اللہ والوں کی عبادت

اللہ والوں کی عبادت

حکایات رومی

ایک ولی اللہ امامت کے لیے کھڑے  ہوئے، چند ہم عصر ساتھی بھی ان کی اقتدا ء میں نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، جیسے ہی وہ حضرات تکبیروں سے وابستہ ہوئے، قربانی کی طرح اس دنیا فانی سے باہر نکل گئے۔تکبیر کے معنی ان کے نزدیک یہ تھے کہ اے اللہ،ہم تیرے نام پہ قربان ہوئے جیسےذ بح کے وقت اللہ اکبر پڑھی جاتی ہے۔ انہوں نے اللہ اکبر پڑھی اور اپنے نفس کا سر کاٹ دیا، جسم شہوتوں اور حرص سے چھوٹ گیا، بسم اللہ کے ذریعے نماز میں بسمل ہو گئے۔

اس کے بعد انہوں نے قیامت کے دن کی طرح اللہ کے حضور کھڑے ہو کرہاتھ باندھ لیے، پھر اللہ عزوجل پوچھتے؛ میں نے ایک عمر تجھے عطا کی ،  میرے لیے کیا لایا؟ روزی کی طاقت دی،تو نے کس کس کام میں لگائی۔ بینائی ، سماعت اور دیگر حواس کی دولت دی، تو نے کس طرح استعمال کی،ہاتھ پاؤں تجھے کام کرنے کے لیے دیے،تو نے اس سے کیا کام لیا؟قیام کی حالت میں اللہ تعالی کی طرف سے ایسے متعدد سوال ہوتے رہے،چونکہ انسان کا دامن خالی تھا،لہذا وہ سوالوں کی تاب نہ لا سکا اور فورا رکوع میں چلا گیا۔شروع سے رکوع میں اللہ عزوجل کی عظمت کی بڑائی کرنے لگا، اللہ کا حکم ہوتا ہے؛ اٹھ اور جواب دے، وہ سر اٹھاتا  ہے ،پھر طاقت گویائی نہ پا کر سجدہ میں منہ کے بل گر پڑتا ہے۔پھر سجدے سے سر اٹھانے کا حکم ہوتا ہے، پھر سر اٹھا کر گر پڑتا ہے، پھر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کھڑا ہوتا ہے، پھر اس کے ساتھ یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔

دوسری رکعت مکمل کرنے کے بعد کھڑے ہونے کی تاب نہ پا کر قعدہ میں بیٹھ جاتا ہے۔اس میں اللہ عزوجل پھر فرماتے ہیں؛ میں نے تجھے بے شمار نعمتیں دیں، تو نے کیسے خرچ کیں؟مجھے حساب دے ۔ چونکہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا، لہذا جواب نہیں دے پاتا۔

داہنی طرف سلام کہتا ہے اور انبیاء کرام کو مخاطب کر کے اپنی مدد کے لیے بلاتا ہے پھر بائیں جانب اپنے اہل خاندان اور دوست و احباب کو سلام کہتا ہے اور مدد کے لیے بلاتا ہے۔دونوں طرف سے مایوس ہو کر رحیم و کریم آقا کے حضور دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتا ہے۔پھر وہ آہ و زاری سے اپنے خدا کی خوشنودی کے حصول کے لیےکوشش کرتا ہے۔

فرشتوں سے بہترہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں