باندھ کر مروا دیا

ایک آدمی بہت غریب تھا،سارا دن دوڑ بھاگ کرتا لیکن مزدوری نہیں ملتی تھی، مل بھی جاتی تو معاوضہ اس قدر قلیل ہوتا کہ پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہوتا۔ وہ اس مشقت بھری زندگی سے اکتا گیاتھا، اُس نے سوچا ؛ ایسے جینے سے مر جانا بہتر ہے۔

ایک روز وہ خود کشی کے ارادے سے جنگل کی طرف چل پڑا، گلے میں پھندہ ڈالا، لٹکنے کے لیے چھلانگ لگانے ہی والا تھا کہ موت کا فرشتہ نمودار ہوا، فرشتہ بولا؛ میاں ، کیا کر نے لگا ہے تُو؟ تجھے پتہ نہیں کہ خود کشی حرام ہے، آدمی بولا ؛ تو میں کیا کروں؟ پیٹ بھر نے کے لیے روٹی نہیں ملتی ، بھوکوں مرنے سے تو خود کشی بہتر ہے۔فرشتے نے کہا؛اچھا اگر تجھے روٹی مل جائے تو کیا خود کشی سے باز آ جائے گا؟
مزدور نے کہا ؛ تو میں کیا پاگل ہوں جو پھر بھی خود کشی کا سوچوں !

فرشتے نے کہا؛ اچھا تو پھر تُو حکیم بن جا، جب تو مریض کو دیکھنے جایا کرے گا تو ہم تجھے نظر آ جائیں گے، اگر ہم مریض کے سرہانے کھڑے ہوں تو سمجھ لینا کہ مریض کو شفا حاصل ہو گی ، پھر تو اسے کوئی سی پُڑیا دے دیا کرنا ، وہ صحت یاب ہو جائے گا اور اگر ہم مریض کی پائینتی پر کھڑے نظر آئیں تو جان لینا کہ مریض کا وقت پورا ہو چکا۔فرشتے کے کہنے پر مزدور حکیم بن گیا۔

ایک دن اس کی حکمت اتنی کامیاب ہو گئی کہ شہر بھر میں اس کا چرچا ہو گیا۔یہ خبر بادشاہ تک پہنچی تو بادشاہ نے اسے آزمایا، آزمائش میں وہ پورا اتُرا تو بادشاہ نے اسے شاہی حکیم مقرر کر دیا۔ایک روز حکیم صاحب خود بیمار پڑ گئے ، پھر جو آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ اس کی پائینتی پر کھڑا ہے ، یہ دیکھ کر حکیم صاحب تو گبھرا گئے، انہوں نے سرہانہ اٹھا کر پائینتی پر رکھا اور رخ بدل کر لیٹ گئے، پھر جو دیکھا تو فرشتہ پاؤں کی طرف کھڑا تھا۔حکیم صاحب نے پھر سرہانہ بدل لیا۔گھر والوں نے جب دیکھا کہ حکیم صاحب باربار سرہانہ بدل رہے ہیں تو وہ گھبرا گئے، وہ کسی اور حکیم کو بُلا لائے ، معالج نے آتے ہی دیکھ کر کہاکہ مریض کو سرسام کا دورہ پڑا ہے، ذہن ماؤف ہو گیا ہے ، لہذا انہیں چارپائی پر باندھ دیں تا کہ بار بار دیوانہ وار رخ  نہ بدلیں ، گھر والوں  نے معالج کے حکم کے مطابق حکیم صاحب کوچارپائی پر باندھ دیا۔

اس طرح حکیم صاحب نے بڑی بے بسی نے منہ پر ہاتھ پھیر کر فرشتے سے کہا؛
” حضور ، میں ہر گز نہ مرتا، لیکن گھر والوں نے باندھ کر مروا دیا”

اپنا تبصرہ بھیجیں