ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ہو رہا تھا تو ایک بوڑھے دربان کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے پر پُرانی اور باریک وردی میں پہرہ دے رہا تھا۔ بادشاہ نے اُس کے قریب اپنی سواری کو رکوایا اور اُس ضعیف دربان سے پوچھنے لگا: “سردی نہیں لگ رہی؟”
دربان نے جواب دیا: “بہت لگتی بے حضور! مگر کیا کروں، گرم وردی ہے نہیں میرے پاس، اِس لئے برداشت کرنا پڑتا ہے”
بادشاہ نے کہا: “میں ابھی محل کے اندر جا کر اپنا ہی کوئی گرم جوڑا بھیجتا ہوں تمہیں”
دربان نے خوش ہو کر بادشاہ کو فرشی سلام کیے اور بہت تشکّر کا اظہار کیا، لیکن بادشاہ جیسے ہی گرم محل میں داخل ہوا دربان کے ساتھ کِیا ہوا وعدہ بھول گیا۔
صبح دروازے پر اُس بوڑے دربان کی اکڑی ہوئی لاش ملی اور قریب ہی مٹّی پر اُس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی گئی یہ تحریر بھی: “بادشاہ سلامت، میں کئی سالوں سے سردیوں میں اِسی نازک وردی میں دربانی کر رہا تھا مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال دی۔”
حاصل تحریر: سہارے انسان کو کھوکھلا کر دیتے ہیں اسی طرح امیدیں کمزور کردیتی ہیں، اپنی طاقت کے بل بوتے جینا شروع کیجیے، خدارا سہاروں کی بیساکھیاں پھینک کر خود پہ بھروسہ کریں!