حکایات رومی
ایک دفعہ چند آدمی ہندوستان سے ایک ہاتھی کسی دوسرے ملک میں لے گئے، اس علاقے کے لوگوں نے ہاتھی نہیں دیکھا ہوا تھا، ان آدمیوں نے ہاتھی کو ایک تاریک کمرے میں باندھ دیا،لوگوں کو جب ہاتھی کے متعلق میں پتہ چلا تو وہ جوق در جوق اس مکان کی طرف جانے لگے، تاریک کمرہ اور ہاتھی بھی سیاہ فام،دیکھنے والوں کا ہجوم تھا لیکن ہاتھی دیکھنے کا شوق اس اندھیرے پر غالب آیا۔
جب آنکھوں سے کچھ نہ دکھائی دیاتو ہاتھوں سے ٹٹول کر قیاس کرنے لگے، جس شخص کے ہاتھ میں جو حصہ ہوتا، وہ عقل سے اس پر دلیل و قیاس کرتا،چنانچہ جس شخص کے ہاتھ میں اس کا کان تھا ، اُس نے کہا؛ یہ تو ایک بڑا سا پنکھا معلوم ہوتا ہے۔جس شخص کا ہاتھ اس کی پشت پر تھا، اس نے کہا؛ یہ تو مثل تخت ہےاور جس شخص کا ہاتھ اس کے پاؤں اور ٹانگوں پر لگا، اس نے ٹٹول کر کہا؛نہیں، آپ لوگ غلط کہتے ہیں ،یہ تو مثل ستون ہے اور جس کا ہاتھ اس کے سونڈ پر پڑا ، اس نے کہا؛ تم سب غلط کہتے ہو ، یہ حیوان تو تلوے جیسا ہے۔
غرض ہر شخص کا دعوی تھاکہ ہاتھی ویسا ہی ہے جیسا اس نے ٹٹول کر جانا بوجھا ہے، ہر ایک کی ٹٹول الگ تھی، کسی نے کہا؛ الف ہے اور کسی نے ب کہا مگر ہاتھی کی ابجد سے کوئی بھی واقف نہ تھا ۔ہاں اگر ان کے ہاتھوں میں اندھیرا دور کرنے والی شمع روشن ہوتی تو یہ سارے اختلافات ختم ہو جاتے اور ان کو پتہ چل جاتا کہ ہاتھی کی شکل و شباہت کیسی ہے۔