بلراج ساہنی بالی ووڈ کے نامور اداکار تھے، ایک وقت تھا جب سینما کا دوسرا نام بلراج ساہنی تھا اور بلراج ساہنی کو سینما کہا جاتا تھا، یہ 1913میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، گارڈن کالج میں پڑھتے رہے، پھرگورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے، وہاں سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا، راولپنڈی واپس آئے، شادی کی اور بیگم کو لے کر بنگال چلے گئے اور رابندر ناتھ ٹیگور کی یونیورسٹی شانتی نیکیتن میں انگریزی پڑھانے لگے۔
مہاتما گاندھی سے رابطہ ہوا، گاندھی جی نے انھیں لندن بھجوا دیا اور یہ بی بی سی میں بھرتی ہو گئے، وہاں سے ان کا صداکاری اور اداکاری کا کیریئر شروع ہوگیا اور پھر بلراج ساہنی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، ان کی فلمیں دھرتی کے لعل، دو بیگہ زمین، چھوٹی بہن، کابلی والا، وقت اور گرم ہوا برصغیر پاک وہند میں جدید سینما کی بنیاد ثابت ہوئیں، قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان بھارت شفٹ ہوگیا، بلراج ساہنی 1973میں ممبئی میں فوت ہوئے لیکن یہ مرنے تک راولپنڈی اور لاہور کو یاد کرتے رہے۔
اداکاری کے علاوہ مصنف بھی تھے، انگریزی، ہندی اور اردو تینوں زبانوں میں روانی سے لکھتے تھے اور لوگ ان کی تحریریں بھی پڑھتے تھے، یہ 1962 میں اپنے کیریئر کی پیک پر پاکستان کے دورے پر آئے تھے، گورنمنٹ کالج ان کا میزبان تھا، یہ 10 اکتوبر 1962 کو لاہور پہنچے اور انھوں نے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر لیٹ کر اس کی مٹی چوم کر اپنے وزٹ کا آغاز کیا، یہ پیدل چل کر گورنمنٹ کالج بھی پہنچے تھے۔
اس وقت یہ پاکستان میں بھی بہت مقبول تھے چناں چہ ہر جگہ لوگوں نے ان کا کھلے دل سے استقبال کیا اور ان پر اپنی محبتیں نچھاور کیں، ڈاکٹر نذیر احمد اس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے، یہ اپنے زمانے کے انتہائی مشہور معلم اور دانشور تھے، فیض احمد فیض جیسے مشاہیر بھی ان کے سامنے بولنے سے پہلے ان سے اجازت لیتے تھے، ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج ہی میں رہتے تھے، انھوں نے بلراج ساہنی کے لیے اپنا بیڈ روم خالی کر دیا اور انھیں اس میں ٹھہرا دیا، یہ بلراج کے لیے اعزاز کی بات تھی۔
بلراج ساہنی نے کمرے میں جا کر جب اپنے سوٹ کیس کھولے اور اپنے کپڑے لٹکانے چاہے تو اسے کمرے میں وارڈروب نہیں ملی، وہ کپڑے اٹھا کر پورے کمرے میں پھرتے رہے مگر ڈاکٹر نذیر احمد کے بیڈروم میں کپڑوں کی الماری نہیں تھی، انھوں نے آخر میں ڈاکٹر نذیر احمد سے پوچھا “سر آپ اپنے کپڑے کہاں لٹکاتے ہیں” ڈاکٹر نذیر احمد شرمندہ ہو کر بولے، بلراج صاحب میں معافی چاہتا ہوں میرے کمرے میں وارڈروب نہیں ہے، بلراج نے دوبارہ پوچھا پھر آپ اپنے کپڑے کہاں لٹکاتے ہیں؟
ڈاکٹر صاحب کے جواب نے بھارت کے سب سے بڑے اداکار کو حیران کر دیا، ان کا کہنا تھا “یار میرے پاس اتنے کپڑے ہی نہیں ہوتے کہ میں وارڈروب کی مصیبت پال لوں” یہ سن کر بلراج دیر تک ان کی طرف دیکھتے رہے، کیوں؟ کیوں کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے اور یہ وہ ادارہ تھا جس سے پورے ہندوستان کا فیشن شروع ہوتا تھا۔
بلراج ساہنی نے تحقیق کی تو پتا چلا ڈاکٹر صاحب کے پاس صرف دو سوٹ ہیں، ایک لانڈری میں ہوتا ہے اور دوسرا وہ پہن لیتے ہیں، سلیپنگ سوٹ وہ باتھ روم میں لٹکائے رکھتے ہیں، جوتا وہ چار پانچ سال کے لیے خریدتے ہیں، خراب ہو جائے تو اس کی مرمت کرا لیتے ہیں، زیادہ خراب ہو جائے تومجبوری میں نیا خرید لیتے ہیں اور جب تک وہ بھی مکمل طور پر جواب نہیں دیتا وہ اس کا استعمال بھی جاری رکھتے ہیں۔
یہ 1960کی دہائی میں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور ملک کے بڑے دانشور کا لائف اسٹائل تھا اور وہ ایسے پرنسپل تھے جو صدر ایوب خان کو بھی امتحان کے دنوں میں کیمپس آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، انھوں نے گورنمنٹ کالج کی تین اطراف کی سڑکوں پر ہارن بجانے پر پابندی لگائی اور یہ پابندی 30 سال قائم رہی تھی لیکن آپ اس شخص کی سادگی دیکھیں، اس کے کمرے میں وارڈروب نہیں تھی، اب سوال یہ ہے کیا ڈاکٹر صاحب سادگی کے سلسلے کے واحد مجدد تھے؟
جی نہیں، دنیا کا ہر بڑا انسان اور بڑا معاشرہ ڈاکٹر صاحب کی طرح سادہ ہوتا ہے، کیوں؟ کیوں کہ سادگی ذہانت کا آخری درجہ ہوتا ہے، انسانی ذہانت کے پانچ درجے ہوتے ہیں، پہلے درجے کے انسانوں کوا سمارٹ کہا جاتا ہے، دوسرے درجے میں ذہین لوگ آتے ہیں، یہ (Intelligent) ہوتے ہیں، تیسرے درجے میں بریلینٹ (Brilliant) آتے ہیں، چوتھا لیول جینئس یعنی آئن اسٹائن قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ انسانی ذہانت کا آخری درجہ سادگی ہوتا ہے۔
سادگی ذہانت کی پیک ہوتی ہے، شاید یہی وجہ ہے دنیا کے تمام نبی، اولیاء کرام، سائنس دان اور بین الاقوامی لیڈر سادہ تھے، یہ چھوٹے کمروں میں انتہائی ضرورت کی چیزوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے، بڑے معاشرے بھی سادہ ہوتے ہیں، میں اس سلسلے میں جاپان، چین اور جرمنی کی مثال دوں گا، یہ تینوں دنیا کی بڑی معیشتیں ہیں لیکن ان کے لوگ انتہائی سادہ اور عاجز ہیں، آپ ان سے راستہ بھی پوچھیں گے تو یہ ہاتھ جوڑ کر آپ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے، چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور کم سے کم وسائل میں زندگی گزارتے ہیں، ہمارے شہروں میں آج بھی لنڈے کے کپڑے بکتے ہیں، یہ کپڑے امیر ملکوں کے عوام کے “گفٹ” ہوتے ہیں۔
یورپین لوگ ہر سال اپنے فالتو کپڑے این جی اوز کے حوالے کرتے ہیں اور این جی اوز انھیں تیسری دنیا کے ملکوں میں بھجوا دیتی ہیں، جاپان میں سیکنڈا سٹریٹ کے نام سے اسٹورز کی ایک چین ہے، اس میں سیکنڈ ہینڈ اشیاء بکتی ہیں، آپ کو وہاں جرابوں سے لے کر رولیکس کی گھڑیاں تک مل جاتی ہیں، جاپانی لوگ تھوڑا عرصہ استعمال کے بعد اشیاء کو آدھی قیمت میں بیچ دیتے ہیں اور اسٹورز انھیں دوبارہ فروخت کر دیتے ہیں اور انھیں استعمال کرتے ہوئے کسی کو برا نہیں لگتا۔
آپ کو یہ سادگی دنیا کے بڑے لوگوں میں بھی ملتی ہے، مرار جی ڈیسائی بھارت کے وزیراعظم تھے، ان کے بارے میں مشہور تھا ان کے پاس دو پائجامے اور تین کرتے تھے، یہ برسوں یہ کپڑے پہنتے رہے، جب وہ پھٹ گئے تو ان کی بیگم نے کرتے کاٹ کر رومال بنا دیے اور ڈیسائی صاحب باقی زندگی وہ رومال استعمال کرتے رہے، ایپل کمپنی کے بانی اور مالک سٹیو جابز نے پوری زندگی جینز کی سستی پینٹ اور دس ڈالر کی سیاہ شرٹ پہنی، اس کے کمرے میں فرنیچر بھی نہیں تھا، وہ فرش پر سوتا تھا اور انتہائی تھوڑی اور سستی خوراک کھاتا تھا۔
