درویش بادشاہ

درویش بادشاہ | خلیل جبران

لوگوں نے مجھے بتایا کہ پہاڑوں کے درمیان ایک کنج میں ایک نو جوان تنہا رہتا تھا،جو کبھی ان دریاؤں کے پاروسیع ملک کا تاجدار تھا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی مرضی سے تاج و تخت اور اپنے پر عظمت ملک کو خیر آبادکہہ کر اس جنگل میں آبسا تھا۔اور میں نے کہا کہ میں اس شخص کو تلاش کروں گااور اس کے دل کے راز معلوم کروں گا۔کیونکہ وہ شخص جس نے تخت وتاج کو چھوڑا ہو وہ یقینا ایک سلطنت سے زیادہ حیثیت کا مالک ہوگا۔

اسی دن میں نے ایک جنگل کی راہ لی جہاں وہ رہتاتھا اور میں نے کھوج پا لیا۔وہ سرو کے ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھا تھا،اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی،عصائے شاہی کی طرح ۔ میں یوں آداب بجا لایاجیسے میں کسی بادشاہ کاآداب بجا لاتا۔ اس نے میری طرف رخ پھیرا اور نرم لہجے میں کہا؛تم اس پر سکون جنگل میں کیوں آئے ہو؟ کیا تم ان ہرے بھرے درختوں کی چھاؤں میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہو یا دھندلکے میں گھر واپس جا رہے ہو؟
میں نے جواب دیا : میں صرف تمہیں دیکھنے آیاہوں کیونکہ میں یہ معلوم کرنےکا تمنائی ہوں کہ تم نے جنگل کے لئےحکومت کیوں چھوڑد ی؟
اس نے کہا : میری کہانی بہت مختصر ہے کیونکہ یہ بلبلا بہت جلد ٹوٹ گیا۔ یہ واقعہ یوں ہوا،ایک دن میں اپنے محل کے دریچے میں بیٹھا تھا۔ میرا وزیر اور ایک غیر ملک کا سفیر میرے باغ میں ٹہل رہے تھے۔جب وہ میرے دریچے کے نزدیک پہنچے تو وزیر اپنے متعلق کہہ رہا تھا:میں بادشاہ کی طرح ہوں،مجھے وقت اور تقدیر کے کھیلوں کا شوق ہے ،میں بھی اپنے آقا کی طرح پرجوش  مزاج   رکھتا ہوں۔
یہ کہہ کر وزیر اور سفیر درختوں میں غائب ہو گئےلیکن چند لمحوں میں وہ واپس آگئے ۔اب کی بار وزیر میرے متعلق باتیں کر رہا تھا ۔میرا آقا بادشاہ سلامت میری طرح اچھا نشانچی ہے۔وہ میری طرح موسیقی کا رسیا ہےاور دن میں تین بار غسل کرتا ہے۔تھوڑی دیر بعد اس نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔
اسی دن شام کو میں ایک لبادہ پہن کر محل سے نکل آیاکیونکہ ان لوگوں کا حکمران بننا مجھے گوارہ نہ تھا جو میرے عیوب اختیار کریں اور میری نیکیوں کو اپنی طرف منسوب کریں۔
اور میں نے کہا واقعی یہ ایک انوکھی اور حیران کن بات ہے۔
اس نے کہا: نہیں تم نے میری خاموشیوں کے دروازے کو کھٹکھٹایا اور تمہیں کیا ملا بہت کم ۔آخر کون ہے جو حکومت کو اس جنگل کے لئے نہ چھوڑ دے،جہاں کے موسم ایک نا ختم ہونے والے رقص و نغمے میں سر مست رہتے ہیں۔بہت سے لوگ ہو گزرے ہیں جنہوں نے تنہائی اور اکیلے میں اپنی صحبت کا لطف اٹھانے سے کم تر چیز کے لئے اپنی حکومت چھوڑدی۔ بے شمار عقاب ہیں جو عالم بالا کو چھوڑ کر چھچھوندوں کے ساتھ آکر رہتے ہیں کہ وہ زمین کی تہہ کا راز پا سکیں۔ایسے لوگ بھی ہیں جو سپنوں کی بادشاہت کوخیرآباد کہہ دیتے ہیں تاکہ وہ بے خواب کی دنیا سے دورنظر نہ آئیں اور ان سب سے بلند تر وہ ہے جس نے غم و الم کی دنیا کو خیر آباد کہا کہ وہ مغرور اور خود پسند نظر نہ آئے۔

پھر وہ اپنی جھونپڑی کا سہارا لیتے ہوئے اٹھا اور کہا: اب تم شہر جاؤ  اور اس کے دروازے پر بیٹھو اوران لوگوں پر نگاہ رکھو جو وہاں آتے ہیں اور وہاں سے مڑ جا تے ہیں اور اس شخص کی تلاش کرو جو پیدائشی بادشاہ ہےلیکن مملکت کے بغیر ہے اور اسے دیکھو جو جسمانی طور پر دوسروں کا محکوم ہے لیکن رعایا پر حکومت کرتا ہے مگر نہ تو خود اسےاس بات کا احساس ہے اور نہ اس کی رعایا یہ جانتی ہے اور اس پر نگاہ رکھو ، جو بظا ہر حکومت کرتا ہے لیکن دراصل وہ اپنے ہی غلاموں کا غلام ہے۔
یہ باتیں کہہ چکنے کے بعد وہ مجھ پر مسکرادیا اور اس کے ہونٹوں پر ہزار صبحیں تھیں پھر اس نے رخ پھیرا اور جنگل کی گہرائیوں میں چلا گیا۔
میں شہر کو لوٹا اور اس کے حسب منشا شہر کے دروازے پر بیٹھ کر آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا۔ اس دن سےلے کر آج تک بے شمار ہوئے ہیں،جن کے سائے مجھ پر سےگزرے ہیں اور بہت کم ایسے لوگ ہیں جن پر میرا سایہ گزرا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں