تحریر: جاوید چوہدری (زیرو پوائنٹ)
میں آپ کو تین لوگوں کی کہانی سناتا ہوں‘ یہ تینوں مختلف شہروں میں رہتے تھے‘ یہ تینوں میرے جاننے والے تھے اور ان تینوں کی کہانی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی۔
پہلا شخص ٹام تھا‘ٹام بہت خوبصورت تھا‘ سرخ و سپید رنگ‘ لمبا قد‘ بال ریشمی اور نین نقش تیکھے‘ ٹام کی آواز بھی نشیلی تھی‘ وہ بولتا تھا تو کان کی دیواریں سرور میں آ جاتی تھیں‘ پورے شہر میں اس جیسا کوئی دوسرا خوبصورت نوجوان نہیں تھا‘ وہ جس محلے سے گزرتا تھا‘ لڑکیاں دوڑ کر چھتوں پر آ جاتی تھیں اور اسے اس وقت تک ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہتی تھیں جب تک وہ ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتا تھا‘ حسن میں ہزار خوبیاں ہوتی ہیں بس اس میں صرف ایک خامی‘ ایک خرابی ہوتی ہے‘ اس کے دشمن بہت ہوتے ہیں‘ محلے کا ہر ”کوجا“ شخص اس کا مخالف ہو جاتا ہے‘ٹام کے مخالفین کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی‘ وہ جہاں جاب کرتا تھا مالک چند دن بعد ”جیلس“ ہو کر اسے نکال دیتا تھا‘ وہ سکول میں تھا تو وہ سب سے زیادہ پٹتا تھا‘ وہ کالج گیا تو استاد جان بوجھ کر اس کے نمبر کم کر دیتے تھے‘ درزی اس کے سوٹ خراب کر دیتے تھے اور دھوبی اس کے کپڑے جلا دیتا تھا‘ ٹام کے حسن سے صرف اس کا محلہ اس کا شہر نہیں جلتا تھا بلکہ اس کا اپنا خاندان بھی اس سے ٹھیک ٹھاک حسد کرتا تھا‘ اس کا والد‘ اس کے بھائی اور اس کے کزن تمام لوگ اس کے حاسد تھے‘ ٹام اس رویئے سے تنگ تھا‘ وہ اکثر اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا تھا یا باری تعالیٰ تم نے مجھے اتنا خوبصورت کیوں بنا دیا؟ تم مجھے عام انسان بنا دیتے‘ تم مجھے بدصورت کر دیتے تو میں بھی آج اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح مطمئن زندگی گزار رہا ہوتا‘ وہ بعض اوقات لوگوں کے رویئے سے اتنا زیادہ تنگ آ جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتا ”یاباری تعالیٰ تو مجھے ان حاسدین سے نجات دلا دے‘ مجھے ان سے بچا لے‘ میں ان لوگوں سے بہت تنگ ہوں‘ یہ مجھے اندر سے زخمی کر رہے ہیں‘ یا اللہ مجھے حاسدین کے ان زخموں سے بچا لے“ وہ گڑگڑاتا رہتا تھا اور یہ دعا کرتا رہتا تھا‘ اللہ نے ایک دن اس کی دعا سن لی اور ٹام کے سارے حاسدین کی نظریں پھر گئیں‘ لوگوں نے اس سے جیلس ہونا بند کر دیا اور وہ عام انسانوں جیسی زندگی گزارنے لگا لیکن وہ عام انسانوں کی زندگی زیادہ دن برداشت نہ کر سکا‘ وہ ایک دن ٹرین کی پٹڑی پر لیٹا اور زندگی کی سرحد پار کر گیا‘ ٹام اس انجام تک کیسے پہنچا ہم یہ ڈسکس کرنے سے قبل ڈک کی کہانی کی طرف آتے ہیں۔
ڈک ایک پیدائشی خوش نصیب شخص تھا‘ وہ ماں کے پیٹ میں تھا تو خاندان کے حالات بدل گئے‘باپ ریڑھی سے دکان پر آ گیا‘ وہ پیدا ہوا تو دکان مال اور گاہکوں سے بھر گئی‘ وہ قدموں پر کھڑا ہوا تو ایک دکان دس کانوں میں تبدیل ہو گئی اور وہ سکول گیا تو والد کارخانے دار ہو گیا گویا ڈک جوں جوں بڑا ہوتا گیا والدین آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ وہ عملی زندگی میں بھی خوش نصیب تھا‘ وہ جس کلاس میں داخل ہوتا تھا وہ کلاس پورے سکول میں آگے نکل جاتی تھی‘ وہ جس استاد سے پڑھتا تھا وہ استاد ”بیسٹ ٹیچر“ کا ایوارڈ لے جاتا تھا‘وہ جو ”پرائز بانڈ“ لے لیتا تھا وہ پرائز بانڈ نکل آتا تھا‘وہ خریداری کیلئے جس دکان میں داخل ہو جاتا تھا وہ دکان گاہکوں سے بھر جاتی تھی اور وہ جس شخص کو دوست بنا لیتا تھا اس دوست کے دن پھر جاتے تھے‘ ڈک جب عملی زندگی میں آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ کو ”پارس“ بنا دیا‘ وہ مٹی کو ہاتھ لگاتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی‘ وہ فیکٹری میں بیٹھنے لگا تو فیکٹری کمپنی بن گئی اور اس کمپنی نے سٹاک ایکس چینج میں ریکارڈ قائم کر دیا‘ وہ آنکھیں بند کر کے بھی جو سودا کر تا تھا وہ اس میں کروڑوں روپے کما لیتا تھا‘ وہ جو زمین خرید لیتا تھا وہ زمین راتوں رات مہنگی ہو جاتی تھی‘ ڈک اس خوش نصیبی کو انجوائے کر رہا تھا لیکن پھر وہ بھی ٹام کی طرح مشکلات کا شکار ہو گیا‘لوگ اس سے بھی ”جیلس“ ہو گئے‘ پورا شہر اس کے حسد میں مبتلا تھا‘ لوگ اسے دیکھ کر نفرت سے آنکھیں پھیر لیتے تھے‘ لوگ دوست بن کر اس کی پیٹھ میں خنجر پیوست کر دیتے تھے‘ اس کے سگے بھائیوں نے اس کے خلاف مقدمات قائم کر رکھے تھے‘ وہ جس پراعتماد کرتا تھا وہی اسے دھوکہ دے جاتا تھا‘ لوگ اس کی رقم‘ اس کی زمین جائیداد ہڑپ کر جاتے تھے‘ ڈک کو بھی ٹام کی طرح اس کی خوش نصیبی نے اداس کر دیا‘ وہ بھی دکھی ہو گیا اور وہ بھی کثرت سے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے لگا ”یا باری تعالیٰ تم نے مجھے خوش نصیب کیوں بنایا‘ تو مجھے ان جیسا بنا دیتا تاکہ میں دنیا میں اکیلا نہ ہوتا‘ میں ان کے ساتھ رچ بس کر زندگی گزار سکتا“ وہ کثرت سے یہ شکوہ کرتا تھا‘اللہ نے ایک دن ڈک کی دعا بھی سن لی‘ اس نے اس کی خوش نصیبی واپس لے لی‘ ڈک عام انسان بن گیا‘نو بجے سے پانچ بجے والا عام انسان‘ لوگوں نے اس سے بھی جیلس ہونا بند کر دیا‘ پورے شہر میں اب کوئی شخص اس کا حاسد نہیں تھا‘ لوگ اب اس سے بھی محبت سے ملتے تھے لیکن وہ بھی زیادہ دنوں تک یہ محبت برداشت نہ کر سکا‘ وہ ایک دن بیڈ روم میں گیا‘ نیند کی گولیاں کھائیں‘ بیڈ پر لیٹا اور پھر دوبارہ نہ اٹھا‘ وہ بھی خاموش داستانوں کا ایک نامعلوم کردار بن کر رہ گیا‘ ڈک بھی اس انجام تک کیسے پہنچا‘ہم یہ ڈسکس کرنے سے قبل ہنری کی کہانی کی طرف آتے ہیں۔
ہنری کو اللہ تعالیٰ نے شہرت کی نعمت سے نوازرکھاتھا‘ وہ پیدائشی مشہور تھا‘ وہ پیدائش کے بعد وارڈ میں پہنچا تو وہ وارڈ کے تمام بچوں میں ممتاز تھا‘ ہسپتال کے تمام ڈاکٹرز اور نرسیں اسے پیار کرتی تھیں‘ وہ پورے محلے میں بھی مشہور تھا‘ وہ سکول میں بھی مشہور ہو گیا‘ وہ شہر بھر میں بھی ممتاز تھا اور اس نے نوکری کی تووہ دفتر میں بھی سب سے نمایاں ہو گیا‘ وہ عام نین نقش کا حامل شخص تھا لیکن قدرت نے اس میں شہرت کی ”ریڈیم“ رکھی ہوئی تھی‘ یہ ریڈیم چمکتی تھی تو وہ لوگوں میں نمایاں ہو جاتا تھا‘ لوگ افسروں سے زیادہ اسے جانتے تھے‘ دفتر کا ہر ناممکن کام اسے دے دیا جاتا تھا اور وہ چٹکی بجا کر وہ کام کر جاتا تھا‘ دفتر میں آنے والا ہر شخص سیدھا اس کے پاس آتا تھا اور اس کی تعریف کرتا تھا‘ یہ شہرت اس کیلئے عذاب بن گئی‘ لوگ اس سے بھی جیلس ہو گئے‘ دفتر‘ محلے‘خاندان اور کمیونٹی کے لوگ اس کے حاسد ہو گئے‘ وہ اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے‘ وہ اس کے خلاف بدنامی کی کہانیاں بھی گھڑتے رہتے تھے‘ ہنری بھی یہ دکھ سہتے سہتے تنگ آ گیا اور اس نے بھی اللہ تعالیٰ سے شکوے شروع کر دیئے‘وہ بار بار اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتا تھا ”یا باری تعالیٰ تم نے مجھے اتنا نمایاں کیوں بنایا‘ میں بھی اگر عام لوگوں کی طرح عام ہوتا تو میں بھی سکھی زندگی گزارتا‘ لوگ میرے ساتھ بھی کمفرٹیبل رہتے اور میں بھی ان کے ساتھ خوش زندگی گزارتا‘ یا باری تعالیٰ تو نے مجھے اتنا انوکھا‘ اتنا ڈفرینٹ کیوں بنایا؟“ وہ روز اللہ تعالیٰ سے یہ شکوہ کرتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے ایک دن اس کے شکوے کو بھی سن لیا‘اشارہ ہوا اور ہنری کی شخصیت سے شہرت کی ریڈیم خشک ہو گئی‘ وہ ایک ہی دن میں خاص سے عام آدمی بن گیا‘لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور لوگوں کے منہ موڑتے ہی اس کے حاسدین بھی غائب ہو گئے‘ اب کوئی شخص ہنری سے جیلس نہیں تھا‘ وہ مطمئن ہو گیا لیکن اس کا یہ اطمینان زیادہ دیر تک اس کے ساتھ نہ رہ سکا‘ وہ فرسٹریشن کا شکار ہوا‘ فرسٹریشن ڈپریشن میں تبدیل ہوئی اور ہنری نے ایک دن پل سے چھلانگ لگا دی‘ وہ دریا میں ڈوب کر مر گیا۔
ہم اب ٹام‘ ڈک اور ہنری کی افسوسناک کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اپنے کروڑوں لوگوں میں سے چند لوگوں کو حسن‘خوش نصیبی اور عزت کی نعمتوں سے نوازتا ہے‘یہ نعمتیں ان لوگوں کو عام لوگوں سے ممتاز کر دیتی ہیں‘ یہ لوگ جب ممتاز ہو جاتے ہیں تو عام لوگ ان سے جیلس ہونے لگتے ہیں‘ یہ ان کے حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ لوگوں کا حسد‘ لوگوں کی جیلسی ثابت کرتی ہے یہ عام لوگ نہیں ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور نوازے ہوئے لوگ ہیں‘ لوگ ہمیشہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں یہ جن لوگوں جیسا بننا چاہتے ہیں‘ یہ جن لوگوں کی جگہ پر خود کو دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ کبھی اپنے جیسے یا اپنے سے کمتر لوگوں سے جیلس نہیں ہوتے‘ ٹام‘ ڈک اور ہنری سپیشل لوگ تھے لیکن یہ لوگ حاسدین سے ڈر گئے اور یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر شکر کی بجائے شکوے کرنے لگے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دن ان سے اپنی نعمتیں واپس لے لیں‘ یہ لوگ نعمت کے عادی تھے‘یہ ”خالی پن“ برداشت نہ کر سکے لہٰذا یہ خودکشی کر گئے‘ ٹام‘ ڈک اور ہنری کی کہانیاں ثابت کرتی ہیں حاسدین مقام شکوہ نہیں مقام شکر ہوتے ہیں‘ یہ ثابت کرتے ہیں آپ عام انسان نہیں ہیں‘ آپ خاص ہیں چنانچہ لوگ جب بھی آپ سے حسد کریں آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں‘ شکوہ نہ کریں اور ہمیشہ اس وقت سے ڈریں جب پورے شہر میں کوئی شخص آپ کو حسد کے قابل نہ سمجھے‘ لوگ آپ کا نوٹس لئے بغیر آپ کے قریب سے گزر جائیں‘ میری درخواست ہے آپ جب بھی شکوہ کرنے لگیں آپ فوراً سجدہ کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں‘ شکر شکوے سے لاکھ درجے بہتر ہے۔