میں نے ایک بادشا ہ کے بارے میں سنا کہ اس نے ایک قید ی کو قتل کر دینے کا حکم جا ری کیا۔ بے چا رے قید ی نے اس نا ا مید ی کی حا لت میں اپنی ز با ن میں بادشا ہ کو گا لیا ں دینا اور اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جب انسا ن کو جان کا خطرہ لا حق ہو تا ہے تو جو اس کے دل میں آ تا ہے ،کہہ دیتا ہے باد شا ہ نے پوچھا ؛ وہ قیدی کیا کہہ رہا ہے ؟تو ایک نیک خصلت وزیر نے با د شا ہ سے عر ض کیا کہ اےباد شا ہ سلا مت !وہ کہہ رہا ہے کہ وہ لو گ بہت اچھے ہو تے ہیں ،جو غصہ پی جا تے ہیں ،اور لو گو ں کو معا ف کر دیتے ہیں۔
با د شا ہ نے یہ سنا تواسے قید ی پر رحم آ گیا اور اس نےقتل کے ارادے کو تر ق کر دیا ،مگر دو سرا وزیر جو اس کے مخا لف تھا بو ل اٹھا ؛ ہمارے ہم پیشہ لو گو ں کو منا سب نہیں ہے کہ وہ با د شا ہ کے در بار میں سچی بات کے سوا کچھ کہیں ،اس نے بادشا ہ کو گا لیا ں دیں اور بادشاہ کی شا ن میں نا ز یبا با تیں کی ہیں ۔بادشا ہ نے جب یہ با ت سنی تو نا را ض ہوا ،اور بولا کہ وہ جھوٹ جو اس وزیر نے بو لا ہے مجھے اس سچ سے زیادہ پسند ہےجو تو نے بو لا ہے ۔ اس لیے کہ اس کا رخ نیکی کی طرف تھا ،اس سچ کی بنیا د سچ پر ہےعقل مندوں نے کہا ہے کہ مصلحت آمیز جھو ٹ فتنہ بر پا کر دینے والے سچ سے بہتر ہے۔