نصائخ رومی – مولانا رومیؒ کی مشہور تصنیف” مثنوی مولانا روم “سےمنتخب کیے گئے لازوال الفاظ!
⇐صبر خوشی کی چابی ہے۔
⇐تم سائے کو متبادل جسم سمجھ لیتے ہو۔
⇐صرف دل سے ہی تم آسمان کو چھو سکتے ہو۔
⇐وفا ایک ایسا دریا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔
⇐ایسے دِکھو جیسے تم ہو یا ایسے رہو جیسے تم دِکھتے ہو۔
⇐میانہ روی یعنی درمیانی راہ ہی عقلمندی ہے۔
⇐لازوال خوبصورتی صرف دل کی خوبصورتی ہے۔
⇐سورج کی تعریف دراصل اپنی آنکھوں کی تعریف ہے۔
⇐جب دروازہ کھلا ہوا ہے تو تُم اس طرح قید خانے میں کیوں پڑے ہو؟
⇐ڈر کی سوچ اور کشمکش سے باہر نکلو اور خاموشی میں زندہ رہو!
⇐حلال لقمہ کے منہ میں آنے سے عبادت کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔
⇐اپنی ہوشیاری بیچ ڈالو اور کم فہمی خرید لو!
⇐ہستی کا آئینہ فنا ہے،فنا اختیار کر تا کہ تو ہستی کو دیکھ لے۔
⇐کھرا اور کھوٹا سونا بغیر کسوٹی پر پرکھے بغیر قابل اعتبار نہیں۔
⇐دشمن ہمیشہ دماغ کے منتخب کرو اور دوست ہمیشہ کردارکے۔
⇐جب خدا ہماری مدد کرنا چاہتا ہے تو ہمیں انکساری کی طرف مائل کر دیتا ہے۔
⇐گفتگو سے سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن تنہائی وہ مدرسہ ہے جہاں عظیم ذہن بنتے ہیں۔
⇐اگر تمہاری انا تمہاری رہنما ہے تو پھر مدد کے لیے قسمت کی طرف مت دیکھو۔
⇐اپنے امتیاز اور انفرادیت کے شعلے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دانشور کی زیارت کی جائے۔
⇐خاموشی اللہ کی زبان ہے اور اس کے علاوہ سب ایک کمزور ترجمعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
⇐اہل علم کا علم انہیں اُٹھاتا ہے اور اہل تن کے علوم ان کے لیے بوجھ ہیں۔
⇐درویشوں کے علاوہ دنیا کے باقی لوگ بچوں کی مانند ہیں جو دنیا کے کھیل میں مگن ہیں۔
⇐اپنے آپ کو خاموشی کے ساتھ اس پُر کشش کی طرف کھنچنے دو جس سے تم حقیقی پیار کرتے ہو۔
⇐اچھا بولنے کے لیے پہلے اچھا سننا ضروری ہے۔ایک انسان کو پہلے سننا چاہیے اور اسی سے بولنے کا فن سیکھنا چاہیے۔
⇐بُلبل کو اس کی سریلی آواز اور میٹھے گیت کے لیے قید کر دیا جاتا ہےکیا کسی نے سنا ہے کہ کبھی کسی نے کوے کو پنجرے میں ڈالا ہو۔
⇐اگر تو غرور کو اپنے سر سے نہیں نکالے گا تو بعد میں آنے والے لوگ تیرے حال سے عبرت حاصل کریں گے۔
⇐محبت کی تلاش آپ کا ہدف نہیں، بلکہ آپ کا ہدف تو ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو آپ نےمحبت کے جذبے کے خلاف کھڑی کر لی ہیں۔
⇐اگر تیرے پاس ڈھال نہیں تو تلوار کے سامنے مت آ، کیونکہ تلوار اگر تیز ہو تو یہ کاٹنے سے نہیں شرماتی۔
⇐اپنے اردگرد رونما ہونے والے باتوں کا مشاہدہ کرو لیکن ان کا دعوی مت کرو ، متحرک صناعی قدرت دیکھو اور خاموش رہو۔
⇐ہر کوئی اپنے دل کے صاف حصے میں اس اَن دِکھے کو دیکھتا ہے اور اس کا انِحصار اس بات پر ہے کہ اس نے اپنے دل کے آئینے کو کس قدر چمکا رکھا ہے۔
⇐اللہ تعالی کی طرف سے مصائب تنبیہ کے لیے آتے ہیں، یہ عین رحمت ہوتے ہیں تاکہ تجھے غفلت سے بیداری حاصل ہو۔
⇐کھانے کے ایک لقمے میں ایک بال یا ریت کا ذرہ آ جائے تو پورا نوالہ پھینک دیا جاتا ہے تو پھر تمہاری روح کیسے آلودہ غذا برداشت کر سکتی ہے۔
⇐میں نے تمام دن اس پر غور کیا، رات کو اس پر گفتگو کی کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور میری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ مجھے کوئی نکتہ نہ سوُجھا، میری روُح کسی نامعلوم مقام سے آئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ انجام کار یہ پھر وہیں لوٹ جائے گی۔
⇐کوئی آئینہ دوبارہ لوہے میں نہیں بدلتا، روٹی دوبارہ گندم نہیں بنتی، پکا ہوا انگور پھر سے کٹھا نہیں ہو جاتا۔اسی طرح اپنے آپ کو بالغ بنا لو اور بری تبدیلی سے محفوظ ہو جاو،ایک روشنی بن جاو۔