پیدائش: 1207بمطابق عیسوی، 604 بمطابق ہجری
انتقال: 1273 بمطابق عیسوی، 672 بمطابق ہجری
تعارف
محمد جلال الدین رومی ؒ مشہور فارسی شاعر تھے۔مولانا 604 ہجری میں بلخ اصل نام جلال الدین ؒتھا لیکن مولانا رومیؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔ مولانا کا اصل نام محمد تھا،لقب جلال الدین اورعرفیت مولائے روم تھی۔ آپ کے والد کا نام “محمد”، لقب شیخ بہاوالدین ؒ اور وطن بلخ تھا، آپ کے والد محترم صاحب علم اور پورے خراسان میں مرجع خلائق تھے۔ دادا کا نام کانام بھی محمد تھاجبکہ حسین بلخی مولاناروم کے پرادا تھے۔ آپ کے نسب کا سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے۔
سلسلہ نسب
محمد بن محمد بن محمدبن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکرالصدیق
ابتدائی تعلیم
ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاوالدین ؒ (والد)نے طے کرائے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدینؒ کو جو اپنے زمانے کے فاضل علماء میں شمار کیے جاتے تھے، کو مولانا کا معلم اور اتالیق بنا دیا۔ مولانا رومی ؒ کو اکثر علوم انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کی وفات کے بعد 639ء میں شام کا قصد کیا ۔ ابتدا میں حلب کی مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولانا کمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔
اولاد
مولانا رومی ؒ کے دو فرزند تھے؛ سلطان ولد (فرزند اکبر)،علاؤ الدین محمد۔ سلطان ولد خلف الرشید تھے گو مولانا ؒ کی شہرت کے آگے ان کا نام روشن نہ ہو سکا لیکن علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھےجبکہ علاؤ الدین محمد کا نام صرف اس کارنامے سے زندہ ہےکہ انہوں نے حضرت شمس تبریز ؒ کو شہید کیا تھا۔
علم و فضل
مولانا رومی ؒ اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے، لیکن آپ کی پہچان ایک صوفی شاعر کے طور پہ ہوئی۔ دیگر علوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا رومی ؒ کی طرف رجوع کرتے تھے۔حضرت شمس تبریز ؒ ،مولانا رومی ؒ کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا رومی ؒ کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انہیں اپنے پاس بلوا لیا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلےگئے۔
سلسلہ باطنی
مولانا کا سلسلہ اب تک قائم ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ “جلالیہ “کہلاتے ہیں۔چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا، اس لیے ان کے نام کی وجہ سے یہ نام مشہو ر ہوا۔لیکن آج کل ایشیائے کوچک ، شام، مصر، اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کے لوگ مولویہ کہلاتے ہیں۔یہ لوگ نمدہ کی ٹوپی پہنتے ہیں، جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی۔ مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔خرقہ یا کرُتہ کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر وشکر کے لیے حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ ہلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔
تصانیف
آپ کی تصانیف میں دیوان شمس تبریز، مثنوی شامل ہیں۔ سب سے مشہور تصنیف “مثنوی مولانا روم “ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور کتاب “فیہ مافیہ”بھی ہے۔
وفات
مولانا رومؒ 1273عیسوی میں بمطابق 672ہجری انتقال کر گئے، ان کا مزار ترکی (قونیہ) میں واقع ہے جو آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔

ہر فرد کسی خاص مقصد کے لیے پیدا ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کی خواہش پہلے سے ہی اس کے دل میں رکھ دی جاتی ہے!