بانو قدسیہ کے اقوال

تعلق تو چھتری ہے ۔۔۔۔ ہر ذہنی ، جسمانی ، جذباتی غم کے آگے اندھا شیشہ بن کر ڈھال کا کام دیتی ہے۔

اکثر اوقات سچ کڑوا نہیں ہوتا ۔۔۔ سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے۔

انسان کو تحقیق اور خواب سے برابر کی محبت ہے ۔۔۔۔ اور وہ اِن دونوں کے درمیان جُھولے کی مانند آتا جاتا ہے۔

محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ہے ۔۔۔۔ ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ہے

اِنسان حاصل کی تمنا میں لاحاصل کے پیچھے دوڑتا ہے اُس بچے کی طرح جو تتلیاں پکڑنے کے مشغلے میں گھر سے بہت دور نکل جاتا ہے ، نہ تتلیاں ملتی ہیں نہ واپسی کا راستہ۔

محبت پانے والا کبھی اس بات پر مطمئن نہیں ہو جاتا کہ اُسے ایک دن کے لیے مکمل طور پر ایک شخص کی محبت حاصل ہوئی تھی ۔۔۔ محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے۔

جب انسان محدود خواہشوں اور ضرورتوں کا پابند ہوتا ہے ، تو اُسے زیادہ جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ 

امید بھی بڑی دیوانی چیز ہے ، لمحوں میں ریگستانوں میں زیتون کے باغ لگا دیتی ہے۔

کسی دوسرے شخص کو عورت کو موم یا پتھر کا خِطاب دینے کا حق نہیں ہوتا وہ خود چاہے تو محبوب کےاشاروں کی سمت مڑتی رہتی ہےـ اور پتھر بننے کا فیصلہ کر لے تو کوئی شخص بھکاری بن کر بھی اُس کی ایک نگاہِ التفات نہیں پا سکتا۔

چھوٹا بن کے رہو تو بڑی بڑی رحمتیں ملیں گی کیونکہ بڑا ہونے پر تو ماں بھی گود سے اتار دیتی ہے۔

عورت میں ڈٹے رہنے کہ بڑی قوت ہوتی ہے ۔

معزز ترین آدمی کی پہچان یہ ہے کہ اس کے دل میں ہر ایک کے لئے محبت ہوتی ہے اور وہ آسانی سے کسی دوسرے کے ساتھ دشمنی پر آمادہ نہیں ہوتا۔ وہ چاندی کی پیالی کی طرح ہوتا ہے۔ اگر اُسے موڑنا چاہیں تو آسانی سے مڑ جائے گا۔ اور اگر آپ اسے توڑنا چاہیں تو وہ آسانی سے نہیں ٹوٹے گا۔

قید اس وقت شروع نہیں ہوتی جب سپاہی اپنے ہتھیار اتار کر دشمن سے سمجھوتا کر لیتا ہے بلکہ بے یقینی کا وہ مرحلہ اسے قیدی بناتا ہے جب پہلی بار اسے اپنے زور بازو پہ یقین نہیں رہتا اور دشمن کی قوت کا اندازہ لگا کر اس سے بدکتا ہے۔

جب انسان محدود خواہشوں اور ضرورتوں کا پابند ہوتا ہے ، تو اُسے زیادہ جھوٹ بولنے کی  ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔

ہر لبرل آدمی پہلے اپنا راستہ چھوڑتا ہے اور پھر کسی اور کے راستے کو درست سمجھتا ہے. اس کے پاس  نہ اپنی اقدار باقی رہتی ہیں ، نہ کسی اور کی اقدار کی وہ عزت کرسکتا ہے. ضرورت اس بات کی نہیں کہ  انسان بےرنگ ہو.بلکہ سمجھنا یہ پڑےگا کہ ہر رنگ کی اپنی شان ہے۔

بانو قدسیہ کے اقوال” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں