دو سادھو

دو سادھو | خلیل جبران

ایک پہاڑ پر دو سادھو رہتے تھے۔ان کا کام خدا کی عبادت اورآپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ ان کے پاس ایک مٹی کا پیالہ تھااور یہی ان دونوں کی کائنات تھی۔ایک دن بڑے سادھو کے دل میں بدی کی روح داخل ہوئی، وہ چھوٹے سادھو کے پاس آیا اور اس نے کہا :ہم دونوں کو اکٹھے رہتے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے اور اب جدا ہونے کا وقت آپہنچا ہے اس لئے آؤہم اپنی جائیداد تقسیم کرلیں۔

چھوٹے سادھو نے مغموم ہوکر کہا:بھائی تمھاری جدائی کا خیال میرے دل پر شاق گزر رہا ہے لیکن اگر تم جانا ہی چاہتے ہو ،تو خیر یونہی سہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“

یہ کہہ کر اس نے وہ پیالہ بڑے سادھو کے سامنے لا کر رکھ دیااور کہا:ہم اسے آپس میں بانٹ نہیں سکتے اس لئے اسے آپ ہی لے لیں۔

بڑے سادھو نے کہا : نہیں میں خیرات نہیں مانگنا چاہتا،میں اپنے حصے کے سوا اور کچھ نہ لوں گا ،ہمیں یہ پیالہ آپس میں تقسیم کرنا پڑے گا ۔

چھوٹے سادھو نے کہا :اگر یہ پیالہ ٹوٹ گیا، تو یہ ہمارے کس کام آئے گا؟ اگر تم پسند کرو تو ہم قرعہ ڈال کر اس کا فیصلہ کر لیں؟

لیکن بڑے سادھو نےدوبارہ کہا:میں صرف وہی چیز لوں گا جسے انصاف میری ملکیت قرار دے اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ انصاف کو قسمت پر چھوڑ دیا جائے،ہمیں یہ پیالہ ضرور تقسیم کرنا پڑے گا ۔

اس پر چھوٹے سادھو سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور اس نے کہا:اگر تمھارے یہی مرضی ہے تولاوء اسے توڑڈالیں۔

یہ سن کر بڑے سادھو کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا اور وہ چلا کر بولا:“اے بزدل انسان، کیا تواس پیالے کے لئے میرے ساتھ لڑے گا بھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟“

اپنا تبصرہ بھیجیں