⇐شرم کی کشش حسن سے زیادہ ہوتی ہے۔
⇐مجرم ذہن شکوک کا اڈاہے۔
⇐انسان کو اپنی موت تک جدوجہد کرنی چاہیے۔
⇐اپنے خیالات کو اپنا جیل خانہ نا بناؤ۔
⇐میرا یقین ہے فکر انسانی زندگی کی دشمن ہے۔
⇐ہر ایک کی بد خوئی سن لو مگر اپنا فیصلہ محفوظ رکھو۔
⇐مظبوط ارادے ماں بناتی ہے۔
⇐دنیا میں سب سے خطرناک غصہ جوانی کا ہے۔
⇐تمہاری عقل ہی تمہاری استاد ہے۔
⇐قسمت ، طوائف ہی تو ہے ۔
⇐جو میرا پیشہ چُراتا ہے وہ میری سب سے حقیر چیز لے جاتا ہے ۔
⇐ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔
⇐ان لوگوں کو رائے دیجئیے، جو بہرے نہیں ورنہ آپ کی رائے ضائع جائے گی۔
⇐جو ایک بار اعتماد شکنی کر چکا ہو، پھر اس پر کبھی اعتماد نا کرو۔
⇐ہماری پُر لطف بدکاریاں ہی ہمارے لیے چابک بن جاتی ہیں۔
⇐نیک نامی انسانیت کا زیور ہے اور روح میں بسی ہوئی خوشبو۔
⇐ندامت دل کا درد ہے اور پاک و صاف زندگی کا طلوع۔
⇐تجربہ شاہد ہےکہ ضرورت کے وقت مستحکم ارادہ پوری طرح مدد کرتا ہے۔
⇐زندگی ہر شخص کو عزیز ہے لیکن بہادر انسان کے لیے عزت زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
⇐ہر مقصد میں اللہ تعالی کی بڑائی، ملک کی بھلائی اور حق کی تلاش مدنظر رکھو۔
⇐تمہیں کیا چاہیے؟ جو کچھ بھی چاہیے، اسے مسکراہٹ کی طاقت سے حاصل کرو نا کہ تلوار سے۔
⇐اس شہد سے کیا فائدہ جو زہر میں ملا ہوا ہو بلکہ اس سے بہتر تو وہ زہر ہے جس میں شہد کی سی شیرینی ہو۔
⇐نا قرض دو ، نا لوکیونکہ قرض دینے سے اکثر پیسہ اور دوست دونوں چلے جاتے ہیں اور قرض لینے سے کفایت شعاری میں خلل پڑتا ہے۔
⇐دل و دماغ کو مسرتوں کی آماجگاہ بناؤ ، اس طرح ہزاروں نقصانات سے بچو گے اور لمبی عمر پاؤ گے۔
⇐جس طرح ایک چھوٹے سے دئیے کی روشنی بہت دور تک پھیلتی ہے، اسی طرح اس بری دنیا میں بھلائی دور تک چمکتی ہے۔
⇐دلوں کو فتح کرنے کے لیے تلواروں کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔
⇐ایڑیاں رگڑ کر مر جانے سے بہتر ہے کہ جوانی میں جہاد ہی میں مر جانا چاہیے۔
⇐ہمارے شبہات اعتماد شکن ہیں اور ان اچھائیوں سے محروم رکھتے ہیں، جنہیں ہم کوشش کر کے حاصل کرتے ہیں۔
⇐محبت آنکھوں سے نہیں، دل سے دیکھتی ہے، اسی لیے محبت کے دیوتا کو اندھا بتایا جاتا ہے۔
⇐محبت سب سے کرو، اعتبار چند ہستیوں کا اورنفرت کسی کے ساتھ بھی روا بھی نا رکھو۔
⇐دنیا کی ہر چیز کا تریاق خود اسی میں مضمر ہے لیکن عورت ، عورت کو شکست نہیں دے سکتی۔
⇐سب سے زیادہ اسی کو ملتا ہے، جو زیادہ مطمئن ہے۔