مصنف کی کتاب “گوروں کے دیس سے
’’اگر تم اسی لمحے پھڑک جاؤ، تمہارا دم نکل جائے تو تمہارے ساتھ کیا کچھ مر جائے گا؟‘‘ دنیا کے مشہور ترین موٹیویشنل سپیکرز میں سے ایک ، سیاہ فام امریکی لیز براؤن نے چھید دینے والی آنکھوں سے اپنے ناظرین کو گھورا اور اپنے مخصوص لہجے میں گرجا ۔ ’’اگر تم ابھی مر جاؤ تو کیا کچھ اپنے ساتھ لے مرو گے؟ ; کتنے خواب؟ کتنے خیال؟ کتنے آئیڈیاز؟ کتنا کمال؟ یہ سب کچھ ایسے صندوق کی مانند تمہارے ساتھ قبر میں چلا جائے گا ۔ جو کبھی کھلا ہی نہیں ۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو اب تک تم شاید جیون کی سطح پر خراشیں ڈال رہے ہو، اندر پہنچے ہی نہیں ہو‘‘ ۔
میں نے ایک لحظے کے لیے براؤن کے دہلا دینے والے سوال کو سوچا اور پھر خیال آیا کہ وہ صرف مجھ سے ہی نہیں وہاں بھرے ہال میں موجود پانچ سو افرادسے بھی مخاطب تھا ۔ وہ سب میری طرح اس کے پسلیوں میں گھونسا مارنے والے سوال کے سحر میں مبتلا تھے ۔ ’’اگر تم اس لمحے مر جاؤ تو کیا کچھ اپنے ساتھ لے مرو گے؟ ‘‘ ۔ ’’آئی رفیوز ٹو ڈائی این ان لوڈ لائف” ۔ میں مرنے سے انکار کرتا ہوں کہ ابھی تو میں نے جینا شروع بھی نہیں کیا ۔ ایک تیس سال کی آس پاس کی عمر کا سفیدفام نوجوان اٹھا اور لرزتے ہوئے لہجے چیخا ۔ اس کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی کھڑے ہو گئے ۔ اکثر کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ شاید یہ اپنی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا اثر تھا ۔
’’ میں بھی اربوں دوسرے انسانوں کی طرح دیر سے اٹھتی تھی، دیر تک بستر میں پڑے رہنے کی کوشش کرتی تھی ۔ ٹی وی دیکھتی تھی،سیاستدانوں کی مکاریاں اور چالبازیوں سے لطف اندوز ہوتی تھی ۔ ایک خاصا بڑا حصہ فیس بک پہ یا کسی دوسرے سوشل میڈیاپر دوستوں پر جملے کستی تھی ۔ اور وہ سارے کام جو مجھے آج کرنے ہوتے تھے، کل کے لیے رکھ لیتی تھی ۔ حتی کہ مجھے 22 سال کی عمر میں کینسر تشخیص ہو گیا اور مجھے احساس ہوا کہ میرے پاس صرف آج ہے کل تو کبھی نہیں آئے گا‘‘.
رائل سوسائٹی آف آرٹس کے پرشکوہ ہال میں 25سالہ اولیویا نے مجھے بتایا تھا ۔ اس نے حال ہی میں “اگر 10سال سے پہلے میں مر جاؤں،” کے عنوان سے ایک نیٹ ورک قائم کیا تھاجس میں آنے والے لوگ اپنی زندگی کو موثر بنانے کے حوالے سے عہدوپیماں کرتے تھے ۔ وہ خواب جن کی تعبیر دیکھنا اور وہ وعدے جن کا ایفا ہونا ضروری تھا،اس سے پہلے کہ ان کا دم نکل جائے ۔ کیسے کیسے سورما،کیسے کیسے شہسوار،کہانی کار، گلوکار، مرد میدان اپنی زندگی کے بہترین جوہر کو کھوجے بغیر رخصت ہو جاتے ہیں ۔ اور بدلے میں ہمارے پاس جواز ہوتا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا ۔ بالکل اسی طرح جیسے ہر کر گذرنے والے کے پاس جواز ہوتا ہے اور وہ کر گذرتاہے ۔
حتیٰ کہ ایک اینٹ بھی کچھ بننا چاہتی ہے ۔ نوے کی دھائی کے اندر اس فلم میں ووڈی ہیریسن کا وہ جملہ ایک تیر کی طرح یاداشت میں پیوست ہو گیا ۔ ’’ایون اے برک وانٹس ٹو بی سم تھنگ‘‘ حتیٰ کہ ایک اینٹ بھی کچھ بننا چاہتی ہے ۔ اور وہ چاہتی ہے کہ اس کاوجود ٹھکانے لگ جائے ، اس کا ہونا کام آجائے ۔ وہ دیوار کعبہ، مسجدنبوی، کسی الحمرا، تاج محل، کسی درسگاہ کا حصہ بننا چاہتی ہے ۔ تاکہ وہ اپنے ہونے کو ثابت کر سکے ۔ حتیٰ کہ ایک اینٹ بھی کچھ بننا چاہتی ہے اور ہم تو پھر بھی انسان ہیں ۔
ہمیں کونسی دیوار اپنے خوابوں تک پہنچنے سے روکتی ہے؟ ۔ ہمارے عزائم اور ہماری حقیقت کے درمیان کیا حائل ہو جاتا ہے؟ دو چیزیں ایک ڈراور دوسرا اس اذیت سے چھٹکارہ جو ہمیں اپنے تن من پر وارد کرنی پڑتی ہے ۔ کبھی سوچا کہ خوف کیا کچھ کھا جاتا ہے؟ ساری امیدیں اور سارے خواب ۔ مانا کہ حالات خراب ہو ں گے،مانا کہ موسم ناسازگارہے، ہوا تند ہے، اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے، مانا کہ چراغ ہوا کے مقابل ہے مگر یاد رہے کہ کسی بھی حالت میں ڈرنا ایک چوائس ہے ۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا کے نامی گرامی پیغمبر، سائنسدان،سلطنتوں کی بنیادیں کھڑی کرنے والے شہنشاہ،لیڈر، فلسفی، بدترین حالات میں کیسے پیدا ہوتے، بڑے ہوتے اور دنیا کو زیروزبر کر پاتے؟
’’میک اے ڈینٹ ان دی یونیورس‘‘ اپنے ارد گرد کی کائنات میں دراڑڈال دو ۔ پوری دنیا کو جھٹکا دو ۔ ایپل کے بانی سٹیوجابزنے جب مٹھیاں بھینچ کر کہا تھاتو اس کو لبلبے کے کینسر سے لڑتے ہوئے کئی سال ہو چکے تھے ۔ اگر وہ اسی لمحے مر جاتا تو اس کے ساتھ کیا کچھ مر جاتا ۔ چنانچہ اس نے اس لمحے مرنے سے انکار کر دیا جب تک اس کا جینا کام نہیں آگیا ۔ جہاں تک اذیت سے بھاگنے کی بات رہی تو وہ بھی ہمارے اختیار میں ہے ۔ لیکن ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جینا خود ایک اذیت ناک عمل ہے ۔ بڑے سے بڑے سورما کی زندگی میں بھی وہ لمحات آتے ہیں جب زندگی اس کے گوڈے ، گٹے توڑکر اسے نیچے لٹادیتی ہے ۔ یقین رکھیں ۔ آپ کے آس پاس موجود آپ کے تمام تر ہیروز ان لمحات سے گذر چکے ہیں ۔ بس فرق یہ ہے کہ انہوں نے ٹوٹے پھوٹے اجزاء کو سنبھالتے ہوئے، پنجوں کے بل، ایڑیوں کے بل رینگنے کو ترجیح دی ۔ ٹوٹی پھوٹی ٹانگوں پر شکستہ وجود کو استوار کر لیناہی وہ عمل ہے جس کے بعد کہانی کے سارے جن آپ کے قابو میں آ جائیں گے ۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ ہم انسانوں کا مسئلہ کیا ہے؟ ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہم تخیل کے زور پر نہیں بلکہ یاداشت کے زور پر جیتے ہیں‘‘ ۔ دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک اور این ایل پی کے بانی رچرڈبینڈلر نے میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا ۔ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ جو ہم دس سال پہلے تھے ، ایک سال پہلے تھے، یا کل تھے، آج بھی وہیں پہ رُکے ہوئے ہیں‘‘ ۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر نیا دن ایک نیا جہان ہوتا ہے ۔ اس دن وہ سب کچھ ہو ہو سکتا ہے جو آج تک نہیں ہوا ۔ اور اس دن ضروری نہیں وہ کچھ ہو جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ ہم جب چاہیں اپنی تاریخ کو ، یا دنیا کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھ سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ تاریخ بنانے والوں نے تاریخ ہمیشہ سے ایسے ہی لکھی ہے ۔ ہم میں سے اکثر لوگ جب صبح آنکھ کھولتے ہیں تو اخبار میں لکھے ہوئے تبصروں ،یا عینک کے پیچھے سے گھورتے ٹی وی پر موجود تجزیہ نگاروں ، یا کان پر پینسل ٹکائے ۔ بابوؤں ، یاسٹیتھوسکوپ اٹھائے ڈاکٹروں ، یا وعدوں اور امیدوں کی برف کے گولے بیچنے والے سیاستدانوں کو بہت سیریس لے لیتے ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ ان میں سے کسی ایک نے جینے کا طریقہ،سلیقہ یا زائچہ بنا کر دینا ہے ۔ جبکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ سراسر ہمارا ذاتی فیصلہ ہے ۔ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور جو کرنا چاہتے ہیں اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے کتنے پاپڑ بیل سکتے ہی، کتنی قربانیاں دے سکتے ہیں ۔ اور بس دنیا بدلنے والے اور تاریخ لکھنے والے تجزیہ نگاروں ، ناکامیوں کی پیشن گوئیاں کرنے والے زائچہ نویسوں سے زیادہ مستقل مزاج ہوتے ہیں ۔ اور اسی بنا پر وہ اپنی مرضی کی دنیا تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ تاہم اگر آپ اپنی نیند ، بھوک ، ڈر اور جبلتوں پر قابو نہیں پا سکتے تو پھر آپ کے اندر خوابوں اور امیدوں کے صندوق مقفل ہی دنیا سے چلے جائیں گے ۔ خواب تو سبھی دیکھتے ہیں ۔ اصل چیز یہ ہے کہ آنکھ کھلنے کے بعد ہم کرتے کیا ہیں ۔ کیونکہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے والے لوگ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ اکثر ان کی تعبیر تک پہنچ جاتے ہیں ۔
تو پیارے پڑھنے والے،یہ ہمارے بس میں ہے کہ ہم ڈرنے سے انکار کر دیں ۔ یوں وہ سب لوگ بے اثر ہو جائیں گے جو ہمارے ساتھ ڈرانے کی تجارت کرتے ہیں ۔ جو ہمیں نامعلوم اور ان ہونی آفتوں کو یاد کراتے ہیں ۔ جو ہمیں ماضی کے پچھتاوں کا اسیر رکھتے ہیں ۔ بس ہمیں اپنے آپ کو ماضی کے صندوق میں بند کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ اپنے ماضی سے بڑے ہیں ۔ آپ آج ابھی اور اسی وقت وہ کرنا شروع کرسکتے ہیں جس کے لیے آپ کے اندر کب سے آواز آرہی ہے ۔ ہاں مشکلات ضرور آئیں گی مگر کائنات میں ’’ڈینٹ‘‘ڈالنے کا کام اتنا ہی بڑا ہے ۔
اگر تعلیم کم ہے تو زیادہ کر لو ، اگر استعداد کم ہے تو بڑھا لو، اگر وزن زیادہ ہے تو کھانا کم کر دواور بھاگنا شروع کر دو،اگر ملازمت نہیں ملتی تو بزنس شروع کر و کہ فلاح اسی میں ہے ۔ اگر لیڈروں سے مایوس ہو توخود لیڈر بن جاؤ ۔ مسیحا کا انتظار مت کرو، زیادہ مہارتیں سیکھو،زیادہ زبانیں بولو ، اپنی چربی گھلاؤ، ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر طعنے مت مارو کہ یہ تھڑدلوں کا کام ہے ۔ باتیں کم کرو ، کام زیادہ ۔ لوگوں کی باتوں کی طرف کم دھیان دو، کام کی طرف زیادہ کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ باتوں سے بڑی سچائی ہے ۔ اپنے اندر کی آواز سنو کہ کون سی کیسٹ چل رہی ہے ۔ اگر پسند نہیں تو اسے باہر نکال پھینکو ۔ شکایت مت کرو کہ دنیا مسائل کی طرف توجہ دلانے والوں نے نہیں ، مسائل حل کرنے والوں نے بدلی ہے ۔ آج ابھی اسی وقت ایک نیا آغاز ہے ۔ آج تم وہ سب کچھ بن سکتے ہو ،کر سکتے ہو جو تم کل تک نہیں تھے ۔ اس لیے کہ ایک اینٹ بھی کچھ بننا چاہتی ہے اور تم تو پھر بھی انسان ہو ۔
ذرا سوچو ! اگر تم اسی لمحے مرجاؤ تو کیا کچھ اپنے ساتھ لے مرو گے. لیکن اس سے بھی پہلے زرا یہ سوچو کہ اگر تم جی جاؤ، تو کیا کرامتیں، کیا معجزے کر گزرو گے؟