متبرک شہر

متبرک شہر | خلیل جبران

میں اپنی جوانی کے زمانے میں سنا کرتا تھاکہ ایسا شہر ہےجس کے باشندے آسمانی صحیفوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔میں نے کہاکہ میں اس شہرکوضرور تلاش کروں گا اور اس کی برکت حاصل کروں گا۔

یہ شہر بہت دور تھا۔ میں نے سفر کے دوران کے لئے خوب سامان جمع کیا۔چالیس دن کے بعد میں نے اس شہر کو دیکھا اور اکتالیسویں دن اس کے اندر داخل ہوا۔مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس شہر کے تمام باشندوں کاصرف ایک ہاتھ اور ایک آنکھ ہے۔ میں نےحیران ہوکر اپنے دل سے کہاکہ اتنے متبرک شہر کے باشندوں کا صرف ایک ہاتھ اور ایک آنکھ!

میں نے دیکھا وہ خود بھی اس بات پر حیران ہیں ، میرے دو ہاتھوں اور دو آنکھوں نے انہیں محو حیرت میں ڈال دیا ہے۔اس لئے جب وہ میرے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا:کیا یہی وہ متبرک شہر ہے جس کا ہر باشندہ مقدس صحیفوں کے مطابق زندگی بسر کر تا ہے؟؟“

انہوں نے جواب دیا :ہاں یہ وہی شہر ہے۔

میں نے کہا: تمہاری یہ حالت کیونکر ہوئی؟تمہاری داہنی آنکھیں اور داہنے ہاتھ کیا ہوئے؟

وہ سب میری بات سے بہت متاثر ہوئے اور مجھ سے کہا:آ اور دیکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وہ مجھے شہر کے ایک معبد میں لے گئے – جو اس کے وسط میں واقع تھا۔میں نے اس معبد کے صحن میں ہاتھوں اور آنکھوں کا انبار لگا ہوا دیکھا وہ سب گل سڑ رہے تھے پھر میں نے کہا:افسوس کس سنگ دل فاتح نے تمھارے ساتھ یہ بدسلوکی کی ہے؟

اس پر انہوں نے زیرلب گفتگو شروع کی اور ایک بوڑھے آدمی نے آگے بڑھ کر مجھ سے کہا :یہ ہمارا اپنا کام ہے خدا نے ہمیں اپنی برائیوں پر فتح دی ہے ۔یہ کہہ کروہ مجھے ایک اونچے منبر پر لے گیا۔باقی تمام ہمارے پیچھے تھے پھر اس نے منبر کے اوپر ایک تحریر دکھائی جس کے الفاظ یہ تھے۔

اگر تمھاری داہنی آنکھ تمہیں ٹھوکر کھلائے تو اسے باہر نکال پھینکو ، کیونکہ سارے جسم کے دوزخ میں پڑنے سے ایک عضوکاضائع ہونا بہتر ہے اور اگر تمہارا داہنا ہاتھ تمہیں برائی پر مجبور کرے تو اسے کاٹ کر پھینک دو تاکہ تمہارا صرف ایک عضو ضائع ہوجائے اور سارا جسم دوزخ میں نہ پڑے۔

انجیل

یہ عبارت پڑھ کر مجھے ساری حقیقت معلوم ہوگئی ۔میں نے منہ موڑ کر تمام لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا:کیا تم میں کوئی آدمی یا عورت نہیں جس کے دو ہاتھ اور دو آنکھیں ہوں۔

ان سب نے جواب دیا :نہیں کوئی نہیں یہاں،ان بچوں کے سوا جو کمسن ہونے کی وجہ سے ان احکام پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔کوئی شخص صحیح سالم نہیں۔

جب ہم معبد سے باہر آئے تومیں فورا اس متبرک شہر سے بھاگ نکلا کیونکہ میں کمسن نہ تھا اور اس کتبے کو باآسانی پڑھ سکتا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں