کرب کا استعارہ بننے سے بہتر ہے فرار ہو جاؤں۔ کون سا دیس بھائے گا، کس شہر بسیرا ہوگا، کس گاؤں میں ٹھہروں گی، کس چہرے پر رکوں گی، کس جا منزل ملے گی؟ کیا زمین مجھے معاف کر دے گی اور کیا آسمان مجھ پر گر جائے گا؟ فرار کے بعد کیا کرب پیچھے رہ جائے گا؟ سرد دھندلکا اور گرم کافی اداسی کو کتنا پھیلا دیتے ہیں اور سوچوں کو منتشر کر دیتے ہیں۔ کیا کیا کرنے پر اکساتے ہیں۔ بعض اوقات اداسی اور تنہائی خود کتنی منتشر اور بدحواس ہو جاتی ہے۔ تنہائی اور اداسی کی بدحواسی دیکھنی ہو تو چاند کا مدوجزر دیکھو۔ کیسے لہریں چودہویں رات کی چاندنی کے سحر میں مبتلا ہو کر بد حواس ہو جاتی ہیں اور ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر پلٹ جاتی ہیں۔
تو کیا ہم بھی اپنے اپنے چاند کی لہروں سے متاثر ہوتے ہیں؟ اور کیا ہماری اداسی ہماری بدحواسی میں بدل جاتی ہے یا چاند صرف سمندر پر اثر انداز ہوتا ہے؟ ہمیں دیکھو ہم بھی تو سمندر ہیں بلکہ سمندروں سے بھی گہرے۔ کیا کبھی سمندر نے ڈوب جانے کا کرب سہا ہوگا اور ہمیں دیکھو ہم اپنے اندر ڈوب ڈوب کر مرتے رہتے ہیں اور مر مر کر ابھرتے رہتے ہیں۔ ہماری بے انتہا لاشیں ہمارے سمندر پر تیرتی رہتی ہیں اور ہم انہیں نہ تو دفن کر سکتے ہیں اور نہ جلا سکتے ہیں۔ اور جب لاشوں سے سمندر بھر جاتا ہے تو تعفن سے ہمارا سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔ اور تب ہم فرار ہونے کا سوچتے ہیں۔
سمندر کبھی تم نے فرار کا سوچا؟ تم بدحواس تو ہوتے ہو کیا کبھی فرار ہوئے ہو؟ دیکھو دریا فرار ہو جاتا ہے۔ وہ مسلسل راستے بدلتا ہے۔ اور تم اور ہم سدا ایک جگہ کیوں رہتے ہیں۔ دیکھو تم بھی کثافتوں اور تعفن والی لاشوں سے بھرنے والے ہو۔ عنقریب تم اپنے اندر ڈوب ڈوب کر مرو گے اور ابھرو گے۔ اور مرنے کے بعد ابھرنا اور پھر مرنا جانتے ہو کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے وہ بھی اپنے پانی میں۔ وہ پانی جسے ہم سمیٹ سمیٹ کر رکھتے ہیں جسے ہم پالتے ہیں اور سنبھالتے ہیں اور کبھی سوکھنے نہیں دیتے۔
میں ایک بار پہلے فرار ہوئی تھی اور زمین نے مجھے راستہ نہیں دیا تھا۔ میرے راستے میں جنگل اور پہاڑ بچھا دیے۔ سانپ اور بچھوؤں سے بھرے جنگل اور پہاڑوں پر لکڑ بھگے اور شیر۔ جنگلی راستوں پر چلتے چلتےجوتے ریت سے بھر گئے اور کپڑے جھاڑیوں سے الجھ کر تار تار ہو گئے۔ اور میں اپنے وجود کو چھپائے بھاگی اور تنہائی نے مجھے بد حواس کر دیا اور میں پلٹی تو سب سو رہے تھے۔ میں نے شاور لیا اور کافی کا کپ پیا اور کمبل اوڑھ کر نیم دراز ہوگئی۔
صبح کی روشنی دھند میں لپٹ کر سو رہی تھی اور میرے اردگرد لامتناہی اداسی اور تنہائی کے جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ سانپوں اور بچھوؤں سے بھی زیادہ خطرناک جنگل۔ میں نے بدحواس تنہائی کو بہت قریب سے دیکھا اور اسے چپکے سے پھیلنے دیا۔ اور یہ پھیل کر کائنات سے باہر نکلنے لگی اور میں فرار کی منتظر رہی۔ ماں نے سمجھایا کہ یہ جو تو بال کھولے ٹھنڈی ہوا میں ٹیرس پر کھڑی رہتی ہے تیرے دماغ کو ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ بھلا عورت بھی فرار ہو سکتی ہے۔ روایات سے، رویوں سے، مذہبی کہانیوں سے جنہیں عورت کی خوشی اور آزادی سلب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ خدائی تقسیم ہے۔ اور جب تم ان سے فرار ہوتی ہو تو یہی چاند اسی وقت کئی اور طاقتوں کو بھی بد حواس کر دیتا ہے۔
سینکڑوں سانپ اور انسان نما بھیڑیے بھی انسانی بستیوں کا رخ کرتے ہیں اور فرار ہوئی ہوئی آزادی میں اپنے زہریلے دانت اور نوکیلے پنجے گاڑ دیتے ہیں۔ فرار ہوتی ہوئی آزادی سے قید میں پڑی آزادی بہتر ہوتی ہے۔ تمہیں زمین نے راستہ نہیں دینا۔ میں انکھیں بند کرکے مسکرا دی اور میں نے اس بار فرار کے لیے زمین نہیں آسمان کو چنا تھا جو بڑا وسیع ہے۔ زمین کی طرح محدود نہیں۔ اگلی صبح ماں مجھے جگانے آئی تو میں آسمان کی طرف پرواز کر چکی تھی۔