خلیل جبران کے اقوال

خلیل جبران (اصل نام: جبران خلیل جبران بن میکائیل بن سعد) جو لبنانی نژاد امریکی فنکار، شاعر اور مصنف تھے۔ خلیل جبران جدید لبنان کے شہر بشاری میں پیدا ہوئے ،جو ان کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ وہ نوجوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا ہجرت کر گئے اور وہاں فنون لطیفہ کی تعلیم کے بعد اپنا ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران اپنی کتاب The Prophet کی وجہ سے عالمی طور پر مشہور ہوئے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی اور یہ انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی۔ یہ فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ تھا، گو اس پر کڑی تنقید کی گئی مگر پھر بھی یہ کتاب نہایت مشہور گردانی گئی، بعد ازاں 60ء کی دہائی میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری کی کتاب بن گئی۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جبران ولیم شیکسپئیر اور لاؤ تاز کے بعد تاریخ میں تیسرے سب زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔

⇐زندگی کا فلسفہ موت ہے۔
⇐آرزو نصف زندگی ہے اور بے حسی نصف موت۔
⇐اُس خوشی سے دور رہو جو کبھی غم کا کانٹا بن کر دکھ دے۔
⇐اہمیت دکھ کی نہیں بلکہ دکھ دینے والے کی ہوتی ہے۔
⇐جو آدمی جتنا زیادہ بولتا ہے ، اتنا ہی کم عقل ہے۔
⇐اناکا مضبوط ترین خول ہمیشہ محبت توڑتی ہے۔
⇐تمہیں خزانہ ضرور ملے گا اگر یقین کے ساتھ کھودو گے۔
⇐جو صرف اپنےآپ کو خوش رکھتا ہے، اس کی زندگی بے کار ہے۔
⇐تمہیں چاہیے کہ ہمیشہ حقیقت کو سمجھو لیکن ظاہر کبھی کبھی کرو۔
⇐کس قدر اندھا ہے وہ شؔخص،جو اپنی جیب سےدوسروں کا دل خریدتا ہے۔

⇐زبان ایک ایسا درندہ ہے، اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو عجب نہیں کہ تمہیں بھی پھاڑ جائے۔
⇐اپنے چند لمحوں کی خوشی کے لیے کسی کے لبوں کی مسکراہٹ تو مت چھینو۔
⇐محبت انسان کو رسوا نہیں کرتی بلکہ انسان محبت کو رسوا کرتا ہے۔
⇐خواہش کو کبھی دل میں جگہ نہ دوکیونکہ یہ بہت گہرے زخم دیتی ہے۔
⇐کسی انسان کے دماغ میں اندیشہ اور پھر دل میں محبت بیک وقت نہیں رہ سکتے۔
⇐دنیا کی تمام خبیث روحوں میں سے خبیث ترین روح اس شخص کی ہے جس میں خلوص نہ ہو۔
⇐اگر تم نے حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو، زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔
⇐زندگی میں اگر ایک دوست مل گیا تو شکر ہے، دو مل گئے تو بہت ہیں، تین تو مل ہی نہیں سکتے۔

⇐یہ نہ سوچو کہ کسی نے مجھے کیا دیا اور کیا نہیں دیا بلکہ ہر دفعہ اس بات کا خیال رکھوکہ میں نے فلاں کوکیا دیا اور کیا نہیں دیا۔
⇐تم اس شؔخص کو تو بھول سکتے ہو جس کے ساتھ تم ہنسے ہو مگر اس شخص کو ہر گز فراموش نہیں کر سکتے جس کے ساتھ تم روئے ہو۔
⇐دشمن سے ایک بار لیکن دوست سے ہزار بار ڈرو کیونکہ اگر وہ تمہارا دشمن ہو جائے تو تمہیں ہراسان کرنے کے ہزار طریقے اسے معلوم ہوں گے۔

⇐جب کوئی شؔخص قتل کرتا ہے تو قاتل کہلاتا ہے اور جب جج اسے موت کی سزا کا حکم سناتا ہے تو منصف
کہلاتا ہے۔
⇐مجھے دنیا کے بنائے ہوئے قوانین سے سخت نفرت ہے جو قتل کرنے والےکو تو موت کی سزا دیتے ہیں مگر جو روح کو کچل دیتے ہیں وہ آزاد پھرتے ہیں۔

⇐ذہانت ایک ملمع سازی ہے،سب سے زیادہ نفرت انگیز ذہانت ان لوگوں کی ہے جو تقلید اور نقالی میں ماہر ہوتے ہیں۔

⇐زندگی محض ایک نیند ہے، نفس کے پُر فریب خوابوں میں لپٹی ہوئی، حزن و ملال ایک پردہ ہے کہ جس میں نفس اپنے اسرارکو چھپا دیتا ہے۔

⇐جب تم زندگی کے رازوں کو معلوم کر چکو گے تو تمہیں موت کا شوق پیدا ہو گا کیونکہ موت بھی زندگی کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔

⇐یہ زیادہ عقل مندی کی بات ہے کہ ہم اس خدا کی باتیں کم کریں جسے ہم سمجھ نہیں سکتے اور انسانوں کی باتیں زیادہ کریں جنیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔

⇐تم ڈھول کی آواز کو دبا سکتے ہو ، سارنگی کے تاروں کو ڈھیلاکر سکتے ہو لیکن تم میں کون ہے جو بلبل کی آواز کو دبا دے۔

⇐اے دل جو تجھ سے کہتے ہیں کہ جسم کی طرح روح بھی خالی ہے،ان سے کہہ دے کہ پھول مر جاتا ہے بیج زندہ رہتا ہے۔

⇐جب زندگی کو اپنے دل کے گیت سنانے کے لیے گانے والا نہیں ملتا تو وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے فلسفی پیدا کر دیتی ہے۔

⇐انسان کا عزم فکر کی سطح پر تیرتے ہوئے سائے کی طرح ہے اور لوگوں کے حقوق خزاں زدہ پتوں کی طرح فنا ہو جاتے ہیں۔

⇐لوگوں کی محبت ایک مرض ہے، گوشت اور ہڈیوں سے پیوستہ جب شباب چپکے سے وداع ہوتا ہے تو یہ مرض بھی اپنے اصل کی طرف لوٹ جاتا ہے۔

⇐بہترین علم اس خواب کی مثل ہے جو دیکھنے والےکی دسترس میں ہو اور جاننے والا وہ ہے جو لوگوں کی تضحیک کو نظر انداز کرتے ہوئے جاہلوں کے جلوس میں خاموشی سے چلتا ہے۔

⇐آج سے کل کا جنم ہوتا ہے،خزاں کی کوکھ سے بہار پیدا ہوتی ہے،سوکھے پتے دھرتی کی گود میں سما کرہریالی اور پھولوں کو روپ دیتے ہیں، آنسوؤں کی حدت سے مسکراہٹیں جاگ اٹھتی ہیں۔

⇐غریبی شرافت نفس کا اظہار کرتی ہے اور امیری خباثت نفس کا،غم جذبات میں مطافت پیداکرتا ہےاور مسرور انہیں فاسد کر دیتا ہے ، اس لیےکہ انسان دوست و سرور میں اضافے کے لیے انہیں ہمیشہ اپنا غلام بنائے رکھتا ہے۔

⇐لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں اس لیے کہ میں اپنی زندگی ان کے درہم و دینار کے بدلے نہیں بیچتا،میں لوگوں کو پاگل سمجھتا ہوں اس لیے کہ وہ مجھے دنیا کے بدلے بک جانے والی شئے سمجھتے ہیں۔

3 تبصرے “خلیل جبران کے اقوال

  1. آپ نے جو سلسلہ شروع کیا ہے بہت خوب ہے
    بلکہ علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے

  2. آپ کی بہتر کوشش کی وجہ سے ہم کو انمول لوگوں کی انمول باتیں پڑھنے کو ملی __ شکریہ

اپنا تبصرہ بھیجیں