بشکریہ :عدیل الرحمان
سیریز: آج کا دن
15 جون 2013ء کو زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی پہ حملہ ہوا تھا،اور اسے بم دھماکوں سے تباہ کر دیا گیا۔
اِس حملے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہو گیا اور حملے کے خلاف زیارت کے شہری سراپا احتجاج بن گئے۔ امدادی ٹیموں کے پہنچنے تک قائداعظم ریزیڈنسی تباہ ہو چکی تھی۔ ایک سے دو منٹ کے وقفے کے ساتھ چار بم دھماکے کیے گئے جس سے عمارت کو آگ لگ گئی، حملہ آور چار سے پانچ تھے جو کارروائی کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ،حملے کے وقت بجلی نہیں تھی۔
قائداعظم ریزیڈنسی کوئٹہ سے 122کلو میٹر کے فاصلے پر واقع وادی زیارت کے خوبصورت اور پر فضاء مقام پر واقع ہے۔ لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ خوبصورت رہائش گاہ اپنے بنانے والے کے اعلیٰ فن کی عکاس ہے۔عمارت کے بیرونی چاروں اطراف میں لکڑی کے ستون ہیں اور عمارت کے اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا ا ستعمال بہت خو بصورتی سے کیا گیا ہے ۔آٹھ کمروں پر مشتمل اس رہائش گاہ میں دونوں اطراف سے مجموعی طور پر 28 دروازے بنائے گئے ہیں۔یہ رہائش گاہ 1892ء کے آس پاس لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس دور میں جو بھی حکومتِ برطانیہ کے افسران یہاں آتے تھے وہ اس رہائش گاہ میں قیام کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں اس رہائش گاہ کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب 1 جولائی 1948ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر ناسازئ طبیعت کے باعث یہاں تشریف لائے۔قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ دس دن اس رہائش گاہ میں قیام کیا۔ جس کے بعد اس رہائش گاہ کو “قائد اعظم ریزیڈنسی” کا نام دے کر قومی ورثہ قرار دیا گیا۔
بلوچستان کو قائد اعظم ریزیڈنسی کی تصاویر سے بھی متعارف کرایا جاتا ہے جیسا کہ پاکستان کے 100 روپے کے بینک نوٹ کے عقبی رخ پر اس کی تصویر موجود ہے جبکہ کئی پاکستانی ٹیلی وژن چینلوں میں یہ رہائش گاہ ہی بلوچستان کی نمائندگی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ریزیڈنسی میں قائم کمروں میں ایک کمرہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایک کمرہ قائد اعظم کے ذاتی معالج کرنل الہی بخش جبکہ ایک کمرہ ان کے ذاتی معتمد کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ یہ عمارت آج بھی قائد اعظم کی بارعب شخصیت کا احساس دلاتی ہے ۔
رہائش گاہ میں ایک کمرہ ایسا بھی ہے جہاں قائد اعظم دوپہر اور رات کو کھانا کھانے اور اپنے رفقا کار کے ساتھ شطرنج کھیلا کھیلتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بابائے قوم، جب شدید علیل تھے تو محترمہ فاطمہ جناح وہاں ان کی تیمارداری کے لیے ان کے ساتھ ہی رہائش گاہ میں قیام کرتی تھیں۔ رہائش گاہ میں قائد اعظم کے زیر استعمال کمروں میں ایسی کئی تصاویر آویزاں ہیں جو قائد اعظم نے اپنی بیٹی، بہن، بلوچستان کے قبائلی عمائدین اور دیگر سرکردہ شخصیات کے ساتھ کھنچوائی تھیں۔اس عمارت کو اب عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں قائد اعظم کے زیر استعمال ر ہنے والی اشیاء کو نمائش کے لیے ر کھا گیا ہے۔
29 اکتوبر 2008ء کو زیارت، پشین اور دیگر علاقوں میں آنے والے زلزلے کے باعث اس عمارت کو بھی جزوی نقصان پہنچا جس کے بعد پاک فوج نے عمارت کی دوبارہ مرمت اور تزئین و آرائش کی۔رہائش گاہ دیکھنے کے لیے ملک بھر سے لوگ وہاں آتے ہیں لیکن موسم گرما کے شروع ہوتے ہی یہاں سیاحوں کی آمد میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ رہائش گاہ میں دو گائیڈز بھی خدمات انجام دے رہے ہیں اوریہاں آنے والے سیاحوں کو اس کی تاریخی پس منظر سے آگاہ کرتے ہیں۔
15 جون 2013ء کو کچھ شدت پسندوں نے قائد اعظم ریزیڈنسی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں چار سیکیورٹی پر ماٗمور گارڈ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ریزیڈنسی کی عمارت بھی آگ میں جل گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے کہا کہ زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی ہمارا قومی ورثہ تھا، ریزیڈنسی کی عمارت کو دوبارہ تعمیر کریں گے، عمارت کی تعمیر میں 3 سے 4 ماہ کا عرصہ لگے گا۔
اس کے بعد پھر دوبارہ تعمیر کرنے کا کام شروع ہوا اور اگست 2014ء تک دوبارہ تعمیر کرنے کا یہ عمل جاری رہا۔ 14 اگست 2014ء کو یوم آزادی کے دن وزیر اعظم پاکستان نے افتتاح کیا۔