مرنے کے بعد اس کی وارڈروب سے تین جوتے، دو پینٹس اور پانچ گھسی ہوئیں سلیولیس شرٹس ملیں، بل گیٹس کے کپڑے بھی سادہ اور سستے ہوتے ہیں، آپ اسے تین رنگوں کے سستے سوٹ میں دیکھیں گے اور یہ سوٹس بھی برسوں استعمال ہوتے ہیں، وارن بفٹ آج بھی پرانے گھر میں رہتا ہے، پرانے سوٹس پہنتا ہے اور ساڑھے پانچ ڈالر کا میکڈونلڈ کا برگر کھاتا ہے، دنیا کے اس وقت کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے اپنے تمام گھر (مالیت 134 ملین ڈالر) بیچ دیے ہیں اور اب اس کا کوئی ملکیتی گھر نہیں ہے۔
یہ آفس کے چھوٹے سے کمرے میں رہتا ہے اور اس کا لائف اسٹائل عام مڈل کلاس امریکی سے بھی پست ہے، پاکستان کے اندر بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں، عبدالستار ایدھی صاحب نے پوری زندگی مُردوں کے جوتے اور کپڑے پہنے، ان کی ٹوپی کی مالیت بھی دو روپے ہوتی تھی لیکن اس شخص نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بنا ئی، زندہ لوگوں میں سید بابر علی کمال انسان ہیں، یہ 97 سال کی عمر میں بھی لمز میں ایسے ڈیپارٹمنٹس بنا رہے ہیں جو دس سال بعد مکمل ہوں گے لیکن آپ ان کے کپڑے اور جوتے دیکھ لیں آپ حیران رہ جائیں گے، یہ گاڑی بھی سستی استعمال کرتے ہیں۔
سیٹھ عابد بھی سادگی کی مثال تھے، میں نے انھیں ہمیشہ ایک ہی قسم کی شلوار قمیض میں دیکھا، میں نے ان سے ایک بار وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا جب دو تین شلوار قمیضوں میں گزارہ ہو سکتا ہے تو پھر مجھے اپنی الماری بھرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں ریڈ فائونڈیشن کے بانی محمود صاحب سے بہت متاثر ہوں، اس شخص نے ملک میں چار سو اسکول اور کالج بنائے، اس وقت بھی ان کے اسکولوں میں ڈیڑھ لاکھ طالب علم پڑھ رہے ہیں مگر آپ اس شخص کی سادگی دیکھیں۔
انھوں نے 30سال بعد بھی وہی سویٹر پہنا ہوا تھا جو انھوں نے پہلے اسکول کے افتتاح پر پہنا تھا، ان سے جب وجہ پوچھی گئی تو ان کا جواب تھا سویٹر کا کام سردی روکنا ہوتا ہے اور اگر میرا سویٹر یہ کام کر رہا ہے تو پھر مجھے نیا خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے رقم بھی ضایع ہوگی، اسے محفوظ رکھنے کی کوفت بھی اٹھانی پڑے گی اور کسی ایسے شخص کی حق تلفی بھی ہوگی جس کے پاس سویٹر نہیں ہے، یہ سن کر میرا دل چاہا میں آگے بڑھ کر ان کا سویٹر چوم لوں۔
میں نے ایک بار حساب لگایا، میں سردیوں میں کتنی جیکٹس اور سویٹرز استعمال کرتا ہوں، پتا چلا سردیوں کے صرف تین ماہ ہوتے ہیں اور ان میں بھی شدید سردی صرف 20 دن پڑتی ہے، میں ان میں صرف دو جیکٹس پہنتا ہوں، ایک ہلکی سردی کے دوران اور دوسری شدید سردی میں، اس کے بعد اگلا سوال تھا پھر میرے پاس اتنے سویٹر اور جیکٹس کیوں ہیں؟
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، یقینا میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کی ذہنی افلاس ختم نہیں ہو سکی اور یہ وارڈروبز کو ناک تک بھر کر خود کو رئیس سمجھتے ہیں اور “وارڈروب بھرو” کے اس کھیل میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وارڈروبز والے لوگ بڑے نہیں ہوتے، بڑے وہ ہوتے ہیں جن کے کمروں میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی طرح وارڈ روبز نہیں ہوتیں، یہ جانتے ہیں ضرورتیں محدود ہوتی ہیں لیکن ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