڈلاتی رہتی ہے۔

اے اہلِ عرفہ! حُسن حیات ہے۔ ۔ ۔ یعنی جب وہ اپنا مقدس چہرہ بے نقاب کردے۔
مگر تم مظر حیات ہو۔ ۔ ۔ ۔اور تم ہی وہ نقاب ہو ، جو اس کے چہرے کو چھپائے ہوئے ہے۔
حُسن ابدالاباد ہے ،جو ہمیشہ اپنا عکس آئینہ حیات میں دیکھتا ہے۔
اور تم ہی حسن بد ہو اور تم ہی آئینہ حیات ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں