ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی

سیریز: آج کا دن
05 ستمبر – آج نامور محقق سائنس دان اور ریاضی دان ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کا یوم پیدائش ہے۔

البیرونی ایک بہت بڑے محقق اور سائنسدان تھے۔ وہ 5 ستمبر 973 کو خوارزم کے تاریخی شہر کے مضافات میں ایک قریہ، بیرون میں پیدا ہوئے اور اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔ البیرونی بو علی سینا کے ہم عصر تھے۔ خوارزم میں البیرونی کے سرپرستوں یعنی آلِ عراق کی حکومت ختم ہوئی تو اس نے جرجان کی جانب رخت سفر باندھا وہیں اپنی عظیم کتاب “آثار الباقیہ” مکمل کی۔ حالات سازگار ہونے پر البیرونی دوبارہ وطن لوٹا اور وہیں دربار میں عظیم بو علی سینا سے ملاقات ہوئی۔ بو علی سینا بلعموم فلسفہ ارسطو کا مقلد تھا۔ لیکن البیرونی پوری آزادی سے ارسطو کی غلطیاں نکالتا تھا۔ بو علی سینا اور البیرونی کے درمیان اکثر علمٰی بحث و مباحثے ہوتے رہتے تھے۔البیرونی کو خوارزم ہی میں اہلِ ہند کے حالات معلوم کرنے اور اُن کی زُبان سنسکرت سیکھنے کا شوق تھا۔ البیرونی نے چند علمی دوستوں سے رابطہ بڑھایا اور سنسکرت زُبان کے ابتدائ درس لینے شروع کیے۔ البیرونی نے اپنی پچاس سالہ تصنیفی زندگی میں جتنی کتابیں اور رسالے لکھے اُن کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے۔ اور اُن کے صفحوں کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہے۔ یہ کتابیں اور رسالے ہر قسم کے علوم ریاضی، ہئیت، طبیعات، تاریخِ تمدن، علم آپارِ عتیقیہ، مذاہب عالم، ارضیات و کیمیا، حیاتیات اور جغرافیہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔

حالات زندگی
کاث شہر دریائے جیحون (دریائے آمو) کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ اس کے اردگرد کئی مضافاتی بستییاں تھیں جن میں ایک بستی کا نام بیرون تھا۔ اس مضافاتی بستی میں ایک یتیم بچہ پرورش پا رہا تھا جس کا نام محمد بن احمد تھا جو دنیا میں البیرونی کے نام سے مشہور ہوا۔یہ بچہ شروع ہی سے قدرتی مناظر کا دلدادہ تھا۔ وہ دن بھر باغات میں پھرتا، خوب صورت پہاڑوں پر چڑھ جاتا، صحرا میں‌دوڑتا بھاگتا اور شام کے وقت گھر لوٹتا تو اس کے ہاتھ میں ریحان کی کونپلوں اور ٹہنیوں ‌کا ایک گلدستہ ہوتا جسے وہ ایک پیالے میں سجا دیتا اور جب ہوا چلتی تو اس گلدستے کی خوشبو اس کے غریب خانے کو معطر کر دیتی۔ اس کی ماں اس کو اسی لئے ابو ریحان کہ کر پکارتی تھی۔ البیرونی کا باپ ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتا تھا لیکن اس کی ناگہانی موت کی وجہ سے البیرونی کی ماں اپنے لئے اور اپنے بیٹے کے لئے جنگل سے لکڑیاں جمع کر کے روزی کمانے پر مجبور ہو گئی۔ اس کام میں البرونی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتا تھا۔
ایک روز البیرونی کی ملاقات نباتات کے ایک یونانی عالم سے ہو گئی۔ البیرونی نے اسے ایک باغ میں پھول توڑنے اور جنگل کے درختوں کے نیچے پودوں کو کاٹتے دیکھا تو اس یونانی عالم کے پاس پہنچ کر احتجاج کرتے ہوئے کہنے لگا؛جناب آپ ان پھولوں کو کیوں توڑ رہے ہیں اور پودوں کو کیوں کاٹ رہے ہیں؟ کیا آپ میری طرح ان کو کاٹے بغیر اور انہیں زندگی سے محروم کئے بغیر ان کی تصویریں نہیں بنا سکتے ہیں؟ یہ سن کر یونانی عالم ہنس پڑا اور کہنے لگا: بیٹے میں ان پھولوں اور پودوں کو علم کی خاطر جمع کر رہا ہوں، تاکہ ہم ان پودوں اور پھولوں سے بیماریوں کے علاج کے لئے دوائیں تیار کر سکیں۔ یہ سن کر البیرونی خوشی سے چلایا؛تو آپ نباتات کے عالم ہیں؟ یونانی عالم نے البیرونی سے کہا؛ہاں‌ میرے بیٹے، میرا خیال ہے تمہیں پھولوں اور پودوں سے بہت محبت ہے۔ البیرونی نے کہا ؛میں تو تمام قدرتی مناظر سے محبت کرتا ہوں۔ ستارے، درخت، پودے، پھول، پہاڑ، ٹیلے اور وادیاں سب ہی مجھے پسند ہیں۔ وہ یونانی عالم البیرونی کو روزانہ تعلیم دیتا رہا اور نباتات کا علم سکھاتا رہا۔ اس وقت البیرونی کی عمر گیارہ سال تھی۔ تین سال گزر گئے اور ابو ریحان چودہ برس کا ہو گیا، اس عرصے میں اس نے یونانی اور سریانی زبانوں میں مہارت حاصل کر لی اور یونانی علم سے پودوں کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ طبعی علوم کے بارے میں اس کا شوق اور بڑھ گیا۔ یونانی عالم اپنے وطن یونان لوٹنے سے پہلےالبیرونی کو فلکیات و ریاضی کے عالم ابو نصر منصور علی کے خدمت میں جو خوارزمی خاندان کا شہزادہ تھا ،لے گیا۔ ابو نصر نے البیرونی کے لئے الگ گھر تعمیر کرایا اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ابو نصر ہر روز فلکیات اور ریاضی کے علوم سکھاتا رہا۔ ابو نصر نے البیرونی کو مشہور ریاضی دان اور ماہر عبدالصمد کی شاگردی میں دے دیا۔

البیرونی کی دریافتیں
ان کی دریافتوں کی فہرست خاصی طویل ہے، انہوں نے نوعیتی وزن متعین کرنے کا طریقہ دریافت کیا، زاویہ کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا، نظری اور عملی طور پر مائع پر دباؤ اور ان کے توازن پر ریسرچ کی، انہوں نے بتایا کہ فواروں کا پانی نیچے سے اوپر کس طرح جاتا ہے، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے سے متصل مختلف الاشکال برتنوں میں پانی اپنی سطح کیونکر برقرار رکھتا ہے، انہوں نے محیطِ ارض نکالنے کا نظریہ وضع کیا اور متنبہ کیا کہ زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔

کارنامے
البیرونی نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں ”کتاب الہند“ ہے جس میں البیرونی نے ہندو‎ؤں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی حالات بڑی تحقیق سے لکھے ہیں۔ اس کتاب سے ہندو‎ؤں کی تاریخ سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بہت سی معلومات ایسی ہیں جو اور کہیں سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اس کتاب کو لکھنے میں البیرونی نے بڑی محنت کی۔ ہندو برہمن اپنا علم کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے تھے لیکن البیرونی نے کئی سال ہندوستان میں رہ کر سنسکرت زبان سیکھی اور ہندوئوں کے علوم میں ایسی مہارت پیدا کی کہ برہمن تعجب کرنے لگے ۔البیرونی نے پنجاب بھر کی سیر کی اور کتاب الہند تالیف کی، علم ہیئت و ریاضی میں البیرونی کو مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے ریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، تاریخ، تمدن، مذاہب عالم، ارضیات، کیمیا اور جغرافیہ وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔ البیرونی کے کارناموں کے پیش نظر چاند کے ایک دہانے کا نام “البیرونی کریٹر” رکھا گیا ہے۔
البیرونی کا ایک حیران کُن کارنامہ زمین کے محیط کی پیمائش ہے۔ البیرونی نے اپنی تصنیف “قانون مسعودی” میں زمین کے محیط کا حوالہ دیا ہے۔ البیرونی کے مطابق زمین کا محیط ۲۵۰۰۹ء میل تھا۔ جدید پیمائش کے مقابلے میں البیرونی کی پیمائش میں محض 3 فیصد غلطی تھی۔ جوکہ حیرت انگیز طور پر کم ہے اور نظرانداز کیے جانے کے قابل ہے۔

تصنیفات و تالیفات
البیرونی نے تاریخ، ریاضی اور فلکیات پر کوئی سو سے زائد تصانیف چھوڑی ہیں جن میں کچھ اہم یہ ہیں:
البیرونی کی پہلی تصنیف آثار الباقیہ ہے ۔ اِس کتاب کے اکیس باب ہیں جن میں دنیا کے مختلف اقوام اور مختلف مذاہب پوری تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔البیرونی کی دوسری تصنیف کتاب الہند ہے۔اس کتاب میں ہر قسم کے مذہبی، تاریخی اور تمدنی معلومات کو جوکہ اہلِ ہند سے متعلق تھیں، کو قلم بند کیا۔ البیرونی وہ پہلا شخص تھا جس نے دیگر مذہبی کتابوں مثلا بھگوت گیتا ، رامائن ، مہابھارت اور منوشاستر وغیرہ کے اقتباسات کو عربی زُبان میں ڈھال کر کتاب الہند کی شکل میں پیش کیا۔البیرونی کی کتاب آثار الباقیہ کا انگریزی ترجمہ لندن سے ۱۸۷۹ء میں ہوا۔ اور دوسری کتاب آثار الہند کا ترجمہ لندن سے ۱۸۸۸ء کو ہوا۔ بدقسمتی سے البیرونی کی کتاب قانونِ مسعودی کا کسی بھی یورپی زُبان میں ترجمہ نہیں ہوا۔
ہیئت اور ریاضی میں البیرونی کی دو کتابیں مشہور ہیں۔ ایک کتاب کا نام تفہیم ہے۔ یہ کتاب چار سو صفحوں پر مشتمل ہے۔ البیرونی کی دوسری تصنیف قانون مسعودی ہے جو اس نے محمود کے لڑکے سلطان مسعود کے نام پر لکھی۔ یہ علم فلکیات اور ریاضی کی بڑی اہم کتاب ہے۔ اِس کتاب کی تیسری جلد علمِ مثلث سے متعلق ہے۔ اس کی وجہ سے البیرونی کو ایک عظیم سائنس دان اور ریاضی دان سمجھا جاتا ہے۔
البیرونی نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں ”کتاب الہند“ ہے، جس میں البیرونی نے ہندو‎ؤں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی حالات بڑی تحقیق سے لکھے ہیں۔ اس کتاب سے ہندو‎ؤں کی تاریخ سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بہت سی معلومات ایسی ہیں جو اور کہیں سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اس کتاب کو لکھنے میں البیرونی نے بڑی محنت کی۔ ہندو برہمن اپنا علم کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے تھے لیکن البیرونی نے کئی سال ہندوستان میں رہ کر سنسکرت زبان سیکھی اور ہندوؤں کے علوم میں ایسی مہارت پیدا کی کہ برہمن تعجب کرنے لگے۔
کتاب الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ: یہ کتاب البیرونی نے جرجان کے حکمران شمس المعالی قابوس بن دشمکیر کے نام پر تحریر کی، اس کا خاص موضوع علم نجوم اور ریاضی تھا۔ لیکن اس میں بہت سے دیگر دلچسپ علمی، تاریخی اور مذہبی و فلسفیانہ باتیں بھی لکھی ہیں اور جگہ جگہ تنقیدی انداز بھی اختیار کیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب اس دور کے اہم تاریخی، مذہبی اور علمی مسائل کی ایک تنقیدی تاریخ بن گئی ہے۔
ہندویات پر عربی زبان میں پہلی شہرہ آفاق کتاب، جس کا پورا نام تحقیق ما للھند من مقولۃ مقبولۃ فی العقل او مرذولۃ ہے۔ یہ کتاب قدیم ہندوستان کی تاریخ، رسوم و رواج اور مذہبی روایات کے ذیل میں صدیوں سے مورخین کا ماخذ رہی ہے اور آج بھی اسے وہی اہمیت حاصل ہے۔ کتاب الہند کا مواد حاصل کرنے کے لیے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی، سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھ کر قدیم سنسکرت ادب کا براہ راست خود مطالعہ کیا۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو، جو اہل ہند کے بارے میں اسے حاصل ہوئيں اس کتاب میں قلم بند کر دیا۔ اس کتاب میں ہندو عقائد، رسم و رواج کا غیر جانبدرانہ اور تعصب سے پاک انداز میں انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس کے ذریعے عربی دان طبقہ تک ہندو مت کے عقائد و دیگر معلومات اپنے اصل ماخذ کے حوالے سے پہنچیں۔
قانون مسعودی -کتاب مقالید علم الہیئہ وما یحدث فی بسیط الکرہ: یہ البیرونی کی سب سے ضخیم تصنیف ہے جس کا نام اس نے سلطان محمود عزنوی کے لڑکے سلطان مسعود کے نام پر لکھی ۔یہ 1030ء میں شائع ہوئی اور ان تمام کتابوں پر سبقت لے گئی جو ریاضی، نجوم، فلکیات، اور سائنسی علوم کے موضوعات پر اس وقت میں لکھی جا چکی تھیں۔ اس کتاب کا علمی مقام بطلیموس کی کتاب المجسطی سے کسی طرح کم نہیں۔

دیگر تصانیف
کتاب استخراج الاوتار فی الدائرہ۔
کتاب استیعاب الوجوہ الممکنہ فی صفہ الاسطرلاب۔
کتاب العمل بالاسطرلاب۔
کتاب التطبیق الی حرکہ الشمس۔
کتاب کیفیہ رسوم الہند فی تعلم الحساب۔
کتاب فی تحقیق منازل القمر۔
کتاب جلاء الاذہان فی زیج البتانی۔
کتاب الصیدلہ فی الطب۔
کتاب رؤیہ الاہلہ۔
کتاب جدول التقویم۔
کتاب مفتاح علم الہیئہ۔
کتاب تہذیف فصول الفرغانی۔
کتاب ایضاح الادلہ علی کیفیہ سمت القبلہ۔
کتاب تصور امر الفجر والشفق فی جہہ الشرق والغرب من الافق۔
کتاب التفہیم لاوائل صناعہ التنجیم۔
کتاب المسائل الہندسیہ۔
مقالہ فی تصحیح الطول والعرض لمساکن المعمورہ من الارض۔

وفات
البیرونی کی وفات 9 دسمبر 1048 کو غزنی میں ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں