مسئلہ فلسطین

ادارہ انذار

مسئلہ فلسطین کا آغاز 1917 میں معاہدہ بالفور سے ہوا تھا جب انگریز حکومت نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور وہاں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ 1948 میں اسرائیل بنا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ایک ہی معاملہ بار بار دہرایا جاتا ہے: فلسطینیوں کی سخت مزاحمت، عربوں کی بھرپور حمایت اور باقی مسلمانوں کی زبردست تائید اور ان سب کے باوجود فلسطین میں یہودی علاقوں اور آبادکاروں میں مسلسل اضافہ اور فلسطینیوں پر زندگی کا مستقل تنگ ہونا۔   

مسئلہ فلسطین کو دیکھنے کے بہت سے زاویے ہوسکتے ہیں، مگر اس طالب کے لیے ایک ہی زاویہ اہم ہے۔ وہ زاویہ قرآن مجید کا زاویہ ہے۔ اس مسئلے کے دو فریق ہیں۔ ایک یہود اور دوسرے عرب۔ دونوں کے متعلق قرآن مجید پہلے ہی بتا چکا ہے کہ وہ کیا کریں گے تو جواب میں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ یہود کے متعلق قرآن مجید کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کے کفر کے بعد وہ قیامت تک مسیحیوں سے مغلوب رہیں گے اور وقفے وقفے سے ان پر سخت عذاب مسلط کیا جائے گا۔ تاہم ان وقفوں اور غلامی کے درمیان ان کو مہلت ضرور ملے گی۔ یہود اس وقت اسی مہلت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔   

بعض نادان لوگ اس مہلت کو یہود کا عالمی غلبہ سمجھتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہود پچھلے دو ہزار برس سے مسلسل مغلوبیت اور عذاب کا شکار ہیں۔ اس وقت بھی وہ مغربی طاقتوں کے بل بوتے پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں۔ پہلے برطانیہ اور اب امریکہ کی مسیحی طاقت نے اپنے مفادات کے لیے ان کو استعمال کیا ہے۔پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے یہودیوں کے ذریعے سے امریکہ کو جنگ میں شریک کروا کے پہلی جنگ عظیم میں اپنی شکست فتح میں بدلی اور اس خدمت کے بدلے میں اعلان بالفور ہوا۔ ہٹلر نے اسی جرم کی بنا پر یہود کا قتل عام کیا تھا۔

اس کے بعد بھی مغربی طاقتوں نے یہود کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔1938 میں سعودی عرب میں تیل کے سب سے بڑے عالمی ذخیرے کی دریافت کے بعد مغربی طاقتوں کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا معیار زندگی اور ترقی عرب کے اس تیل پر منحصر ہے۔ چنانچہ اس تیل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی غرض سے اسرائیل کو بنایا گیا تاکہ عرب ریاستیں مسلسل خوف میں رہ کر مغربی طاقتوں کے کنٹرول میں رہ سکیں۔ عرب ریاستوں کی دولت کا ایک بڑا حصہ اس اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے جو وہ اسرائیل کے خوف سے خریدتی ہیں اور یوں تیل پر خرچ ہونے والی رقم اسلحے کی تجارت سے واپس مغربی اقوام کو مل جاتی ہے۔

چنانچہ مغرب اور خاص کر امریکہ کی اسرائیلی حمایت کا سبب مغرب کی وہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ جس رقم کو تیل خریدنے پر خرچ کرتے ہیں، اس سے زیادہ اسلحہ بیچ کر کما لیتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019-2000 کے عرصے میں مشرق وسطی میں 1.3 کھرب ڈالر کا اسلحہ خریدا گیا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک نے 1950سے 2017 تک 3.8 کھرب ڈالر کے اسلحے کی درآمد کے معاہدے کیے۔اس اسلحے کے بیچنے والے زیادہ تر مغربی اقوام ہیں۔ آپ اندازہ کیجیے کہ پاکستان کا کل بجٹ اس برس 45 ارب ڈالر کا ہے۔ اس سے ان معاہدوں کی بھاری مالیت کو سمجھا جاسکتا ہے اور اس منافع کو جو مغربی اقوام اسلحہ بیچ کرحاصل کر رہی ہیں۔

چنانچہ یہ تصور درست نہیں کہ یہود مغرب کو استعمال کر رہے ہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں ہم اس بات کی نفی نہیں کر رہے کہ یہودیوں کا امریکہ یا مغرب پر اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اخبار، جرائد، ٹی وی چینل، فلمیں بنانے والے ادارے اور اب سوشل میڈیا میں ہر جگہ یہودیوں کا غلبہ ہے۔ اسی طرح مالیاتی اداروں پر ان کا گہرا کنٹرول ہے۔ ان چیزوں کی بنیاد پر وہ اسرائیل کو بہت سے فوائد پہنچاتے ہیں، مگر مغربی اقوام کو یہودیوں کی حمایت کے بہت سے فوائد ملتے ہیں جن میں سے سب سے بڑے فائدے کا ذکر ہم نے اوپر کر دیا ہے۔

یہ مفادات کا دو طرفہ معاملہ ہے۔ جب مغربی اقوام یہ محسوس کریں گی کہ یہود ان کے مفاد کے خلاف جاکر کھڑے ہوگئے ہیں تو وہ دوبارہ وہی کریں گی جو تاریخ میں یہود کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی بات یہود کے بارے میں بالکل درست ہے کہ وہ مسیحی اقوام سے مغلوب ہیں اور وقفے وقفے سے ان پر خدائی عذاب کا کوڑا بھی برسے گا کیونکہ انھوں نے پہلے انبیا کی ایمان و اخلاق کی تعلیم کو رد کرکے ظاہر پرستی اور قوم پرستی کا مظاہرہ کرکے اللہ کے غضب کو بھڑکایا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کفر کیا۔

عربوں کے متعلق بھی اللہ کا وہی قانون ہے جو یہود کے متعلق ہے کیونکہ یہ دونوں حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں اور یہ قانون حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے کہ انھیں دنیا پر حق کی شہادت دینی ہے۔ وہ یہ کام نہیں کریں گے تو اسی دنیا میں ان پر ذلت، رسوائی اور عذاب مسلط کیا جائے گا۔ یوں یہ شہادت جو وہ اپنے قول و فعل سے نہیں دیں گے وہ ان کے حالات سے دلوائی جائے گی کہ اللہ مجرموں کو سزا دیتا ہے اور وفاداروں کو انعام دیتا ہے۔

عربوں کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے۔ خلافت راشدہ، بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں عرب پوری دنیا کے امام تھے۔ مگر پھرانھوں نے ایمان و اخلاق کے تقاضے پامال کیے تو پہلے اندلس میں ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور پھر تاتاریوں نے بغداد کو تباہ کرکے عرب اقتدار کو ختم کر دیا۔ عربوں کی حالیہ تاریخ بھی اسی قانون کا ثبوت ہے۔ اہل عرب اور خاص کر سعودی عرب کے لوگوں نے جب شرک کے مقابلے میں توحید کو پوری طرح اختیار کیا تو ہم جانتے ہیں کہ ان کے قدموں سے اللہ نے تیل کی دولت کے انبار نکال دیے۔ اگر وہ اخلاقیات کو بھی اختیار کرلیتے تو دنیا پر ان کا غلبہ قائم ہوجاتا۔ مگر بدقسمتی سے اس معاملے میں وہ پیچھے رہ گئے۔ چنانچہ ان کو دولت اور ان کی ریاست کو استحکام تو مل گیا مگر عالمی غلبہ و اقتدار نہیں مل سکا۔ ان کی اخلاقی پستی ہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر اسرائیل جیسا چھوٹا ملک کروڑوں عربوں کے بیچ میں بیٹھ کر انھیں مسلسل ذلیل و رسوا کرتا رہا ہے۔

قرآن مجید نے قوموں کے بارے میں ایک مستقل قانون بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے معاملے کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے معاملات خود نہیں بدلتے، (الرعد11:13)۔ چنانچہ عربوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور ایمان و اخلاق کی دعوت کو پوری طرح اختیار کریں۔ اگر وہ یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے حالات و اسباب پیدا کر دیں گے کہ اسرائیل تباہ و برباد ہوجائے گا۔ مگر عرب یہ نہیں کرتے اور الٹا اخلاقی پستی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں تو یہ طے ہے کہ ذلت و رسوائی کی یہ تاریک رات ختم نہیں ہونے کی۔

ہمارے لیے بھی درست راستہ یہ ہے کہ عربوں کو ایمان و اخلاق کی قرآنی دعوت کی تلقین کریں۔ یہ ان کی اصل خیر خواہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی عجمی مسلمانوں کا گروہ جب اسلام کا علمبردار بن کر دنیا میں کھڑا ہوجاتا ہے تو اس پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہوجاتا جو حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے۔ اہل پاکستان نے یہی راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ یعنی وہ قومی اور دستوری سطح پر اسلام کے علمبردار ہیں۔ دوسری طرف وہ عملی طور پر اسلام کی دعوت ایمان و اخلاق سے کوسوں دور بے عملی اور دو عملی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو ہماری تمام مشکلات اور ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ورنہ عربوں کے ساتھ ہماری رسوائی کے دن بھی ایسے ہی جاری رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں