برداشت سے زیادہ بوجھ نہ اٹھائیں | قرۃالعین شعیب

اللہ تعالی کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ یہ وہ جملہ ہے جو ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنا بوجھ بھی دوسروں پر ڈال دیتے ہیں اور اکثر دوسرے لوگ ہمارا بوجھ اٹھائے ساری زندگی چلتے رہتے ہیں۔ ہم انھیں یہی تلقین کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا لہذا یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
بے شک اللہ تعالی ہر تقدیر پر قادر ہے لیکن اللہ تعالی نے کچھ اختیارات انسان کو بھی دیے ہیں۔ جیسے اس نے اپنا بوجھ خود اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی کسی کا بوجھ اپنی خوشی سے تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر بوجھ نہیں بننا چاہیے۔
اکثر اوقات دفاتر میں باس اپنے ماتحت سے اپنے بھی سارے کام کرواتے ہیں اس سے ماتحت کی نہ صرف کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ ذہنی اضطراب کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ عزیز رشتہ دار اپنے رویوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال دیتے ہیں جسے اٹھائے وہ ساری زندگی چلتے رہتے ہیں۔ کسی پر اپنے رویے کا اور جذبے کا بوجھ ڈالنا جسمانی بوجھ سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جس سے لوگوں میں نفسیاتی اور جذباتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ بوجھ کی سب سے تکلیف دہ صورت ہوتی ہے۔
کچھ لوگ دوسروں کی غلطیاں نہیں بھولتے انھیں گنواتے رہتے ہیں۔ چاہے کسی نے غلطی سے توبہ کرلی ہو اسے یاد کرواتے ہیں کہ تم پر یہ بوجھ بھی ہے۔ کچھ گھروں میں کام کا بوجھ ایک شخص پر ڈال کر سب اس کی کمائی کھاتے ہیں۔ کسی ایک فرد کے ذمے گھر کے سارے کام لگا کر باقی افراد سکون کی نیند سوتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ چپ چاپ دوسروں کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں لوگ اس پر اور بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ مدد کی اپنی اہمیت ہے لیکن تعاون اپنی مرضی سے کیا جایے تو تعاون ہوتا ہے وگرنہ وہ بوجھ ہوتا ہے۔
کچھ لوگ خوامخواہ کی نیکیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ جیسا کہ یہ کام کر دو بہت ثواب ملے گا اور ساتھ ہی کوئی حدیث کوئی واقعہ سنا کر دوسرے کے مذہبی جذبات کا فائدہ اٹھانا یا مذہب کی بات سے ذاتی مفاد کا راستہ نکالنا بھی دوسرے پر بوجھ ہے۔ دوسرا ذہنی و جسمانی طور پر ہو سکتا اس نیکی کو کرنے کی کنڈیشن میں ہے بھی یا نہیں۔ کہیں وہ تھکا ہوا نہ ہو، یا کسی پریشانی کا سامنا نہ کر رہا ہو، ہو سکتا ہے مصروف ہو اس پر نیکی کا بوجھ ڈالنا بھی مناسب نہیں۔
جب اللہ تعالی کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ایک دوسرے پر بوجھ نہ بنیں۔ نہ ہی دوسرے کی برداشت کا امتحان لیں۔ اپنے اردگرد دیکھیں نظر دوڑائیں دیکھیں کوئی آپ کے رویوں کے یا کام کے بوجھ تلے تو نہیں اسے آزاد کیجیے۔ اس کی مدد کیجیے عہد کیجیے کہ اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے۔ جب قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا تو اس کی پریکٹس ابھی دنیا سے شروع کیجیے۔
دوسری طرف ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی استطاعت سے زائد بوجھ نہ اٹھائیں۔ اپنی جانوں پر ظلم نہ کریں۔ نہیں کہنا سیکھیں۔ خود کو اذیت میں مبتلا نہ کریں۔ کیونکہ ہمارے جسموں کا بھی ہم پر حق ہے۔ حق یہ ہے کہ ان نعمتوں کی حفاظت کریں جو اللہ نے ہمیں دیں پیں۔ جس میں سب سے اہم ہمارا ذہنی سکون ہے۔ اسے غارت نہ کریں۔ اگر ذہن پرسکون ہوں گے تو معاشرہ مثبت سمت میں پروان چڑھے گا۔ دوسرے کا انکار سن کر اسے انا کا مسلہ بھی نہ بنائیں۔ نہ بوجھ اٹھائیں نہ بوجھ بنیں

اپنا تبصرہ بھیجیں